مُحِبُّ النبی حضرت شاہ فخر الدین دہلوی

مُحِبُّ النبی حضرت شاہ فخر الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ

۱۱۲۶ھ کی بات ہے۔ اورنگ آباد (دکن) میں حضرت شاہ نظام الدین کے ہاں ایک فرزند ارجمند کی ولادت ہوئی۔ حضرت نے فوراً دہلی میں اپنے پیرو مرشد حضرت شاہ کلیم اللہ دہلوی کو اطلاع بھجوائی وہ اس خبر سے بے حد مسرور ہوئے اور جواباً کہلا بھیجا کہ نظام الدین تمہارا یہ بیٹا نہایت فرخندہ فال وخوش اقبال ہے۔ میں تمہیں اس بچے کے شاندار مستقبل کی بشارت دیتا ہوں وقت آئے گا کہ یہ بچہ شاہجہاں آباد (دہلی) میں ہدایت دار شاد کی شمع روشن کرےگا، جس سے مخلوق کے سینے منور ہوں گے اور تصوف و طریقت کے میخانے میں پھر سے بہار آجائے گی۔ یہ بچہ دینِ حنیف کے لیے باعثِ فخروصد افتخار ہوگا۔ تم اس بچے کا نام فخر الدین رکھو۔

سلسۂ نسب:

حضرت شاہ فخر الدین والد ماجد کی جانب سے صدیقی تھے اور والدہ ماجدہ کی طرف سے سید۔ ان کی والدہ ماجدہ محترمہ سید بیگم حضرت خواجہ سید محمد گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان سے تھیں۔[1]؎

حضرت شاہ فخر الدین کا لقب، محب النبی تھا۔ اس کی وجہ بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے خواب میں حضرت خواجہ خواجگان سید معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو اس لقب سے مخاطب فرماتے ہوئے سنا تھا۔ [2]؎

تعلیم و تربیت:

حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آبادی نے اپنے ہونہار صاحبزادہ کی تعلیم و تربیت کا انتظام نہایت اعلےٰ پیمانہ پر کیا۔ ان کے پیرو مرشد حضرت شاہ کلیم اللہ بچے کے شاندار مستقبل کی بشارت دے چکے تھے۔ پیرو مرشد ہی کے ایماء پر انہوں نے وقت کے مشہور اور قابل ترین علماء سے ان کی تعلیم کی تکمیل کرائی۔[3]؎

حضرت شاہ فخر الدین نے فصوص الحکم۔ صدرا۔ شمس بازغہ وغیرہ کتابیں میاں محمد جان سے پڑھیں اور ہدایہ مولانا عبدالحکیم سے پڑھی۔

شاہ صاحب نے بعض کتابیں اپنے والدِ ماجد سے پڑھیں۔ جن میں شرح وقایہ۔ مشارق الانوار اور نفحات الانس وغیرہ شامل ہیں۔ حدیث کی سند انہوں نے دکن کے مشہور محدث مولانا حافظ اسعد الانصاری المکی سے حاصل کی۔[4]؎

درسی کتابوں کے علاوہ شاہ صاحب نے دیگر علوم فنون سے بھی واقفیت حاصل کی۔ طب اور تیراندازی کے متعلق کتابیں پڑھیں اور فنون سپاہ گری میں مہارت حاصل کی۔

بیعت وخلافت:

حضرت شاہ نظام الدین بیٹے کی اصلاح باطن کی طرف خصوصی توجہ فرماتے تھے۔ بچپن ہی میں انہیں مرید کرلیا تھا۔[5]؎ جب نظام الدین کا وقت آخر آیا تو اپنے داماد قاضی کریم الدین خاں کو حکم دیا کہ:

مولانا فخر الدین کو بلاؤ۔ وہ آئے تو حضرت شاہ نظام الدین نے انہیں اپنے سینے سے لپٹا لیا اور اپنی تمام باطنی نعمتیں ان کے سینے میں منتقل کردیں۔ اس کے بعد ان کی روح پر فتوح عالمِ فانی سے عالم باقی کی طرف پرواز  کرگئی۔

حضرت شاہ فخر الدین کی عمر اس وقت سولہ سال تھی اور انہوں نے اپنی تکمیل علوم ابھی نہیں کی تھی۔ والد ماجد کے وصال کے تین سال بعد تک انہوں نے سلسلۂ تعلیم جاری رکھا اور علوم کی تکمیل کی۔[6]؎

لشکر میں ملازمت:

تعلیم سے فراغت کے بعدشاہ صاحب نے والد ماجد کے سجادہ پر بیٹھنے کے بجائے لشکر میں ملازمت کرلی۔ لشکر میں نظام الدولہ ناصر جنگ اور ہمت یار خاں ان کے ساتھی تھے۔ لشکر کی ملازمت کے دوران شاہ صاحب کا حال یہ تھا کہ دن شمشیرزنی میں گزرتا اور راتیں رکوع و سجود میں۔

مناقب فخریہ میں لکھا ہے کہ لشکر کی ملازمت کے دوران شاہ صاحب تمام رات اپنے خیمہ میں عبادت کرتے رہتے۔[7]؎ اس زمانے میں آپ کو اخفائے حال کی بڑی فکر رہتی تھی۔ آپ سخت ریاضت کرتے اور کسی کو اس کی خبر تک نہ ہوتی۔ جو لوگ آپ کی ظاہری حالت دیکھتے  انہیں اس بات کا قطعی گمان نہ ہوتا کہ یہ فوجی نوجوان شیر بیشہ ولایت ہے۔ لشکر کی ملازمت کے دوران آٹھ سال تک شاہ صاحب نے دن رات مشقتیں اٹھائیں ۔لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ چاند کی روشنی چھپے نہیں چھپتی۔ شاہ صاحب کے کمالات بھی ظاہر ہونے لگے۔ جب آپ کی شہرت زیادہ بڑھی تو آپ نے لشکر کی ملازمت ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

لشکر میں شاہ صاحب کے ایک ساتھی ہمت یار خان کیمیا بنا یا کرتے تھے حتیٰ کہ فوج کو جس قدر دولت کی ضرورت ہوتی، وہ بآسانی مہیا کردیتے۔ایک روز  ہمت یار خاں نے شاہ صاحب سے خوشامد کرتے ہوئے عرض کی کہ پورے لشکر میں آپ کے سوا کسی کو یہ راز معلوم نہیں کہ میں کیمیا بناتا ہوں ۔ میری  زندگی کا اب کوئی اعتبار نہیں۔ آج مرا توکل دوسرا دن۔ آپ مجھ سے یہ علم سیکھ لیں۔ شاہ صاحب نے بے نیازی سے فرمایا: ہمت یار خان! ہمارے پاس ایک ایسا نسخۂ کیمیا (قرآن مجید ) موجود ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی کیمیا کی ضرورت نہیں۔

اورنگ آباد میں قیام:

لشکر کی ملازمت چھوڑ کر شاہ صاحب اور نگ آباد آگئے اور والد ماجد کے سجادہ پر جلوہ افروز ہوئے۔ یہاں بھی آپ نے اپنے کمالات کو پوشیدہ رکھنے کی پوری کوشش کی ۔ لیکن اب جس سجادہ پر بیٹھے تھے وہاں اخفائے حال ممکن نہ تھا ۔ آپ کے کمالات ِ باطنی کا شہرہ دور دور پہنچا اور خانقاہ میں عقیدت مندوں کا ایک تانتابندھ گیا۔

شہرت سے آپ کو طبعاً نفرت تھی کئی بار آپ نے ارادہ کیا کہ اورنگ آباد کو چھوڑ کر دہلی چلے جائیں۔ لیکن پھر یہ سوچ کر کہ مرشد کے مزار پر بیٹھے ہیں ارادہ ترک کردیتے۔ اسی کش مکش میں تھے کہ ایک روز خواب میں حضرت شاہ نظام الدین کو یہ شعر پڑھتے دیکھا؎

شہِ اقلیم فقرم بے خودی تختِ ردانِ من

نہ چوں فرہا مزدور م نہ چوں مجنوں زمیندارم

خواب سے پیدار ہوئےتو یہ شعر زبان پر تھا۔ اس سے مذبذب ارادے میں پختگی پیدا ہوگئی اور آپ نے اورنگ آباد کو خیر باد کہنے کا تہیہ کرلیا۔

دہلی میں ورودِمسعود:

آخر ۱۱۶ھ میں اپنے دوخادموں قاسم حبشی اور محمد حیات کے ساتھ پاپیادہ دہلی کی طرف چل پڑے۔ دہلی میں ایک بڑھیا نے آپ کو اپنے ہاں ٹھہرایا۔ بڑھیا کے مکان  کے قریب ایک بت خانہ تھا۔ شاہ صاحب کے قیام سے بت خانہ کی رونق ختم ہوگئی اور ہندو آپ کی عقیدت کا دم بھرنے لگے۔[8]؎

یہاں سے آپ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس پرحاضر ہوئے اور درگاہ شریف کی مسجد میں معتکف ہوگئے۔

بزرگانِ سلسلہ کے مزارات پر حاضری دیتے ہوئے آپ  حضرت شاہ کلیم اللہ کے مزار پہنچے۔ حضرت شاہ کلیم اللہ کے فرزند نہایت محبت اور اخلاص سے پیش آتے اور تین روز تک آپ کو مہمان ٹھہرایا اس کےبعد آپ نے کٹرہ پہلیل میں ایک حویلی کرایہ پرلے لی اور درس تدریس کاسلسلہ شروع کردیا۔

حضرت شاہ فخر الدین جیسا باکمال اور صاحبِ عرفان و حال درویش دہلی میں غیر معروف اور گمنام نہ رہ سکتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے حویلی میں خلقت کا ہجوم بڑھنے لگا اور بیعت و توبہ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہیں کٹرہ پہلیل میں شاہباز لامکاں قبلہ عالم حضرت خواجہ نور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے حلقہ مریدین میں داخل ہوئے۔ [9]؎

پاکپٹن کی حاضری:

دہلی میں قیام کو زیادہ عرصہ نہ ہواتھا کہ شاہ صاحب نے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے مزار اقدس پر حاضر ہونے کا ارادہ کیا ۔ دکن سے دہلی آتے ہوئے وہ اجمیر شریف میں حاضر ہوتے تھے۔ دہلی میں اپنے سلسلہ کے سب مزارات پر بھی حاضری دے لی تھی، لیکن حضرت بابا صاحب کے مزار پر حاضری ابھی نہ ہوئی تھی۔

پاکپٹن کایہ سفر محبت اور عقیدت کی دنیا میں ہمیشہ یاد گار رہے گا۔ سینکڑوں میل کا یہ سفر شاہ صاحب نے پاپیادہ کیا۔ پاؤں میں آبلے پڑگئے۔ لیکن وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ چلے جارہے ہیں۔ جب پاؤں کے زخموں سے بالکل ہی مجبور ہوجاتے توٹھہر جاتے اور آبلوں پر مہندی لگالیتے۔ ذرا سکون ہوتا پھر پاکپٹن شریف کی طرف چل پڑتے۔

حضرت خواجہ نور محمد مہاروی اس سفر روحانی میں آپ کے ہمراہ تھے، پاکپتن شریف سے کچھ دور ایک گاؤں میں شاہ صاحب نے رات کو قیام کیا۔ صبح ہوئی تو خواجہ صاحب نے دیکھا کہ شاہ صاحب اپنی نعلین مبارک چھوڑ کر برہنہ پاکپتن شریف روانہ ہوگئے ہیں۔ [10]؎

اس زمانہ میں پاکپتن شریف میں حضرت شیخ محمد یوسف سجادہ نشین تھے، انہوں نے شاہ صاحب سے نہایت محبت کا برتاؤ کیا۔ شاہ صاحب مزار شریف کے قریب ایک حجرہ میں فروکش ہوئے۔ جہاں آپ رات بھر عبادت میں مشغو ل رہتے۔[11]؎

درس وتدریس:

دہلی واپس آکر شاہ صاحب نے اجمیری دروازہ میں ایک مدرسہ قائم کیا۔ یہ عمارت امیر غازی الدین خاں فیروز جنگ کی تعمیر کردہ تھی۔ اس مدرسہ میں بیٹھ کر شاہ صاحب نے صرف درسی کتابیں پڑھانے پر اکتفانہ کیا، بلکہ حقائق و معارف کے وہ دریا بہائے کہ بقول مصنف مناقب فخریہ: حضرت محبوب الہٰی رحمۃ اللہ علیہ کے دور کی طرح عرفان کاچراغ پھر روشن کردیا۔۔۔۔ سینے حقائق کے خزانوں سے معمور ہوگئے۔ جو سو رہے تھے جاگ اٹھے۔ جو بے ہوش تھے ہوش میں آگئے۔ جو بے خبر تھے باخبر ہوگئے۔ مردہ دل زندہ ہوگئے۔ زندہ دل بسمل بن گئے۔ عشق و محبت الہٰی کا بازار گرم ہوگیا۔ ذوق وشوق کا دریا موجیں مارنے لگا۔ دل کے میخانے اور آنکھوں سے ساغر آنسوؤں کی شراب سے مزین ہوگئے۔ [12]؎

فیض صحبت:

شاہ صاحب کی خانقاہ میں جو آتا، وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ جرائم پیشہ لوگ خانقاہ میں آتے اور ولی کامل بن کر نکلتے ۔[13]؎

شاہ صاحب خود سنت نبوی کا نمونہ تھے۔ ان کی صحبت بابرکت کالوگوں پر بڑا اچھا اثر ہوتا۔ سنت نبوی  پر وہ بڑا زور دیتے تھے۔ مریدوں کو ہدایت فرماتے کہ حدیث شریف میں جو درود آیا ہے۔اسی کو پڑھیں۔ دوسری چیزوں کی طرف رجوع نہ کریں۔ مذہب حنفی پر مضبوطی سے قائم رہیں اور حدیث کی طرف کثرت سے رجوع کریں۔ [14]؎

شاہ صاحب نماز ہمیشہ جماعت کے ساتھ ادا کرتے تھے اور مریدوں کو بھی نہایت سختی سے اس کی تلقین کرتے ۔

شاہ صاحب کے زمانے میں ہندوستان پر شیعوں کا اقتدار بہت بڑھ گیا تھا۔ حتیٰ کہ حضرت مظہر جان جاناں ان کے یزیدی حملے سے شہید ہوئے۔ انہیں دنوں ایک افغانی،شاہ صاحب کی خانقاہ میں آیا اور آپ پر حملہ کیا۔ خدام نے اس کو پکڑ لیا۔ آپ نے فرمایااسے چھوڑدو۔ اور اپنا سر مبارک زمین پر ڈال کر فرمایا: ‘‘ہم حاضر ہیں جو کچھ تمہارے جی میں ہے کرو۔’’ وہ نہایت شرمندہ ہوا اور واپس چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد دو  آدمیوں کو اپنے ساتھ لایا۔ اس کو دیکھتے ہی آپ تعظیم سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: صاحب بخیرو عافیت؟ اِن الفاظ کا زبان سے نکلنا تھا کہ اخلاق کا وہ ہتھیار جو پہلی بار اچٹتا ہوا لگا تھا، اپنا کام کرگیا اور ان لوگوں نے اپنے سر اور پیر کوٹ کوٹ کر  معافی مانگی۔ ملفوظاتِ شاہ فخر الدین میں ایسے بہت سے لوگوں کا ذکر ہے جو شیعہ تھے، لیکن شاہ صاحب کی صحبت جادو اثر سے سنی ہوگئے۔ فخر الطالبین میں ایک شخص کے بارے میں لکھا ہے:

‘‘پیش ازملاقات حضرت مولانا مذہب شیعہ داشت بغلظتِ تمام۔ اکنوں بفضلِ الہٰی تابعِ سنت است’’۔

شاہ صاحب اپنے مریدوں کو ہدایت فرماتے تھے کہ ہرروز سونے سےقبل دن بھر کے حالات کا محاسبہ کریں اوردیکھیں کہ بندہ ہونے کی حیثیت سے اپنے خالق کا حق ادا کیا۔ شاہ صاحب مریدوں کو اس بات کی بھی سختی سے ہدایت فرماتے تھے کہ وقت کا کوئی لمحہ کسی فضول  کام میں ضائع نہ ہو۔ [15]؎

تصانیف:

شاہ صاحب نے تین کتابیں تصنیف فرمائیں۔ جن کے نام یہ ہیں۔

۱۔ نظام العقائد (اسلام کے بنیادی عقائد پر عالمانہ بحث)

۲۔ رسالہ مرجیہ (حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور کتاب غنیتہ الطالبین کے ایک بیان کی شرح)

۳۔ فخر الحسن (حضرت حسن بصری کی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بیعت و خلافت کا علمی و تاریخی ثبوت۔)

سر سید نے ان کتابوں کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کا دیکھنا آپ کی ممارست علمی پر دلیل قاطع اور برہان ساطع ہے۔ [16]؎

 معمولات:

شاہ صاحب اپنے معمولات کے سختی سے پابندتھے۔ ان کے زمانے میں دہلی میں  آئے دن ہنگامے برپا رہتے   تھے، لیکن پھر بھی وہ اپنے معمولات میں فرق نہ آنے دیتے تھے[17]؎۔اور جن مزارات پر حاضری جن امور کی بجا آوری انہوں نے اپنے آپ پر لازم قرار دےلی تھی، ان کی پابندی کرتے۔

فجر کی نماز کےبعد وہ اپنے حجر سے میں تشریف لے جاتے تھے۔ تین گھڑی دن نکلے تک وہیں رہتے اس وقت کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ اس کےبعد وہ حجرے سے باہر مجلس میں آکر بیٹھتے۔ جہاں تمام یاران  ومخلصان حاضر خدمت ہوتے ۔ اس وقت حدیث شریف کا درس شروع ہوتا قاعدے کے مطابق کوئی مرید حدیث شریف کی عبارت پڑھتا اور آپ اس پر تقریر فرماتے۔

پھر کھانے کاوقت ہوجاتا۔ قیلولہ کے وقت امیر کلویا نتھو موجود ہوتے اور شاہ صاحب سینہ پر کوئی کتاب رکھ کر مطالعہ میں مصروف ہوجاتے۔ یہ کتاب عام طور پر فوائد الفوائد ہوتی۔

اس کے نمازِ ظہر باجماعت ادا فرماتے۔ تمام یارانِ مدرسہ نماز باجماعت میں شریک ہوتے نماز کے بعد آپ ہر ایک سے خندہ روئی اور بشاشت سے گفتگو فرماتے۔ جمعہ اور سہ شنبہ کو مولوی عظمت اللہ صاحب سے مثنوی مولانا روم سنتے۔ اس مجلس میں سوائے خاص مریدوں کے کسی کو آنے کی اجازت نہ ہوتی۔ رمضان شریف کے مہینے میں آپ کے زیرِ سایہ لوگوں کا ذوقِ عبادت بہت بڑھ جاتا۔ آپ کا معمول تھا کہ ۲۷ رمضان کو سرائے عرب چلے جاتے اور قطب صاحب یا نظام الدین صاحب میں معتکف ہوجاتے۔[18]؎

 اخلاق و عادات:

شاہ صاحب کا اخلاق نہایت بلند و اعلیٰ تھا۔ دشمن تک آپ سے متاثر ہوتے۔ تاریخ مشائخ چشت میں ہے کہ لوگ آپ کی جان لینے کی فکر میں جاتے، لیکن جب آپ سے ملتے تو خود تیغِ اخلاق سے گھائل ہوجاتے۔[19]؎

اے برتراز سپہر و مہ و مہر جاہ تو

گردن کشاں مسخرِ تیر نگاہ تو

شاہ صاحب ہر چھوٹے بڑے سے محبت سے پیش آتے۔ کسی کو تکلیف میں دیکھتے تو جب تک ان کی مدد نہ کرلیتے آپ کو چین نہ آتا۔ ایک مرتبہ حج کے ارادے سے روانہ ہوئے۔ جب جہاز پر روانہ ہونے لگے تو ایک بڑھیا نے بڑھ کر سوال کیا کہ مجھے لڑکی کی شادی کرنی ہے اور میرا یہ حال ہے کہ فاقے کرتی ہوں۔ شاہ صاحب یہ سنتے ہی جہاز سے اتر آئے اور حکم دیا کہ تمام اسباب جہاز سے اتار کر بڑھیا کو دےدیا جائے۔ پھرجو کچھ جیب میں نقد موجود تھا  وہ بھی بڑھیا کے حوالے کردیا اور خود دہلی واپس آگئے۔ [20]

شاہ صاحب کی طبیعت میں انکسار بہت تھا۔ کوئی ان کی تعظیم کے لیے کھڑا ہوتا تو اسے روکتے تھے، خود ہر چھوٹے بڑے کی تعظیم کےلیے کھڑے ہوجاتے تھے۔ حد یہ کہ شدید بیماری کے دوران بھی ہر آنے والے کا اسی طرح استقبال کرتے۔[21]

لوگوں کی خوشی اور غم میں ضرور شرکت فرماتے۔ جولوگ روزانہ اور پابندی سے آنے والے تھے، ان کی غیر حاضری سے مشوش ہوتے اور ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے بے چین رہتے۔ ایک دفعہ ان کا خاکروب پیر محمد دو روز نہ آیا، تو نہایت متفکر ہوئے۔ جب معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہے تو فوراً اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ بہت محبت سے اس کا حال دریافت کیا اور حکیم میر حسن کو اس کے علاج کے لیے مقرر کیا۔ پھر نقد رقم دینے کے بعد فرمایا:

‘‘میاں پیر محمد! تم دوروز نہیں آئے اور فقیر سے اس زمانے میں پرسشِ احوال میں تاخیر ہوئی، اس کو معاف فرمادو’’۔[22]؎

ایک مرتبہ دہلی کے ایک شخص نے اپنے زمانے کے تین بڑے بزرگوں کے اخلاق کا امتحان کرنا چاہا۔ اس نے شاہ ولی اللہ صاحب، شاہ فخر الدین صاحب اور مرزا مظہر جاں جاناں کواپنے ہاں مدعو کیا۔ تینوں بزرگ اس مکان پر پہنچ گئے۔ میزبان زنان خانہ میں کھانا لینے کے لیے گیا۔ کئی گھنٹے بعد واپس آیا اور بیوی کی علالت کا عذر کرکے کچھ پیسے ان تینوں بزرگوں کو دیئے۔ شاہ فخر الدین نے یہ پیسے کھڑے ہوکر لیے۔ شاہ والی اللہ نے بیٹھ کر اور مظہر جاں جاناں نے یہ کہہ کر کہ تم نے مجھے بڑی تکلیف پہنچائی۔[23]؎

شاہ صاحب نہایت صادق القول بزرگ تھے۔ بہت کم وعدہ کرتے تھے، لیکن جب کرتے تو جب تک وہ ایفانہ ہوجاتا نہایت بے قرار رہتے۔

حق گوئی و بے باکی:

شاہ صاحب کے زمانے میں سکھوں کے مظالم حد سے بڑھ گئے تھے دہلی کاہر خاندان ان سے ہراساں اور پریشان تھا۔ بڑے بڑے خاندانوں کی عزت خطرے میں تھی شاہ صاحب قتل و غارت کے یہ منظر دیکھتے تو سخت بے چین اور مضطرب ہوتے۔ مسلمانوں کے خون کی یہ ارزانی دیکھ کر ان کا دل تڑپنے لگتا۔ ان کو بادشاہ پر سخت غصہ آتا کہ وہ اس فتنہ کے انسداد سے کیوں غافل ہے۔

انہی ایام میں ایک روز بادشاہ (اکبر شاہ ثانی) ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ اپنے مبارک قدموں سے قلعہ کو نوازیں۔ آپ نے اخلاق کریمانہ سے یہ دعوت منظور فرمالی۔

شاہی قلعہ میں کھانا کھاچکے تو شاہ صاحب نے بادشاہ سے مخاطب ہوکر کہا:

کو ئی بادشاہ جب تک امورِ مملکت میں خود محنت اور مشقت سے کام نہ لے، اس کا بندوبست بہتر نہیں ہوسکتا۔ آپ نے ملک امیروں کے سپرد کر رکھاہے اور خود اس کے انتظام سے غافل ہیں۔ یہ بات ملک کے لیے بہتر نہیں ہے مناسب یہی ہے کہ آپ خود انتظام سلطنت کے سلسلے میں محنت کے لیے مستعد ہوجائیں۔۔۔

آج ملک پر کافر فاجر قابض ہیں۔ خصوصاً سکھوں کانا ہنجار فرقہ جو اسلام کا مخالف ہے ملک کےاہم حصوں پر قابض ہے۔ سکے اور سلطانی اثر کو اس نے درمیان سے اٹھادیا ہے۔ آپ کے امراء آپس میں لڑ رہے ہیں آپ کو چاہیے کہ ان میں محبت اور میل جول پیدا کریں اور ان سب کو تسلی دےکر اپنے ساتھ رکھیں کہ دینی اور دنیوی فلاح اسی میں ہے۔[24]؎

وصال:

شاہ صاحب نے ۷۳ سال کی عمر میں ۲۸ جمادی الثانی ۱۱۹۹ھ کو وصال فرمایا۔ وصال سے ایک دن قبل زبانِ مبارک پر مثنوی کا یہ شعر تھا۔

وقت آں آمد کہ من عریاں شوم                 چشم بگزارم سراسر جاں شوم

آپ کو حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پاک کے قریب سپرد خاک کیا گیا۔

 

[1]شجرۃ الانوار قلمی بحوالہ تاریخ مشائخِ چشت، ص۴۶۴۔

[2]ملفوظات و حالات شاہ فخردہلوی، ص۱۷۴۔

[3]تکملہ سیرالاولیاء، ص۱۰۶۔

[4]مناقب فخریہ، ص۲۱۔

[5]فخر الطالبین، ص۱۱۲۔

[6]مناقب فخریہ، ص۱۰۔

[7]مناقب فخریہ، ص۱۲۔

[8]مناقب فخریہ، ص۱۸۔

[9]تاریخَ مشائخ چشت، ص۴۷۱۔

[10]تکملہ سیرالاولیاء، ص۱۱۱۔

[11]تکملہ سیرالاولیاء، ص۱۱۲۔

[12]ملفوظات و حالات شاہ فخر دہلوی، ۲۲۲۔

[13]فخر الطالبین، ص۶۵۔

[14]فخر الطالبین، ص۱۴۴۔

[15]ملفوظات و حالات شاہ فخر دہلوی، ۳۰۹۔

[16]آثار انصادید، ص۳۳۔

[17]فخر الطالبین، ص۱۲۰۔

[18]تکملہ سیر الاولیاء، ص۱۱۸۔

[19]تاریخ مشائخ چشت، ص۴۸۳۔

[20]شجرۃ الانوار بحوالہ تاریخ مشائخ چشت، ص ۴۸۳۔

[21]ناقب فخریہ، ص۳۱۔

[22]مناقب فخریہ، ص۳۷۔

[23]تاریخ مشائخ چشت، ص۴۸۶۔

[24]ملفوظات و حالات شاہ فخردہلوی، ص۲۳۵۔


متعلقہ

تجویزوآراء