مصلح اہلسنت سرمایہ اہلسنت حضرت علامہ مولانا سید شاہ تراب الحق قادری رضوی

تقریر مبارک

جا نشین: مصلح اہلسنت سرمایہ اہلسنت حضرت علامہ مولانا سید شاہ تراب الحق قادری رضوی مد ظلہ العالی

امیر جما عت اہلسنت پا کستان کراچی

بسم ا للہ الرحمن الرحیم

مخدوم و محترم حضرت علامہ مولانا قاری محمد مصلح الدین صدیقی قادری رضوی رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت پا کستان میں با لخصو ص کراچی  میں کو ئی ڈھکی چھپی نہیں، علامہ مو صوف ایک ہی وقت میں ایک عارف ربانی، پیر طریقت ، رہبرشریعت، عالم، حافظ، قاری، مدرس،واعظ و دیگر او صاف حمیدہ کے حامل تھے علامہ موصوف ہند وستان کے مشہور معروف محدث حافظ ملت حضرت علامہ مولانا عبد العزیز صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے اولین شا گرد اور صدر الشریعہ بدر الطر یقہ حضرت علامہ مولانا ابو العلی محمد امجد علی صاحب رحمتہ اللہ علیہ مصنف بہار شریعت کے ممتا ز خلفا ء میں سے تھے۔ علامہ  مو صوف نے تقسیم ہند کے بعد کراچی کو اپنا مسکن بنا یا ، ابتدا اخو ند مسجد کھا ر ادر کراچی، کو روحانی مرکز بنا کر تقسیم فیض کا سلسلہ جاری کیا۔ دارالعلوم امجد یہ کا جب سنگ بنیاد رکھا گیا تو بحیثیت مدرس آپ کا تقر ر کیا گیا ، ایک عر صہ درازتک حضرت علامہ نے دارالعلوم امجدیہ میں درس و تدریس کا فر یضہ نہا یت اخلاص سے انجام دیا اور تا وقت وصال یہ سلسلہ جاری رہا۔اس کے ساتھ  ہی ساتھ روحانی تربیت کا بھی سلسلہ تا حیات جاری رہا، بیرون ممالک اور پاکستان میں حضرت کے لا کھو ں  عقیدت مند موجود ہیں، ۷ جمادی الثانی ۱۴۰۳ ھ بمطا بق ۲۳ مارچ۱۹۸۳ ء بعمر ۶۷ سال آپ کا وصال ہوا، میمن مسجد سے  متصل کھو ڑی گا رڈن ( مصلح الدین گارڈن ) میں آپ کی تد فین ہو ئی، آپ کا مزار مبارک مرجع خلا ئق ہے۔

تذکرہ مصلح اہلسنت

مخدوم و محترم حضرت علامہ مولانا بدر القاد ری صاحب قبلہ دامت بر کا تہم العالیہ نے بڑی محنت شاقہ سے حضرت علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ کی سیرت پر ایک پُر مغز مقا لہ تحریر فرمایا ہے جو بلا شبہ نہا یت ہی گر انقد رہے، اللہ تبا رک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت علامہ بدر القادری صاحب قبلہ دامت بر کا تہم العالیہ کی اس علم دوستی اور مضمون نگاری کو شرف قبو لیت بخشے۔آمین

                                                                                                فقیر سید شاہ تراب الحق قادری

مصلح اہلسنت مولانا قاری محمد مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ

منزل حق کا نشان ہیں مصلح الدین قادری                    رہبر پیر و جواں ہیں مصلح الدین قادری

جان و دل سے ہیں  فدا ئے روئے تابانِ نبی                            آبر وئے عاشقاں ہیں مصلح الدین قادری

 خواجہ ہند الولی کے  نام نامی پر  فدا                                      عاشق غوث زماں ہیں  مصلح الدین قادری

قاری قر آں،خطیب بے بدر،روشن ضمیر                             واقفِ سر نہا ں ہیں مصلح الدین قادری

                                                                                                (سکندر لکھنوی)

نام و نسب:

مصلح اہلسنت حضرت مولانا قاری محمد مصلح الدین صدیقی قادری جنہیں گھر اور پڑوس کے بزرگ مر د اور عو رتیں پیار سے، محبوب  جانی، کہا کرتی تھیں، صبح صادق ، بروز پیر ۱۱ ربیع الاول سن ۱۳۳۶ ھ بمطابق ۲۷ دسمبر ٍ۱۹۱۷ ء قند ھار شریف ضلع نا ند یڑ، ریاست حیدر آباد دکن میں  پیدا ہو ئے، والد ماجد کانام نامی غلام جیلانی تھا، جنہو ں نے گھریلو تعلیم کے علاوہ حکومت دکن کے تحت امامت کا امتحان پاس کیاتھا، نہایت دیندار صوفی با صفا خطیب عالم تھے، اپنے وطن کے اندر قلعہ کی مسجد اور دیگر مساجد میں ۵۵ سال تک امامت و خطابت کے فر ائض بحسن و خوبی انجام دیتے رہے پا کستان پہنچ کر ۲۵ ، ربیع الاول ۱۳۷۵ ھ بمطابق ۱۱ نومبر ۱۹۵۵ ء کو جمعہ کے دن بعد نماز مغرب سات بج کر پچیس منٹ ((7.25پر کراچی میں انتقا ل فرمایا اور میوہ شاہ قبرستان میں مد فون ہو ئے، علم و ادب کے قدر داں اور علما ء وسلف کے جوہر شناس تھے، حافظ ملت علیہ الرحمہ سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔

مصلح اہلسنت کے آباء واجداد شر فاء دکن میں سے تھے اور پشت ہا ئے پشت سے خدمت دین اور فروغ اسلام کے فرائض سر انجام دیتے آرہے تھے، شاہان سلف نے انہیں جاگیر یں دے رکھی تھیں اس لیے ’’انعا مدار‘‘ کہلا تے تھے۔ جا گیر یں ان کے معاش کا ذریعہ تھیں خاندانی شجرہ اس طرح ہے۔ حضرت قاری محمد مصلح الدین بن غلام جیلانی بن محمد نور الدین بن شاہ محمد حسین بن شاہ غلام جیلانی عرف شبر استاد (آپ فضلیت جنگ بہا در مولانا انوار اللہ خان کے استا د عربی ہیں) بن شاہ غلام محی الدین بن شاہ محمد یوسف بن شاہ محمد بن شاہ محمد یو سف۔

صدر الشر یعہ کا فیضان علمی وروحانی:

مصلح اہلسنت کے مقدر میں اسلام اور سنّیت کی عظیم خدمات لکھی تھیں، اسی لحاظ سے رب تعالیٰ نےا ن کی تعلیم و تر بیت کے وسا ئل پیدا فرمائے، یہ حقیقت اظہر  من الشمس ہے کہ بر صغیر ہندو پاک میں چو دھو یں صدی ہجری کے آخری ۷۵ سالہ دور میں خلفا ئے امام احمد رضا بریلوی بالخصوص صدر الشر یعہ علامہ امجد علی اعظمی اور ان کے تلا مذہ نے اسلاف کرام کے طریقہ پر تعلیم و تر بیت سے بہرہ ور کرنے میں مثالی کا رنامے انجام دیئے ہیں۔

حضور صدر الشر یعہ علیہ الرحمہ کے ان مایہ ناز تلامذہ میں سر زمین پا کستان کو محدث اعظم پا کستان مولانا ابو الفضل محمد سر دار احمد قادری چشتی لا ئل پوری  سے اور سر زمین ہند کو محدث مبارک پو ر مولانا ابو الفیض عبد العزیز مراد آبادی سے بہرہ مند ہو نے کا خوب موقع ملا۔ حضور صدر الشر یعہ مولانا محمد امجد  علی اعظمی قدس سرہ گھو سی سابق ضلع اعظم گڑھ اور حالیہ ضلع مئو، یوپی ہند کے ایک علمی گھرانے میں سن ۱۲۹۶ ھ۱۸۹۸ ء میں پیدا ہو ئے، ابتدائی کتب جدا مجد اور بر ادر بزرگ مولانا صدیق سے پڑھ کر مدرسہ حنفیہ جو نپور میں استا دا لا ساتذہ ہد ایت اللہ رامپوری (سن ۱۳۲۶ ھ۱۹۰۸ ء ) کی خدمت میں تکمیل علم کیا اس کے بعد حجتہ العصر مولانا وصی احمد محدث سورتی قدس سرہ (متو فی ۱۳۳۴ ھ ۱۹۱۶ ء ) سے درس حدیث لیا۔ آپ نے علم طب بھی سیکھا، دور طالب علمی ہی میں آپ کا علمی شہرہ ہو چکا تھا۔ کچھ سال محدث سورتی کے مدرسہ میں درس دیا، ایک سال پٹنہ میں مطب ( علاج و معالجہ ) کیا مگر محدث سورتی کے اصر ار پر امام احمد رضا کی درس گاہ میں صدر المدرسین کی حیثیت سے آگئے۔ او ر عشق ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم منا دی کی صحبت سے اس طرح وابستہ ہو ئے کہ خود بھی عالم اسلام کے لیے مینار ۂ نور بن گئے۔ امام احمد رضا قدس سرہ سے سلسلہ قادریہ میں بیعت کرکے ان کی  خلافت سے بہرہ ور ہو ئے۔ بریلی شریف، اجمیر مقدس، دادوں وغیرہ کی درس گاہوں کے ذریعہ خدمت تدریس انجام دیتے رہے اور اپنے عصر کے ما ہرین علوم و فنون سے خراج تحسین وصول کیا، علی گڑھ مسلم یو نیو رسٹی کی نصاب کمیٹی کے رکن رہے، علم فقہ اور  فتا وی ٰ میں آپ کو خصوصی دستر س تھی جس کا امام احمد رضا قادری قدس سرہ کو بھی اعتراف تھا، اس لیے انہوں نے حضرت صدر الشر یعہ اور مفتی اعظم ہند علیہما الر حمہ کو ہند و ستان بھر کے لیے قاضی شر ح فرمایا تھا، بہار شریعت ۱۷ جلد یں، فتا ویٰ امجدیہ دو جلد یں اور حاشیہ شرح معانی الاثار صدر الشر یعہ علیہ الرحمہ کے قلمی شا ہکار اور علوم ظاہر و باطن سے آراستہ تلا مذہ کا لشکر عظیم اور فر زند ان گرامی ان کی علمی یادگار ہیں، سفر حج کے دوران ۲ ،ذی قعدہ (۱۳۶۸ھ )۱۹۴۸ ء) کو وصال فرماکر گھوسی میں مد فون ہیں۔

جنہیں سیراب کرنے بد لیا ں رحمت کی آتی ہیں :

(حافظ ملت علیہ الر حمہ دار العلوم معینیہ عثمانیہ کے دور میں صدر الشر یعہ سے حصول علم فرما رہے تھے، اسی دور کی بات ہے)قند ھار شریف ریاست حیدر آباد کے ایک بزرگ مولانا سید شاہ اسما عیل صاحب خا ندانی مرشد تھے اس علا قے میں ان کے اہل ارادت کی خاصی تعداد موجود تھی سید صاحب ہر سال عرس خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے مو قع پر، پا بندی سے اجمیر مقدس حاضری دیتے تھے، حضرت صدر الشر یعہ علیہ الرحمہ سے بھی پیر صاحب کے گہرے مراسم تھے، انہو ں نے حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمہ سے درخواست کی  کہ رمضان المبارک کے مو قع پر قند ھار شریف کے تعلقہ شہر میں کسی اچھے حافظ قر آن کو  روانہ فرمائیں، چنا نچہ حضرت صدر الشر یعہ علیہ الرحمہ نے اپنے شا گرد رشید، حافظ ملت، کو قند ھا رروانہ فرمایا۔ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے قند ھار پہنچ کر صرف قرآن مجید نہیں سنایا بلکہ نہ جانے کتنے قلوب کی محرابوں کو بید اریٔ فکر کی دولت عطا کردی۔قند ھار شریف، تراویح میں قرآن شریف سنانے کے بہانے حافظ ملت کی تشریف آوری کا سلسلہ پا نچ سال یا اس سے زیادہ قا ئم رہا اور اگر ہم یہ کہیں کہ حافظ سال میں ایک ماہ ایک ایسے روحانی پودے کی پرداشت و پر داخت ( پر ورش) کےلیے صرف کیا کرتے تھے جسے آگے چل کر، مصلح الدین، اور مصلح ملت، بننا تھا تو غلط نہ ہو گا، اس کمسن بچے کے ضمیر میں قرآن عظیم کے نور کے ساتھ ساتھ اخلاق قر آنی حلا وتیں (مٹھاس ) کس طرح اتر یں اسے خود قاری صاحب کی زبان سے سنیے۔

ہمارے خاندان میں ایک  مولانا علیم الدین صاحب تھے، ان کو میں قرآن کریم سنایا کرتا تھا ، تو انہوں نے کہا کہ میں باہر جارہا ہو ں لہذا آپ ان ( حافظ ملت ) کو قر آن کریم سنا یئے، میں ان کو قرآن کریم سنا نے گیا تو انہوں نے بڑی شفقت کا اظہار کیا، اور بڑی اچھی اچھی با تیں کیں، میں نے گھر آکر اپنی والدہ کو بتایا، اور والدہ نے والد سے کہا، آپ جا یئے ایسے بزرگ اور شفیق آئے ہیں، ان سے ملا قات کریں، والد صاحب آئے اور ان سے بہت متا ثر ہو ئے، اور کہا اپنی آخرت کی درستگی کے لیے میں نے اپنے بچے کو حفظ قرآن کی طرف لگایا ہوا ہے، آپ ( حافظ ملت علیہ الرحمہ ) نے مشو رہ دیا، بچے کی تعلیم کے لیے دو چیزیں بہت ضروری ہیں  یا تو اس شخص سے پڑھایا جا ئے جو خود پڑھانا چا ہے یا وہ شخص پڑھا سکتا ہے جس کو درد ہو ، اور باپ سے زیادہ غرض بھی  کسی کو نہیں ہو سکتی اور باپ سے زیادہ درد بھی کسی کو نہیں ہوتا، بہتر یہی ہے کہ آپ خود پڑھا ئیں۔

اندازہ ہو تا ہے کہ قاری مصلح الدین صاحب علیہ الرحمہ کی عمر اس وقت آٹھ یا نو سال رہی ہوگی، اس وقت حضور حافظ ملت بھی جا معہ معینیہ شریف میں مصروف درس تھے،اس پہلی ملا قات نے قاری مصلح الدین صاحب اور ان کے والدین کریمین کے دل میں حافظ ملت علیہ الر حمہ کی شفقت و مر وت اور اخلا ص و محبت کے نہ مٹنے والے وہ نقو ش قا ئم کیے جو تاریخ کا ایک عظیم الشان دور بن کر ابھرے، وہ اس طرح کہ اس کمسن بچے کے تحفیظ قر آن کا سلسلہ ملت کی ہدایت کے مطابق خود اس کے والد کے ذریعہ شر وع کرادیاگیا، اور پا نچ سال کے عر صے میں وہ بچہ حافظ قر آن بن گیا ااور کس طر ح وہ قاری صاحب خود فرماتے ہیں۔

سال  بھر میں پا نچ پارہ نا ظرہ، استا د صاحب پڑھادیا کرتے تھے، اور والد صاحب مجھے وہ پا نچ پا رے یا د کرادیا کرتے تھے ، اور اگلے رمضان میں استا د مکرم ( حافظ ملت ) وہا ں سے آتے تھے وہ سن بھی لیا کرتے تھے اور اس میں جو غلطیاں ہو تی تھیں وہ درست بھی کرادیا کرتے تھے( پہلے سال میں پا نچ پارے اور اگلے چار سال میں پچیس پا رے ) اس طرح پانچ سال میں حفظ کرلیا۔

اس طرح ننھا مصلح الدین چودہ سال یا اس بھی کم  عمر ہی میں حافظ قرآن بن گیا اور حافظ ملت نے اس کے سر پر دستار باند ھی تکمیل حفظ کے بعد حضرت قاری صاحب پر ائمری اسکول میں داخل کردیے گئے آپ اپنے والدین کے اکلو تے چشم و چر اغ تھے، اس لیے وہ لوگ انہیں آنکھو ں سے اوجھل نہیں کرنا چا ہتے تھے مگر حافظ ملت جیسے روحا نی اور عر فانی با غبان نے قاری صاحب کے باطن میں علوم دینیہ اور عرفان و حق شنا سی کے جو بیج  بو ئے تھے اسے پروان تو چڑھنا تھا، اسکول کی تعلیم بھی قاری صاحب نے نہایت سر عت ( تیزی ) سے حاصل کی اور اپنی ذہا نت سے دو دو در جات ایک سال میں طے کیے یہاں تک کہ جما عت ہفتم میں جا پہنچے، حضور حافظ ملت علیہ الر حمہ کی سر پرستی اور ہد ایت کے زیر سایہ قاری صاحب نے جب تکمیل حفظ کلام اللہ کرکے درجہ ہفتم تک سیکنڈری تعلیم  بھی پالی اور اس وقت تک آپ سن شعور کی دہلیز تک پہنچ گئے تھے انہو ں نے قاری صاحب کوان کے والدین سے اپنی روحانی اور علمی فر زندی میں پروان چڑ ھا نے کے لیے مانگ لیا، اس واقعہ کو قاری صاحب کی زبان ہی سے ملا حظہ فرما یئے۔

استاد مکرم کا مسلسل اصر ار رہا کہ جس طرح آپ نے اپنے لڑ کے کو حافظ قر آن بنایا ہے اسی طرح اسے عالم دین بھی بنا یئے، چو نکہ  میں اپنے ماں باپ کو اکلو تا تھا، اس لیے با ہر بھیجنے کے لیے والدہ ماجدہ راضی نہ تھیں، البتہ والد صاحب کچھ راضی تھے ، بہر حا ل قسمت میں لکھا تھا، یہ دونوں حضرات راضی ہو گئے اور میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مبارک پورا عظم گڑھ روانہ ہوا، اس وقت استاد مکرم حا فظ ملت مولانا عبد العزیز مبارک پوری ( علیہ الرحمہ ) فارغ التحصیل ہوکر مبارک پور میں صدر المد رسین کے عہد ے پر فا ئز تھے، اور میں نے وہاں جاکر تعلیم حاصل کی اور اس تعلیم کا سلسلہ تقر یبا آٹھ سال تک رہا۔

مر بی و محسن:

حضرت مصلح اہلسنت کے لیے حضور حا فظ کی ذات محض ایک استا دہی کی نہیں تھی بلکہ وہ ان کے مشفق مربی ( سر پر ست ) اور مرشد او لین بھی تھے اور سچ پو چھیے تو  وہ ان کے لیے  سب کچھ تھے، خود فر ماتے ہیں:

حا فظ ملت حضرت مو لانا عبد العزیز صاحب محدث مر حوم کی غلامی میں تقر یبا آٹھ سال تک  رہا، ان  سے میں زیادہ متا ثر ہوا، اس وجہ سے کہ وہ شفیق بھی تھے اور ہمارے لیے سب کچھ تھے، ایک شفیق باپ سے زیادہ شفقت فرماتے تھے، اور انہو ں نے مجھے انگر یزی تعلیم کی طرف ما ئل کیا تھا ان کا خصوصی بر تا ؤ میرے سا تھ ہوتا تھا، بلکہ مجھے فخر ہے کہ انہوں نے بعض مو قعو ں پر یہ بھی فرمایا تھا کہ، مصلح الدین تو میرا بیٹا ہے۔

مبا رک پور کے مبارک شب و روز:

مصلح اہلسنت اپنے دور کے دار العلوم اشر فیہ کے اور طلبہ کی تعلیمی اور تحریکی سر گر میو ں پر روشنی ڈالتے ہیں انجمن اہل سنت اشر فی داراالمطا لعہ کی تا سیس کے سلسلہ میں فر ما تے ہیں۔

وہاں ( مبارک پو ر میں ) ہم لوگوں نے طلبہ کی ایک تنظیم قا ئم کی جس میں ہم لوگ پیش پیش تھے، اس میں مفتی ظفر علی صاحب بھی تھے، اور عبد الستار ہمارے سا تھیو ں میں سے تھے، تو اس تنظیم کے تحت ایک لا ئبریری اور دار المطالعہ قا ئم کیا جس میں ہم نے بہت سی کتا بیں جمع کیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے اس کے بعد ہم نے میلا د النبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے جلوس کا سلسلہ بھی قا ئم کیا، اور وہ الحمد اللہ بڑا کا میا ب گیا، ہز اروں کی تعداد  میں لوگ ہمارے ساتھ ہوتے تھے، یہ سب طلبہ کے زیر اہتمام تھا۔

حضور ملت کا تعلیمی نظام اور طلبہ نوازی کے بارے میں مصلح اہلسنت فرماتے ہیں۔

حضور حافظ ملت کی تھو ڑی سی خدمت کرنے کے لیے ہم بیٹھ جاتے تو اس میں بھی ( علمی ) سوالات کرتے تھے ، وہ ( حافظ ملت علیہ الر حمہ) یہ دیکھتے تھے کہ ایک طالب علم ہماری خدمت کررہا ہے تو اس کو محروم کیو ں کیا جا ئے، تو وہ دوران خدمت ہی کچھ سوالات اسباق کے متعلق کردیا کرتے تھے کہ جس کو ہم نہیں سمجھتے تھے وہ ہم کو سمجھایا کرتے تھے۔

حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ عصر کی نماز کے بعد تفر یح کے وقفہ کو بھی اپنے طلبہ کی تعلیم و تر بیت ہی میں خرچ کرتے تھے۔

 مبارک پور میں جب تک رہے سوا ئے تعلیم کے اور کو ئی کا م نہیں تھا، البتہ شام کے وقت عصر کی نماز کے بعد اکثر یہ ہوتا کہ حافظ ملت تفر یح کے لیے نکل جاتے، دوڈھائی میل ، تو ان کے ساتھ پیچھے پیچھے ہم بھی چلے جاتے تھے، راستے  میں سوالات کی بو چھاڑ  کر دیا کرتے تھے، اور جو کتاب پڑھتے تھے، تواس میں سے بعض چیزیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں، تو ان کے سوالات بھی کرتے تھے، حضرت تفر یح کے لیے جاتے تھے، اور سوالات کے جوابات بھی دیتے جاتے تھے۔

طلبہ اور تبلیغی تمر ین :

حافظ ملت علیہ الر حمہ طلبہ کو دور طالب علمی ہی میں تبلیغ وار شاد کی تمر ین پر بھی زور دیتے تھے،اس طرح گر دو نواح ( آس پاس )کے علا قوں میں دین کی اشا عت کا کام بھی ہوتا تھا، مصلح اہل سنت فرماتے ہیں، اکثر تو ایسا ہو تا کہ حافظ ملت جمعرات کو ہمیں کسی نہ کسی گا ؤں میں تبلیغ کے لیے بھیج دیا کرتے تھے، چنا نچہ جمعہ بھی ہم پڑ ھا تے ،تقر یر وغیرہ کرکے شام کو آجا یا کرتے تھے۔

حا فظ ملت کے منظو ر نظر:

حافظ ملت کی شخصیت تو ایک امنڈ کر بر سنے والے ابر رحمت کی طرح تھی جو ہر ایک طالب کو نہال کرتی تھی۔ مگر زمین سنبل کا  پودا اگا نے کے لیے نہیں بنا ئی گئی۔ بلکہ

 صلا حیت بھی تو پیدا کر اے دل نا داں                                 پڑا ہے نقش کف پا ئے یا ر پتھر پر

حافظ ملت کی درسگاہ میں ایسے طلبہ چند ہی داخل ہو ئے  جنہو ں نے خود استاد محترم کا دل جیت لیا اور ان کی  خصوصی نگاہ کرم کے حقدار قرار پا ئے۔ مصلح اہلسنت ان ہی طلبہ میں سے ایک تھے، حافظ ملت علیہ الر حمہ ان ( مصلح الدین) کے حق میں  فرماتے ۔

 کسی کو نیک اور شریف طالب علم دیکھنا ہو تو مصلح الدین کو دیکھے۔

مصلح اہلسنت کے اساتذہ میں جن بزرگ علماء کے اسما ئے گرامی آتے ہیں وہ یہ ہیں:۔

۱)حجۃ الا سلام مولانا حامد رضا خاں علیہ الرحمہ                ۲)حافظ ملت مولانا شاہ عبد العزیز مبارک پوری علیہ الرحمہ

۳) حضرت مولانا سلیمان صاحب بھا گل پوری علیہ الرحمہ     ۴)حافظ مولانا محمد ثنا ء اللہ صاحب محدث منوی علیہ الرحمہ

انتہا ئی با ادب اور محنتی:

حضرت مولانا مفتی ظفر علی نعمانی سر براہ دار العلوم امجد  یہ، کراچی جو مصلح اہلسنت کے دور طالب علمی کے مخلص ساتھی اور گہرے دوست ہیں اور بعد میں انہیں پا کستان بلوانے کی تحریک بھی ان ہی کی رہی، مصلح اہلسنت کے ابتد ائی دور کے معمو لا ت و عا دات اور حالات پر روشنی ڈالتے ہو ئے فر ما تے ہیں۔

قاری صاحب انتہا ئی با ادب ثابت ہو ئے تھے، اسا تذہ تو کیا، دارالعلوم کے دیگر مد رسین جن کے پاس قاری صاحب کے اسباق بھی نہیں تھے، اس کے با وجود قاری صاحب انتہا ئی عقیدت ادب اور احترام کے ساتھ ملا کر تے تھے اور ان کی تعظیم  میں بھی کبھی غفلت کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔

قاری صاحب طا لب علمو ں کے سا تھ کھیل کو د میں زیادہ مشغول نہیں ہوتے تھے ،بلکہ وہ زیادہ تر تنہا ئی اختیار فرماتے تھے، اور آپ کی یہ عادت کم عمر ی ہی سے تھی، گو شہ تنہا ئی میں زیادہ تر قر آن کریم کی تلاوت فرمایا کرتے تھے، یا  مطالعہ فرمایا کرتے تھے۔

 ( قاری صاحب سے ) میری ملاقات غالبا ً(۱۹۳۵ء)میں ہوئی اس وقت قاری صاحب کی اور میری عمر کو ئی ۱۷ ،۱۸ برس ہو گی، دارالعلوم اشر فیہ  میں عصر اور مغرب کا وقت ایسا ہوتا تھا جس میں طالب علم ورزش کا مظا ہرہ کرتے تھے اور کھیل کے میدان میں ہم لوگ جایا کرتے تھے ، لیکن قبلہ قاری صاحب بہت ہی کم اور کبھی کبھی تشریف لایا کرتے تھے، آپ دلچسپی اس زمانے کا معروف فن بنو ٹ ( لا ٹھی کو دونو ں ہاتھو ں میں پکڑ کر چاروں طرف گھمانے کا فن ) کا شغف تھا  اور  اس فن کے ساتھ ساتھ آپ کی جسمانی ورزش بھی ہو جایا کرتی تھی، اور اس فن پر حضرت قاری صاحب کافی دستر س اور عبور رکھتے تھے۔

نا گپور میں امامت و خطابت کے زمانے میں قاری صاحب کو حضرت صد ر الشر یعہ علیہ الرحمہ کی خدمت میں زیادہ حاضری اور خصوصی توجہ حاصل کرنے کا مو قع ملا، حضرت ان پر خاص کرم، توجہ، محبت اور شفقت فرماتے تھے۔

عظمت حافظ ملت کو سلام:

مبا رک پور  میں دور طالب  علمی بسر کر نے  والا شخص عالم  و فا ضل بن کر دنیا کے کسی گو شے میں  کیوں  نہ چلاجا ئے،اشرفیہ اور مبا رک پو ر کی مٹی میں رب کائنات نے  حافظ ملت  کے فیض   سے جو کشش اور پیا را تا را ہے،اسے کبھی فراموش نہیں  کیا جا سکتا،اشر فیہ سے علم وفن

پا نے والا،حافظ ملت کا  والا وشید ا ہو جاتا ہے، اس لیے کہ خود حافظ ملت اپنے طلبہ کو ایک مخلص باپ کی طرح پیار فر ماتے تھے۔

حضرت مصلح اہل سنت بھی انہی وابستگان اشر فیہ میں سے تھے۔

مدینہ  طیبہ کی سر زمین پر میری (علا مہ بدر القا دری کی ) ان (قاری صا حب ) سے جو پہلی  اور آخری ملاقات ہو ئی اس میں ان کے با طن میں چھپا ہو ا حضور حافظ ملت اشر فیہ اور مبارک پور سے تعلق چھپ نہ سکا،بلکہ انہو ں نے محض اسی تعلق کی بنیاد پر راقم سطور پر بے حد کرم فرمایا۔

دستار بند ی:

مصلح اہلسنت نے اپنی پو ری تعلیم مبا رک پور میں مکمل کی ۔اور حافظ ملت کچھ روز کے لیے مبارک پور چھو ڑ کر نا گپور تشریف لے گئے

تو وہا ں  دورہ حدیث پڑھ کر دستا ر فضلیت حاصل کی اور انٹر و یو میں کہا کہ ،

اور یہیں  سے فر اغت حاصل  کی البتہ دستا ر بندی اس وقت وہاں  نہ ہو سکی،اس لیے کہ ۱۹۴۲ء   میں  گا ند ھی کا ستیہ گرہ (گا ند ھی کی چلا ئی ہو ئی ایک تحریک کا نام )شروع ہو ا تھا۔

جس کی وجہ سے مدارس بھی بند  ر ہے، ٹر ینیں  بھی الٹ دی گئیں،لا ئنیں بھی اکھا ڑی گئیں،آمد و رفت بہت دشوار ہو چکی تھی

اتفاق سے میں  اس سے کچھ پہلے ہی اپنے گھر چلا گیاتھا،تقر یباً کئی مہینے یہ سلسلہ جاری رہا،والد محترم نے  ہمیں پھر دوبارہ جانے نہیں دیا

اور کہا تم یہا ں  رہو،اسی  عر صہ میں  میری شادی ہو ئی،اور  شادی کے بعد  پھر معا ش کی فکر لگی،اتفاق سے استاد محترم

(حافظ ملت علیہ الر حمہ ) مبارک پو ر سے چند و جو ہا ت کی بنا ءپر نا گپو ر تشریف لے آئے۔

وہا ں دورہ حدیث جاری ہو چکا تھا، استاد مکرم نے خط لکھا کہ۔

تمہارے جتنے سا تھی ہیں  سب واپس آچکے ہیں  اور کچھ  آنے والے ہیں بہتر یہی ہے کہ تم  بھی یہاں  آکر دورہ حدیث کی تکمیل کرو اور اس کے بعد جہا ں  بھی تمہا رے روزگار کا ارادہ ہو وہاں  جا سکتے ہو،چنا چہ میں ناگپور آیا،وہا ں  تین چار مہینے درس حدیث کی تکمیلکی اور اس کے بعد دستا ر فضلیت کا جلسہ ؁۱۹۴۳ء  میں ہوا۔

والد کا انتقال اور ناگپور میں تقرری:

حضرت مصلح اہلسنت نا گپو ر سے دستار بندی کے بعد ابھی اپنے وطن نہیں  گئے  تھے بلکہ حضور حافظ ملت علیہ الر حمہ اور دیگر اسا تذہ کرام کی خدمت ہی میں  تھے کہ انہیں  ان کی والدہ کی علالت (بیماری ) کا ٹیلی گرام ملا کہ والدہ ماجدہ عرصہ سے علیل رہتی ہیں ،قاری صا حب وہاں  سے روانہ ہو ئے اور قاری صا حب کے و طن پہنچنے کے ایک ماہ کے بعد ہی ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا، حضرت قاری صا حب مبارک پور سے ؁۱۹۴۲ءمیں  آنے کے بعد ہی چو نکہ ازدواجی بند ھن سے منسلک ہو چکے تھے اور گھر میں ایک بیٹی بھی تو لد ہو چکی تھی اس لیے انہیں  ذریعہ معا ش کی فکر لا حق ہو ئی ، ضعیف باپ اور اہل و عیال کے خیال سے انہو ں  نے حیدر آبادہی  کے اندر کو ئیملازمت تلاش کی مگر جس  ماحول میں ان  کی ذہنی و فکری اور علمی نشونما ہو ئی تھی اس  کے لحا ظ سے دکن کا ماحول مختلف تھا۔

خود حضور  حافظ ملت علیہ الر حمہ بھی قا ری صا حب کو  بے حد پیار کر تے تھے اس  لحاظ سے ان کی یہ بھی خو اہش تھی کہ وہ حضرت سے قریب  ہی کہیں  رہ کر علمی مشا غل کو جاری رکھیں چنا نچہ ان کی  خو اہش کے مطا بق قد رتی طور پر نا گپور ہی  میں قا ری صا حب کے لیے ایک جگہ نکل آئی،اس طرح وہ پھر اپنے محسن و مر بی حضور حافظ ملت علیہ الر حمہ کے قریب پہنچ گئے ،خود فرماتے ہیں ۔

بہر حال ہم کوشش میں تھےکہ  حیدر آباد دکن میں کہیں کو ئی نہ کو ئی سر وس مل جا ئے لیکن اسی اثناء (دوران )میں  نا گپو ر میںجا مع مسجد کی امامت و خطا بت کی جگہ خالی تھی،تو مفتی عبدالرشید خان صا حب جو وہا ں ادارے کے بانی تھےتو انہو ں  نے حافظ ملت سے کہا،ان کو یہا ں بلا  لیجئے ،وہ یہا ں  کے لیے مو زو ں ہو ں  گے،استاد مکرم نے حیدر آباد دکن خط لکھا کہ  آپ  جو کچھ بھی وہاں  کو شش کر رہے ہیں  ،بہر حال کو شش کرتے رہیں،البتہ یہاں  ایک جگہ خالی ہے اور ہمارا خیال ہے کہ آپ  یہا ں  آئیں گے  تو  آپ ہمارے  قریب بھی رہیں گے، چناچہ والد صا حب سے اجازت لے کر میں نا گپور گیا ،وہا ں  جانے کے بعد میں نے ایک  جمعہ وہا ں  پڑ ھایا ،تو انہو ں  نے کہا یہ  ٹھیک ہیں ہمارے لیے خو شی کی بات ہے کہ یہ یہا ں  امامت و خطا بت کرتے ہیں ۔چنانچہ میں وہا ں  امام مقرر ہو ا اور وہا ں  پا نچ سال تک خطیب  رہا۔

حافظ ملت پھر اپنے مبارک پور میں:

رب کا ئنات نے حافظ ملت  کو مبارک پو ر کے لیے اور مبارک پو ر  کو  حافظ ملت کے لیے بنایا تھا،اور اسی سر زمین کے ذریعہ ان کی علمی اور عملی انقلا بی زندگی کی تا ریخ  وابستہ کی تھی،اس لیے اہل مبارک پور حافظ ملت کے بغیر زیادہ دنوں  نہ رہ سکے،اور انہیں  ناگپور سے دوبارہ مبارک پور لا ئے،وہاں سے حافظ ملت کی واپسی کے بعد بھی مصلح اہل  سنت ناگپور میں اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری کرتے رہے۔

نا گپور میں مصلح اہل سنت کی مصر و فیت:

ناگپو ر کی جا مع مسجد کی امامت و خطا بت شروع کی ،اسی دوران انجمن اسلامیہ ہا ئی اسکول ناگپور میں نو یں اور دسو یں  کلاسکے طلبہ کو عربی ادب کا بھی درس دیتے تھے،ناگپور میں آپ پانچ سال تک رہے،آخری سالوں  میں ہائی اسکول کیملازمت ترک کرکے جامعہعربیہ ناگپور میں  خدمت تدریس انجام دینے لگے تھے۔

نا گپور سے دکن واپسی:

حضرت قاری صا حب کا ناگپور کا آخری پانچواں  سال تھا کہ ہندو پاک کی تقسیم عمل میں آئی،قاری صا حب ناگپور سے اپنے وطن اپنے والد ماجد کی علالت کا ٹیلی گرام پاکر تشریف لے گئے تھے،کہ ہند وستان بھر میں لوٹ مار۔غا رتگری اور ہندوستان سے  پا کستان مہا جرین کی رجلت کا سلسلہ شروع ہو ا، اور بد امنی کا آغاز ہوا، قاری صا حب کے والد ماجد  نے ایسی صو رت میں  اپنے لخت جگر کو دکن سے با ہر قدم رکھنے سے منع فر ما دیا ،اپنے بز رگ باپ  کے حکم کی فر ماں برداری میں حضرت قا ری صا حب نے دکن کے اندر ہی اپنے  لیے کو ئیمنا سب مشغلہ تلا ش کر نا شر وع کیا،نا گپو ر میں  مسلم ایجو کیشن  کا   نفر س  کے مو قع پر جناب نواب بہا در یار جنگ اور دکن ہی کے  ایکمخلص سید تقی الدین،قا ری صا حب سے متعا رف تھے اور ان  کے  پیچھے نماز ادا کر چکے تھے،اور ان لو گوں نے قا ری صاحبسے یہ بھی کہا تھا کہ دکن تشریف لا ئیں تو ملا قات فر ما ئیں۔

میلاد کا عظیم الشان طر یقہ:

سید صا حب سے قاری صا حب نے دکن میں ملا قات کی تو وہ بہت خو ش ہو ئے اور اپنے یہا ں   میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسے میں شر کت کی دعو ت دی اس جلسہ  میلاد میں کئی سالو ں  سے جناب منا ظر احسن گیلانی عثما نیہ یو نیو رسٹی کے صد ر شعبہ د ینیا ت تقر یر کیاکرتے تھے اور سکندر آباد کی   مسجد میں خطا بت بھی کر تے تھے، سید تقی الدین صا حب کے گھر جس طر ح میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلمہو تا تھا،اس کے  با رے میں قاری صا حب نے جو  کچھ تفصیل بیا ن کی  ہے وہ یہ ہے کہ۔

میلاد النبی صلی  اللہ علیہ وسلم کی ایسی تقر یب میں  نے کبھی نہیں  دیکھی، فجر کے بعد ہی  مرد اور عو رتیں چھو ٹے بڑے سب ہی تلا وت میں  مشغول ہو تے یہ سلسلہ گیا رہ بجے تک رہتا ،بعد نماز ظہر سب مل کر سو ا لا کھ مر تبہ درود شریف کا ختم پڑ ھتے،نماز عصر کے بعدمہما نو ں کی آمد ہو تی حکو مت دکن کے تمام حکو متی عہدے دار وہا ں  آتے حتٰی کہ قا سم ر ضو ی ،نواب منظور یار جنگ وغیرہ بھی آتےپھر جلسہ شروع،پہلے تلا وت قر آن مجید پھر حیدر آباد دکن کے  کچھ لو گوں کی ایک جما عت ،قصیدہ بر دہ شر یف، پڑھتی،اس  کے بعد تقر یر ہو تی، اس بار قا ری صا حب کی  تقر یر ہو ئی۔

جا مع سکندر آباد کی خطا بت:

اتحاد المسلمین کے عروج کا دور تھا،سید تقی الدین صا حب  اور صدر یار جنگ کے تو سط سے قا ری صا حبسکندر آباد مسجد ، کے خطیب مقرر ہو گئے،شہر سکندر آباد کی ا س جا مع مسجد کے چا روں  طرف ،آریہ سما جیمتعصب غیر مسلم ( ہند و ٔں  کا ا سلام دشمن فر قہ ) کثرت سے  آباد تھے،اور مسلمان اقلیت میں تھےاس لیے وہا ں  اکثر ہند و مسلم فسا دات ہو ا کرتے تھے،اس جا مع مسجد کی بنیاد حضرت علا مہ قا ری عثما ن علی شاہ قا درینے رکھی تھی اور مد تو ں ا نہی کے خا نوادہ کے علما ء وہا ں  اما مت کرتے آر ہےتھے،تقسیم ہندو پاک کے زما نے میں دکنکے سیا سی افق پر بھی نما یا  ں تبد یلیا ں رو نما ہو ئیں اور نو اب بہا در یا ر جنگ نے وہا ں  کے مسلما نو ں   کو  متحرک کرنےکے لیے مجلس اتحاد المسلمین کی  بنیاد رکھی تھی،اس وقت ،مجلس اتحاد المسلمین ،پو رے ہند و ستان میں مسلما نو ں کینمایا ں  تنظیم تھی،قا ری صا حب نے اس پر آشو ب دور میں اپنی مجا ہدانہ تقا ریر کا سلسلہ شروع کیا، مہا جر مسلما نو ںکے لٹے پٹے قا فلے حیدر آباد میں آکر پناہ لے رہے تھے،حیدر آباددکن ایک آزاد مسلم ریا ست تھی اس لحاظ سےمسلما ن اسے اپنی ایک پناہ گاہ خیال کرتے تھے،قا ری صا حب فرما تے ہیں ۔

اتحاد المسلمین نے جو اپنا محاذ بنا یا تھا،اس کے لحاظ سے خطبا ء بھی مقررین بھی ،سیا سی مو ضو ع پر بو لنے لگے تھےچو نکہ جوش تھا اور  میں  خود بھی بڑی پر جو ش تقر یر کر تا تھا،اور جمعہ کے خطبو ں  میں وزیر عبد الحمید  خان بھیآیا کرتے تھے،اور اطراف میں بڑی بڑی چھا  ؤنیاں تھیں وہا ں  کے بڑے بڑے عہد یداران و افسران بھی آیاکر تے تھے،تو  میں  نے وہا ں  ڈیڑھ سال تک خطا بت بھی کی اور وہاں حیدر آباد میں پڑ ھا تا بھی ر ہاپھر وہا ں حیدر  آباد کے خلاف ہنگا مہ بھی ہوا،ہنگا مے کے وقت عجیب و غریب کیفیت تھیجا مع مسجد سکندر آباد  میں  قاری صا حب کی خطا بت وامامت کے دوران کے مزید واقعاتپر جناب محمد یوسف عثما نی صا حب کی تحریر سے روشنی پڑ تی ہے۔

سکندر آباد کی  اس جا مع مسجد میں حضرت قا ری مصلح الدین رحمتہ اللہ علیہ ۴۴۔۱۹۴۳ء  میں  تشریف لا ئے،اور۱۹۴۷ ء کے اوائل تک خطا بت کے فر ائض انجام دیتے رہے،اور اس  اثنا ء میں  آپ نے ملت اسلامیہ دکنمیں اپنی خطابت اور سحر آفر ین ( جا دو اثر ) تلا وت قر آن مجید فر قا ن حمید کے ذریعہ دینی حمیت اور حر یت کےجذ بے کو مزید تقو یت دی اور جب تک اس جامع مسجد میں آپ رہے ہر جمعہ کو نماز کے بعد آپ کا یہ معمول رہاکہ حضرت کے ایک معتقد محمد عمر میمن ،جو بعد میں  بیعت کرکے مرید بھی ہو گئے تھے،آپ  کے گھرپرقا ری محمد مصلح  الدین رحمتہ اللہ علیہ تشریف لے جا تے جہاں  ذکر و اذکار کے علاوہ مختصر سی محفل نعتمنعقد ہو تی جس کے اختتام پر سلام پڑ ھا جا تا تھا،بعد میں وہیں  کھا نا تناول فر ما تے۔

سقوط حیدر آباد اور قا ری صا حب کا سفر پا کستان:

سقوط حیدر آباد سے قبل دکن کے مسلمانوں  نے پو لیس ایکشن کے نام پر کی گئی زیا دتی کے جواب میںجو جوابی قدم اٹھا یا اس میں  ایک محتاط اندازے کے مطا بق ہندو ستا نی فو ج سے مقا بلہ کر تے ہو ئےسات لاکھ مسلمان شہید ہو ئے دور طا لب علمی میں حضرت مفتی ظفر علی نعمانی صا حب حضرتقاری صا  حب کے جگری دوست تھے،دونوں ایک دوسرے سے والہا نہ تعلق رکھتے تھے،مبارکپور سے حافظ ملت نے جب ناگپور کا سفر کیا تو وہ اس وقت ناگپور بھی گئے،وہ پاکستان پہلے ہی آچکے تھےسقوط حیدر  آبادکے بعد  حضرت قاری صا حب کو پا کستان بلوانے کے سلسلہ میں انہو ں  نے سلسلہ جنبا نی(کوشش ) کی جس کے  نتیجہ میں قا ری صا حب کراچی آگئے،قاری صا حب کے ذاتی انٹر ویو کی روشنیمیں  سفر کی کچھ باتیں یہ ہیں ۔

سقوط حیدر آباد کے چار ماہ بعد ؁۱۹۴۹ء میں ،بحری جہاز کے ذریعہ قاری صا حب کر اچی پہنچےپو رٹ پر مفتی ظفر علی صا حب نے ان کا استقبا ل کیا، اور انہیں  اپنے مدرسہ میں لاکر اتارااس کے ایک ماہ بعد سے قاری صا حب نے اخو ند مسجد کی امامت و خطا بت شر وع کی۔

پاکستان میں خطا بت و تد ریس:

اخو ند مسجد کی خطا بت کے دور میں ہی حضرت مولانا مفتی مظہر اللہ صاحب دہلوی کےنامسے آرام باغ میں دارالعلوم مظہر یہ میں  قاری صاحب نے تدریس بھی شروع کردیاس وقت حضرت مولانا عبد الحفیظ صاحب آگرہ میں صدر مدرس تھے قاری صاحب انکے نا ئب کی حیثیت سے درس دیتے تھے،واہ کینٹ (راولپنڈی ) جامع مسجد کی خطا بتسنبھا لنے سے قبل تک آپ اس دار العلوم سے وابستہ رہے،واہ کینٹ سے واپس آکر آپنے اخوند مسجد کی امامت سنبھال لی،اس وقت دارالعلوم امجدیہ بن چکا تھا ،پھر کچھ عرصہبعد امجد یہ سے وابستہ ہو گئے،اور یہ وا بستگی آخری عمر تک قا ئم رہی۔

حضرت قاری صا حب دارالعلوم امجدیہ کے محض ایک مدرس ہی نہیں  تھےبلکہ انہیںاس ادارے سے قلبی لگاؤتھا،اپنی علالت کے زمانے میں بھی دارالعلوم ضرور جا تے تھے۲۸ اپریل کو انہیں  جب ہا رٹ اٹیک ہو ااور  ڈاکٹروں  نے  آنے  جا نے پر پا بندی عائد کردیتو قا ری صا حب نے پہلے تو  پند رہ روز کی ،پھر اس  کے بعدڈیڑھ ماہ کی رخصت حاصل کیمگر طلبہ کے تعلیمی نقصان کا خیال کر کے قا ری صاحب نے دارالعلوم امجدیہ کے ارکانکو اپنا استعفٰی پیش کر دیا انتظامیہ نے اسے منظور نہیں  کیا اس وقت انہوں  نے فرمایا

میں دارالعلوم آنے کے لیے تیار ہو ں  آپ دعا کریں  کہ اللہ تعالی مجھے طاقت دےاور صحت اچھی ہو جا ئے کیو ں  کہ گز شتہ دنو ں   میں بعض اوقات جب کبھی میریطبیعت خراب بھی رہتی تھی جب بھی میں  دارالعلوم  امجدیہ آتا تھاکیو ں  کہ یہ میرے پیرو مر شد کا مد رسہ ہے۔

نمو نہ اسلاف:

مصلح اہل سنت حضرت مولانا قاری محمد مصلح الدین صاحب سلف صا لحین کیمبارک زند گیو ں کا جیتا جا گتا ثبوت تھے ،ان کی نشست و بر خو است ،ان کا ملنا جلناہر حر کت و عمل ہر ایک کے اندر نہایت سا دگی اورجا ذبیت (کشش )تھیتصنع (جھو ٹ ) بنا وٹ اور خود ستا ئی جیسی چیز وں  کاان کی ذات سے دور کابھی کو ئی رابطہ نہیں  تھا،امامت و خطابت ہو یا درس و تدریس کسی کام کو بھیانہو ں  نے ملازمت اور نوکری کے طور پر نہیں اپنا یا بلکہ محض  خدمت دیناشا عت اسلام اور علم کی تو سیع کے نظر یہ سے زند گی بھر یہتمام امور انجام دیتے رہے۔

رقیق القلب (نرم دل ) اور حساس اس قدر کہ پر یشان حال ،حاجتمندوں  کی  درد بھری با تیں سن کر تڑ پ جا تے اور ان کے حق میںدعا  اور تعویز اور ہمد ردی و خیر خواہی کرنے میں کو ئی کسر  نہ رکھتے تھے بعض اوقات اپنے ہم نشینوں سے فر مایا ۔مجھے دل کا مرض  ،ان پر یشا ن حال ،اہل حاجت ہی کی وجہ سےلگا ہے۔

قر آن مجید کی تلاوت سے انہیں  روحانی شغف تھا اور نمازمیں  تلاوت قر آن فرما تے تو مقتد یو ں  کی روح  حلا وت قر آنسے سر شار ہو جا تی اسی لیے جو لوگ ان کی تلاوت کا لطفپا لیتے وہ دوردراز سے چل کر ان کے  پیچھے نماز اداکرنےچلے آتے تھے،مسلم نو جو انوں  کا کر اچی میں ایک بہت بڑاحلقہ ہے جن کے سینو ں کو  حضرت قاری صا حب علیہ الر حمہکی تاثیر صحبت نے صا لحیت اور دیند اری سے مالا مال کر دیا ہےبعد میں  کر اچی کے اندر قا ری  صا حب علیہ الر حمہ نے اخو ندمسجد کی خطا بت وامامت کسی دنیا وی غر ض کے لیے خود نہیںترک کی بلکہ خود فر ماتے ہیں کہ ، میں تو چا ہتا تھا کہ میں یہیںپڑار ہو ں مگر چو نکہ ان دونو ں مسا جد کے ارکا ن ایک ہیتھے اور ان لو گو ں  نے مجھ پر زور دیا اس لیے میں نےکھو ڑی گا رڈن میں کام شروع کردیا۔

بیعت:

حضرت قاری صا حب علیہ الر حمہ نے  اپنی پو ری زندگیکو حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی ہد ایت کے مطا بقبسر کیا، ابتد ا ئی تعلیم سے لے کر تکمیل دورہ حدیثتک اور روحانی میدان میں داخل ہو نے کے لئےبھی ان کے مرشداولین حافظ ملت عبد العزیزمبارک پو ری ہی تھے انھو ں نے حافظ ملتکو ہر طر ح  اپنی زند گی کا آ ئیڈ یل قراردےدیا تھا، اس لئے وہ علمی عملی اور روحانی ہرلحاظ سے حافظ ملت کے سا نچے میں ڈھلجا نا چا ہتے تھے،دوسری جانب حضورحا فظ ملت کو ان سے  اس قد ر و الہا نہپیار  تھا کہ وہ  انھیں  اپنے مربی و مقتداء(سر پر ست پر ورش کرنے والا جسکےپیچھے چلا جا ئے)اور مرشد کا مل کےدامن ،میں  بلاواسطہ مر بوط(بغیر وسیلے کے رابطہ)کرنا چا ہتےتھے،قاری صا حب فرماتے ہیں ۔میری عمر تقر یبا ۲۱ سال یا اس سےکچھ کم تھی،اس وقت میں ہدایہکا امتحان دے چکا تھا،استاد مکرم(حافظ ملت )سے  ہم نے کہا کہحضرت ہمیں مرید بنا د یجئے،تو  انھو ں نے کہا ٹھیک ہے میںوقت پر تمہیں لے چلو ں گاجیسے ہی امتحان سے فا رغ ہو ئےتو مجھے اور میرے سا تھی مولاناسید عبد الحق (جو انڈیا میں پیرطریقت کے نام سے مشہورہیں )ہم دونوں  سے کہا کہ تم لوگتیار ہو جا و ٔمیں تمہیں لے چلتاہوں  صد ر الشریعہ علیہ الر حمہسے بیعت کرنے کے لئےچنا نچہ راستہ میں ہمیں،پیر(شیخ) کے ساتھ کیا کرنا چا ہیئےبتا تے رہے مغرب کے بعدگا ڑی پہنچی،حضرت(صدرالشعر یعہ) سے ملاقات ہو ئی۔

          حافظ ملت نے  حضرت سے عر ض کی کہ میں ان کو سلسلہ میں  دا خل کرنے کے لئے لایا ہو ں حضرت نے فرمایاٹھیک ہےعشاء کی نماز کے بعد حضرت نے ہمیں اپنی غلامی میں  لے لیا،یہ تقر یباً ؁۱۳۵۸ھ کا وا قعہ ہے۔

 اس طر ح  حضور حافظ ملت نے قا ری صا حب اور مولانا سید عبد الحق صا حب گجہڑوی (گجہٹرہ جامعہ اشر فیہ مبارکپو ر کے قریب ایک دیہات ہے) کو گھوسی قادری منزل لے جا کرخود حضرت صدرالشریعہ بدرالطر یقہ علامہ حکیم  ابو العلی امجد علی قادری قدس سرہ کے دست  مبارک پر بیعت کرایا،قاری صاحب کے شجرہ شریف پر شعبان ؁۱۳۵۸ھ تحریر ہے۔

سلسلہ بیعت کےعلاوہ حافظ ملت علیہ الر حمہ کی کرم فر ما ئیو ں سےان حضرات نے  حضور صدر الشر یعہ علیہ الر حمہ سے بخاری شریف کی آخری حدیث کا سبق بھی پڑھا،اور شرف تلمند (شا گرد ہو نا ) حاصل کیا، اپنے ان محبوب تلا مذہ کو صد ر الشریعہ علیہ الر حمہ سے شرف تلمند دلانے کے لئے بھی حافظ ملت نے ان کے سا تھ گھو سی (صدر الشر یعہ کا وطن ہے،بھا رت میں ایک تحصیل کا نام ہے) کا سفر فرمایا۔

خلافت :

جس ہو نہار بچےنے کمسنی میں حافظ ملت  علیہ الر حمہ کے ہا تھو ں علم کی چا شنی پا لی تھی اور انہی کی زیر تر بیت مبا رکپو ر میں علوم اسلا میہ کی آگہی (سمجھ ) میں لگا ہو ا تھا ،شعور کی پختگی کے ساتھ اس میں  تو جہ الی اللہ اور سلوک کی راہ پر چلنے کا اشتیاق خود بخو د ابھر نے لگا،چناچہ بیعت کے  ایک مر تبہ حضور صدر الشریعہ علیہ الر حمہ مبا رکپور تشریف لا ئے توقاری صا حب نے خدمت میں  التجا کی کہ مجھے کچھ و ظیفہ و غیرہ تعلیم فر ما ئیں۔

حضور صدر الشر یعہ نے مسکر اکر جو اب دیا:

یہ جو کچھ کام ( حصول علم دین ) آپ  کر رہے ہیں  آپ کے لئے یہی سب سے  بڑا وظیفہ ہے ،ان شا ءاللہ  تعالی آگے چل کر میں آپ کو وظیفہ بتا ؤں گا،نا گپور کے زما نہ خطا بت میں   حضرت قاری صا حب کو اپنے پیرو مرشد سے ملا قات کے مواقع ملتے رہے اور وہ اپنی روحا نی  ارتقا ئی منا زل پر گا مزن رہے،جامعہ ر ضو یہ کا  سالانہ اجلاس  ہوا، حضرت صدر الشریعہ کی تشریف آوری ہو ئی،پر وانو ں کی بھیڑ میں حضرت قا ری صا حب نے بھی قدم بوسی کا شرف پایا،اختتام جلسہ کے بعد حضرت ،چھلو اڑہ، کے لیے روانہ ہو ئے اور قاری صا حب کو بھی  ہمراہ چلنے کا حکم فرمایا ،وہا ں  پہنچ کر جناب حاجی عبد القادر صا حب کے گھر پر بزم نعت پاک کا انعقاد ہوا،حضور صدرالشر یعہ کے ساتھ حضرت مولانااشرف علی قا دری اور مولانا نثار احمد مبارک پوری بھی موجود تھے ۔ حب رسول ﷺ کی سر مستی کا عالم تھا، لوگو ں پر کیف و سرور چھا یا ہوا تھا، اور آنکھیں نم تھیں ،نعت خواں حضرات حضور سرور عالمیا ن محبوب ر ب العا لمین ﷺ کی شان میں قصا ئد پڑھ رہے تھے، اور مجلس پرو جد طا ری تھا اتنے میں حضرت قاری صاحب اپنی جگہ سے اٹھ کر پیرو مرشد کے رو برو پہنچے اور عرض گزار ہو ئے کہ حضرت ۔آپ کے وسیلہ سے حضرت مولانا جامی علیہ الر حمہ کے  اشعار کا سہارا لے کر میں بھی با رگاہ رسالت مآب ﷺ میں کچھ عر ض کرنا چاہتا ہو ں۔ پیرو مرشد نے اجازت دے دی، پھر کیا تھا حضرت قا ری صاحب نے اپنے محبت و عقیدت بھرے لہجے میں  عشق ر سول ﷺ کے سوزو گد از نے قاری  صاحب کی آوازکو تیرو نشتر بنا دیا تھا۔ ہر سینہ چھلنی اور ہر قلب بے قرار ہو گیا حضور صدر الشر یعہ خود روئے اور قاری صاحب نعت پڑھتے جاتے اور روتے جا تے چنا نچہ قاری صاحب نعت پوری نہ پڑھ سکے،حضور صدر الشریعہ دیکھ کر اپنی مسند سے  اٹھے اور قاری صاحب کو بٹھا لیا اور اسی روز اپنی خلافت سےسر فراز کیا، حضرت قاری صا حب کہنے لگے حضرت۔ میں اس لا ئق نہیں ہو ں۔ یہ بو جھ بھلا میں کیسے بر داشت کر سکتا ہوں، فر مایا جس کا کام ہے وہی اٹھا ئے گا۔

یہ وا قعہ ؁۱۹۴۶ء کا ہے، اس وقت حضرت قاری صاحب کی عمر تقریبا ۲۹ سال تھی۔

 اس کے علاوہ آپ کو شہزادہ مفتی اعظم ہند مصطفٰی ر ضا خاں بر یلوی علیہ الر حمہ نے ؁۱۳۷۶ ھ میں اپنی خلا فت سے  سر  فراز کیا، حضور ضیاء الملت حضرت مولانا ضیا ء الدین مدنی صاحب خلیفہ امام ا حمد ر ضا خاں فا ضل بریلوی علیہ الر حمہ مقیم مدینہ منورہ کی طرف سے بھی حضرت قا ری صا حب کو سلسلہ قا دریہ،ر ضویہ،سلسلہ سنو سیہ ،سلسلہ شا ذلیہ،سلسلہ معمر یہ ، اور سلسلہ اشر فیہ کی اجا زت و خلا فت سے نوازا گیا۔

مصلح اہلسنت دربار ر سول صلی اللہ علیہ وسلم میں:

حضرت قاری صاحب علیہ الر حمہ عشق رسا لت ما ٓب صلی اللہ علیہ وسلم کے منا دی تھے زند گی بھر خود بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت خوانی کرتے رہے اور ہزار ہا قلوب میں نعت ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی اتاردی، آپ زیادہ تر امام اہلسنت سیدنا اعلی حضرت علیہ الر حمہ  کاکلام پڑھتے تھے، آ پ کی بزم نعت خوانی کراچی سے مد ینے طیبہ تک ہر جگہ منعقد ہو تی اور لوگ دلوں میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لذت پا تے، انھیں مدینے والے سر کار صلی اللہ علیہ وسلم سے والہا نہ محبت تھی، اسی کا اثر تھا کہ طفیل آقا مو و مولا صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بارہ مر تبہ حج کی سعا دت ملی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دربار کی زیا رت سے سر فراز کیا۔

مدینہ طیبہ میں ان کی حاضری کا اندازبڑا ہی مضطر بانہ ( بے چین ) ہو تا تھا، وہ سر  مستی عشق میں  ہر وقت سر شار نظر آتے تھے،یہ بھی بارگاہ خاص میں ان کی مقبو لیت کی نشا نی ہے کہ ان کےمرید ین کی ایک خاصی تعدار مد ینۃالنبی کی  ملاز مت پر لگی ہو ئی ہے،اور ان میں سے ہر ایک عشق اور محبت میں وار فتہ (قر بان ہو نا ) ہے۔ آ پ نے پہلا حج ؁۱۹۵۴ھ میں کیا اور مدینہ طیبہ دربار رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری دی، اسی سفر میں پہلی بار حضور ضیا ء الملت علیہ الر حمہ کی زیا رت کی ، اس روز حضرت مولانا عبد العلیم صدیقی میر ٹھی علیہ الر حمہ کا سو ئم تھا حضرت قاری صاحب نے حضرت ضیا ء الملت مولانا ضیا ء الدین مدنی علیہ الر حمہ سے عر ض کی کہ ہمیں اپنےسا تھ سر کار صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کاشرف بخشیں  حضرت نے ان کی در خواست کو قبول فرمایا اور انہیں لے کر حاضر بارگاہ ہوئے،اس وقت آپ قادری شان کے سا تھ اپنی چادر اوڑھے ہو ئے تھے، مصلح اہلسنت کے علاوہ اور کئی لو گ ہمراہ تھے، مو اجہ شریف میں حاضری دینے کے بعد،بقیع شریف گئے اخیر میں مولانا عبد العلیم صدیق میر ٹھی علیہ  الر حمہ کی مزار شریف پر فا تحہ خوانی کی۔

حضرت مولانا ضیا ء  الدین مدنی اور مصلح اہلسنّت :

اپنی با ادب اور سادہ طبیعت نیز حضور حافظ ملت علیہ الر حمہ کی اعلی تر بیت کے طفیل قا ری صا حب کو شیخ العر ب و العجم حضرت علامہ ضیاء الدین احمد مدنی علیہ الر حمہ کی بارگاہ میں بڑا قرب حاصل تھا،بلکہ بقو ل مفتی ظفر علی نعمانی صاحب وہ ان کے فر زند کی طر ح تھے،حضرت قاری صاحب مدینہ طیبہ حاضری کے دوران مسجد نبوی شریف کے بعد سب سے زیادہ وقت حضرت کی خدمت میں دیتے اور حضرت کی خا نقاہ ہی میں قیام کرتے،اور خود  حضرت کایہ عالم تھا کہ وہ بھی حضرت قاری صاحب کو بہت پیار کرتے تھے اورمجلس ہو تی تو  قاری صاحب سے زیادہ نعت سماعت فرماتے تھے، مدینہ طیبہ کی ملا قات کے دوران قا ری صا حب نے راقم الحر وف کو بتا یا کہ حضرت ضیا ء الملت علیہ الر حمہ اپنے کرم خاص سے فر ما تے ہیں کہ میرے تمام مریدین آپ  کے ہیں۔

مصلح اہلسنت کی وجد آفریں نعت خو انی:

حضرت قاری صاحب علیہ الر حمہ کو اس منزل و مر تبہ تک ان کے خلو ص عمل اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فراوانی (بہت زیادہ مقدار میں ہونا،وافر ہونا ) نے پہنچا یا تھا، زبان جب دل سے ہم آہنگ (سا تھ ساتھ ہونا ) ہواور اس سے محبت کا نغمہ پھوٹے تو وہ نغمہ ۔نغمہ لاہو تی ( ہمیشہ چلنے والا باربار چلنے والا ) ہوتا ہے، اگر کو ئی عا شق رسول محبوب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں انہیں آواز دے تو بھلا کیسے ممکن ہے کہ تا ثیر سے خالی ہو۔ حضرت قاری صاحب کی زبان میں تا ثیر بھی تھی اور گفتگو میں شیرنی بھی اور وہ اپنی ذاکر زبان سے جب نور والے سر کار صلی اللہ علیہ وسلم  کا نو رانی نغمہ الا پتے ( بار بار پڑ ھتے ) تھے تو اہل ایمان کی روح کے ساز جھنجھنا اٹھتے تھے حضرت مولانا مفتی جمیل احمد نعیمی صاحب ایسی ہی ایک نو رانی بزم کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ’’ ان کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف خودوجد میں ہیں ،بلکہ دوسروں کو بھی وجد میں لا رہے ہیں۔ نہ صرف ان کی آنکھیں ڈبڈ با رہی ہیں، بلکہ دوسرے بھی اشکبار ہیں،اور وہ نعمت وہی ہے جو آپ نے کھو ڑی گا ڑدن میں بھی اکثر سنی ہو گی۔

دل درد سے بسمل کی طر ح لو ٹ رہا ہو
سینے پہ تسلی کو ترا ہا تھ دھرا ہو

یہ ؁۱۹۸۰ء کا واقعہ ہے کہ جب زیارت حرمین شر یفین کاشرف اس فقیر کوبھی حاصل ہوا،اور میرے پیر و مرشد حضرت علامہ مولاناضیاء الدین صاحب قطب مدینہ علیہ الر حمہ کے یہا ں جیسا کہ معمول تھا۔نماز عشاء کے بعد محفل میلاد شریف ہوا کرتی تھی آندھی آئے طوفان آئے گر می ہو کے سردی ہو، حرارت ہو بر ودت ( گر می اور سردی ) ہو، کسی قسم کی کو ئی صورت ہولیکن حضرت کے یہا ں میلاد شریف کا ناغہ ان آنکھو ں نے کبھی نہیں دیکھا تو حضرت علامہ قاری مصلح الدین صدیق صاحب علیہ الر حمہ وہا ں تشریف لائے حضرت علامہ شیخ الحدیث و التفیسر سید احمد سعید کا ظمی ر حمتہ اللہ علیہ اور بریلی شریف اور ہند وستان سے تشریف لا ئے ہو ئے بعض علماء اور  پاکستان سے بعض علماء جو تشریف لے گئے تھے جب قاری صاحب علیہ الر حمہ سے فر ما ئش کی گئی اور انھو ں نے حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الر حمہ کے مکان میں وہ نعت پڑھی تو نہ صرف یہ کہ ہندوستان اور پا کستان کے علماء ان کی نعت شریف کوان کے انداز کو ان کی والہا نہ کیفیت کوان کی اس وار فتگی (فدا ہونا ،قربان ہونا ) کو دیکھ کر جناب والا حیرت زدہ تھے بلکہ شام کے علماء اور مصر کے جو علماء تھے وہ حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ کی آواز سے متا ثر ہو کر کے عشق رسول  صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ سبھی تڑ پ اور مچل رہےتھے۔

اکا بر علماء کی نظر میں :

ہندو پاک کے تمام اکا بر علماء اہلسنت جو قاری صاحب کے دور میں موجود تھے ان کی قدر کرتے تھے غز الی دوراں حضرت علامہ سید احمد  سعید کا ظمی علیہ الر حمہ اور دیگر اکا بر علماء کے ساتھ حضرت قاری صاحب کے تعلقات نہا یت خو شگو ار محبتا نہ اور قلبی ( محبت سے بھر پور،دلی لگا ؤ ) تھے علامہ کا ظمی صاحب جب ملتان سے کراچی تشریف لاتے تو  بارہا ایسا ہوتا کہ ٹھٹھہ فا تحہ خوانی کے لئے علماء کا کارواں چل پڑتا۔ اور اکثر علامہ کا ظمی صاحب قاری صاحب اور مفتی ظفر علی نعمانی صاحب ایک ہی کار میں تشریف لے جا تے ،دوران سفر قاری صاحب نعت شریف سناتے اور تمام لوگوں پر وجد کی کیفیت طا ری ہو جاتی اور سفر کی طو الت سمٹ کر مختصر ہو جا تی۔

واہ کینٹ ( راو لپنڈی ) کی خطا بت :

 پاکستان کے اکابر علماء اہلسنت کی نگاہ میں حضرت قاری صاحب کی کتنی وقعت ( اہمیت ) اور قدرو منزلت تھی اس کا اندازہ لگا نے کے لئے ایک واقعہ حاضر خدمت ہے۔علامہ عبد ا لحامد بد ایو نی محد ث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد لا ئلپوری حضرت مولانا عارف اللہ شاہ صاحب اور حضرت پیر صاحب دیول شریف غز الی دوراں علامہ احمد سعید کاظمی پیر طریقت علامہ سید قمر الدین سیا لوی ر حمتہ اللہ علیہم اجمعین اہلسنت کی ٹھو س بنیا دی خدمات کے لئے آپ پر بے حد اعتماد کرتے تھے۔

واہ کینٹ کی جامع مسجد پاکستان میں بڑی  مرکزی مساجد میں شمار ہوتی ہے جہاں مو دودی اور دیو بندی گھسنے کی کو شش کرتے رہے ایک مرتبہ وہا ں کے لئےامام کا تقر ر ہونے والا تھا، جس کے لئے بڑی تعداد میں  وہابی مولوی  اور دیو بندی ائمہ بھی امید وار تھے،انکے مفتی صدرالدین لد ھیا نوی مو دودی نما ئندہ صد ر الدین پنڈی والے گجرات سے احمد شاہ کے بھا ئی وغیرہ بھی اس جگہ کے امید  واروں میں تھے۔ اس سلسلہ میں حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الر حمہ نے قاری صاحب کو ٹیلی گرام بھجو ایا کہ آپ اخو ند مسجد میں کسی کو  اپنی جگہ رکھ کر واہ کینٹ کے لئے امامت کے انٹر ویو میں ضرور تشریف لے جا ئیں دوسری طرف سے حضرت مولانا عارف اللہ شاہ صاحب اور پیر صاحب دیول شریف نے بھی اسی مقصد کے لئے قاری صاحب کو ٹیلی گرام بھیجے۔ بعد میں محدث اعظم پا کستان نے قاری صاحب کو اس بارے میں خط بھی تحریر فرمایا۔ بہر حال قاری صاحب نے اس معر کہ کو کسی طرح سرکیا اور صرف ڈیڑھ سال کے قلیل عر صے  میں کتنی مقبو لیت حاصل کی اور لوگوں کے دلوں  میں کیسا مقام پیدا کیا کہ اس کے بعد جب انھیں اپنی کچھ ذاتی دشواریوں کے با عث وہاں کی خطا بت سے ہٹنا پڑا تو وہاں کے لوگ دھاڑیں مار مار کررو تے تھے۔ اورقاری صاحب کی راہ میں آنکھیں بچھاتے فیکٹری کی اس شاندار جامع مسجد میں ائمہ کو مسجد کمیٹی کے لوگ خود ہی تقر یر کا مو ضوع دیتےتھے اور ا ئمہ کو ان ہی مو ضو عات پر تقر یر کرنی ہوتی تھی، حضرت قاری صاحب کی یہ خصو صیت تھی کہ وہ ہر موضوع کو عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور محبت صلی اللہ علیہ وسلم کے سانچے میں ڈھال لیا کرتے تھے او ر قر آن و احادیث کے حوالوں میں جب  درد و سوز بھری آواز سے نعت حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تو سننے والوں پر وجد انی کیفیت طاری ہو جایا کرتی تھی۔

وہاں تقرری سے لے کر سکبد وشی تک واقعہ کو قاری صاحب خود فرماتے ہیں، ان حضرات کا اصر ار تھا کہ آپ وہاں خود جا ئیں۔چنا نچہ میں وہاں پہنچا  ، بارش بڑی شدید تھی۔ بہر حال شام کے وقت وہاں پہنچا اور اس وقت مولانا عارف اللہ صاحب نے گاڑی کا بند وبست  کیا  اور ہم رات کوواہ  کینٹ پہنچے اور وہاں رات کو سرکا ری بنگلے میں قیام ہوا۔ اور دن میں پھر وہاں پہنچے۔ بہر حال یہ کہ پہلی تقریر مفتی لدھیا نوی کی اور اس کے بعد دوسری تقریر میری ہوئی۔ اس کے علاوہ اور تقریریں بھی ہو ئیں ۔ اور اس کے بعد جو کمیٹی نے فیصلہ کیا۔ زیادہ میرے حق میں دیا کہ آپ کو بحیثیت خطیب کے یہاں رکھا جاتا ہے۔ چنا نچہ ڈیڑھ سال تک خطیب رہا۔ اور مغرب کے    بعد درس قرآن ہوتا تھا اور صبح درس حدیث ہوا کرتا تھا، لوگ کثرت سے حاضر ہوا  کرتے تھے اور پانچ دن کی محنت سے فیکٹری کادیا ہوا موضوع جو ہوتا تھا، اس مو ضوع پر میں پوری تیا ری کرکے آتا تھا۔ تو چنا نچہ جب میں واہ کینٹ میں تھا، اجتماع بڑھتا رہا، چنانچہ حکومت کو مجبو را ۳۵ً ہز ار کے شامیا نے خرید نے پڑے۔اور بہت کافی انھو ں نے انتظام کیا۔ اور تقر یبا ًمسجد بھری ہوتی تھی۔ تقر یبا ۱۸ یا ۱۹ ہزار کا مجمع ہوا کرتا تھا اور ڈیڑھ سال کے بعد ہم پھر واپس اخوند مسجد آگئے۔ کچھ اپنی مجبو ریو ں کی وجہ سے ۔اور لوگ دھاڑیں ما رمار کر رو رہے تھے۔

زبان اہل دل سے بات جو  باہر نکلتی ہے۔           تو لگتا ہے دلو ں پر حید ری شمشیر چلتی ہے

                                                                                      (بدر)

مشا غل:

حضرت قاری علیہ الرحمہ حضور ملت کے تلمیذ (شاگرد ) اور حضور صدر الشر یعہ مولانا امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کے مرید تھے، ان کی زند گی پر ان بز رگوں کا گہرا اثر موجود تھا، وہ کو ئی وقت فضول گذ ارنا جا نتے ہی نہیں تھے، عبا دت وریا ضت، تعلیم، ذکر و فکر، محفل خوانی، لو گو ں کی حاجت روائی ، تعو یز و دعا ء ،خدمت و خلق، اور خیر خواہی یہ وہ  عملی کا م تھے جن میں حضرت قاری صاحب مشغول رہتے تھے خود فرماتے ہیں، صبح سو یرے اپنے وظائف سے فارغ ہو کر نماز پڑھا تا، اور دو بسوں سے دارالعلوم امجدیہ پہنچتا وہاں سے بارہ بجے اٹھ کر مسجد آتا نماز ظہر پڑھا کر گھر آجاتا۔میرے سا تھ کچھ تعویزوں کا سلسلہ بھی چل پڑا تواس  میں چھ سات گھنٹے یو ں لگ جاتے تھے، مغرب کے بعد اگر کسی حلقے میں جانے کا اتفاق ہوا تو بارہ بج جاتے تھے۔

حضرت عبد العزیز پٹنی قادری رضوری معمولات پیرو مرشد میں لکھتے ہیں کہ، میں نہایت اصر ار کرکے حضرت کے معمو لات کی بابت (متعلق) دریافت کیا تو جو کچھ انھو ں نے بتا یا  وہ یہ ہے۔

حضرت روزانہ  فجر سے دو گھنٹے قبل تہجد کے لئے بیدار ہوتے اور اپنے مخصوص وظا ئف پڑھتے جس میں دلا ئل الخیرات شریف، سیفی شریف، قصیدہ غو ثیہ، الو ظیفہ الکر یمہ، شجرہ اور دعا، پھر نماز فجر کے لئے مسجد تشریف لے جاتے، بعد نماز فجر  گھر  تشریف لاتے اور دوسرے وظا ئف کا ورد فرماتے،حضرت سفر میں بھی و ظا ئف کا ورد فرماتے اور بڑی مد اومت ( ہمیشہ کرتے رہنا، مستقل کرنا) فرماتے،  طلوع آفتاب کی بعد اشراق پڑھتے، پھر نا شتہ کرتے، حضرت چاشت بھی ادا کرتے، بعد نماز مغرب نوافل اوا بین بھی پڑھتے پھر سو رۂ یا سین شریف، سو رۂ واقعہ ، سورۂ رعد،سو رہ ملک پڑھتے، یہ اوراد چالیس سال سے حضرت کے معمول میں تھے، دن بھر تعو یذات کا سلسلہ جاری رہتا، حتٰی کہ لوگ دارالعلوم امجدیہ میں تعویز کے لئے پہنچ جاتے۔

سیا ست فاسدہ سے دور:

پا کستان میں علما ئے اہلسنت کے ایک طبقے نے سیا ست ملکی میں بھی قدم رکھا، اور  دور حاضر کے تقا ضو ں کے لحاظ میں منحر ف فر قو ں سے راہ ورسم ( تعلقات ) پیدا کی، حضرت قاری صاحب علیہ الر حمہ ۔اول، تو سیا ست ہی سے دور رہے، دوم، انھو ں نے علما ء سلف کی تشخص ( پہچان ) کو اپنی  ذات سے نہایت اہتمام سے بر قر ار رکھا، اور کبھی کسی  بد مذ ہب سے کو ئی ایسا تعلق اور رابطہ نہیں کیا، اپنا پورا وقت عبادت و ریا ضت اور خدمت خلق میں صرف کرتے رہے، اور نہایت خاموشی سے لو گو ں کے باطن میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کا شت اگا تے رہے۔

آپ کے شا گرد سید محمد یوسف بخاری لکھتے ہیں:

اس پر آشو ب دور میں جبکہ دین کے لئے وقت نکا لنا اپنا مالی نقصان سمجھا جاتا ہے آپ نے لا کھو ں مریدین کی تو جہ دین حق کی طرف مبذ ول کرائی، جو ایک ز ندہ کرا مت ہے، آپ کی ولا یت کا مشا ہدہ کرنا ہوتو مصلح الدین گا رڈن میں رضویہ جا کر دیکھیں، فیو ض و برکات کا چشمہ جاری ہے۔

عا شق رسول صلی اللہ علیہ وسلم:

حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ کی پو ری زند گی اللہ عز وجل اور رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے بھری ہوئی ہے،محبت ہی ان کا مشن بن چکا تھا جو بھی ان سے قر یب ہوتا ان کی مجلس میں بیٹھتا وہ سینے میں عشق رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی گرمی حاصل کرلیتا،ان کی  مثال ایک ایسے فیا ض عطار ( دل والے عطر فروش ) کی ہے، جس سے ہر آنے جانے والا بے طلب مثا ل جا ں ( خود کو  فر حت جا ں ) خو شبو ؤں سے بسا کر جاتا ہے، حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے ہر مسلمان محبت کرتا ہے، اور اس  کے بغیر کسی کا ایمان، ایمان ہی نہیں، حضرت قاری صاحب لو گوں کو عشق مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہی مئے پلا تے تھے اور لو گوں کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی سر مستی عطا فرماتے تھے ،وہ سر کار حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے محب تھے اور سچے محب تھے، اسی چیز نے ان کی ذات کو بھی محبو بیت عطا کردی تھی، سر مایہ اہل سنت علامہ عبد الحکیم شرف قادری لکھتے ہیں کہ:

ان کی شخصیت مسحور کن حد تک محبوبیت کی حامل تھی، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی قدس سرہ کے مسلک پر نہ صر ف خود کار بند تھے بلکہ ان کے دامن سے وابستہ حضرات بھی راسخ العقیدہ سنی حنفی ہیں،اور مسلک اولیاء کے پابند، مدینہ طیبہ میں چند حضرات سے ملنے کا اتفاق ہوا، معلوم ہو ایہ حضرت قاری صاحب کے متعلقین ہیں،اور ان کے فیض محبت کا یہ  اثر ہو اکہ نبی عربی فداہ ابی وامی (میرے ماں باپ قربان ) کی محبت سے اس قدر سر شار ہو ئے کہ ہمیشہ کے لیے دیار حبیب صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈیر ا ڈال دیا، قابل صدر شک ہے وہ شخصیت جس  کی ہم نشینی خدا اور رسول ( عزوجل  و صلی اللہ علیہ وسلم ) کی  محبت سے سر شار کردے،پھر ان کے حلقہ بگوش صرف زبانی طور پر ہی نہیں، عملی طور پر بھی ان کے رنگ میں رنگے ہو ئے ہیں، داڑھی حکم شریعت کے مطابق صوم و صلو ٰۃ کے پا بند ،اور مسا ئل کی با ر یکو ں سے آشنا اور ان پر عمل پیرا۔

مسنون و ضع روشن چہرہ:

دل کی دنیا اگر قند یل محبت سے جگمگا رہی ہو تو چہرے پر اس کی کرنیں ضرور پڑتی ہیں، حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ ایک عابد شب زندہ دار ( رات بھر عبادت کرنے والے) تھے ،عبادت وریا ضت اور تقویٰ و طہارت با طنی ان کے رخسا روں سے ظا ہر ہوتی تھی جو مقر بان بارگاہ کی نشانی ہے۔

جناب شاہ حسین گر دیزی لکھتے ہیں کہ:

آپ اپنی نورانیت کی بد ولت جو ریا ضت و مجا ہدہ اور خثیت الہٰی سے آپ کے چہرےسے ہو یدا( ظاہر ) تھی ، تمام دینی اسا تذہ میں ممتاز اور نمایا ں نظر آتے بڑے کم گو اور خا موش طبع تھے ہر شخص کا خند ہ پیشانی سے استقبال کرتے آپ کے انتقال کے بعد جب میں دیدار کے لیے حاضر ہو ا تو چہرہ دیکھتے ہی بے سا ختہ زبان سے نکلا:

نشان مرد مومن با تو گریم                                 چو ں مرگ آید تبسم بر  لب او ست

ترجمہ:میں تمہیں مرد مومن کی نشانی بتا تا ہوں۔۔۔ کہ جب اسے موت آتی ہے تو اس کے لبوں پر مسکر اہت ہوتی ہے۔

جن خوش نصیبو ں نے حضرت قاری صاحب کو قر یب سے دیکھا ہے، انہوں نے اقر ار کیا کہ وہ سنت نبو یہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں پوری کو شش فر ماتے تھے، اعلیٰ اخلاق کے مظہر تھے تقریر وخطبہ میں سوز و گد از پا یا  جاتا تھا، چو نکہ جو کچھ کہتے تھے خو د اس پر شدت سے عمل کرتے تھے اس لیے لوگو ں پر  آپ کی تقریر مؤثر ( اثر والی) ہوتی تھی طریقہ تبلیغ نہایت پیارا تھا، قاری صاحب علیہ الرحمہ کی ذات میں بلند یٔ کردار، جذبہ ایثار و قربانی، خوش خلقی، اکا بر اور بز رگوں کا بہت زیادہ احترام ،چھو ٹو ں پر شفقت اور محبت تھی وہ گفتا رکے نہیں بلکہ کر دار اور عمل کے غازی تھے، اپنے مشا ئخ اور اساتذہ کے سچے وارث اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بے لوث منادی تھے۔

خواجہ رضی حید ر لکھتے ہیں :

وہ اپنی وضع کے واحد شخص تھے، ایک ایسا شخص جس کی زند گی کسی اونچ نیچ سے دو چار نہ تھی ہر وقت ایک سا رویہ، ایک سی نرم کلا می،ایک سی  شفقت، جس میں کو ئی اختصا ص نہیں تھا، کو ئی منا فقت نہیں تھی، بس تمام تر خلو ص تھا۔

آگے چل کر لکھتےہیں کہ:

علا ئق دنیا وی ( دنیا وی بر ائیا ں ) سے بے نیازی اور معا ملا ت اکراہ ( نا پسند یدہ ) سے دوری نے آپ کی شخصیت کو اتنا دلکش بنا دیا تھا کہ جس پر ایک مرتبہ نظر ڈال دیتے وہ تمام عمر کے لیے آپ کا گرویدہ ہو جاتا تھا آپ ہر بات میں ایک نصیحت موجو د ہوتی تھی ایسی نصیحت جو انسان کو اصلا ح نفس کی تر غیب دیتی تھی، یہی وجہ ہے کہ لا تعداد افراد جو سراپا ہوس دنیا میں گر فتار تھے،آپ کے دست حق پر ست پر بیعت ہو ئے، اور ایک نئی زند گی شر وع کی، ایسی زند گی جو بند ے کو رب سے قریب ،اور دل کو عشق مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے لبریز کر دیتی ہے۔

حضرت قاری صاحب نے اپنے مرشد کامل اور استاد مکرم سے جو علم و معر فت کا نور حاصل کیا تھااسے سر زمین پا کستان پر نہایت فراخ دلی سے تقسیم کیا، خصو صا ًکراچی کے نو جوا نوں میں ہز ارہا ایسے خوش نصیب نو جوان ہیں جو اخلاق با ختہ ،بر ہنہ تہذیب سے منحرف ہو کر مردان شب زندہ دار بن گئے آپ جناب رضی حیدر صاحب کے ذریعہ مصلح ملت کے فیض یا فنگان (فیض پانے والے) سے ہم بھی ملاقات کرتے چلیں۔

قاری صاحب لاہور جب بھی تشریف لے جاتے  تھے حکیم محمد مو سیٰ ا مر تسری کےمطب ضرور جاتے اور مجلس رضا کی اشا عتی سر گر میوں کی حو صلہ افزائی فرماتے (۱۹۷۹ ء)میں جب آپ حکیم موسیٰ کے مطب میں تشریف لائے تو میں پہلے سے وہاں موجود تھا ،قاری صاحب کےہمراہ پندرہ یا بیس نو جوانوں کی ایک جماعت تھی، میں نے دیکھا ہر نوجوان نے نہایت عقیدت کے ساتھ حکیم محمد مو سیٰ کی دست بوسی کی ،اور سب نہایت با ادب کھڑے ہو گئے  اسی اثنا ء میں میاں جمیل احمد شر قپوری اپنے مرید ان با صفا کی ایک جماعت کے ساتھ وہاں پہنچ گئے،ان سب حضرات کی بیک وقت حکیم موسی ٰ کے مطب میں موجو دگی نے عجب روح پر ور سماں پیدا کردیا، سفید و شفاف لباس ، جالی کی سفید ٹو پیاں ، چہر وں پر شب بید اری کا نور ، ایسا لگتا تھا جیسے حکیم موسیٰ کے مطب میں فر شتو ں کے پرے(گروہ) اتر آئے ہوں۔

حضرت مولانا سید ریاست علی قادری علیہ الرحمہ قاری صاحب  کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئےلکھتے ہیں کہ:

شخصیت ایک ایسی پر کشش اور جامع الصفا ت تھی ، جن کی محفل میں بیٹھ کر پھر اٹھنے کو دل نہ چا ہتا تھا، قاری صاحب علیہ الرحمہ کے پاس حالانکہ کو ئی سلطنت نہ تھی اور نہ ہی مادی بڑ ائی( دنیا وی دولت ) کا کوئی ایسا ذریعہ جس سے لوگ مغلوب و متا ثر ہوں، اس کے بر عکس وہ عام افراد سے بھی بڑھ کر تنگد ست تھے، اور فقیر انہ زند گی بسر کرتے تھے لیکن ان کے اقتد ار کا دائرہ اتنا وسیع تھا کہ انسانی دل و دماغ پر حکومت کرنے کے علاوہ لا کھو ں انسان کے مرجع ( مرکز ) عقیدت تھے ان کی روحانی فر مانر وائی کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے امراء اور وجا ہت پسند ان کی دہلیز پر کھڑے رہنا اپنے لیے با عث فخر سمجھتے تھے۔

آگے چل کر لکھتے ہیں کہ:

وہ منہ کا رخ کعبہ کی جانب موڑنا کافی نہ سمجھتے تھے جب تک کہ دل رب کعبہ کے آگے نہ جھک جا ئے ان کے یہاں تعلیم و تعلم ( پڑھنے اور پڑھانے ) کا چرچا تھا، وہ علم کو یقین کے معنو ں میں لیتے تھے، وہ علم کو تن پر مارنے کےبجا ئے من پر مارنے کو مقدم جانتے تھے۔

قاری صاحب کی زندگی کا اگر ہم جا ئزہ لیں تو ہمیں ان کی شخصیت میں مند رجہ ذیل خو بیاں بد رجہ اتم ( کمال کی حدتک) نظر آئیں گی۔

(۱)کتاب اللہ سے مضبو ط تعلق۔                 (۲) اتبا ع رسول  صلی اللہ علیہ وسلم۔

(۳)رزق حلا ل۔                               (۴)ایذ اء رسانی سے پر ہیز۔

(۵) گنا ہوں سے بیز اری و نفرت۔               (۶)ہر وقت تو جہ کرتے رہنا ۔

(۷) خدا اور اس کے بند وں کے حقوق کی ادا ئیگی۔

(۸) اللہ نے جو حد ود مقر ر کردی ہیں اس کی پاسداری، منکرات سے پر ہیز، محر مات سے اجتنا ب۔

(۹) ہر کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لیے۔

(۱۰) آسا ئش کے بجا ئے آز ما ئش میں زند گی بسر کر نا۔

(۱۱) مصائب و آلا م کا مقا بلہ کرنا۔                (۱۲) اللہ پر کامل بھر و سہ۔

(۱۳) اللہ کا مطیع و فر ماں بر دار رہنا۔              (۱۴) اعلیٰ اخلاق سے آ راستہ۔

 جناب پر و فیسر شاہ فرید الحق صاحب ، جمعیت علما ئے پا کستان لکھتے ہیں کہ:

حضرت قبلہ نے بیسو یں صدی کے نصف میں ایک ایسے صوفی باصفا اور عالم با عمل ہو نے کو ثبوت پیش کیا ہے کہ جس سے پرانے بزرگان دین کی علمی اور عملی حثییت کا اندازہ ہوا، اور اس دور پر فتن میں بے سا ختہ یہ بات زبان پر آئی کہ بز رگان دین کے جن کما لا ت، ان کے حسن اخلاق، ان کی کرامات اور ان کے معا ملات کی خو بیو ں کا تذکرہ مستند توا ریخ و کتب میں ہوا ہے، وہ حقا ئق پر مبنی  ہیں۔

شاہ صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں  کہ:

مجھے تو ان کا مسکر اتا ہوا با رونق پر جلال چہرہ، ان کا نفیس و شفاف لباس اور ان کی گفتگو کا اند از اور ان کا وضع قطع، دل کو بھاتا ہے، میں نے کبھی بھی ان کو اخلاق سے گر ی ہوئی گفتگو کرتے نہیں دیکھا اور نہ سنا، شریعت اور طریقت کے معاملہ   میں ان کو بہت زیادہ محتاط پایا، صرف صوفی اور پیر کہلا نا اور بات ہے ، لیکن صحیح معنو ں میں صوفی با صفا اور پیر طریقت اور ساتھ ہی ساتھ عالم باعمل ہونا اور بات ہے، سر مو ( بال برابر) وہ شر یعت سے رو گر ادنی کرتے نظر نہیں آئے، میں تو کہتا ہو ں کہ مجھے پا کستان میں حضر ت قاری صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی پاک اور مجلّا شخصیت بحیثیت عالم اور صوفی کے یکتا نظر آئی۔

 حضرت قاری صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا ایک تشنہ اخلاق ( چا ہنے والا) اپنے احسا سات کو یوں اجا گر کر تا ہے، جب سارے علماء ( نماز کی سنتوں سے ) فارغ ہو گئے تو میرا اشتیاق بڑھنے لگا ( کہ ان علما ء  و حفا ظ، قر اء اور مشا ئخ کے جمگھٹ ( گر وہ) میں جو سب سے زیادہ متقی ہو گا وہی امامت کرے گا) اور مصلیٰ امامت میر ی نگاہ کا مرکز بن گیا۔ اور  چند لمحو ں بعد میں نے دیکھا کہ ایک نو رانی صورت والے بزرگ آگے بڑھے اور زیب مصلیٰ ہو گئے، نہایت حسین و دلکش چہرہ، ارمنی رنگ کا عمامہ، روشن اور اجلی آنکھو ں پر نگاہ کا چشمہ، چہرے کی منا سبت سے قد رتی خوبصورت داڑھی اور سفید براق لباس پر صو فیانہ صدری زیب تن کیے، یہ تھے علم و فضل کا مر قع، سا دگی و شر افت کا پیکر ،  خدا خو فی اور پاک دامنی کا مظہر آیت مبارکہ واجعلنا للمتفین اماما کا تفسیر ی پیکر، پیر طریقت حضرت  علامہ حافظ قاری مصلح الدین صدیقی قادری رحمتہ اللہ علیہ، سچ پو چھو تو عر ض کروں۔

جب تک کہ نہ دیکھا تھا قد یار کا عالم                          میں معتقد فتنہ  محشر نہ ہوا تھا
حضرت مولانا محمد اطہر نعیمی صاحب مہتم دار العلوم نعیمیہ کراچی فرماتے ہیں کہ:

 ایک مرد مومن میں جو صفات ہونی چا ہئیں وہ قا ری صاحب میں موجود تھیں، لیکن شریعت کی تعلیم و تبلیغ، رشد و ہدایت ان کی اضافی خو بیا ں تھیں جن کو  انہوں نے بحسن و خو بی انجام دیا اور اسی مشن کی تکمیل میں جان ،جان آفریں ( زندگی بخشنے والے) کے سپرد کی قاری صاحب کی ایک خصو صیت جو انہیں اس منزل پر پہنچا نے میں ممد و  معا ون ( مدد گار ) تھی، وہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بے انتہا ء جذ بہ تھا، جوان کی ہر ادا سے ظاہر ہوتا تھا، کو ئی گفتگو ایسی نہ ہوتی جس میں سر کار ابد قر ار صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ عقیدت مندی اور رشتہ غلامی کے استحکام کا تذکرہ نہ ہوتا ہو۔

حضرت مصلح اہل سنت ایک عمدہ مقرر بہتر ین قاری، شا ندار حافظ قرآن ، خوش گلو ( اچھی آوا ز والے) مداح رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور نعت خواں تھے، اللہ تعالی ٰ نے انہیں زندگی میں پچاس محر ابیں سنانے کا شرف بخشا، ۱۵ سال دارالعلوم امجد یہ کراچی  میں خدمت تد ریس انجام دیں۔ اپنی مسجد کے تحت مدرسہ انوار القر آن اور دار المطا لعہ قا ئم کیا، دار العلوم میں عرس امجد ی کے موقع پر شہز ادۂ صد رالشریعہ علامہ عبد المصطفیٰ ازہری کی خدمت میں  بطور ہد یہ کپڑے کا جوڑا اور عمامہ شریف پیش کرتے تھے، اور ان کا بہت ادب و احترام کرتے تھے ، اس طرح علامہ ازہری اور حضرت مولانا ظفر علی نعمانی وغیرہ اساتذہ دارا لعلوم، نیز پا کستان بھر کے اکا بر علما ئے کرام اور مشا ئخ عظام مصلح اہلسنت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے، عرس امجدی کے موقع پر علما ئے کرام نماز کی امامت کے لیے ان کو آگے بڑ ھا تے تھے،حضرت علامہ عبد الحامد بد ایونی علیہ الرحمہ اپنی مجا لس میں قاری صاحب کو خصوصی دعو ت نامہ دے کر بلاتے تھے۔

قلمی خد مات :

حضرت قاری مصلح الدین صاحب نے اپنے تحریری کامو ں میں مجمو عہ فتا ویٰ چھو ڑا ہے جس کے اکثر فتا ویٰ واہ کینٹ کے ہیں اس کے علاوہ حضرت نے تر مذی شریف کے تر جمہ کا بھی ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔

تقر یبا ڈیڑھ سو صفحات تک کرکے آگے نہ کرسکے اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔

مد ینے سے سلام آیا:

حضور مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات کی تبلیغ و اشا عت میں عمر عز یز لگا نے والے ایک غلام مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی کو شش بھلا رائیگا ں کیو ں کر ہو سکتی ہیں؟

حضرت قاری صاحب کے بہت سے مریدین و متبعین مد ینہ طیبہ میں رہتے ہیں، گویا نسبت امجد ی کے فیض یا فتگا ن کو حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے در کی جارو ب کشی کے لیے قبول فرما لیا ہے، انہی خوش نصیبو ں میں سے ایک صاحب مسجد نبوی شریف کے محکمہ بجلی سے وابستہ ہیں،انہیں خواب میں حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیا رت نصیب ہوئی، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرما تے ہیں، تم قاری مصلح الدین صاحب کو میرا سلام پہنچا دو۔

 خواب دیکھنے کے بعد انہوں نے قاری صاحب کو خط کے ذریعہ یہ پیغام ارسال کیا اس کے چند روز بعد کی بات ہے، انہی کی مسجد میں عرس حامدی کی تقر یب تھی، بریلی شریف سے حجۃ الا سلام کے پوتے حضرت علامہ مو لانا مفتی اختر رضا خان ازہری مد ظلہ العالی بھی آئے ہو ئے تھے قاری صاحب نے، روح اور موت، کے عنو ان پر تقریر کی، رات گزری دوسر ا دن آیا ظہر کی امامت کر کے دولت خانے پر گئے تاکہ فا تحہ غوث الا عظم کی محفل میں شرکت کے لیے تیاری کریں، اچانک دل کا دورہ پڑا، رشتے دار فورا ًعلاج کے لیے شفاء خانے لے کر چلے، مگر شافی حقیقی نے وہاں پہنچنے سے قبل ہی اپنے قرب میں بلا لیا، انا للہ وانا الیہ راجعون گویاحضرت قاری صاحب جو زندگی بھر اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ وسلام بھیجنے کو اپنے لیے سر مایہ آخرت خیال کرتے تھے، آقا دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سلام ارسال کرکے انہیں مقبو لیت کی سند عطا فرمادی( بروز بدھ سا ڑھے چار بجے دن ۷ ،جمادی الثانی (۱۴۰۳ ھ۲۳ مارچ ۱۹۸۳ ء) دوسرے روز سا ڑھے دس بجے دن کم و بیش تیس ہزار مسلمانوں نے نماز جنازہ ادا کی جس کی امامت حضرت علامہ مفتی اختر رضا خاں قادری بریلوی جا نشین مفتی اعظم ہند مد ظلہ العالی نے فرمائی ، حکومت  پا کستان نے آپ کے اعزاز میں کھو ڑی گا رڈن کا نام تبدیل کرکے آپ کے نام پر مصلح الدین گا رڈن رکھا۔

کراچی میں حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ سید نا امام احمد رضا قدس  سرہ کے مشن کے مبلغ تھے، آج ان کے روضے کا گنبد، بریلی شیریف کے   رضوی گنبد کی طرح اہل محبت کی نگاہ ہوں کا نور بنا ہوا ہے، حضرت مصلح اہلسنت نے اپنی نیا بت و خلا فت کا با قا عدہ اعلان اپنی حیات ہی میں بروز جمعرات ۲۷ جمادی الثانی (۱۴۰۲ ھ)۲۲ اپریل (۱۹۸۲ء) عشاء کی  نماز کے بعد بمقام میمن مسجد مصلح الدین گارڈن ، بہت سے علماء و مشا ئخ کی مو جو دگی  میں اپنی عمرہ روانگی سے قبل کی تقر یب سعید میں اپنے داماد حضرت علامہ مولانا سید شاہ تراب الحق قادری صاحب مد ظلہ العالی کے حق میں فرما دیا تھا، اور انہیں خلافت نامے اور دستا ر سے سر فراز کردیا تھا، انتقال کے بعد سو ئم کی فا تحہ کے مو قع پر اس کی تجدید کے طور پر حضرت علامہ مولانا مفتی اختر رضا خاں قادری قبلہ مد ظلہ العالی نے شاہ صاحب کی دستار بندی فرمائی اور قاری صاحب علیہ الرحمہ کے فر زند مصبا ح الدین کو ان کے سپرد کیا، حضرت اہلسنت کے وصال پر جناب راغب مرادآبادی نے تاریخ وفات لکھی ہے:۔

خوشا مصلح تھے قاری مصلح الدین                                    ہو ئے دنیا سے رخصت سن کے یاسین

یہ تاریخ وفات ان کی ہے راغب                           تھے جان عصر قاری مصلح الدین

                                      (۱۴۰۳ ھ)

حضرت مصلح اہل سنت علیہ الرحمہ نے ۱۲ حج کیے، پہلا حج ۱۹۵۶ ء میں کیا اور ۱۹۷۰ ء میں سر کار غوث الا عظم رضی اللہ عنہ کے دردولت پر بغداد شریف حاضری دی، اور اپنا دامن شوق مرادوں سے بھرا۔

ازواج اور اولاد:

آپ کاپہلانکاح مبارک پو ر دار العلوم اشر فیہ سے فراغت کے بعد ۲۴ سال کی عمر میں ہو گیا تھا، اہلیہ محترمہ ۲ صا حبزادیا ں چھو ڑ کرا نتقال کر گئیں، ۳۰ سال کی عمر میں دوسرا نکاح جناب صوفی محمد حسین صاحب عباسی کی صا حبز ادی سے ہوا، دوسر ی اہلیہ محترمہ سے ایک صاحبز ادی اور تین صاحبز ادے ہوئے، رب تعالیٰ نے حضرت قاری صاحب کو تین صاحبز ادیاں اور تین فرزند، محمد صلاح الدین،محمد مصبا ح الدین، محمد معین الدین عطا کیے(اسعد اللہ تعالیٰ)( اللہ ان کو نیک و مبارک بنا ئے)

کہتی ہے ان کو خلق خد ا غا ئبا نہ کیا:

حضرت مصلح اہل سنت نے دنیا میں اپنا مہد سے لحد تک ( ماں کی گود سے قبر تک ) کا وقفہ پورا کر لیا، اب ہم لو گوں میں ان کی یا دیں ان کے تذکرے اور کار ناموں کے نقوش باقی  ہیں، لوگ ، زبان خلق کو نقارۂ خدا کہتے ہیں، حضرت مصلح اہلسنت کی ذات و صفا ت اور ان کے اخلاق و کردار کے بارے میں علماء مفکر ین اور اہل دین ودیا نت کیا کہتے ہیں اس آئینے میں ان کی گراں قدر شخصیت کو دیکھنا آسان ہے، اس لیے ہم عرفان منزل، کے ، مصلح الدین نمبر، سے کچھ اقوال منتخب کرتے ہیں۔

زر بکف گل پیر ہن رنگین قباء آتش بجا                      ایک قطرہ سو طرح سے سر خرو ہو کر رہا

علما ئے کرام کے اقوال:

(حضرت قاری مصلح الدین صاحب،اسم با مسمیٰ ہیں،)                 (حضر ت مولانا شیخ ضیا ء الدین مدنی علیہ الرحمہ )

اگر کسی کو نیک طالب علم دیکھنا ہو تو مصلح الدین کو دیکھے، مصلح الدین میرا بیٹا ہے۔

                                                                   (حافظ ملت محد ث مبا رکپوری علیہ الرحمہ)

آپ کی ذات گرامی ایسی نہیں تھی جسے بآسانی فراموش کیا جا سکے ، یا امتد ادزمانہ ( بہت وقت گزرجانا) ان کی یاد قلوب واذہان(دل اور دماغ) سے محو کرسکے، اس لئے کہ آپ صرف عالم ہی نہیں بلکہ عالم با عمل تھے۔

                                                                   (حضرت علامہ تقدس علی خان علیہ الرحمہ)

اپنے معمولات کو انھوں نے خاص تر تیب سے رکھا ہوا تھا اور وہ ان پر تقر یباً آ خردم تک قا ئم رہے۔

                                                                   (حضرت علامہ مولانا عبد المصطفیٰ ازہری علیہ الرحمہ)

وہ ایک عا شق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے تقو یٰ عبادت اور ریا ضت  یہ تمام خو بیاں ( ان میں ) بدرجہ اتم ( پوری طرح) موجود تھیں۔

                                                                             (علامہ ازہری)

انھوں نے مسلما نوں کو اپنی عملی زند گی کے ذریعہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق یہ درس دیا کہ وہ دین پر سختی سے قائم رہیں۔

                                                                   (حضرت علامہ مولانا مفتی وقار الدین علیہ الرحمہ)

 وہ کبھی بھی بد مذ ہبو ں اور بد عقیدہ افراد کے میل جول کو قطعا ً پسند نہیں فرماتے تھے بلکہ ملنے جلنے سے بھی پر ہیز فرماتے تھے۔

                                                                   (حضرت مفتی ظفر علی نعمانی صاحب)

اعلی ٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کے وہ پروانے تھے، اور شر یعت مطہرہ پر استقا مت اختیار کئے ہوئے تھے، تو ان کی سب سے بڑی کرامت یہی ہے۔                             (حضرت علامہ مفتی محمد حسین قادری علیہ الرحمہ،سکھر والے)

قاری صاحب شر یعت کی راہ پر گا مزن رہے اور طریقت کے منا زل سے لوگوں کو روشناس ( متعا رف کرنا) کراتے رہے۔

                                                          (مولانا محمد اطہر نعیمی صاحب)

وہ علم کو تن پر مارنے کے بجا ئے من پر مارنے کو مقدم جانتے تھے، ( مولانا سید ریاست علی قادری علیہ الرحمہ)

قابل رشک ہے وہ شخصیت جس کی ہم نشینی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سر شار کردے۔

                                                          (علامہ عبد الحکیم شرف قادری ،لاہور)

(انھوں نے) اپنے پیچھے اہلسنت کا ایک فیض و تر تیب یا فتہ عظیم قا فلہ چھو ڑا ہے جو ان کی پوری زند گی کا سرمایہ ہے۔

                                                          (مولانا مشاہد رضا خاں قادری)

آپ شریعت و طر یقت کی با ریکیو ں سے بھی بخو بی واقف تھے اور ان دونو ں علوم کے تقا ضوں کو نبھا نے میں کامل دسترس بھی رکھتے تھے۔                                                        (حضرت علامہ مولانا حکیم محمد رمضان قادری)

قاری صاحب منطق فلسفے سے زیادہ شغف ( دلچسپی ) نہیں رکھتے تھے، تفسیر جلالین اور مشکوٰۃ پڑھانا پسند فرماتے تھے۔

                                                          (مولانا محمد حسن حقانی)

جب تک محدث اعظم پا کستان ( حضرت علامہ سردار احمد قادری لا ئلپوری علیہ الرحمہ) حیات تھے، قاری صاحب نے کسی کو اپنا مرید نہیں بنایا بلکہ جولوگ مرید ہونے کی خواہش کرتے انھیں حضرت ہی کے سلسلہ میں داخل کروایتے تھے۔

                                                (حضرت علامہ مولانا سید شاہ تراب الحق قادری ،جا نشین مصلح اہلسنت)

آپ کی ذات گرامی علماء اور صو فیا ء کرام میں خاص توجہ اور عقیدت و  محبت کا مظہر تھی جسے بھی آپ کی صحبت اور محبت میسر آئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گر ویدہ اور شید ائی بن کررہ گیا۔            (سید شاہ تراب الحق قادری صاحب)

مختصر سی ملا قات ہوئی تھی دیکھنے سے علماء سلف ( پہلے گذ رجانے والے علماء) کی یاد  تازہ ہو گئی۔

                                                (مولانا فیض احمد فیض گو لڑہ شریف مصنف مہر منیر)

بے عملی کی اس گر د آلود فضا ء میں آپ کا وجود مسعو د باران رحمت سے کم نہ تھا۔(مولانا شاہ حسین گر دیزی)

 صرف صوفی اور پیر کہلانا اور بات ہے لیکن صحیح معنوں میں صوفی با صفا اور پیر طریقت اور ساتھ ہی سا تھ عالم با عمل ہو نا اور بات ہے۔

                                                          (پر و فیسر شاہ فرید الحق قادری)

ساری عمر حرص و ہوس کی ماری ہوئی دنیا میں ابدی سکون اور اخروی اجر عظیم کے جلوے بکھیر تے رہے۔

                                                          (پر وفیسر فیا ض احمد کا وش)

بلا مبالغہ میں کہوں گاکہ ان کی آنکھو ں میں جلوہ جمال یار ہوتا اور وہ اپنی مجلس میں فضا ئل و خصا ئل ( عادات ) بیان کرتے جاتے تھے۔

                                                          (مولانا محمد اسلم نعیمی )

دادو دہش ( عطا، بخشش، فیا ضی، سخاوت )  کا یہ عالم تھا کہ حاجت مند وں کی حاجت اپنی ضرورت پر مقد م ( اول ) جا نتے تھے۔

                                                          (حضرت علامہ مولانا محمد رئیس قادری)

 امام اعظم کے مقلد تھے، غوث ورضا کے مظہر تھے داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے فدائی تھے، خواجہ ہند کے شید ائی تھے، ابو العلاء امجد علی کی امید وں کا مرکز تھے حجۃالاسلام کے نقیب تھے، محدث اعظم پا کستان کے قر ۃ العین ( آنکھوں کی  ٹھنڈک ) تھے،حافظ ملت کے شاگرد رشید ( تر بیت یا فتہ یا چہیتے شا گرد ) تھے مفتی اعظم ہند اور قطب مد ینہ کے خلیفہ تھے۔

                                                                   (مولانا غلام محمد قادری صاحب)

                           متفرق اقوال

قاری صاحب نے اس نمو دو نما ئش کے دور میں روحانی ار تفا ع ( روحانی بلندی ) کی منازل نہا یت خاموشی کے ساتھ طےکر لیں۔

                                                                   (خواجہ رضی حیدر)

حضرت کی محفل میں نعت پڑھ کر جو روحانی کیف ملاوہ کسی محفل میں نہیں ملا۔(حافظ محمد سلیم جہا نگیر اعوان)

 قاری صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو نعت خوانی مرغوب تھی اور نعت خوانی  میں عشق کی حد تک  ان کو دلچسپی ہوتی۔

                                                                   ( سکندر لکھنؤی)

قاری ہونے کے ساتھ ساتھ آواز میں وہ مٹھاس تھی کہ جب آپ نعتیں پڑ ھتے تو دل چا ہتا کہ وہ پڑ  ھتے رہیں اور ہم سنتے رہیں۔ 

                                                                   (ڈاکٹر سید تو صیف احمد قریشی)

 انھوں نے شر یعت کی حدود میں رہتے ہوئے طریقت کو پروان چڑھا یا۔( جنا ب عبد العز یز عر فی)

 آپ نے نہ کبھی دولت و شہرت کو خواہش کی ، نہ ہی امر اء اور حکام کی قصید ہ خوانی۔( سید عبد القا در قادری)

ان کے اخلاق واوصاف ان کی عادات و کما لات، ان کی اسلامی خدمات  ان کا مقام ولایت سمجھنے سے ہماری عقل عاجز ہے۔

                                                                   (سید محمد یوسف بخاری)

سر کار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا والہا نہ عشق آپ کی مقبو لیت محبو بیت اور بقا ئے دوام (ہمیشگی ) کا باعث ہے۔

                                                                   (محمد یوسف عثمانی)

ہر آنے والا یہ محسوس کرتا کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نگاہ کرم قاری صاحب پر کس قدر ہے۔(خوشی محمد قادری)

آپ کا شماران مقبو لان بارگاہ رب العزت میں ہوتا ہے جنھوں نے شب و روز فروغ اسلام کی جدوجہد کی،اور مسلک اہلسنت کی اشا عت و تر ویج کے لئے ہمہ تن (جان و دل سے ) کو شاں رہے۔                 (حافظ محمد تقی)

آپ کی ذات والا صفات میں حسن اخلاق کی بہتر ین مثال ملتی ہے۔       (حاجی عبد الحبیب احمد )

آپ جیسے عامل شریعت والی نعمت کی علمی زندگی سے  ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم راست ( درست) اور سچائی کو اپنا ئیں اور مشکل ترین لمحات میں بھی راست گوئی کو ترک نہ کریں۔              (سیداحد یو سف سابق وزیر تعلیم و اطلا عا ت سندھ)

آپ زہدوتقو یٰ میں بے مثال تھے حسن اخلاق میں لا ثانی تھے اور عہد وفا میں با کمال تھے۔

                                                          ( پر وفیسر محمد عثمان ہنگو ڑو )

آپ نے مسلک اعلیٰ حضرت کی بقا ء اور فروغ میں شاندار کردار ادا کیا جو نا قابل فر اموش ہے۔

                                                          (حاجی محمد حنیف طیب صاحب)

آپ حسن و جمال ، مہر و محبت، عہد ووفا، صبرو رضا، جو دو سخا اور زہد و تقو یٰ کے نو رانی پیکر تھے۔

                                                          (محمد اقبال جان محمد)

آپ کا شمار ان عارفا ن باللہ (جن لو گوں کواللہ کی پہچا ن ہے) میں ہوتا ہے جنھو ں نے انسا نیت کوبے راہ روی سے ہٹا کر راہ راست پر گامزان کیا۔                                         (محمد رفیق پکل)

پیر طریقت علامہ حافظ قاری مصلح الد ین صد یقی قادری علیہ الرحمہ واجعلنا للمتقین اماما کا تفسیری پیکر تھے۔

                                                          (حافظ محمد شکیل اوج)

مولانا ضیا ء الدین مدنی کے دربار میں بار ہادیکھا کہ کوئی مولانا ضیا ء الدین مدنی سے شرف بیعت کے لئے آتا تو آپ قا ری صاحب سے اسے بیعت کروادیتے اور فرما تے کہ میرے سارے مرید قاری صاحب کے مرید ہیں۔

                                                          (نثار میمن جنرل سکیر یڑی میمن گجر اتی سپریم کو نسل)

الحمد اللہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضرت قاری صاحب میرے پیرو مرشد ہیں، حضرت قاری صاحب کی خدمت کا موقع مدینہ منورہ میں بارہا ملا کئی بار ناشتہ کے اہتمام کا شرف حاصل رہا مدینہ منورہ کی مشہور عربی ڈش’’ عربی حریس‘‘ پسند فرماتے تھے نا شتہ  میں مولانا ضیا ء الدین مدنی کے صاحبزادے درویش قلند ر مدینہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن علیہ الرحمہ بھی حضرت کے ساتھ رونق افروز ہو تے اور بڑی علمی گفتگو ان حضرات کے درمیان ہوتی جس سے ہمیں روحانی فیض حاصل ہوا۔        (نثار میمن)

حضرت کی خصو صیت یہ بھی تھی کہ آپ بے لوث لو گوں کی خدمت کرتے اور روحانی فیض پہچا تے تھے اور انہیں کسی قسم کی طمع

(لالچ) نہیں تھی۔                                       (نثار میمن)

آپ اکثر فرمایا کرتے تھے جو بات ( چاشنی ) اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے کلام میں ہے وہ بات کسی اور کے کلام میں کہاں۔

                                                          (محمد اسما عیل کا راصاحب)

اس کتاب۔تذکرہ مصلح اہل سنت، کو مرتب کرنے میں جن کتب سے مدد لی گئی ہے ان کے نام یہ ہیں۔

(۱)ڈاکٹر حسن رضا قا دری، فقہ اسلام ، صفحہ۲۸۰ ،ادارہ تحقیقات امام احمد رضا، کراچی۔

(۲)مولانا محمد مصطفیٰ رضا ( مفتی اعظم ہند ) الملفو ظ۔

(۳)مولانا امجد علی (صد ر الشر یعہ ) مقد مہ فتا ویٰ امجد یہ، جلدا ،مطبو عہ کراچی۔

(۴) مولانا محمود احمد رضوی ( تذکرہ علما ئے اہلسنت،صفحہ ۵۳ ۔

(۵)خصو صیت کے ساتھ، عرفان منزل، مصلح الدین نمبر، اور مزید ذاتی تا ثرات کو شامل کرکے سجایا گیا ہے۔

(تذکرہ مصلح اہلسنت از علامہ بد ر القادری )


متعلقہ

تجویزوآراء