سراج الملۃ مؤید الدین الرضی خواجہ محمد باقی

سراج الملۃ مؤید الدین الرضی خواجہ محمد باقی قدس سرہ

ولادت باسعادت:

حضرت خواجہ محمد باقی عرف باقی اللہ قدس سرہ کو مولانا خواجگی امکنگی رحمۃ اللہ علیہ سے خلافت ہے۔ آپ کے والد کا اسم گرامی قاضی عبد السلام خلجی سمر قندی قریشی تھا۔ جو صاحب وجد و حال اور ارباب فضل و صفا سے تھے۔ اور ایک عرصے سے اپنے قبائل سمیت کابل میں سکونت پذیر تھے۔ کابل ہی میں آپ نے شادی کی اور یہیں حضرت خواجہ۹۷۱ھ میں یا ایک سال بعد تولد ہوئے۔ لڑکپن ہی سے بزرگی و ہمت اور تجرید و تفرید کے آثار آپ کی پیشانی سے ظاہر تھے۔ اُن ایام میں بعض وقت آپ تمام دن گوشہ تنہائی میں گزاردیتے۔ مولانا صادق حلوائی سے جو اُس زمانہ میں علماء کبار سے تھے۔ آپ نے علوم رسمی کی تعلیم شروع کی۔ اور مولانا کی رفاقت میں کابل سے ماوراء النہر چلے گئے اور اپنی علو فطرات کے سبب سے تھوڑے ہی عرصے میں اپنے ہم عصروں میں امتیاز حاصل کیا۔

درویشی کا شوق:

علوم رسمی کا کچھ حصہ ابھی باقی تھا کہ آپ کو درویشی کا شوق دامن گیر ہوا۔ اس لیے آپ ماور اءلنہر کے شہروں مین جوان دنوں میں مشائخ  کبار کا معدن تھا اولیاء اللہ کی تلاش میں گشت لگاتے پھرے بعضوں سے مستفید ہوئے اور بعضوں کے ہاتھ پر توبہ و انابت کی تجدید کی چنانچہ آپ خود بیان فرماتے ہیں۔ ’’پہلے پہل خواجہ عبید  کی خدمت میں گناہوں سے توبہ کی گئی۔ لیکن رجوع کا خیال اور ترک کا عزم باطن میں تھا۔ اور فاتحہ کی التماس ظاہر میں۔ خواجہ عبید لطف اللہ کے خلفاء سے تھے اور مولانا لطف اللہ مولانا خواجگی دہیدی علیہ الرحمۃ کے خلیفہ تھے مگر جب استقامت کی توفیق نہ ہوئی تو دوسری بار حضرت بندگان افتخار شیخ کی خدمت میں توبہ کی گئی جو سمر قند میں تشریف رکھتے تھے اور حضرت خواجہ احمد بسوی کے خاندان کے اکابر میں سے تھے اگرچہ شیخ سمر قندی راضی نہ تھے اور فرماتے تھے کہ تم جوان ہو لیکن چونکہ فقیر کا ارادہ مصمم تھا۔ نا چار آپ نے فاتحہ پڑھی اور فرمایا کہ خدا استقامت بخشے ان بزرگوں کی فراست کے مطابق عزیمت درہم برہم ہوگئی اور عجیب خرابی پیدا ہوئی۔ تیسری مرتبہ فقیر کے قصد و اختیار کے بغیر حضرت امیر عبد اللہ بلخی مدظلہ کی خدمت میں از سر نو توبہ ظہور میں آئی یہ غیر مترقب نعمت تھی۔ امید ہے کہ ان بخششوں کی برکتیں تا قیامت رہیں گی۔ القصہ کچھ مدت اور نگہداشت حدود کے مقام میں رہا پھر اس المضل کی تاثیر نے اس دیوار کو توڑ دیا۔ آخر کار خدائے بے نیاز کی ہدایت سے خواب میں خواجہ بزرگ بہاء الحق والدین کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اور ان کی خدمت میں صورت توبہ منعقد ہوئی۔ اور اہل اللہ کے طریقہ کی طرف میلان کا ظہور میں آیا فقیر بموجب الغریق ایتشبت بکل حشیش ہر طرف ہاتھ مارتا تھا انجام کار مخدوموں میں سے بعض نے فرمایا کہ ذکر وہی نتیجہ خیز ہے جو بطریق عنعنہ جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچے میری تشنگی و بیقراری نے مجھے اس پر آمادہ کیا کہ اُسی بزرگ سے ذکر و مراقبہ کا طریق حاصل کیا جائے چنانچہ دو سال اُسی مخدوم کے بتائے ہوئے ذکر و مراقبہ اور اور اد کی پابندی کی گئی۔ میرے سننے میں آیا تھا کہ سالک جب تک تقریباً چالیس لا الٰہ کے میدان کو طے نہیں کرتا لا الٰہ کی منزل پر نہیں پہنچتا اس لیے سادہ لوحی یہ خیال دلاتی تھی کہ عمر ذکر میں گزرنے کو غنیمت سمجھ اور اسی طرح کی عبادت پر قناعت کر۔ اگرچہ اس اثنا میں دوسرے طریقہ کے سلوک کے لیے غیبی اشارے ظہور میں آتے تھے مگر فقیر اپنے مضبوط قدم کو جگہ سے نہ اُٹھاتا تھا اور اسی طبقہ(نقشبندیہ) کے بزرگوں کی زمین کرم میں وفیھا ماتشتھیہ الانفس[۱] کا بیج بوتا تھا بدیں امید کو انشاء اللہ العزیز آخر کار اکسی بزرگ کا دست کرم اس بی کو مالا عین رأت ولا اذن سمعت کی نہر سے سیراب کرے گا۔ آخر کار فقیر کشمیر میں(۹۹۹ھ) میں پہنچا اور حضرت شیخ بابا والی قدس اللہ سرہ العالی کی ملازمت میں حاضر ہونے کا اتفاق پڑا اور ان کی نظر کی برکتوں سے بہرہ مند ہوا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے کہ ان نظروں سے قبول کا دروازہ کھل گیا چونکہ حضرت شیخ کو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی بھی اجازت حاصل تھی اور فقیر طلب کی استعداد اس بزرگوار کے آستانہ کی طرف متوجہ تھی اس لیے اسی خانوادہ کی کھڑکی سے فیضان الہی پہنچنا شروع ہوا۔ جب حضرت شیخ(۱۵ صفر ۱۰۰۱ھ میں) بہشت کی طرف انتقال کرگئے تو حضرت خواجگان نقشبندیہ کی غیبت معہودہ جلوہ گر ہوئی۔ اور ان کی پاک روحیں مبشرات میں نظر آنے لگیں اور طرح طرح کی تلقین کرنے لگیں۔ ان کی توجہ کی برکت سے اس نسبت میں قوت پیدا ہوگئی اور غیبت کا دائرہ وسیع اور راستہ روشن ہوگیا اور ایک قسم کی جمیعت حاصل ہوئی یہاں تک کہ ان کی عنایات کی کشش سے مخدومی حقائق پناہی ارشاد دستگاہی حضرت مولانا خواجگی امکنگی قدس سرہ العزیز کی خدمت میں رسائی ہوگئی اور خوشی و رغبت سے ان سے بیعت و مصافحہ کرکے خواجگان کا طریقہ حاصل کیا گیا اور حضرت کی ملازمت اور خواجہ نقشبند اور ان کے خلفاء کی پاک روحوں کے طفیل سے اس راستہ کے چلنے والوں اور اس درگاہ کے نیاز مندوں کے سلسلہ میں داخل ہوگیا۔ یا اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھنا اور مسکینی کی حالت میں موت دینا اور مسکینوں کے زمرہ میں اُٹھانا۔ والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ۔‘‘

[۱۔ اور اُس میں وہ چیز ہے جسے جی چاہے۔]

حضرت خواجہ کے بیان بالا سے پایا جاتا ہے کہ آپ اویسی تھے یعنی آپ نے حضرت خواجہ بزرگ بہاء الحق والدین اور آپ کے خلفاء بلکہ خود جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت مبارکہ سے تربیت پائی تھی اور ان بزرگواروں کی نظر عنایات سے اِس خدمت کو انجام پر پہنچایا تھا۔ آپ کی ابیات ذیل بھی یہی مستفاد ہوتا ہے۔؎

شنیدم کاشفِ راز نہانی
کہ بودے دردِ جاں نام[۱] اویش

 

ابو القاسم چراغ کرگانی
کہ باشد شربے از جام اویش

[۱۔ اولیاء اللہ کا ایک گروہ ہے جسے مشائخ طریقت و کبرائے حقیقت اویسی کہتے ہیں۔ اُن کو ظاہر میں کسی پیر کی حاجت نہیں۔ کیوں کہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کو بلا واسطہ غیر سے اپنی عنایت کی گود میں اس طرح پالتے ہیں جس طرح آپ نے حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو پالا تھا۔ یہ بہت بڑا مقام ہے۔ طریقہ نقشبندیہ کے بہت سے مشائخ کی توجہ سلوک میں اسی مقام کی طرف تھی چنانچہ شیخ بزرگوار شیخ ابو القاسم کرگانی کا ابتدا میں یہی ذکر تھا کہ ہمیشہ کہا کرتے اویس اویس رسالہ قدسیہ مصنفہ خواجہ محمد پارسا۔]

کیم من کیں ہوس گیرد وماغم
زبانم زیں تلفظ گرچہ بند است

 

نیا بد نور ایں سودا چراغم
سر بیخو است صید ایں کمند است

 

اگرچہ یہ کمال آپ کو پہلے ہی سے حاصل تھا مگر چوں کہ پیر ظاہر سے چارہ نہیں اس لیے ماوراء النہر میں مولانا خواجگی سے اجازت حاصل کی۔

ہندوستان میں تشریف آوری:

حضرت مولانا خوجگی قدس سرہ سے بیعت ہونے سے پیشتر آپ ہندوستان میں بھی تشریف لائے یہاں آپ کے ہمسروں میں سے بعض لوگوں نے جو شاہی مناصب پر مامور تھے آپ کی مادی ترقی کی غرض سے چاہا کہ آپ بھی ارباب لشکر کے زمرہ میں داخل ہوکر دنیوی دولت و متاع سے تونگری حاصل کریں لیکن چونکہ آپ کی قسمت میں دولت دین و متاع یقین کی تونگری مقدر تھی اس لیے ان کی کوشش رائیگاں گئی۔ ایک درویش جو آپ کے ہمراہ تھا بیان کرتا ہے کہ آپ نے سالکوں اور مجذوبوں کی تلاش میں اس قدر کوشش کی کہ اس سے بڑھ کر طاقت بشری سے مقصود نہیں۔

لاہور میں آمد:

شہر لاہور میں برسات کے موسم میں کیچڑ کی کثرت سے کوچوں سے گزرنا بہت دشوار تھا مگر آپ باوجود نازک تنی کے بہت سی گزر گاہوں پہاڑوں، ویرانوں، قبرستانوں، بیابانوں اور باغوں کو ارباب باطن کی ملاقات کے شوق میں کھوندتے پھرتے تھے۔ ایک روز میرے دل میں یہ ولولہ پیدا ہوا کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں اور آپ نے ہر چند منع فرمایا مگر میں باز نہ آیا جب میں نے چند کوچے آپ کی رفاقت میں طے کیے تو کیچڑ کی کثرت کے سبب سے میں تھک گیا اور میرے پاؤں میں درد ہونے لگا۔ بپاس ادب و حیاء میں اپنا حال ظاہر نہ کرسکتا تھا یہاں تک کہ خود آپ میرے حال سے آگاہ ہوکر مجھے واپس کردیا اُس وقت میں نے جان لیا کہ آپ ظاہری قدموں سے نہیں بلکہ دوسرے قدموں سے یہ راہیں طے کر رہے ہیں۔؎

قطع ایں راہ بجز پائے جنوں نتواں کرد

مجذوب کی کرم فرمائی:

حضرت خواجہ کا یک اور رفیق بیان کرتا ہے کہ ان دنوں شہر لاہور کے ایک باغ و قبرستان کے قریب ایک عجیب مجذوب صاحب احوال تھا آپ کو اس کے حال سے آگاہی ہوئی تو اُس کے پیچھے پیچھے پھرا کرتے وہ جس وقت آپ کو دیکھتا سوائے گالیاں دینے کے کچھ نہ کہتا کبھی آپ پر پتھر پھینکتا اور کبھی آپ سے متنفر ہوکر کسی اور جگہ بھاگ جاتا لیکن حضرت خواجہ صدق طلب کے سبب سے اس کا پیچھا نہ چھوڑتے یہاں تک کہ ایک روز اُس دیوانہ صورت فرزانہ سیرت کی مہربانی کی رگ حرکت میں آئی آپ کو اپنے پاس بلا کر حصول مراد کے لیے تو جہات اور دعائیں کیں جن کی برکت سے آپ کو صاحب زبدۃ المقامات لکھتے ہیں کہ ایک صادق القول صاحب دل نے جو اس وقت حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر تھا مجھ سے بیان کیا کہ حضرت ابھی ہندوستان سے ماوراء النہر تشریف نہ لے گئے تھے کہ ایک روز لاہور کی ایک مسجد میں فرض نماز ادا کرنے کے لیے تشریف لائے ناگاہ اثنائے نماز میں آپ کے سینہ سے ایک ہیبت ناک آواز ظاہر ہوئی جس سے تمام نمازی حیران ہوئے امام کے سلام پھیرتے ہی حضرت خواجہ نہایت سے سرعت سے مسجد سے نکل گئے اور اس دن کے بعد اپنے دو تین ساتھیوں کو جمع کرکے اپنے مکان پر جماعت کرلیا کرتے تھے۔

نماز کی کیفیت:

ایک اور بزرگ کا بیان ہے کہ جو لوگ حضرت خواجہ کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے ان میں سے ایک میں بھی تھا ایک روز میں نے اثنائے نماز میں دیکھا کہ حضرت خواجہ کا رُخ مبارک قبلہ کی طرف ہے اور ہماری طرف بھی اور ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ یہ حال دیکھ کر مجھ میں رعشہ پیدا ہوگیا تھر تھراتے ہوئے بڑی دشواری سے میں نے نماز پوری کی اور جو کچھ دیکھا تھا حضرت کی خدمت میں عرض کیا مسکرا کر فرمایا کہ اس واقعہ کا کسی سے ذکر مت کرنا یہ دو معاملے اس امر شاہد عدل ہیں کہ حضرت خواجہ کو حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال تبعیت و مناسبت حاصل تھی کیوں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت یہ روایت ہے کہ نماز میں آپ کے سینہ انور سے ایک ایسا جوش اُٹھتا تھا کہ جس کی آواز ایک میل تک پہنچتی تھی۔ اور یہ بھی حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل سے ہے کہ آپ جس طرح سامنے دیکھتے تھے اُسی طرح پیچھے سے بھی آپ کو ہر چیز نظر پڑتی تھی لیکن حضور سرورِ انبیاءﷺ کو یہ کیفیت ہر وقت حاصل تھی پس حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے اِس بزرگ کو اگر نماز میں جو معراج مومن ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غایت اتباع کے سبب سے کسی وقت یہ دولت حاصل ہو جائے تو محال نہیں کیونکہ بزرگوں کا قول ہے کہ تابع کامل کو متبوع کے تمام کمالات سے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ملتا ہے۔

مزید سیر و سیاحت:

اگرچہ حضرت خواجہ کو یہ حالات و کمالات حاصل تھے اور طالبوں کا رجوع بھی آپ کے آستانہ کی طرف کثرت سے تھا لیکن آپ کی عالی ہمت مشیخت اور تعلیمِ طریقت پر مائل نہ ہوئی بلکہ ہندوستان سے ماوراء النہر اور بلخ و بدخشاں کی طرف کشاں کشاں لے گئی تاکہ سلسلہ نقشبندیہ اور دیگر سلاسل کے بزرگوں کی صحبت میں پہنچ کر فوائد حاصل کریں اور احوال حاصل کی تصحیح فرمائیں۔ اس سفر میں آپ مولانا شیر غانی قدس سرہ کی صحبت میں حاضر ہوئے۔ وہاں سے سمر قند کی طرف روانہ ہوئے راستہ میں سے ہندوستان کے بعض دوستوں کو آپ نے ایک خط لکھا جس کے شروع میں یہ شعر درج تھا۔؎

من از محیط محبت نشاں ہمے دیدم
کہ استخوان عزیزاں بساحل افتاداست

بیعت و خلافت:

اِسی سفر میں آپ ماوراء النہر کے ایک شہر کو جارہے تھے کہ حضرت مولانا خوجگی واقعہ میں آپ پر نمودار ہوئے اور فرمانے لگے اے فرزند چشم مابرراہ شما است۔

حضرت خواجہ اس واقعہ سے بہت خوش وقت ہوئے اور بے ساختہ یہ شعر آپ کی زبان پر جاری ہوا۔؎

مے گزشتم زغم آسودہ کہ ناگہ زکمیں

 

عالم آشوب نگا ہے سر راہم بگرفت

میں غم سے آسودہ جا رہا تھا کہ اچانک گھات میں سے ایک جہاں آشوب نگاہ نے مجھے راستے میں گھیرلیا۔

قصہ کوتاہ جب آپ مولانا موصوف کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مولانا نے آپ پر نہایت عنایات و رعایت مبذول فرمائیں اور آپ کے احوال حاصلہ سُن کر آپ کو تین دن رات اپنی صحبت میں رکھا اور بعض مزید فوائد کی اطلاع دے کر فرمایا کہ تمہارا کام بعنایت الہی اس سلسلہ عالیہ کے اکابر کی روحانیت کی تربیت سے انجام کو پہنچا ہوا ہے اب تم پھر ہندوستان میں جاؤ تاکہ تمہارے ذریعہ سے یہ سلسلہ عالیہ وہاں پوری رونق پائے اور وہاں کے عالی قدر مستفید تمہاری تربیت کی برکت سے کامیابی حاصل کریں آپ نے انکسار و دید قصور کے سبب سے بہت سے عذر پیش کیے مگر حضرت مولانا اصرار سے باز نہ آئے استخارہ کیا تو اس سے بھی حضرت مولانا ہی کی تائید ہوئی اس لیے ناچار آپ کو ہندوستان آنا پڑا۔

ہندوستان میں دوبارہ آمد:

جب حضرت مولانا کے بعض قدیم الخدمت صاحب نسبت نے سنا کہ آپ نے حضرت خواجہ کو چند روزہ صحبت میں خلافت اور اجازت کاملہ عنایت فرما کر ہندوستان کی طرف جانے کا حکم دیا ہے تو انہوں نے غیرت کے مارے شور مچایا جب یہ خبر حضرت مولانا کو پہنچی تو آپ نے اُن سے فرمایا کہ تم کو معلوم نہیں کہ یہ جوان درجہ تکمیل کو پہنچا ہوا تھا وہ ہمارے پاس صرف اپنے احوال حاصلہ کی تصیح کے لیے بھیجا گیا تھا اور ضرور ہے کہ جو شخص جیسا آئے گا ویسا جائے گا۔ الغرض حضرت خواجہ بیابانِ ہندوستان کے تشنہ لبوں کے لیے ابر رحمت بن کر اس طرف روانہ ہوئے اور زمانہ نے بزبان حال یہ شعر پڑھا۔؎

شکر شکن شوند ہمہ طوطیانِ ہند
زیں قند پارسی کہ بنگالہ مے رود

لاہور اور دہلی میں قیام:

جب آپ ہندوستان میں پہنچے تو ایک سال شہر لاہور میں رہے وہاں کے بہت سے علماء فضلاء آپ کی محبت کے گرویدہ ہوگئے بعد ازاں شہر دہلی میں جو دار الاولیاء اور بیت الفقراء تھا تشریف لائے اور قلعہ فیروزی میں سکونت اختیار کی جو نہایت دلکش اور ساحل دریا پر واقع تھا اور جس میں ایک عظیم الشان بابرکت و صفا مسجد تھی زمان وفات تک آپ یہیں سکونت پذیر رہے۔

انکساری:

نسبت انکسار آپ پر ایسی غالب تھی کہ اگر کسی طالب سے کوئی خطا سر زد ہوجاتی تو فرماتے یہ بیچارے فقیر کیا کریں یہ تو ہماری ہی بد صفتی کا اثر ہے جو ان پر منعکس ہو رہا ہے۔ آپ کی تواضع کا یہ عالم تھا کہ جب کوئی طالب آپ کے آستانہ عالیہ پر حاضر ہوتا تو بہت سے عذر کرتے اور فرماتے کہ میں کس لائق ہوں تم نے جو گمان کیا ہے میں اس کے شایاں نہیں تم کسی اور جگہ جاؤ اگر کوئی رہبر ملے تو مجھے بھی اطلاع دینا تاکہ ہم بھی اس کی خدمت میں حاضر ہوں۔ مگر صادق العقیدہ طالب آپ کے آستانہ مبارک کو نہ چھوڑتے اور اپنے مقصود کو پہنچتے۔

پیر کامل کا طالب:

کہتے ہیں کہ ایک خراسانی جو ان حضرت خواجہ قطب الدین بختیار اوشی قدس سرہ کے مزار مبارک کا مجاور تھا اور حضرت کی روحانیت سے ایک پیر کامل کا طالب تھا جو قید حیات میں ہو جب حضرت باقی باللہ دہلی میں رونق افروز ہوئے تو اُس جوان کو واقعہ میں دکھایا گیا کہ طریقہ نقشبندیہ کا ایک بزرگ اب شہر میں وارد ہوا ہے تم اُس کی خدمت کو لازم پکڑو چنانچہ وہ جوان حسب الامر آپ کی خدمت میں پہنچا اور واقعہ عرض کرکے قبولیت کی درخواست کی آپ نے فرمایا یہ مسکین اپنے تئیں اس کے شایاں نہیں سمجھتا۔ وہ کوئی دوسرا ہوگا جب آپ نے بطریق انکسار بہت سے عذر کیے وہ جوان واپس چلا گیا دوسری رات واقعہ میں اُس سے کہا گیا کہ پیر کامل وہی بزرگ ہیں جن کی خدمت میں تم حاضر ہوئے اور ان کی انکساری دیکھی دوسرے روزوہ آپ کے آستانہ پر ایسا آیا  کہ پھر واپس نہ گیا اور شرف قبولیت حاصل کیا اور دیکھا جو دیکھا اسی طرح حضرت خواجہ کے خلیفہ حسام الدین کا بیان ہے کہ میں حسب الارشاد پیر کامل کی تلاش میں آگرہ کی طرف متوجہ ہوا اُس شہر میں پہنچ کر حیران و پریشان تھا کہ کیا کیا جائے اور دل میں کہتا تھا کہ آپ کے آستانہ پر حاضر ہوکر عرض کروں گا کہ میں نے آپ کے ارشاد کی تعمیل کی مگر جیسا بزرگ آپ فرمارہے تھے مجھے نہیں ملا اسی اثناء میں ایک راستہ میں گزر رہا تھا کہ ایک مکان سے راگ کی آواز آئی کان لگا کر بغور جو سنا تو قوال شیخ سعدی علیہ الرحمۃ کی یہ بیت گار ہے تھے۔؎

تو خواہی آستیں افشاں و خواہی دامن اندر کش
مگس ہرگز نخواہد رفت از دکانِ حلوائی

یہ بیت سن کر مجھے مزید اشتیاق پیدا ہوا اور حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا ماجرا بیان کیا اور پایا جو پایا۔

درویش کا رونا:

ایک روز لاہور کے ایک فقیر نے واقعہ میں دیکھا کہ حضرت خواجہ گھوڑے پر سوار جا رہے ہیں اور بہت سے لوگ آپ کے پیچھے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ قطب وقت ہے۔ بعد ازاں اُس درویش نے حاضر خدمت ہوکر قبولیت کی درخواست کی آپ نے حسب معمول عذر پیش کیا وہ بیچارہ مسجد میں آکر درویشوں کے مجمع میں روتا ہوا کہنے لگا کہ یارو! کیا ناز و گدا زہے کہ اپنا  جمال دکھاکر میرا دل لے لیا ہے، اب جونا شاد و خانہ خراب حاضر خدمت ہوا ہوں تو یوں جواب دیتے ہیں اور آستانہ سے نکالتے ہیں کیا کروں اور کہاں جاؤں۔ اس نے اس ماجرا کو ایسے پیرایہ میں بیان کیا کہ بہت سے حاضرین بے ہوش ہوگئے اور عجیب شور برپا ہوا۔ یہاں تک کہ حضرت خواجہ کے کان تک پہنچا۔ آپ نے پوچھا کہ یہ کیسا شور ہے عرض کیا گیا۔

کزابِ شیرین تو شور یست در ہر خانۂ

آپ نے تبسم فرمایا اور اُس درویش کو بلاکر تلقین سے سرفراز فرمایا۔؎

تا نگرید طفل کے جوشد لبن
تا نگرید ابر کے خندد چمن

تحمل و برداشت:

 

صاحب زبدۃ المقامات کا بیان ہے کہ ایک روز میں ایک مسجد کے گوشہ میں تنہا بیٹھا ہوا تھا۔ مجھ سے کچھ فاصلے پر ایک فقیر دوسرے فقیر سے شیوۂ اولیاء اللہ کا تذکرہ کر رہا تھا۔ اسی ضمن میں اُس نے کہا کہ میں نے عمر بھر میں ایک شخص کو دیکھا ہے جو بے نفسی و بردباری میں اس زمانہ میں بے مثل ہے اور ہمارے محترم کا نام لیا۔ اور بیان کیا کہ میں  خواجہ قطب الدین بختیاری کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پر تھا کہ ناگاہ خبر پہنچی کہ حضرت خواجہ محمد باقی قدس اللہ سرہ تشریف لا رہے ہیں۔ خدام نے مزار شریف کے قریب آپ کے لیے ایک تخت بچھایا اور اس پر فرش اور تکیہ لگایا۔ آپ کی تشریف آوری سے پہلے ایک آزاد فقیر آیا۔ اس کی نظر جو تخت و فرش پر پڑی تو پوچھا یہ کیا ہےا ور کس کے لیے ہے خدام نے کہا کہ فلاں بزرگ کے لیے ہے۔ یہ سُن کر وہ حضرت خواجہ کو سخت سست کہنے لگا اسی اثناء میں حضرت خواجہ بھی آپہنچے آپ کو دیکھ کر وہ اور  برا فروختہ ہوا اور آپ کے سامنے ہرزہ گوئی کرکے کہنے لگا کہ اے شخص! تو ایسی کون سی لیاقت رکھتا ہے کہ یہاں تیرے واسطے فرش بچھایا جائے۔ حضرت خواجہ کے ہمراہ جو درویشوں کی بڑی جماعت تھی وہ یہ سُن کر بے آرام ہوگئی اور چاہتی تھی کہ اُس بے لگام فقیر کو تنبیہ کرے مگر حضرت نے  اپنی نگاہِ خشم آلود سے سب کو اس ارادے سے باز رکھا اور خود اس بد زبان فقیر کے  پاس جاکر نہایت نرمی سے عذر کیا اور فرمایا کہ میں کسی لائق نہیں آپ جو کچھ فرماتے ہیں درست ہے یہ سارا تکلف میرے اشارے اور علم کے بغیر ہوا ہے آپ معاف کیجیے اور مجھ بد نصیب کے پیچھے اپنا مغز خالی نہ فرمائیے آپ زبانِ مبارک سے  یہ فرماتے جاتے تھے اور اپنی آستین مبارک کے ساتھ اس کی پیشانی  کا پسینہ پونچھتے جاتے تھے اور اظہارِ تواضع فرما رہے تھے چند درہم خود اس نے مانگے تھے دے رہے تھے۔ راوی کا قول ہے کہ میں نے کسی طرح کا تغیر و تذبذب حضرت خواجہ کے حال و قال میں نہ دیکھا۔ اس وقت مجھے یقین ہوگیا نفس مَلَکی جسے کہتے ہیں وہ اِس عالم میں موجود ہے۔

اکثر ایسا ہوتا تھا کہ مخلص امراء آپ کی خدمت میں سیم و زر اِس غرض سے بھیجتے تھے کہ آپ کے صوابدید او ر رائے سے فقراء میں تقسیم کیا جائے۔ خلق اللہ پرشفقت کی وجہ سے وہ رقم خود مستحقین میں تقسیم فرماتے اور اِس ضمن میں اپنے ہاں سے بھی کچھ دیتے۔ اس پر بھی بعضے محتاج بے فائدہ زبان طعن دراز کرتے آپ کے اصحاب ان کو منع کرنا چاہتے تو آپ ان کو نیستی اور دید تصور اور بردباری کی ہدایت کرتے اور اس امر کو راہِ عرفاں کی دلیل بتاتے اگر آپ کے اصحاب سے اِس امر کے خلاف ظہور میں آتا تو آپ اُن کو نہایت عتاب کے ساتھ نصیحت فرماتے۔

ہمدردی کا جذبہ:

حضرت خواجہ کی شفقت و ترحم کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ لاہور میں قحط پڑا آپ اسی شہر میں تشریف رکھتے تھے آپ نے کئی دن تک کھانا نہ کھایا جس وقت کھانا آپ کے آگے رکھا جاتا فرماتے کہ یہ انصاف سے بعید ہے کہ ایک تو کوچہ میں بھوک کے مارے جان دے رہا ہو اور ہم کھانا کھائیں۔ ما حضر کو بھوکوں کے لیے بھیج دیتے اور آپ قوتِ روحانی پر گزارہ کرتے۔

جب آپ لاہور سے دہلی کی طرف متوجہ ہوئے تو اکثر ایسا اتفاق پڑتا کہ آپ ایک فرسنگ بلکہ ایک میل بھی طے نہ کرتے کہ کوئی عاجز پیادہ نظر پڑتا یہ دیکھ کر آپ اُسے اپنے گھوڑے پر سوار کرتے اور خود اس پیادہ کے مکان تک پیدل چلتے اور سر پر چادر اوڑھ لیتے تاکہ کوئی آشنا آپ کے اس عمل خیر پر اطلاع نہ پائے جب مکان کے نزدیک پہنچتے تو بغرض اخفاء آپ پھر گھوڑے پر سوار ہوجاتے۔

آپ کی شفقت حیوانات کے بھی شامل حال تھی۔ چنانچہ ایک رات آپ تہجد کے لیے اٹھے ایک بلی آکر آپ کے لحاف پر سوگئی۔ آپ نے بلی کو جگانا گوارا نہ کیا اور خود دن چڑھے تک سردی کی تکلیف برداشت کرتے رہے۔

تقویٰ:

حضرت خواجہ کے زہد و استغناء کا یہ حال تھا کہ آپ کی مجلس میں امور دنیا کا ذکر نہ ہوتا تھا، ہاں اگر کوئی حاجت مند حاضر ہوتا تو اُس کی سفارش فرمادیتے اور ان کاموں میں اپنے اور اپنے درویشوں کے لیے کبھی کوئی تدبیر  نہ کرتے تھے۔ اپنے مُریدوں کے لیے سوائے فقر و مسکنت و قناعت کے کچھ نہ چاہتے اور فرماتے کہ جس کو ہم سے مالی امداد پہنچے، وہ یقین کرے کہ اُس کے ساتھ ہمیں دینی محبت کم ہے۔ آپ کے  عقیدت مندوں میں بعضے متمول و مالدار التماس کرتے تھے  کہ اگر حکم ہو تو آستانہ شریف کے فقراء کے لیے کچھ روزینہ مقرر کردیا جائے مگر آپ اُن لوگوں کے بارے میں اجازت نہ دیتے تھے جنہوں نے آپ کے ساتھ نسبتِ معنوی درست کرلی تھی۔ ہاں اوروں کے لیے منظور فرماتے۔ آپ متاع دینوی کے قبول کرنے سے اس قدر متنفر تھے کہ جس وقت آپ نے حجاز کا سفر کا ارادہ کیا تو مرزا عبدالرحیم خانخاناں نے جو فقراء سے عموماً اور حضرت خواجہ سے خصوصاً کمال عقیدت رکھتا تھا ایک لاکھ روپیہ نقد آپ کے اور آپ کے ہمراہیوں کے زادراہ کے لیے بھیجا اور عرض کیا کہ اسے قبول فرماکر مجھے ممنون فرمائیں حضرت خواجہ نے یہ سُنا تو خفا ہوئے اور فرمایا کہ حج کرنا ہمارے لیے اِس قدر ضروری نہیں کہ مسلمانوں کا اِس قدر سیم و زر اپنے صرف میں لاکر ضائع کردیں، غرض وہ روپیہ آپ قبول نہ کیا اور واپس کردیا۔

بلند ہمتی:

اگرچہ ابتدا سے انتہا تک بڑے بڑے عظیم الشان حالات آپ پر وارد ہوئے مگر آپ کی بلند ہمت نے کسی ایک حال و کشف پر قناعت نہ کی بلکہ باوجود کمال کے آپ ہمیشہ اپنی  نایافت کا اظہار فرماتے تھے۔ اور عین بحر وصال میں خشک لب و تشنہ رہتے تھے جیسا کہ آپ کی اس رباعی سے پایا جاتاہے؎

در راہِ خدا جملہ ادب باید بود
دریا دریا اگر بکامت ریزند

 

تاجاں با قیست در طلب باید بود
گم باید کرد و خشک لب باید بود

شیخ تاج الدین جو حضرت خواجہ کے جلیل القدر خلفاء میں سے ہیں بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہمارے خواجہ عجیب کیفیت کے ساتھ دریا کے ساحل کی طرف متوجہ ہوئے۔ قبا کے بند کُھلے، سینہ ننگا، عمامہ پریشان، چہرہ مبارک سے شکستگی اور قلق و اندوہ کے آثار نمایاں۔ آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر میں بھی آپ کے پیچھے ہولیا۔ کچھ دیر کے بعد آپ کو میرا احساس ہوا۔ نہایت آہ و درد کے ساتھ فرمایا کہ تاج! اِس قدر واردات اور احوال اور فیوضات اور انوار و اسرار مجھ پر وارد ہو رہے ہیں کہ اگر یہ دریا سیاہی ہوجائے تو اُن کے لکھنے کے لیے کافی نہ ہو۔ مگر مجھے ان سے کیاکام۔ میرا مطلوب دید و دانش سے دور ہے۔؎

طلب بے چون و مطلب ہیچ گونہ
نہ آں را شبہ ورز ایں را نمونہ

گریہ کی کیفیت:

یہ بھی شیخ تاج الدین کا بیان ہے۔ کہ ایک روز میں صف جماعت میں حضرت خواجہ کے  پہلو میں تھا۔ نماز کے درمیان آپ پر یہ گریہ و اضمحلال کے غلبہ کے آثار محسوس ہوئے نماز سے فارغ ہوکر آپ اِسی حالت میں حجرے میں تشریف لے گئے۔ میں بھی آپ کے پیچھے آیا اور آپ کو اُسی حال میں پایا تھوڑی دیر بعد میں نے خلاف ادب اور گستاخانہ عرض کیا۔ کہ اس بے اختیار رونے اور اندہ و آشفتگی کا سبب کیا ہے فرمایا تو اِس بات کو دریافت نہ کر ہم کو اِس درد و اندہ میں رہنے دے ۔ چوں کہ خواجہ کی عنایت نے مجھے بہت دلیر کردیا تھا میں نے اصرار کیا فرمایا عین نماز میں جو مومن کا معراج ہے میری روح نے مقصود وراء الوراء کی طلب میں عروج کیا اور حتی المقدور اُس کی جستجو میں کوشش کی مگر جب کامیاب  نہ ہوئی تو ناچار حیران و گریاں اپنے تئیں قفس قالب میں لا ڈالا۔ اُس کا یہ گریہ و اندوہ اسی حسرت کی وجہ سے تھا۔

تفرید کا غلبہ:

تفرید آپ پر اس قدر غالب تھی کہ طالبوں کو اپنی صحبت میں رکھنے اور مشیخت کا خیال تک نہ تھا۔ صرف دو تین سال درویشوں کی تربیت میں مشغول رہے۔ جب حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ  آپ کی عنایات سے درجہ کمال پر پہنچ گئے تو آپ ارباب ارادت کی تعلیم و صحبت سے  کنارہ کش ہوگئے اور یاروں کو ان کے حوالہ کرکے خود گوشہ نشینی اختیار کی اور قطب آفاق بو علی دقاق قدس سرہ کی طرح درد و اندوہ کے ساتھ مبارک گریبان نیستی میں لے گئے۔ اور بجز مسجد جامع کے۔ وہ بھی نماز جماعت کے لیے اور کہیں تشریف نہ لے جاتے۔ جو شخص آپ کو دیکھتا تھا اُسے حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پاک یاد آجاتی تھی

من اراد ان ینظر الیٰ میت یمشی علیٰ وجہ الارض فلینظر اِلی ابن ابی قحافۃ

جو شخص مردہ کو روئے زمین پر چلتا ہوا دیکھنا چاہے وہ ابوقحافہ کے بیٹے (ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کو دیکھ لے۔

عظمت و شوکت:

باوجود حالت مذکورہ بالا کےآپ کی ہیبت و دہشت اِس قدر تھی کہ غافل و بے خبر لوگ بھی جب   آپ کو دیکھتے تو انہیں بمصداق حدیث اذا رؤ ا ذکر اللہ[۱] خدا یاد آجاتا۔ چنانچہ ایک روز آپ کا گزر ایک ہنود کی بستی پر ہوا۔ جہاں  کے باشندے کھیتی باڑی کا کام کیا کرتے تھے۔ جونہی ان کی نظر آپ پر پڑی ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یہ عجیب شخص ہے اس کے دیکھنے سے خدا یاد آتا ہے۔

[۱۔  عبدالرحمٰن بن غنم اور اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ نے فرمایا۔ خیار عباد اللہ الذین اذا رؤا ذکر اللہ الحدیث، کتاب الآداب، باب حفظ اللسان من الغیبۃ والشتم۔ فصل ثالث۔]

شان و مرتبہ:

ایک معمر فاضل کا بیان ہے کہ ایک روز میں مسجد میں نماز پڑھنے گیا، دیکھا کہ صف جماعت کھڑی ہے اور حضرت خواجہکا بھی صف میں تشریف رکھتے ہیں۔ پہلی صف بھر گئی تھی مگر حضرت خواجہ کے پہلو میں درویشوں نے بپاس ادب کچھ جگہ چھوڑی ہوئی تھی، چونکہ مجھے خواجہ سے چنداں عقیدت نہ تھی اور میں نے آپ کو بچہ سا دیکھا تھا اِس لیے اپنی نسبت ان کو کم عمر پاکر رعایت ادب کا خیال نہ کیا اور اُس خالی جگہ میں گھس کر نیت باندھ لی کچھ عرصہ نہ گزرا تھا کہ خواجہ کی عظمت و شکوہ نے مجھ پر اثر کیا، ہر چند میں نے بچنے کی کوشش کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ یہاں تک کہ میں عین نماز میں پیچھے  ہٹنے لگا ہٹتے ہٹتے یہاں تک نوبت پہنچی کہ اگر  قدم اور پیچھے ہٹوں تو چبوتر سے نیچے گر پڑوں مگر میں خبردار ہوگیا اور اور یہ معاملہ دیکھ کر خواجہ بزرگوار کے مخلصوں کے سلسلہ میں داخل ہوگیا۔

برکات کا فیض:

حضرت خواجہ کی عظمت و علو رتبہ کی شہادت میں یہی ایک امر کافی ہے کہ آپ صرف دو تین سال مسند مشیخت پر جلوہ افروز رہے مگر اِس قلیل عرصہ میں کس قدر بندگان خدا آپ کے خوان دولت سے بہرہ ور ہوئے اور کیسی کیسی برکتیں آپ کی بدولت ہندوستان کے وسیع ملک میں پھیل گئیں۔ سلسلہ نقشبندیہ جو آپ کے زمانہ تک اِس ملک میں مسافرانہ حالت میں تھا آپ کے ذریعہ سے پورے طور پر رائج ہوگیا۔ اگرچہ اس سلسلہ عالیہ کے بہت سے مشائخ اس سر زمین میں جلوہ آرء ہوئے اور سالوں میں یہیں رہے مگر خواجہ محترم کی دو تین سالوں کی برکات ان مشائخ کی سالہا سال کی کوششوں میں کہاں۔ شیخ  محمد بن فضل اللہ رحمہما اللہ تعالیٰ جو فقر و عرفان میں بلند پایہ رکھتے ہیں فرماتے ہیں کہ آپ کی بزرگی کا یہی نشان کافی ہے کہ آپ تین چار سال سے زیادہ بندگان خدا کی ہدایت میں مشغول نہیں رہے مگر آج تک آپ کے آثار و برکات روز افزوں ہیں۔

معمولات:

ستِرِ احوال، دیدِ قصور، عزلت نشینی اور گمنامی آپ کا شیوہ تھا۔ سادات و علماء کی تعظیم میں مبالغہ فرمایا کرتے تھے۔ جزوی و کلی عملیات میں فقہائے متورع کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔

تمام امور میں آپ کا عمل عزیمت و اولیٰ پر تھا۔ سماع و رقص و وجد کو آپ کے ہاں دخل نہ تھا۔ یہاں تک کہ ایک روز ایک درویش نے آپ کے حضور بآواز بلند پکار کر کہا اَللہ۔ آپ نے فرمایا کہ اِس سے کہہ دو کہ ہماری مجلس کے آداب کو ملحوظ رکھ کر ہمارے پاس آیا کرے۔

فاتحہ کا پڑھنا:

بہت سی روایتوں میں آیا ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھی جائے اس لیے حضرت خواجہ چند روز امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھتے رہے۔ اِس اثناء میں آپ نے امام الائمہ سراج الامۃ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کو واقعہ میں دیکھا کہ اپنی مدح میں ایک قصیدہ پڑھ رہے ہیں۔ جس سے یہ سمجھتا جاتا تھا کہ میرے مذہب میں بکثرت اولیا کرام ہوئے ہیں۔ جو امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھتے تھے۔ اِس واقعہ کے بعد آپ نے امام کے پیچھے فاتحہ کا پڑھنا ترک کردیا۔

شان بے نیازی:

آپ کے کھانے پینے اور مسکن میں بے تقیدی اس درجہ تھی کہ اگر کئی روز تک آپ کے لیے ایسا کھانا لایا جاتا جو آپ کو مرغوب و مطبوع نہ ہوتا تو آپ ہر گز نہ فرماتے کہ اور طرح کا کھانا لاؤ اسی طرح اگر بدن مبارک کے کپڑے میلے ہوجاتے تو یہ نہ فرماتے کہ دوسرے سفید و صاف کپڑے لاؤ علیٰ ہٰذی القیاس آپ تاریک و تنگ مکان میں رہتے یہاں تک کہ وہ شکستہ ہوجاتا یا کوڑے کرکٹ سے پٹ جاتا مگر آپ تسلیم و رضا کے بحر میں ایسے غرق تھے کہ اس کی مرمت و صفائی اور روشنی تک کا ذکر آپ کی زبانِ مبارک پر نہ آتا باوجود ایسی تسلیم و رضا اور ضعفِ بدن کے جو دائمی تھا آپ کو ہر وقت باوضو رہنے اور کثرت سے طاعت بجالانے کا نہایت شوق تھا نماز عشاء پڑھ کر آپ حجرے میں تشریف لے جاتے اور کچھ دیر مراقبہ میں بیٹھتے جب اعضاء پر ضعف غلبہ کرتا تو اُٹھ کر از سرِ نو وضو کرکے دو رکعت پڑھ کر اور مراقب ہوجاتے پھر جب اعضاء میں درد محسوس ہوتا تو اُسی طرح کرتے۔ اکثر رات اسی طرح گزر جاتی۔

رزق حلال:

لقمہ احتیاط کا یہ حال تھا کہ ہدیہ جو آتا اگرچہ بحکم حدیث نحن لا نردّ الھِدیَ [۱] اُسے رد نہ کرتے۔ مگر اُسے بجنسہٖ اپنے مصارف میں نہ لاتے تھے بلکہ کسی پاک محل سے قرض حسنہ لے کر اُس کے عوض اُسے دے دیتے کیونکہ بحکم فقہاء و ہ علت میں ایک اور درجہ پیدا کردیتا ہے۔ آپ نہایت تاکید فرماتے کہ کھانا پکانے والا وضو کے ساتھ بلکہ صاحب حضور و صفا ہو۔ اور پکاتے وقت دنیوی بات زبان پر نہ لائے اور فرماتے تھے کہ جو لقمہ بغیر حضور و احتیاط کے کھایا جائے اُس سے ایک دھواں پیدا ہوتا ہے جو فیض کے راستوں کو بند کردیتا ہے اور ارواح طیبہ جو فیض کا وسیلہ ہیں ایسے قلب کے مقابل نہیں ہوتیں۔ آپ تمام مریدوں کو اس احتیاط کی ترغیب  دیتے تھے۔ جو لوگ اس احتیاط میں تساہل سے کام لیتے آپ اپنی نسبت کی نزاکت و صفائی کی وجہ سے اس کا نقصان ان کے حالات میں معائنہ فرماتے۔ چنانچہ ایک روز ایک صاحب حال و کشف درویش آپ کی خدمت میں آیا اور اُس نے عرض کیا کہ میں اپنے کام میں بستگی اور باطن میں کدورت پاتا ہوں مجھے معلوم نہیں کہ مجھ سے کیا تقصیر سرزد ہوئی ہے آپ نے متوجہ ہوکر فرمایا کہ لقمہ میں بے احتیاطی ہوگئی ہے۔ اُس نے عرض کیا کہ لقمہ تو وہی ہے جو میں ہر روز کھایا کرتا ہوں آپ نے فرمایا کہ جاکر خوب دریافت کرو ہمیں تو بجز اس کے کچھ نظر نہیں آتا لقمہ کے کسی جزء میں ضرور فتور آیا ہوگا جب اُس درویش نے اچھی طرح تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ جن لکڑیوں سے کھانا پکایا جاتا تھا اُن میں سے دو تین لکڑیاں ایسی شامل کردی گئی تھیں جن میں احتیاط سے کام نہ لیا گیا تھا۔

[۱۔ ہم ہدیہ رد نہیں کرتے۔]

نماز کی کیفیت:

لقمہ کی طرح آپ نماز میں بھی یہاں تک احتیاط کرتے کہ صف جماعت میں اپنی جانب اپنے خالص اصحاب میں سے کسی کو کھڑا کرتے کیونکہ اگر بیگانہ ہوتا تو فوراً اُس کی غفلت و نقصان مع خطرات آپ کے آئینہ قلب میں منعکس ہوتا۔ ایک روز ایک درویش نے جو لحاف کا محتاج تھا۔ آپ کے ساتھ نماز پڑھی اُس کے دل میں لحاف مانگنے کا خطرہ گذرا۔ وہ خطرہ حضرت خواجہ پر ظاہر ہوگیا، ادائے نماز کے بعد فرمایا کہ جس کو لحاف کی ضرورت ہے اُسے لحاف دے دو۔ اُس درویش کا بیان ہے کہ میں اُس روز سے ڈرتا رہا کہ مبادا کوئی خطرہ جو حضرت خواجہ کے  ملال کا باعث ہو میرے دل پر گزرے۔

طریقہ تلقین:

حضرت خواجہ کا طریق تلقین یہ تھا کہ جس طالب کو اپنے سلسلہ میں داخل فرماتے تھے۔ پہلے اُس سے توبہ کراتے پھر اگر اپنی طرف اُس کا عشق و محبت دیکھتے تو اُسے طریقہ رابطہ و نگہداشت صورت کی تعلیم دیتے اُس سے طالب کو بہت کشائش حاصل ہوتی۔ خواجگان دہیندی میں سے خواجہ برہان نام جس نے اپنے اکابر سے بہت سی نسبتیں اور اجازتیں حاصل کی تھیں۔ آپ کی خدمت میں بغرض استفادہ حاضر ہوا تو آپ نے اُسے اپنی صورت کی نگہداشت کی تلقین کی وہ حیران ہوا اور اپنے دوستوں سے کہنے لگا کہ یہ شغل تو مبتدیوں کے حال کے مناسب ہے مجھے تو حضرت خواجہ براہ کرم اس سے اعلیٰ مراقبہ کا ارشاد فرمائیں۔ اُس کے دوستوں نے کہا کہ تعمیل ارشاد تو کرو۔۔ چونکہ اُس کا عقیدہ درست تھا اسی شغل میں مشغول ہوا۔ دو ہی روز گزرے تھے کہ اس صورت نے اُس پر پرَتَو  ڈالا اور بڑی نسبت اُس پر غالب ہوئی اور اُس کے شکُر کا غلبہ ایسا ہوا کہ باوجود تمکین اور کبر سِن کے زمین سے دو دو ہاتھ اُوپر اچھلتا تھا اور دیواروں اور درختوں سے ٹکراتا تھا یہاں تک کہ کئی جوان اُسے سنبھال نہ سکتے تھے لیکن زیادہ تر آپ طالبوں کو ذکر قلب جیسا کہ سلسلہ نقشبندیہ میں مقرر ہے تلقین فرماتے اور ایک جماعت کو ذکر نفی و اثبات اور بعضوں کو صرف اثبات یعنی ذکر ذات عزشانہ بتاتے۔

آپ کی تعلیم میں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ آپ جس طالب کو ذکر کی تعلیم فرماتے اُس تعلیم کے  ساتھ اپنی ہمت و توجہ کو اُس کے شامل حال رکھتے اور اُس کی حقیقت جامعہ کے ادراک پر نقوش کونیہ کا رستہ بند کردیتے۔ گویا سرچشمۂ نقشبندیہ کو ظہور میں لاتے۔ اُسی وقت اُس کا دل ذاکر ہوجاتا اور حضور و جذبہ اُس کو اپنی آغوش میں لے لیتا بعضے مرغ بسمل کی طرح خاک پر لوٹتے اور بعضے بے خود ہوکر حیرت میں چلے جاتے۔ اور بعضوں کو اسی حال میں عالم مثال یا عالم ارواح یا عالم معانی  منکشف ہوجاتا اور کئی دن یہی حال رہتا پھر آپ کی توجہ سے ہوش میں آتے اور الشیخ یحییٰ و یمیت[۱] کا نظارہ دیکھنے میں آتا آپ کی یہ عنایت عام طور پر تھی۔

[۱۔ پیر زندہ ہوتا ہے اور مارتاہے۔]

جمال کی کیفیت:

حضرت خواجہ کی نسبت کا سریان (کشش)اِس درجہ کا تھا کہ بہت سے طالب آپ کو دیکھتے ہی مغلوب و ہوجاتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ خطیب منبر پر تھا کہ اُس کی نظر آپ کے جمال پر پڑی چلا کر منبر سے گر پڑا۔ ماہ رمضان کی ایک رات حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک خادم کے ہاتھ آپ کے لیے فالودہ بھیجا خادم نے سادہ لوحی کے سبب سے دروازہ خاص جا کھٹکھٹایا۔ حضرت خواجہ نے کسی دوسرے کو نہ جگایا اور بذات خود باہر نکلے اور فالودہ کا برتن خادم کے ہاتھ سے لے کر پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے؟ اُس نے عرض کیا کہ میرا نام باما ہے آپ نے فرمایا کہ چوں کہ تم ہمارے شیخ احمد کے خادم ہو، ہمارے ساتھ ہو،  واپس ہوتے ہی اس خادم پر جذبہ سکر و نسبت غالب ہوا۔ وہ شور و فغاں کرتا ہوا گرتا پڑتا حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچا۔ حضرت نے پوچھا کہ کیا حال ہے۔ وہ شوریدگی و مستی کی حالت میں کہتا تھا کہ میں حجر و شجر اور زمین و آسمان میں ہر جگہ ایک نہایت بے رنگ نور دیکھتا ہوں کہ جسے بیان نہیں کرسکتا۔ حضرت نے فرمایا کہ یہ حضرت خواجہ کے سامنے گیا ہے۔ اُس آفتاب کے مقابلہ سے ایک پر تو اس ذرہ پر پڑگیا ہے۔ دوسرے روز جو حضرت مجدد نے رات کا قصہ حضرت خواجہ سے عرض کیا تو آپ مسکرا پڑے۔

نگاہ کاملہ کا اثر:

ایک روز ایک فوجی افسر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ طہارت کے لیے مسجد سے باہر تشریف لے گئے اس افسر کا خادم گھوڑے کی باگ تھامے دروازے سے باہر کھڑا تھا۔ آپ کی نظریں کیمیا اس خادم پر پڑگئی جب آپ مسجد میں آئے تو خبر آئی کہ وہ بیچارہ جذبہ و بیخودی سے زمین پر گرا پڑا ہے اور گھوڑوں کے درمیان گیند کی طرح ہر طرف لڑھکتا ہے۔ رات کا ایک حصہ گزرنے تک وہ اُسی طرح بے قرار رہا اور حالت جنون میں بازار کی طرف روانہ ہوا اور اسی حالت میں جنگل میں چلا گیا۔ بعد ازاں کسی کو پتہ نہ لگا کہ وہ کہاں پہنچا۔

نگاہ دوربین:

حضرت میر  محمد نعمان سلمہ اللہ الرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ میری لڑکی کی ایک انا (ہم مجلس)تھی۔ لڑکی نے اسے کئی بار کہا کہ حضرت خواجہ کی مرید بن جاؤ مگر اُس نے انکار کیا۔ ایک روز ایک تقریب پر ہم نے لڑکی کو انا سمیت حضرت خواجہ کی خدمت میں بھیج دیا آپ نے شیر خوار لڑکی کو بغل میں لے کر نہایت شفقت کی لڑکی نے حضرت کی ڈاڑھی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ایک بال اُس کے ہاتھ میں رہ گیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ لڑکی ہم سے یادگار لے رہی ہے۔ عجیب نظر دوربین تھی کہ ان ہی ایام میں حضرت نے انتقال فرمایا اور وہ موئے مبارک بطور تبرک و یادگار باقی رہ گیا۔؎

مرزا زلفِ تو موئے بسند است
فضولی مے کنم بوئے بسند است

جب وہ انا گھر واپس ہوئی تو تھوڑی دیر کے بعد اُس پر مستی اور جذبات کے آثا ظاہر ہونے لگے وہ سنبھل نہ سکی۔ یہاں تک کہ ایک چیخ مار کر بے ہوش ہوگئی۔ اُس کے بائیں پہلو میں دل کی حرکت اس زور سے جاری ہوگئی کہ تمام حاضرین نے بچشم خود دیکھ لیا۔ اُس نے کہا کہ حضرت خواجہ ساعت بساعت عجیب ہیبت ناک شکلوں میں نمودار ہوتےتھے یہاں تک کہ میں بے ہوش ہوگئی، اس کے سوا اور کچھ نہیں جانتی۔ ہاں اتنا جانتی ہوں کہ میرا دل ذاکر ہوگیا ہے حضرت میر محمد نعمان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ہم نے اس انا کا حال حضرت خواجہ سے عرض کیا آپ نے تبسم فرمایا او راُس کو ذکر کی تعلیم کی۔ چنانچہ وہ فیروزآباد دہلی میں صاحبِ حال عورتوں میں سے ہوگئی۔

کرامات کا بیان:

حضرت خواجہ صاحب کرامات تھے۔ یہاں صرف تین خوارق بطور مثال درج کیے جاتے ہیں۔

۱۔       شہر دہلی کے ایک فاضل نے ایک باکرہ عورت سے نکاح کیا۔ کئی سال تک وہ اُس پر قادر نہ ہوا۔ اُس نے دعا و دوا بہت کی کچھ اثر نہ ہوا ایک روز حضرت خواجہ سوار ہوکر کسی جگہ کو جارہے تھے اُس نے راستے میں آپ کے گھوڑے کی باگ تھام لی اور نہایت نیاز مندی سے اپنا قصہ عرض کیا۔ حضرت کو اُس پر رحم آیا آپ نے گھوڑے سے اُتر کر اُس کو بغل میں لے کر خوب معانقہ کیا اور فرمایا جاؤ فتح ہے۔ فاضل موصوف نے اُسی وقت اپنے جسم میں عجیب قوت محسوس کی اور نہایت آسانی سے اپنی عورت پر قادر ہوگیا۔

لڑکا ٹھیک ہوگیا:

ایک ضعیفہ کا تین چار سال کا لڑکا حصار فیروز آباد کی دیوار سے گر پڑا۔ دیوار کے نیچے سنگین فرش تھا گرتے ہی اُس کے کانوں سے خون بہنے لگا اور سانس بند ہو گیا۔ گریہ وزاری اور بے قراری کی حالت میں ماں کو سوائے اس کے کوئی چارہ نہ سوجھا کہ حضرت خواجہ کے قدم محترم میں سر رکھ کر اُسکی زندگی کی التماس کی۔ حضرت کی عادت تھی کہ اپنی توجہ و تصرف کو بہت چھپایا کرتے تھے۔ آپ نے طب کی ایک  کتاب طلب کی اور فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لڑکا نہ مرے گا۔ حاضرین نے تعجب کیا کہ کون سی کتاب یہ بات بتا رہی ہے آپ ایک لحظہ خاموش رہے وہ قریب الموت لڑکا اپنی حالت پر آگیا۔ لوگ حیران رہ گئے۔

گستاخ کا انجام:

ایک دفعہ ایک فوجی افسر نے حضرت خواجہ کے ایک ہمسایہ پر ظلم کیا۔ آپ وہ ظلم دیکھ کر بے قرار ہوگئے اور اُس افسر کو نصیحت کی مگر وہ بد بخت باز نہ آیا حضرت کو اُس مظلوم پر نہایت رحم آیا آپ نے اِس افسر سے فرمایا کہ ہمارے حضرات خواجگان بہت غیرت مند ہیں یہ انہیں کے پڑوس میں رہتا ہے خبردار رہنا دو تین دن ہی گذرے تھے کہ وہ ایک چور کے خون کے مقدمہ میں گرفتار ہوکر قتل ہوا۔

وصال مبارک:

جب آپ کی عمر شریف تقریباً چالیس سال کی ہوگئی تو آپ نے اپنی نسبت واقعہ دیکھا جس کے اخیر میں یہ لکھا ہوا تھا۔ بقیت وحیداً طریدًا فریدًا۔ ان ہی ایام میں آپ نے اپنی ایک بی بی صاحبہ سے فرمایا کہ جب میری عمر پورے چالیس سال کی ہوگی تو مجھے ایک واقعہ عظیم پیش آئے گا۔ ان ہی دنوں کا ذکر ہے کہ آپ نے دست مبارک میں آئینہ لے کر اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ آؤ ہم تم دونوں آئینہ دیکھیں۔ بی بی صاحبہ کا بیان ہے کہ میں نے آئینہ میں ایک پیر سفید ریش دیکھا میں ڈر گئی اور عرض کیا کہ آپ مجھے یہ کیسی صورت دکھا رہے ہیں۔ کہ جس کے دیکھنے کی مجھ میں تاب و طاقت نہیں آپ نے تبسم فرمایا اور اپنے تئیں اصلی صورت میں آئینہ ظاہر کیا۔

آپ کی عادت شریفہ تھی کہ اپنے مکشوفات کو خواب سے تعبیر فرمایا کرتے تھے۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ آپ کی زبان مبارک سے نکلا کہ بعض خوابوں سے ایسا ظاہر ہوتا ہےکہ عنقریب سلسلہ نقشبندیہ کا ایک بڑا شخص فوت ہوگا یہ کہہ کر ارشاد فرمایا کہ شہر دہلی کے نواح میں کوئی جگہ اختیار کرنی چاہیے۔ جہاں میں تنہائی میں بسر اوقات کروں اور اختتام عمر پر وہیں مدفون ہوجاؤں اس بارے میں آپ نے اپنے بعض مخلص اصحاب کو استخارہ کا حکم دیا۔ جب اجازت معلوم نہ ہوئی تو اس ارادے کو ترک کردیا بعد ازاں ایک روز مقرر فرمایا کہ ایسا دیکھا گیا ہے کہ جس غرض کے لیے تجھے بلایا گیا تھا وہ پوری ہوگئی ہے۔ اب سفر کرنا چاہیے انتقال سے کچھ پہلے یہ بھی فرمایا کہ کہہ رہے ہیں کہ قطب زمانہ فوت ہوگیا اور میں اُس وقت اپنے مرثیہ میں ایک قصیدہ غرا پڑھ رہا ہوں جس میں عالی اشارات و کنایات مندرجہ ذیل ہیں۔

غرض ماہ جمادی الاخریٰ ۱۰۱۲ھ میں امراض جسمانی نے آپ پر غلبہ پایا۔ ان دنوں میں آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں دیکھا کہ فرمارہے ہیں کہ پیراہن پہنو۔ یہ خواب بیان کرکے آپ نے مسکراکر فرمایا کہ اگر ہم زندہ رہے تو ایسا ہی کریں گے ورنہ کفن بھی ایک طرح کا پیراہن ہے قصہ کو تاہ جمادی الاخریٰ کی پچیسویں تاریخ ہفتہ کا دن تھا کہ احتضار کے آثار نمایاں ہوئے اسی اثنا میں ایک درویش کی زبان سے کلمہ الہٰ العالمین نکلا۔ آپ نے فوراً اُس کی طرف منہ پھیر کر دیکھا حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا کہ حضرت خواجہ کی یہ توجہ نام محبوب کے سُننے کے شوق سے ہے اس کلام سے چشمِ مبارک میں آنسو بھر لائے جب تھوڑا دن باقی رہ گیا تو آپ اسم ذات کے ذکر میں مشغول ہوگئے اور اُسی روز اللہ اللہ کہتے وصال فرمایا۔ دوسرے روز آپ کے مخلص اصحاب کی قرار داد کے مطابق ایک جگہ قبر کھودی گئی لیکن جب دلریش درویشوں نے جنازہ کو اٹھایا تو اُس دیوانگی کی وجہ سے جو حاملان جنازہ پر طاری تھی تابوت کو اس مقام پر نہیں اُتارا جہاں قبر تیار کی گئی تھی بلکہ ایک اور زمین پر جا اُترا۔ اتارنے کے بعد کیا دیکھتے ہیں کہ یہ وہی زمین ہے جہاں ایک روز حضرت خواجہ نے وضو کرکے دوگانہ ادا فرمایا تھا۔ اُٹھتے وقت وہاں کی کچھ خاک دامن مبارک پر لگ گئی تھی۔ اِس پر زبان مبارک سے فرمایا تھا کہ اس جگہ کی خاک ہماری دامنگیر ہوگئی اس لیے یاروں نے اُسی مکان میں جو جناب رسالت پناہ صلے اللہ علیہ وسلم کے قدمگاہ کے جوار میں اور شاہراہ کے متصل ہے اِس شاہِ قلم ارشاد کو سپرد خاک کیا۔

مزار مُبارک:

آپ کا مزار مبارک خواجہ حسام الدین کی کوشش سے نہایت زینت سے تیار ہوا۔ آپ کی وصیت کے مطابق مرقد شریف پر گنبد نہیں بنایا گیا صرف ایک بلند چبوترہ بنادیا گیا۔ حضرت خواجہ سے فاضلوں اور عارفوں نے آپ کے وصال کی تاریخ لکھی ہے جن میں سے دو یہاں درج کی جاتی ہیں۔(ا)

خواجہ باقی آن امام اولیاء
نکہتِ بستاں سرائے انبیاء
چونکہ بُد مشرب فنا اندر بقا
سال تاریخ وصالش خسروے

 

عارف باللہ اسرار نہفت
از نہال جعفری خوش گل شگفت
محو حق گشتہ دُرّ اسرار سفت
فی البدیہ نقشبند وقت گفت

یہ تاریخ آپ کے مزار مبارک کے جنوبی دروازے پر نہایت خوش نما حرفوں میں کندہ تھی۔ نقشبند وقت مادہ تاریخ ہے۔(۲)

قبلۂ اربابِ معنی کعبۂ اصحاب دیں
حامیٔ دینِ نبی اکمل امام المتقین
کاشف اسرار مطلق واقف عین الیقین
غوث اعظم عروۃ الوثقیٰ ز رب العالمیں
کامل عالی طریقہ مہدیِ راہ متیں
راضی و مرضی حق برذات و شان او مبیں
نور بیچوں بر جنبش تافت از حق المبین
کے توانم گفت مدح آں خلاصہ واصلیں
نعمت اللہ باقی بود باقی شد یقیں
خواجگی اِمکنہ شد مرشداں شاہِ دیں
چوں کمالش وصل دائم بود معنی دلنشیں
واں ز ہجرت بعد الف اثنا عشر بودہ سنیں
ہر کہ آید بر مزارش از سر صدق و صفا
عاجز و عاصی بدرگاہش ہمے ساید جبیں
باد نازل رحمت رضوان رب العامیں

 

مظہر فیضِ الہی صاحب علم الیقیں
موردِ قضل گرامی آں ختم المرسلیں
محو ذات اقدس وباللہ باقی بالیقیں
قطب ارشاد جہاں ہم معنی حق الیقیں
بحر عرفان الہی مقتداء العارفیں
ایں کرامت ہست از محبوب رب العالمین
شد زیمن ہمتش روشن قلوب المومنیں
ہست ذات خواجہ باقی مرحمت للعالمیں
مرجع اِنس و ملک از فضل رب العالمین
لیک بُد مشرف اویس  و ہم بہا احرار دیں
شد وصال غیب او آخر بعمر اربعیں
از وفات قطب دوراں تکیہ گاہ مسلمیں
حاجتش گرد درواہم مقصد دنیا و دیں
تابباید بد نظرِ رحمت ہم نجات یوم دیں
بر محمد خواجہ باقی ز اد لیائے مقبلیں

مزار مبارک کے سرہانے ایک لمبی سنگ مر مر کی لوح پر یہ اشعار دلربا حرفوں میں کندہ ہیں۔

ارشاداتِ عالیہ

سورۂ اخلاص کا مفہوم:

سورہ اخلاص کے معنی کے بیان میں فرمایا کہ اِس کو سورہ اخلاص اِس لیے کہتے ہیں کہ اس کے سننے سے بندہ کا اعتقاد اپنے پروردگار کی نسبت شرک جلی و خفی کے غبار سے خالص و پاک ہوجاتا ہے۔ اس کے عمل میں فی الجملہ اخلاص پیدا ہوجاتا ہے اعتقاد کا شرک خفی سے پاک ہونا اس طرح ہے کہ الوہیت میں ایسی ذات کا اعتقاد رکھے کہ عرصہ امکان میں کسی طرح کوئی اس کا مثل نہ ہو ورنہ اُس کا معتقد ممکن ہوجائے گا۔ اسی وجہ سے اکابر نے فرمایا ہے کہ توحید قدیم کو حادث سے الگ کرنے کا نام ہے۔

مراقبہ کی حقیقت:

مراقبہ کی حقیقت انتظار کرنا ہے اور انتظار کی صفائی مقصود کی طلب میں ہے ایسی حالت میں کہ طالب اپنی قوت و طاقت سے نکل جائے اور مقصود جل ذکرہ کے دیدار کا مشتاق اور اس کے عشق کے سمندر میں مستغرق ہوجائے۔ قوت و طاقت کی دید کوشش کا غبار ہے اور آستانہ انتظار کشش ہے اس قسم کیا مراقبہ سوائے منتہی اور قریب الانتہاء کے دوسرے کو حاصل نہیں ہوتا اسی واسطے ابو الجناب نجم الدین کبریٰ قدس سرہ نے ان دس اصلوں کے بیان مین کہ جن پر موت بالارادہ موقوف ہے اس مراقبہ کو نویں اصل قرار دیا گیا ہے لیکن مبتدی عاشق کو منتہی کی تقلید کرنی چاہیے اور اپنے تئیں قوت و طاقت کی دید سے نکال کر انتظار محض کرنا چاہیے باقی مراقبات جو مقصود کو شکل و مثال و علم و خیال سے مقید کرکے عرصہ تعقل میں لاتے ہیں اِس مراقبہ سے کم درجہ کے ہیں۔؎

ہرچہ پیش تو پیش ازاں رہ نیست
غایت فہم تست اللہ نیست

ترجمہ: تیرے نزدیک وہ جس سے آگے راستہ نہیں ہے وہ تیری سمجھ کی غایت ہے خدا نہیں ہے۔

طریق سلوک:

سلوک کے دس مقاموں کی تحقیق کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ جو شخص معصیت میں گرفتار ہے یا دنیا سے کچھ رغبت رکھتا ہے یا سبب پر نظر رکھتا ہے یا بقدر ضرورت معاش پر اکتفا نہیں کرتا یا لوگوں سے میل جول رکھتا ہے یا اُس کے اوقات حق سبحانہ کے ذکر سے معمور نہیں یا خدا عز وجل سے غیر خدا طلب کرتا ہے یا نفسی کے ساتھ مجاہدہ نہیں کرتا یا اپنی ذات اور اپنے احوال پر نظر رکھتا ہے اور اپنی قوت و طاقت پر بھروسہ کرتا ہے یا اپنے تئیں احکام ازلیہ کے حوالہ نہیں کرتا وہ طریق تحقیق کے سلوک میں ناقص ہے۔ مخفی نہ رہے کے بعضے منتہی درویش جو اپنی خواہشات و ضروریات سے نکل چکے ہیں ضروری معاش پر اکتفا کرنے اور لوگوں سے میل جول نہ رکھنے اور نفس کے مجاہدہ کرنے میں کسی خاص وجہ سے ثابت نہیں رہے ہیں۔ ہر ایک کے لیے ایک جہت ہے جس کی طرف وہ منہ کرنے والا ہے۔

توکل کی کیفیت:

توکل یہ نہیں کہ ظاہری اسباب کو چھوڑ دیں اور بیٹھ رہیں کیونکہ یہ تو بے ادبی ہے بلکہ سبب مشروع مثلاً کتابت وغیرہ کو اختیار کرنا چاہیے اور نظر سبب ہی پر نہ رکھنی چاہیے کیونکہ سبب مثل دروازے کے ہے جو حق سبحانہ نے مسبب پر پہنچے کے لیے بنایا ہے۔ اِس صورت میں اگر کوئی شخص دروازے کو بند کرلے کہ خدا اوپر سے پھینک دیگا تو یہ اس کی بے ادبی ہے کیونکہ دروازہ خدا ہی کا بنایا ہوا ہے اور اس بات پر دلیل ہے کہ کھلا ہے۔ کھلے ہوئے کو بند نہ کرنا چاہیے بعد ازاں اُسے اختیار ہے چاہے دروازے سے بھیجے یا اوپر سے پھینک دے۔

توحید کا بیان:

توحید حاصل کرنی چاہیے محققین متکلمین کے نزدیک توحید یہ ہے۔ ’’نہیں موثر وجود میں کوئی شے سوائے اللہ کے۔‘‘ یعنی اپنی ساری قدرت کو خدا سے منسوب کرنا اور اپنے تئیں قدرت سے خالی کرنا۔ اگرچہ متاخرین علماء میں سے بعضے قدرت موثرہ کوفی الجملہ بندہ میں بھی ثابت کرتے ہیں اور ان کی توحید یہ ہے۔ ’’نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے۔‘‘ لیکن زیادہ صحیح مذہب پہلا ہی ہے۔ اور صوفیہ کرام جس طرح فعل و قدرت کو حق سبحانہ سے منسوب کرتے ہیں۔ سات صفات میں سے باقی علم و سمع و بصرو حیات و ارادہ و کلام کو بھی حق سبحانہ سے منسوب کرتے ہیں۔

تین چیزیں:

مشائخ جو لوگوں کے ارشاد و تربیت میں مشغول ہوتے ہیں اس کا باعث ان تین چیزوں میں سے ایک ہوا کرتا ہے۔ حق سبحانہ کا الہام یا پیر کا حکم و امر۔ یا بندگان خدا پر شفقت یعنی جب وہ لوگوں کو گمراہی میں دیکھتے ہیں اور گمراہی کو ان کے عذاب و ضرر کا سبب جانتے ہیں۔ تو نہایت ترحم سے ان کے عذاب کا دفیعہ چاہتے ہیں۔ پس شفقت کا متقضا یہ ہے کہ شریعت کے رواج دینے کو اپنے اوپر لازم کرکے لوگوں کو وعظ و نصیحت سے حفظ آداب اور اقامت شرائع کا حکم دیں۔ مثلاً فقہ و حدیث کا پڑھنا پڑھانا اور اس کے مطابق عمل کرنا مگر اُن کو واصل بحق کرنا شفقت کی شرط نہیں بلکہ وہ ایک زائد امر ہے اس محل پر حضرت خواجہ نے فرمایا کہ اس طریقہ تربیت کا ماحصل انجذاب ایمانی ہے جس کی دعوت تمام انبیاء و رُسُل دیتے رہے ہیں۔

قرب و اتصال:

ذات حق سبحانہ سے بندہ کا نہایت قرب اور اتصال اِس سے زیادہ نہیں کہ دوام آگاہی جو فنا کی طرف کھینچی ہے اس کو حاصل ہوجائے جب یہ نسبت حاصل ہوگئی تو سالک اس نسبت کے حصول سے مرتبہ ولایت سے مشرف ہوگیا اور وہ کمالات جو دوسرے طریقوں کے سالکوں کو حصول مقامات اور تجلیات اسما و صفات میں بتفصیل حاصل ہوتے ہیں وہ اور شے ہیں۔ ذات حق سبحانہ سے قرب و اتصال کی نسبت کا یہ حصول ولایت خاصہ کے مرتبہ تک پہنچا دیتا ہے۔ اس طریقے کے طالبوں کا پہلا داخلہ سرحد فنا ہے اور اندراج نہایت دربدایت جس کی طرف ہمارے سلسلہ کے اکابر نے اشارہ کیا ہے یہی ہے۔

ترقی بعد الموت:

ترقی بعد الموت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت شیخ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص نیت صحیح اور اعتقاد درست کے ساتھ سبحانہ کی راہ میں آئے اور شریعت غرا کے آداب کما حقہ بجا لائے اور اُس کو حین حیات میں اِس گروہ کے اذواق و مواجید حاصل نہ ہوں تو البتہ موت کے بعد اُس کو اِس گروہ کے احوال و اذواق عطا کیے جاتے ہیں حضرت خواجہ روح اللہ روحہ نے اس قول کو نقل کرکے تھوڑی دیر تامل کیا اور فرمایا بلکہ ایسے شخص کو اِسی جہان میں سکرات موت کے وقت اِس دولت سے مشرف کردیتے ہیں۔ اِس کے بعد زبان مُبارک سے فرمایا کہ اعتقاد درست اور احکام شریعت کی رعایت اور اخلاص سبحانہ کی جناب میں دائمی توجہ سب سے بڑی دولت ہے۔ کوئی ذوق و وجدان اس بڑی نعمت کے برابر نہیں  ؎  ایں داشتہ باشد گود گر ہیچ مباش۔

تربیت کا طریقہ:

انجذاب اور محبت الہی کا طریقہ مقصود تک پہنچانے والا ہے اور اس کا رُخ سوائے ذات حق سبحانہ کے اور کسی طرف کو نہیں ہے بخلاف دوسرے طریقوں کے کہ اُن کا رُخ انوار کی طرف بھی ہے۔ ناچار بعضے ان ہی انوار میں رہ جاتے ہیں یہ انجذاب و محبت تمام افراد انسانی میں ہے۔ مگر پوشیدہ ہے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے مشائخ اِسی انجذاب کی تربیت کرتے ہیں۔

رویت باری تعالیٰ:

باری تعالیٰ کی رویت آنکھ کے ساتھ موت کے بعد ہوگی کیوں کہ رویت انکشاف تام کا نام ہے۔ جب تک روح کا تعلق اِس بدن کے ساتھ ہے انکشاف تام نہیں ہوسکتا کیوں کہ روح خواہ کتنی ہی بے تعلق ہوجائے کم سے کم حیات کا علاقہ باقی رہے گا۔ اگرچہ صرفت اصلی پر رہے خودی کا تعلق باقی ہے۔

سماع:

سماع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ صوفیہ صافیہ میں سے جو لوگ راگ سننے کے قائل ہیں انہوں نے اس میں یہ حکمت دیکھی ہے کہ راگ سننے کے بعد طبیعت ساکن و برقرار رہتی ہے۔ ناچار روح معانی کا ادراک زیادہ کرتی ہے۔ مجوزین سماع کا مقصود معانی ہے وہ نغمہ کو اس کے زیور کی مثل سمجھتے ہیں ورنہ وہ نفس نغمہ میں مبتلا نہیں حاضرین میں سے ایک نے شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بیت پڑھی۔ کہ؎

آواز خوش بہتر از روئے خوش
کہ آں حافظ نفس است ایں قوت روح

حضرت خواجہ نے فرمایا کہ دونوں ایک ہی ہیں یعنی اگر دیکھنے والا اور سننے والا اہل نفس سے ہیں تو وہ دیکھا ہوا اور سنا ہوا دونوں نفسانی ہیں اور اگر اصحاب روح سے ہیں تو دونوں روحانی ہیں اور فرمایا کہ حضرت شیخ نظام الدین اولیاء کے ملفوظات میں مذکور ہے کہ راگ سننے کی شرطوں میں سے ایک شرط یہ ہے کہ سننے والے پر حق سبحانہ کی محبت غالب ہو۔ آپ کے مخلصوں میں سے ایک نے عرض کیا کہ حق سبحانہ کی محبت کی کیا علامت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا اتباع پھر اُس مخلص نے عرض کیا کہ ممکن ہے کہ متبع کا مقصود بہشت ہو یا عذاب دوزخ سے نجات آپ نے فرمایا کہ ایسا شخص متبع تام و کامل نہیں اور اسے اہل اللہ میں شمار نہیں کرتے اتباع ظاہری میں تو ظاہر ہے اتباع باطنی یہ ہے کہ اس کے باطن میں سوائے حق سبحانہ کے کوئی مطلوب و مقصود نہ ہو۔

ولایت کی تعریف:

وَلایت(واؤ کی زبر کے ساتھ) بندہ کے قُرب کو کہتے ہیں جو وہ حق سبحانہ سے رکھتا ہے اور وِلایت(واؤ کی زیر کے ساتھ) اُس چیز کو کہتے ہیں جو خلق میں مقبول ہونے کا سبب ہے اور اہلِ عالم اُس کی طرف گرویدہ ہوتے ہیں اور یہ کمال مخلوقات سے تعلق رکھتا ہے۔ خوارق و تصرفات دوسری قسم میں داخل ہیں حاضرین میں سے ایک شخص نے سوال کیا کہ جو برکتیں صاحبان استعداد کو پہنچتی ہیں وہ کس قسم میں داخل ہیں؟ آپ نے جواب میں فرمایا کہ وہ وَلایت(واؤ کی زبر کے ساتھ) کا اثر ہیں۔ اس بیان کے اثنا میں آپ نے طالبوں کے استفادہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جس وقت طالب کا آئینہ مرشد کے آئینہ کے مقابل ہوتا ہے تو جو کچھ مرشد کے آئینہ میں ہوتا ہے وہ طالب کے آئینہ پر بقدر مناسبت اپنا پر تَو ڈالتا ہے۔ اِسی موقع پر آپ نے فرمایا کہ بعض کو ولایت کی ان دونوں قسموں میں سے ایک حاصل ہوتی ہے اور بعض کو دونوں قسموں سے کافی حصہ ملتا ہے یا کسی کو دونوں میں سے ایک سے زیادہ اور دوسری سے کم حصہ ملتا ہے مشائخ نقشبندیہ رحہم اللہ تعالیٰ میں ہمیشہ وَلایت(واؤ کی زبر کے ساتھ) وِلایت(واؤ کی زیر کے ساتھ) پر غالب رہی ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جب کوئی مقتدا اِس جہان سے انتقال کرجاتا ہے تو وِلایت(بکسر واؤ) اپنے کسی مخلص کے حوالہ کرجاتا ہے۔ اور وَلایت(بفتح واؤ) اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ کبھی کسی لغزش کے باعث ولی کی وِلایت(بکسر واؤ) چھین لی جاتی ہے۔ چنانچہ ابن فارض رحمۃ اللہ تعالیٰ نے پیر بقال کے جنازہ کے امام کا واقعہ بیان کیا ہے جو نفحات میں مذکور ہے۔

اعتراض کا جواب:

ایک روز فقراء پر بعض منکرین کے اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اولیا کبیرہ گناہوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ اگر اتفاقاً اُن سے اِس قسم کی کوئی حرکت سرزد ہوجائے تو اِس سبب سے اُن کو ولایت سے خارج کردینا جہالت ہے۔ بلکہ دیکھنا چاہیے کہ وہ ہمیشہ یا اکثر کونسی منزل میں رہتے ہیں اِس حال میں اگر کبھی بتقاضائے بشریت اُن سے کوئی کبیرہ گناہ صادر ہوجائے تو اِس میں اِن کو معذور سمجھنا چاہیے۔

محبت ذات و صفات:

محبت ذات و محبت صفات کی تحقیق میں سلسلہ سخن شروع تھا۔ زبان مبارک سے فرمایا کہ محبت صفات یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص کسی سے اس لیے محبت رکھتا ہے کہ وہ عالم ہے یا شجاع ہے۔ تو اُس وقت اُس کی محبت موقوف ہوگی صفت علم و شجاعت پر اگر یہ اوصاف اُس سے دور ہوجائیں تو اُس کی محبت بھی جاتی رہے اور محبت ذاتی یہ ہے کہ کسی شخص کو بغیر لحاظ کسی صفت کے دوست رکھے۔ یہ نہیں کہ جب وہ کسی صفت کے ساتھ متصف ہوتو اُس وقت محبت میں زیادتی ہو۔ اور جب کسی صفت کے ساتھ متصف نہ ہو تو محبت میں نقصان آجائے۔

طریقہ کا دار و مدار:

ہمارے طریقہ کا دار و مدار تین باتوں پر ہے اہل سنت وجماعت کے عقائد پر ثابت قدم رہنا۔ دوام آگاہی اور عبادت۔ اگر کسی شخص کی ان تین چیزوں میں سے ایک خلل و فتور آجائے تو وہ ہمارے طریقہ سے خارج ہے۔ ہم عزت کے بعد ذلت اور قبول کے بعد ردّ سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔

پیر کی اقسام:

پیر کے متعدد ہونے میں کلام شروع ہوا زبان مبارک سے فرمایا کہ پیر تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک پیر خرقہ، دوسرے پیر تعلیم، تیسرے پیر صحبت واضح ہو کہ پیر خرقہ وہ ہے جس سے خرقہ ارادت پہنا جائے۔ جس بزرگ سے خرقہ تبرک و اجازت ملے اُسے اہل تصوّف کی اصطلاح میں پیر خرقہ کہتے ہیں۔ پیر تعلیم ذکر کے معنی ظاہر ہیں پیر صحبت وہ ہے جس سے لوگ صحبت رکھیں اور اُس کی صحبت سے منافع و ترقیات حاصل کریں۔ اسی موقعہ پر فرمایا کہ ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ و کبرویہ میں دار و مدار خرقہ پر ہے ان سلسلوں کے اصحاب کی اصطلاح میں پیر مطلق پیر خرقہ  کہتے ہیں اسی واسطے ایک شخص کے لیے کئی پیروں کے ہونے کو تسلم نہیں کرتے۔ اور پیر تعلیم و پیر صحبت کو مرشد کہتے ہیں۔ حضرت خواجہ نے اِسی مطلب کے مطابق ایک بزرگ کا نام لے کر فرمایا کہ انہوں نے اپنے رسالوں میں لکھا ہے کہ پیر خرقہ متعدد ہونا مکروہ ہے اور اِسی طرح پیر تعلیم کا تعدد مکروہ ہے لیکن پیر صحبت کئی ہوسکتے ہیں بشرط یہ کہ پہلا پیر اجازت دے دے یا اُس کی صحبت فوت ہوجائے بعد ازاں آپ نے فرمایا کہ ہاں پیر خرقہ متعدد نہیں ہوتے لیکن پیر تعلیم مثل پیر صحبت کے کئی ہوسکتے ہیں اور یہی سالکوں کا معمول ہے۔

رابطہ کا تسلسل:

صوفیہ کرام کے سلسلوں میں لوگوں نے خرقہ کی سند حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بطریق عنعنہ بیان کی ہے۔ مگر ذکر کو بطریق عنعنہ بیان نہیں کیا مگر سلسلہ نقشبندیہ و کبرویہ میں ذکر کی سند بطریق عنعنہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ سے لے کر آج کے دن تک درمیانی راویوں میں کسی طرح کا خلل نہیں  پڑا۔ اِس موقع پر حاضرین میں سے ایک نے سوال کیا کہ یہ جو کہتے ہیں کہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں طریق رابطہ حضرت صدیق اکبر سے اور طریقہ ذکر حضرت امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ سے پہنچا ہے کہاں تک درست ہے؟ آپ نے فرمایا کہ جو ذکر ہمارے سلسلہ میں ہے اور جسے وقوف عدد کہتے ہیں مقررہ طریقہ کے ساتھ مثلاً حبس دم اور اُس کے ساتھ محمد رسول اللہ ملانا وہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ہم تک بطریق عنعنہ پہنچا ہے اور طریق صحبت بھی آپ ہی سے پہنچا ہے کیوں کہ آپ سفر و حضر میں جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا کرتے تھے اور بطریق صحبت فیض حاصل کرتے تھے اصل اس کام میں صحبت ہے اور رابطہ اس کا ظل ہے۔ جب صحبت ظاہری مفقود ہو تو اس طریقہ والوں نے رابطہ پر اکتفا کیا ہے ہے جو صحبت معنوی ہے۔

مکاشفہ کی کیفیت:

ایک روز نقل ذیل نظر مبارک میں آئی کہ حضرت مخدومی جامی قدس اللہ سرہ السامی نقد نصوص میں لکھتے ہیں کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ حضور کی حالت میں بغیر اس کے حِسّ سے غائب ہوں امور غیبیہ کے بعض حقائق اِس گروہ پر کُھل جاتے ہیں اور اِسی کو مکاشفہ کہتے ہیں۔ مکاشفہ کبھی جھوٹ نہیں ہوتا کیوں کہ مکاشفہ سے مراد ہے علائق بدن سے مجرد ہونے کی حالت میں روح کا مغیبات کے مطالعہ میں متفرد ہونا۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ حضرت مخدومی نے یہ مضمون ترجمہ عوارف سے نقل کیا ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بعضے مکاشفات جن میں خیال کو کچھ دخل ہے اُن میں خطا بھی ہوجاتی ہے۔ لیکن علوم یقینی جو مدرکہ پر الہام کیے جاتے اُن میں خطا کو کچھ دخل نہیں۔ اس موقع پر ایک درویش نے عرض کیا کہ بعض علوم یقینی میں بھی جو بطریق الہام معلوم ہوتے ہیں خطا پائی جاتی ہے۔ اس کا سبب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اُس کا سبب یہ ہے کہ صاحب الہام اپنے مقدمات مسلّمہ میں سے بعض کو جو اُس کے نزدیک یقینی ہیں ان علوم یقینی کے ساتھ ملا لیتا ہے۔ اسی وجہ سے اُن میں خطا آجاتی ہے ورنہ صرف علوم الہامیہ میں خطا کی گنجائش نہیں۔ علوم عقلیہ کے علماء جو قوانین منطق کی رعایت کرتے ہیں کبھی اُن کے فکر میں خطا داخل ہوجاتی ہے اس میں راز یہ ہے کہ اپنے مقدمات مقرر کو یقینی خیال کرکے اُس میں ملا لیتے ہیں۔ ورنہ منطق تو وہ علم ہے کہ اُس کی رعایت ذہن کو فکر میں خطا سے بچاتی ہے اگر صرف منطق کا استعمال بغیر ملائے ایسے مقدمات کے ہو تو ذہن کبھی خطا نہ کرے۔ اس موقع پر  حضرت خواجہ نے یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ خدا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ان کو کشف کی کچھ ضرورت نہیں کیوں کہ کشف دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک کشف دنیوی جو بالکل کسی کام نہیں آتا۔ دوسرا کشف اخروی جو کتاب و سنت میں بصراحت مذکور ہے اور عمل کے یے کافی ہے۔ کوئی کشف اس کے برابر نہیں۔

اہل اللہ:

اہل اللہ کے بارے میں سلسلہ کلام شروع ہوا فرمایا کہ اہل اللہ تین فرقے ہیں۔ عباد، صوفیہ، ملامتیہ عباد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ظاہر عبادت پر اکتفا کیا ہے اور فرائض و سنن کے بعد نفلی عبادتوں اور خیرات پر قیام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ چاہتے ہیں کہ خیرات میں سے کسی چیز کی فرو گزاشت نہ ہو۔ اور صوفیہ کے اذواق و مواجید سے بہر دور نہیں ہوتے عباد میں سے جو شخص صوفیہ کے اذواق سے بہرہ ور ہوگیا وہ گروہ صوفیہ میں داخل ہوگیا اور اپنے مرتبہ سے نکل آیا۔ صوفیہ وہ فرقہ ہے جو مواجید و اذواق سے بہرہ ور ہیں۔ اور اپنے خوارق و کرامات کو مخلوق کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رکھتے۔ تمام کاموں میں ان کی نظر خدا پر ہے اور مخلوق کو مظاہر حق جانتے ہیں۔ اِس فرقہ میں ایک طرح کی رعونت و نخوت رہ گئی ہے۔ ملامتیہ وہ لوگ ہیں جو عام لوگوں کےلباس میں رہتے ہیں اور عوام سے کچھ امتیاز نہیں رکھتے اور ظاہر میں فرائض و سنن موکدہ پر اکتفا کرتے ہیں اور اخلاص کی رعایت میں کوشش کرتے ہیں اور اپنے تئیں اپنے خوارق ظاہر کرکے مشہور و ظاہر نہیں کرتے اس امر میں انہوں نے حضرت حق سبحانہ کا اتباع کیا ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ عالم ظہور کا محل نہیں خدا تعالیٰ نے اپنے تئیں عام لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھا ہے لہٰذا وہ بھی اپنے تئیں مخلوق کی نظروں سے پوشیدہ رکھتے ہیں۔ اِسی واسطے اکثر لوگ ان کو اپنے جیسا خیال کرتے ہیں یہ جماعت رعونت سے بالک آزاد و پاک ہے وہ مقام عبودیت کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ حضرت شیخ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ نے اِس جماعت کے کئی سردار ٹھہرائے ہیں۔ سب سے بڑی سردار جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاتے ہیں۔ صحابہ کرام میں سے حضرت صدیق اکبر اور سلمان فارسی کو مشائخ میں سے بایزید بسطامی اور ابو سعید خراز اور ابو السعود اور اپنے آپ کو بتاتے ہیں۔ ان کے سوا اوروں سے ساکت ہیں۔ مگر اُن کی نفی نہیں کرتے شیخ کا طریقہ یہ ہے کہ جو کچھ کسی خاص قت میں کشف میں آگیا اسے لکھ دیتے ہیں۔ فرقہ ملامتیہ میں سے جو لوگ اپنے تئیں مخلوق پر بعنوان ملامت ظاہر کرتے ہیں اور بعض ایسی چیزوں کے مرتکب ہوتے ہیں جو باعتبار ظاہر ممنوع ہیں۔ مثلاً سفر میں ماہ رمضان میں دن کے وقت بازار میں کھاتے پھرتے ہیں تاکہ مخلوق کی نظروں سے اُن کا اعتبار اُٹھ جائے۔ ایسے لوگ رتبہ و مرتبہ میں صوفیہ سے کم درجہ کے ہیں۔ مخلوق ان کی نظروں سے ساقط نہیں ہوا ہے۔

توحید کی راہ:

(ایامِ وفات سے پہلے) فرماتے تھے کہ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ طریق توحید(وحدت وجود) کے سوا ایک اور وسیع راہ ہے۔ اور توحید کی راہ اُس شاہراہ کے مقابلہ میں محض ایک تنگ کوچہ ہے۔(زبدۃ المقامات۔ ملفوظات حضرت خواجہ باقی باللہ رحمہ اللہ)۔

 

(مشائخِ نقشبندیہ)


متعلقہ

تجویزوآراء