حضرت شاہ فضل الرسول بدایونی

حضرت شاہ فضل الرسول بدایونی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

حضرت عین الحق شاہ عبد المجید بد ایونی کے بڑے صاحبزادے، فضل رسول نام، ماہِ صفر ۱۲۱۳ھ میں ولادت ہوئی، دادا بزرگوار حضرت شاہ عبد الحمید بد ایونی نے ظھور محمدی تاریخی نام رکھا، صرف ونحو کی کتابیںدادا سےپڑھیں، ۱۲۲۵ھ میں بغیر اجازت پار ادۂ تعلیم براہ شاہجہانپوری چوتھےدن فرنگی محل لکھنؤ پہونچے، مولانا شاہ نورالحق ابن مولانا شاہ انوار الحق فرنگی محلی کے درس م یں شریک ہوکر کامل تین برس کسب علوم کیا، اُستاذ کے حکم کے بموجب حضرت شیخ العالم مخدوم احمد عبد الحق رد دلوی کے عرس میں حاضر ہوئے، ۱۷؍جمادی الثانیہ ۱۲۲۸؁ھ کو صبح کے وقت مواجہہ مزار میں مجلس علماء کی موجودگی میں آپ کی دستاربندی ہوئی، واپسی میں مولانا نور الحق نے مولانا کو اپنے والد ماجد مولانا شاہ انوار الحق کی رونمائی کے لیے پیش کیا، انہوں نے آپ کو قریب بُلاکر خیر و برکت کی دعا دی اور فرمایا صاحبزادے! ایک دن وہ آنے والا ہے جب حفاظت دین کا سہرا تمہارے سر سجایا جائے گا، مسند فقر وعرفان تمہاری ذات سے فروغ پائے گی، فرزند ارجمند مولانا نور کا نور علم تمہارے دم سے فیض بخش عالم ہوگا، ۔۔۔۔ والد ماجد کی زبان سے یہ کلمات خیر سُن کر مولانا نور الحق بہت مسرور ہوئے۔

سیف المسلول تحصیل علم کے بعد مولانا نور صاحب کےحکم سے وطن آئے، دادا بزرگوار حضرت مولانا شاہ عبد الحمید کی خدمت میں حاضر ہوکر قدم بوس ہوئے، تکمیل علم کی سند اُن کے رد برورکھ دی اُ ن کے حکم سےاپنے قدیم آبائی ‘‘مدرسہ محمدیۃ کو مدرسہ قادریہ کے نام سے منسوب کر کے درس و تدریس میں مشغول ہوگئے، بہت جلد حضرت کےدرس کی شہرت دور و نزدیک پہونچ گئی اور آپطلبہ علوم ظاہری وباطنی کے م رجع قرار پائے، حضرت طلبہ پر نہایت شفیق تھے، اُن کی تھوڑی سی پریشانی سےبے چین ہوجاتے تھے، اسی دوران راجہ بنارس کی لڑکی کے علاج کے لیے تھوڑے دنوں بنارس مقیم رہے، وہاں سے واپسی کے بعد کچھ دنوں مفتی عدالت رہے، ساڑھے تین سال سہسوان میں سر رشتہ در رہے، دوبار حج وزیارت سے مشرف ہوئے، پہلے حج میں حضرت علامہ محمد عابد سندھی مدنی المتوفی ۱۲۵۷؁ھ سے سند حدیث حاصل کی، حضرت مولانا عبداللہ سراج مکی نے مکہ مکرمہ میں سند خاص عطا فرمائی، یہ سفر دہلی سے پیادہ طے ہوا تھا، دوسرا حج والد ماجد کی معیت میں کیا، خدمت وسعادت کے صلہ میں ‘‘معین الحق’’ کے خطاب سے سر فراز ہوئے، ۱۲۷۸؁ھ میں سرکار بغداد کا سفر کیا، یہ حضرت نقیب الاشراف مولانا سید علی قادری کو تلمذ واجازت حاصل کرنے کا حکم دیا، بسلسلۂ ارشد وہدایت حیدر آباد ودکن بھی قیام رہا، نیز بسلسلۂ طبابت بریلی میں بھی مقیم رہے۔

حضرت وہابیت کے انسداد کے لیے بڑی کوشش فرمائی، مولوی رضی الدین بسمل بد ایونی نے تذکرۃ الواصلین میں لکھا ہے کہ آپ حضرت قطب صاحب کے مزار شریف پر معتکف تھے، عین مراقبہ میں دیکھا کہ منصور جناب خواجہ صاحب رونق افروز ہیں اور دونوں دست اقدس پر اس قدر کتب کا انبار ہے کہ آسمان کی طرف مد نظر تک کتاب پر کتاب نظر آتی ہے، آپ نے عرض کیا، اس قدر تکلیف حضور نے کس لیے گوارا فرمائی، ارشاد مبارک ہوا کہ تم یہ بار اپنے ذمہ کے شیاطین وہابیہ کا قلع متمع کرو، بمجرداس ارشاد کے آپ نے مراقبہ سے سر اٹھایا، اور ثعمیل ارشاد والا ضروری خیال فرماکر اُسی ہفتہ کتاب مستطاب بوارق محمدیہ تالیف فرمائی،

یہ حقیقت ہے کہ حضرت سیف اللہ المسلول صف اول کے اُن ممتاز علماء ومشائخ میں تھے جنہوں نے فتنۂ وہابیتکے سد باب کے لیے کوشش بلیغ فرمائی، آپ کی اور علامہ فضلِ حق خیر آبادی کی ذات قدسی صفات کے وجہ سے اہل باطل کےمقابلہ میں اہل حق دور اوّل میں بد ایونی، اور ‘‘خیر آبادی’’ کےلقب سے پکارے جاتے تھے۔۔۔۔ مولانا مفتی اسداللہ الہ آبادی المتوفی ۱۳۰۰؁ھ، مولانا مفتی عنایت رسول چڑیا کوئی، مولوی خرم علی وہابی مولانا شاہ احمد سعید مجددی، مولوی کرامت عل جون پوری المتوفی ۱۲۵۰؁ھ وغیرہ مشہور تلامذہ ہیں

بروز پنجشنبہ۲؍جمادی الاولی ۱۲۸۹؁ھ کو وصال ہوا، درگاہ قادری میں مرقد ہے۔ آپ کےپوتے حضرت مولانا مرید جیلانی خلف مولانا محی الدین قادری نے قطعہ تاریخ وفات کہا ؎

امام جہاں شاہ فضل رسول

 

بخلد بریں نز و خلاق رفت

چو خواہی سنِ رحلت پاک او

 

بگو ‘‘رونق دیں ز آفاق رفت

(تذکرہ علمائے ہند، اکمل التاریخ جلد دوم، نزہۃ الخواطر ہفتم)


متعلقہ

تجویزوآراء