شیخ امدا داللہ مہاجر مکی
شیخ امدا داللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ (بحوالہ نزہۃ الخواطر)
محترم عارف کبیر اجل امداد اللہ بن محمد امین العمری مہاجر مکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو کہ اولیاء سالکین عارفین میں سے تھے ۔ آپ کی تعریف اور تعظیم میں ساری زبانیں متفق ہیں۔
آپ کی بروز پیر بائیسویں صفر۱۳۳۳ھ بمقام نانوتہ جو کہ سہارنپور شہر کے مضافات میں سے ہے ولادت ہوئی۔آپ نے عام دستور کے مطابق فارسی رسالے اور حصن حصین اور مثنوی مولانا قلندر بخش جلال آبادی سے پڑھی ۔ آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے مفتی الٰہی بخش کاندھلوی سے تعلیم حاصل کی ہے ۔ پھر دہلی تشریف لے گئے وہاں شیخ نصیر الدین شافعی مجاہد کی صحبت میں رہنے لگے، اور ان سے طریقت کا سبق لیا۔ ان کی شہادت کے بعد تھانہ بھون لوٹ آئے۔ کافی دنوں تک وہاں قیام کیا پھر لوہاری میں آگئے۔ وہاں نور محمد جھنجھانویرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی صحبت اختیار کی اور حصول طریقت میں مشغول رہے۔ نتیجہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ پر معرفت کے دروازے کھول دیئے اور آپ علماء راسخین فی العلم میں شامل ہو گئے۔
میدان شاملی:
بالآخر اپنے شیخ کے حکم سے ارشاد تلقین کے مسند پر بیٹھ گئے اور مسلمانوں اور باشندگانِ علاقہ نے ۱۲۷۴ ھ میں انگریز کی حکومت پر حملہ کر دیا ۔ غیور مسلمانوں نے سہارن پور اور مظفر نگر میں انگریزوں سے جہاد کا اعلان کر دیا۔اس سلسلہ میں شیخ امداد اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اپنا امیر منتخب کر لیا اور میدان شاملی میں جو کہ مظفر نگر کے مضافات میں ایک دیہات ہے دونوں فریق ایک دوسرے پر حملہ آور ہو ئےلیکن اس میں حافظ محمد ضامن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے شہادت پائی اور اب مسلمانوں کاا لٹ ہو گیا۔ اور انگریزوں کے قدم جم گئےاور انگریزوں کا حملہ ہر اس مسلمان پر سخت ہو گیا جس کے متعلق ذرہ برابر بھی اس بات کا شبہ ہوا کہ اس نے حملہ میں شرکت کی تھی۔
ہجرت مکہ:
غیور عامل علماء پر دنیا تنگ ہو گئی یہاں تک کہ ان کا ہندوستان میں رک کر کچھ کام کرنا محال ہو گیا ، ویسے کچھ ساتھیوں نے چھپ چھپا کر بھی اپنا عمل جاری رکھا اور لوگ اپنے علاقہ کو چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے او رشیخ امداداللہرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مکہ مکرمہ ہجرت کرنے کو ترجیح دی۔
۱۲۷۶ھ میں مکہ مکرمہ میں داخل ہو گئے بالآخر آپ کی سواری بلد امین میں داخل ہو گئی وہاں پہنچ کر آپ نے سب سے پہلے مقام صفاء پر قیام کیا پھر وہاں سے حارۃ الباب پر پہنچ کر آپ نے لوازمات زندگی پوری کیں۔اور اپنے رب سے ملاقات فرمائی۔
انوارِ خداوندی:
کافی مدت تک آپ نے انتہائی تنگی اور فقرو فاقہ کی حالت میں اپنے شب وروز گذارے ، آپ کے اسلاف کی شان تھی اس حالت پر مطمئن بھی تھے اور جو بھی حالت اللہ تعالیٰ نے ان دنوں میں آپ کے لئے مقدر فرمادی تھی اس پر پوری طرح سے خوش تھےبالآخر اللہ تعالیٰ نے آپ کی تنگ حالی کو فراخی سے بدل دیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی دنیا آپ کے پاؤں میں آگئی۔ اور آپ مکمل طور سے مجاہدات وعبادات میں مشغول ہو کر دل و جان سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ یعنی ہمیشہ ذکر او رمراقبہ میں رہنے لگے اس حال میں کہ آپ کے قلب و باطن سے علوم الہٰیہ اور انوار ِ خداوندی کے چشمے بہنے لگے، مکمل طور پر نفس کشی کرتے ہوئے اور عبودیہ کے چوکھٹ پر خود کو ڈالے ہوئے اور مخلوق خدا کے ساتھ انکساری وتواضع کرتے ہوئے اور بلندہمتی اور انتہائی ہوشیاری اور احتیاط اور علم اور علماء کی عظمت پہچانتے ہوئے ، شریعت اور اس چمکدار روشن سنت کی عظمت کرتے ہوئے،
یہا ں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں محبت ڈال دی اور تمام بڑے بڑے علماء و مشائخ آپ کی طرف جھک گئے اور آپ سے استفادہ کرنے لگے۔ دور دور سے معرفت اور یقین کے خواہشمند آپ کے گرویدہ ہو کر آپ کے کےپا س آنے لگے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی تربیت اور طریقت میں برکت پیدا کر دی ، اس طرح ان دونوں باتوں کے انوار سارے جہاں میں پھیل گئے۔اور طریق چشتیہ صابریہ کو از سر نو زندہ کیا اور بڑے بڑے علماء و فضلاء نے خود کو اس کی طر ف منسوب کیا اور اس طریقہ میں داخل ہو گئے۔ بے شمار مخلوق خدا نے اس سے نفع حاصل کیا۔
چند فیض یافتہ:
جن میں سے چند مشہور ترین علماء کرام یہ ہیں ۔
(۱)شیخ المشا ئخ حضرت علامہ انوار اللہ شاہ صاحب چشتی صابری علیہ الر حمہ(مصنف انوار احمدی)
(۲)حضرت مولانا احمد حسن علیہ الرحمہ کا نپوری (ادارہ فیضا ن عام کا نپور کے محدث و مفسر تھے)
(۳)فا ضل جلیل عالم نبیل حضرت علامہ مولانا عبدالسمیع بیدل صاحب
(۴)حضرت فاضل جلیل عالم نبیل پیر طریقت رہبر شر یعت پیر سید مہر علی شاہ صاحب چشتی صابری علیہ الر حمہ (گو لڑہ شریف)
(۵)حضرت مولانا استاذ الا سا تذہ احمد حسن صاحب (الٰہ آبادی)
(۶)مقرر شعلہ بیاں علامہ سید حمزہ صاحب چشتی صابری دہلوی علیہ الرحمہ
(۷)عالم باعمل صوفی باصفاء حضرت علامہ شفیع الدین نگینوی علیہ الرحمہ
(۸)قدوۃ السالکین زبدۃالعا رفین رہبر شریعت پیر طریقت حضرت علامہ مولاناشاہ محمد کرامت اللہ خاں صاحب چشتی صابری رام پوری دہلوی علیہ الرحمہ
(۹)بعد ہٗ ان کے فرزند ار جمند حضرت علامہ حافظ محمد مسعود احمد صاحب چشتی صابری علیہ الرحمہ نے اس سلسلے کو آگےبڑھایا۔
بالآخر یہ تمام حضرات اپنے زمانہ میں شیوخ ہو گئے اور بڑی تعداد میں مخلوق خدا کو ان سے نفع پہنچا ۔
حلیہ اور وضع قطع:
آپ قدرتی طور پر درمیانہ قد مگر کچھ لانبائی مائل تھے۔ دبلا بدن، گندمی رنگ ، بڑے سر ، چوڑی پیشانی ، باریک اور لمبی ابرو، بڑی آنکھوں والے، شیریں زبان ، بہت زیادہ محبت والے ، ہنس مکھ، ہر وقت ہشاش بشاش رہنے والے، بہت کم سونے والے، مختصر سا کھانے والے،محبت الہٰیہ نے آپ کو لا غر کردیا تھااور مجاہدات و ریاضات نے دبلا پتلا کر دیا تھا بہت ہی باوقار ، وسیع القلب ، مختلف لوگوں کو اکٹھا کر دینے والے تھے وہ لوگ جو مختلف ذوق ومشرب کے ہوتے وہ بھی محبت کے ساتھ ملتےاور آپ سے استفادہ کرتے، لوگوں سے چشم پوشی کرنے والے ، ایسے کسی مسئلہ میں تعصب اور سختی سے پیش نہ آتے، مثنوی و معنوی کے بڑے دلدادہ، ہمیشہ ہی اس میں غور وفکرتےرہتے اور لوگوں کواس کا درس دیتے رہتے، خود بھی اس سے لذت حاصل کرتے اور لوگوں کوبھی اس پر آمادہ کرتے اپنے لوگوں کو اس کے پڑھتے رہنے اور اس میں غور وفکر کرنے کی نصیحت فرماتے۔
تصانیف:
آپ کی بہت سی پاکیزہ تصنیفات ہیں ساری محبت الہٰی ، معرفت اور تصوف میں ہیں ان میں سے ایک (۱) ضیاء القلوب ہے جو کہ فارسی زبان میں ہے۔ (۲) ارشاد مرشد،(۳) گلزار معرفت(۴) تحفۃ العشاق(۵) جہاد اکبر(۶) غذاء روح(۷) دردنامہ غم ناک ۔ یہ سب کی سب اردو میں ہیں جب کہ ان میں اکثر اشعار میں ہیں۔
آپ نے بروز بدھ ۱۲ جمادی الثانی ۱۳۱۷ ھ میں وفات پائی ، مقام معلاۃ میں اپنے شیخ کیرانوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قریب دفن کئے گئے۔