حضرت شاہ فخر الدین دہلوی

حضرت شاہ فخر الدین دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

آپ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم دین تھے۔ اور چشتیہ سلسلہ کے بہت بڑے شیخ تھے۔ شیخ نظام الدین اولیاء اللہ کے خلیفہ بھی تھے اور بیٹے بھی تھے شریعت کے علوم اور طریقت کے رموز سے واقف تھے ظاہری اور باطنی کمالات میں بے مثال تھے والد کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب شیخ شہاب الدین سہروردی سے ملتا تھا۔ اور والدہ کی طرف سے بندہ نواز سید محمد گیسودراز سے نسبت تھی ۔

آپ پانچ بھائی تھے۔

محمد عماد الدین۔

 غلام معین الدین۔

 غلام بہاء الدین۔

 غلام حکیم اللہ

اور پانچواں خود محمد فخر الدین فخر جہان تھے۔

 نواب نظام الملک غازی الدین خان مناقب فخریہ میں لکھتے ہیں۔ کہ مولانا فخر الدین احمد آباد میں پیدا ہوئے۔ شیخ نظام الدین انہیں شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی کی خدمت میں لے گئے آپ انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اپنے سلسلۂ عالیہ کا ایک خرقہ تیار کیا اور مولانا فخر الدین کے نام مخصوص کر دیا جس شخص نے سب سے پہلے فخر الدین کے حق میں لفظ مولانا کا استعمال کیا وہ شیخ کلیم اللہ تھے۔ آپ کی عمر ساٹھ سال ہوئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خواب میں تشریف لا کر قیوہ کے پانچ دانے عطا فرمائے۔ آپ بیدار ہوئے تو وہ دانے آپ کے ہاتھ میں موجود تھے آپ کے والد شیخ نظام الدین صبح آپ کے پاس تشریف لائے اور رات کے خواب سے پہلے واقف تھے فرمانے لگے برخوردار سیّد کونین ﷺکی عطا کردہ چیزیں اکیلے نہیں کھانی چاہئیں ۔

روزی کمان بہ کہ نہ تنہا خوری

 چنانچہ مولانا نے ان پانچ دانوں میں سے دو دانے تو خود کھالیے اور باقی اپنے والد کی خدمت میں پیش کر دیئے۔

 حضرت نظام الدین اورنگ آبادی جب فوت ہوئے تو مولانا کی عمر آٹھ سال تھی آپ نے زہدو عبادت میں وقت گزارنا شروع کردیا پچیس سال کی عمر میں دہلی تشریف لائے ظاہری اور باطنی علوم پڑھانے میں مصروف ہوگئے پھر دہلی سے پیدل چل کر اجمیر شریف حاضر ہوئے وہاں سے پاک پتن پہنچے اس سفر میں شیخ نُور محمد بہبل ملتانی (چشتیاں) ہیر کلو اور خوشحال آپ کے ہمراہ تھے وہاں سے پانی پت پہنچے اور بو علی قلندر شمس الدین ترک اور سیّد جلال الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزارات کی زیارت سے مشرف ہوئے وہاں سے لاہور آئے میر محرم اللہ نقشبندی سے ملاقات کی کچھ عرصہ حضرت مخدوم علی گنج بخش ہجویری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزار پر اعتکاف کیا اور بڑا ہی فیض حاصل کیا لاہور کے بزرگانِ دین کے دوسرے مزارات کی بھی زیارت کی اور وہاں سے دہلی واپس چلے گئے۔

مناقب فخریہ میں لکھا ہے کہ مولانا کو حضرت خواجہ نور بہبل ملتانی (چشتیاں مہار شریف) کے علاوہ سینکڑوں خلفاء ہیں۔ چنانچہ شاہ عبداللہ۔ شاہ ظہور اللہ مولوی روح اللہ۔ سید احمد۔ شمس الدین۔ بدیع الدین۔ مولوی فرید۔ مولوی سلیم مولوی مکرم ۔مولوی فرید الدین ثانی۔ مولوی روشن علی۔ مولوی حسن محمد۔ مولوی فتح اللہ صوفی یار محمد۔ شاہ محمد بیدار۔ حاجی محمد واصل۔ سیّد محمد۔ مولانا میر ضیاء الدین۔ سیّد فخر الدین مست۔ شیخ گل محمد۔ حافظ سعد اللہ۔ شاہ مراد۔ شیخ محمد مراد۔ شیخ محمد امان ۔مولوی علاؤالدین۔ شیخ ضیاء الدین۔ مولوی محمد صالح۔ عبداالوہاب۔ بیکانیری محمد قطب الدین۔ حاجی خدا بخش اور محمد غوث کرم پوری۔ محمد غوث صاحبزادی اور دوسرے کئی علماء و مشائخ آپ سے ظاہری اور باطنی خلافت سے سرفراز ہوئے تھے اِن خلفاء میں حضرت شاہ نیاز احمد بریلوی بڑے ہی محبوب اور مرغوب خلیفہ تھے۔

 صوفی یار محمد ایک مغل تھا وہ حضرت سلطان مشائخ نظام الدین قدس سرہ کے مزار پر ہی رہتا تھا۔ ایک بار وہ اتنا بیمار ہوا کہ جینے کی اُمید نہ رہی ایک دن کہنے لگا کاش مجھ میں اتنی ہمت ہوتی تو میں مولانا فخرالدین کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی صحت کے لیے دعا کراتا۔ رات ہوتی تو اُس نے خواب میں دیکھا کہ مولانا فخر الدین خود تشریف لے آئے ہیں آپ نے فرمایا یار محمد تمہیں آنے کی طاقت نہ تھی ہم خود آگئے۔ جاؤ صبح سے تندرست ہوجاؤ گے۔ صبح اٹھا تو وہ تندرست تھا۔ چند دن بعد شکریہ ادا کرنے کے لیے وہ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا لوگ بیٹھے ہوئے تھے وہ ساری بات کہنا چاہتا تھا کہ مولانا نے اشارہ کر کے اُسے منع کر دیا۔ ایک پیر زادہ گنگا جمنا کے درمیان ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ یہ گاؤں دہلی سے چالیس میل کے فاصلے پر تھا۔ ایک دن دل میں سوچنے لگا اگر مجھے کاموں سے فرصت ہوتی تو میں دہلی جا کر حضرت مولانا فخر الدین سے بیعت کرتا کیا ہی اچھی بات ہو کہ مولانا کبھی ہمارے گاؤں تشریف لے آئیں اتفاق کی بات ایسی ہوئی کہ مولانا اُسی دن اُس کے گاؤں پہنچے۔ پیر زادے نے دیکھا تو آپ کے قدم چوم لیے اور مرید ہوگیا بعد میں اُس نے لوگوں سے سُنا کہ حضرت مولانا نے دہلی سے باہر کبھی قدم نہیں رکھا یہ محض ان کی کرامت تھی۔

قاضی ابو رضا سوہن پت میں رہتے تھے انہیں تپ دق ہوگیا جب یہ بخار نو ماہ تک نہ اُترا تو اپنی زندگی سے مایوس ہوگیا انہوں نے کسی طرح اپنے آپ کو حضرت مولانا فخر الدین تک پہنچایا۔ آپ نے قاضی صاحب کو اس حال میں دیکھا تو بڑی محبت کے ساتھ اُن کو گلے لگایا وہ اُسی وقت صحت یاب ہوگئے۔

 پٹھانوں میں سے دس آدمی ایسے تھے جو اُس کے دشمن تھے۔ اور وہ اعلانیہ کہا کرتے تھے کہ ہم آپ کو قتل کردیں گے جب یہ خبر مولانا کو پہنچی تو آپ نے کبھی پرواہ نہ کی ایک دن آپ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے عرس پر تشریف لے گئے مجلسِ سماع گرم تھی وہ دس آدمی قاضی حمید الدین ناگوری کی دیوار پر جو قدِ آدم کے برابر بلند تھی چھُریاں لے کر بیٹھ گئے اور بلند آواز سے گالیاں دینا شروع کردیں حضرت مولانا کے ایک خادم بدیع الدین اٹھے اور آپ کی خدمت میں عرض کی یا حضرت آپ کب تک انہیں نظر انداز کرتے رہیں گے۔ ان بدبختوں کی باتوں سے ہمارے ذوقِ سماع میں خلل آتا ہے حضرت مولانا نے یہ بات سن کر اُن کی طرف ایک تیز نظر ڈالی وہ بے ہوش ہوکر دیوار سے زمین پر آپڑے اور مجلس میں آکر وجد کرنے لگے آپ کے قدموں میں سر رکھ دیا اور آپ کے مرید ہوگئے مناقب فخریہ کے مصنف نے یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد یہ شعر لکھا ہے۔

نگاہت دشمنان را دوست کردہ

اثر ہا در رگ و در پوست کردہ

ایک دن مولانا کے مرید رقص و وجد میں مصروف تھے شہر کے دو بدمعاش مجلس میں آپہنچے اور کہنے لگے ان بدعتی لچوں کو دیکھو کہ کس طرح ناچ رہے ہیں یہ بات حضرت مولانا نے سن لی۔ ایک تیز نظر سے اُنہیں دیکھا تو  دونوں مجلس میں ناچنے لگے اپنا اسلحہ اور کپڑے اتار کر قوالوں کو انعام دے دیا اور حضرت مولانا کے پاؤں کو چُوم کر مرید بنانے کی درخواست کی آپ نے فرمایا ہم جیسے لچوں کے ساتھ رقص و سرور کرنا اور مرید ہونا اچھا نہیں۔ انہوں نے رونا شروع کردیا گستاخی کی معافی مانگی اور مرید ہوگئے مولانا فخر الدین نے اپنی جیب سے قوالوں کو دس دینار دیئےاور ان کے کپڑے اور اسلحہ واپس لیا۔

 ایک دن مولانا اپنی خانقاہ کے چبوترے پر بیٹھے پڑھا رہے تھے ایک پٹھان ہاتھ میں چھری لیے آیا اور السلام علیکم کہنے کے بعد کہنے لگا مولوی صاحب آپ اتنے عالم فاضل ہوتے ہوئے بھی سماع سنتے ہیں یہ کس طرح مناسب ہے آپ نے فرمایا میں قصور وار ہوں آپ میرے لیے دعائے خیر کریں، یہ بات سنتے ہی اُس پٹھان نے آپ پر چھُری سے حملہ کر دیا مگر آپ زخمی نہ ہوسکے وہ دوسری بار بڑھا مگر مولانا کے ایک خادم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ مولانا نے اپنے خادم کو جھڑک کر کہا اس کا ہاتھ چھوڑ دو اور اپنا سر مبارک اُس کے آگے جھکا کر فرمایا کہ حاضر ہوں میرا یہ بے کار سر کسی کام کا نہیں اِس کو چھُری سے کاٹ دو۔ وہ شخص شرمندہ ہوگیا اور چلا گیا۔ دوسرے دن حضرت مولانا ابھی اپنے گھر ہی تشریف فرما تھے۔ اندر سے چٹخنی لگی ہوئی تھی کہ اُسی بدبخت نے دروازہ کھٹکھٹایا اُس کے ساتھ دو اور ساتھی بھی تھے انہوں نے دوبارہ دروازہ کھٹکھٹایا تو مولانا نے فرمایا جو لوگ دروازے کے باہر ہیں انہیں اندر آنے دو دروازہ کھلا تو وہ شخص اپنے ساتھیوں سمیت آپ کے سامنے کھڑا ہوا۔ مولانا اپنی عادت کے مطابق اُس کی تعظیم کو اٹھے آپ کے پاس جتنے چھوٹے بڑے تھے وہ بھی تعظیماً اُٹھ کھڑے ہوئے آپ کو معلوم ہوگیا تھا کہ وہی دشمن اپنے ساتھیوں کے ساتھ مجھے قتل کرنے آیا ہے آپ نے ان پر ایک تیز نگاہ ڈالی یونہی تینوں پر نظریں پڑیں وہ زمین پر گر پڑے اور تڑپنے لگے وہ مچھلی کی طرح تڑپ رہے تھے اُن کے سر فرش کی اینٹوں سے لگ کر لہو لہان ہوچکے تھے۔ کچھ وقت گزرا تو ہوش میں آئے بیعت ہونے کی درخواست کی زار  وقطار    رونے لگے مولانا نے انہیں معاف تو کر دیا لیکن بیعت نہ کیا اور کچھ نقدی دے کر انہیں رخصت کردیا۔

مناقب فخریہ میں یہ واقعہ لکھا ہوا ہے کہ ایک دن حضرت سلطان مشائخ نظام الدین اولیاء کے مقبرے پر مجلس سماع گرم تھی مولانا فخر الدین بھی اس مجلس میں تشریف فرما تھے۔ اُس مجلس میں ایک ایسا نوجوان تھا جس کی داڑھی اور مونچھیں نہ تھیں وہ حالتِ وجد میں تڑپ رہا تھا اچانک قوالوں نے کسی ضرورت کی بنا پر گانا موقوف کردیا اور سماع کی مجلس ختم ہوگئی لوگوں نے دیکھا کہ وہ نوجوان مردہ پڑا ہے اور ٹھنڈا ہوگیا ہے تمام اہل مجلس اس کے گرد جمع ہوگئے دیکھا کہ اُس میں کوئی حرکت یا گرمی نہیں ہے اس کا والد روتا ہوا اور گریبان پھاڑتا ہوا حضرت مولانا کے قدموں میں گر پڑا کہنے لگا میرا تو یہی ایک بیٹا ہے اُس نے اِس حالت میں جان دیدی ہے اب میں بھی جینا نہیں چاہتا مولانا کو اس کی حالت زار پر رحم آگیا آپ نے فرمایا اس نوجوان نے ابھی اپنی جان عزیز اللہ کے حوالے نہیں کی تم تسلی رکھو اور پھر آپ نے قوالوں کو فرمایا کہ یہ شعر پڑھو۔

یک لب لعل تو صد جان مید ہد

خضر آسا آب حیوان مید ہد

مردہ گر باشم بحالم باک نیست

جان بوصل خویش جانان مید ہد

 جب قوالوں نے یہ اشعار پڑھے تو اہل مجلس جوش و خروش میں آگئے چند لمحوں بعد اُس نوجوان میں حرکت پیدا ہوئی اور اُس نے وجد کی حالت میں زمین پر لیٹنا شروع کردیا کچھ دیر بعد ہوش میں آگیا۔

ایک شخص مولوی مکرم نامی سماع کے معاملے میں مولانا کو روکا کرتا تھا ایک دن عین مجلسِ سماع میں مولانا سے بحث کرنے کے لیے آگیا مولانا نے ایک تیز نگاہ سےاُسے دیکھا یہ نگاہ نہ تھی گویا ایک تیر تھا جو مولوی مکرم کے دل میں پیوست ہوگیا وہ بے اختیار وجد میں آگیا اور پڑھنا پڑھانا چھوڑ کر بیعت ہوگیا اور دل و جان سے طریقت میں مصروف ہوگیا ایک دن وہ حضرت کے سامنے عاشقانہ نعرے مارتا تھا اور کہہ رہا تھا لوگو دیکھو مولوی کی ایک نگاہ تیر نے محتسب کو شہید کر دیا ہے مولانا فخر الدین نے اس کی مستانہ باتیں سُنیں اور مسکراتے رہے ایک دن حضرت مولانا نے ابتدائی کتابیں پڑھنے والے ایک بچے کو مولوی مکرم کے حوالے کردیا اور ارشاد فرمایا اس بچے کو علم صرف پڑھائیں اور کتابیں میزان الصرف یاد کرادیں چونکہ مولوی مکرم عشق اور محبت کی وجہ سے سبق پڑھانے سے عاجز ہوچکے تھے آپ کے اِس حکم سے بڑے حیران ہوئے بادلِ نخواستہ دوتین دن تک اس طالب علم کو پڑھایا تیسرے دن اُس لڑکے نے ضرَب زیدٌ عمرا ۔پڑھا۔ اُس نے استاد سے پوچھا کہ زید نے عمر کو کس گناہ پر مارا تھا۔ مولوی مکرم نے کہا کہ بابا دین کے معشوق بے گناہ عاشقوں کو مارتے ہی رہتے ہیں یہ کہہ کر کتاب کنواں میں پھینک دی اور پگڑی سر سے اُتار کر ناچنا شروع کردیا اور بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑا جب یہ خبر مولانا فخر الدین کو پہنچی تو آپ نے فرمایا مولوی مکرم کو کھینچ کر میرے پاس لاؤ جب وہ ہوش میں آئے تو مولانا فخر الدین نے فرمایا کہ مولوی صاحب ضرَب زیدٌعمرا۔ کے لفظ سے یہ حالت ہوگئی ہے مولوی مکرم نے عرض کی حضرت بس بس میں نے بچے کو دو دن سبق پڑھایا تو میری یہ حالت ہوگئی ہے اب مجھے معاف فرمائیں اگر مجھے قتل بھی کردیں تو میں صرف و نحو نہیں پڑھاؤ ںگا۔ مولوی مکرم چند دن حضرت مولانا فخر الدین کے زیر تربیت رہا تو  کاملان وقت سے ہوگیا۔

 ایک بار مولوی مکرم الٰہ آباد کے داروغہ سید محمد خان کو ملنے کے لیے الٰہ آباد گئے ایک دن الٰہ آباد میں مجلسِ سماع گرم تھی مولوی مکرم وجد کر رہے تھے کہ اچانک الٰہ آباد کے قاضی کا وہاں سے گزر ہوا۔ مولوی مکرم کو اس حالت میں دیکھ کر کہنے لگا مولوی مکرم کو کیا ہوگیا ہے کہ اس طرح ہل رہا ہے اُسی رات قاضی اپنے گھر میں سویا تو حضرت مولانا فخر الدین کی مثالی صورت اُس کے سامنے آئی آپ نے قاضی کو بستر سے اٹھا کر زمین پر دے مارا اور فرمایا اے نابکار قاضی تم میرے مریدوں کو ایسے لفظوں میں یاد کرتے ہو جس سے بے ادبی ہوتی ہے قاضی صبح کے وقت اٹھا تو اُس کے پچھلی طرف پھوڑا نکلا ہوا تھا وہ اُس کے درد سے دن رات تڑپتا جب اس کا کوئی علاج نہ ہوسکا تو مولوی مکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور معافی مانگی پھر مولوی مکرم کی دعا سے اُسے شفا ملی۔

 مولانا فخر الدین کے خلیفہ حاجی احمد مدینہ منورہ میں رہتے تھے ایک رات خواب میں حضرت مولانا کوحضور ﷺکی بارگاہ میں دیکھا آپ نے حاجی احمد کو حکم دیا کہ وہ مولانا فخر الدین سے بیعت کرے حاجی احمد مدینہ منورہ سے پیادہ چل کر دہلی پہنچے اور بیعت سے مشرف ہوئے پھر ظاہری اور باطنی کمالات حاصل کیے۔

مناقب فخریہ کے مصنف لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا میں نے حضرت مولانا فخر الدین کی خدمت میں خط لکھا اور بیٹے کا نام رکھنے کی التجا کی آپ نے جواب میں مجھے مبارک لکھی اور نام نہ بتایا میں سمجھ گیا کہ یہ میرا بیٹا زندہ نہ رہے گا۔ چنانچہ وہ ایک مہینے بعد فوت ہوگیا اسی کتاب کے مصنف لکھتے ہیں کہ میرا ایک بیٹا حمد اللہ نامی تھا وہ بھی تین سال کا تھا کہ سماع کی حالت میں وجد کرنے لگتا وہ بیمار ہوا تو میں نے حضرت مولانا سے اُس کی صحت کے لیے دعا منگوائی آپ نے فرمایا اِس دفعہ شفا پائے گا وہ تندرست ہوگیا مگر ایک سال بعد چیچک کی بیماری سے فوت ہوگیا۔

ایک عرس پر دہلی کے روساء جمع تھے حضرت مولانا فخر الدین نے مجلس سماع موقوف کر کے حافظ عبدالقادر قادری کو فرمایا کہ مجھے قصیدہ بردہ کے چند اشعار سناؤ اُس نے چند اشعار پڑھے وقت اچھا تھا ساری مجلس میں جوش و خروش برپا ہوگیا اور ہر شخص وجد کرنے لگا کئی لوگ دہاڑیں مار کر روتے تھے اور کئی زمین پر روتے تھے بہت سے لوگ اپنے حال سے بے حال تھے اتفاقاً میربرسی جو سخت بیمار تھا روتا روتا حضرت کے سامنے آگیا اور حال بیان کیا آپ نے اُس پر توجہ فرمائی تو اُسی وقت تندرست ہوگیا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کبھی اُس کو بیماری تھی ہی نہیں مولوی محمد روشن علی اور سید محمد مرزا جو نواب روشن الدولہ کے عزیز تھے اُسی دن آپ کے مرید ہوئے۔

حضرت مولانا فخر الدین کی ولادت ۱۱۲۶ہجری میں ہوئی اور ان کی وفات ۲۸/ جمادی الثانی ۱۱۹۹ ہجری میں ہوئی۔ آپ کا مزار پُر انوار دہلی میں ہے۔ مولوی محمد صالح دہلوی نے آپ کی تاریخ وفات لفظ غلام حسین (۱۱۲۶ھ) سے نکالی ہے۔[۱]

[۱۔ حضرت شاہ فخر نے اپنی گراں قدر تصانیف نظام العقائد رسالہ مرجیہ اور فخر الحسن میں علم عقائد حضرت غوث الاعظم کی کتاب غنیۃ الطالبین کے بعض مقامات کی تشریح اور سلسلہ چشتیہ کی نسبت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے ثابت کی ہے حضرت مولانا فخر الدین کی ان تصانیف کے علاوہ آپ کے احوال و مقامات پر مشائخ اور دانشوران تصوّف نے بہت کچھ لکھا ہے مولانا احسن الزمان حیدر آبادی نے قول المستحسن فی شرح فخرالحسن لکھی۔ مناقب فخریہ شجرۃ الانوار مناقب المحبوبین۔ فخر الطالبین اور تاریخ مشائخ چشت (خلیق احمد نظامی) میں آپ کی زندگی پر بڑی اہم اور بلند پایہ کتابیں ہیں آپ کی زندگی میں شاہ ولی اللہ کا مدرسہ رحیمیہ تھا۔ آپ نے اپنا دارالعلوم دہلی میں اس شان سے قائم کیا کہ تشنگانِ علوم اسلامیہ سیراب ہوتے گئے حضرت شاہ فخر الدین خود اتنے عالم اجل تھے کہ بڑے سے بڑے ارباب علم آپ کے سامنے زانوئے ادب نہ کرتے تھے آپ نے خود وقت کے گراں مرتبہ اساتذہ سے علم حاصل کیا میاں محمد جاں سے فصوص الحکم۔ شمس البازغہ۔ صدرا اور شیخ اکبر ابن عربی کی دوسری کتابوں کا مطالعہ کیا ہدایہ مولانا عبدالحکیم سے پڑھا حدیث حافظ اسعد اللہ انصاری محدث حیدر آبادی سے پڑھی تھی آپ نے اپنے والد ماجد شیخ نظام الدین اورنگ آبادی سے شرح و قایہ مشارق الانوار نفحات الانس جیسی کتابیں پڑھی تھیں۔

 شاہ فخر الدین کا زمانہ سکھوں کی بر بریت کا زمانہ تھا پنجاب کے مسلمان سکھوں کی تلواروں کا چارہ بن چکے تھے آپ کو اس بات کا بے حد صدمہ تھا آپ نے کئی بار مغل دربار کو ان مظالم کی طرف توجہ دلائی مگر مغل فرمانرواؤں کی عیاشی۔ نا اتفاقی اور نا اہلی کی وجہ سے حالات کو درست نہ کیا جاسکا آپ نے معاشرے کی اصلاح کی بے حد کوششیں کیں اور ان کے ثمرات بھی برآمد ہوئے آپ نے اربابِ علم کی ایک زبردست ٹیم تیار کی جس نے سلسلہ چشتیہ فخریہ کو ملک بھر میں پھیلادیا۔]

شہ کونین فخرالدین اسلام

کہ ذاتش ہادی راہ یقین بود

 چو جستم سال ترحیلش خرد گفت

 بگو مقبول دنیا فخر دین بود

۱۱۹۹ھ


متعلقہ

تجویزوآراء