شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی

[مولانا ڈاکٹر عبدالرسول صاحب قادری نے بزبان سندھی حضرت مخدوم ؒ پر تحقیقی مقالہ تحریر کر کے سندھ یونیورسٹی جامشورو سے ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کر لی تھی ۔ اس مقالہ کو دارالعلوم امجد دیہ نعیمیہ ملیر نے ۲۰۰۴ء کو شائع کیاہے ]

امام الاولیاء حضرت سید محمد بقا شاہ شہید

حضور اما م الاولیا ء ، سرتاج السالکین ، غواض معرفت ، صاحب اسرار حقیقت ، سید العارفین ، مجمع البحرین سید محمد بقا شاہ لکیاری شہید المعروف پیر سائیں پٹدھنی بن حضور قبلہ عالم ، مرشد انس وجن خواجہ سید محمد اما شاہ لکیاری حسینی ۱۱۳۵ھ کو گوٹھ رسول پور تحصیل کنگری ضلع خیر پور میرس ( سندھ ) میں تولد ہوئے ۔

تعلیم و تربیت :

پروفیسر لطف اللہ بدوی شکار پوری کی تحقیق کے مطابق آپ نے مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کر کے نصاب مکمل کیا۔ ( تذکرہ لطفی ج اص ۲۸۳)

لیکن تفصیل معلوم نہ ہوسکی کہ آپ نے کن استاتذہ و مدارس میں تحصیل علم کی۔

گھر کی منتقلی :

آپ نے بعد میں رسول پور گوٹھ سے نقل مکانی کر کے گوٹھ رحیم ڈنہ ( تحصیل پیر جو گوٹھ ) میں مستقل رہائش اختیار کی۔ ( ملفوظات شریف جلد اول مترجم )

صحبت صالح :

آپ نے بعد تحصیل عارف کامل ، شیخ المشائخ ، حضرت مقتدا اہل مقبول دربار جلیل ، مخدوم محمد اسماعیل جو نیجو نقشبندی قدس سرہ ( پر یان لوء شریف ضلع خیر پور میرس ) سے صحبت اختیار کی اور اس صحبت مبارکہ نے زندگی کے لئے اکسیر کا درجہ حاصل کر لیا اور آپ نے مخدوم صاحب کی زندگی مبارکہ تک صحبت جاری رکھی اور بعد وصال بھی مزار مقدس پر حاضری دیتے رہے۔ یہ وہ لازوال محبت تھی جس نے آپ کو بہت کچھ دیا تھا بلکہ روحانیت کی بلندیوں تک پہنچایا تھا۔ اسی محبت کے سبب ایک روز بیعت ہونے کی درخواست کی۔

بیعت :

حضرت مخدوم صاحب نے آپ سے فرمایا: سید صاحب !آپ کی بیعت قادری سلسلہ میں ایک پیر کامل سے ہوگی جس کی نشانی یہ ہو گی کہ ان کے ہاتھ پر پکی ہوئی مچھلی زندہ ہو گی ۔ حضرت کی روحانی تڑپ دن بدن بڑھتی جارہی تھی بالآخر آپ کی امید پوری ہوئی کہ آپ کے شیخ کامل پنجاب سے روہڑی شریف حضور اکرم ﷺ کے موئے مبارک کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے اور ادھر سے آپ نے بھی بے کراری کے سبب موئے مبارک کی زیارت کے لئے حاضری دی ، وہیں حضور پاک کے موئے مبارکہ کے وسیلہ جلیلہ سے طالب و مطلوب کا آمنا سامنا ہوا، نظر نظر سے ملی تو بے قرار دل کو قرار نصیب ہوا، اس لئے یقین ہوا کہ یہی مرشد مربی ہیں ، یہی رہبر و رہنما ہیں لیکن مخدوم صاحب سے جو نشان ملا تھا ، اس کادیکھنا باقی تھا اس لئے سندھ کی عظیم و لذیذ ڈش تلی ہوئی مچھلی اور پکی ہوئی روٹی بزرگ کے سامنے پیش کی۔ بزرگ نے ہاتھ دھوئے اور دھلے ہوئے ہاتھوں کے چھینٹے تلی ہوئی مچھلی پر مارے تو مچھلی میں جان آگئی دستر خوان سے زندہ اٹھ کر چھلانگ لگاتی ہوئی واپس دریائے سندھ میں چلی گئی ۔ اب تو آپ کو یقین کامل ہو گیا کہ یہ وہی میرے پیر ہیں جن کے لئے دل تڑپ رہا ہے اور عرصہ سے متلاشی ہو ں بس بغیر دیر کے بزرگ کے دست بوس ہوئے اور موئے مبارک کے مقام پر ساحل دریا سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت ، فرد حقیقت شیخ المشائخ ، قطب الاقطاب ، حضرت سید عبدالقادر جیلانی بغدادی قدس سرہ کے دست اقدس پر بیعت ہوئے ۔ پھر وہیں سے مرشد کے ساتھ سفر اختیار کیا اور ایک عرصہ تک مرشد کامل کی صحبت میں درگاہ شریف پیر کوٹ ( چناہ شریف ) ضلع جھنگ صدر پنجاب گذارا ۔

مرشد کا احترام اور اس کاانعا م:

حضرت ، پیر خانہ پر کچھ عرصہ قیام کے بعد مرشد کریم سے اپنے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی تو مرشد کریم نے رخصت کی اجازت دے کر فرمایا: ’’اپنے گھر سے جب واپس آنے لگیں تو راستہ میں ‘‘رامتڑ ’’( تحصیل روہڑی شریف ) سے ہمارے لئے تازی مسواک ضرور لیتے ہوئے آیئے گا‘‘۔ آپ پیر خانہ سے رخصت ہو کر اپنے گھر پہنچے مگر ابھی چند روز ہی گذرے تھے کہ مرشد کریم کی یاد نے تڑپا دیا اور آپ حاضری کے لئے گھر سے پیدل روانہ ہوئے ۔ غلبہ شوق و ذوق میں چلے جا رہے تھے یہاں تک کہ آپ ’’رامتڑ‘‘سے گذر کر تقریبا سات میل آگے بمقام رشید پور جا پہنچے تو حضرت مرشد کریم کا فرمان یاد آیا، آپ نے فوری طور پر الٹے قدم رامتڑ پہنچے تاکہ مرشد کریم کے فرمان کی تاخیر کا مداوا ہو سکے ۔ رامتڑمیں چند مسواک بنوا کر دیوانہ وار درگاہ پیر کوٹ پہنچ کر حضرت مرشد کے حضور پیش کیں ۔ حضرت جیلانی بچشم باطن اس محبت بھرے منظر کا مشاہدہ کر چکے تھے ، فرمایا: ’’محمد بقا شاہ!آپ کو ہماری خاطر بہت مشقت اٹھانی پڑی ۔‘‘

عرض کی : حضور !بندہ کے نزدیک تعمیل ارشاد میں راحت ہی راحت ہے ۔ حضرت جیلانی نے بکمال مسرت آپ کو سینے سے لگایا جو دینا تھا وہ دے دیا ، مرید نے مرشد کا دل جیت کر بہت کچھ پالیا۔ آپ نے فرمایا : شاہ صاحب ! اب میں تمہیں اور تمہاری اولاد کو یہاں ( پیر کوٹ ) پہنچنے کے لئے دور دراز کا سفر معاف کرتا ہوں ۔ ’’حضور قبلہ عالم شہید بادشاہ سے لے کر آج تک آپ کے مبارک خاندان کا ایک فرد بھی وہاں حاضر نہ ہو سکا۔ یہاں تک کہ فقیر راشدی غفرلہ الہادی نے بار ہا حاضری دینے کی کوشش کی یہاں تک کہ جھنگ صدر بھی پہنچ گیا لیکن وہاں جانے میں بے شما ر رکاوٹیں کھڑی ہو جاتیں کہ پندرہ منٹ کاسفر طے نہیں ہو پاتا پھر مجھے حضرت جیلانی کا یہ فرمان عالیشان یاد آتا اور سوچتا کہ مشیت الہٰی یہی ہے بغیر چوں و چرا کے قبول کرنا چاہئے ورنہ حاضری کی ضد میں کوئی تکلیف نہ اٹھانی پڑے ۔ اس طرح ہر بار جھنگ سے واپسی ہوئی ۔ لیکن حضرت جیلانی کی اولاد و سجادہ نشین ، حضرت کے خاندان کے ایک ایک گھر پر چاہے وہ سندھ کے کسی بھی مقام پر ہو شہر ہو چاہے دیہات سال میں دوبار تشریف لاتے ہیں ۔اور ین بغیر مشقت کے گھر بیٹھے زیارت سے مشرف ہوتے رہتے ہیں ۔ اس طرح حضرت جیلانی کا فرمان الہامی آج تک پورا ہو رہا ہے۔

خلافت و تبرکات:

 حضرت جیلانی نے آپ کو خلافت کے ساتھ مختلف تبرکات بھی عنایت فرمائے ۔ ایک بار حضرت سید عبدالقادر جیلانی آخرین نے اپنے مرید خاص ، خلیفہ اجل حضرت سید محمد بقا شاہ لکیاری سے بہت مسرور ہو کر فرمایا :

بابا !ہمارے جدامجد ، غوث الثقلین ، محبوب سبحانی قطب ربانی حضور شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی حسنی حسینی رضی اللہ عنہ ( بغداد شریف ) کے روح مبارک پر شب معراج حضور پر نور سید عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ نے قدم شریف رکھا تھا ۔ اسی قدم شریف کی برکت سے حضرت غوث الثقلین کا قدم مبارک تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے۔ آپ کا فرمان عالیشان ہے:

قدمی ھذہ علیٰ رقبۃ کل ولی اللہ ۔

یعنی ، میرا یہ قدم ( مبارک ) تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے ۔

اس کے مطابق ہمارے خاندان میں یہ طریقہ رائج ہے کہ جس خاص الخاص منظور نظر مرید پر مخصوص توجہ اور شفقت فرماتے ہیں تو جدی سنت کے مطابق اس کی گردن پر اپنا قدم رکھتے ہیں اور یہ قدم پشت بہ پشت ہم پہ بھی آیا ہے۔ لیکن میں نے کسی مرید کے ساتھ یہ سنت و مطابقت پوری نہیں کی ہے ۔ آج دل چاہ رہا ہے کہ آپ کی گردن پر اپنا قدم رکھوں ۔ حضرت سائیں محمد بقا شاہ نے مرشد کے حکم کی تعمیل میں فوری طور پر اپنی گردن جھکادی اور حضرت نے اپنا قدم مبارک آپ کی گردن مبارک پر رکھ کر اپنی خاندانی سنت سے سر فراز اور مشرف فرمایا اور اجازت عطا فرمائی۔ ( آفتاب ولایت ص ۲۹)

وصیت میں فرمایا: مخدوم محمد اسماعیل میرے دینی بھائی ہیں ان کی خدمت میں ضرور حاضری دیتے رہیے گا۔

بعد میں سورہ یاسین شریف کی تعلیم فرمائی اور زکوۃ نکالنے کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ ( الراشد )

حضرت مخدوم صاحب سے بھی آپ کو سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں خلافت و اجازت حاصل تھی ۔

حضرت مخدوم صاحب نے ۸ ، ربیع الاول ۱۱۷۴ھ کو انتقال فرما گئے ۔ اس کے تقریبا ۱۷برس بعد ۱۱۹۱ ھ میں حضرت جیلانی کا انتقال ہو گیا۔ ( مخزن فیضان ص ۳۹۲)

ان صدمات نے آپ کو چور چور کر دیا اور سات سال کے بعد آپ نے بھی انتقال کیا۔

علمی مقام :

ایک بار گوٹھ کھہڑا (تحصیل گمبٹ ) میں مخدوم احمد ی ؒ کے پاس علماء وصوفیاء کا مجمع جمع تھا کہ الفقر سواد الوجہ فی الدارین ( حدیث ) کے مفہوم سمجھنے میں وقت پیش آئی ۔ استاد العلماء حضرت علامہ مخدوم احمد ی عباسی ؒ نے کہا کہ حضرت پیر سید محمد بقا شاہ صاحب سے اس کا مفہوم سمجھا جائے گا ۔ ایک بار سید العارفین حضرت لکیاری بادشاہ اپنے دوست مخدوم احمد ی کے پاس تشریف لے گئے ، مخدوم صاحب نے موقعہ و محل کی مناسبت سے حدیث شریف کا مفہوم سمجھانے کی درخواست کی۔

آپ نے فرمایا: ’’حدیث شریف صحیح ہے ۔ ‘‘ سواد ’’سے آنکھ کے ڈھیلا کی سیاسی مراد ہے جس طرح کی روشنی سیاہ دھیلا کی وجہ سے ہے اسی طرح ، ‘‘دونوں جہانوں میں چہرے کی روشنی فقیری سے ہے۔ ‘‘(ملفوظات شریف ج ۵، ص ۲۸۶)

آپ مرشد کریم کی خدمت میں رہ کر اپنی ہستی کو مٹا چکے تھے، انا کو مار چکے تھے، تبھی تو سید اور کامل اکمل کے صاحبزادے ہونے کے باوجود مرشد کی خدمت کو معمول بنا رکھا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے خدمت میں عظمت ہے، جب تک خادم نہیں بنے گا تو مخدوم بھی نہیں بن سکتا۔ اور مخدوم بننے کے لئے خادم بننا ضروری ہے۔ ان دنوں کی بات ہے جب آپ مرشد خانہ پر عا م فقیر کی طرح خدمت مین مشغول تھے ۔ ( غالبا ابتدائی دنوں کی بات ہے) مرشد کریم حضرت جیلانی کے صاحبزادے صاحب کو ایک مشکل تحریر استاد نے دی کہ حضرت جیلانی تک پہنچا دیں وہ کہیں سے حل کرا کردیں گے ۔ صاحبزادہ صاحب دہ لے کر جارہے تھے کہ آپ راستے میں مل گئے ۔ آپ نے دریافت کیا کہ آپ کے دست اب ابا جان کے پاس لے کر جا رہا ہوں ۔ آپ نے عرض کیا یہ پرچہ مجھے فقط ایک رات عنایت فرما دیں ۔ صاحبزادہ صاحب بڑی مشکل سے رازی ہوئے ۔ حضرت نے رات ہی میں لکڑیاں جلا کر بغیر کتب کی مدد کے جواب تحریر فرما کر صبح سویرے صاحبزادے صاحب کو تحریر پیش کر دی ۔ ایک سیدھے سادھے خادم سے لاینحل مسئلہ کا حل دیکھ کر سب خادمین حیرت کا مجسمہ بن گئے ۔ اس روز خادمین و مریدین کو پتہ چل گیا کہ یہ فقیر صاحب بہت بڑے عالم بھی ہیں جنہوں نے اپنے علم و فضل کو فقیری میں چھپا رکھا تھا گویا کہ گودری میں لال ، لیکن مشک و عنبر چھپ سکتی کہاں !

شادی و اولاد:

 ایک روز پیر خانہ پر مجلس میں شادی بیاہ کا ذکر تھا ۔ آپ نے اس امر پر اپنی ناگواری کا اظہار کیا۔ حضرت جیلانی نے سن کر فرمایا: آ پ نکاح و شادی سے کس لئے اجتناب کرتے ہیں ؟‘‘

آپ نے عرض کی، حضور ! محض اس خیال سے کہ شادی کے بعد اولاد خدا جانے کیسی پیدا ہو۔

یہ سن کر حضرت جیلانی نے فرمایا:

’’آپ شادی کر لیں بفضلہ تعالیٰ تمہارے ہاں اولاد صالح تولد ہوگی جن میں غوث و قطب بھی ہوں گے ۔‘‘

اس کے بعد آپ نے اپنے خاندان میں جلد ایک عفیفہ سید ہ سے نکاح کیا۔ (مخزن فیضان ) اس سے آپ کو چار صاحبزادے تولد ہوئے جو کہ عالم دین کے علاوہ کامل اکمل ولی اللہ تھے ۔

٭     قدوۃ اہل صفاء ، مقتدائے عارفان حضرت پیر سید عبدالرسول شاہ لکیاری قدس سرہ ولادت ۱۱۶۸ھ وفات ۱۲۳۱ھ

٭     امام العارفین ، مجدد برحق، آفتاب ولایت حضرت پیر سید محمد راشد شاہ پیر سائیں روزے دہنی قدس سرہ ولادت ۱۱۷۱ھ وفات ۱۲۳۴ھ

٭     تاج الاصفیاء ، زین الاولیاء ، حضرت میاں سید مرتضیٰ علی شاہ لکیاری قدس سرہ ولادت ۱۱۷۲ھ وفات ۱۲۳۵ھ

٭     عارف باللہ ، عالم علم علیم ، حضرت پیر سید میاں محمد سلیم شاہ لکیاری قدس سرہ ولادت ۱۱۷۸ھ وفات ۱۲۴۱ھ

حضرت سید العارفین پیر سائیں پٹ دھنی اور آپ کے چاروں صاحبزادوں نے عین مطابعت حبیب کریم ﷺ کے مطابق ۶۳ سال کی عمر شریف میں انتقال کیا۔

  عبادت دریاضت :

آپ جانشین امام العارفین نے آپ کی زبان فیض ترجمان سے ایک واقعہ سماعت فرمایا جس کو روایت کیا اور آپ کی ملفوظات کے جامع نے محفوظ کیا جس سے آپ کے بچپن کی پاکیزہ زندگی اجاگر ہوتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں : ’’شروع سے عادت تھی کہ نماز پنج گانہ ، شب خیزی ، تہجد ، اشراق کے نوافل اور درود شریف میں پوری طرح مشغول رہتا تھا۔ شوق کا یہ عالم تھا کہ نماز تہجد مسجد میں ادا کرتا تھا اور فجر تک وظائف میں مشغول رہتا اور سنت کی ادائیگی کے بعد درود شریف کا ورد رکھتا اس کے بعد نماز فجر ادا کرتا اس کے بعد تلاوت کلام مجید سورج طلوع کے بعد اشراق کے نوافل ادا کرکے مسجد شریف سے باہر نکلتا اور رب کریم جل شانہ سے یہ دعا کرتا تھا کہ:

’’یاالہی تیرا شکر ہے کہ تونے عبادت کی توفیق عطا فرمائی ‘‘۔

ان دنوں گوٹھ سائیدی ( رسول پور ) کی مسجد شریف کے دروازے پر ایک مجذوب شخص برہنہ سرو ، شب و روزآگ جلائے بیٹھے ہوتے تھے ، وہ مجھے دیکھ کر فرماتے: ’’بیٹا !ہنوز دلی دوراست ‘‘۔ دہلی ابھی دور ہے۔ اس وقت مجذوب کا کہنا سمجھ میں نہیں آتااور جب رب کریم جل شانہ کی طلب میں قدم بڑھایا تو پتہ چلا کہ مجذوب کا کہنا درست تھا۔ بے شک اللہ عزوجل کے عشق کے بغیر سب کچھ فضول ہے۔

                                                (ملفوظات شریف ج ، ۳ص ۹، مطبوعہ درگاہ عالیہ مشوری شریف)    

 


متعلقہ

تجویزوآراء