حضرت امام سری سقطی

حضرت امام سری سقطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

سرّی نام۔ ابوالحسن کنیت۔ حضرت شیخ معروف کرخی کے نامور مرید و خلیفہ تھے۔ اپنے عہدے کے مقتدائے زماں، شیخِ وقت، صاحبِ علم اور امامِ اہلِ طریقت تھے۔ سب سے پہلے بغداد میں آپ ہی نے برسرِ منبر حقائقِ توحید بیان کیے۔ عراق و عجم کے اکثر مشائخ آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل تھے۔ پیشہ تجارت تھا۔ خوردہ فروشی کی دوکان تھی۔ متفرق چیزیں بیچا کرتے تھے۔ اس لیے سقطی مشہور ہوگئے (سقطی خوردہ فروش بساطی متفرق چیزیں بیچنے والے کہتے ہیں) دکان بازار میں تھی جس میں پردہ ڈال رکھا تھا۔ ہر روز ایک ہزار رکعت نمازِ نفل ادا کرتے تھے۔ دس دینار پر نصف دینار سے زیادہ نفع نہ لیتے تھے۔ ایک دن ساٹھ دینار کے بادام اکٹھے خرید لیے۔ ساتھ ہی بازار میں باداموں کا بھاؤ چڑھ گیا۔ ایک دلال آپ کے پاس آیا اور کہا کہ حضرت بادام بیچ ڈالیے۔ فرمایا: میں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کرلیا۔ کہ میں دس دینار پر نصف دینار سے زیادہ نفع نہ لوں گا۔ دلال نے کہا: میں آپ کے مال کو خسارہ پر نہیں گا۔ فرمایا: میں اپنے وعدے کے خلاف نہیں کروں گا۔ اس پر نہ دلال نے بادام فروخت کیے نہ آپ نے دئیے۔

ایک دفعہ بازار میں آگ لگ گئی۔ جب یہ خبر شیخ نے سُنی تو کہا: مقامِ شکر ہے متاعِ دنیا سے خلاصی پائی۔ جب آگ بُجھ گئی تو معلوم ہوا کہ شیخ کی دوکان بچ گئی ہے۔ یہ سن کر نہایت رنجیدہ ہوئے۔ کہا مسلمان بھائیوں کے ساتھ نقصان میں موافقت کرنا واجبات سے ہے۔ تمام مال راہِ خدا میں درویشوں کو دے دیا۔

ایک روز شیخ سے لوگوں نے دریافت کیا: آپ کے احوال کی ابتدا کس طرح ہوئی؟ فرمایا: ایک روز حبیب راعی قدس سرہٗ میری دکان کے سامنے سے گزر ے میں نے انہیں کچھ دیا کہ درویشوں میں بانٹ دیجیے۔ انھوں نے کہا اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔ اس روز سے مال میرے لیے بے حقیقت ہوگیا ہے۔ دُوسرے روز شیخ معروف کرخی آئے اُن کے ساتھ ایک یتیم بچّہ تھا۔ آپ نے فرمایا اِسے کچھ کپڑا دو۔ میں نے اُسے کپڑا دیا۔ فرمایا حق تعالیٰ دنیا کو تیرے دل کے لیے دشمن کردے اور تجھے اِس شغل سے راحت دے۔ اُسی روز سے میں دنیا و اہلِ دنیا سے فارغ ہوگیا۔

سیّد الطائفہ شیخ جنید بغدادی﷫ فرماتے ہیں: میں نے کسی کو عبادت میں سری سقطی سے زیادہ کامل نہیں پایا۔ ۹۸؍سال کامل گزر گئے کہ زمین پر پہلو تک نہیں رکھا بجز بیماری و مرض الموت کے۔

ایک روز شیخ کی بہن آئی دیکھا کہ گھر میں ہر طرف کوڑا کرکٹ بِکھرا پڑا ہے۔ شیخ سے جھاڑو دینے کی اجازت مانگی۔ آپ نے اجازت نہ دی۔ دوسرے روز شیخ کی بہن پھر آئی۔ دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت گھر میں جھاڑو دے رہی ہے۔ کہا سبحان اللہ مجھے تو جھاڑو دینے کی اجازت نہ دی مگر اس نامحرم عورت کو دے دی۔ فرمایا اے ہمشیریہ بوڑھی عورت نہیں ہے۔ یہ دنیا ہے جو میرے عشق میں جلتی تھی اور مجھ سے محروم تھی۔ اب اس نے اللہ تعالیٰ سے چاہا کہ اپنا نصیبہ مجھ سے حاصل کرے اِس لیے اسے میرے گھر کی جاروب کشی کا حکم ہوا ہے۔

ایک رات حضرت یعقوب﷤ کو خواب میں دیکھا۔ کہا اے جدِ پیغمبراں دنیا میں گرفتارِ عشق یوسف﷤ ہوکر یہ کیا شوروفغاں پیدا کردیا۔ عشقِ یوسف﷤ کے ساتھ عشقِ حق کِس طرح جمع ہوسکتا ہے۔ غیب سے ندا آئی۔ سری خاموش رہ یوسف کے جمالِ جہاں آراء کو دیکھ۔ جونہی جمالِ یوسف﷤ کو دیکھاغش کھا کر گِر پڑے تِیسرے روز ہوش میں آئے۔ پھر ندائے غیبی آئی سری یہ اس شخص کی سزا ہے جو عاشقانِ خدا کو ملامت کرتا ہے۔

ایک روز شیخ مجلس میں بیٹھے تھے کہ خلیفہ بغداد کا ایک مصاحب شیخ احمد نامی گھوڑے پر سوار اس طرف سے گزرا۔ شیخ نے توجہ باطنی دی وہ اُسی وقت گھوڑے سے اُتر کر حاضرِ خدمت ہوا۔ شیخ نے فرمایا: ایزو تعالیٰ کی اَن گنت مخلوق میں سے آدمی سے زیادہ کوئی چیز ضعیف نہیں ہے۔ نیز انواعِ خلق میں سے کوئی چیز اتنی گناہ گار بھی نہیں ہے جتنا اپنی ضعیفی کے باوجود انسان ہے۔ کاش یہ ناکارہ اپنی قدرومنزلت جانتا کہ میں کیا چیز ہوں اور کس چیز سے پیدا ہوا ہوں۔ شیخ کا یہ کلام نشتر کی طرح شیخ احمد کے دل میں اتر گیا۔ اس قدر رویا کہ ہوش جاتے رہے۔ جب اپنے آپ میں آیا تو پھر اسی طرح روتا ہُوا اپنے گھر چلا گیا۔ رات بھر نہ کسی سے بات چیت کی نہ کُچھ کھایا پیا۔ صبح پھر خدمتِ شیخ میں حاضر ہوا کہا اے استاد تیرا یہ سخن میرے دل میں گھر کرلیا ہے۔ دنیا میری نظروں میں ہیچ و ناکارہ ہوگئی ہے۔ اب دل میں یہی سمائی ہے کہ ترکِ علائق کرلوں۔ اس معاملے میں میری رہنمائی کیجیے۔ فرمایا: اس منزل کی طرف ایک راہِ عام ہے اور ایک راہِ خاص ہے۔ راہِ عام تو یہ ہے کہ پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کی جائے۔ مال ہوتو اس کی زکوٰۃ دی جائے۔ ماہِ رمضان کے روزے رکھے جائیں۔ حجِ بیت اللہ کیاجائے۔ خدائے تعالیٰ کی توحید اور حضرت محمّد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا دل و جان سے اقرار کیا جائے۔ راہِ خاص یہ ہے ان کے ساتھ ترکِ دنیا کی جائے۔ کسی آرام و آسائش کی طرف توجہ نہ دی جائے۔ اگر کچھ دیا بھی جائے تو نہ لیا جائے۔ غیر اللہ سے پوری طرح رُوگردانی کی جائے۔ دل کو اللہ کے ساتھ لگایا جائے۔ یہ سن کر شیخ احمد نے کہا اے استاد اللہ آپ کو جزائے خیر دے میں دوسرا راستہ اختیار کرتا ہوں۔ چند روز کے بعد ایک بوڑھی عورت بد حال و گریاں خدمتِ شیخ میں آئی اور کہا۔ اے امامِ اہل اسلام میرا جواں ہمّت بیٹا ایک روز تیری مجلس میں آیا اور دیوانہ ہوکر گیا۔ اب میں نہیں جانتی کہ وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔ اُس عورت کی حالتِ زار پر شیخ کا دل پسیجا۔ کہا غم نہ کھا، پریشان نہ ہو۔ تیرا بیٹا جب آگیا تجھے اطلاع دوں گا۔ ایک رات شیخ احمد خدمتِ شیخ میں حاضر ہوا۔ آپ نے ایک خادم سے کہا جاؤ اس کی ماں کو بُلا لاؤ۔ جب اس کی ماں اس کے اہل و عیال کے ساتھ آئی تو سب نے اسے دیکھ کر نالہ و فریاد کرنا شروع کردیا۔ ہر چند چاہا کہ ان کے ساتھ گھر چلے مگر وہ کسی طرح راضی نہ ہُوا بلکہ شیخ سے کہا آپ نے ان لوگوں کو ناحق بلایا ہے اور میرا وقت خراب کیا ہے۔ یہ تو میرے لیے وبالِ جان ہوگئے ہیں۔ میرا وقت جو یادِ الٰہی میں صرف ہونا تھا وہ غارتِ غول ہورہا ہے۔ اِس پر اس کی بیوی بولی: تُونے اپنا بنا بنایا کام خراب کردیا ہے اور اپنے جیتے جی بانک بگاڑ دی ہے۔ مجھ پر تو جو گذرے گی اس کو خوش و نا خوش اپنے سر پر لوں گی۔ اِس اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لیتا جا۔ اس نے کہا: بہت خوب۔ اس وقت لڑکے نے جو لباسِ فاخرہ زیبِ تن کر رکھا تھا باپ نے اسے اتروا دیا اور اس کے بجائے اسے پرانی گڈری پہنادی اور ہاتھ میں زنبیل دے دی۔ لڑکے کی ماں نے جو یہ صورت دیکھی تو بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لے گئی اور شیخ احمد﷫ نے اپنی راہِ دشت لی چند سال کے بعد ایک شخص خانقاہِ شیخ سری﷫ میں آیا اور کہا مجھے شیخ احمد نے بھیجا ہے۔ وہ کہتا ہے میرے سانس اڑی ہوئی ہے۔ ابھی وقتِ ملاقات ہے تشریف لائیے شیخ سری﷫ اس شخص کے ساتھ ہولیے۔ جب وہاں پہنچے تو دیکھا شیخ احمد﷫ خاکِ گورستان پر پڑا ہُوا ہے اور کوئی دم کا مہمان ہے مگر زبان کو حرکت دیتا ہے۔ شیخ سری﷫ نے اس کے سر کو اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا۔ شیخ احمد﷫ نے آنکھ کھولی اور کہا مرحبا بروقت آئے۔ یہ آخری ملاقات ہے یہ کہا اور واصل بحق ہوگیا۔ شیخ سری﷫ اُٹھے اور چاہا کہ تجہیز و تکفین کا سامان کریں اس کو وہاں چھوڑا اور شہر کی طرف چل پڑے۔ دیکھا کہ لوگوں کی ایک کثیر جماعت گورستان کی طرف آرہی ہے۔ پوچھا کہاں جارہے ہو؟ انہوں نے کہا کیا آپ کو خبر نہیں کہ اس وقت آسمان سے آواز آرہی ہے کہ جو چاہتا ہے کہ خدا کے ولی کی نمازِ جنازہ پڑھے وہ گورستان کو جائے۔ پس ایک انبوہِ کثیر شیخِ احمد﷫ کی نمازِ جنازہ میں شریک ہوا اور اُس کے جسمِ پاک کو سپرد خاک کردیا گیا۔

حضرت جنید﷫ فرماتے ہیں شیخ سری﷫ مرض الموت میں تھے۔ میں اُن کی عیادت کو گیا دیکھا کہ ایک پنکھا قریب ہی گرا ہوا ہے اُسے اٹھا کر ہلانے لگا۔ شیخ نے آنکھ کھولی اور کہا جنید﷫ پنکھا ہاتھ سے رکھ دے۔ مجھے ہوا نہ دے۔ ہوا سے آگ تیز تر ہوتی ہے۔ میں نے کہا: مجھے نصیحت کیجیے۔ فرمایا خلق کے ساتھ مشغول اور خالق کے ساتھ شاغل رہ۔

آپ کا فرمان ہے مرد وُہ ہے جو بازار میں بھی ذکرِ حق میں مشغول رہے۔ خرید و فروخت بھی کرے لیکن یادِ الٰہی سے بھی غافل نہ رہے۔

فرمایا: بہادر وُہ ہے جو اپنے نفسِ امارہ پر غالب آئے۔

فرمایا: ادب دل کا ترجمان ہے جو شخص اپنے نفس کی تربیت و تادیب سے عاجز ہے وہ دوسروں کو کیا ادب سکھا سکتا ہے۔

فرمایا: پانچ چیزیں دل میں نہیں رہتیں اگر دل میں دوسری چیز موجود ہو:

۱۔ خدا کا خوف ۲۔ رجا
۳۔ محبت ۴۔ حیا
۵۔ خلق سے شفقت

فرمایا: خلقِ خدا وہ ہے جس سے مخلوق کو تکلیف و آزار نہ پہنچے۔

۳؍رمضان ۲۵۷ھ میں وفات پائی! مِرقد گورستان شونیز بغداد میں زیارت گاہِ خلق ہے۔

قطعۂ تاریخ وفات:

شیخ سرّی امینِ سرِّ خدا
سالِ وصلش بجوز قطب الحق
۲۵۰ھ

محرم راز و واقفِ تقدیر
باز خَواں سنِ ارتحالش میر
۲۵۰ھ

(خزینۃ الاصفیاء قادریہ)


متعلقہ

تجویزوآراء