حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی
مشائخ کبار کے سردار، نامور و مشہور اولیا کے بادشاہ مخلوق میں خدا کا سایہ، حق تعالیٰ کی ایسی تلوار جو حق کے ساتھ گویا ہوتی ہے خواجہ قطب الحق والدین رب دوجہاں کی عنایت و مہربانی کے ساتھ مخصوص، فقراء و مساکین کے خاتم اولیاء کے تاج اصفیا کے سلطان خواجہ مودود چشتی قدس سرہ ہیں جن کی فرمانبرداری کا حلقہ تمام مشائخ وقت اپنے کانوں میں ڈالے ہوئے تھے اور جن کے حکم پر برگزیدہ علما کے سر تسلیم خم تھے جملہ اہل کمال آپ کی انتہا درجہ کی تعظیم اور حد سے زیادہ تکریم و توقیر میں بڑی سے بڑی سر گرمی اور مستعدی کے ساتھ کوشش کرتے تھے اور آپ کو مذہبی پیشوا اور قابل انتخاب مقتدا تسلیم کرتے تھے آپ نے خرقہ ارادت خواجہ ناصر الدین ابو یوسف چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کیا۔ کاتب حروف نے حضرت سلطان المشائخ قدس سرہ کے قلم مبارک سے لکھا دیکھا ہے کہ شیخ ابو العباس قصاب نے پورے چار سو اولیاء اللہ کو نظر سے فنا کر دیا تھا لیکن جب خواجہ مودود چشتی نے شیخ عثمان کو نیشاپور کی حکومت و ولایت عطا فرمائی تو اس کی نظر کا اثر منقطع کردیا۔ منقول ہے کہ جب خواجہ مودود چشتی کو خانۂ کعبہ کی زیارت کا اشتیاق غالب ہوتا تو فرشتے خدا تعالیٰ کے حکم سے کانہ کعبہ کو خواجہ کی نظر کے سامنے لا رکھتے خواجہ نہایت ذوق شوق سے طواف کرتے اور نہایت خشوع و خضوع سے نماز ادا کرتے جب آپ طواف و نماز سے فراغت پالیتے تو فرشتہ خانہ کعبہ کو اٹھا لے جاتے منقول ہے کہ ایک دفعہ ایک بزرگ زادہ بدخشاں سے خواجہ مودود چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور نہایت عقیدت مندی کے ساتھ چند روز خدمت میں مصروف رہا ازاں بعد درخواست کی کہ حضور اپنی کلاہ شریف مجھے عنایت فرمادیں چونکہ خواجہ پہلے ہی سے معلوم کر چکے تھے کہ اس کا دامن معصیت دنیا کی گندگی سے آلودہ ہے اور ہنوز دنیا کی محبت اس کے دل میں باقی ہے اس لیے اس کی التماس رغبت کے کانوں سے نہ سنی اور اس کی اس درخواست کو نگاہ قبول سے نہ دیکھا یہاں تک کہ بدخشانی بزرگ زادے نے بہت سے بزرگوں کو سفارشی بنایا اور ان کی سفارش سے خواجہ نے اپنی کلاہ مبارک بزرگ زادہ کو عنایت کی لیکن اس کے ساتھ ہی فرما دیا کہ اے جوان جب تو نے یہ کلاہ لی ہے تو اس کی حفاظت و نگاہداشت بخوبی کیجیو ورنہ تو سخت پشیمان ہوگا۔ اور نہایت ندامت اٹھائے گا چنانچہ جب وہ بزرگ زادہ کلاہ لے کر بدخشاں میں پہنچا تو تھوڑے عرصہ کے بعد دنیا اور نفسانی خواہشوں کے پورا کرنے میں مشغول ہوگیا شدہ شدہ یہ خبر خواجہ کو بھی پہنچی آپ نے فرمایا کیا وجہ ہے کہ کلاہ اس کا کام تمام نہیں کردیتی۔ ابھی بہت دن نہ گذرے تھے کہ اس بزرگ زادہ کو کسی اتہام میں لوگوں نے ماخوذ کیا اور اس کی آنکھیں نکال لی گئیں منقول ہے خواجہ مودود چشتی قدس سرہ العزیز چند روز بیماری کی زحمت میں مبتلا رہے اثناء مرض میں ایک اجنبی مرد جس کی صورت سے ہیبت و رعب برستا تھا خواجہ کے پاس آیا اور ایک حریر کا لکھا ہوا لکڑا خواجہ کے مبارک ہاتھ میں دیا آپ نے اول تو اس کا مطالعہ کیا آنکھ پر رکھ لیا اور جان بحق تسلیم کردی۔ دفعۃً عالم میں ایک شور و غل اور کہرام مچ گیا کہ خواجہ مودود چشتی دنیا سے اٹھ گئے آپ کے معتقدوں نے تجہیز و تکفین کے بعد خواجہ کا جنازہ اٹھانا چاہا لیکن یہ تعجب سے دیکھا جاتا ہے کہ جنازہ کو جگہ سے جنبش تک نہیں ہوئی اور لوگ اسے اٹھانہ سکے اس تعجب ناک واقعہ سے تمام حاضرین حیرت زدہ ہوگئے لیکن اس کے بعد فوراً ایک نہایت دہشت ناک آواز لوگوں کے کانوں میں پہنچی جس سے ان کی حیرت دوبالا ہوگئی سب لوگ پرے ہٹ گئے اور بہت سے غیبی مردوں نے آکر جنازہ کی نماز ادا کی ان کے غائب ہوجانے کے بعد حاضرین نے نماز پڑھی اور خدا وندی حکم سے خواجہ کا جنازہ ہوا میں اُڑ کر آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ یہ عجب قابل دید نظارہ تھا کہ جنازہ آگے آگے ہوا میں اڑا چلا جاتا تھا اور ایک بے شمار مخلوق پیچھے پیچھے چلی جاتی تھی یہاں تک کہ جو موضع جناب خواجہ کا منظور نظر تھا جنازہ ہو اسے اتر کر وہاں ٹھہرگیا خواجہ کی کہ کرامت دیکھ کر اس روز ہزاروں کافر مسلمان ہوگئے۔ اور مقدس و پاک اسلام کے آگے گردن تسلیم خم کردیں۔
(سیر الاولیاء)