حضرت شیخ نجم الدین کبرے
حضرت شیخ نجم الدین کبرے علیہ الرحمۃ
آپ کی صحبت ابوالجناب ہے۔آپ کا نام احمد بن عمر خیوقی ہے،اور لقب کہتے ہیں کہ آپ کو کبرے اس لیے کہا گیا ہے کہ جوانی کے دنوں میں جبکہ علم کی تحصیل میں مشغول تھے جس سے مناظرہ مباحثہ کرتے غلاب آتے تھےپس آپکا لقب رکھا گیا ۔طامۃ الکبرے۔یعنی بڑی بلا۔پھر یہ لقب آپ پر غالب ہوگیا۔اس کے بعد طامہ کا لفظ حذف کرکے کبرے رہنے دیا،اور یہی صحیح وجہ ہے۔یہ لقب آپکے معتبر جماعت نے دیا۔بعض یوں کہتے ہیں کہ یہ لفظ محدودہ ہے اور باء کو فتح ہے ۔یعنی نجم الکبراء۔جو کہ کبیر کی جمع تکسیر ہے لیکن پہلا قول صحیح ہے ۔امام یافعی ؒ کی تاریخ میں ایسا ہی لکھا ہے ۔آپ کو شیخ ولی تراش لکھا ہے۔اس لیے کہ وجد کی حالت میں جس پر آپ کی نظر مبارک پر جاتی تو وہ ولایت کے درجہ تک پہنچ جاتا ۔ایک دن ایک سودا گر پر جا پڑی۔اسی وقت وہ ولایت کے درجہ تک پہنچ گیا۔شیخ نے پوچھا،کہ تم کہا کہ رہنے والے ہو؟کہا فلاں جگہ کا ۔آپ نے اس کو ارشاد کی اجازت لکھ دی کہ اپنے ملک میں خلفت کو خدا کی طرف لائے۔ایک دن شیخ اپنے مریدوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔باز نے ہوا میں ممولا کا پیچھا کیا ہوا تھا۔اتفاقاً شیخ کی نگاہ اس ممولا پر جا پڑی تو ممولا لوٹا اور باز کو پکڑ کر شیخ کے سامنے لے آیا۔ایک دن اصحاب کہف کے بارہ میں تقریر و تحقیق ہو رہی تھی۔شیخ سعد الدین جمودی رحمتہ اللہ علیہ جو کہ شیخ کے مریدوں میں سے ہیں۔دل میں خیال کرنے لگے کہ آیا اس امت میں بھی کوئی ایسا شخص ہے کہ جس کی صحبت کتے میں اثر کردے۔
شیخ نے دانائی کے نور سے یہ بات معلوم کرلی ۔آپ اٹھے اور خانقاہ کے دروازہ پر جا کھڑے ہو گئے۔اتفاقاً ایک کیا وہاں پر آگیااور کھڑا ہوگیا ۔اپنی دم ہلا تا تھا۔شیخ کی نظریں اس پر پڑگئی۔اس وقت اس پر مہربانی ہوئی۔وہ متحیرو بے خود ہوگیا۔شہر سے منہ پھیر کہ قبرستان چلا گیا۔زمین پر سر ملتا تھا ۔یہاں تک کہتے ہیں کہ جدھر وہ جاتا آتا تھاپچاس ساٹھ کتے اکھٹے ہوجاتے اور اس کے گرد اگرد حلقہ لگا لیتے۔ہاتھ پر ہاتھ رکھ لیا کرتے اور آواز سے نہ بولتے ،اور نہ کچھ کھاتے بلکہ عزت کے ساتھ کھڑے رہتے۔آخر تھوڑے دنوں میں وہ کتا مر گیا ۔شیخ نے حکم دیا کہ اس کو دفن کریں،اور اس کی قبر پر عمارت بنائیں۔شیک تبریز میں محی السنتہ کے ایک شاگرد کے پاس جو عالی سند رکھتا تھا۔کتاب"شرح السنہ " پڑھتے تھے۔جب آخر تک پہنچے ۔ایک دن استاد کے حضور میں اماموں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی،اور شرح السنہ پڑھ رہے تھے۔ایک درویش آیا جس کو پہچانتے نہ تھے۔لیکن اس کے دیکھنے سے شیخ کی حالت بگڑ گئی۔چنانچہ بے قرار ہوگئے۔پوچھا کہ یہ کون شخص ہے؟لوگوں نے کہا کہ یہ بابا فرگ تبریزی ہیں کہ مجذوبوں اور خدا کے محبوبوں میں سے ہیں۔شیخ اس رات بے قرار رہے۔صبح کو استاد کی خدمت میں آئےاور التماس کی کہ اٹھے اور بابا فرج کی خدمت میں چلیں۔استاد نے شاگردوں کے ساتھ موافقت کی۔بابا فرج کی خانقاہ کے دروازہ پر ایک کادم تھا۔جس کا نام بابا شادان تھا۔جب اس نے اس جماعت کو دیکھا تو اندر گیا اور اجازت مانگی ۔بابا فرج نے کہا اگر اس طرح آئیں جس طرح خدا کی درگاہ میں جاتے ہیں تو کہہ دے کہ آجائیں۔شیخ نے کہا کہ جب میں بابا کی نظر سے کامیاب ہو چکا تھا تو میں اس کی بات کو سمجھ گیا۔جو کچھ میں نے پوشیدہ کیا تھا اس کو باہر کردیا۔اور ہاتھ سینہ پر رکھ لیا۔استاد اور دیگر دوستوں نے میری موافقت کی۔پھر ہم سب بابا فرج کی خدمت میں آئےاور بیٹھ گئے۔ایک لحظہ کے بعد بابا کا حال متغیر ہوگیااور اس کی صورت پر ایک عظمت ظاہر ہوئی۔آفتاب کی طرح چمک اٹھا،اور جو کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ پھٹ گئے۔جب ایک گھڑی کے بعد اپنے ہوش میں آیاتو اٹھا اور اس جامع کو مجھے پہنا دیا اور کہا کہ تمہارا یہ وقت دفتر پڑھنے کا نہیں۔یہ وقت ہے کہ جہان کا سر دفتر بن جائے۔میرا حال بدل گیا۔اور میرا ابطن غیر حق سے بالکل منقطع ہوگیا۔جب ہم وہاں سے باہر نکلے ،تو استاد نے کہا:
"شرح السنتہ" تھوڑی رہ گئی ہے اس کو دو تین دن میں ختم کرلو ۔آئیندہ تمہارا اختیار ہےجب درس کے پیچھے میں گیا بابا فرج کو دیکھا کہ وہ آئے ہیںاور کہتے ہیں کہ تم کل علم الیقین سے ہزار منزل آگے بڑھ گئے تھے۔مگر آج پھر علم پر آتے ہو۔میں نے درس چھوڑدیا اور خلوت کی ریاضت میں مشغول ہوگیا۔علم لدنی اور غیبی واردات معلم ہونے لگیں۔میں نے کہا،افسوس ہے کہ وہ فوت جائے۔میں نے اس کو لکھنا شروع کیا۔بابا فرج کو میں نے دیکھا کہ دروازہ میں سے آئے ہیں،اور کہتے ہیں کہ شیطان تجھ کو پریشان کرتا ہے۔ان باتوں کو مت لکھ۔تب میں نے دوات قلم پھینک دیا،اور دل کو سب سے خالی کردیا۔امیر اقبال سیستانی ایک کتاب میں کہ جہاں آپ نے شیخ رکن الدین علاؤالدولہ علیہ الرحمۃ کی باتیں جمع کی ہیں۔شیخ سے روایت کرتے ہیں کہ شیخ نجم الدین کبرے ہمدان میں گئےاور حدیث کی اجازت حاصل کی،اور سنا کہ اسکندریہ میں ایک بڑے محدث ہیں۔جن کی سند عالی ہے۔آپ وہاں سے اسکندریہ میں گئے،اور ان سے بھی اجازت حاصل کی ۔واپس آنے کے وقت رسول ﷺ کو خواب میں دیکھا،اورحضور سے درخواست کی کہ میری کنیت رکھ دیں۔رسولﷺ نے تبسم فرمایا،کہ ابوالجناب پوچھا،کہ ابوالجناب مخففہ فرمایا نہیں مشدہ۔جب خواب سے بیدار ہوئےتو اس کا مطلب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ دنیا سے اجتناب کرنا چاہیے ؟اسی وقت تنہائی اختیار کی اور مرشد کی طلب میں مسافر ہوئے جہاں کہیں آپ جاتے عقیدہ درست نہ ہوتا۔اس لیے کہ آپ اہل علم تھے۔کسی کے سامنے سر جھکاتے نہ تھے۔جب خوارستان کے ملک میں پہنچے تو درد زبول لاحق ہوا ،اور وہاں بیمار ہو گئے۔کوئی آپ کو جگہ نہ دیتا جہاں کہ اترے عاجز ہوگئے اور کسی سے پوچھا ،کہ اس شہر میں کوئی ایسا مسلمان نہیں ہے کہ کسی مسافر کو جگہ دے تاکہ میں چند روز وہاں آرام سے رہوں۔اس شخص نے کہا کہ یہاں ایک خانقاہ ہے اور وہاں پر ایک شیخ ہے۔اگر تم وہاں جاؤ گے تو وہ تمہاری خدمت کریں گے۔میں نے کہا،ان کا نام کیا ہے؟کہا شیخ اسمٰعیل قصری ۔شیخ نجم الدین وہاں پر گئے۔آپ نے ان کو ایک صفہ میں جگہ دی ۔جو کہ درویشوں کے صفہ کے مقابل تھا۔وہاں آپ بیٹھ گئے۔آپ کی بیماری بڑھ گئی،اور فرماتے تھے کہ باوجود اس سب بیماری کے جس قدر رنج ان کی سماع سے تھا۔اس قدر بیماری کا رنج نہ تھا۔کیونکہ میں سماع کا منکر تھااور مکان سے چلے جانے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔
ایک رات سماع ہوتا تھا شیخ اسمٰعیل سماع کی گری کی حالت میں میرے سرہانے آئے اور کہنے لگے تم چاہتے ہو کہ اٹھو۔میں نے کہا ہاں آپ نے میرا ہاتھ پکڑااور بغل میں مجھ کو لیا،اور سماع میں لے گئے،اور تھوری ہی دیر مجھ کو اچھی طرح چکر دیا۔دیوار پر میرا تکیہ لگا دیا۔میں نے کہا،کہ میں ابھی گر پڑوں گا ۔جب مجھے ہوش آیا۔تو میں نے اپنے آپ کو تندرست پایا۔چنانچہ کسی قسم کی بیماری مجھ میں نہ تھی۔مجھے آپ کی نسبت عقیدہ ہوگیا۔دوسرے دن میں شیخ کی خدمت میں گیا،اور ارادت کا ہاتھ پکڑا،یعنی بیعت ہوگیا،اور سلوک میں مشغول ہوا۔ایک مدت تک وہاں رہا۔جب مجھ کو باطن کے حال کی خبر ہوئی،اور مجھے علم تو بہت تھا۔ایک رات میرے دل میں یہ خیال ہوا کہ تم علم باطن سے باخبر ہوگئے ہو۔لیکن تمہارا ظاہری علم شیخ کے علم سے زائد ہے۔صبح شیخ نے مجھ کو طلب کیا اور کہا جاؤ سفر کرو۔تم کو شیخ عمار یاسر کی خدمت میں جانا چاہیے ۔میں نے سمجھ لیا کہ شیخ میرے اس خطرہ پر واقف ہوگئے ہیں۔لیکن میں نے کچھ نہ کہا،اور چلا گیا۔شیخ عمار کی خدمت میں پہنچا اور وہاں بھی ایک مدت سلوک طے کرتا رہا۔وہاں بھی ایک رات یہی بات میرے دل میں آئی۔صبح کو شیخ عمار نے فرمایا،کہ نجم الدین اٹھو اور مصر میں روزبھان کی خدمت جاؤ کہ اس ہستی کووہ پورے طور سے تیرے دماغ سے نکال دیں گے۔میں اٹھا اور مصر میں گیا۔جب ان کی خانقاہ پر گیا،تو شیخ وہاں نہ تھے۔ان کے سب مرید مراقبہ میں تھے۔کسی نے میری طرف توجہ نہ کی۔وہاں پر ایک شخص تھا۔اس سے میں نے پوچھا،کہ ان میں شیخ کون ہے۔اس نے کہا کہ شیخ تو باہر گئے ہیں،اور وضو کر رہے ہیں۔میں باہر گیا،اور شیخ روزبھان کو میں نے دیکھا ،کہ تھوڑے سے پانی میں وضو کر رہے تھے۔میرے دل میں یہ بات آئی کہ شیخ یہ نہیں جانتا کہ اس تھوڑے سے پانی میں وضو جائز نہیں۔تو پھر یہ شیخ کیسے ہوسکتا ہے۔شیخ خانقاہ میں آئے اور میں بھی آیا۔شیخ تحیہ الوضوء پڑھنے میں مشغول ہوئے،اور میں منتظر کھڑا تھاکہ شیخ سلام پھیریں،تو میں سلام کروں۔وہ ایسا ہی کھڑےکھڑے غائب ہوگئے۔میں نے دیکھا کہ قیامت قائم ہے اور دوزخ ظاہر کی گئی ہے ۔لوگوں کو پکڑ تے ہیں اور آگ میں ڈالتے ہیں۔آگ کے راستہ میں ایک ٹیلہ ہے ایک شخص اس ٹیلہ پر بیٹھا ہے ۔جو شخص کہتا ہے کہ میرا تعلق اس کے ساتھ ہے۔اس کو چھوڑ دیتے ہیں،اور دوسروں کو آگ میں دلاتے ہیں۔اتفاقاً مجھ کو پکڑ لیا اور کھینچ کر لے گئے۔جب میں وہاں پہنچا تو میں نے کہا میں اس سے تعلق رکھتا ہوں۔تب مجھ کو چھوڑ دیا۔میں ٹیلہ پر گیا تھا تو دیکھا روزبھان ہیں۔ان کے سامنے گیا اور ان کے پاؤں پر گر پڑا۔اس نے ایک سخت تھپڑ میری پیٹھ پر مارا۔چنانچہ اس کے جرب سے میں زمین پر گر پڑا،اور کہا اس کے بعد اہل حق پر انکار نہ کرنا۔جب میں گر پڑا تو بے ہوشی سے مجھے ہوش آگیا۔دیکھا کہ شیخ نماز کا سلام دے چکے تھے۔آگے بڑھا اور ان کے پاؤں پر گر پڑا۔شیخ نے ظاہر بھی ویسے ہی ایک تھپڑ میری پیٹھ پر مارا،اور وہی لفظ فرمائے۔تب میرے دل کی بیماری جاتی رہی۔اس کے بات مجھے حکم دیا کہ لوٹ جا،اور شیخ عمار کی خدمت میں جا۔جب میں چلنے لگا تو شیخ نے ایک خط شیخ عمار کی طرف لکھا کہ جس قر تنبے کی طرح ہوں ان کو بھیج دیا کرو۔میں ان کو خالص کردوں گا،اور پھر تمہارے پاس بھیج دوں گا۔وہاں سے شیخ عمار کی خدمت میں آیااور ایک مدت تک وہاں مقیم رہا۔جب سلوک طے کرچکا تو انہوں نے فرمایا کہ تم خوارزم مین جاؤ۔میں نے کہا کہ وہاں تو عجیب قسم کے لوگ ہیں۔اس طریق و مشاہدہ و قیامت کے منکر ہیں۔فرمایا کہ تم جاؤ،اور ڈرو مت۔تب میں خوارزم میں آیااور اس طریق کو پھیلایا ۔بہت سے مرید جمع ہوگئے،اور ارشاد میں مشغول ہوئے۔جب تاتار کے کفار خوارزم میں پہنچے،تو شیخ نے اپنے اصحاب کو جمع کیا وہ ساٹھ سے زائد تھے۔سلطان محمد خوارزم شاہ بھاگ گیا ہوا تھا۔لیکن تاتار کے کفار نے جانا تھا کہ وہ خوارزم میں ہے ۔خوارزم میں آگئے۔
شیخ نے اپنے بعض مریدوں جیسے شیخ سعد الدین حموی اور شیخ رضی الدین علی لالا وغیرہ کو طلب کیا،اور کہا جلد اٹھو،اور اپنے ملک کو چلے جاؤ۔کیونکہ مشرق کی جانب سے آگ بھڑک اٹھی ہے کہ وہ مغریب کے نزدیک تک جلا دےگی۔یہ ایک بڑا فتنہ ہے کہ اس امت میں ایسا کبھی واقع نہیں ہوا۔بعض اصحاب نے کہا کہ اس میں ایک مضائقہ ہے۔شیخ دعا کریں۔شاید کہ یہ بلا مسلمانوں سے ٹل جائے۔شیخ نے فرمایاکہ یہ ایک قضاء مبرم (قطعی)ہے۔دعا اس کو دفع نہیں کر سکتا۔پس اصحاب نے التماس کی کہ سواریاں موجود ہیں۔اگر حضرت شیخ بھی اپنے مریدوں کے ساتھ موافقت کریں تو آپ کے ہمر کاب ہوکر خراسا ن کی طرف چلے چلیں۔تو مضائقہ نہیں۔شیخ نے فرمایا کہ میں یہاں شہید ہوں گا۔مجھ کو حکم نہیں کہ باہر جاؤں۔پھر اصحاب خراسان کی طرف متوجہ ہوئے۔جب کفار شہر میں آئے۔شیخ نے باقی ماندہ مریدوں کو بلایا اور کہا ،قو مو اباسم اللہ نقاتل فی سبیل اللہ۔یعنی خدا کا نام لے کر کھڑے ہو جاؤکہ خدا کی راہ میں ہم شہید ہوجائیں۔گھر میں آئے اور اپنا خرقہ پہن لیا۔کمر مضبوط باندھ لیا ۔اس خرقہ کا اگلا حصہ کھلا تھا۔ہر دو طرف سے باندھ لیا۔اور نیزہ ہاتھ میں لیا،اور باہر نکل آئے۔جب کفار سے مقابلہ ہوا تو ان کی طرف پتھر پھینکنے لگے۔یہاں تک کہ کوئی پتھر نہ رہا۔کفار نے ادھر سے تیر برسانے شروع کیے ۔ایک تیر آپ کے سینہ مبارک پر لگا۔اس کو باہر نکال دیا،اور پھینک دیا۔اسی پر انتقال کیا۔کہتے ہیں کہ شہادت کے وقت ایک کافر کا جھنڈا پکڑا ہوا تھا۔شہادت کے بعد دس کافر بھی شیخ کے ہاتھ سے چھڑا نہ سکے۔آخر اس کے پھریرہ کو کاٹ لیا۔بعض کہتے ہیں کہ حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمۃ اپنی غزلیات میں اس قصہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں،اور اپنی نسبت شیخ کی طرف کی ہے۔رباعی
ما ازاں محتشا نم کہ ساغر گیرند نہ ازاں مفلسگان کان بزلاغر گیرند
بیکے دست مئے خالص ایمان نوشند بیکے دست دگر پرچم کافر گیرند
آپ کی شہادت علیہ الرحمۃ۶۱۸ھ کے مہینوں میں ہوئی ہے ۔حضرت شیخ کے مرید بہت ہیں۔مگر بعض ان میں سے بیگانہ جہان اور مقتدائے زمان ہوئے ہیں۔جیسے شیخ مجد الدین بغدادی ،شیخ سعد الدین حمویؒ،بابا کمال جنیدی،شیخ رضی الدین علی لالا شیخ سیف الدین باخر زی،شیخ نجم الدین رازی شیخ جمال الدین کیل ۔بعض کہتے ہیں کہ مولانا بہاؤ الدین والد مالانا جلال الدین رومی بھی انہیں کے مریدوں میں سے تھے۔قدس اللہ تعالی اروا حھم
(نفحاتُ الاُنس)