حضرت سلطان باہوسروری قادری
حضرت سلطان باہوسروری قادری علیہ الرحمۃ
حضرت سلطان باہو جلیل القادر اولیاء سے ہیں آپ خطہ پنجاب میں بہت مشہور ہیں ۔آپ سلطان العارفین اور شمس السا لیکن ہیں ۔آپ بارگاہ رب العزت اور نبی اکرم صلی علیہ وسلم کی بارگاہ کے مقرب اور حضوری تھےآپ زہد و تقویٰ میں یکتائے زمانہ تھے۔
(۱)۔خاندان :آپ قبلہ اعوان سے ہیں ۔ آپ کے والد ماجد ماجد دہلی کے بادشاہ کے منصب دار تھے ۔نہایت نیک متبع سنت حافظ قرآن فقہیہ اور عالم با عمل برزگ تھے۔ان کی شادی بی بی راستی سے ہوئی ۔اور ان کو شور کوٹ ضلع جھنگ میں شاہجہان نے ایک سالم گاؤں قہر گان اور پچاس ہزار بگھیے زمیں چند آبادی کنو ؤں کے بطور انعام کے عطا فرمائی ۔چنانچہ آپ کے والد نے شورٹ کوت قبضہ میں سکونت اختیار کرلی ۔
(۲)۔پیدائش: آپ کی پیدائش شور کوٹ شہر میں ۱۰۳۹ھ میں ہوئی۔آپ کا نام سلطان محمد باہو رکھا گیا۔ اس وقت اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ کا عہد حکومت تھا۔
(۳)۔شجرہ نسب: آپ کا شجرہ نسب یہ ہے۔
حضرت سلطان باہو بن حضرت بازید محمد بن حضرت فتح محمد بن حضرت اللہ وتہ بن حضرت محمد تمیم بن حضرت محمدمنان بن حضرت موغلا بن حضرت محمد پیدا بن حضرت محمد سگھر ابن حضرت محمدنون بن حضرت سلا بن حضرت محمد بہاری بن حضرت محمد جیون بن حضرت محمدہرگن بن حضرت نورشاہ بن حضرت امیر شاہ بن حضرت قطب شاہ۔
۴) : بچپن ہی سے حضرت باہوکی پیشانی سے انور ولایت تاباں ونمایا ں نظر آتے تھے ۔ اور بعض ایسی باتیں پائی جاتی تھیں کہ جن سے اندازہ ہوتاکہ آپ آئندہ چل کر آسمان ولایت کےروشن آفتاب بنیں گے ۔ سلطان باہونے شورٹ کوٹ ہی میں تعلیم و تربیت حاصل کی ،تعلیم ظاہری کے بعد وہ علوم باطنی کی طرف متوجہ ہوئے۔
(۵)۔فیض مصطفوی :ولایت کسبی نہیں وہبی چیز ہے۔ اللہ تعالی ٰ نے جس پر چاہا اپنی عنا کردی ۔جسے چاہا منتخب کرلیا ۔اس انتخاب خداوندی کے لیے کوئی انسان ضابطہ مقرر نہیں کرسکتا ،حضر ت سلطان العاریفین مادرذاد ولی تھے۔
جب آپ سن بلو غت کو پہنچے تو ایک روز کا واقعہ ہے کہ آپ قبضہ شورٹ کوٹ کےقریب کھڑے تھے اچانک ایک صاحب حشمت صاحب نور اور بارعب سوا نموار ہوا اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو پہیچے بٹھا لیا پہلے تو آپ ڈرے لیکن کچھ دیر بعد دل کو ٹھہرایا جرت کی ،اور سوال کیا کہ حضرت آپ کی تعریف کیا ہے اور مجھے کہا لے جانے کا ارادہ ہے، اس پاکیزہ دل سوارنے پہلے توجہ کی اور اس کے بعد اپنی زبان در نشان سے ارشاد فرمایا ۔ میرا نام علی (رضی اللہ تعالی ٰ عنہ) اور میں تجھے حسب الا رشاد حضرت مصطفےٰ ﷺ ان کی مجلس پاک میں لیے جا رہاہوں یہ سن کر آپﷺ مطمئن ہوگئے تھوڑی دیر بعد آپ کو حاضر مجلس کردیا اس وقت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمران فاروق ،حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اجمعین بھی اہل بیت اطہار کی نورانی مجلس میں حاضر تھے۔آپ کو دیکھتے ہی سب سے پہلے حضرت صدیق رضی اللہ تعالی ٰ عنہ مجلس سے اٹھے اور حضرت سلطان العارفین قدس سرہ سے ملاقات کی اور توجہ فرما کر رخصت ہوگئے ۔ا سکے بعد حضر ت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ،پھر حضرت عثما ن رضی اللہ عنہ ،جب تینوں خلفائے رسول ﷺ باری باری رخصت ہوگئے اور مجلس میں صرف اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہ اجمعین ہی رہے گئے ۔ تو حضور سلطان العارفین قدس سرہ فرماتے ہیں کہ اس وقت مجھے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے چہرہ انوار سے اس قسم کے آثار نظر آتے تھے ۔کہ میربیعت کے لیے نبی کریم روف الرحیم ﷺ کی طرف سے انہونے ارشاد ہوگا بظاہر خاموش تھے۔
کچھ دیر کے بعد حضور نبی کریمﷺ نے اپنے دونوں دست مبارک میری طرف بڑھائے اور ارشاد فرمایا ۔میرے ہاتھ پکڑ و،، مجھے دونوں مبارک ہاتھوں سے بیعت اور تلقین فرمایا ۔آپ کے مبارک ہ تھوں کے پکڑنے کی دیر تھی کہ میرے لیے درجات اور مقامات کا کوئی حجاب باقی نہ رہا ۔دور اور نزدیک کی ہر چیز یکسا کتاب ‘‘ عین ا لفقر شریف ’’میں فرماتے ہیں کہ مرشد کامل ایسا ہی ہونا ایسا ہی ہونا چاہیے جو طالب کو ایک ہی نظر سے مراتب انتہاکو پہنچادے اور تمام حجابات کو دور کر میں غرق کردے ۔ پھر فرماتے ہیں کے نبی پاک علیہ الصلوۃو والسلام تلقین فرما چکے تو سید ۃ النساء حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے فرمایا کے تومیرا فرزند ہے ‘‘ میں نے حضرت سبطین الشریفین امام السعید ین بن حضر ت امام حسن و حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مبارک قدموں کو چوما ۔
سرور دو عالم ﷺ نے تلقین بعد مجھے فرمایا کہ خلق خدا سے محبت کرنا کیونکہ تمہارا مرتبہ دن بہ دن بلکہ گھڑ بہ گھڑی ترقی پر ہو گا اور ابد آلا باد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا ۔ کیونکہ یہ حکم سروری اور سرمدی ہے اس کے بعد آقائے نامدار ،مالک کون و مکاں ،محبوب رب دوجہاں ﷺ نے مجھے قطب الا قطاب غوث الاغیاث محبوب سبحانی ،حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد فرمایا حضرت پیر دستگیر قدس سرہ العزیز نے مجھے سرفراز فرمانے کے بعدخلقت کے لیے ارشاد و تلقین کا حکم دیا۔
حضرت سلطان العارفین قدس سرہ فرماتے ہیں کہ میں نے جو کچھ دیکھاان ظاہری آنکھوں سے جو سر میں موجود ہیں آواز کچھ سنا ان ظاہری کانوں سے سنا اور بمعہ جسم پاک میں حاضر ہوا ۔
اس روز کے بعد آپ پر ذات الہی کے انوار و جذبات اسی طرح متجلےہونے لگے کہ سیکڑوں آدمیوں کو ایک ہی نگاہ سے ایک ہی قدم پر خدا رسیدہ واصل با للہ ، کر دیتے تھے چنانچہ لاکھوں طالبان حق کی کی مراددیں آپ کی نظر کرم سے برآیئں سبحان اللہ مالک کا ئنات جل مجدہ ،اپنے بندوں میں سے جیسے چا ہے بلا محنت و مشقت اپنا قرب (وصال بخش دے ) یہ اس کی عانیت اور خاص فضل ہے ۔اس فیض یابی کے بعد حضرت سلطان العارفین سلطان باہو قدس سرہ ہر وقت اور ہر گھڑی وحدانیت میں مستغرق حق تعالیٰ کی تجلیات کے مشاہدوں سے مشرف اور ذات مطلق کے جلال و جمال کے دیدار میں مست رہتے تھے۔
(۶)۔تلاش مرشد کامل : آپ کی والدہ ماجدہ نے فرمایا بیٹا: تمہیں اللہ تعالیٰ نے معرفت کے لیے پیدا کیاہے ۔اس لیے اب تمہیں کسی مرشد کامل کےہاتھ پر بیعت کرنی چاہیے ۔آپ نے عرض کیا مجھے عرض کیا مجھے خدا کی معرفت حاصل ہے ۔آپ نے عرض کیا مجھے خدا کی معرفت حاصل ہے اور میرے مرشد کامل حضرت محمد رسول اللہﷺ ہیں ۔والد ہ ماجدہ نے فرمایا پھر بھی ظاہری مرشد پکڑنا لازمی ہے۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے باوا جود اللہ تعالیٰ کی ہم کلامی کا شرف حاصل ہونے کے حصول ارشاد اور تلقین کے لیے حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ چلنا پڑا جس کا مفصل ذکر سورہ کہف میں موجود ہے یہ سن کر آپ نے عرض کیا میرے لیے کافی مرشد ہیں ۔آپ کی والدہ ماجدہ نے فرمایا بیٹا ؛ عورتوں کو بیعت اور تلقین کرنے کا حکم نہیں کیوں کہ امہات المو منین اور سید النسا حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعا لیٰ عنہ اور رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ نے کسی کو بعیت کی تلقین نہیں کی پس مجھے بیعت کا حکم کیسے ہوسکتا ہے آپ نے عرض کی کہ میں مرشد کامل کہاں سے تلاش کروں ، فرمایا کہ خدا کی زمین میں چل پھر کر تلاش کرو اور بابرکت ہاتھ سے اشارہ مشرق کی طرف کیا ۔آپ فورً اٹھے اور والدہ ماجدہ کو سلام کہا اور دریائے راوی کی طرف چل پڑے جب آپ دریا کے کنارے پہنچے تو وہاں آپ نے حضرت شاہ حبیب اللہ رحمتہ اللہ علیہ کے فیض عام شہر ہ سنا جو ایک گاؤں میں (جس کا نام بغداد تھا ) سکونت رکھتے تھے ۔آپ وہیں ان کے پاس پہنچے تو آپ خاموش ہو کر بیٹھ گئے پھر اپنا مقصود عرض کیا حضرت شاہ حبیب اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا اے درویش تم چند روز ٹھہرو مجاہد کرو اور تمہاری ڈیوٹی مسجد کا پانی بھرنا ہے۔
آپ نے پانی بھرنے کے لیے مشک مانگی اور درویشوں نے مشک لاکر دی آپ نے ایک ہی مشک بھر کر ڈالی تو مسجد کا حمام اور تمام صحن پانی سے بھر پور ہوگیا ۔درویشوں نے یہ واقعہ شاہ صاحب کی خدمت میں عرض کیا ۔آپ نے سلطان العارفین قدس سر کو بلایا اور فرمایا ، اے درویش کیا تمہارے پاس دنیاکا مال ہے، آپ نے فرمایا ہاں ہے ۔شاہ صاحب نے فرمایا تو پھر یاد رکھوں دو کام نہیں و سکتے مال و متاع سے فارغ ہولوپھر اس مقصد کے لیے یہاں آنا ۔ یہ سن کر آپ فورًا گھر وآپس آئے چونکہ آپ کی والد ہ ماجدہ بھی ولی اللہ تھیں اس لیے انہونے پہلے ہی سے آپ کے اس غرض سے لوٹنے کا ذکر آپ کی پاکیزہ ازواج سے کردیا تھا ۔اور انہیں اپنا زیور اور نقد محفوز کرلینے کا حکم دے دیا تھا انہوں نے زیور وغیرہ زمیں میں دفن کردیا تاکہ بوقت ضرورت کام آئے اس وقت سلطان العارفین قدس سرہ کے فرزند حضرت نور محمد علیہ الرحمتہ شیر خوار گی کی حالت میں گہوارے میں تھے جب آپ تشریف لائے تو والدہ ماجدہ نے آنے کی وجہ پوچھی ۔ حضور نے عرض کیا کہ شیخ نے دنیاوی مال و متاع کو دور کرنے کا حکم دیا ہے آپ نے فرمایا اگر کوئی مال نظر آتا ہے تو لے کر دور کردو۔ آں حضرت قدس سرہ نے بچے کی انگلی میں انگوٹھی دیکھی جو نظر بد سے بچانے کے لیے ڈالی گئی تھی آپ نے اسےاتار کر باہر پھینک دیا ۔پھر آپ نے فرمایا اگر کوئی دنیاوی مال ہے تو دو تاکہ اسے باہر پھینک دوں والدہ ماجدہ نے فرمایا بیٹا تمہارے گھر میں مال کہاں آپ نے عرض کیا مجھے اب بھی بدبو آتی ہے والدہ ماجد نے فرمایا اگر بدبوآتی ہے توجہاں ملتا ہے لے کر بار پھینک دو چنانچہ جس جگہ زیور وغیرہ دبایا ہوا تھا وہاں سے نکال کر آپ نے باہر پھینک دیا اور فارغ ہو کر شاہ حبیب اللہ علیہ الرحمتہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔شا صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تم دنیا وی ما سے تو فارغ ہو گئے۔اب اپنی عورتوں کا کیا کروگے ، چنانچہ آپ دیدار ذات کے مست الست اسی وقت واپس گھر لوٹے تاکہ اپنی ازواج کو آزاد کردیں ۔اللہ :اللہ : یہ ہے خدا کی سچی طلب : شاہ صاحب نے آپ کا امتحان کتنا سخت لیا ۔مگر آپ ہیں کہ خدا کی طلب میں کسی چیز کی پروا نہیں کر رہے ۔
کیست صائب زہرہ کس راسینہ بر سنداں زون
ازددوصدے عاشق یکے بے باک مے آید بروں
آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کی مستورات کو اطلاع دی کہ میرا بیٹا اب تم سے قطع تعلق کی عرض سے آرہا ہے تم ہوشیار وجاؤ اور میرے پھینچے بیٹھ جاؤ کہیں ایسا نہ ہو ک وہ خدا کی طلب مست تمہارے حق میں کوئی شرعی کلمہ کہہ دے چنانچہ انہوں نے ایسے ہی کیا اتنے میں سلطاں العا رفین قدس سرہ بھی تشریف لے آئے ۔والدہ ماجدہ نے فرمایا بیٹا تمہاری مستوارت تمہیں اپنے حقوق بخش دیتی ہیں ۔اگر تم خدا کو حاصل کر کے آؤگے تو بہتر،ورنہ تمہیں ان کے حقوق ادا کرنے کی ضرورت نہیں ۔چونکہ آپ شریعت کے پابند تھے اس لیے اپنی والدہ ماجدہ کی فرما برداری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے تھے والدہ صاحبہ کی یہ نصیحت بھی آپ پر اثر کرگئی اپنی مستورات کی زبان سے ان کے حقوق کی معافی قبول کرکے پھر شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے شاہ صاحب رحمتہ اللہ وعلیہ نے نظر کا ملہ سے توجہ فرمائی پھر آپ سے حصول مراد کے متعلق پوچھا آپ نے عرض کیا یا شیخ:جو مقامات آپ کی توجہ سے آج منکشف ہوئے ان سے تو میں اپنے گہوار ے میں ہی گزر چکا تھا ۔
فرمایا ،کہ اے درویش جس نعمت کے تم مستحق ہو وہ ہمارے امکان سے باہر ہے البتہ تمہاری اتنی رہنمائی کرتے ہیں کہ جس جگہ نصیب ہے وہ جگہ بتا دیتے ہیں وہاں جا کر اپنا نصیب لےلو۔پھر حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو ارشاد فرمایا کہ تم میرے شیخ سید السادات پیر عبد الرحمن شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی باگاہ میں دہلوی قادری کی خدمت میں جاؤ جو ظاہری شاہی ،منصب دار ہیں چنانچہ حضرت سلطان العارفین قدس سرہ ،وہاں سے دہلی ہوئے راستے می ں بہت سے ابدال ۔اوتاد ۔مجذوب کشا کشا آپ کے حضور میں حاضر ہو کر ملا قات کا شرف حاصل کرتے ۔
(۷)پیر عبدالرحمان کی بیعت وحصول خلافت :حضرت شاہ حبیب اللہ رحمتہ اللہ علیہ دہلی رخصت ہونے کے بعد اثنائے سفر میں آپ نے ایک ایسا مجذوب دیکھا جس نے آپ کے خلیفہ سلطان حمید پر لکڑی کا ایک ایسا وار کیا کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ اس مست نے دوسری طرف لکڑی مارنے کے لیے اٹھائی تو حضرت سلطان العارفین قدس سرہ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا اے صاحب بس کرو ہم درویش اہل صحواہل اہل سنت وجماعت ہیں ہمیں ایسا کرنا روا نہیں وہ مست باز آیا اور چلاگیا ۔ پھر آپ نے سلطان حمید کو حالت سکر سے صحو میں لاکر روانہ ہونے سے پہلے فرمایا کہ اے حمید اگر ہمیں خبر نہ ہوجاتی اور وہ مجذدب دوسری دفعہ تمہیں لکڑی مار بیٹھتا تو ہم بھی تمہیں مستی سے ہوش میں نہ لا سکتے۔
پھر آپ وہاں سے آگے رخصت ہو کر تلاش حق میں سفر طے کرتے ہوئے شہر دلی کےقریب آپہنچے ،
ادھر حضرت شیخ سید عبدالرحمن رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اپنے ایک درویش کو فرمایا کہ فلاح راستے اس شکل و صورت اور حلیہ کا ایک فقیر آ رہاں ے جاؤ اور اسے ہمارے پاس لے آؤ۔
غور فرمائیے ایک ولی کامل کی فراست ،دسعت علم اور نگاہ کتنا کام کرہی ہے سید السادات حضرت پیر صاحب رحمتہ اللہ علیہ شاہی منسب دار ہیں ۔آپ بیک وقت حکومت کی طرف سے سپرودکیے ہوئے کام کو بھی انجام دے رہے ہیں ۔طالبان حق کی تلقین کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔حضور نبی کریم روف الرحیم ﷺ کی مجلس پاک ے بھی غیر حاضر نہیں اور اسی وقت میں سینکڑوں میل دور سے آ نے والےطالب صادق کو بھی دیکھ رہے ہیں اس کے آنے کی غرض اور ادارے کا کام بھی علم رکھتے ہیں ۔اس کا اٹھا ہوا قدم جس زمین پر پڑنے ولا ہوتا ہے۔اس زمین کو بھی جانتے ہیں ۔آنے والا بھی دورہے اور آپ وہیں بیٹھے ایک درویش کو یہ کہہ کر بھیج رہے ہیں کہ جاؤاس شکل وصورت کا ایک انسان فلاں فلاں راستہ سے ہوتا ہوا فلاں گلی سے شہر میں داخل ہونے ولا ہے اُسے ہمارے پاس بلا لاؤ ۔ولی اللہ کی یہ ایک ادنی سی کرامت ہے یہاں تو آنے والے اور بلانے والے دونوں کی مرضی ہی ایسے تھی ورنہ اگر وہ چاہتے تو پہلاقدم منزل مقصود پر رکھ سکتے تھے کیوں نکہ الیاء اللہ کی صف میں ان مقدس ہستیوں کو وہ مرتبہ اور مقام حاصل تھا جس مرتبہ کے اہل اولیاء اللہ زبان اللہ تعالیٰ زمان و مکان پر تصرف حاصل ہوتا ہے یہ جب چاہتے ہیں وہی وقت ہوتا ہے ۔(ہوجاتا ہے) اور اسی طرح مکان کو بھی اپنی مرضی کے مطابق قبض کرلیتے ہیں ۔
آمد بر سر مطلب وہ درویش حکم سنتے ہی آپ کے بتائے ہوئے راستے کی طرف چل پڑا ۔ حضرت سلطان العارفین قدس سرہ بھی اسی راستے چلے آرہے تھے جب وہ درویش آپ کے پاس پہنچا تو آپ کو سید السا دات حضرت پیر صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے بتائے ہوئے حلیہ اور شکل وصورت کو پاکر اپنے ہمرا ہ کرلیا ،اور حضرت پیر صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں لا حاضر کیا۔ سید السادات حضرت پیر صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور خلوت میں لے گئے اورایک دم میں ایک ہی نگاہ سے نعمت عظمیٰ سے مالامال کردیا۔ فیخ ازلی سے مستفیض فرمایا، آپ کی امانت آپ کے سپرود کی اور ساتھ ہی گھر جانے کی اجازت بھی فرمادی۔
آپ نعمت سے پرادر فیض ع؎رسانی کے جذبات سے لبریز تھے باہر تشریف لائے اور ہر خاص وعام پر توجہ کرنے لگے۔
لوگوں نے بھی جب دیکھا کہ ایک فقیر کامل قیمتی گوہر مفت تقسیم کررہا ہے تو موقعہ کو غنیمت جانا اور دھڑ ا دھڑ فیض کرنا شروع کردیا۔ پھر کیا تھا منٹو کے اندر اندر بے شمار مخلوق خدا جمع ہوگئی بازار اور گلیاں سے بھر گئیں ،راستے بند ہو گئے اور تمام شہر میں غل سا مچ گیا۔ حضرت پیر صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے درویش بھی ادھر آنکلے جب مخلوق خدا کو اس طرح جمع دیکھا تو وجہ دریافت کرکے پیر عبد الرحمٰن قادری رحمتہ اللہ علیہ ( یعنی اپنے شیخ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا حضرت : آج شہر میں ایک ولی اللہ داخل ہوا ہے جو اپنی توجہ سے عام مخلوق خدا کو جذبات الہی میں لاتا ہے۔ آپ نے فرمایا جاؤ اور اچھی طرح معلوم کرکہ آؤ کہ وہ درویش کون ہے اور کہاں کا رہنے والا ہے، اور کس خاندان اور سلسلہ سے تعلق رکھتا ہے ء درویش وہاں پہنچے تو دیکھتے ہی پہچان لیا ۔ڈوڑ تے ہوئے حضرت پیر صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا حضرت یہ تو وہی درویش ہے جسے آپ نے تلقین فرمائی ہےاور فیض بخش کر رخصت کیا ہے یہ سن کر آپ کو سخت رنج ہوا اور فرمایا کہ جاؤ اور میرے پاس لے آؤ۔درویش واپس گئے اور حضرت سلطان العارفین قدس سرہ کو حضرت پیر صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر کردیا ۔حضرت پیر صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے جھڑک کر فرمایا کہ اے درویش ہم نے تجھے یہ خاص نعمت عنایت کی اور تو نے عام کردی آپ نے عرض کیا کہ اے سیدی جب بڑ ھیا عورت روٹی پکانے کا توا بازار سے خرید تی ہے تو اسے بجا کر دیکھتی ہے کہ آیایہ مجھے کام دیتا رہے گا اس میں کوئی خرابی تو نہیں : اور جب ایک لڑکا لکڑی کی کمان خرید تا ہے تو اسے کھیچ کر دیکھتا ہے کہ اس میں لچک کافی ہے یہ نہیں ، سو میں نے جو آپ سے‘‘نعمت عظمیٰ ’’ حاصل کی میں ابھی اس کی آزمائش کرتا تھا ، کہ مجھے آپ سے کس قدر نعمت عطاہوئی ۔اور اس کی ماہیت کیا ہے ۔پس جس طرح حضرت سید المرسلین احمد مصطفیٰ ﷺ کے حضور سے مجھے حکم ہوتھا کہ خلق خدا سے حمت کر ، اسی طرح آپ نے حکم دیا تھا کہ اسے آزماؤں اور فیض کو عام کرو ۔انشااللہ العزیز قیامت تک یہ نعمت ترقی ہر ہوگی۔
(۸)۔ابتاع شریعت:
خلاف پیمبر کے راہ گزید کہ ہر بمنزل ن خواہد ر سید
سلطان العارفین نے زندہ گی بھر کوئی خلافت شریعت کا کام نہیں کیا۔فرض تو فرض ایک مستحب تک نہیں چھوڑا ۔ استغراق مراقبہ میں کئی کئی ہفتے گزر جاتے تو فارغ ہو تےہی آپ قضا نماز ادا کرتے۔ آپ فرماتے ہیں جو لوگ پانچ وقت اللہ کے نام کی پکار پر اس کے دربار میں حاضر ہونے کی تکلیف برداشت نہیں کرتے ۔ ان کے زبانی دعویٰ محبت کی کیا حقیقت ہے ۔آپ نے داشگاف الفاظ میں فرمایا۔
ہر مراتب از شریعت یا ختم پیشوائے خود شریعت ساختم
ولی را ولی می شناسد کے مصداق آپ کے مقام کا تعین تو کوئی واقف حال ہی کرسکتا ہے ۔سِراسم ذات ہو کے مظہر عین ہیں ۔ رسالہ روہی شریف میں لکھتے ہیں ۔
‘‘بمنزل فقرازبار گاہ کبریا حکم شد کہ تو عاشق مائی ۔ این فقیر عرض نمود کہ عاجز اتوفیق عشق حضرت کبر یا نیست بازفر مود کہ تو مشعوک مائی ۔بازایں عاجز ساکت ماند ۔ پر تو شعا ع حضرت کبریا بندہ راذ درہ اور دار بجا ، استغراق مستغرق ساخت و فرمود تو عین ماہستی ماعین تو ہم ۔ در حقیقت حقیت مائی دور معرفت یار مائی دور ہو صیروت سریا ہو ہستی۔:
(۹)۔تصنیفات :آپ نے علم تصوف پر دیڑھ صد کے قریب کتابیں بزبان فارسی چھوڑ ہیں مجموعہ ابیات پنجابی بھی آ پ کی یاد گار رہیں ۔آپ کے تصوف کا اندازہ چھوتا۔ جداگانہ اور انمول ہے ۔آپ نے تصوف کی قدیم اصطلا حوں کو بہت کم استمعال کیا ہے۔ جو کچھ لکھا باطنی توفیق اور تاءئید ایزدی سے لکھا ہے ۔ صاف اور دو ٹوک الفاظ کہتے ہیں ۔بلا شک و شبہ اس قحط الرجال میں یہ کتابیں مرشد کامل کا کام دیتی ہیں ۔ان کتابوں کی ایک خوبی جو آپ کو شاید ہی تصوف کی کسی اور کتاب میں ملے یہ ہے کہ صاحب تعلق جو کچھ مطالعہ کرتا ہے ۔وہ سب کچھ خواب میں اس پر منکشف اور دارد ہو جاتا ہے۔
آپ کی جن کتابوں کا پتہ چل سکا ان کے نام یہ ہیں ۔
(۱)عین افقرکبیر ۔(۲)عین الفقر ضعیر ۔(۳) عقل بیدا کبیر ۔ (۴) عقل بیدار صغیر ۔(۵) کلید التوحید کبیر ۔ (۶)کلید التوحیدصغیر۔(۷) مجالستہ النبی ۔ (۸) محبت الا سرار ۔(۹) اسرار قادری ۔ (۱۰) توفیق الہدایت ۔(۱۱) تیغ برہنہ (۱۲) مجموع الفضل(۱۳) محک الفقر الکبیر۔(۱۴)محک الفقر الصغیر۔(۱۵) فضل اللقاء۔ (۱۶) شمس العارفین۔(۱۷)رسالہ روحی اور نگ شاہی۔(۱۸) امیر الکونین ۔ (۱۹) مفتاح العاشقین ۔(۲۰) قرب دیدار ۔(۲۱)نور الہدیٰ۔ (۲۲) دیوان اردو۔(۲۳)دیوان فارسی ۔(۲۴)دیوان پنجابی وغیرہ ان کتابوں مطالعہ سے جہاں آپ کے غیر معولی تجر علمی ، غیر معمولی استعداد اقور صلاجیتوں کا پتہ چلتا ہے ،وہیں یہ کتابیں ایک سالک راہ طریقت کے لیے عرفان و ہدایت کی ایک گنج گراں مایہ ہیں ۔
(۱۰)۔وصال:حضرت سلطان العارفین نے یکم جمادی الثانی ۱۱۰۲ھ حضرت سرور کائنات ﷺ کی سنت میں
تر سیٹھ سال کی عمر میں داعی حق کو لبیک کہا ۔
(۱۱)۔مزار: آپ کو شورٹ کورٹ کے قریب دریائے چناب کے کنارے موضع قہر گان کے قلعہ میں دفن کیا گیا ۔ لیکن دریاکے بڑھ آنے کی وجہ سے، اور مزار مبارک کو طغیانی کاخطرہ لاحق ہو نے کی وجہ سے آپ کے حبسد مبارک وہاں سے منتقل کر کے دوسری جگہ دفن کیا گیا ۔یہ واقعہ ۱۱۸۰ھ کا ہے لیکن ۱۳۳۶ھ میں جب کہ حضرت شیخ حاجی سلطان نور احمد کی سجاد گی کا زمانہ تھا ۔ پھر مزار مبارک کو دریا کی طغیانی کا خطرہ لاحق ہوا۔ چونکہ ماہ محرم ۱۳۳۶ ھ میں جسد مبارک وہاں سے منتقل کرکے اس جگہ دفن کیا گیا۔جہاں ا ب آپ کا مزار مبارک مرجع خاص و عام ہے اس لیے ماہ محرم ہی میں آپ کا عرس ہو تا ہے۔
(۱۲)۔اولاد: حضرت سلطان باہو کے آٹھ صاحبزادے تھے ۔جن کےنام یہ ہیں ۔
(۱)،شیخ سلطان نور محمد،(۲) ،سلطان ولی محمد(۳)،سلطان لطیف محمد(۴)،سلطان صالح محمد،(۵) سلطان اسحاق محمد(۶)سلطان فتح محمد،(۷) سلطان شریف محمد(۸)سلطان حیات محمد۔ سلطان حیات محمد نے بچپن ہی میں وفات پائی۔
(مناقبِ سلطانی)