حضرت نجم الدین کبریٰ
حضرت نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
کنیت ابوالجناب اور لقب کبٰری تھا اسم مبارک احمد بن الخیوتی اور خطاب نجم الدین کبٰری کا لقب ملنے کا واقعہ یوں ہوا کہ طالب علمی کے زمانہ میں جس سے مناظرہ کرتے مدِّ مقابل پر غالب آتے اسی وجہ سے طامتہ الکبری کے خطاب سے مشہور ہوگئے لفظ طامتہ تو کثرتِ استعمال سے حذف ہوگیا حضرت شیخ آپ کو ولی تراش کے لقب سے پکارتے تھے آپ عالم وجد میں جس کسی پر نگاہ ڈالتے اسے مرتبہ ولایت تک پہنچا دیتے ایک دن ایک سوداگر آپ کی خانقاہ پر حاضر ہوا آپ اس وقت خوش وقت تھے ایک نگاہ کیمیا اثر ڈالی تو سوداگر کو رتبہ ولائیت عطا فرمادیا۔ حضرت شیخ نجم الدین نے پوچھا کہ کس ملک کے رہنے والے ہوا اس نے بتایا کہ فلاں ملک سے آیا ہوں آپ نے اسے اجازت نامہ لکھ کردیا۔ اور اسے اس کے ملک کا قطب الارشاد مقرر کردیا۔
ایک دن ایک جَری باز ایک کمزور سی چڑیا کا پیچھا کر رہا تھا۔ حضرت نجم الدین کبٰری کی ایک نگاہ چڑیا پر پڑی چڑیا میں اتنی قوت پیدا ہوگئی کہ وہ پیچھے پلٹی اور باز کو شکار کرکے نجم الدین کبرٰی کے سامنےقدموں میں لا پھینکا۔
ایک دن حضرت شیخ عالم وجد میں تھے سامنے ایک کُتے کو آتے دیکھا نگاہ پڑی تو کتا بے خود ہوگیا شہر چھوڑ کر گورستان کو رُخ کیا اس دن کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ شہر بھر کے کتے اس کتے کے گرد حلقہ کرکے مودّب بیٹھ جایا کرتے تھے اور سرزمین پر رکھے پڑے رہتے تھے کچھ عرصہ کے بعد وہ مرگیا تو حضرت نے ازرۂ مہربانی حکم دیا۔ کہ اس کتے کو ایک قبر میں دفنایا جائے اور اس پر مزار بنادیا جائے مولانا روم نے اسی کُتے کی کیفیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔
یک نظر فرما کہ مستغنی شوم زبنائے جنس |
سگ چو شد منظور نجم الدین سگاں راسر درست |
حضرت نجم الدین کبٰری فردِ زمانہ تھے اور تصوف و طریقت میں یگانہ روزگار تھے آپ کی کرامات اور خوارق سارے عالم اسلام میں مشہور تھیں آپ کی نسبت روحانی دو واسطوں سے تھی ایک تو شیخ عمار یاسر سے شیخ ابوالقاسم گر گانی تک اور دوسری شیخ اسماعیل قصری سے محمد مانکیل تک ان سے محمد بن داؤد۔ ابوعباس ادریس۔ ابوالقاسم رمضان ابویعقوب طبری۔ ابو عبداللہ بن عثمان۔ ابویعقوب ہنرجوری۔ ابویعقوب موسیٰ عبدالواحد زید۔ کمیل بن زیاد۔ امیرالمومنین علی المرتضیٰ۔
شیخ نجم الدین کبٰری حضرت شیخ روز بہاں بقلی سے بھی فیض یاب ہوئے تھے ابتدائی دور میں حضرت نجم الدین کبٰری محی السنّہ کے شاگردوں کے ساتھ بیٹھے شرح السنّہ پڑھ رہے تھے جب سبق اختتام کو پہنچا تو ایک درویش اندر آیا حضرت شیخ نجم الدین درویش کو دیکھ کر بڑے متغیر الحال ہوئے آپ کی زبان سُن ہوگئی سبق پڑھنے سے رک گئے مجال کلام اور طاقت گفتگو سلب ہوگئی وہ درویش تو چلا گیا مگر آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون بزرگ تھے لوگوں نے بتایا کہ یہ بابا فرخ تبریزی تھے۔ جو مجذوب اور محبوب الٰہی ہیں وہ رات حضرت شیخ پر بڑی بے قراری سے گذری دوسرے دن آپ اپنے استاد اور چند ہم سبق حضرات کو لے کر بابا فرخ تبریزی کی زیارت کو گئے مجلس میں بیٹھے ہی تھے کہ چند لمحوں بعد بابا فرخ کے جسم میں پھیلاؤ شروع ہوگیا وہ آفتاب کی طرح ابھرنا شروع ہوئے بدن کے کپڑے پھٹنے لگے جب دوبارہ اصلی حالت پر آئے تو اپنے کپڑے اتار کر شیخ نجم الدین کبٰری کو دے دئیے اور فرمایا اب تم دفتر پڑھنے میں وقت ضائع نہ کرو بلکہ سرِّ دفتر عالم بنو۔ بابا فرخ کا لباس پہنتے ہی حضرت نجم الدین کبٰری کی نگاہیں فرش سے عرش تک تمام چیزوں پر حاوی ہونے لگیں اور باطن میں اللہ کے سوا کچھ نہ رہا۔ دوسرے دن مدرسہ میں سبق پڑھنے کے لیے حاضر ہوئے کتاب پڑھنے لگے تو سامنے بابا فرخ کی شکل سامنے دکھائی دی فرمارہے تھے کل تم علم الیقین سے بھی گذر گئے آج پھر ظاہری علوم پر آبیٹھے ہو شیخ نجم الدین نے کتاب ایک طرف رکھی اور اٹھ کھڑے ہوئے چند دنوں بعد آپ نے وہ کتاب لکھنا شروع کی جو زیر تصنیف تھی بابا فرخ پھر سامنے نظر آئے اور فرمانے لگے شیطان نے پھر تمہیں دوسرے طرف لگا دیا ہے خبردار اس کے بہکانے میں نہ آنا حضرت شیخ نے قلم ایک طرف پھینکا دوات کو ایک طرف رکھ دیا اور اللہ کے ساتھ لَولگالی اور دل کو اللہ کی ذات کے ساتھ وابستہ کرلیا۔
آپ ۱۰؍جمادی الاوّل ۶۱۸ھ میں چنگیزی لشکروں سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے چنگیزی حملہ کے وقت حضرت شیخ کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ تھی آپ نے اپنے احباب و اصحاب کو بلایا اور کہا اس طوفان کے آنے سے پہلے پہلے جو اصحاب اپنے اپنے وطن جانا چاہتے ہیں وہ جاسکتے ہیں مشرق سے اٹھی ہوئی آگ مغرب تک پھیلنے والی ہے مجھے شہادت نصیب ہونی ہے یہ وہ مصیبت ہے جس کا اب کوئی علاج نہیں چنانچہ تمام احباب کو الوداع کیا ہاتھ میں نیزہ اٹھایا بغل میں پتھروں کا ایک تھیلا لیا اور تاتاری کافروں کے لشکر کے مقابلہ میں نکلے اور شہادت پائی شہادت کے وقت آپ کے ہاتھ میں ایک تاتاری کے بال آگئے تھے آپ نے انہیں اتنے زور سے پکڑا شہید ہوگئے مگر کوئی شخص بال نہ چھڑا سکا حتٰی کہ وہ بال کاٹنے پڑے۔
اگرچہ ہزاروں لوگ شیخ کی نگاۂِ کیمیا اثر سے درجۂ کمال کو پہنچے لیکن آپ کے بعض خلفاء دنیائے روحانیت کے آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے حضرت مجددالدّین بغدادی سعدالدین حموی باباکمال خجندی۔ شیخ رضی الدین۔ علی لالا۔ سیف الدین بآخزری۔ نجم الدین رازی۔ کمال الدین گیلی۔ مولانا بہاء الدین ولد مولانا جلال الدین رومی خصوصی طور پر آپ سے مستفیض ہوئے تھے تصّوف کا سلسلۂ عالیہ کبرویہ آپ سے ہی جاری ہوا تھا۔
شیخ کبٰری جناب نجم الدین |
پیر عالی مقام ولی والا |
|
منصور کبٰری |
ہادی و والی مقتدا |
کبریٰ ولی حق کبیر |
اسعد |
اکبر |
۶۱۸ھ |
۶۱۸ھ |
۶۱۸ھ |
۶۱۸ھ |
۶۱۸ھ |
(خزینۃ الاصفیاء)
سلسلۂ کبرویّہ:
اس سلسلہ کے بانی شیخ نجم الدین کبریٰ تھے ان کا نظام اِصلاح و تربیت غیر معمولی طور پر موثر تھا۔ یہ طریقہ کچھ ایسا حیا ت بخش تھا کہ وہ جس پر توجہ فرما دیتے پتھر بھی ہوتا تو آئینہ بن جاتا۔ اسی بنا پر ان کو ’شیخِ ولی تراش ‘کہا جاتا تھا۔ ہندوستان میں طریق سلوک سے متعلق آپ کی دو تصانیف بہت مشہور ہیں ۔ آپ نے منگولوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہادت حاصل کی۔ لیکن آپ کے مرید ین نے انہی منگولوں میں ایسا کام کیا کہ وہ گروہ در گروہ مسلمان ہوتے گئے۔ ان میں شیخ مجد الدین بغدادی شیخ سعد الدین حموی شیخ رضی الدین علی لالہ شیخ سیف الدین با خرزی اور شیخ بہاء الدین ولد مولانا جلال الدین رومی کے نام خاص ہیں ۔ خواجہ فرید الدین عطار ،شیخ مجد الدین بغدادی کے مرید تھے۔ کبرویہ سلسلے کی بعد میں بہت سی شاخیں بن گئیں ۔ مثلاً فردوسیہ،ہمدانیہ،اشرفیہ وغیرہ،شیخ سیف الدین باخرزی کے مرید شیخ بد رالدین سمر قندی نے فردوسی سلسلے کو ہندوستان میں روشناس کرایا۔ بعد میں یہی تینوں سلسلے سید علی ہمدانی شیخ شرف الدین یحیٰ منیری اور سید اشرف جہانگیرسِمنانی کے ناموں سے منسوب ہو کر خوب پھلے پھولے۔ سلسلۂ فردوسیہ کے متعلق اہل تصوف کی دو رائیں ملتی ہیں ۔ بعض اسے شیخ نجم الدین کبریٰ سے منسوب کر کے کبرویہ میں داخل کرتے ہیں اور بعض سہروردیہ بتاتے ہیں ۔ سلسلۂ فردوسیہ کا آغاز دہلی سے ہوا لیکن اس کی نشو و نما،شہرت اور وُسعت بہار کے حصہ میں آئی۔ دیوریا میں خاندانِ ساداتِ عباسیان کے درمیان بھی قادریہ،چشتیہ،شطاریہ کے علاوہ خاص طور پر سلسلۂ فردوسیہ بھی مرکز توجہ رہا اور قاضی شاہ محمد عبا س دیوریاوی کے ذریعے اسے بڑا فروغ حاصل ہو ا۔