حضرت خواجہ مؤید الدین محمد باقی باللہ قدس سرہ
کابل (افغانستان) (۹۷۱ھ/ ۱۵۶۴ء۔۔۔۱۰۱۲ھ/ ۱۶۰۳ء) دہلی (انڈیا)
قطعۂ تاریخ وصال
تھے ولی ابنِ ولی ابنِ ولی ابنِ ولی |
|
صاحبِ کشف و کرامت شہِ باقی باللہ |
(صاؔبر براری، کراچی)
حضرت خواجہ محمد باقی عرف باقی باللہ قدس سرہ کی ولادت با سعادت ۵؍ذوالحجہ ۹۷۱ھ بمطابق ۱۵؍جولائی ۱۵۶۴ء کو کابل (افغانستان) میں ہوئی جہاں آپ کے والد گرامی قاضی عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ ایک عرصے سے اپنے قبائل سمیت سکونت پذیر تھے۔ قاضی صاحب، صاحبِ وجد و حال، اربابِ فضل و سخا اور صاحبِ کشف و کرامت میں سے تھے۔ کابل ہی میں شادی کرکے مستقل طور پر رہ پڑے تھے۔ آپ کا قلب مبارک اس قدر نرم تھا کہ خوفِ الٰہی سے اکثر گریہ و بکا میں رہتے تھے چونکہ اُس زمانے میں بڑے علماء کو شیوخ کے قلب سے سرفراز کیا جاتا تھا اس وجہ سے قاضی صاحب کو بھی شیخ کے لقب سے پکارا جاتا تھا آپ ترک خلجی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
بچپن ہی سے بزرگی و ہمت اور تجرید و تفرید کے آثار حضرت خواجہ باقی باللہ کی پیشانی سے ظاہر تھے ؎
بالائے سرش زہوشمندی |
|
می تافت ستارۂ بلندی |
اُن ایام میں بعض اوقات آپ تمام دن گوشۂ تنہائی میں گزار دیتے تھے۔ مولانا صادق حلوائی[۱] جو کابل کے علماء کبار میں سے تھے، سے علومِ رسمی کی تعلیم شروع کی اور اُن کی رفاقت میں کابل سے ماوراء النہر چلے گئے۔ اپنی علوِ فطرت کے سبب سے تھوڑے ہی عرصہ میں اپنے ہمعصروں میں امتیاز حاصل کرلیا۔
[۱۔ مولانا صادق حلوائی کا وطن سمرقند تھا جب وہ ۹۷۸ھ میں حج سے واپس تشریف لائے تو شہنشاہ اکبر کے چھوٹے بھائی مرزا حکیم نے جو کابل کا حکم تھا، مولانا سے درخواست کی کہ وہ کچھ عرصہ کابل تشریف لاکر انہیں اور وہاں کے لوگوں کو اپنے علمی فیض سے مستفید ہونے کا موقع دیں۔ لہٰذا وہ اس کی فرمائش پر کچھ عرصہ کابل میں درس دیتے رہے۔ اسی زمانہ میں حضرت خواجہ باقی باللہ نے بھی اُن سے تعلیم حاصل کی۔ وہ بہت بڑے عالم و فاضل اور خوش گو شاعر بھی تھے۔ اُن کے بھائی ملا علی محدث سمرقندی بھی بہت بڑے عالم اور محدث تھے۔ مولانا صادق حلوائی ہندوستان بھی آئے، کچھ عرصہ علم و فضل کے خزانے لوٹانے کے بعد واپس وطن تشریف لے گئے اور ۹۸۱ھ میں وفات پائی نمونہ کلام ملاحظہ ہو ؎
دل گم شدد نمی دہم کس نشان ازو |
|
درخندہ است لعل نو دارم گماں ازد |
علومِ رسمی کا ابھی کچھ حصہ باقی تھا کہ آپ کو درویشی کا شوق دامنگیر ہوا۔ اس لیے آپ ماوراء النہر کے شہروں میں جو اُن دنوں مشائخ کبار کا مخزن و معدن تھا، اولیاء اللہ کی تلاش میں گشت لگاتے پھرے۔ بعضوں سے استفادہ کیا اور بعضوں کے ہاتھ پر توبہ و انابت کی تجدید کی چنانچہ آپ خود یوں ارشاد فرماتے ہیں:
’’پہلے پہل خواجہ عبیداللہ کی خدمت میں گناہوں سے توبہ کی گئی لیکن رجوع کا خیال اور ترک کا عزم باطن میں تھا اور فاتحہ کی التماس ظاہر میں۔ خواجہ عبیداللہ، مولانا لطف اللہ کے خلفاء میں سے تھے اور مولانا لطف اللہ مولانا خواجگی و ہبیدی علیہ الرحمۃ کے خلیفہ تھے مگر جب استقامت کی توفیق حاصل نہ ہوئی تو دوسری بار حضرت بندگان افتخار شیخ کی خدمت میں توبہ کی گئی جو سمر قند میں تشریف رکھتے تھے اور حضرت خواجہ احمد بسوی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ کے اکابر میں سے تھے۔ اگرچہ شیخ سمرقندی راضی نہ تھے اور فرماتے تھے کہ تم ابھی جوان ہو، لیکن چونکہ فقیر کا رادہ متصمم تھا، ناچار آپ نے فاتحہ پڑھی ا ور فرمایا کہ خدا استقامت بخشے۔ ان بزرگوں کی فراست کے مطابق عزیمت درہم برہم ہوگئی اور عجیب خرابی پیدا ہوئی۔ تیسری مرتبہ فقیر کے مقصد و اختیار کے بغیر حضرت امیر عبداللہ خلجی کی خدمت میں از سر نو توبہ ظہور میں آئی۔ یہ غیر مترقب نعمت تھی، اُمید ہے کہ ان بخششوں کی برکتیں قیامت تک رہیں گی۔ القصہ کچھ مدت اور نگہداشتِ حدود کے مقام میں رہا، پھر اسم المضل کی تاثیر نے اس دیوار کو توڑ دیا، آخرکار خدائے بے نیاز کی ہدایت سے خواب میں خواجۂ بزرگ حضرت خواجہ بہاء الحق والدین قدس سرہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اور اُن کی خدمت میں صورتِ توبہ منعقد ہوئی۔ اور اہل اللہ کے طریقہ کی طرف میلان ظہور میں آیا۔ فقیر بموجب
الغریق بتشبت بکل حشیش
’’ڈوبنے والا ایک ایک تنکے کا سہارا ڈھونڈتا ہے‘‘۔
ہر طرف ہاتھ مارتا تھا۔ انجام کار مخدوموں میں سے بعض نے فرمایا کہ ذکر وہی نتیجہ خیز ہے جو بطریق عنعنہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچے۔ میری تشنگی و بیقراری نے مجھے اس پر آمادہ کیا کہ اسی بزرگ سے ذکر و مراقبہ کا طریق کا طریق حاصل کیا جائے۔ چنانچہ دو سال اسی مخدوم کے بتائے ہوئے ذکر ومراقبہ اور اوراد کی پابندی کی گئی۔ میرے سننے میں آیا تھا کہ سالک جب تک قریباً چالیس سال لا الہ کے میدان کو طے نہیں کرتا الا اللہ کی منزل پر نہیں پہنچتا۔ اس لیے سادہ لوحی یہ خیال دلاتی تھی کہ عمر ذکر میں گزرنے کو غنیمت سمجھ اور اسی طرح کی عبادت پر قناعت کر۔ اگرچہ اس اثنا میں دوسرے طریقہ کے سلوک کے لیے غیبی اشارے ظہور میں آتے تھے مگر اپنے مضبوط قدم کو جگہ سے نہ اٹھاتا تھا اور اسی طبقہ (نقشبندیہ) کے بزرگوں کی زمینِ کرم میں وَفِیھا ما تشتھیہ الانفس (اور اس میں وہ چیز ہے جسے جی چاہے) کا بیج ہوتا تھا بدیں امید کہ ان شاء اللہ العزیز آخر کار کسی بزرگ کا دستِ کرم اس بھیج کو مالا عین رأت ولا اذن سمعت کی نہر سے سیراب کرے گا۔ آخر کار ۹۹۹ھ میں فقیر کشمیر میں پہنچا اور حضرت بابا والی قدس اللہ سرّہ العالی کی ملازمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہو ااور اُن کی نظر کی برکتوں سے بہرہ مند ہوا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے کہ ان چیزوں سے قبول کا دروازہ کھل گیا چونکہ حضرت شیخ کو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی بھی اجازت تھی اور فقیر طالب کی استعداد اس بزرگوار کے آستانہ کی طرف متوجہ تھی اس لیے اسی خانوادہ کی کھڑکی سے فیضانِ الٰہی پہنچنا شروع ہوا۔ جب حضرت شیخ ۱۵؍صفر ۱۰۰۱ھ کو انتقال کرگئے تو حضرتا خواجگانِ نقشبندیہ کی غیبتِ معہودہ جلوہ گر ہوئی اور اُن کی پاک روحیں مبشرات میں نظر آنے اور طرح طرح کی تلقین کرنے لگیں۔ اُن کی توجہ کی برکت سے اس نسبت میں قوت پیدا ہوگئی۔ اور غیبت کا دائرہ وسیع اور راستہ روشن ہوگیا اور ایک قسم کی جمعیت حاصل ہوئی۔ یہاں تک کہ اُن کی عنایات کی کشش سے مخدومی حقائق پناہی ارشاد دستگاہی حضرت مولانا خواجہ محمد مقتدیٰ امکنگی قدس سرہ العزیز کی خدمت میں رسائی ہوگئی اور خوشی و رغبت سے اُن سے بیعت و مصافحہ کرکے خواجگان کا طریقہ حاصل کیا گیا۔ حضرت کی ملازمت، خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ اور اُن کے خلفاء کی پاک روحوں کی طفیل سے اس راستہ کے چلنے والوں اور اُس درگاہ کے نیاز مندوں کے سلسلہ میں داخل ہوگیا یا اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھنا اور مسکینی کی حالت میں موت دینا اور مسکینوں کے زمرہ میں اُٹھانا۔ والسلام علی من اتبع الہدیٰ‘‘۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ اپنی کتاب ’’انفاس العارفین‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت خواجہ محمد باقی باللہ تلاش مرشد میں دہلی بھی تشریف لائے اور حضرت شیخ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں اُن کے صاحبزادے شیخ قطب العالم رحمۃ اللہ علیہ کے پاس رہے۔ اُسی زمانے میں شیخ قطب العالم رحمۃ اللہ علیہ کو کشف سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت خواجہ باقی باللہ کو فیضِ روحانی مشائخِ بخارا سے حاصل ہوگا لہٰذا انہوں نے اس کا ذکر حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ سے کیا اور انہیں بخارا روانہ کیا۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت خواجہ امکنگی قدس سرہ سے بیعت ہونے سے پیشتر آپ جب ہندوستان تشریف لائے تو یہاں آپ کے ہمسروں میں سے بعض لوگوں نے جو شاہی مناصب پر مامور تھے۔ آپ کی مادی ترقی کی غرض سے چاہا کہ آپ بھی اربابِ لشکر کے زمرہ میں داخل ہوکر دینوی دولت و متاع سے تونگری حاصل کریں لیکن چونکہ آپ کی قسمت میں دولتِ دین و متاع کی تونگری مقدر تھی، اس لیے اُن کی کوشش رائیگاں گئی۔ ایک درویش جو آپ کے ہمراہ تھا، بیان کرتا ہے کہ آپ نے سالکوں اور مجذوبوں کی تلاش میں اس قدر کوشش کی کہ اس سے بڑھ کر طاقتِ بشری ہے متصور نہیں۔ شہر لاہو میں برسات کے موسم میں کیچڑ کی کثرت سے گلی کوچوں میں گزرنا بہت دشوار تھا مگر آپ باوجود نازک تنی کے بہت سی گزرگاہوں، ویرانوں، قبرستانوں، بیابانوں اور باغوں کو اربابِ باطن کی ملاقات کے شوق میں روندتے پھرتے تھے۔ ایک روز میرے دل میں ولولہ پیدا ہوا کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں، آپ نے ہر چند منع کیا مگر میں باز نہ آیا۔ جب میں نے چند کوچے آپ کی رفاقت میں طے کیے تو کیچڑ کی کثرت کے سبب سے میں تھک گیا اور میرے پاؤں میں درد ہونے لگا، بپاس ادب و حیا میں اپنا حال ظاہر نہ کرسکتا تھا۔ یہاں تک کہ خود آپ نے میرے حال سے آگاہ ہوکر مجھے واپس کردیا۔ اُس وقت میں نے جان لیا کہ آپ ظاہری قدموں سے نہیں بلکہ دوسرے قدموں سے یہ راہیں طے کر رہے ہیں ؎
قطع ایں راہ بخرپائے جنوں نتواں کرد
حضرت خواجہ قدس سرہ کا ایک اور رفیق بیان کرتا ہے کہ اُن دنوں شہر لاہور کے ایک باغ و قبرستان کے قریب ایک عجیب مجذوب صاحبِ احوال تھا۔ آپ کو اس کے حال سے آگاہی ہوئی تو اس کے پیچھے پھرا کرتے۔ وہ جس وقت آپ کو دیکھتا تو سوائے گالیاں دینے کے کچھ نہ کہتا۔ کبھی آپ پر پتھر پھینکتا اور کبھی آپ سے متنفر ہوکر کسی اور جگہ بھاگ جاتا لیکن حضرت خواجہ قدس سرہ طلب صدق کے سبب سے اس کا پیچھا نہ چھوڑتے حتی کہ ایک روز اُس دیوانہ صورت فرزانہ سیرت کی رگِ مہربانی حرکت میں آئی اور آپ کو اپنے پاس بلاکر حصولِ مراد کے لیے توجہات اور دعائیں کیں۔جن کی برکت سے آپ کو فوائد حاصل ہوئے۔
مولانا محمد ہاشم کشمی اپنی کتاب مستطاب ’’زبدۃ المقامات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک صادق القول صاحبِ دل نے جس اُس وقت حضرت خواجہ قدس سرہ کی خدمت میں حاضر تھا، مجھ سے بیان کیا کہ حضرت ابھی ہندوستان سے ماوراء النہر تشریف نہ لے گئے تھے کہ ایک روز لاہور کی ایک مسجد میں نمازِ فرض ادا کرنے کے لیے تشریف لائے۔ دورانِ نماز آپ کے سینہ سے ایک ہیبت ناک آواز ظاہر ہوئی جس سے تمام نمازی حیران و پریشان ہوئے۔ امام کے سلام پھیرتے ہی آپ نہایت سرعت و تیزی سے مسجد سے نکل گئے اور اُس دن کے بعد دو تین ساتھیوں کو جمع کرکے اپنے مکان پر جماعت کرالیا کرتے تھے۔
ایک اور بزرگ کا باین ہے کہ جو لوگ آپ کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے، اُن میں سے ایک میں بھی تھا۔ ایک روز میں نے اثنائے نماز میں دیکھا کہ حضرت خواجہ کا رُخ مبارک قبلہ کی طرف ہے اور ہماری طرف بھی اور ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر مجھے رعشہ طاری ہوگیا۔ تھرتھراتے ہوئے بڑی دشواری سے میں نے نماز پوری کی اور جو کچھ دیکھا تھا وہ سب آپ کی خدمت میں عرض کیا۔ آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ اس واقعہ کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔
مندرجہ بالا دونوں واقعات اس امر پر شاہد عادل ہیں کہ آپ کو حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال تبعیت و مناسبت حاصل تھی کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ روایت ہے کہ نماز میں آپ کے سینۂ انور سے ایک ایسا جوش اٹھتا تھا کہ جس کی آواز ایک میل تک پہنچتی تھی اور یہ بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ کے فضائل سے ہے کہ آپ جس طرح سامنے دیکھتے تھے بالکل اسی طرح پیچھے سے بھی آپ کو ہر چیز نظر آتی تھی، کیونکہ حضور سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کیفیت و فوقیت ہر وقت حاصل تھی پس حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اس بزرگ کو اگر نماز میں جو معراج مومن ہے، نبی رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کے غایت اتباع کے سبب سے کسی وقت یہ دولت حاصل ہوجائے تو محال نہیں۔ کیونکہ بزرگوں کا قول ہے کہ تابع کامل کو متبوع کے تمام کمالات سے کچھ نہ کچھ ضرور ملتا ہے۔
اگرچہ آپ کو یہ حالات و کمالات حاصل تھے اور طالبانِ حق کا رجوع بھی آپ کے آستانہ کی طرف کثرت سے تھا۔ لیکن آپ کی عالی ہمت، مشخیت اور تعلیم، طریقت پر مائل نہ ہوئی بلکہ ہندوستان سے ماوراء النہر اور بلخ و بدخشاں تک کشاں کشاں لے گئی تاکہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اور دیگر سلاسل کے بزرگوں کی صحبت میں پہنچ کر فوائد حاصل کریں اور احوالِ حاصلہ کی تصحیح فرمائیں۔ اس سفر میں آپ مولانا شیر غانی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر وہاں سے سمرقند کو روانہ ہوئے۔ راستے میں ہندوستان کے بعض دوستوں کو آپ نے ایک خط لکھا جس کا آغاز اس شعر سے کیا ؎
من از محیطِ محبت نشاں ہمے دیدم |
|
کہ استخوانِ عزیزاں بساحل اُفتاد است |
اسی سفر میں آپ ماوراء النہر کے ایک شہر کو جا رہے تھے کہ حضرت خواجہ محمد مقتدیٰ امکنگی قدس سرہ واقعہ میں آپ پر نمودار ہوئے اور فرمانے لگے:
’’اے فرزند! چشم ما بر راہِ شما است‘‘۔
’’اے بیٹے! ہماری نظریں تمہاری راہ پر لگی ہوئی ہیں‘‘۔
آپ اس واقعہ سے بہت خوش ہوئے اور بے ساختہ یہ شعر آپ کی زبان پر جاری ہوگیا ؎
مے گزشتم زغم آسودہ کہ ناگہ زکمیں |
|
عالم آشوب نگا ہے سرِ راہم بگرفت |
میں غم سے آسودہ جا رہا تھا کہ اچانک گھات میں سے ایک جہاں آشوب نگاہ نے مجھے راستے میں گھیرلیا۔
المختصر جب آپ حضرت خواجہ امکنگی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپ پر نہایت عنایات و رعایات مبذول فرمائیں اور آپ کے احوالِ حاصلہ سن کر آپ کو تین دن رات اپنی صحبت میں رکھا اور بعض مزید فوائد کی اطلاع دے کر فرمایا کہ تمہارا کام اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس سلسلہ عالیہ (نقشبندیہ) کے اکابر کی روحانیت کی تربیت سے انجام کو پہنچ گیا ہے لہٰذا اب تم پھر ہندوستان چلے جاؤ تاکہ تمہارے ذریعہ سے یہ سلسلہ عالیہ وہاں پوری رونق پائے اور وہاں کے عالی قدر مستفید تمہاری تربیت کی برکت سے کامیابی حاصل کریں۔
آپ نے انتہائی عاجزی و انکساری سے بہت عذر پیش کیے مگر حضرت خواجہ امکنگی قدس سرہ کا اصرار بڑھتا گیا اور استخارہ کا حکم دیا۔ آپ نے استخارہ کیا تو دیکھا کہ ایک خوبصورت طوطی شاخ پر بیٹھا ہے۔ دل میں خیال کیا کہ اگر وہ طوطی شاخ سے اُڑ کر میرے ہاتھ پر آکر بیٹھ جائے تو میرے لیے اس سفر میں بہت سے فتوح ظاہر ہوں گے۔ اس خیال کا آنا تھا کہ طوطی اڑ کر میرے ہاتھ پر آبیٹھا اور میں نے اپنا لعابِ دہن اُس کے منہ میں ڈالا اور اُس طوطی نے میرے منہ میں شکر ڈالی۔ اگلے دن استخارہ کا سب حال حضرت خواجہ امکنگی قدس سرہ کی بارگاہ میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ
’’وہ طوطی ہندوستان کا پرندہ ہے اور ہندوستان میں تمہارے دامنِ برکت سے ایک بزرگ کا ظہور ہوگا اور اُس سے تم بھی بہرہ ور ہوں گے‘‘۔
یہ ارشاد سُن کر آپ عازمِ ہندوستان ہوگئے۔
جب حضرت خواجہ امکنگی قدس سرہ کے پرانے خدمت گزاروں کو معلوم ہوا کہ آپ کو صرف چند روزہ صحبت میں خلافت اور اجازت کاملہ عنایت فرماکر ہندوستان کی طرف جانے کا حکم دیا ہے تو انہوں نے غیرت کے مارے شور مچایا۔ یہ خبر جب حضرت خواجہ قدس سرہ کو پہنچی تو آپ نے اُن سے فرمایا کہ
’’تم کو معلوم نہیں کہ یہ جوان درجۂ تکمیل کو پہنچا ہوا تھا وہ ہمارے پاس صرف اپنے احوالِ حاصلہ کی تصحیح کے لیے بھیجا گیا تھا اور یہ لازم و ضرور ہے کہ جو شخص جیسا آئے گا ویسا جائے گا‘‘۔
الغرض آپ بیابانِ ہندوستان کے تشنہ لبوں کے لیے ابرِ رحمت بن کر اس طرف روانہ ہوئے اور زمانہ نے بزبانِ حال یہ شعر پڑھا ؎
شکر شکن شوند ہمہ طوطیانِ ہند |
|
زیں قندِ پارسی کہ بہ بنگالہ مے رود |
جب آپ ہندوستان پہنچے تو ایک سال شہر لاہور میں رہے۔ وہاں کے بہت سے علماء و فضلاء آپ کی محبت کے گرویدہ و اسیر ہوگئے۔ بعد ازاں شہر دہلی میں جو دارالاولیاء اور بیت الفقراء تھا، تشریف لائے۔ روایت ہے کہ جب آپ لاہور سے دہلی تشریف[۱] لے جا رہے تھے تو راستہ میں ایک عاجز و درماندہ شخص پر نظر پڑی جو کہ پیدل جا رہا تھا۔ آپ نے گھوڑے سے اتر کر اس شخص کو تو گھوڑے پر بٹھادیا اور خود منزل تک پیدل سفر کیا۔ اس دوران سر پر چادر ڈالے رکھی تاکہ کوئی جاننے والا اس عملِ خیر سے واقف نہ ہوجائے۔ جب منزل کے قریب پہنچے تو گھوڑے پر سوار ہوگئے تاکہ یہ کارِ خیر پردۂ اخفاء میں رہے۔
[۱۔ جب آپ سرہند شریف کی حدود میں پہنچے تو آفتاب کی سی روشنی اُس شہر کے گرد گرد پھیلی ہوئی تھی یہ حال مشاہدہ کرکے کمال حیرت ہوئی۔ رجال الغیب میں سے ایک نے آواز دی کہ مرشد کامل نے جس مرد کی بشارت فرمائی وہ اسی سرزمین میں مشغول خدا پرستی ہے لیکن ازلی فرمان کا مضمون یہ ہے کہ اس کو دہلی مقام پر آپ کی مصاحبت میں داخل کریں گے لہٰذا اب مزید جستجو کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ (گلزار ابرار ص۴۷۹)]
دہلی کا شہر چونکہ سارے ہندوستان میں مرکزی حیثیت کا حامل تھا اور ہمیشہ سے اولیائے کرام کا مستقر رہا ہے اس لیے آپ دہلی پہنچ کر قلعہ فیروز شاہ میں مقیم ہوگئے جو اُس زمانہ میں دریائے جمنا کے کنارے واقع تھا اور نہایت دلکش اور پر فضا مقام تھا۔ اس قلعہ کی مسجد بہت شاندار تھی۔ آپ تادمِ آفریں وہیں سکونت پذیر رہے۔
دہلی پہنچنے کے بعد روحانی حلقوں میں بہت جلد آپ کی شہرت ہوگئی اور دور دراز سے طالبانِ حقیقت آپ کے پاس رشد و ہدایت کے لیے حاضر ہونے لگے۔ بہت سے امرائے شاہی بھی آپ کے معتقد ہوگئے تھے چنانچہ شیخ فرید بخاری عبدالرحیم خان خاناں، مرزا قلیج خاں، صدر جہاں وغیرہ آپ کے معتقد و نیاز مند تھے ان سب امراء کے ذریعہ آپ اکبر بادشاہ کی ملحدانہ پالیسی کے برے اثرات دور کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔آپ نے اپنے مکتوبات میں ان امراء کو سنت اور شریعت نبوی کی پابندی کی بار بار نصیحت فرمائی ہے اور انہیں اسلامی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا ہے۔
آپ علماء اور سادات کا بہت احترام کرتے تھے، شرعی معاملات میں بالعموم پرہیزگار علماء و فقہاء سے رجوع فرماتے تھے اور فتویٰ حاصل کرنے والوں کو انہی علماء کی طرف بھیجتے تھے اور تمام درویشوں کو شریعت کی پابندی کی نصیحت فرماتے تھے بلکہ مرید کرنے سے زیادہ آپ شریعت کے احیاء اور تبلیغ پر زور دیتے تھے، کسی کو بڑے اصرا ر اور طویل آزمائش کے بعد مرید کرتے تھے۔
آخر وہ وقت آیا کہ امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ السامی ۱۰۰۸ھ مطابق ۱۵۹۹ء میں سرہند شریف سے حج بیت اللہ کے لیے روانہ ہوئے۔ جب دہلی پہنچے تو آپ کے (حضرت خواجہ باقی باللہ) روحانی بلند مقامات کا علم ہوا۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نہایت بشاشت اور مہربانی سے پیش آئے اور حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کی درخواست پر اُن کو بیعت کرلیا۔
حضرت خواجہ باقی باللہ کو دہلی آنے کے بعد رشد و ہدایت کی تبلیغ کے لیے صرف تین سال میسر آئے۔ پھر بھی ہزاروں انسان آپ سے فیضیاب ہوئے اور اس تھوڑی سی زندگی میں آپ نے بندگانِ خدا میں ایسا تصرف فرمایا کہ اکثر مشائخِ وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ سے تلقین پائی اور آپ کے انوار و برکات تمام روئے زمین میں پھیل گئے۔ جب امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ آپ سے فیض یاب ہوگئے تو آپ نے اپنے تمام مریدوں کی تعلیم و تربیت حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کے سپرد فرمادی اور آخری سال میں خود بالکل گوشہ نشین ہوگئے تھے۔
آپ کے غلبۂ عشق الٰہی کا یہ حال تھا کہ جس پر آپ کی نظر پڑ جاتی وہ مرغِ بسمل کی طرح تڑپنے لگتا اور اگر ہوش میں رہتا تو اشکباری کرتا ورنہ بے ہوش ہوجاتا اور ُس کو دنیا ومافیہا کی کوئی خبر نہ رہتی۔ ایک مرتبہ ایک فوجی افسر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا گھوڑا دروازہ کے باہر خادم کے سپرد کرکے اندر آگیا آپ اُس وقت کسی ضرورت سے باہر تشریف لے گئے تھے جب اندر آنے لگے تو آپ کی نظر اُس خادم پر پڑ گئی جو گھوڑا سنبھالے ہوئے تھا۔ آپ کی نظر پڑتے ہی اُس پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ گھوڑے کو چھوڑ کر کپڑوں کو پھاڑتا، چیختا چلاتا دیوانوں کی طرح نکل گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اُسے تلاش کیا گیا مگر اس کا کہیں سے بھی پتہ نہ چلا۔
اسی طرح ایک مرتبہ نمازِ جمعہ کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے، جب خطیب منبر پر گیا تو اتفاقیہ اُس کے چہرے پر آپ کی نظر پڑ گئی اور نظر سے نظر مل گئی بس وہ اُسی وقت کلیجہ تھام کر رہ گیا اور بے قرار ہوکر نیچے گر پڑا، اس کے بعد اُس میں خطبہ پڑھنے کی طاقت نہ رہی۔ دوسرے خطیب نے خطبہ پڑھا اور آپ نے نماز پڑھائی۔
عجز و انکسار کی نسبت آپ پر ایسی غالب تھی کہ اگر کسی طالب سے کوئی خطا سرزد ہوجاتی تو فرماتے یہ بیچارے فقیر کیا کریں، یہ تو ہماری ہی بدصفتی کا اثر ہے جو ان پر مفکس ہو رہا ہے۔ آپ کی تواضع کا یہ عالم تھا کہ جب کوئی طالب آپ کے آستانہ عالیہ پر حاضر ہوتا تو بہت سے عذر کرتے اور فرماتے کہ میں کس لائق ہوں، تم نے جو گمان کیا ہے میں اُس کے شایاں نہیں تم کسی اور جگہ جاؤ اگر کوئی رہبر ملے تو مجھے بھی اطلاع دینا تاکہ ہم بھی اُس کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل کرسکیں مگر صادق العقیدہ طالب آپ کے آستانہ مبارک کو نہ چھوڑتے اور اپنے مقصود کو پہنچتے۔
کہتے ہیں کہ ایک خراسانی جوان حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی قدس سرہ کے مزار مبارک کا مجاور تھا اور حضرت کی روحانیت سے ایک ایسے پیرکامل کا طالب تھا جو قید حیات میں ہو۔ جب حضرت باقی باللہ، دہلی میں رونق افروز ہوئے تو اس جوان کو واقعہ میں دکھایا گیا کہ طریقہ نقشبندیہ کا ایک بزرگ اب شہر میں وارد ہوا ہے۔ تم اُس کی خدمت کو لازم پکڑو چنانچہ وہ جوان حسب الامر آپ کی خدمت میں پہنچا اور واقعہ عرض کرکے قبولیت کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ مسکین اپنے آپ کو اس کے شایاں نہیں سمجھتا، وہ کوئی دوسرا ہوگا، جب آپ نے بطریقِ انکسار بہت سے عذر کیے تو وہ جوان واپس چلا گیا۔ دوسری رات پھر واقعہ میں اُ س سے کہا گیا کہ پیر کامل وہی بزرگ ہیں جن کی خدمت میں تم حاضر ہوئے اور اُن کی انکساری دیکھی دوسرے روز وہ آپ کے آستانہ پر ایسا آیا کہ پھر واپس نہ گیا اور شرفِ قبولیت حاصل کیا اور دیکھا جو دیکھا۔
اسی طرح آپ کے خلیفہ حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں حسب الارشاد پیر کامل کی تلاش میں آگرہ کی طرف متوجہ ہوا۔ اُس شہر میں پہنچ کر حیران و پریشان تھا کہ کیا کیا جائے اور دل میں کہتا تھا کہ آپ کے آستانہ پر حاضر ہوکر عرض کروں گا کہ میں نے آپ کے ارشاد کی تعمیل کی تھی، مگر جیسا بزرگ آپ فرما رہے تھے مجھے نہیں ملا۔ اسی اثناء میں میں ایک راستہ میں گزر رہا تھا کہ ایک مکان سے راگ کی آواز آئی۔ کان لگاکر بغو رجو سنا تو قوال حضرت سعدی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر گا رہے تھے ؎
تو خواہی آستیں افشاں و خواہی دامن اندر کشی |
|
مگس ہرگز نخواہد رفت از دکانِ حلوائی |
یہ شعر سن کر مجھے مزید اشتیاق پیدا ہوا اور حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا ماجرا بیان کیا اور پایا جو پایا۔
لاہور کے ایک فقیر نے واقعہ میں دیکھا کہ حضرت خواجہ گھوڑے پر سوار ہوکر جارہے ہیں اور بہت سے لوگ آپ کے پیچھے پیچھے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ’’قطبِ وقت ہے‘‘۔ بعد ازاں اُس درویش نے حاضر خدمت ہوکر قبولیت کی درکواست کی۔ آپ نے حسبِ معمول عذر پیش کیا وہ بیچارہ مسجد میں آکر درویشوں کے مجمع میں رو رو کر کہنے لگا کہ
’’یارو! کیا ناز و گدا زہے کہ اپنا جمال دکھاکر میرا دل لے لیا ہے، اب جونا شاد و خانہ خراب حاضر خدمت ہوا ہوں، تو یوں جواب دیتے ہیں اور آستانہ سے نکالتے ہیں، کیا کروں اور کہاں جاؤں‘‘۔
اس نے اس ماجرا کو ایسے انداز و پیرایہ میں بیان کیا کہ بہت سے حاضرین بے ہوش ہوگئے اور عجیب شور برپا ہوا یہاں تک کہ آپ کے کان تک پہنچا، آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ شور کیسا ہے؟ عرض کیا گیا ؎
کز لبِ شیرین تو شور یست در ہر خانہ
آپ نے تبسم فرمایا اور اُس درویش کو بلاکر تلقین و ارشاد سے سرفراز فرمایا ؎
تانگرید طفل کے جو شد لبن |
|
تانگر یدابر کے خند و چمن |
صاحب ’’زبدہ المقامات‘‘ مولانا محمد ہاشم کشمی کا بیان ہے کہ ایک روز میں ایک مسجد کے گوشہ میں تنہا بیٹھا ہوا تھا مجھ سے کچھ فاصلے پر ایک فقیر دوسرے فقیر سے شیوۂ اولیاء اللہ کا تذکرہ کر رہا تھا۔ اسی ضمن میں اُس نے کہا کہ میں نے عمر بھر میں ایک شخص کو دیکھا ہے جو بے نفسی اور بردباری میں اس زمانہ میں بے مثل ہے اور حضرت خواجہ محمد باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کا نام لیا۔ پھر بیان کیا کہ میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی قدس سرہ کے مزار شریف پر تھا کہ ناگاہ خبر پہنچی کہ حضرت خواجہ محمد باقی باللہ قدس اللہ سرہ تشریف لا رہے ہیں۔ خدام نے مزار شریف کے قریب آپ کے لیے ایک تخت بچھایا اور اس پر فرش اور تکیہ لگایا۔ آپ کی تشریف آوری سے پہلے ایک آزاد فقیر آیا، اس کی نظر جو تخت و فرش پر پڑی تو پوچھا کہ یہ کیا ہےا ور کس کے لیے ہے؟ خدام نے کہا کہ فلاں بزرگ کے لیے ہے۔ یہ سن کر وہ آپ کو سخت سست کہنے لگا، اسی اثنا میں آپ بھی جلوہ افروز ہوگئے، آپ کو دیکھ کر وہ اور بھی برافروختہ ہوا اور آپ کے سامنے ہرزہ گوئی کرکے کہنے لگا کہ اے شخص! اے شخص تو ایسی کون سی لیاقت رکھتا ہے کہ یہاں تیرے واسطے فرش بچھایا جائے، آپ کے ہمراہ جو درویشوں کی بڑی جماعت تھی وہ یہ سن کر غیض و غضب میں آگئی اور چاہتی تھی کہ اس بے لگام فقیر کو تنبیہ کرے مگر آپ نے اپنی خشم آلود نگاہ سے سب کو اس ارادے سے باز رکھا اور خود اس بد زبان فقیر کے پاس جاکر بڑی نرمی سے عذر کیا اور فرمایا کہ میں کسی لائق نہیں، آپ جو کچھ فرماتے ہیں درست ہے یہ سارا تکلف میرے اشارے اور علم کے بغیر ہوا ہے، آپ معاف کیجیے اور مجھ بد نصیب کے پیچھے اپنا مغز خالی نہ فرمائیے، آپ زبان مقدس سے یہ فرماتے جاتے تھے اور اپنی آستین مبارک کے ساتھ اس کی پیشانی کا پسینہ پونچھتے جاتے تھے اور اظہار تواضع فرما رہے تھے چند درہم جو اُس نے مانگے تھے اُسے دے رہے تھے۔
راوی کا قول ہے کہ میں نے کسی طرح کا تغیر و تذبذب حضرت خواجہ کے حال و قال میں نہ دیکھا اس وقت مجھے یقین ہوگیا۔ نفس کشی جسے کہتے ہیں وہ اس عالم میں موجود ہے۔
اکثر ایسا ہوتا تھا کہ مخلص امراء آپ کی خدمت میں سیم و زر (روپیہ پیسہ) اس غرض سے بھیجتے تھے کہ آپ کے صوابدید و رائے سے فقراء میں تقسیم کیا جائے۔ خلق اللہ پرشفقت کی وجہ سے وہ رقم خود مستحقین میں تقسیم فرماتے اور اس ضمن میں اپنے ہاں سے بھی کچھ دیتے۔ آپ کی شفقت و ترحم کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ لاہور میں قحط پڑا، تو آپ اُس وقت وہاں تشریف رکھتے تھے، کئی دن تک کھانا نہ کھایا جس وقت کھانا سامنے رکھا جاتا فرماتے کہ یہ انصاف سے بعید ہے کہ ایک تو گلی کوچہ میں بھوک کے مارے جان دے رہاہو اورہم کھانا کھائیں، ماحضر کو بھوکوں کے لیے بھیج دیتے۔
آپ نہ صرف انسانوں پر رحمت و شفقت فرماتے تھے بلکہ جانوروں پر بھی بے حد شفیق تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ رات کو تہجد کے لیے اُٹھے تو ایک بلی آکر لحاف پر سو گئی۔ جب آپ نماز تہجد سے فارغ ہوکر بستر پر تشریف لائے تو بلی کو لحاف پر سوتے دیکھا اُس وقت آپ نے ازراہِ شفقت بلی کو نہیں جگایا اور خود صبح تک بیٹھے موسمِ سرما کی تکلیف برداشت کرتے رہے۔
آپ بڑے سادہ مزاج تھے، کتنی ہی مدت تک غیر مرغوب کھانا ہوتا کبھی نہ فرماتے کہ اسے بدل دو یا اور پکاؤ، اگر کپڑے میلے ہوجاتے تو اس کی بھی پروا نہ کرتے، آپ کا مکان نہایت تنگ و شکستہ تھا۔ اس کی صفائی اور درستی کا بھی خیال نہ فرماتے باوجود یکہ آپ نہایت نحیف و نزار تھے مگر دوام ذکر و کثرِ طاعت پر نہایت شغف رکھتے تھے۔
آپ کے زہد و استغناء کا یہ حال تھا کہ آپ کی مجلس میں اُمورِ دنیا کا ذکر نہ ہوتا تھا، ہاں اگر کوئی حاجت مند حاضر ہوتا تو اس کی سفارش فرمادیتے اور ان کاموں میں اپنے اور اپنے درویشوں کے لیے کبھی کوئی تدبیر نہ کرتے تھے۔ اپنے مریدوں کے لیے سوائے فقر و مسکنت و قناعت کے کچھ نہ چاہتے اور فرماتے کہ جس کو ہم سے مالی امداد پہنچے، وہ یقین کرے کہ اُس کے ساتھ ہمیں دینی محبت کم ہے۔ آپ کے عقیدت مندوں میں بعضے متمول و مالدار التماس کرتے تھے کہ اگر حکم ہو تو آستانہ شریف کے فقراء کے لیے کچھ روزینہ مقرر کردیا جائے مگر آپ اُن لوگوں کے بارے میں اجازت نہ دیتے تھے جنہوں نے آپ کے ساتھ نسبتِ معنوی درست کرلی تھی، ہاں اوروں کے لیے منظور فرماتے، آپ متاعِ دنیوی کے قبول کرنے سے اس قدر متنفر تھے کہ جس وقت آپ نے سفر حجاز کا ارادہ کیا تو مرزا عبدالرحیم خانخاناں نے جو فقراء سے عموماً اور آپ سے خصوصاً کمال عقیدت رکھتا تھا ایک لاکھ روپیہ نقد آپ کے اور آپ کے ہمراہیوں کے خرچہ کے لیے بھیجا اور عرض کیا کہ اسے قبول فرماکر مجھے ممنون فرمائیں، آپ نے یہ سنا تو خفا ہوئے، فرمایا کہ حج کرنا ہمارے لیے اس قدر ضروری نہیں کہ مسلمانوں کا اس قدر مال و دولت اپنے صرف میں لاکر ضائع کردیں، غرض وہ روپیہ قبول نہ فرمایا اور واپس کردیا۔
اگرچہ ابتدا سے انتہا تک بڑے بڑے عظیم الشان حالات آپ پر وارد ہوئے مگر آپ کی بلند ہمت نے کسی ایک حال و کشف پر قناعت نہ کی بلکہ باوجود کمال کے آپ ہمیشہ عاجزی و انکساری اور اپنی نایافت کا اظہار فرماتے تھے۔ اور عین بحرِ وصال میں خشک لب و تشنہ رہتے تھے جیسا کہ آپ کی اس رباعی سے پایا جاتاہے ؎
در راہِ خدا جملہ ادب باید بود |
|
تاجاں با قیست در طلب باید بود |
آپ کے جلیل القدر خلیفہ شیخ تاج الدین رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن آپ عجیب کیفیت کے ساتھ دریا کے ساحل کی طرف متوجہ ہوئے۔ قبا کے بند کھلے، سینہ ننگا، عمامہ پریشان، چہرہ مبارک سے شکستگی اور قلق و اندوہ کے آثار نمایاں۔ آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر میں بھی آپ کے پیچھےپیچھے ہولیا۔ کچھ دیر کے بعد آپ کو میرا احساس ہوا۔ نہایت آہ و درد کے ساتھ فرمایا کہ
’’تاج الدین! اس قدر واردات، احوال ، فیوضات اور انوار و اسرار مجھ پر وارد ہو رہے ہیں کہ اگر یہ دریا سیاہی ہوجائے تو اُن کے لیے لکھنے کے لیے کافی نہ ہو۔ مگر مجھے ان سے کیاکام۔ میرا مطلوب دید و دانش سے دور ہے ؎
طلب بے چون و مطلب ہیچ گونہ |
|
نہ آں را شبہ و نہ ایں رانمونہ‘‘ |
شیخ تاج الدین رحمۃ اللہ علیہ مزید بیان فرماتے ہیں کہ ایک روز میں صفِ جماعت میں آپ کے پہلو میں تھا، نماز کے درمیان آپ پر گریہ و اضحلال کے غلبہ کے آثار محسوس ہوئے، نماز سے فارغ ہوکر آپ اسی حالت میں حجرے میں تشریف لے گئے۔ میں بھی آپ کے پیچھے آیا اور آپ کو اُسی حال میں پایا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے خلافِ ادب اور گستاخانہ عرض کیا کہ اس بے اختیار رونے اور اندوہ و آشفتگی کا سبب کیا ہے؟ فرمایا: تو اس بات کو دریافت نہ کر، ہم کو اس درد و اندوہ میں رہنے دے کیونکہ بقول حاؔفظ شیرازی ؎
تنم از واسطہ دوریِ دلبر بگداخت |
|
جانم از آتشِ ہجر رُخِ جانا نہ بسوخت! |
چونکہ آپ کی عنایتِ بے پایاں نے مجھے بہت دلیر کردیا تھا لہٰذا میں نے اصرار کیا تو فرمایا:
’’عین نماز میں جو مومن کا معراج ہے میری روح نے مقصود وراء الوراء کی طلب میں عروج کیا اور حتی المقدور اُس کی جستجو میں کوشش کی مگر جب کامیابی نہ ہوئی تو ناچار حیران و گریاں اپنے تئیں قفسِ قالب میں لا ڈالا۔ اُس کا یہ گریہ و اندوہ اسی حسرت کی وجہ سے تھا‘‘۔ ؎
فاؔنی کو یا جنوں ہے یا تیری آرزو ہے |
|
کل نام لے کے تیرا دیوانہ وار رویا |
آپ پر تفرید (تنہائی) اس قدر غالب تھی کہ طالبوں کو اپنی صحبت میں رکھنے اور متشخیت کا خیال تک نہ تھا۔ صرف دو تین سال درویشوں کی تربیت میں مشغول رہے۔ حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ آپ کی عنایات سے درجۂ کمال پر پہنچ گئے تو ارباب ارادت کی تعلیم و صحبت سے کنارہ کش ہوگئے اور یاروں کو اُن کے حوالہ کرکے خود گوشہ نشینی اختایر کی اور بجز مسجد کے وہ بھی نماز باجماعت کے لیے اور کہیں تشریف نہ لے جاتے تھے۔ جو شخص آپ کو دیکھتا اُسے حضو سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث یاد آجاتی تھی۔
من اراد ان ینظر الی میت یمثی علی وجہ الارض فلینظر الی ابن ابی قحافۃ
’’جو شخص مردہ کو روئے زمین پر چلتا ہوا دیکھنا چاہے وہ ابوقحافہ کے بیٹے (ابوبکر صدیق) کو دیکھ لے‘‘۔
باوجود حالتِ مذکورہ بالا کےآپ کی ہیبت و دہشت اس قدر تھی کہ غافل و بے خبر لوگ بھی جب آپ کو دیکھتے تو انہیں بمصداقِ حدیث اذا روا ذکر اللہ[۱] خدایاد آجاتا، چنانچہ ایک روز آپ کا گزر ہندوؤں کی ایک بستی پر ہوا، جہاں کے باشندے کھیتی باڑی کا کام کیا کرتے تھے جونہی اُن کی نظر آپ پر پڑی، ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یہ عجیب شخص ہے، اس کے دیکھنے سے خدا یاد آتا ہے۔
[۱۔ عبدالرحمٰن بن غنم اور اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ نے فرمایا: خار عباد اللہ الذین اذا رؤا ذکر اللہ۔ الحدیث یعنی خدا کے سب سے نیک بندے وہ ہیں جنہیں دیکھ کر خدا یاد آتا ہے (مشکوٰۃ شریف کتاب الآداب۔ باب حفظ اللسان من الغیبۃ والشتم فصل ثالث)]
ایک معمر فاضل کا بیان ہے کہ ایک روز میں مسجد میں نماز پڑھنے گیا، دیکھا کہ صفِ جماعت کھڑی ہے اور آپ بھی صف میں تشریف رکھتے ہیں۔ پہلی صف بھر گئی تھی مگر آپ کے پہلو میں درویشوں نے بپاسِ ادب کچھ جگہ چھوڑی ہوئی تھی، چونکہ مجھے آپ سے چنداں عقیدت نہ تھی اور میں نے آپ کو بچہ سا دیکھا تھا اس لیے اپنی نسبت اُن کو کم عمر پاکر رعایتِ ادب کا خیال نہ کیا اور اس خالی جگہ میں گھس کر نیت باندھ لی، کچھ وقت نہ گزرا تھا کہ آپ کی عظمت و شکوہ نے مجھ پر اثر کیا، میں نے ہر چند بچنے کی کوشش کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ یہاں تک کہ میں عین نماز میں پیچھے ہٹنے لگا، اور ہٹتے ہٹتے نوبت باینجار سید کہ اگر ایک قدم اور پیچھے ہٹوں تو چبوتر سے نیچے گر پڑوں مگر میں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا اور یہ معاملہ دیکھ کر آپ کے مخلصوں اور غلاموں کے سلسلہ میں داخل ہوگیا۔
آپ کی عظمت و علو رتبہ کی شہادت میں یہی ایک امر کافی ہے کہ صرف دو تین سالہ مسندِ مشیخیت پر جلوہ افروز رہے مگر اس قلیل عرصہ میں کس قدر بندگان خدا آپ کے خوانِ دولت سے بہرہ ور ہوئے اور کیسی کیسی برکتیں آپ کی بدولت برصغیر پاک و ہند کے وسیع و عریض علاقہ میں پھیل گئیں۔ سلسلہ نقشبندیہ جو آپ کے زمانہ تک برصغیر میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں تھا آپ کے ذریعہ سے پورے طور پر رائج ہوگیا، اگرچہ اس سلسلہ عالیہ کے بہت سے مشائخ اس سر زمین میں جلوہ آرا ہوئے اور برسوں میں یہیں رہے مگر آپ کی دو تین سالوں کی برکات ان مشائخ کی سالہا سال کی کوششوں میں کہاں۔ شیخ محمد بن فضل اللہ رحمہا اللہ تعالیٰ جو فقر و عرفان میں بلند پایہ رکھتے ہیں فرماتے ہیں کہ آپ کی بزرگی کا یہی نشان کافی ہے کہ آپ تین چار سال سے زیادہ بندگانِ خدا کی ہدایت میں مشغول نہیں رہے مگر آج تک آپ کے آثار و برکات روز افزوں ہیں ؎
سدا پھولا پھلا رہے یا رب یہ چمن میری اُمیدوں کا
جگہ کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
سترِ احوال، ویدِ قصور، عزلت نشینی اور گمنامی آپ کا شیوہ تھا۔ سادات و علماء کی تعظیم میں مبالغہ فرمایا کرتے تھے۔ جزوی و کلی عملیات میں فقہائے متورع کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔
تمام امور میں آپ کا عمل عزیمت و اولیٰ پر تھا۔ سماع و رقص و وجد کو آپ کے ہاں دخل نہ تھا۔ یہاں تک کہ ایک روز ایک درویش نے بآواز بلند پکار کر کہا: ’’اللہ‘‘ آپ نے فرمایا کہ اس سے کہہ دو کہ مجلس کے آداب کو ملحوظ رکھ کر ہمارے پاس آیا کرے، آپ حنفی مسلک پر عمل پیرا تھے۔ ایک دفعہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا شروع کردی، ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ خواب میں امام الائمہ سراج الامّہ حضرت امام ابوحنیفہ قدس سرہ کو دیکھا جو ایک طرف کھڑے ہوئے اپنی مدح میں ایک قصیدہ پڑھ رہے ہیں جس سے یہ سمجھایا جا رہا تھا کہ میرے مذہب میں بکثرت اولیائے کرام ہوئے ہیں جو امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھتے تھے۔ اس واقعہ کے بعد آپ نے امام کے پیچھے فاتحہ کا پڑھنا ترک کردیا اور کبھی حنفی مسلک سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے۔
کھانے پینے میں احتیاط کا یہ حال تھا کہ جو ہدیہ آتا، اگرچہ اُسے بحکم حدیث شریف صحیح
نحن لا نرد الھدیۃ
’’ہم ہدیہ رد نہیں کرتے‘‘۔
رد نہیں کرتے تھے مگر اُسے بجنسہٖ اپنے مصارف میں نہ لاتے تھے بلکہ قرضِ حسنہ لے کر اُس کے عوض اُسے دے دیتے کیونکہ بحکم فقہا و ہ حلت میں ایک اور درجہ پیدا کردیتا ہے۔ آپ نہایت تاکید فرمایا کرتے تھے کہ کھانا پکانے والا وضو کے ساتھ صاحب حضور و احتیاط بھی ہو اور پکاتے وقت دنیوی بات زبان پر نہ لائے اور فرماتے تھے کہ جو لقمہ بغیر حضور و احتیاط کے کھایا جائے اُس سے ایک دہواں پیدا ہوتا ہے جو فیض کے راستوں کو بند کردیتا ہے اور ارواحِ طیبہ جو فیض کا وسیلہ ہیں ایسے قلب کے مقابل نہیں ہوتیں، آپ تمام مریدوں کو اس احتیاط کی ترغیب دیتے تھے۔ جو لوگ اس احتیاط میں تساہل سے کام لیتے، آپ اپنی نسبت کی نزاکت و صفائی کی وجہ سے اُن کا نقصان اُن کے حالات میں معائنہ فرماتے۔ چنانچہ ایک روز ایک صاحب حال و کشف درویش آپ کی خدمت میں آیا اور عرض کرنے لگا کہ میں اپنے کام میں بستگی اور باطن میں کدورت پاتا ہوں، مجھے معلوم نہیں کہ مجھ سے کیا تقصیر سرزد ہوگئی ہے، آپ نے متوجہ ہوکر فرمایا کہ لقمہ میں بے احتیاطی ہوگئی ہے۔ اُس نے عرض کیا کہ لقمہ تو وہی ہے جو میں ہر روز کھایا کرتا ہوں، آپ نے فرمایا کہ واپس جاکر اچھی طرح دریافت کرو ہمیں تو اس کے سوا کوئی اور نظر نہیں آتا، لقمہ کے جز میں ضرور فتور آیا ہوگا، جب اس درویش نے اچھی طرح تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ جن لکڑیوں سے کھانا پکایا جاتا تھا اُن میں سے دو تین لکڑیاں ایسی شامل کردی گئی تھیں جن میں احتیاط سے کام نہ لیا گیا تھا۔
لقمہ کی طرح آپ نماز میں بھی احتیاط کرتے کہ صفِ جماعت میں اپنی جانب اپنے خالص اصحاب میں سے کسی کو کھڑا کرتے کیونکہ اگر بیگانہ ہوتا تو فوراً اس کی غفلت و نقصان مع خطرات آپ کے آئینہ قلب میں مغکس ہوتا، ایک روز ایک درویش نے جو لحاف کا محتاج تھا، آپ کے ساتھ نماز پڑھی اُس کے دل میں لحاف مانگنے کا خطرہ گزرا، وہ خطرہ آپ پر ظاہر ہوگیا، ادائے نماز کے بعد فرمایا کہ جس کو لحاف کی ضرورت ہے اُسے لحاف دے دو، اُس درویش کا بیان ہے کہ میں اُس دن کے بعد ڈرتا رہا کہ مبادا کوئی خطرہ جو آپ کی ملامت کا باعث ہو، میرے دل پر گزرے۔
آپ کا طریقِ تلقین یہ تھا کہ جس طالب کو اپنے سلسلہ میں داخل فرماتے تھے۔ پہلے اُس سے توبہ کراتے، پھر اگر اپنی طرف اُس کا عشق و محبت زیادہ دیکھتے تو اُسے طریقہ رابطہ و نگہداشتِ صورت کی تعلیم دیتے اُس سے طالب کو بہت کشائش حاصل ہوتی، خواجگانِ دیندی میں سے خواجہ برہان نامی ایک بزرگ، جس نے اپنے اکابر سے بہت سی نسبتیں اور اجازتیں حاصل کی تھیں۔ آپ کی خدمت میں بغرض استفادہ حاضر ہوا تو آپ نے اُسے اپنی صورت کی نگہداشت کی تلقین کی، وہ حیران ہوا اور اپنے دوستوں سے کہنے لگا کہ شغل تو مبتدیوں کے حال کے مناسب ہے، مجھے تو آپ ازراہِ کرم اس سے اعلیٰ مراقبہ ارشاد فرمائیں، اُس کے دوستوں نے کہا کہ تعمیل ارشاد تو کرو، چونکہ اس کا عقیدہ درست تھا لہٰذا اس شغل میں مشغول ہوگیا، دو ہی روز گزرے تھے کہ اس صورت نے اُس پر پرتو ڈالا اور بڑی نسبت اس پر غالب ہوئی، اور اُس کے سکر کا غلبہ ایسا ہوا کہ باوجود تمکین اور کبر سنی کے زمین سے دو دو ہاتھ اُوپر اچھلتا تھا۔ اور دیواروں اور درختوں سے ٹکراتا تھا یہاں تک کہ کئی جوان اُسے سنبھال نہ سکتے تھے، لیکن زیادہ تر آپ طالبوں کو ذکرِ قلب جیسا کہ سلسلہ نقشبندیہ میں مقرر ہے، تلقین فرماتے اور ایک جماعت کو ذکر نفی و اثبات اور بعضوں کو صرف اثبات یعنی ذکرِ ذات عزشانہٗ فرماتے۔
آپ کی تعلیم میں یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ آپ جس طالب کو ذکر کی تعلیم فرماتے، اُس تعلیم کے ساتھ اپنی ہمت و توجہ کو اُس کے شاملِ حال رکھتے اور اُس کی حقیقتِ جامعہ کے ادراک پر نقوش کونیہ کا راستہ بند کردیتے، گویا سرچشمۂ نقشبندیہ کو ظہور میں لاتے۔ اُسی وقت اُس کا دل ذاکر ہوجاتا اور حضور و جذبہ اُس کو اپنی آغوش میں لے لیتا، بعضے مرغِ بسمل کی طرح خاک پر لوٹتے اور بعضے بے خود ہوکر حیرت میں چلے جاتے۔ اور بعضوں کو اسی حال میں عالمِ مثال یا عالمِ ارواح یا عالمِ معانی منکشف ہوجاتا اور کئی دن یہی حال رہتا پھر آپ کی توجہ سے ہوش میں آتے اور الشیخ یحیی و یمیت[۱] کا نظارہ دیکھنے میں آتا، آپ کی یہ عنایت عام طور پر تھی۔
[۱۔ پیر زندہ کرتا ہے اور مارتاہے۔]
آپ کی نسبت کا سریان اس درجہ کا تھا کہ بہت سے طالب آپ کو دیکھتے ہی مجذوب و مغلوب ہوجاتے تھے۔ ماہِ رمضان کی ایک رات امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ نے ایک خادم کے ہاتھ آپ کے لیے فالودہ بھیجا، خادم نے سادہ لوحی کے سبب سے دروازۂ خاص جا کھٹکھٹایا آپ نے کسی دوسرے کو نہ جگایا اور بذاتِ خود باہر نکلے اور فالودہ کا برتن خادم کے ہاتھ سے لے کر پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ اُس نے عرض کیا کہ میرا نام باما ہے، آپ نے فرمایا کہ چونکہ تم ہمارے شیخ احمد کے خادم ہو، ہمارے ساتھ ہو، واپس ہوتے ہی اُس خادم پر جذبۂ سکر و نسبت غالب ہوا۔ وہ شور و فغاں کرتا ہوا گرتا پڑتا حضرت مجدد قدس سرہ کی بارگاہ میں پہنچا، حضرت اقدس نے دریافت فرمایا کہ کیا معاملہ ہے؟ وہ شوریدگی و مستی کی حالت میں کہتا تھا کہ میں حجر و شجر اور زمین و آسمان میں ہر جگہ ایک نہایت بے رنگ نور دیکھتا ہوں کہ جسے بیان نہیں کرسکتا۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ خواجہ باقی باللہ کے سامنے گیا ہے۔ اس آفتاب کے مقابلہ سے ایک پرتو اس ذرہ پر پڑ گیا ہے۔ دوسرے روز حضرت مجدد قدس سرہ نے یہ قصہ آپ سے عرض کیا تو آپ مسکرا پڑے۔
حضرت میر محمد نعمان رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میری لڑکی کی ایک انا تھی، ہم نے اُسے کئی بار کہا کہ حضرت خواجہ کی مرید بن جاؤ مگر اُس نے انکار کیا۔ ایک روز ایک تقریب پر ہم نے لڑکی کو انا سمیت آپ کی خدمت میں بھیج دیا، آپ نے شیر خوار لڑکی کو بغل میں لے کر نہایت شفقت کی، لڑکی نے آپ کی داڑھی مبارک کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ایک بال اُس کے ہاتھ میں رہ گیا، آپ نے فرمایا کہ یہ لڑکی ہم سے یادگار لے رہی ہے۔ عجیب نظر دوربین تھی کہ ان ہی ایام میں آپ نے انتقال فرمایا اور وہ موئے مبارک بطور تبرک و یادگار باقی رہ گیا ؎
مرزا زلفِ تو موئے بسند است |
|
فضولی مے کنم بوئے بسند است |
جب وہ انا گھر واپس ہوئی تو تھوڑی دیر کے بعد اُس پر مستی اور جذبات کے آثار ظاہر ہونے لگے وہ سنبھل نہ سکی۔ یہاں تک کہ چیخ مار کر بے ہوش ہوگئی۔ اس کے بائیں پہلو میں دل کی حرکت اس زور سے جاری ہوگئی کہ تمام حاضرین نے بچشم خود دیکھ لیا۔ کچھ مدت کے بد وہ ہوش میں آئی، اُس سے پوچھا گیا کہ تجھ پر کیا حالت گزری اور تو نے کیا دیکھا، اُس نے کہا کہ حضرت خواجہ ساعت بساعتِ عجیب ہیبت ناک شکلوں میں نمودار ہوتے ہیں، یہاں تک کہ میں بے ہوش ہوگئی، اس کے علاوہ میں اور کچھ نہیں جانتی۔ ہاں اتنا جانتی ہوں کہ میرا دل ذاکر ہوگیا ہے حضرت میر محمد نعمان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ہم نے اس انّا کا حال حضرت خواجہ سے عرض کیا تو آپ نے تبسم فرمایا او راُس کو ذکر کی تعلیم کی۔ چنانچہ وہ فیروزآباد دہلی میں صاحبِ حال عورتوں میں سے ہوگئی۔
کرامات:
آپ کی کرامات کو احاطۂ تحریر میں لانے کے لیے کئی دفتر درکار ہیں بطور تبرک یہاں صرف چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے:
۱۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی قدس سرہ اپنی تفسیر عزیزی پارہ عم سورہ اقراء کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت خواجہ باقی اللہ قدس سرہ کے ہاں چند مہمان آگئے، اتفاقاً اُس وقت گھر مین کھانے کی کوئی چیز نہ تھی، حضرت خواجہ مہمانوں کی خاطر و تواضع کے سلسلے میں پریشان ہوکر کسی چیز کی تلاش میں تھے۔ آپ کے گھر کے متصل ایک نانبائی کی دکان تھی، جب اُس کو صورتِ حال کا پتہ چلا تو بڑے تکلف کے ساتھ روغنی روٹیاں مع سالن پکاکر کر آپ کی خدمت میں لایا۔ آپ اُس کی اس خدمت اور سلوک سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ مانگ، کیا مانگتا ہے؟ اُس نے عرض کیا کہ مجھے اپنی مثل (مانند) بنادیجیے، آپ نے فرمایا کہ تو اس حالت کا متحمل نہیں ہوسکتا کوئی اور چیز مانگ، لیکن وہ اس پر ہی مصر رہا، آپ گریز فرماتے رہے لیکن جب اُس کی لجاجت حدسے بڑھ گئی تو ناچار اُس کو حجرہ میں لے گئے اور معانقہ فرماکر اُس پر نظر کی، جب باہر آئے تو آپ اور نانبائی میں شکل و صورت کے لحاظ سے کوئی فرق نہ تھا اور لوگوں کے لیے امتیاز کرنا مشکل ہوگیا، البتہ یہ فرق ضرور رہا کہ آپ صاحبِ ہوش اور نانبائی بے ہوش اور بے خبر تھا، آخرکار تین روز بعد اسی حالتِ سکر و بے ہوشی میں انتقال کرگیا[۱]۔
ہزار عمر فدائے دمے کہ من از شوق |
|
بخاک و خوں تپم و گوئی از برائے من است |
[۱] اُس نانبائی کا مزار حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ کے مزار مبارک کے قریب ہے اور لوحِ مزار پر مندرجہ ذیل عبارت درج ہے: مزار حضرت خواجہ حسن، خلیفہ و نانبائی حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ (قصوری)
۲۔ ایک دفعہ ایک فوجی افسر نے آپ کے ایک ہمسایہ پر ظلم کیا، آپ وہ ظلم دیکھ کر بے قرار ہوگئے اور اس افسر کو نصیحت کی مگر وہ بدبخت باز نہ آیا، آپ کو اُس مظلوم پر نہایت رحم آیا۔ آپ آپ نے اس افسر سے فرمایا کہ ہمارے حضرات خواجگان (خواجگانِ نقشبند) بہت غیرتمند ہیں، یہ انہیں کے پڑوس میں رہتا ہے خبردار رہنا، دو تین دن ہی گزرے تھے کہ وہ ایک چور کے خون کے مقدمہ میں گرفتار ہوکر قتل ہوا۔
۳۔ ایک ضعیفہ کا لڑکا قلعۂ فیروزآباد کی دیوار سے گر پڑا۔ دیوار کے نیچے سنگین و پختہ فرش تھا۔ گرتے ہی اُس کے کانوں سے خون بہنے لگا اور سانس بند گیا، گریہ و زاری اور بے قراری کی حالت میں ماں کو اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ سوجھا کہ آپ کے مبارک قدم پر سر رکھ کر اس کی زندگی کی التماس کی، آپ کی عادتِ مبارکہ تھی کہ اپنی توجہ و تصرف کو بہت چھپایا کرتے تھے، آپ نے طب کی ایک کتاب طلب کی اور فرمایا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لڑکا نہ مرے گا، حاضرین نے تعجب کیا کہ کون سی کتاب یہ بات بتا رہی ہے، آپ ایک لحظہ خاموش رہے، وہ قریب المرگ لڑکا ہوش میں آکر اصلی حالت پر آگیا، لوگ حیران و ششدر رہ گئے۔
۴۔ ایک بانجھ عورت حاضر خدت ہوکر عرض گزار ہوئی کہ میرا خاوند دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہے کیونکہ مجھ سے کوئی اولاد نہیں ہوئی، اس وقت آپ معجونِ فلاسفہ نوش فرما رہے تھے تھوڑی سی کھا کر باقی اُس عورت کو دے دی اور فرمایا کہ اس وقت تو یہی مادۃ الحیات ہے اُس عورت نے وہی لے کر کھایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اولاد دی اور اس کے خاوند نے نکاحِ ثانی کا ارادہ ترک کردیا۔
۵۔ ایک چشتیہ شیخ زادہ آپ کا مرید ہوا تو اتفاقاً اُس کو ایک مرض لاحق ہوا کہ زندگی کی اُمید باقی نہ رہی، کسی نے یہ معاملہ آپ سے عرض کیا، آپ نے فرمایا کہ اس کے دل میں یہ خیال گزرا تھا کہ اس طریقہ کو چھوڑ کر اپنے بزرگوں کی نسبت حاصل کرنی چاہیے اور یہ بات مجھ پر ظاہر ہوگئی۔ اس لیے مجھے غیرت آئی ہے اور یہی وجۂ علالت ہے ۔ اُس شخص نے مریض سے بیان کیا تو اُس نے تصدیق کی اور توبہ و ندامت ظاہر کی تو فوراً شفایاب ہوگیا۔
وفات:
جب آپ کی عمر شریف تقریباً چالیس سال کی ہوگئی تو ایک دن آپ نے فرمایا کہ بعض خوابوں سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ عنقریب سلسلہ نقشبندیہ کا ایک بہت بڑا شخص فوت ہوگا، یہ کہہ کر ارشاد کیا کہ شہر دہلی کے نواح میں کوئی جگہ اختیار کرنی چاہیے جہاں تنہائی میں بسر اوقات کروں اور اختتام عمر پر وہیں مدفون ہوجاؤں، اس بارے میں آپ نے اپنے بعض مخلص اصحاب کو استخارہ کا حکم دیا، جب اجازت معلوم نہ ہوئی تو اس ارادے کو ترک کردیا بعد ازاں ایک روز فرمایا کہ ایسا دیکھا گیا ہے کہ کہہ رہے ہیں کہ جس غرض کے لیے تجھے بلایا گیا تھا وہ پوری ہوگئی ہے اب سفر کرنا چاہیے۔ انتقال سے کچھ روز پہلے یہ بھی فرمایا کہ کہہ رہے ہیں کہ قطبِ زمانہ فوت ہوگیا اور میں اس وقت اپنا مرثیہ قصیدہ پڑھ رہا ہوں جس میں عالی ارشادات و کنایات مندرج ہیں۔
غرض ۲۵؍جمادی الثانی ۱۰۱۲ھ/ ۱۶۰۳ء میں امراضِ جسمانی نے آپ پر غلبہ پایا، ان دنوں میں آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت خواجہ عبیداللہ احرار قدس سرہ کو خواب میں دیکھا ہے وہ فرما رہے ہیں کہ پیراہن پہنو۔ یہ خواب بیان کرکے آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ اگر ہم زندہ رہے تو ایسا ہی کریں گے ورنہ کفن بھی ایک طرح کا پیراہن ہے۔ قصہ کوتاہ جمادی الآخر کی پچیسویں تاریخ ہفتہ کا دن تھا کہ اخنضار (نزع) کا عالم کے آثار نمایاں ہوئے۔ اسی اثناء میں ایک درویش کی زبان سے کلمہ یا الٰہ العالمین نکلا۔ آپ نے فوراً اُس کی طرف منہ پھیر کر دیکھا، حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا کہ حضرت خواجہ کی یہ توجہ نامِ محبوب کے سننے کے شوق سے ہے۔ اس کلام سے چشمِ مبارک میں آنسو بھر لائے ۔ جب تھوڑا دن باقی رہ گیا تو آپ اسم ذات کے ذکر میں مشغول ہوگئے اور اُسی روز اللہ اللہ کہتے وصال فرمایا، دوسرے روز آپ کے مخلص اصحاب کی قرارداد کے مطابق ایک جگہ قبر شریف کھودی گئی، لیکن جب دلریش درویشوں نے جنازہ کو اُٹھایا تو اُس دیوانگی کی وجہ سے جو حاملانِ جنازہ پر طاری تھی، تابوت کو اس مقام پر نہیں اُتارا جہاں قبر تیار کی گئی تھی، بلکہ ایک اور زمین پر جا اتارا، اُتارنے کے بعد کیا دیکھتےہیں کہ یہ وہی زمین ہے کہ جہاں ایک روز آپ نے وضو کرکے دوگانہ ادا فرمایا تھا، اُٹھتے وقت وہاں کی کچھ خاک دامن مبارک پر لگ گئی تھی، اُس پر زبانِ اقدس سے فرمایا تھا کہ اس جگہ کی خاک ہماری دامنگیر ہوگئی۔ اس لیے یاروں نے اُسی مکان میں جو جنابِ رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم گاہ کے جوار میں اور شاہراہ کے متصل ہے، اُس شاہِ اقلیمِ ارشاد کو سپرد خاک کیا ؎
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے |
|
سبزۂ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے |
آپ کا مزار مبارک خواجہ حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ کی کوششوں سے نہایت زینت سے تیار ہوا۔ آپ کی وصیت کے مطابق مرقد شریف پر گنبد نہیں بنایا گیا،صرف ایک بلند چبوترہ بنادیا گیا ہے آپ کے تصرف کو دیکھیے کہ اس چبوترے پر سخت گرمی میں بھی پاؤں کو تکلیف و حرارت محسوس نہیں ہوتی۔
بہت سے فاضلوں اور عارفوں نے آپ کے وصال کی تاریخ لکھی ہے جن مین سے چند ایک درج ذیل ہیں:
۱۔
ذتے کہ بدوست بود باقی |
|
از خود ہمہ فانی الصفت بود |
۲۔ یہ تاریخ آپ کے روضۂ مبارک کے جنوبی دروازے پر نہایت خوشنما حروف میں کندہ ہے۔
خواجہ باقی آں امامِ اولیاء |
|
عارف باللہ اسرار نہفت |
۳
قبلۂ اربابِ معنی، کعبۂ اصحاب دیں |
|
مظہر فیضِ الٰہی صاحب علم الیقیں |
مندرجہ بالا اشعار آپ کے مزار مبارک کے سرہانے پر ایک سنگ مرمر کی لوح پر بہت ہی خوبصورت الفاظ میں کندہ ہیں۔
آپ کی شان میں یہ قطعہ بھی بہت مشہور ہے ؎
قبلۂ انفسی و آفاقی |
|
بزمِ خاص شہود را ساقی |
ارشاداتِ قدسیہ:
۱۔ سورۂ اخلاص کے معنی کے بیان میں فرمایا کہ اس کو سورۂ اخلاص اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے سننے سے بندہ کا اعتقاد ا پنے پروردگار کی نسبت شرکِ جلی و خفی کے غبار سے خالص و پاک ہوجاتا ہے اور اس کے عمل میں فی الجملہ اخلاص پیدا ہوجاتا ہے اعتقاد کا شرکِ خفی سے پاک ہونا اس طرح ہے کہ الوہیت میں ایسی ذات کا اعتقاد رکھے کہ عرصۂ امکان میں کسی طرح کوئی اس کا مثل نہ ہو ورنہ اُس کا معتقد ممکن ہوجائے گا۔ اسی وجہ سے اکابر نے فرمایا ہے کہ توحید قدیم کو حادث سے الگ کرنے کا نام ہے۔
۲۔ مراقبہ کی حقیقت انتظار کرنا ہے اور انتظار کی صفائی مقصود کی طلب میں ہے۔ ایسی حالت میں کہ طالب اپنی قوت و طاقت سے نکل جائے اور مقصود و جل ذکرہ کے دیدار کا مشتاق اور اس کے عشق کے سمندر میں مستغرق ہوجائے۔ قوت و طاقت کی دید کوشش کا غبار ہے اور آستانہ انتظار کشش ہے۔ اس قسم کا مراقبہ سوائے منتہی اور قریب الانتہاء کے دوسرے کو حاصل نہیں ہوتا۔ اسی واسطے حضرت نجم الدین کبریٰ قدس سرہ نے ان دس اصلوں (بنیادوں) کے بیان میں کہ جن پر موت بالارادہ موقوف ہے۔ اس مراقبہ کو نویں اصل (بنیاد) قرار دیا گیا ہے لیکن مبتدی عاشق کو منتہی کی تقلید کرنی چاہیے اور اپنے تئیں (اپنے آپ کو) قوت و طاقت کی دید سے نکال کر انتظار محض کرنا چاہیے، باقی مراقبات جو مقصود کو شکل و مثال اور علم و خیال سے مقید کرکے عرصۂ تعقل میں لاتے ہیں، اس مراقبہ سے کم درجہ کے ہیں ؎
ہر چہ پیشِ تو پیش ازاں رہ نیست
تیرے نزدیک وہ جس سے آگے راستہ نہیں ہے
غایت فہم تست اللہ نیست
وہ تیری سمجھ کی غایت (انتہاء) ہے خدا نہیں ہے
۳۔ سلوک کے دس مقاموں کی تحقیق کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ جو شخص معصیت (گناہ)میں گرفتار ہے یا وہ دنیا سے کچھ رغبت رکھتا ہے یا سبب پر نظر رکھتا ہے یا بقدرِ ضرورت معاش پر اکتفا نہیں کرتا یا لوگوں سے میل جول رکھتا ہے یا اس کے اوقات اللہ تعالیٰ کے ذکر سے معمور نہیں یا اللہ تعالیٰ سے غیر خدا طلب کرتا ہے یا نفس کے ساتھ مجاہدہ نہیں کرتا یا اپنی ذات اور اپنے احوال پر نظر رکھتا ہے اور اپنی قوت و طاقت پر بھروسہ کرتا ہے یا اپنے آپ کو احکامِ ازلیہ کے حوالہ نہیں کرتا وہ طریق تحقیق کے سلوک میں ناقص ہے۔ مخفی نہ رہے کہ بعضے منتہی درویش جو اپنی خواہشات و ضروریات سے نکل چکے ہیں ضروری معاش پر اکتفا کرنے اور لوگوں سے میل جول نہ رکھنے اور نفس کے ساتھ مجاہد کرنے میں کسی خاص وجہ سے ثابت نہیں رہے ہیں۔ ’’ہر ایک کے لیے ایک جہت ہے جس کی طرف وہ منہ کرنے والا ہے‘‘۔
۴۔ توکل یہ نہیں کہ ظاہری اسباب کو چھوڑ دیں اور بیٹھ رہیں کیونکہ یہ تو بے ادبی ہے بلکہ سببِ مشروع مثلاً کتابت وغیرہ کو اختیار کرنا چاہیے اور نظر سبب ہی پر نہ رکھنی چاہیے کیونکہ سبب مثل دروازے کے ہے جو اللہ تعالیٰ مسبب پر پہنچنے کے لیے بنایا ہے۔ اس صورت میں اگر کوئی شخص دروازے کو بند کرلے کہ خدا اُوپر سے پھینک دے گا تو یہ اُس کی بے ادبی ہے کیونکہ دروازہ خدا ہی کا بنایا ہوا ہے اور اس بات پر دلیل ہے کہ کھلا ہے، کھلے ہوئے کو بند نہ کرنا چاہیے بعد ازاں اُسے اختیار ہے دروازے سے بھیجے یا اُوپر سے پھینک دے۔
۵۔ توحید حاصل کرنی چاہیے، محققین، متکلمین کے نزدیک توحید یہ ہے کہ ’’وجود میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی چیز موثر نہیں‘‘، یعنی اپنی ساری قدرت کو خدا سے منسوب کرنا اور اپنے آپ کو قدرت سے خالی کرنا، اگرچہ متاخرین علماء میں سے بعضے قدرتِ موثرہ کو فی الجملہ بندہ بندہ میں بھی ثابت کرتے ہیں اور اُن کی توحید یہ ہے ’’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں‘‘ لیکن زیادہ صحیحِ مذہب پہلا ہی ہے اور صوفیہ کرام جس طرح فعل و قدرت کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کرتے ہیں، اُسی طرح سات صفات میں سے باقی علم و سمع و بصر و حیات و ارادہ و کلام کو بھی اللہ تعالیٰ سے منسوب کرتے ہیں۔
۶۔ مشائخ جو لوگوں کے ارشاد و تربیت میں مشغول ہوتے ہیں اُس کا باعث ان تین چیزوں میں سے ایک ہوا کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا الہام یا پیر کا حکم و امریا بندگانِ خدا پر شفقت، یعنی جب وہ لوگوں کو گمراہی میں دیکھتے ہیں اور گمراہی کو اُن کے عذاب و ضرر کا سبب جانتے ہیں تو نہایت ترحم سے اُن کے عذاب کا دفعیہ چاہتے ہیں پس شفقت کا مقتضا یہ ہے کہ شریعت کے رواج دینے کو اپنے اُوپر لازم کرکے لوگوں کو وعظ و نصیحت سے حفظِ آداب اور اقامتِ شرائع کا حکم دیں۔ مثلاً فقہ و حدیث کا پڑھنا پڑھانا اور اُس کے مطابق عمل کرنا، مگر اُن کو واصل بحق کرنا شفقت کی شرط نہیں بلکہ وہ ایک زئاد امر ہے۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا کہ اس طریقۂ تربیت کا ماحصل انجذاب ایمانی (ایمان کا جذب ہونا یا کرنا) ہے جس کی دعوت تمام انبیاء و رسل دیتے رہے ہیں۔
۷۔ اللہ تعالیٰ سے بندہ کا نہایت قرب اور اتصال اس سے زیادہ نہیں کہ دوامِ آگاہی جو فنا کی طرف کھینچتی ہے اُس کو حاصل ہوجائے جب یہ نسبت حاصل ہوگئی تو سالک اس نسبت کے حصول سے مرتبۂ ولایت سے مشرف ہوگیا اور وہ کمالات جو دوسرے طریقوں کے سالکوں کو حصولِ مقامات اور تجلیاتِ اسماء صفات میں بتفصیل حاصل ہوتے ہیں وہ اور شے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات سے قرب و اتصال کی نسبت کا یہ حصول ولایتِ خاصہ کے مرتبہ تک پہنچا دیتا ہے۔ اس طریقہ کے طالبوں کا پہلا داخلہ سر حدِ فنا ہے میں ہے اور اندراج نہایت در بدایت جس کی طرف ہمارے سلسلہ کے اکابر نے اشارہ کیا ہے، یہی ہے۔
۸۔ ترقی بعد الموت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت شیخ ابن عربی قدس سرہ کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص نیتِ صحیح اور اعتقاد درست کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں آئے اور شریعتِ عزا (واضح شریعت) کے آداب کماحقہ بجالائے اور اس کو عین حیات میں اس گروہ کے اذواق و مواجید (ذوق و وجد) حاصل نہ ہوں۔ تو البتہ موت کے بعد اُس کو اس گروہ کے احوال و اذواق عطا کیے جاتے ہیں۔ حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ نے اس قول کو نقل کرکے تھوڑی دیر تامل کیا اور فرمایا بلکہ ایسے شخص کو اسی جہان میں سکراتِ موت کے وقت اس دولت سے مشرف کردیتے ہیں۔ اس کے بعد ارشاد کیا کہ اعتقاد درست اور احکامِ شریعت کی رعایت اور اخلاص اور اللہ تعالیٰ کی جناب میں دائمی توجہ سب سے بڑی دولت ہے۔ کوئی ذوق وجدان اس بڑی نعمت کے برابر نہیں ؎
ایں داشتہ باشد گود گر ہیچ مباش
۹۔ انجذاب اور محبت الٰہی کا طریقہ مقصود تک پہنچانے والا ہے اور اس کا رخ سوائے ذاتِ حق تعالیٰ کے اور کسی طرف نہیں ہے بخلاف دوسرے طریقوں کے کہ اُن کا رخ انوار کی طرف بھی ہے۔ ناچار بعضے ان ہی انوار میں رہ جاتے ہیں۔ یہ انجذاب و محبت تمام افرادِ انسانی میں ہے مگر پوشیدہ ہے۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے مشائخ اسی انجذاب کی تربیت کرتے ہیں۔
۱۰۔ اللہ تعالیٰ کی رویت (دیدار) آنکھ کے ساتھ موت کے بعد ہوگی کیونکہ رویت، انکشافِ تام کا نام ہے ۔ جب تک روح کا تعلق اس بدن کے ساتھ ہے۔ انکشافِ تام (مکمل انکشاف) نہیں ہوسکتا کیونکہ روح خواہ کتنی ہی بے تعلق ہوجائے، کم سے کم حیات کا علاقہ (تعلق) باقی رہے گا۔ اگر صرافِ اصلی پر رہے، خودی کا تعلق باقی ہے۔
۱۱۔ سماع کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے ارشاد کیا کہ صوفیہ صافیہ میں سے جو لوگ راگ سننے کےقائل ہیں، اُنہوں نے اس میں یہ حکمت دیکھی ہے کہ راگ سننے کے بعد طبیعت ساکن و برقرار رہتی ہے۔ ناچار روح، معانی کا ادراک زیادہ کرتی ہے۔ مجوزین سماع کا مقصود معانی ہے وہ نغمہ کو اس کے زیور کی مثل سمجھتے ہیں ورنہ وہ نفس نغمہ میں مبتلا نہیں۔ حاضرین میں سے ایک نے شیخ سعدی کی یہ بیت (شعر) پڑھی کہ ؎
آوازِ خود بہتر از روئے خوش |
|
کہ آں حفظِ نفس است ایں قوتِ[۱] روح |
[۱۔ خوبصورت چہرے سے خوبصورت اور خوش آواز بہتر ہے کیونکہ وہ حظِ نفس ہے اور یہ قوتِ روح۔ (قصوری)]
آپ نے فرمایا کہ دونوں ایک ہی ہیں یعنی اگر دیکھنے والا اور سننے والا اہلِ نفس سے ہیں تو وہ دیکھا ہوا اور سنا ہوا دونوں نفسانی ہیں اور اگر اصحابِ روح سے ہیں تو دونوں روحانی ہیں اور فرمایا کہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا قدس سرہ کے ملفوظات میں مذکور ہے کہ راگ سننے کی شرطوں میں سے ایک شرط یہ ہے کہ سننے والے پر اللہ تعالیٰ کی محبت غالب ہو۔ آپ کے مخلصوں میں سے ایک نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی کیا علامت اور نشانی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا اتباع، پھر اُس مخلص نے عرض کیا کہ ممکن ہے کہ متبع (اتباع کرنے والے) کا مقصود بہشت ہو یا عذابِ دوزخ سے نجات۔ آپ نے فرمایا کہ ایسا شخص متبع تام (مکمل اتباع کرنے والا) کامل نہیں اور اُسے اہل اللہ میں شمار نہیں کرتے، اتباع ظاہری تو ظاہر ہے۔ اتابعِ باطنی یہ ہے کہ اُس کے باطن میں سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی مطلب و مقصود نہ ہو۔
۱۲۔ وَلایت (واؤ کی زبرکے ساتھ) بندہ کے اُس قرب کو کہتے ہیں جو وہ حق سبحانہ سے تعلق رکھتا ہے اور وِلایت (واؤ کی زیر کے ساتھ) اُس چیز کو کہتے ہیں جو خلق میں مقبول ہونے کا سبب ہے اور اہل عالم اس کی طرف گرویدہ ہوتے ہیں اور یہ کمال مخلوقات سے تعلق رکھتا ہے۔ خوارق و تصرفات دوسری قسم میں داخل ہیں۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے سوال کیا کہ جو برکتیں صاحبانِ استعداد کو پہنچتی ہیں وہ کس قسم میں داخل ہیں؟ آپ نے جواب میں فرمایا کہ وہ وَلایت (واؤ کی زبر کے ساتھ) کا اثر میں اس بیان کے اثنا (دوران) میں آپ نے طالبوں کے استفادہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جس وقت طالب کا آئینہ مرشد کے آئینہ کے مقابل ہوتا ہے تو جو کچھ مرشد کے آئینہ میں ہوتا ہے وہ طالب کے آئینہ پر بقدرِ مناسبت اپنا پر تو ڈالتا ہے۔ اسی موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ بعض کو ولایت کی ان دونوں قسموں میں سے ایک حاصل ہوتی ہے اور بعض کو دونوں قسموں سے کافی حصہ ملتا ہے یا کسی کو دونوں میں سے ایک سے زیادہ اور دوسری سے کم حصہ ملتا ہے۔ مشائخِ نقشبندیہ رحمہم اللہ تعالیٰ میں ہمیشہ وَلایت (واؤ کی زبر کے ساتھ) وِلایت (واؤ کی زیر کے ساتھ) پر غالب رہی ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جب کوئی مقتدا اس جہان سے انتقال کرجاتا ہے تو ولایت (بکسر واؤ) کے اپنے مخلص کے حوالہ کرجاتا ہے اور وَلایت (بفتح واؤ) اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ کبھی کسی لغزش کے باعث ولی کی وِلایت (بکسر واؤ) چھین لی جاتی ہے۔ چنانچہ ابنِ فارض رحمۃ اللہ علیہ نے پیر بقال کے جنازہ کے امام کا واقعہ بیان کیا ہے جو مولانا جامی قدس سرہ کی نفحات الانس نامی کتاب میں مذکور ہے۔
۱۳۔ ایک روز فقراء پر بعض منکرین کے اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اولیاء کبیرہ گناہوں سے محفوظ نہیں ہیں اگر اتفاقاً اپن سے اس قسم کی کوئی حرکت سرزد ہوجائے تو اس سبب سے اُن کو ولایت سے خارج کردینا جہالت ہے بلکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ وہ ہمیشہ یا اکثر کون سی منزل میں رہتے ہیں۔ اس حال میں اگر کبھی بتقاضائے بشریت اُن سے کوئی کبیرہ گناہ صادر ہوجائے تو اس میں اُن کو معذور سمجھنا چاہیے۔
۱۴۔ محبتِ ذات و محبتِ صفات کی تحقیق میں سلسلۂ سخن شروع تھا۔ زبان اقدس سے فرمایا کہ محبتِ صفات یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص کسی سے اس لیے محبت رکھتا ہے کہ وہ عالم ہے یا شجاع ہے، تو اُس وقت اُس کی محبت موقوف ہوگی صفتِ عالم و شجاعت پر، اگر یہ اوصاف اُس سے دور ہوجائیں تو اس کی محبت بھی جاتی رہے۔ اور محبت ذاتی یہ ہے کہ کسی شخص کو بغیر لحاظ کسی صفت کے دوست رکھے۔ یہ نہیں کہ جب وہ کسی صفت کے ساتھ متصف ہو تو اُس وقت محبت میں زیادتی ہو اور جب کسی صفت کے ساتھ متصف نہ ہوتو محبت میں کمی آجائے۔
۱۵۔ ہمارے طریقہ کا دارومدار تین باتوں پر ہے۔ اہل سنت و جماعت کے عقائد پر ثابت قدم رہنا، دوام آگاہی اور عبادت۔ اگر کسی شخص کی ان تین چیزوں میں سے ایک میں خلل و فتور آجائے تو وہ ہمارے طریقہ سے خارج ہے۔ ہم عزت کے بعد ذلت اور قبول کے بعد رد سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔
۱۶۔ پیر کے متعدد ہونے میں کلام شروع ہوا تو زبانِ مبارک سے فرمایا کہ پیر تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک پیر خرقہ، دوسرے پیر تعلیم، تیسرے پیر صحبت۔ واضح ہو کہ پیر خرقہ وہ ہے جس سے خرقۂ ارادت پہنا جائے، جس بزرگ سے خرقۂ تبرک و اجازت ملے، اُسے اہل تصوف کی اصطلاح میں پیر خرقہ کہتے ہیں ۔ پیر تعلیم، ذکر کے معنے ظاہر ہیں۔ پیر صحبت وہ ہے جس سے لوگ صحبت رکھیں اور اس کی صحبت سے منافع و ترقیات حاصل کریں۔ اسی موقع پر فرمایا کہ ہندوستان میں سلسلۂ چشتیہ و کبروریہ میں دارومدار خرقہ پر ہے۔ ان سلسلوں کے اصحاب کی اصطلاح میں پیر مطلق، پیر خرقہ کو کہتے ہیں۔ اسی واسطے ایک شخص کے لیے کئی پیروں کے سونے کو تسلیم نہیں کرتے اور پیر تعلیم و پیر صحبت کو مرشد کہتے ہیں۔ آپ نے اسی مطلب کے مطابق ایک بزرگ کا نام لے کر فرمایاکہ انہوں نے اپنے رسالوں میں لکھا ہے کہ پیر خرقہ متعدد ہونا مکروہ ہے اور اسی طرح پیر تعلیم کا تعدد مکروہ ہے۔ لیکن پیر صحبت کئی ہوسکتے ہیں۔ بشرطیکہ پہلا پیر اجازت دیدے یا اس کی صحبت فوت ہوجائے۔ بعد ازاں آپ نے فرمایا کہ ہاں پیر خرقہ متعدد نہیں ہوتے لیکن پیر تعلیم مثل پیر صحبت کے کئی ہوسکتے ہیں اور یہی سالکوں کا معمول ہے۔
۱۷۔ صوفیۂ کرام کے سلسلوں میں لوگوں نے خرقہ کی سند حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بطریقہ عنعنہ بیان کی ہے مگر ذکر کو بطریقِ عنعنہ بیان نہیں کیا مگر سلسلہ نقشبندیہ و کرویہ میں ذکر کی سند بطریق عنعنہ حضرت سالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ سے لے کر آج کے دن تک درمیانی راویوں میں کسی طرح کا خلل نہیں پڑا۔ اس موقعہ پر حاضرین میں سے ایک نے سوال کیا کہ یہ جو کہتے ہیں کہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں طریقہ رابطہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے اور طریقۂ ذکر حضرت امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ سے پہنچا ہے، کہاں تک درست ہے؟ آپ نے فرمایا کہ جو ذکر ہمارے سلسلہ میں ہے اور جسے وقوفِ عدی کہتے ہیں، مقررہ طریقہ کے ساتھ مثلاً حبس، دم اور اُس کے ساتھ محمد رسول اللہ ملانا، وہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہم تک بطریقِ عنعنہ پہنچا ہے اور طریقِ صحبت بھی آپ ہی سے پہنچا ہے کیونکہ آپ سفر و حضر میں جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا کرتے تھے اور بطریقِ صحبت فیض حاصل کرتے تھے۔ اصل اس کام میں صحبت ہے اور رابطہ اس کا ظل ہے ۔ جب صحبتِ ظاہری مفقود ہو تو اس طریقہ والوں نے رابطہ پر اکتفا کیا جو صحبتِ معنوی ہے۔
۱۸۔ ایک روز مولانا جامی قدس سرہ السامی کی کتاب ’’نقد نصوص‘‘ کی یہ عبارت نظر مبارک میں آئی کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ حضور کی حالت میں بغیر اس کے کہ حس سے غائب ہوں امورِ غیبیہ کے بعض حقائق اس گروہ پر کھل جاتے ہیں اور اسی کو مکاشفہ کہتے ہیں۔ مکاشفہ کبھی جھوٹ نہیں ہوتا کیونکہ مکاشفہ سے مراد ہے علائقِ بدن سے مجرد ہونے کی حالت میں روح کا مغیبات کے مطالعہ میں منفرد (تنہا) ہونا۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت جاؔمی نے یہ مضمون ترجمہ عوارف سے نقل کیا ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بعضے مکاشفات جن میں خیال کو کچھ دخل ہے اُن میں خطا بھی ہوجاتی ہے لیکن علوم یقینی جو کہ مدرکہ (ذہن) پر الہام کیے جاتے ہیں اُن میں خطا کو کچھ دخل نہیں۔ اس موقعہ پر ایک درویش نے عرض کیا کہ بعض علوم یقینی میں بھی جو بطریقِ الہام معلوم ہوتے ہیں، خطا پائی جاتی ہے۔ اس کا سبب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اُس کا سبب یہ ہے کہ صاحبِ الہام اپنے مقدمات مسلمہ میں سے بعض کو جو اس کے نزدیک یقینی ہیں، ان علوم یقینی کے ساتھ ملا لیتا ہے۔ اسی وجہ سے اُن میں خطا آجاتی ہےورنہ صرف علومِ الہامیہ میں خطا کی گنجائش نہیں۔ علومِ عقلیہ کے علماء جو قوانینِ منطق کی رعایت کرتے ہیں کبھی اُن کے فکر میں خطا داخل ہوجاتی ہے۔ اس میں راز یہ ہے کہ اپنے مقدمات مقررہ کو یقینی خیال کرکے اس میں ملا لیتے ہیں ورنہ منطق تو وہ علم ہے کہ اس کی رعایت ذہن کو فکر میں خطا سے بچاتی ہے اگر صرف منطق کا استعمال ایسے مقدمات ملانے کے بغیر ہو تو ذہن کبھی خطا نہ کرے۔ اس موقعہ پر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ خدا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اُن کو کشف کی کچھ ضرورت نہیں، کیونکہ کشف دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک کشف دنیوی جو بالکل کسی کام نہیں آتا، دوسرا کشف اُخروی جو کتاب و سنت میں بصراحت مذکور ہے اور عمل کے لیے کافی ہے کوئی کشف اس کے برابر نہیں۔
۱۹۔ اہل اللہ کے بارے میں سلسلۂ کلام شروع ہوا تو فرمایا کہ اہل اللہ تین فرقے ہیں عباد، صوفیہ، ملامتیہ۔ عباد وہ لوگ ہیں، جنہوں نے ظاہر عبادت پر اکتفا کیا ہے اور فرائض و سنن کے بعد نفلی عبادتوں اور خیرات پر قیام کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ چاہتے ہیں کہ خیرات میں سے کسی چیز کی فروگزاشت نہ ہو۔ اور صوفیہ کے اذواق و مواجید سے بہرہ ور نہیں ہوتے۔ عباد میں سے جو شخص صوفیہ کے اذواقع و مواجید سے بہرہ ور ہوگیا وہ گروہِ صوفیہ میں داخل ہوگیا اور اپنے مرتبہ سے نکل آیا۔ صوفیہ وہ فرقہ ہے جو مواجید و اذواق سے بہرہ ور ہیں اور اپنے خوارق و کرامات کو مخلوق کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رکھتے۔ تمام کاموں میں اُن کی نظر خدا پر ہے اور مخلوق کو مظاہر حق جانتے ہیں۔ اس فرقہ میں ایک طرح کی رعونت و نخوت رہ گئی ہے۔ ملامتیہ وہ لوگ ہیں جو عام لوگوں کے لباس میں رہتے ہیں اور عوام سے کچھ امتیاز نہیں رکھتے اور ظاہر میں فرائض و سنن موکّدہ پر اکتفا کرتے ہیں اور اخلاص کی رعایت میں کوشش کرتے ہیں اور اپنے تئیں اپنے خوارق ظاہر کرکے مشہور و ظاہر نہیں کرتے۔ اس امر میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کا اتباع کیا ہے کیونکہ وہ جانتےہیں کہ یہ عالمِ ظہور کا محل نہیں۔ خدا تعالیٰ نے اپنے تئیں عام لوگوں کی نظروں میں پوشیدہ رکھا ہے۔ لہٰذا وہ بھی اپنے تئیں مخلوق کی نظروں سے پوشیدہ رکھتے ہیں، اسی واسطے اکثر لوگ اُن کو اپنے جیسا خیال کرتے ہیں۔ یہ جماعت رعونت سے بالکل آزاد و پاک ہے۔ وہ مقامِ عبودیت کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ حضرت شیخ ابنِ عربی قدس سرہ نے اس جماعت کے کئی سردار ٹھہرائے ہیں۔ سب سے بڑے سردار جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاتے ہیں۔ صحابہ کرام میں سے حضرت صدیق اکبر اور سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور مشائخ میں سے حضرت بایزید بسطامی اور ابوسعید خراز اور ابوالسعود اور اپنے آپ کو بتاتے ہیں۔ ان کے سوا اوروں سے ساکت ہیں مگر اُن کی نفی نہیں کرتے۔ شیخ کا طریقہ یہ ہے کہ جو کچھ کسی خاص وقت میں کشف میں آگیا اُسے لکھ دیتے ہیں۔ فرقہ ملامتیہ میں سے جو لوگ اپنے تئیں مخلوق پر بعنوان ملامت ظاہر کرتے ہیں اور بعض ایسی چیزوں کے مرتکب ہوتے ہیں جو باعتبار ظاہر ممنوع ہیں مثلاً سفر میں ماہِ رمضان میں دن کے وقت بازار میں کھاتے پھرتے ہیں تاکہ مخلوق کی نظروں سے اُن کا اعتبار اُٹھ جائے۔ ایسے لوگ رتبہ و مرتبہ میں صوفیہ سے کم درجہ کے ہیں مخلوق اُن کی نظروں سے ساقط نہیں ہوا ہے۔
۲۰۔ (ایام وفات سے پہلے) فرماتے تھے کہ یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ طریقِ توحید (وحدتِ وجود) کے سوا ایک اور وسیع راہ ہے اور توحید کی راہ اُس شاہراہ کے مقابلہ میں محض ایک تنگ کوچہ ہے۔
(تاریخِ مشائخ نقشبند)