سید العلماء حضرت علامہ مفتی شاہ آل مصطفی سید میاں مارہروی
بموقع صد سالہ جشن ولادت حضور سید العلماء ۱۳۳۳ھ؍۱۴۳۳ء
سید العلماء حضرت علامہ مفتی شاہ آل مصطفی سید میاں مارہروی قدس سرہے
از: سید محمد مبشر رضا قادری
نام: سید آل مصطفی اولاد حیدر بن سید آل عباء بشیر حیدر قادری مارہروی قدس سرہٗ
ولادت: ۲۵ رجب المرجب ۱۳۳۳ھ /۹ جون ۱۹۱۵ء بروز بدھ، مارہرہ مطہرہ، ضلع ایٹہ انڈیا۔
عرفی نام: حضرت علامہ حافظ حکیم سید شاہ، سید میاں صاحب
لقب : سید العلماء ، سند الحکماء
بیعت و خلافت: نانا جان حضور سید شاہ ابو القاسم اسماعیل حسن شاہ جی میاں قدس سرہٗ
وصال: ۱۲ جمادی الاخری ۱۳۹۴ ھ/ ۱۹۷۴ ء
خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ وہ نام ہے جہاں ایک چھت کے نیچے سات سات اقطاب آرام فرما ہیں انہیں سرکاروں میں ایک نام سید شاہ آل مصطفی سید میاں قدس سرہٗ کا ہے یہ وہ نام ہے جن کی پیدائش پر ان کے نانا جان و مرشد حضور سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی قدس سرہٗ نے فرمایا: ’’نومولود حافظ ۔۔۔قاری ۔۔۔عالم ۔۔۔مولوی۔۔۔مفتی ہو ، صاحب فضل و کمال ہو ۔۔۔زمانے کا مقتدا حکیم روحانی جسمانی ہو۔‘‘[1]
ولادت والے دن نانا جان نے اپنے روزنامچے میں اپنے پیارے نواسے کی پیدائش کی کیفیت تحریر فرمائی پھر تقریباً آدھے صفحے میں نومولود کو اپنی بیش بہا دعاؤں سے نوازا۔[2]
ان کے مرشد اعظم کی زبان فیض ترجمان سے جو نکلا مقبول بارگاہ الٰہی ہوا اور وہ اپنے مرشد کریم شاہ جی میاں کی چلتی پھرتی جیتی جاگتی کرامت تھے۔
مارہرہ مطہرہ کا چشم و چراغ جب چار سال چار ماہ چار دن کا ہوا تو نانا شاہ جی میاں صاحب علیہ الرحمۃ نے پورے شرعی اہتمام سے تسمیہ خوانی کا جشن کیا۔ حضرت نظمی میاں لکھتے ہیں :’’سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے دستِ مبارک کی تحریر کی ہوئی بسم اللہ شریف ہمارے خاندان میں موجود ہے۔ سب اسی کو سامنے رکھ کر بسم اللہ پڑھتے ہیں[3]۔
حفظ قرآن سات آٹھ برس کی چھوٹی سی عمر میں والدہ ماجدہ اور حافظ عاشق علی صاحب برکاتی اور حافظ سلیم الدین صاحب علیہ الرحمۃ سے مکمل کیا۔ فارسی کی پہلی کتاب اپنی والدہ ماجدہ سے پڑھی۔ نانا جان اور خالو محترم سید شاہ اولاد رسول محمد میاں صاحب علیہ الرحمۃ سے علوم درسیہ مروجہ کا اکتساب کیا ۔ تفسیرِ قرآن ،علمِ حدیث، منطق ، علمِ کلام، صرف و نحو اور ادب میں کمال اجمیر مقدس میں حضور صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی صاحب سے حاصل کیا۔ مولوی عالم (دینیات میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگری کے برابر) کی سند پنجاب بورڈ سے حاصل کی، طبیہ کالج ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ادویہ ہندی و یونانی اور عمل جراحی میں ڈی آئی ایم ایس میں ڈپلومہ لیا[4]۔
تنظیمی خدمات اورتصلب فی الدین:
۱۹۴۹ میں آپ نے مارہرہ مطہرہ چھوڑا اور بمبئی کو اپنا وطن بنا لیا اور ۲۵ سال تک وہاں دین کی خدمت تحریر، تقریر و تبلیغ کے ذریعے انجام دیتے رہے[5]۔
یہاں کی جماعت ’’بکر قصابان‘‘ نے سید العلماء کو بمبئی کی مسجد ’’کھڑک‘‘ کی امامت کی پیش کش کی جو آپ نے قبول کر لی[6]۔
۱۹۵۸ میں آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کی تاسیس عمل میں آئی جس کا مقصد مسلمانوں کے دینی مذہبی سماجی اور سیاسی مسائل حل کرنا تھا[7] ۔
سید الخطباء:
اپنے وعظوں میں سراسر علم کرتے تھے بیان شاہ اقلیم خطابت حضرت سید میاں
(نظمی میاں)
آپ سید الخطباء اور امام المقررین تھے آپ کے خطابات کی دھوم پورے ملک میں تھی آپ نے خطابت کے ذریعے نہ صرف قوم کی اصلاح فرمائی بلکہ احقاق حق کے ساتھ باطل کا ابطال فرمایا۔
حضرت مفتی مظفر احمد قادری بدایونی آپ کی خطابت کی تصویر کشی کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔
’’سرکار سید العلماء ، سند الحکماء قدس سرہٗ کی ذات ستودہ صفات سے کون واقف نہیں کون نہیں جانتا کہ خطابت و بلاغت کا یہ شہسوار جس وقت منبر پر رونق افروز ہوتا توزمین کی خوش بختی پر آسماں کے تاروں کو بھی رشک ہوتا۔ زور بیانی پہ جس وقت اتر جاتا تو فارابی و ارسطو کے ماتھے پر بھی پسینہ آجاتا،حاضر جوابی ایسی کہ ہزاروں لاکھوں کے مجمع پر کنٹرول کرلینا ان کا ادنیٰ کام تھا آپ کی ایک آواز پر حاضرین گوش بر آواز ہوجاتے تھے[8]۔ ‘‘
حضرت شارح بخاری قدس سرہٗ فرماتے ہیں:
‘‘حضرت سید العلماء قدس سرہٗ خطابت میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے۔ دلکش بلند آواز، ساحرانہ طرزبیان، نکات و دقائق سے بھر پور، ایسی کہ گھنٹوں سنتے رہئے مگر جی نہ بھرے[9]۔‘‘
فتویٰ نویسی:
جن کے فتوؤں نے مچائی دھوم ہند و پاک میں صاحب علم و فضیلت حضرت سید میاں
(نظمی میاں)
حضرت سید شاہ نظمی میاں دام ظلہٗ العالی آپ کی فتویٰ نویسی کے متعلق فرماتے ہیں:
‘‘سید میاں نے فتویٰ نویسی میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کی سنت پر عمل کیا وہ جب تک کسی مسئلے کی گہرائی کو نہ سمجھ لیتے اس وقت تک کوئی حکم نہ لگاتے[10] ‘‘
‘’سید العلماء نے ہزاروں فتاویٰ قلمبند کئے چونکہ مفتیان کرام اپنے فتووں کی نقلیں تیار کرکے رکھتے ہیں تاکہ زندگی کے کسی موڑ پر فتاویٰ کا مجموعہ شائع کر سکیں مگر سید میاں نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی۔ سید میاں کے کاغذات میں بہت کم فتووں کی نقلیں ملیں ورنہ آج ہمارے پاس قانون شریعت کا ایک بڑا خزانہ موجود ہوتا [11]’’
قلمی نگارشات:
حضور سید العلماء کو دیگر علمی ، تبلیغی، اور فلاحی امور نے تصنیف کا بہت کم موقع دیا مگر پھر بھی آپ کے رشحات قلم سے مزین ہو کر چند نگارشات منصہ شہود پر آئیں جو آپ کی عالمانہ اور ادیبانہ شان کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ درج ذیل نگارشات آپ کی تحریری یادگار ہیں۔
۱۔ فیض تنبیہ [12]
۲۔ نئی روشنی
۳۔ مقدس خاتون[13]
۴۔ خطبہ صدارت
۵۔ سیرت خواجہ غریب نواز
حضور سیدالعلماء اور دربارِ خواجہ علیہ الرحمۃ
حضور سید العلماء سیدنا خواجہ غریب نواز کے دربارِ عالی آستانۂ پاک اجمیر شریف لے جاتے۔ آپ کا یہ معمول تھا کہ بعد نمازِ عشاء حضور سرکار سیدنا خواجہ غریب نواز کی بارگاہ میں حاضری، سلام و فاتحہ کے بعد اندر گنبد شریف روضہ مبارک کے قریب ایک گوشہ میں بیٹھ کر حرزیمانی طریقۂ خاندانی واوراد مخصوصہ کا ورد ادا فرماتے ۔ وہاں کے خادمین آپ کا بہت احترام کرتے اور وہ مزار مقدس کی خدمت شریف کے بعد باہر بیٹھ جاتے اور سید العلماء کے جانے کے بعد روضۂ مبارک مقفل کرتے تھے[14]۔
خلیفہ و جانشین:
صاحبزادہ حضرت علامہ مولانا سید شاہ آل رسول حسنین میاں نظمی ؔ مارہروی
غروب آفتاب:
آپ کا وصال پر ملال ساٹھ برس کی عمر میں ۱۰ اور ۱۱ جمادی الاخری ۱۳۹۴ھ کی درمیانی شب یکم جولائی ۱۹۷۴ء ، گیارہ بج کر ۴۰ منٹ بروز پیر ہوا۔ مزار پر انوار درگاہ خانقاہ عالیہ برکاتیہ مارہرہ شریف ضلع ایٹہ انڈیا میں رشدو ہدایت کا سر چشمہ ہے۔
[1]۔ سیدین نمبر ، ماہنامہ اشرفیہ، مضمون مولانا بشیر احمد، صفحہ ۵۷۵
[2]۔ سیدین نمبر، ماہنامہ اشرفیہ، مضمون مولانا نظمی میاں، صفحہ ۴۷۳
[3]۔ سیدین نمبر، ماہنامہ اشرفیہ، مضمون مولانا نظمی میاں، صفحہ ۴۷۳
[4]۔ سیدین نمبر ، ماہنامہ اشرفیہ، مضمون نظمی میاں، صفحہ ۴۷۴
[5]۔ سیدین نمبر ، ماہنامہ اشرفیہ، مضمون مولانا منظر وسیم مصباحی صفحہ ۶۶۷
[6]۔ اہل سنت کی آواز ۲۰۱۰
[7]۔ سیدین نمبر ، ماہنامہ اشرفیہ،مضمون مولانا منظر وسیم مصباحی، صفحہ۶۷۲
[8]۔ آہ سید العلماء بدر الفضلاء صفحہ ۵۶
[9]۔ مقالات شارح بخاری، ج۳، ص ۱۹۹،۲۰۰
[10]۔ اہلسنت کی آواز، اکتوبر۲۰۱۰، صفحہ ۴۶۹
[11]۔ اہلسنت کی آواز، اکتوبر ۱۹۹۹، صفحہ ۲۵
[12]۔ اس کتاب میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کے قصیدہ معراجیہ کا فنی جائزہ پیش کیا گیا ہے، سبب تالیف یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اعلیٰ حضرت کے چند اشعار پر بزعم خویش فنی گرفت کی تھی۔ یہ مضمون جیسے ہی حضرت کی نگاہ سے گزرا آپ نے برجستہ جواباً ۳۰ صفحات پر مشتمل ایک مقالہ اس قصیدہ کی ادبیت کے ثبوت میں تحریر فرمادیا
[13]۔ ۸۸ صفحات پر مشتمل یہ ایک دینی اور اصلاحی ناول ہے جو لکھنؤ کی ٹکسالی زبان کا ایک عظیم شاہکار ہے۔ جسے انجمن ضیاء طیبہ نے نئے اور جدید انداز میں حضرت سید العلماء کے صد سالہ جشن ولادت کے موقع پر شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے۔
[14]۔ ماہنامہ اشرفیہ، سیدین نمبر، مضمون مولانا بشیر احمد، صفحہ ۵۸۰