سیف اللہ المسلول معین الحق شاہ فضلِ رسول قادری بدایونی

 

سیف اللہ المسلول معین الحق شاہ فضلِ رسول قادری بدایونی

قدس سرہ العزیز

 

آپ معقول و منقول کے جامع اور شریعت و طریقت کے شیخِ کامل تھے۔ عمر عزیز کا بہت بڑا حصہ خلقِ خدا کے جسمانی و روحانی امراض  کے علاج  میں صرف، ان گنت افراد آپ سے فیض یاب ہوئے۔ اس کے علاوہ تحریر و تقریر کے ذریعے مسلکِ اہل سنت و جماعت کے تحفظ کے لیے قابلِ قدر کوششیں کیں۔

اس دور میں کچھ لوگ محمد بن عبدالوہاب نجدی کی کتاب التوحید سے بری طرح  متاثر ہوئے ہوگئے اور شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی قدست اسرارہم کے مسلک سے مخرف ہوکر فتنۂ نجدیت کے پھیلانے میں بڑے زور شور سے مصروف ہوگئے۔ اس فتنے کے سدِ باب کے لیے علمائے اہل سنت و جماعت نے اپنی اپنی جگہ ناقابل فراموش کوششیں کیں جن میں استادِ مطلق مولانا محمد فضلِ حق خیر آبادی، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے بھتیجے اور شاہ رفیع الدین محدث دہلوی کے صاحبزادے مولانا شاہ مخصوص اللہ دہلوی، مولانا محمد موسیٰ دہلوی، مولانا منور الدین دہلوی (مولانا ابوالکلام آزاد کے والد کے نانا) اور معین الحق شاہ فضلِ رسول قادری بدایونی وغیرہم نے نمایاں طور پر احقاقِ حق کا فریضہ ادا  کیا ۔ بے شمار سادہ لوح مسلمانو ں کے ایمان کا تحفظ فرمایا اور لاتعداد افراد کو ادا کیا۔بے شمار سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان کا تحفظ فرمایا اور لاتعداد افراد کو راہِ راست دکھائی۔  مولوی محمد رضی الدین بدایونی لکھتے ہیں:

‘‘بالخصوص ہنگامِ اقامت، ملک دکن میں وہابیہ و شیعہ بکثرت آپ کے دستِ مبارک پر تائب ہوکر شرفِ بیعت سے مشرف ہوئے اور نیز جماعتِ کثیر مشرکین کو آپ کی ہدایت و برکت سے شرفِ اسلام حاصل ہوا۔ تمام مشائخِ کرام و علمائے عظام بلادِ اسلام کے آپ کو آپ کے عصر میں شریعت و طریقت کا امام مانتے ہیں۔’’ [1]؎

آپ کا سلسلہ نسب والد ماجد کی طرف سے جامع القرآن حضرت عثمانِ  غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ تک اور والدہ ماجدہ کی طرف سے رئیس  المفسرین حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما تک پہنچتا ہے۔ آپ کے والد ماجد مولانا شاہ عین الحق عبدالمجید قدر سرہ العزیز (متوفّٰی۱۲۶۳ھ) کے ہاں متواتر صاحبزادیاں پیدا ہوئیں۔ لہٰذا آپ کی والدہ ماجدہ بہ کمالِ اصرار کہاکرتی تھیں کہ مرشد برحق شاہ آل احمد اچھے میاں  مارہروی رحمہ اللہ تعالٰی  کی بارگاہ میں نرینہ اولاد کے یلے دعا کی گزارش کریں، لیکن شاہ عین الحق پاس ادب کی بناء پر ذکر نہ کرتے۔ جب حضرت شاہ فضلِ رسول کی ولادت کا وقت قریب آیا تو حضرت شاہ آل احمد اچھے میاں رحمہ اللہ تعالٰی  نے خود فرزند کے پیدا ہونے کی بشارت دی۔ [2]؎

چناں چہ ماہِ صفر المظفر (۱۲۱۳ھ/ ۹۔۱۷۹۸ء) آپ کی ولادت ہوئی۔[3]؎ حضرت اچھے  میاں رحمہ اللہ تعالٰی کے ارشاد کے مطابق آپ کا نام فضلِ رسول رکھا گیا اور تاریخی نام ظہورِ محمدی منتخب ہوا۔ [4]؎

صرف و نحوکی ابتدائی تعلیم جدا مجد حضرت مولانا عبدالحمید سے اور کچھ والد ماجد مولانا شاہ عبدالمجید سے حاصل کی۔ بارہ برس کی عمر میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاپیادہ لکھنؤ کا سفر کیا اور فرنگی محل لکھنؤ میں ملک العلماء بحر العلوم قدس سرہٗ  کے جلیل القدر شاگرد مولانا نور الحق قدس سرہ (متوفّٰی ۱۳۳۸ھ/ ۱۸۲۲ء)کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا نے خاندانی عزت و عظمت اور ذہانت کے پیشِ نظر اپنی اولاد سے بھی زیادہ توجہ مبذول فرمائی۔ حتّٰی کہ  آپ چار سال میں تمام علوم و فنون سے فارغ ہوگئے۔[5]؎

جمادی الاخریٰ (۱۲۲۸ھ)کو حضرت مخدوم شاہ عبدالحق ردولوی رحمہ اللہ تعالٰی کے مزارِ اقدس کے سامنے عرس کے موقعہ پرمولانا عبدالواسع لکھنوی، مولانا ظہور اللہ فرنگی محلی اور دیگر اجلہ علماء کی موجود گی میں رسمِ دستار  بندی ادا کی اور وطن جانے کی اجازت دی۔[6]؎

وطن آکر مارہرہ شریف حاضر ہوئے۔ حضور اچھے میاں آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور دعائیں دے کر فرمایا: اب فنِ طب کی تکمیل کرلینی چاہیے کہ اللہ تعالٰی کو تمہاری ذات سے ہر طرح کا دینی و دنیاوی فیض جاری کرنا منظور ہے۔ چنا ں چہ آپ نے دھول پور میں حکیم ببر علی موہانی رحمہ اللہ تعالٰی سے طب کی تکمیل کی۔

ابھی آپ دھول پور ہی میں تھے کہ حضور اچھے میاں  قدس سرہٗ کے انتقال پر ملال کا سانحہ پیش آگیا۔ وصال سے قبل تنہائی میں شاہ عین الحق عبدالمجید قدس سرہٗ کو طلب فرما کر طرح طرح کی بشارتوں سے نوازا۔ اور شاہ فضلِ رسول قادری کے دستِ شفا کی مبارک باد دی۔ [7]؎

والدماجد کے بلانے پر دھول پورے واپس وطن پہنچے اور مدرسہ قادریہ کی بنیاد رکھی جہاں سے اہل شہر کے علاوہ دیگر بلاد کے لوگوں نے بھی فیض حاصل کیا۔ پھر صلہ رحمی کے خیال سے ملازمت کا ارادہ کیا۔ ریاست بنارس وغیرہ میں قیام کیا لیکن درس وتدریس کا سلسلہ کہیں منقطع نہ ہوا۔

اس عرصے میں کئی بار والد ماجد کی خدمت میں بیعت کی درخواست کی۔ ہر دفعہ معاملہ دوسرے وقت ٹال دیا جاتا۔ بالآخر معلوم ہوا کہ مقصد یہ ہے کہ جب تک دنیاوی تعلق ختم نہیں کیا جاتا، حصولِ مقصد میں تاخیر رہے گی۔ چناں چہ تعلقاتِ دنیاویہ ختم کرکے حاضر ہوئے اور حصولِ مدعا کی درخواست کی۔ والدِ ماجد نے قبول فرماکر فصوص الحکم شریف اور مثنوی مولانا روم کا بالا ستیعاب درس دیا۔ کچھ عرصہ بعد آپ پر جذب کی کیفیت طاری ہوگئی۔ اکثر اوقات ہولناک جنگلوں میں گزارتے۔ کئی سال تک یہ حالت جاری رہی، پھر جاکر سلوک کی طرف رجوع ہوا۔ [8]؎

آپ کو والدِ گرامی کی طرف سے سلسلۂ عالیہ قادریہ کے علاوہ سلسلۂ چشتیہ، نقشبندیہ، ابو العلائیہ اور سلسلہ سہروردیہ میں اجازت و خلافت حاصل تھی۔

حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمہ اللہ تعالٰی کے مزارِ قدس پر معتکف تھے کہ اچانک مدینہ طیبہ کی زیارت کا شوق ایسا غالب ہوا کہ سفرِخرچ کا فکر کئے بغیر پیادہ پابمبئی روانہ ہوگئے۔ دوماہ کا سفر تائیدِ ایزدی سے اس قدر جلد طے ہوا کہ آپ ساتویں دن بمبئی پہنچ گئے، حالانکہ زخموں کی وجہ سے کچھ دن راستہ میں قیام بھی کرنا پڑا۔

بمبئی سے سفرِ مبارک کی اجازت حاصل کرنے کے لیے والد ماجد کی خدمت میں عریضہ لکھا۔ انہوں نے بہ کمال خوشی اجازت مرحمت فرمائی۔ حرمین شریفین پہنچنے کے بعد عبادت و ریاضت کے شوق کو اور جلا ملی شب و روز یادِ الہٰی میں بسر کئے اور خلق خدا کی خدمت کے لیے پوری چرح کمر بستہ رہے۔

مولوی محمد رضی الدین بدایونی لکھتے  ہیں:

‘‘جو کچھ ریاضتیں آپ نے ان اماکنِ متبرکہ میں ادا فرمائیں۔ بجز قدمأ اولیاء کرام کے دوسرے سے مسموع نہ ہوئیں۔ حرمین شریفین کی راہ میں پیادہ پاسفر اور یتیموں مسکینوں کے آرام پہنچانے میں آپنے اوپر ہر قسم کی تکلیف گوارا کی۔’’[9]؎

اسی مبارک سفر میں شیخ مکہ عبداللہ سراج اور حضرت شیخ مدینہ عابد مدنی سے علمِ تفسیرو حدیث کا استفادہ کیا۔ اسی سال کامل جذب و ارادت سے بغداد شریف حضرت سید غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روضۂ مبارکہ پر حاضر ہوئے اور بیشمار فیوض و برکات حاصل کیے۔ درگاہ غوثیہ کے سجادہ نشین نقیب الاشراف حضرت سید علی نے آپ کو ازخود اجازت و خلافت مرحمت فرمائی [10]؎اور ان کے بڑے صاحبزادے حضرت سید سلیمان نے آپ کے تلمذ کا شرف حاصل کیا اور اجازت حاصل کی۔[11]؎

جب آپ واپس وطن پہنچے، تو والد ماجد اسّی/۸۰ سال کی عمر میں حرمین شریفین کی زیارت کا قصد فرماکر بمقام بڑودہ پہنچ چکے تھے، حاضر ہوکر گزارش کی کہ اس عمر میں آپ نے اس قدر طویل سفر ارادہ فرمایا ہے، لہٰذا میں مفارقت گوارا نہیں کرسکتا۔ وہیں سے والدہ ماجدہ کی خدمت میں عریضہ لکھ کر اجازت طلب کی اور والد ماجد کے ساتھ پھر سوئے حرمین شریفین روانہ ہوگئے۔ اس سفر میں عبادات و ریاضت کے علاوہ  والدِ مکرم کی خدمت کا حق ادا کردیا اور ان کی دعاؤں سے پوری طرح بہرہ ور ہوئے۔ [12]؎

مولانا کی ذات والاصفات مرجع انام تھی، ان کے پاس کوئی علاج معالجے کے لیے آتا اور کوئی مسائلِ شریعت دریافت کرنے حاضر ہوتا۔ کوئی ظاہری علوم کی گتھیاں سلجھانے کے لیے شرفِ باریابی حاصل کرتا، توکوئی باطنی علوم کے عقدے حل کرانے کی غرض سے دامِن عقیدت و اکرتا۔ غرض و ہ علم و فضل کے نیر اعظم اور شریعت و   طریقت کے سنگم تھےجہاں سے علم و عرفان کے چشمے پھوٹتے تھے۔ وہ ایک شمع انجمن تھے، جن سے شخص اپنے ظرف اور ضرورت کے مطابق کسبِ ضیاء کرتا تھا۔

ذیل میں وہ استفتاء نقل کیاجاتاہے، جو ہند کے آخری تاجدار بہادرشاہ ظفر کے دربار بعض اختلافی مسائل کی تحقیق کے یلے مولانا شاہ فضلِ رسول قادری کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا۔ اصل استفتاء طویل اور فارسی میں ہے، لہٰذا اختصار کے ساتھ اس کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے:

استفتاء

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین دمفتیان شرح متین اس شخص کے متعلق جو یہ کہتا ہے کہ دن متعین کرکے محفل میلاد شریف منعقد کرنا گناہ کبیرہ ہے او ر محفل مولود شریف میں قیام کرنا شرک ہے اور فاتحہ پڑھنا طعام و شیرینی پر حرام ہے اور اولیاء اللہ سے مراد چاہنا شرک ہے اور حسب دستور قدیم ختم میں پانچ آیتوں کا پڑھنا بدعت سیّۂ ہے اور حضرت بنی کریم ﷺ کے قدم مبارک کا معجزہ حق نہیں ہے اور کہتا ہے تعزیہ کا بالقصد اور بلا قصد دیکھنا کفر ہے اور ہولی کا دیکھنا اور دسہرے  میں سیر کرنا اگر چہ بلا ارادہ ہوتو وہ کافر ہوجائے گا اور اس کی عورت پر طلاق ہوجائے گی۔ اور کعبہ شریف و مدینہ منورہ کے خطہ میں کوئی بزرگی نہیں ہے، اس وجہ سے کہ اس زمین میں ظلم ہوا ہے اور سننے میں آیا ہے کہ وہاں کے باشندگان ظالم ہیں۔ مدینہ منورہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قتل کیا اور مکہ معظمہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کوقتل کیا اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ  کو قتل کیا اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مکہ مکرمہ سے باہر کیا۔

پس ایسی  صورت میں ان لوگوں کی اقتداء اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا یا مسلمانوں کو ان سے بیعت ہونا درست ہے یا نہیں؟ اور شرع شریف کا ایسے لوگوں پر حکم ہے؟ اور نیز ان کے متبعین پر کیا حکم ہے؟ فقط!

نقل مہر حضرت ظلِ سبحانی خلیفہ الرحمانی بادشاہ دین پناہ و فقہ اللہ لمایحبہ ویرضاہ

 

محمد بہادر شاہ                  بادشاہ غازی

ابو ظفر سراج الدین

حضرت سیف اللہ المسلول مولانا شاہ فضل رسول قادری بدایونی نے پندرہ صفحات میں تفصیل سے جواب لکھ اور مسلک اہل سنت و جماعت کو دلائل سے بیان کیا اس فتویٰ پر اجلہ علماء نے تصدیق دستخط فرمائے۔ [13]؎

آپ نے خدمتِ خلق، عبادت و ریاضت، درس تدریس، وغط و تبلیغ کے مشاغل کے باوجود تصنیف  و تالیف کی طرف بھی توجہ فرمائی۔ سفر حضر میں آپ کا دریائے فیض کمال استحضار کے ساتھ جاری رہتا۔ آپ نے اعتقادیات، درسیات طب او ر فقہ و تصوف میں قابل کتابیں لکھیں ہیں۔ مشہور تصانیف درج ذیل ہیں:

سیف الجبار، بوارق محمدیہ، تصحیح المسائل، المتعقد المنتقد، فوزالمؤمنین، تلخیص الحق،  احقاق الحق، شرح فصوص  الحکم، رسالۂ طریقت، حاشیۂ میر زاہد، رسالہ قطیبہ، حاشیہ میرزاہد ملا جلال، طب الغریب، تثبیت القدمین، شرح احادیث ملتقطہ ابواب صحیح مسلم، فصل اخطاب، حرزِ معظم۔

چند کتب کا قدرے تفصیلی تعارف پیش کیا جاتاہے:

(۱) المعتقد المنتقد: (عربی) عقائدِ اہل سنت و جماعت پر نہایت اہم کتاب ہے، اس میں بعض نئے اٹھنے والے فتنوں کی بھی سرکوبی کی گئی ہے۔ مکہ معظمہ میں ایک بزرگ کی فرمائش پر لکھی۔ اس پر بڑے بڑے نامور علماء مثلاً مجاہدِ آزادی، استاذ مطلق مولانا محمد فضل حق خیرآبادی۔ مفتی محمد صدرالدین خاں آزرؔدہ، صدر الصدور دہلی شیخ المشائخ مولانا شاہ احمد سعید نقشبندی اور مولانا حیدر علی مولف منہتی الکلام وغیرہم نے اگر انقدر تقریظیں لکھیں اور نہایت پسندید گی کی نگاہ سے دیکھا۔

مولانا حکیم محمد سراج الحق خلفِ رشید مجاہد عظیم مولانا فیض احمد بدایونی نے اس پر حاشیہ لکھا اور جب یہ کتاب بریلی شریف سے شائع ہوئی تو امام اہل سنت اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں قادری بریلوی قدس سرہٗ نے المعتمد المستند بناء نجاۃ الابد کے نام سے قلم برداشتہ نہایت وقیع حاشیہ تحریر کیا۔ المعتقد المنتقد اس لائق ہے کہ اسےدرسیات میں شامل کیا جائے۔ مکتبہ حامدیہ، گنج بخش روڈ، لاہو کی طرف شائع ہوچکی ہے۔

(۲) بوارق محمدیہ: المعروف بہ سوط الرحمٰن علی قرن الشیطان (فارسی) مولوی محمد رضی الدین اس کی تصنیف کا باعث یوں بیان کرتے ہیں: ‘‘بالخصوص ردِ ہابیہ میں جس قدر بلیغ کو شش بحکم اولیاء کرام آپ نے فرمائی، وہ مخفی نہیں ہے۔ چناں چہ جب آپ بمقام دہلی روضہ مبارک حضرت خواجۂ خواجگان خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ میں مزار مبارک پر مراقب تھے۔ عین مراقبہ میں آپ نے دیکھا کہ حضور جناب خواجہ صاحب رونق افروز ہیں اور دونوں دستِ مبارک پر اس قدر کتب کا انبار ہے کہ آسمان کی طرف حد نظر تک کتاب پر کتاب نظر آتی ہے۔ آپ نے عرض کیا کہ اس قدر تکلیف حضور نے کس لیے گوارا فرمائی ہے؟ ارشاد مبارک ہواکہ تم یہ بار اپنے ذمے لے کر شیاطینِ وہابیہ کا قلع قمع کردو۔ بہ مجرد اس ارشاد ِ مبارک کے آپنے مراقبہ سے سر اٹھایا  اور تعمیل ارشاد والا ضروری خیال فرما کر اسی ہفتہ میں کتاب مستطاب بوارقِ محمدیہ تالیف فرمائی۔’’[14]؎

اس کتاب کو علماء و مشائخ نے نہایت قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ مولانا غلام قادر بھیروی (متوفّٰی ۱۳۲۶ھ) نے ‘‘الشوارق الصمدیہ کے نام سے خلاصۂ و ترجمہ کیا، جو عرصہ ہوا شائع ہوچکا ہے۔ اس کی وقعت اور مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت شیخ الاسلام و المسلمین سیدنا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی (متوفّٰی ۱۳۵۶ھ نے بھی اسے بطور حوالہ ذکر کیا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:

‘‘صاحبِ بواقِ محمدیہ صفحہ۱۳۱ میں لکھتے ہیں۔’’[15]؎

دوسری جگہ فرماتے ہیں:

‘‘دربوارق مے نویسد امام احمد وغیرہ از حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہم آں روایت کردہ اند۔’’ [16]؎

ایک  اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

‘‘ایں جابر ذکر چندے ازانفاسِ متبرکہ حضرت خاتم المحدثین رضی اللہ عنہ کہ نقل نمودہ است آں ہارا مولانا فضل رسول قادری حنفی رضی اللہ تعالٰی عنہ اکتفا نمودہ می آید۔’’[17]؎

حضور اعلیٰ گولڑوی قدس سرہ نے جابجا بوارقِ محمدیہ کے حوالہ جات نقل کرکے اور ان پر اعتماد کا اظہار کرکے اس کی قبولیت و صداقت پر مہر  تصدیق ثبت فرمادی ہے۔

مولوی اسمٰعیل دہلوی نے تقویۃ الایمان میں بیانِ توحید کے لیے بہت سخت زبان استعمال کی ہے، جس کا خود انہوں نے ایک موقعہ پر اعتراف بھی کیا تھا۔ عقیدۂ توحید کی بنیادی حیثیت سے انکار کرکے کوئی شخص مسلمان نہیں رہ سکتا۔ لیکن ایسا اندازِ بیان یقیناً قابل تردید ہوگا، جس میں شانِ الوہیت کے عظمت کے اظہار کے لیے شانِ رسالت کو نظر انداز کردیا جائے اور تنقیص شان کا ارتکاب کیا جائے۔ بتوں کے حق میں وارد ہونے والی آیات کو انبیاء و اولیاء کی ذواتِ مقدسہ پر چپساں کیا جائے۔ وہ توحید ہرگز قابل قبول نہیں، جو شانِ رسالت کی تنقیص پر مشتمل ہو۔

حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی قدس سرہٗ نے اس حقیقت کو بڑے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

‘‘الحاصل مابین اصنام وار داح مکمل فرقیست بین و امتیاز یست باہر، پس آیات واردہ فی حق الاصنام رابر انبیاء واولیاء صلوات اللہ و سلامہ علہیم اجمعین حمل نمودن کما فی تقویۃ الایمان تحریفے است قبیح و تخریبے است شینع’’۔[18]؎

ترجمہ: الحاصل بتوں اور کاملین کی ارواح میں فرق ظاہر و باہر ہے، لہٰذا ان آیات کو انبیاء و اولیاء پر چپساں کرنا، جو بتوں کے حق میں وارد ہیں جیسا کہ تقویۃ الایمان میں ہے، قبیح تحریف اور بدترین تخریب ہے۔’’

دیگرعلماء اسلام کی طرح مولانا شاہ فضلِ رسول قادری بدایونی نے بوارقِ محمد اور سیف الجبار وغیرہ کتب  میں تقویۃ الایمان کی اسی قسم کی عبارات پر محض جذبۂ دینی کے تحت عالمانہ کی ہے۔

(۳) سیف الجبار: (اردو)متعدد دفعہ چھپ چکی ہے۔

ہماری معلومات کے مطابق آخری دفعہ دالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف کے شعبۂ تبلیغ کی طرف سے شائع ہوئی ہے، اس کا تاریخی نام سیف الجبارعلی الاعداء للابرار (۱۲۶۵ھ) ہے۔ اس میں فتنۂ نجدیت کی ابتداء اس کے پھیلاؤ، حرمین شریفین اور دیگر مقامات کے مسلمانوں پر نجدیوں کے لرزہ خیز مظالم کا تفصیلی نقشہ پیش کیا گیا ہے۔

تاریخی اعتبار سے یہ کتاب اہمیت رکھتی ہے، کیوں کہ مصنف نے نجدی مظالم کے اثرات بچشم خود  ملاحظہ کیے تھے، ایک جگہ فرماتے ہیں:

‘‘زید یہ مذہب، سیدوں ساکن نواح مخاد حدیدہ نے مذہب نجدیہ اختیار کرکے مکان کوفوج سے خالی دیکھ کر پھرتا خت و تاراج کیا اور ہر ایک مکان میں ایک ایک امیرالمومنین ہوگیا، عجیب ظلم برپاکیا۔ راقم نے ۱۲۵۷ھ میں اسی حال پر چھوڑا۔’’[19]؎

محمدابن عبدالوہاب نجدی کے بارے میں مولوی حسین احمد مدنی کی رائے قابلِ ملاحظہ ہے، لکھتے ہیں:

صاحبو! محمد بن عبدالوہاب نجدی ابتدائے تیرھویں صدی میں نجدی عرب سے ظاہر ہوا اور چونکہ خیالاتِ باطلہ اور عقائدِ فاسدہ رکھتا تھا، اس لیے اس نے اہل سنت و جماعت سے قتل و قتال کیا اور ان کو بالجبر اپنے خیالات کی تکلیف دیتا رہا۔ ان کے اموال کو غنیمت کا مال او ر حلال سمجھاکیا۔ان کے قتل کو باعثِ ثواب و رحمت شمار کرتا رہا ۔ اہل حرمین کو خصوصاً اور اہل حجاز کو عموماً اس نے تکالیف شاقہ پہنچائیں۔ سلف صالحین اور اتباع کی شان میں نہایت گستاخی و بے ادبی کے الفاظ استعمال کیے۔ بہت سے لوگوں کو بوجہ اس کے تکالیفِ شدیدہ کے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ چھوڑنا پڑا اور ہزاروں آدمی اس کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔  الحاصل وہ ایک ظالم و باغی خونخوار، فاسق  و فاجر شخص تھا۔ ’’[20]؎

شاہ فضل رسول قادری نے مولوی اسمٰعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی کو قریب سے دیکھا۔ ان کے عقائد اور عزائم کا بنظرِ غائر جائزہ لیا۔ ان کے طورو طریق کو بخوبی جانچا اور پھر ضمیر کی آواز کو بلاکم و کاست تحریر کردیا۔ فرماتے ہیں:

‘‘فاحشہ رنڈیوں کی بھی پیش کش (نذر) لینے میں تامل نہ تھا، یہاں تک کہ فرنگیوں کے گھروں میں تھیں، چناں چہ بنارس کا ریذیڈنٹ اگنسن بروک نام، اس کے گھر میں ایک فاحشہ تھی، بڑی اختیار والی اور صاحبِ مقدور مرید ہوئی اور دس ہزار روپے نذر کیے اور اس کے مرید ہونے سے ریذیڈنٹ نے بہت خاطرداری کی کہ سید صاحب نے اس کو اپنی بیٹی فرمایا تھا، راقم بھی وہاں موجود تھا۔’’[21]؎

سیف الجبار میں تقلید کی حقیقت اور امام الائمہ، سراج الامہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مناقب بڑے دل نشین پیرائے میں ذکر کیے گئے ہیں۔

محمد بن عبدالوہاب نجدی کی کتاب التوحید (صغیر)۷محرم، بروز جمعہ۱۲۲۱ھ کی صبح علمائے مکہ مکرمہ کے سامنے پیش ہوئی۔ اس وقت نجدی لشکر طائف میں قتل و غارت گری اور مسجد ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہا منہدم کرکے مکہ مکرمہ  جانے کا قصد کر رہے تھے۔ علماء مکہ مکرمہ نماز جمعہ کے بعد جمع ہوئے اور کتاب التوحید کا مطالعہ کرکے اس کا رد کیا۔ مولانا احمد بن یونس باعلوی اس تردید کو ضبطِ تحریر میں لائے۔ نماز عصر تک اس کے ایک باب کا ردّ مکمل ہوا تھا کہ طائف کے مظلوموں کا ایک گروہ مسجد حرام میں پہنچ گیا اور مشہور ہوگیا کہ نجدیہ کا لشکر حرم شریف میں پہنچ کر قتل و غارت کرنے والا ہے۔ اس عام اضطراب کی وجہ سے دوسرے باب پر نظر نہ کی جاسکی۔

مولانا شاہ فضل رسول قادری نے سیف الجبار کے آخر میں کتاب التوحید کا پہلا باب اور اس پر علماء مکہ مکرمہ کا  رد بمع ترجمہ نقل کردیا ہے۔ جابجا تقویۃ الایمان کی عبارتیں نقل کی ہیں، جن سے یہ عجیب و غریب حقیقت سامنے آتی ہے کہ تقویۃ الایمان  اسی کتاب التوحید کا ترجمہ اور شرح ہے۔ علماء مکہ کی تقریرات کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی اور مولانا شاہ محمد فضل حق خیرآبادی(رحمہم اللہ تعالٰی) کی عبارات نقل کی ہیں، جن سے یہ امر کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ یہ حضرات نہ تو کتاب التوحید کے متعقد ہیں، اور نہ تقویۃ الایمان کے مندرجات سے متفق، ان کے عقائد وہی ہیں جو اس وقت کے علماء مکہ مکرمہ اور علماء اہل سنت و جماعت کے ہیں۔

شاہ فضل ِ رسول قادری رحمہ اللہ تعالٰی  پر عام طور پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے انگریز کی حکومت کے دور منصب افتاء قضا اور صدر الصدوری کے ذریعہ اقتدارِ حکومت کو بحال اور مضبوط تر کیا۔ [22]؎

تعجب ہے کہ جب علماء دیوبند میں سے مولوی محمد احسن نانوتوی، مولوی محمد مظہر، مولوی محمد منیر، مولوی ذوالفقار علی، مولوی  فضل الرحمٰن، مولوی مملوک علی اور  مولوی محمد یعقوب نانوتوی وغیرہم بھی ‘‘سرکارِ انگریز کے ملازم تھے۔ [23]؎  تو فرنگی حکومت کے اقتدار کو مضبوط ترکرنے کا الزام علماء اہل سنت پر ہی کیوں عائد کیا جاتا ہے؟

پھر یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ علماء منصب افتاء، قضاء اور صدر الصدوری کو قبول نہ کرتے، تو ان مناصب پر فائز ہوکر فیصلہ کرنے والے ہندو ہوتے یا انگریز۔ کیا یہ اچھا ہوتا کہ علماء ان مناصب کو قبول نہ کرتے اور مسلمان اپنے مقدمات کے فیصلوں کے لیے ہندو یا انگریز کی کچہریوں میں مارے مارے پھرتے؟

اسی سلسلے میں ہمارے کرم فرما پروفیسر محمد ایوب قادری نے ایک اور بات کہی ہے:

‘‘مولانا فضل رسول بدایونی کی تصانیف کے بارے میں ایک بات ہم نے خاص طور پر نوٹ کی ہے کہ ان کی اکثر تصانیف کسی نہ کسی سرکاری ملازم کی اعانت سے شائع ہوئی ہیں۔’’[24]؎

بر تقدیر تسلیم ہمارے نزدیک مولانا پریہ  کوئی اعتراض نہیں ہے کہ ‘‘ان کی اکثر تصانیف کسی نہ کسی سرکاری ملاز م کی اعانت سے شائع ہوئی ہیں ۔ ’’ کیوں کہ انگریزی دوستی یا انگریز سے ساز باز بیشک جرم اور قابل اعتراض امر ہے، فقط سرکاری ملازم ہونا کوئی جرم کی بات نہیں ہے، بشرطیکہ کسی خلافِ اسلام امر میں ان کا تعاون نہ کیا جائے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی  قدس سرہ نے مولوی عبدالحیی کوملازمت کی اجازت دے کر اس قسم کے شبہات کو ختم کردیا تھا۔ سرکار ی ملازمت سے ہر شخص کے بارے میں یہ رائے قائم کرلینا کہ یہ انگریز کا خیر خواہ، وفادار اور محب ہے، کسی طرح بھی صحیح نہیں، کیوں کہ جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء میں اکثر و بیشترانہی علماء نے کھل کر حصہ لیا، جو انگریز کے دورِ اقتدار میں صدر الصدور اور افتاء وغیرہ کے مناصب پر فائز تھے۔

پھر یہ بھی ایک فکر انگیز حقیقت ہے کہ مولوی اسمٰعیل دہلوی کی مشہور کتاب تقویۃ الایمان پہلے پہل رائل ایشیا بک سوسائٹی، کلکتّہ سے شائع ہوئی۔ اگر کسی کو سرکاری ملازم شائع کرے، تو ضروری نہیں کہ اس میں حکومت کا ایماء ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ کتاب سرکاری پالیسی کے مطابق ہو، لیکن جب کسی کو رائل ایشیا بک سوسائٹی ایسا سرکاری ادارہ شائع کرے[25]، تو معمولی سی سمجھ بوجھ والا آدمی بھی یہ کہے بغیر نہیں رہ سکے گا کہ وہ کتاب یقیناً سرکاری پالیسی کے مطابق ہوگی، مخالف ہرگزنہیں ہو سکتی۔

مولانا شاہ فضلِ رسول قادری قدس سرہٗ نے کتنے واضح الفاظ میں انگریزی اقتدار سے نفرت و استحقار کا اظہار کیا ہے اور انگریز کے اقتدار کو دین میں فتنۂ و فساد کے پیدا ہونے کا سبب قرار دیا ہے۔ درج ذیل اقتباس سے بآسانی معلوم کیا جا سکتا ہے، فرماتے ہیں:

‘‘جاننا چاہیے کہ ہندوستا ن میں بسبب ہوجانے کفر کے حکومت (انگریزی اقتدار) اور نہ رہنے اسلام کی سلطنت کے دینِ اسلام میں فتنے اور شروع کے احکام میں رخنے پڑگئے۔’’[26]؎

دوسری جانب مولوی اسمٰعیل دہلوی کا بیان ہے ملاحظہ ہوتا کہ یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ مولانا فضلِ رسول قادری بدایونی اور دیگر علماء اہل سنت پر انگریز دوستی کے الزام میں کتنی سچائی ہے! مولوی اسمٰعیل دہلوی نے ایک موقعہ پر کہا:

‘‘انگریزی سرکار گو منکرِ اسلام ہے، مگر مسلمانوں پر کوئی ظلم و تعدی نہیں کرتی نہ ان کو فرائض مذہبی اور عبادات لازمی  سے روکتی ہے۔ ہم ان کے ملک میں یہ اعلانیہ وعظ کہتےہیں اور ترویج مذہب کرتے ہیں۔ وہ کبھی مانع و مزاحم نہیں ہوتی، بلکہ اگر کوئی ہم پر زیادتی  کرتا ہے، تو  اس کو سزا دینے کو تیار ہیں۔ ہمارا اصل کام اشاعت تو حید الہٰی اور احیائے سنن سید المرسلین (ﷺ) ہے، سو ہم بلا روک ٹو ک اس ملک میں کرتے ہیں۔ پھر ہم سرکار انگریزی پر کس سبب سے جہاد کریں اور اصولِ مذہب کے خلاف بلاوجہ طرفین کا خون گرادیں۔’’[27]؎

مولانا شاہ فضلِ رسول قادری قدس سرہ کے بارے میں ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے:

مولانا حید علی ٹونکی نے اس سلسلے میں ایک خاص بات یہ لکھی ہے کہ مولوی فضلِ رسول بدایونی نے مولانا اسمٰعیل شہید دہلوی  کی شہادت (۱۸۳۱ھ) کے بیس سال بعد وہابیوں کے ردمیں کتابیں لکھنی شروع کیں۔ ظاہر ہے پنجاب کے انگریزوں کے قبضہ میں آجانے کے بعد مجاہدین کا مقابلہ براہِ راست انگریز سے تھا۔ [28]؎

مولوی اسمٰعیل دہلوی نے جب تقویۃ الایمان لکھ کر مسلکِ اہل سنت و جماعت کے خلاف عقائد و افکار کا اظہار کیا، تو اکثر و بیشتر علماء تحفظ دین مسلک کی خاطر میدان میں اتر آئے بعض نے ان سے اور ان کے ہم خیال علماء سے مناظرہ کیا مثلاً مولانا شاہ مخصوص اللہ دہلوی مولانا محمد موسیٰ (صاحبزادگان حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی) منطق وکلام کے مسلم الثبوت استاذ مولانا محمد فضل حق خیر آبادی، مولانا رشید الدین خاں اور علمائے پشاور وغیرہم بے شمار علماء نے تصنیف و تالیف کے ذریعے تردید کی، بعض نے تقریری طور پر رد و ابطال پر اکتفا کیا۔  لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں اکثر و بشتر حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے صاحب ِ علم و فضل شاگرد تھے، بلکہ حضرت شاہ صاحب نے تقویۃ الایمان پر اظہارِ ناراضگی فرمایا :

‘‘حضرت مولانا شاہ محمد فاخر الہ آبادی قدس سرہٗ فرماتے تھے کہ جب اسماعیل دہلوی نے تقویۃ الایمان لکھی اور سارے جہان کو مشرک و کافر بنانا شروع کیا تو اس وقت حضرت شاہ صاحب انکھوں سے معذور ہوچکے تھے اور بہت  ضعیف بھی تھے۔ افسوس کے ساتھ فرمایا کہ میں تو بالکل ضعیف ہوگیا ہوں، آنکھوں سے بھی معذور ہوں، ورنہ اس کتاب اور اس عقیدہ فاسد کا رد بھی تحفہ اثنا عشریہ کی طرح لکھتا کہ لوگ دیکھتے ۔’’[29]؎

حضرت مولانا شاہ فضلِ رسول قادری بدایونی قدس سرہ ان علماء میں سے تھے، جنہوں نے اس نئے فتنے کی تردید کے لیے بھر پور تقریری کام کیا اور جب ضرورت محسوس ہوئی تو تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع  کیا اور ایسی کتابیں لکھیں جنہیں اہل علم سر آنکھوں پر جگہ دیتے ہیں۔ مولانا کی ساری زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کی کوششوں میں حفاظت دین کے سوا اور کوئی مقصد نظر نہیں آئے گا۔ کیا اس بات کا ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی میں تقریر کے ذریعے عقائد باطلہ کی تردید نہیں کی۔ حیاتِ اعلیٰ حضرت ص، ۱۳۹ تالیف ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری قدس سرہٗ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا طالب علمی کے زمانہ سے ردِ وہابیت کی ابتداء کرچکے تھے۔

یہاں اس بات کو ذکر بے جانہ ہوگا کہ مولوی اسمٰعیل دہلوی، سید صاحب اور ان کے رفقاء کو انگریزوں سے کوئی مخاصمت نہ تھی اور نہ وہ انگریزوں سے جہاد کا ارادہ ہی رکھتے تھے۔ [30]؎

آپ کے تلامذہ کرام کا سلسلہ بہت وسیع ہے۔  جس شخصیت نے طویل مدت تک سفر حضر میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا ہو۔ اس کے شاگردوں کا شمار لازماً دشوار ہوگا۔ چند فضلاء کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے، جنہوں نے آپ کے بحرِ علم سے استفادہ کیا:

مولانا شاہ محی الدین ابن شاہ فضل رسول قادری (م ۱۲۷۰ھ)

مولانا محب الرسول شاہ محمد عبدالقادر بدایو نی ابن مولانا شاہ فضلِ رسول قادری (م۱۳۱۹ھ/ ۱۹۰۱ء)

مجاہد آزادی مولانا فیض احمد بدایونی،

 قاضی القضاۃ مولانا مفتی اسد اللہ خاں الہٰ آبادی (م۱۳۰۰ھ)استاد مولوی رحمٰن علی مؤلف تذکرہ علمائےہند۔

 مولانا عنایت رسول چڑیا کوٹی[31]؎،

مولانا شاہ احمد سعید دہلوی (م۱۲۷۷ھ)

مولانا کرامت علی جونپوری (م۱۳۹۰ھ)

 ، مولانا سید عبدالفتاح گلشن آبادی،

 مولانا عبدالقادر حیدر آبادی (م۱۳۲۹ھ)

 مولانا سید اشفاق حسین (م۱۳۱۸ھ)

مولانا خرم علی بلہوری (۱۲۷۳ھ)

مولانا حکیم محمد ابراہیم سہارنپوری،

سید بنیاد شاہ سنبھلی،

 مولانا سید خادم علی،

مولانا سید ارجمند علی،

 مولانا سید اولاد حسن خلف سید آل حسین،

 مولانا غلام حیدر،

مولانا جلال الدین رئیس سوتھ محلہ،

مولانا فصاحت اللہ متولی،

مولانا امانت حسین دانش مند،

مولانا بہادر شاہ دانشمند وغیرہ وغیرہ۔

آپ کے مریدین کا سلسلہ عرب و عجم میں پھیلا ہوا ہے۔ بے شمار لوگ مذاہب باطلہ اور عقائدِ فاسد سے تائب ہوکر آپ کے دستِ حق پر بیعت ہوئے۔

آپ کے مریدین کے چند نام یہ ہیں:

مولانا محب الرسول شا ہ محمد عبدالقادر بدایونی خلف رشید شاہ فضل رسول قادری،

مولانا حکیم سراج الحق صاحب، ابن مولانا فیض احمد بدایونی (م۱۳۲۲ھ/۱۹۰۵ء)

مولانا سید آل نبی حسنی حسینی شاہجہانپوری (۱۲۷۸ھ)

مولانا حکیم عبدالعزیز،

مولانا عبید اللہ بدایونی مدرس مدرسہ محمدیہ، بمبئی(م۱۳۱۵ھ)

ملا اکبر شاہ افغانی،

 مولانا عون الحق

حافظ محمد ضیاء الدین حیدر آباد دکن،

قاضی حمید الدین خاں مچھلی بندر،

شیخ محمد صدیق متوطن بریلی۔

شیخ عبدالرحیم رئیس بدایوں،

شیخ عبدالہادی ملقب، شاہ سالار وغیرہ وغیرہ۔

دربار رسالت ﷺ میں آپکی قبولیت:

جب آپ کی عمر ۷۷ برس ہوئی، تو آپ کے شانوں کے درمیان پشت پر زخم نمودار ہوا۔ ایک دن قاضی شمس الاسلام عباسی، جو آپ کے والد ماجد کے مرید تھے، عیادت کے لیے حاضر تھے، آپ نے فرمایا:

‘‘قاضی صاحب! بمقتضائے وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ آج آپ سے کہتا ہوں کہ دربارِ نبوت سے استیصال فرقۂ وہابیہ کے لیے مامور کیا گیا۔ الحمد اللہ! کہ فرقہ باطلہ اسمٰعیلیہ واسحاقیہ کا رد پورے طور ہوچکا، دربار نبوت میں میری یہ سعی قبول ہوچکی ، میرے دل میں اب کوئی آرزو باقی نہ رہی، میں اس دارِ فانی سے جانے والا ہوں۔ ’’[32]؎

وصال:

آخری دنوں میں کمزوری بہت زیادہ ہوگئی تھی، مگر عبادت و ریاضت اور تہجد کے لیے شب بیداری میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔ ۲؍جمادی الاخریٰ (۱۲۸۹ھ؍۱۸۷۲ء)بروز جمعرات خلف رشید مولانا شاہ محمد عبدالقادری بدایونی کو بلا کر نماز جنازہ پڑھانے کی وصیت کی۔ ظہر کے وقت اسمِ ذات کے ذکر خفی میں مصروف تھے کہ اچانک دو دفعہ بلند آواز سے اللہ اللہ کہا۔ ایک نور دہن مبارک سے چمکا اور بلند ہوکر غائب ہوگیا اور ساتھ ہی روح قفسِ عنصری سے اعلیٰ علیین کی طرف پرواز کر گئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

رحلت کے وقت ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ پھر بھی ہزار ہا افراد نے جنازہ میں شرکت کی ۔ مغرب کے بعد عیدگاہ شمسی میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور شب جمعہ والد ماجد کے روضہ میں مدفون ہوئے۔ [33]؎

مولوی عبدالسلام سنبھلی نے یہ قطعۂ تاریخ کہا ہے؎

معدن فضلِ الہٰی حضرت فضلِ رسول

پیشوائے اہل عرفاں سرور اہل قبول

واقفِ اسرار شرع و کاشف استاردیں

ماہر کامل بہر فن از فروغش تا اصول

سطوتِ تقریر اوبگداخت جان منکراں

ہیبت تحریر اوانداخت درکنج خمول

جامع علم و ولایت دافع آثارِ جہل

قامع بنیادِ کفر و رافع اوج قبول

رفت ازدنیا و دنیا ازغمِ اوتیرہ شد

کرد روشن منزل اول بانوارِ نزول

ایں جہاں راسنگ ماتم برجبین مدعا است

آں جہاں راگو ہر مقصود دردست وصول

 

خواستم تاریخ وصل وے نویسم ناگہاں

 

 

شد بمن الہام از ورحش ‘‘انا فضلِ رسول’’[34]؎

 

 

(۱۲۹۸ھ)

 

       

مولانا معین الدین نے درج ذیل تاریخِ وصال کہی ہے:

حضرت فضلِ رسول نامدار

با فضیلت باکرم با افتخار

کان فی عزٍ وفضل کاملا

فضلہ کالشمس فی نصف النہار

واقفِ اسرار  علم و معرفت

مرشدِ دیں سر حق را رازدار

دوئم ازماہ جمادی الاخریٰ

راہِ دارِ آخرت کرد اختیار

وقت رحلت  داشت شغل ذکرحق

بود ازدم ضربِ اذکار آشکار

ناگہاں آورد، باجہر تمام

اسمِ ذات پاک حق برلب دوبار

اللہ اللہ گفت و جاں دادہ بحق

کرد برنامِ خدا جاں رانثار

 

گشت مفہوم آں زماں ازشش جہت

 

 

لفظ اللہ ازدر و دِیوار و وار

 

       

(نور نور چہرے)

 

[1] محمد رضا الدین بدایونی: تذکرۃ الصوالین حصہ اول، مطبوعہ نظامی پریس بدایوں۱۹۴۵ء، ص ۲۵۵۔

[2] ایضاً: ۲۵

[3] رحمٰن علی: تذکرہ علمائے ہند، اردو، مطبوعہ کراچی، ص۲۸۰۔

[4] محمد رضی الدین بدایونی: تذکرۃ الواصلین، ص۲۵۰۔

[5] محمد رضی الدین بدایونی: تذکرۃ الواصلین، ص۲۵۱۔

[6] ماہنامہ پاسبان، الہٰ آباد، امام احمد رضا نمبر (مارچ و اپریل ۱۹۲۶ء)ص۴۸

[7] محمد رضی الدین بدایونی، تذکرۃ الواصلین، ص۲۵۱۔

[8]  محمد رضی الدین بدایونی، تذکرۃ الواصلین، ص۲۵۲۔

[9] محمد رضی الدین بدایونی، تذکرۃ الواصلین، ص۲۵۳۔

[10] رحمان علی: تذکر ہ علمائے ہند، ص۳۸۰۔

[11] محمد رضی الدین بدایونی، تذکرۃ الواصلین، ص۲۵۳۔

[12] ایضاً: ص۲۵۳۔

[13] ماہنامہ پاسبان امام احمد رضا نمبر، الہ آباد (شمارہ مارچ و اپریل ۱۹۶۲ء)ص۵۰۔۵۱، بحوالہ اکمل التاریخ ، جلد دوم، ص۱۵۴ تا ۱۶۹)

[14] محمد رضی الدین بدایونی، تذکرۃ الواصلین، ص۲۵۴۔

[15] حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی قدس سرہٗ، اعلاء کلمۃ اللہ، طبع چہارم، ص۱۳۹۔

[16] ایضاً: ص۱۶۳۔

[17] ایضاً: ص۱۹۵۔

[18] حضرت پیر مہر شاہ گولڑوی قدس سرہ، اعلاء کلمۃاللہ، ص۱۷۱۔

[19]

[20] مولوی  حسین احمد مدنی: الشہاب الثاقب، ص۵۰۔

[21] مولانا  فضل رسول قادری: سیف الجبار، ص۷۲،۷۳۔

[22] پروفیسر محمد ایوب قادری: مقدمہ حیات سید احمد شہید (مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی، ۱۹۶۸ء، ص۱۸)

[23] ایضاً: (مولوی) مولانا محمد احسن نانوتوی، ص۲۶۔

[24] پروفیسر محمد ایوب قادری: مقدمہ ‘‘حیات سید احمد شہید’’، ص۱۸۔

[25] پروفیسر محمد شجاع الدین (متوفّٰی ۱۹۶۵ء) صدر شعبۂ تاریخ دیال سنگھ کالج لاہور نے پروفیسر خالد بزمی (لاہور) کے نام ایک مکتوب میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ تقویۃ الایمان کو انگریز نے چھپوا کر مفت تقسیم کیا تھا۔ (ملاحظہ ہو: ماہنامہ تبصرہ، لاہور جولائی  ۱۹۶۵ء) ص۶۔

[26] فضلِ رسول قادری، بدایونی، مولانا: سیف الجبار، ص۶۷۔

[27] منشی محمد جعفر تھانسیری: سوانح احمدی، ص۱۷۱۔

[28] پروفیسر محمد ایوب: مقدمہ حیات سید احمد شہید، ص۲۴۔

[29] مولانا محمد ظفر الدین بہادریۂ ماہنامہ پاسبان، امام احمد رضا نمبر، ص۱۹،۲۰۔

[30] اس سلسلے میں ‘‘مقالات سر سید’’ حصہ شانزدہم مطبوعہ ‘‘مجلس ترقی ادب لاہور’’ کے حاشیہ پرشیخ اسماعیل پانی پتی کا نوٹ ص۲۴۸ تا ۲۵۲ اور ص۳۱۸ تا ۳۱۹ قابل ملاحظہ ہے۔ نیز سید صاحب کی تحریک کی صحیح پوزیشن سمجھنے کے لیے جناب و حید احمد مسعود بدایونی کی تحقیقی کتاب ‘‘سید احمد شہید کی صحیح تصویر’’ مطبوعہ لاہور، ملاحظہ کی جائے۔

[31] نامور فاضل مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی (م۱۹۰۹ء) استاذ شبلی نعمانی، مولانا عنایت رسول کے چھوٹے بھائی اور شاگرد تھے۔

[32] ماہنامہ پاسبان، امام احمد رضا نمبر: ص۵۳۔

[33] محمد رضی الدین بدایونی: تذکرۃ الواصلین، ص۲۵۴۔

[34] رحمان علی: تذکرہ علمائے ہند، کراچی، ص۳۸۱۔


متعلقہ

تجویزوآراء