حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی

حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی علیہ الرحمۃ

        آپ نے سات سال کی عمر میں تمام قرآن کو ترجمہ کے ساتھ حفظ کرلیا تھا۔ تحصیل علوم میں مشغول ہوئے۔جب۳۶سال کی عمر کو پہنچےتو ان کے والد بزرگوار خواجہ یوسف رحمتہ اللہ علیہ انتقال فرما گئے اور ان کو اپنے قائم مقام بنا گئے۔آپ عمدہ خصائف سے موصوف تھےاور افعال پسندیدہ سے مشہور۔اس ولایت کے تمام لوگ ان کے معتقد ان کے دوست فرمانبرداراراد تمند تھے۔ شیخ السلام احمد نامقی حاجی قدس اللہ تعالی روحہ کا شرف صحبت اور دولتتربیت پائی تھی۔ایسے وقت میں کہ حضرت شیخ السلام جام کی ولایت سے ہرات میں تشریف لائے تھے اور خاص و عام نے ان کی کرامت اور خرق عادت  کا مشاہدہ کیا تھا۔ سب ان کے مرید ع معتقد ہوگئے تھے اور یہ قصہ اس ولایت کی اطراف  و جواانب میں پھیل گیا تھا۔ ہرات کے اطراف سے مزار متبرکہ چشت کی طرف متوجہ ہوئےاور یہ خبر پھیلی کہ خواجہ مودودچشتی جنہوں نے بہت سے مرید جمع کر لیے ہیں۔اس لیے تشریف لاتے ہیں کہ شیخ السلام کو ولایت سے نکال دیں۔

          شیخ السلام کے مرید اس بات کو پوشیدہ رکھتے تھے اور وہ خود سب سے بہتر جانتے تھے۔جب کہ ایک دن صبح کے وقت دسترخوان لائے تو کہا ایک گھڑی ذرا صبر کرو،کہ ایک قاصدوں کی جماعت  راہ میں ہیں۔جب ایک گھڑی گزری خادم آیا کہ وہ جماعت آگئی ہے ان کو لے آئے اور سب نے سلام کہاجواب سنا کھانا کھایا اور دسترخوان اٹھا دیا گیا۔شیخ السلام نے کہا کہ تم کہتے ہو یہ ہم بتلادیں کہ کس لیے آئے ہو۔انہوں نے کہا کہ آپ ہی بتا دیں۔فرمایا کہ خواجہ زاہدمودود نے تم کو بھیجا ہےکہ احمد سے کہہ دو کہ تم ہماری ولایت میں کس لیے آئے ہو۔آرام سے چلے جاوُ ورنہ جیسا کہ لوٹانا چاہیےلوٹا دیں گے۔قاصدوں نے ان بات کی تصدیق کی پھر فرمایا کہ اگر ولایت سے یہ گاوُںمراد ہیں تویہ ملک لوگوں کا ہے۔ان کا نہ میرا اور اگر ولایتسے یہ لوگ مراد ہیں تو یہ لوگ سنجر کی رعایا ہیں۔

          پس شیخ الشیوخ سنجر ہوگااور اگر ولایت سے مراد یہ ہے کہ جس کو میں جانتا ہوں اور خدا کے اولیاءجانتے ہیں تو کل ان کو دکھلاوُں گاکہ ولایت کا کام کیا ہے اور کیونکر ہے۔جب یہ بات کہی تو بڑا بادل آیا۔رات دن برسنے لگا بالکل بند نہ ہوا۔دوسرے  دن صبح کے وقت شیخ السلام نے حکم دیا کہ گھوڑے کسو تاکہ ہم چلیں یاروں نے کہااب تو ممکن نہیں کیونکہ ان دو تین دنوں میں بعداس کے کہ پھر نہ برسے کوئی ملاح بھی پانی سے گزر نہیں سکتا۔شیخ نے فرمایا سہل بات ہے۔آج ہم ملاحی کریں گے۔پس روانہ ہوئے،جب باہر جنگل میں آئےتو شیخ السلام نے دیکھا کہ ایک جماعت ہتھیار بندوں کے ان کے ساتھ ہے۔پوچھا یہ کون لوگ ہیں کہنے لگے کہ ہم آپ کے مرید اور محتاج ہیں۔ہم نے سنا ہے کہ ایک جماعت آپ کی عداوت کے لیے آئی ہے۔فرمایا ان کو واپس کردوکہ تلوار تیر سنجر کا کام ہے اور اس گروہ صوفیہ کے اور ہی ہتھیار ہوتے ہیں۔

شیخ السلام چند آومیوں کے ساتھ راستے کی طرف متوجہ ہوئے۔جب دریا کے کنارے پر پہنچے تو پانی بہت تھا۔شیخ السلام نے فرمایا آج ہمارا یہ اقرار ہے کہ ہم ملاحی کریں گے۔معرفت کی باتیں شروع کردیں۔اس قدر مردہ دلوں کو معلوم ہوا کہ سب شیفتہ وحیران ہوگئے۔حکم دیا کہ سب آنکھیں بند کرلو اور کہوبسم اللہ الرحمٰن الرحیم تین دفعہ اس کا تکرار کیا۔جس شخص نے جلدی آنکھیں کھولیں،اس نے اپنے آپ کو دریا کے اس طرف پایا۔اسکے پاوُں بالکل خشک تھے۔جب قاصدون نے یہ معاملہ دیکھاتو بہت جلد خواجہ مودودرحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں دوڑے گئےاور یہ حال بیان کیا۔کسی نے اس کا اعتبار نہ کیا۔خواجہ مودود رحمتہ اللہ علیہ نے دو ہزار مزید ہتھیارپوش کے ساتھ متوجہ ہوئےاور راستہ میں شیخ سے ملے۔جب شیخ کی نظریں ان پر پڑی تو پیادہ ہو کر شیخ کے پاوُں پر بوسہ دیا۔شیخ نے ہاتھ ان کی پیٹ پر مارااور کہا کہ ولایت کا کام کیسے دیکھا۔تم جانتے نہیں کہ مردوں کی ولایت جسم اور ہتھیار نہیں ہوتی،جاؤاور سوار ہو تم بچہ ہو ابھی جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہو۔

          جب گاؤں میں آئے۔شیخ السلام اپنے اصحاب  کے ساتھ ایک محلہ میں اترے اور خواجہ مودود رحمتہ اللہ علیہ اپنے مریدوں کے ساتھ دوسرے محلہ میں اگلےدن خواجہ مودودرحمتہ اللہ علیہ کے مریدوں نے کہاکہ ہم آئے تھےکہ شیخ احمد کو ولایت سے باہر نکالیں وہ آج ہمارے ساتھ ایک گاؤں میں بیٹھے ہیں۔اس مطلب میں اس سے بہتر سوچنا چاہیئے۔خواجہ مودود نے کہا کہ ہم کو ایسا بہتر معلوم ہوتا ہے کہ ہم صبح ہی اٹھیں اور ان کی خدمت میں جائیں۔اجزت مانگ کر واپس آجائیں کیونکہ ان کا کام ہمارے قوت اور بازو سے نہیں ہے۔مریدوں نے کہا کہ ہم باہم مشورہ کر چکے ہیں۔بہتر تو یہ ہے کہ جاسوس مقررکریں کہ جب شیخ کے قیلولہ کا وقت ہو اور شیخ کے پاس کوئی نہ ہو۔چند مرید آپکی خدمت میں جائیں اور سماع شروع کریں ۔اس میں ہم کو حالت ہو جائے۔               

          اس موقع پر ان پر حملہ کریں۔ خواجہ مودود نے کہا یہ بہتر نہیں ہے کہ وہ صاحب ولایت و کرامات ہی ہے لیکن شیخ کے فرمانے کا فائدہ نہ ہوا۔جب قیلولہ کا وقت ہوا اور شیخ کے مرید متفرق ہوگئے۔خادم نے چاہا کہ کپڑا بچھائے تاکہ شیخ قیلولہ کریں۔شیخ نے حکم دیا کہ ایک گھڑی ٹہر جاؤ کیونکہ ایک کام درپیش ہے۔اتفاقاً کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ خادم نے جب دروازہ کھولا تو خواجہ مودودایک بڑے انبوہ کے ساتھ آگئے اور سلام کہا اور سماع شروع کیا۔نعرہ لگانے لگے۔شیخ الاسلام نے سر نکالااور کہا ھی ھی سھلا تو کہا ہے واین سھلا ایک سر خسی تھاجو عاقل مجنواور صاحب کرامت تھا۔ہمیشہ شیخ الاسلام کی خدمت میں رہا کرتا تھا۔اسی وقت حاضر ہوا اور ان پرچلایا۔یہ لوگ جوتی دستار سب چھوڑ کر بھاگ گئے۔صرف خواجہ مودود رہ گئے۔شرمندہ تھے کھڑے ہوئے اور استغفار کے ساتھ سرننگا کیا" اور کہا کہ آپ پر یہ بات روشن ہوگئی کہ اس دفعہ میں اس سے راضی نہ تھا۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ تم سچ کہتے ہو لیکن ان کے ساتھ آنے میں تم نے موافقت کی۔خواجہ مودود ے کہا برا کیا آپ معاف فرمائیں۔شیخ الاسلام نے کہا میں نے کر دیا۔جاؤ اور ان لوگوں کو واپس کردو۔خدمت اپنے پاس رکھو اور تین دن ٹھہرو۔انہوں نے ایسا ہی کیا  شیخ الاسلام آئے اور  کہا جیسا کہ آپ نے  کہا تھا۔میں نے ویسا ہی کیا اب اور کیا  فرما تے ہیں کہ ویسا ہی کیا اب اور کیا فرماتے ہیں کہ ویسا ہی کروں گا۔شیخ الاسلام نے کہا کہ اول مصلیٰکو طاق پر رکھواور جاؤ علم سیکھو۔کیونکہ زاہد بے علم شیطان کا مسخرہ ہے کہا میں نے قبول کیا اور کیا فرماتے ہیں ۔فرمایا کہ جب تحصیل علم سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے خاندان کو زندہ کرو کہ تیرے اباؤ اجداد بزرگ تھےاور صاحب کرامت خواجہ مودودنے کہا جب مجھ کو خاندان کے زندہ رہنےکے لیے فرماتے ہو۔تو آپ ہی تبرک اور تیمن کے لیے مجھ کو بٹھائیے۔

          شیخ الاسلام نے فرمایا کہ آگے آؤ ان کا ہاتھ پکڑ اور اپنے مصلیٰ پر بٹھادیا اور تین بار کہا کہ بشرط علم۔ پھر تین روزتک شیخ الاسلام کی خدمت میں تھے اور فوائد حاصل کرتے رہے اور مہربانیاں وانعام پاکر واپس گئے۔اس کے بعد تھوڑے زمانے میں تحصیل علوم اور معارف کی تکمیل کے لیے بلخ و بخار کی طرف تشریف لے گئے ۔اور چار سال تک بقدر گنجائش و ہمت اس بات میں محنت کرتے رہے اور اس ملک میں ہر جگہ ان سے نشانات غریبہ اور کرامات عجیبہ کہ جن کی تفصیل طول تک پہنچے گی ظاہر ہوئیں۔اس کے بعد پھر چشت میں وارد ہوئے اور مریدوں طالیوں کی تربیت میں مشغول ہوئے۔

          تمام اطراف سے لوگ مرید ہونے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شاہ سنجان نے جس کا لقب اور نام رکن الدین محمود ہے اور سنجان خواف کے گاؤں سے تھے۔خواجہ صاحب کی  محبت کی شرافت حاصل کی تھی اور چندوقت چشت میں اقامت کی۔ کہتے کہ مدت اقامت میں کبھی بھی چشت میں بے وضو نہیں رہے تھےجب چاہتے  کہ طہارت کریں سوار ہوتے اور چشت سےباہرہوجاتےاور طہارت کرتے اور لوٹ آتے۔کہتے تھے کہ مزار چشت مبارک منزل اور متبرک مقام ہے۔جائز نہیں کہ وہاں بے ادبی کریں۔کہتے ہیں کہ پہلے ان کو خواجہ سنجان کہا کرتے تھے۔خواجہ مودود نے ان کو شاہ سنجان کا لقب دیا تھا۔وہ ہمیشہ اس پر فخروناز کیا کرتے۔خواجہ کی وفات ۵۲۷ھ میں ہوئی اور شاہ سنجان کی ۵۹۹ھ میں۔

(نفحاتُ الاُنس)


متعلقہ

تجویزوآراء