شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی
شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
داستاں عہد گل را از نظیری می شنو
عندلیب آشفتہ تر می گوید ایں افسانہ را
شیخ الاسلام ، حضرت، مخدوم المخادیم ، سند الاقالیم ، ملجاء افقھاء والمحدثین ، مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی قدس سرہ العزیز نسبا حارثی (پنھور ) مسلکا حنفی ، مشربا قادری اور مولد ا سندھی تھے ۔حضرت مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز کو علمی دنیا اور مذہبی تاریخ میں ایک خاص اہمیت اور عظمت حاصل ہے۔ وہ ذات فرشتہ صفات ایک رحمت کا خورشید تھا جو خلق کو روشنی پہنچاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور رحمت کا ایک بادل تھا کہ دنیا اس عنایت کی بارش سے فیض حاصل کرتی تھی ۔
تقریبا نصف صدی تک ان کی خانقاہ علم و فضل کو گہوارہ اور ارشاد و تلقین کا مرکز رہی ۔ ہزاروں تشنگان علم نے وہاں آکر اپنی پیاس بجھائی اور سینکڑوں گم گشتگان علم نے وہاں آکر روشنی حاصل کی۔
سالہائے گوش جہاں زمزمہ زا خواہد بود
زیں نواہا کہ دریں گنبد گردوں زدہ است
ولادت باسعادت :
شیخ الاسلام حضرت مخدوم ؒ کی ولادت باسعادت ۱۰، ربیع الاول بروز جمعرات ۱۱۰۴ھ بمطابق ۱۲۹۲ء کو بٹھورہ شہر (ضلع ٹھٹھہ ، سندھ ) میں ہوئی ۔
زندگی گفت کہ در کاک تپیدم ہمہ عمر
تا ازیں گنبد دیرینہ درے پیدا شد
آپ کا سن ولادت اس فقرہ سے نکلتا ہے۔
’’انبت اللہ نباتا حسنا‘‘
۱۱۰۴ھ
نام و نسب :
آپ کانام نامی اسم گرامی محمد ہاشم کنیت ابوعبدالرحمن اور القاب شیخ الاسلام ، شمس الملت والدین ، مخدوم المخادیم ہیں ۔
شجرہ نسب :
آپ کا شجرہ نسب اس طرح ہے۔ محمد ہاشم بن عبدالغفور بن عبدالرحمن بن عبداللطیف بن عبدالرحمن بن خیر الدین حارثی رحمہم اللہ تعالیٰ ۔
تعلیم و تربیت :
حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ العزیز نے ابتدائی تعلیم اپنے والد حضرت مخدوم عبدالغفور ؒ سے حاصل کی اور تھوڑے عرصہ میں حفظ قرآن اور ابتدائی تعلیم مکمل کی بعد میں مزید تعلیم کیلئے آپ ٹھٹھہ تشریف لائے ۔ اس وقت شہر ٹھٹھہ علم و ادب ، تہذیب و تمدن کا مرکز تھا۔ وہاں آپ نے حضرت مخدوم محمد سعید ؒ اور حضرت مخدوم ضیاء الدین رحمتہ اللہ علیہ سے بقیہ تعلیم کو مکمل کیا اور سند فراغت حاصل کی۔
اسی دوران ۱۱۱۳ھ میں آپ کے والد گرامی حضرت مخدوم عبدالغفور ؒ کا وصال ہوا۔ حضرت مخدوم صاحب ؒ کو علم حدیثو تفسیر و تصوف میں کمال حاصل کرنے کا شوق تھا وہ سعادت آپ کو ۱۱۳۵ھ میں حرمین شریفین کے سفر کے دوران وہاں کے جید علماء کرام سے حاصل ہوئی ۔
زیارت حرمین شریفین ـ:
۱۱۳۵ھ بمطابق ۱۷۲۳ء میں تقریبا اکتیس سال کی عمر میں حرمین شریفین کی زیارت کیلئے روانہ ہوئے ۔ اس سعادت کے ساتھ ساتھ آپ نے وہاں کے اکابر علماء کرام سے علم تفسیر ، حدیث ، تصوف اور دیگر علوم و فنون میں استفادہ کیا اور سندیں حاصل کیں ۔ مثلا
٭ حضرت شیخ عبدالقادرمکی حنفی ؒ المتوفی ۱۱۳۸ھ
٭ حضرت شیخ عبد بن علی مصریؒ
٭ حضرت شیخ علی بن عبدالمالک دراوی ؒ
کے اسماء سر فہرست ہیں ۔
زیارت رسول اکرم ﷺ :
اسی سفر میں آپ بتاریخ ۹، رجب المرجب شریف بروز جمعرات ۱۱۳۶ھ مدینہ طیبہ میں سر کار دو عالم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے جس کو آپ نے بطور یادداشت ایک کتاب کے حاشیہ میں تحریر فرمایا۔
علو مرتبت :
یہ روایت شینہ بسینہ منقول ہے کہ حضرت مخدوم صاحب روضہ رسول اکرم ﷺ پر حاضر ہوئے صلوۃ وسلام کا نذرانہ پیش کیا تو سر کار دو عالم ﷺ نے آپ کو سلا م کا جواب دیا اور فرمایا:
’’وعلیکم السلام یا محمد ھاشم التتوی‘‘
اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کو دربار رسالت ماب ﷺ میں کیا مرتبہ حاصل ہے۔
سیرت ہاشمیہ :
حضرتع مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز کی سیرت اور خوف خدا کا اندازہ آپ کے ان فرمودات سے لگایا جا سکتا ہے۔ آپ ہمیشہ اپنے نفس کو مخاطب ہو کر فرمایا کرتے تھے۔
۱۔ اے نفس !اگر اللہ سبحان و تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو کر، ورنہ اس کا رزق نہ کھا۔
۲۔ اے نفس !جن چیزوں سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے روکا ہے ان سے بازآ، ورنہ اس کی سلطنت سے نکل جا ۔
۳۔ اے نفس!قسمت ازلی سے جو تمہیں مل رہا ہے اس پر قناعت کرورنہ اپنے لئے کوئی اور تلاش کر جو تیری قسمت زیادہ کرے ۔
۴۔ اے نفس !اگر گناہ کا ارادہ کرتاہے تو ایسی جگہ تلاش کر جہاں تجھے خدا تعالیٰ دیکھ نہ سکے ،ورنہ گناہ نہ کر ۔
تصنیف و تالیف :
درس و تدریس ، وعظ و نصیحت ، رشد و ہدایت اور قضاء وافتاء کے علاوہ حضرت مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز نے تصنیف و تالیف کا بھی سلسلہ جاری رکھا ۔
آپ کی تصنیفات اکثر عربی و فارسی زبان میں ہیں اور بعض سندھی زبان میں بھی ہیں ۔ جملہ تصنیفات کا احوال ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے جس کی وجہ سے جملہ تصنیفات کا احاطہ ممکن نہیں ۔ مکتوبات و فتاویٰ کے علاوہ مختلف حوالہ جات سے آپ کی تصانیف کی مختلف تعدادمنقول ہے۔
بعض نے ایک سو پانچ ، بعض نے ایک سوچودہ ، بعض نے ایک سو چالیس اور بعض نے تین سو سے بھی زیادہ آپ کی تصانیف کا ذکر کیا ہے۔
جنہیں دیکھ کر حضرت مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز کے علم و نظر کی وسعت ، فقہی بصیرت ، استد لال کی قوت ، نگاہ کی جولانی اور نے پناہ قوت فیصلہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
آپ کی جملہ تصنیفات افادیت و اہمیت کے اعتبار سے منفرد اور ممتاز حیثیت کی حامل ہیں ۔
ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء
علوم و فنون :
حضرت مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز کی تصنیفات و تالیفات فن و موضوع کے اعتبار سے مندرجہ ذیل عنوانات کے ماتحت آتی ہیں ۔
علم قرآن ، علم حدیث ، اصول تفسیر ، اصول حدیث ، فقہ حنفی ، اصول فقہ ، فقہ مذاہب اربعہ ، علم کلام علم نحو ، علم صرف ، قراۃ و تجوید ، علم فرائض ، علم معانی و بیان ، نحو ، جدل ، علم بیان ، علم منطق ، علم مناظرہ ،علم فلسفہ ، عروض و قوافی ، جفر ، علم حساب ، تاریخ ، اخلاقیات ، سیر ، ادب ، نعت ، اسماء الرجال ، تصوف ، نظم و نثر عربی ، نظم و نثر فارسی ، نظم و نثر سندھی وغیرہ ۔ جب اس بات پر غﷺر کیا جاتاہے کہ ایک ہی قلم سے یہ مختلف انواع تصانیف نکلی ہیں اور ان سب کا علمی معیار نہایت اعلیٰ ہے تو حضرت مخدوم صاحب رحمتہ الل علیہ کے علمی تبحر کا غیر فانی نقش دل پر قائم ہو جاتاہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
یک چراغ است دریں خانہ کہ از پر تو آں
ہر کجا می نگری انجمے ساختہ اند
بیعت و خلافت :
حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی قدس سرہ العزیز نے علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد اس وقت کے شیخ کامل ، آفتاب مکلی ، حضرت مخدوم ابوالقاسم نور الحق درس نقشبندی ؒ ( المتوفی ۱۱۳۸ھ ) کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور بیعت کی درخواست کی۔
حضرت مخدوم ابوالقاسم نقشبندی ؒ نے جوابا فرمایا’’مجھ سے تلقین لینے والوں ( مریدین ) کی صورتیں مجھ پر پیش کی گیئں ان میں آپ کا نام نہیں ‘‘
تو آپ نے عرض کیا کہ میرے شیخ کے متعلق رہنمائی فرمائیں تو حضرت مخدوم ابوالقاسم نے فرمایا کہ آپ کے مرشد قطب ربانی سید اللہ بن سید غلام محمد سورتی قادری ( المتوفی ۱۱۳۸ھ ) ہیں ۔ آپ ان کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوں ۔ حضرت سید سعد اللہ ؒ سلسلہ عالیہ قادریہ کے عظیم پیشوا تھے ۔ ہندوستان میں الہ آباد قصبہ سورت کے رہنے والے تھے۔
لہذا حضرت مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز ۱۱۳۴ھ میں حرم شریف سے واپس ہوتے ہوئے ہندوستان کے شہر سور ت کی بندر گاہ پر اترے۔
حضرت شیخ سعد اللہ قادری ؒ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور سلسلہ عالیہ قادریہ میں داخل ہوئے اور کامل ایک سال اپنے شیخ کی خدمت میں رہ کر سلوک اور تصوف کی منزلیں طے کیں ۔ اور شیخ نے حضرت مخدوم صاحب کو خرقہ خلافت پہنا کر بیعت کی اجازت سے مشرف فرمایا۔
اس کے بعد آپ اپنے وطن واپس لوٹے ۔
حضرت مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز کو مندرجہ ذیل سلاسل کی اجازت ملی تھی ۔
۱۔ قادریہ
۲۔ نقشبندیہ
۳۔ چشتیہ
۴۔ سہروردیہ
۵۔ شطاریہ
۶۔ قشیریہ
۷۔ شاذلیہ
لیکن حضرت کا قلبی اور حقیقی تعلق سلسلہ عالیہ قادریہ سے تھا ۔
عشق رسول ﷺ :
حضر ت شیخ الاسلام قدس سرہ العزیز کی زندگی کا تخصص ہی عشق رسول اکرم تھا ۔ عشق رسالت مآ ب ﷺ آپ کو ورثہ میں ملا تھا ۔ جس کا اثر آپ کی زندگی پر نمایاں نظر آتا تھا۔ آپ کا سب کچھ سنت رسول کے مطابق ہوتا تھا ۔ آپ سنت مطہرہ کا بہترین نمونہ تھے ۔
کبھی سرکار دو عالم ﷺ کی محبت و فراق میں زبان حال سے بادصبا سے سر کار دو عالم ﷺ کی طرف پیغام بھیجتے تھے اور اپنے دل کو تسلی دیتے تھے۔ فرماتے ہیں :
ایسا نسیم صبا ان زرت روضۃ
سلم علی المصطفیٰ صاحب النعم
ترجمہ :اے نسیم صبا! اگر تو ان کے روضے کی زیارت کرے تو صاحب نعمت یعنی مصطفی ﷺ کو میرا سلام کہنا ۔
وقف عند مضجعہ فی مواجھۃ
وبلغ صلواتی و تسلیمی علی روح اکرم
ترجمہ : اور ان کے مواجھہ شریف کے سامنے کھڑے ہو کر وح پاک پر میرا صلوۃ و سلام پیش کر ۔
وقل یا رسول اللہ عبد مقصر
غریق فی بحار السیئات و مظلم
ترجمہ :اور عرض کرنا کہ یارسول اللہ ﷺ ایک کو تاہی کرنے والا غلام گناہوں کے اندھیرے سمندر میں ڈوب رہا ہے۔
یلو ذالی جنابک مستغیثا
ویشکو ذنوبا کالجبال الاعاظم
ترجمہ : آپ کی جناب میں پناہ کے لئے فریاد کر رہا ہے اور گناہوں کی شکایت کر رہا ہے جو کہ بلند پہاڑوں کی مانند ہیں ۔
روحی فداک و انت حیا۔ۃ روحی
وقر۔ۃ عینی والشفاء من السقم
ترجمہ : میری روح تم پر فدا اور آپ میری روح کی زندگی ہیں ۔ میری آنکھوں کی ٹھنڈک میری بیماری کی دو ا آپ ہی تو ہیں ۔
اور کبھی سر کار دو عالم ﷺسے یوں استغاثہ کرتے ہیں ۔
اغثنی یارسول اللہ حانت ندامتی
اغثنی یا حبیب اللہ قامت قیامتی
ترجمہ : اے اللہ کے رسول ﷺ مدد کیجئے میری ندامت کا وقت آیا، اے اللہ کے حبیب ﷺ مدد کیجئے میری قیامت قائم ہو گئی ۔
ان اشعار سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کے دل میں کس قدر عشق مصطفی تھا۔
صاحب تکملہ لکھتے ہیں :
دربار رسالت میں مخدوم صاحب کے فتوے کی مقبولیت :
ایک سائل کسی مسئلہ کے بارے میں آپ سے فتویٰ لکھوا کر پھر آپ کے استاد مکرم حضرت مخدوم ضیاء الدین ٹھٹوی کے ہاں برائے تصدیق لے گیا ۔
حضرت مخدوم ضیاء الدین ؒ نے آپ کی رائے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔
پھر جب رات کو محواستر احت ہوئے تو خواب میں سر کار دوعالم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہرئے اور سر کار دو عالم ﷺ نے فرمایا۔ ج
چنانچہ محمد ہاشم گوید شمابرآں فتویٰ بدھید
یعنی جس طرح محمد ہاشم نے فتویٰ دیا ہے آپ بھی اسی کے مطابق فتویٰ دیں ۔
چنانچہ مخدوم ضیاء الدین رحمتہ اللہ علیہ نے صبح ہوتے ہی اس سائل کو بلایا اور فورا فتویٰ پر دستخط کر دیا۔ ا س کے بعد جب بھی حضرت مخدوم ضیاء الدین رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں کوئی بھی سوال آتا تو آپ فورا حضرت مخدوم محمد ہاشم ؒ کے ہاں بھیج دیتے اور فرماتے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
فتویٰ دردست ایشاں دادہ اند
یعنی افتاء کا کام محمد ہاشم کے ہاتھ دے دیا گیا ہے۔
وصال شریف :
جوں جوں سفر ا ٓخرت کا زمانہ قریب آتا رہا حضرت شیخ الاسلام پر علم و حکمت کی نئی نئی راہیں کھلتی جارہی تھیں ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فیضان نبوی علیٰ صاحبہ الصلوۃ والسلام کے نئے نئے چشمے پھوٹ رہے ہیں ۔ بالآخر علم و عرفان ، معرفت و ایقان کا یہ آفتاب جہاں تاب ۶، رجب شریف بروز جمعرات ۱۱۷۴ھ بمطابق ۱۷۱۶ء کو بظاہر غروب ہو گیا۔ شہر مکلی ( ضلع ٹھٹھہ ) میں آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے۔
خدا رحمت کندایں عاشقاں پاک طینت را
قطعہ تاریخ :
از: نتیجہ فکر ۔ میاں محمد رحیم ٹھٹوی ؒ
بو حنیفہ عصر خاذل اہل کفر
رخت خود بستہ سوئے جنت شتافت
سال فوتش ز خرد جستم بگفت
در جوار مصطفی ماوای یافت
۱۱۷۴ھ
قطعہ تاریخ وصال :
از: نتیجہ فکر ۔ میاں محمد حسن خان ٹھٹوی
کرد رحلت ز عالم فانی
مقتدائے علوم ربانی
گفت تاریخ ھاتفم با آہ
جعل اللہ جنۃ مشواہ
۱۱۷۴ھ
(ماخوذ : باغ باغ مطبوعہ ملیر کراچی )
ترک دنیا :
اس سلسلہ طریقت میں مشائخ طریقت ترک دنیا کے عمل کے پابند رہے ہیں ۔ حضرت مخدوم محمد اسماعیل تارک دنیا تھے، حضرت سید عبدالقادر جیلانی آخرین کیمیا ئے نظر ایسے تارک دنیا تھے کہ ساری زندگی سیر و سیاحت و تبلیغ میں بسر فرمائی بغداد شریف سے نکلے برصغیر کی سیاحت کی، گھر گھر حب رسول کا پیغام پہنچایا مردہ دلوں کو زندہ کیا اور زندگی کا آخری حصہ پیر کوٹ میں بسر کیا ۔ وہ ہی تعلیم حضرت سید العارفین سید محمد بقا شاہ کو ملی اور پھر آپ کے ذریعے آپ کی اولاد اور خلفاء کرام کو پہنچی ۔
ایک روز حضرت مخدوم محمد اسماعیل قدس سرہ نے آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’شاہ صاحب !زمین کا تپہ ( ٹکڑا ) بھی ایک قسم کا تپ ( بخار ) ہے ۔‘‘
آپ نے مخدوم صاحب کی زبانی یہ ارشاد گرامی سن کر اپنی خاندانی جاگیر بغیر دیر کے راہ خدا میں دے دی۔ ( ملفوظات شریف ج ۴ص ۷۰)
آج دنیا کا کیا عالم ہے کہ زن وزر کے حصول کے لئے خاندانی و قبائلی جھگڑے کھڑے ہو جاتے ہیں اور برسوں تک بلاوجہ طرفین کا خون بہتا رہتا ہے۔ ترک دنیا اور حب دنیا میں اس قدر طویل خلیج و فرق ہے۔
پٹ دھنی کا مطلب :
سندھی زبان میں پٹ ، پڈھر ، دھرتی کو کہتے ہیں یعنی دھرتی والے ؍خاک نشین ۔ جس طرح مولائے کائنات ، امیر الموٗمنین ، امام المشارق و المغارب حضرت سید نا علی المرتضی شاہ رضی اللہ عنہ کو ’’ابو تراب ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ابو تراب اس لئے کہا گیا کہ آپ انتہائی سادہ زندگی گذارتے تھے ، اکثر فقر و فاقہ رہتا ، مٹی پر بیٹھنے لیٹنے میں آپ کو کوئی قباحت نہیں ہوتی بلکہ مٹی پر آرام فرمانا آپ کو مرغوب تھا اس لئے آپ کو ابو تراب ( مٹی کے باپ ؍مٹی والے ) کہا گیا ۔ اسی طر ح آپ کے لخت جگر ، جگر گوشہ حضرت پیر سائیں پٹ دھنی ( مٹی والے ) بھی انتہائی سادگی پسند تھے، تارک دنیا تھے ، فقر و فاقہ کی سنت سے سر فراز تھے۔ نہ کوئی مسند تھی اور نہ آرائش سے لدھا ہوا حجرہ بلکہ تکلف سے آزاد تھے ۔ ساری زندگی کچی مسجد شریف کے کچے صحن پر مٹی پر رکوع و سجود کرتے ہوئے گذری ۔ جب سفر پر جاتے گرمی ہو چاہے سردی ، سر پر کتابوں کی گٹھڑی کا بار گراں اور پاپیا دہ ، کہیں دیتی کے ٹیلے جس پر پاوٗں رکھتے ہی دب جاتا ہے، کہیں نو ہموارراستے پھر بھی اللہ کا شیر اپنی منزل کی طرف رواں دواں نہ تھکتے تھے ، نہ گرمی سردی سے گھبراتے ، نہ سفر کی صعوبتوں سے دل برداشت ہوتے بلکہ شوق و محبت میں چلتے رہتے اپنے حدف پر ضرور پہنچتے ۔ اس طرح آپ کی زندگی سخت جدوجہد سے عبارت ہے۔
نذر :
آپ نے جب ترک دنیا اختیار کیا تو نذرانہ بھی قبول کرنا چھوڑ دیا۔ لیکن شیخ کامل سے مرید صادق کا حال کیسے چھپ سکتا ہے ۔ ایک بار آپ ، حضرت مخدوم صاحب کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے تو مخدوم صاحب نے پانچ پیسہ آپ کی چادر مبارک کی دامن میں باندھ دیئے اور فرمایا:
’’میری اہلیہ محترمہ نے نذر مانی تھی کہ اگر گائے کو بچھڑ ا ہو گا تو پانچ پیشہ پیر دستگیر ( شہنشاہ بغداد ) کی نذردوں گی اور نذر پوری ہوئی۔ یہ پانچ پیسہ بادشاہ پیر دستگیر کے نذر کے ہیں ۔ اس کے بعد آپ نذرانہ قبول فرماتے ۔ ‘‘(ملفوظات شریف جلد ۵، ص ۳۰۰، مطبوعہ درگاہ شریف راشدیہ )
اس سے واضح ہوا کہ حضرت مخدوم صاحبجیسے کامل اکمل الی اللہ بلکہ وقت کے غوث نے نہ فقط پیران پیر دستگیر رضی اللہ عنہ کی نذر کو جائز بتایا بلکہ حل المشکلات کے لئے مجرب بھی سمجھتے تھے اور یہ بھی کہ پیران پیر دستگیر کی نذر کے بہتر مستحق سادات کرام ہیں ۔ حضرت کے لئے یہ ارشاد تھا کہ نذرانہ رد نہ کریں قبول فرمائیں ۔ جب بندہ محبت سے نذرانہ پیش کرتا ہے تو دراصل میں یہ رب کریم کی عطاو عنایت سے عطا ہوتا ہے اس لئے بندہ کا کام ہے کہ مالک پر نظر رکھے نہ کہ بندہ پر۔
حضرت سید نا امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نور مجسم ﷺ نے فرمایا: ’’جو مال تمہارے پاس بے مانگے اور بے طمع آجائے اسے لے لو اور جو نہ آئے اس کے پیچھے اپنے نفس کو مت ڈالو‘‘۔ ( بخاری و مسلم بحوالہ قاسم ولایت ص ۸۹)
رزق نہ رکھیں ساتھ پنچھی اور درویش
جن کا رب پر آسرا ان کو رزق ہمیش
حضرت مخدوم محمد اسماعیل جو نیجو نقشبندی نور اللہ مرقدہ ، سر کار غوث اعظم کے حضور درج ذیل شعر میں نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں :
غوث سراج الاولیاء
قطب المعارف اصفیاء
سرمہ بصائر اتقیاء
بغداد اوجائے نگر
شوق مطالعہ :
آپ کو دینی کتب کو جمع کرنے اور مطالعہ کرنے کا انتہائی شوق دامن گیر تھا۔ تفسیر ، حدیث ، فقہ آپ کے پسندیدہ موضوع تھے۔ تصوف میں مولانا جلال الدین عارف رومی قدس سرہ السامی کی بلند پایہ کتاب ’’مثنوی شریف ‘‘ کو نہ صرف اپنے ساتھ رکھتے بلکہ اپنے صاحبزادوں کو اس سے درس بھی دیا کرتے تھے۔ آپ کتابوں کے متعلق فرمایا کرتے تھے: ’’کتاب مہنگی خریدنے میں فیض زیادہ ملتا ہے ‘‘۔ کتابوں کی گٹھڑی ہمیشہ آپ کے ساتھ رہا کرتی تھی ، چاہے آ پ گھر میں ہوں ، چاہے مسجد شریف میں ہوں اور چاہے سفر پر ہوں ۔ کتابوں کو ساتھ رکھنا آپ کو بہت مرغوب تھا ، اس سے علم کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے اور علم دشمن جاہل صوفیوں کی تکذیب ہوتی ہے۔ اس سے بھی آپ کے شوق علم کا پتہ لگتا ہے کہ آپ نے اپنے چاروں صاحبزادوں کو دور دراز علاقوں لاڑکانہ ، شکار پور کے دینی مدارس میں داخل کراکے تحصیل علم کی لگن پیدا فرمائی ۔ اور صاحبزادوں کی بھی ایسی تربیت فرمائی کہ انہوں نے آپ کو ناامید نہیں کیا بلکہ علم ظاہر و باطن میں کمال حاصل کر کے آپ کو مسرور کیا۔
وصال :
مولانا اعجاز الحق قدوسی مرحوم ( کراچی ) رقمطراز ہیں :
حضرت سید محمد بقا شاہ نے قادریہ چشتیہ اور نقشبندیہ سلسلہ کے سرچشموں سے فیضیاب ہو کر سندھ میں عرفان و تصوف کی دولت کو عام کیا اور اپنی پوری زندگی رشد و ہدایت اور اعلائے کلمۃ الحق میں صرف فرمائی ۔ وہ اپنے زمانے کے نہ صرف عارف کامل اور عظیم المرتبت عالم تھے بلکہ سندھی زبان کے بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ ( تذکرہ صوفیائے سندھ ، ص ۲۶۵، مطبوعہ اردو اکیڈمی سندھ ، کراچی نومبر ۱۹۵۹ئ)
پروفیسر لطف اللہ بدوی شکار پوری نے ’’تذکرہ لطفی ‘‘ جلد او ل میں آپ کی مختصر شاعری کو تبر کا محفوظ کیا ہے۔
قدوسی لکھتے ہیں : سید العارفین حضرت سید محمد بقا شاہ لکیاری کتابوں کا ایک گٹھا سر پر رکھے ہوئے تشریف لئے جارہے تھے کہ راستے میں ڈاکووٗں نے اس گٹھے کو مال و دولت کا انبار سمجھ کر آپ کو شہید کر دیا۔ حضرت شیخ طیب مجذوب قدس سرہ کے نام سے مشہور قبرستان ( تحصیل پیر جو گوٹھ ضلع خیر پور میرس سندھ ) میں آپ مدفون ہوئے ۔ ذیل کے قطعہ سے آپ کی تاریخ شہادت نکلتی ہے۔
چوں سید محمد بقاشد شہید
حلاوت زرحمت الہی چشید
بسے بود نافع بہر خاص و عام
کز و زود طالب خدا شد رسید
خرو سال تاریخ او درد لم
بگفتا بدرجہ شہادت رسید
۱۱۹۸ھ
( تذکرہ صوفیائے سندھ )
زخمی ہونے کے بعدڈاکووٗ ں نے پہچان لیا، فورا پشیمان ہو کر معافی کے خواستگار ہوئے اور آپ نے ڈاکووٗ ں کو معاف کردیا۔ یہی ڈاکو آپ کو چار پائی پر لٹا کر آپ کے دربار لے کر آئے ۔ مشہور ہے کہ آپ نے انہیں شربت پلا کر رخصت کیا کہ انہوں نے بے خبری میں زخمی کیا اور خوش تھے کہ مجھے شہادت کی نعمت عطا ہوئی ۔
مخزن فیضان میں تاریخ وصال ۱۰، محرم الحرام ( یوم عاشورہ ) ۱۱۹۸ھ ؍ ۱۷۷۹لکھی ہے ۔
حضرت علامہ مفتی محمد قاسم مشوری قدس سرہ السامی نے آپ کی ولادت اور وصال کا سن اس طرح تحریر فرمایاہے :
’’آپ ۱۱۳۵ھ کو تولد ہوئے اور ۱۱۹۸ھ کو ۶۳سال کی عمر مبارکہ میں شہادت کی خلعت پائی ۔ مزار مقدس شیخ طیب کے قبرستان میں مرجع خلائق ہے ‘‘۔
( نفحات الکرامات ج اول ص ۶ مطبوعہ مشوری شریف سن ۱۹۶۲ء )
اما م اہل سنت ، شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی
داستاں عہد گل را از نظیری می شنو
عندلیب آشفتہ تر می گوید ایں افسانہ را
شیخ الاسلام ، حضرت، مخدوم المخادیم ، سند الاقالیم ، ملجاء افقھاء والمحدثین ، مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی قدس سرہ العزیز نسبا حارثی (پنھور ) مسلکا حنفی ، مشربا قادری اور مولد ا سندھی تھے ۔حضرت مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز کو علمی دنیا اور مذہبی تاریخ میں ایک خاص اہمیت اور عظمت حاصل ہے۔ وہ ذات فرشتہ صفات ایک رحمت کا خورشید تھا جو خلق کو روشنی پہنچاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور رحمت کا ایک بادل تھا کہ دنیا اس عنایت کی بارش سے فیض حاصل کرتی تھی ۔
تقریبا نصف صدی تک ان کی خانقاہ علم و فضل کو گہوارہ اور ارشاد و تلقین کا مرکز رہی ۔ ہزاروں تشنگان علم نے وہاں آکر اپنی پیاس بجھائی اور سینکڑوں گم گشتگان علم نے وہاں آکر روشنی حاصل کی۔
سالہائے گوش جہاں زمزمہ زا خواہد بود
زیں نواہا کہ دریں گنبد گردوں زدہ است
ولادت باسعادت :
شیخ الاسلام حضرت مخدوم ؒ کی ولادت باسعادت ۱۰، ربیع الاول بروز جمعرات ۱۱۰۴ھ بمطابق ۱۲۹۲ء کو بٹھورہ شہر (ضلع ٹھٹھہ ، سندھ ) میں ہوئی ۔
زندگی گفت کہ در کاک تپیدم ہمہ عمر
تا ازیں گنبد دیرینہ درے پیدا شد
آپ کا سن ولادت اس فقرہ سے نکلتا ہے۔
’’انبت اللہ نباتا حسنا‘‘
۱۱۰۴ھ
نام و نسب :
آپ کانام نامی اسم گرامی محمد ہاشم کنیت ابوعبدالرحمن اور القاب شیخ الاسلام ، شمس الملت والدین ، مخدوم المخادیم ہیں ۔
شجرہ نسب :
آپ کا شجرہ نسب اس طرح ہے۔ محمد ہاشم بن عبدالغفور بن عبدالرحمن بن عبداللطیف بن عبدالرحمن بن خیر الدین حارثی رحمہم اللہ تعالیٰ ۔
تعلیم و تربیت :
حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ العزیز نے ابتدائی تعلیم اپنے والد حضرت مخدوم عبدالغفور ؒ سے حاصل کی اور تھوڑے عرصہ میں حفظ قرآن اور ابتدائی تعلیم مکمل کی بعد میں مزید تعلیم کیلئے آپ ٹھٹھہ تشریف لائے ۔ اس وقت شہر ٹھٹھہ علم و ادب ، تہذیب و تمدن کا مرکز تھا۔ وہاں آپ نے حضرت مخدوم محمد سعید ؒ اور حضرت مخدوم ضیاء الدین رحمتہ اللہ علیہ سے بقیہ تعلیم کو مکمل کیا اور سند فراغت حاصل کی۔
اسی دوران ۱۱۱۳ھ میں آپ کے والد گرامی حضرت مخدوم عبدالغفور ؒ کا وصال ہوا۔ حضرت مخدوم صاحب ؒ کو علم حدیثو تفسیر و تصوف میں کمال حاصل کرنے کا شوق تھا وہ سعادت آپ کو ۱۱۳۵ھ میں حرمین شریفین کے سفر کے دوران وہاں کے جید علماء کرام سے حاصل ہوئی ۔
زیارت حرمین شریفین ـ:
۱۱۳۵ھ بمطابق ۱۷۲۳ء میں تقریبا اکتیس سال کی عمر میں حرمین شریفین کی زیارت کیلئے روانہ ہوئے ۔ اس سعادت کے ساتھ ساتھ آپ نے وہاں کے اکابر علماء کرام سے علم تفسیر ، حدیث ، تصوف اور دیگر علوم و فنون میں استفادہ کیا اور سندیں حاصل کیں ۔ مثلا
٭ حضرت شیخ عبدالقادرمکی حنفی ؒ المتوفی ۱۱۳۸ھ
٭ حضرت شیخ عبد بن علی مصریؒ
٭ حضرت شیخ علی بن عبدالمالک دراوی ؒ
کے اسماء سر فہرست ہیں ۔
زیارت رسول اکرم ﷺ :
اسی سفر میں آپ بتاریخ ۹، رجب المرجب شریف بروز جمعرات ۱۱۳۶ھ مدینہ طیبہ میں سر کار دو عالم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے جس کو آپ نے بطور یادداشت ایک کتاب کے حاشیہ میں تحریر فرمایا۔
علو مرتبت :
یہ روایت شینہ بسینہ منقول ہے کہ حضرت مخدوم صاحب روضہ رسول اکرم ﷺ پر حاضر ہوئے صلوۃ وسلام کا نذرانہ پیش کیا تو سر کار دو عالم ﷺ نے آپ کو سلا م کا جواب دیا اور فرمایا:
’’وعلیکم السلام یا محمد ھاشم التتوی‘‘
اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کو دربار رسالت ماب ﷺ میں کیا مرتبہ حاصل ہے۔
سیرت ہاشمیہ :
حضرتع مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز کی سیرت اور خوف خدا کا اندازہ آپ کے ان فرمودات سے لگایا جا سکتا ہے۔ آپ ہمیشہ اپنے نفس کو مخاطب ہو کر فرمایا کرتے تھے۔
۱۔ اے نفس !اگر اللہ سبحان و تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو کر، ورنہ اس کا رزق نہ کھا۔
۲۔ اے نفس !جن چیزوں سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے روکا ہے ان سے بازآ، ورنہ اس کی سلطنت سے نکل جا ۔
۳۔ اے نفس!قسمت ازلی سے جو تمہیں مل رہا ہے اس پر قناعت کرورنہ اپنے لئے کوئی اور تلاش کر جو تیری قسمت زیادہ کرے ۔
۴۔ اے نفس !اگر گناہ کا ارادہ کرتاہے تو ایسی جگہ تلاش کر جہاں تجھے خدا تعالیٰ دیکھ نہ سکے ،ورنہ گناہ نہ کر ۔
تصنیف و تالیف :
درس و تدریس ، وعظ و نصیحت ، رشد و ہدایت اور قضاء وافتاء کے علاوہ حضرت مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز نے تصنیف و تالیف کا بھی سلسلہ جاری رکھا ۔
آپ کی تصنیفات اکثر عربی و فارسی زبان میں ہیں اور بعض سندھی زبان میں بھی ہیں ۔ جملہ تصنیفات کا احوال ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے جس کی وجہ سے جملہ تصنیفات کا احاطہ ممکن نہیں ۔ مکتوبات و فتاویٰ کے علاوہ مختلف حوالہ جات سے آپ کی تصانیف کی مختلف تعدادمنقول ہے۔
بعض نے ایک سو پانچ ، بعض نے ایک سوچودہ ، بعض نے ایک سو چالیس اور بعض نے تین سو سے بھی زیادہ آپ کی تصانیف کا ذکر کیا ہے۔
جنہیں دیکھ کر حضرت مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز کے علم و نظر کی وسعت ، فقہی بصیرت ، استد لال کی قوت ، نگاہ کی جولانی اور نے پناہ قوت فیصلہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
آپ کی جملہ تصنیفات افادیت و اہمیت کے اعتبار سے منفرد اور ممتاز حیثیت کی حامل ہیں ۔
ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء
علوم و فنون :
حضرت مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز کی تصنیفات و تالیفات فن و موضوع کے اعتبار سے مندرجہ ذیل عنوانات کے ماتحت آتی ہیں ۔
علم قرآن ، علم حدیث ، اصول تفسیر ، اصول حدیث ، فقہ حنفی ، اصول فقہ ، فقہ مذاہب اربعہ ، علم کلام علم نحو ، علم صرف ، قراۃ و تجوید ، علم فرائض ، علم معانی و بیان ، نحو ، جدل ، علم بیان ، علم منطق ، علم مناظرہ ،علم فلسفہ ، عروض و قوافی ، جفر ، علم حساب ، تاریخ ، اخلاقیات ، سیر ، ادب ، نعت ، اسماء الرجال ، تصوف ، نظم و نثر عربی ، نظم و نثر فارسی ، نظم و نثر سندھی وغیرہ ۔ جب اس بات پر غﷺر کیا جاتاہے کہ ایک ہی قلم سے یہ مختلف انواع تصانیف نکلی ہیں اور ان سب کا علمی معیار نہایت اعلیٰ ہے تو حضرت مخدوم صاحب رحمتہ الل علیہ کے علمی تبحر کا غیر فانی نقش دل پر قائم ہو جاتاہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
یک چراغ است دریں خانہ کہ از پر تو آں
ہر کجا می نگری انجمے ساختہ اند
بیعت و خلافت :
حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی قدس سرہ العزیز نے علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد اس وقت کے شیخ کامل ، آفتاب مکلی ، حضرت مخدوم ابوالقاسم نور الحق درس نقشبندی ؒ ( المتوفی ۱۱۳۸ھ ) کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور بیعت کی درخواست کی۔
حضرت مخدوم ابوالقاسم نقشبندی ؒ نے جوابا فرمایا’’مجھ سے تلقین لینے والوں ( مریدین ) کی صورتیں مجھ پر پیش کی گیئں ان میں آپ کا نام نہیں ‘‘
تو آپ نے عرض کیا کہ میرے شیخ کے متعلق رہنمائی فرمائیں تو حضرت مخدوم ابوالقاسم نے فرمایا کہ آپ کے مرشد قطب ربانی سید اللہ بن سید غلام محمد سورتی قادری ( المتوفی ۱۱۳۸ھ ) ہیں ۔ آپ ان کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوں ۔ حضرت سید سعد اللہ ؒ سلسلہ عالیہ قادریہ کے عظیم پیشوا تھے ۔ ہندوستان میں الہ آباد قصبہ سورت کے رہنے والے تھے۔
لہذا حضرت مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز ۱۱۳۴ھ میں حرم شریف سے واپس ہوتے ہوئے ہندوستان کے شہر سور ت کی بندر گاہ پر اترے۔
حضرت شیخ سعد اللہ قادری ؒ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور سلسلہ عالیہ قادریہ میں داخل ہوئے اور کامل ایک سال اپنے شیخ کی خدمت میں رہ کر سلوک اور تصوف کی منزلیں طے کیں ۔ اور شیخ نے حضرت مخدوم صاحب کو خرقہ خلافت پہنا کر بیعت کی اجازت سے مشرف فرمایا۔
اس کے بعد آپ اپنے وطن واپس لوٹے ۔
حضرت مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز کو مندرجہ ذیل سلاسل کی اجازت ملی تھی ۔
۱۔ قادریہ
۲۔ نقشبندیہ
۳۔ چشتیہ
۴۔ سہروردیہ
۵۔ شطاریہ
۶۔ قشیریہ
۷۔ شاذلیہ
لیکن حضرت کا قلبی اور حقیقی تعلق سلسلہ عالیہ قادریہ سے تھا ۔
عشق رسول ﷺ :
حضر ت شیخ الاسلام قدس سرہ العزیز کی زندگی کا تخصص ہی عشق رسول اکرم تھا ۔ عشق رسالت مآ ب ﷺ آپ کو ورثہ میں ملا تھا ۔ جس کا اثر آپ کی زندگی پر نمایاں نظر آتا تھا۔ آپ کا سب کچھ سنت رسول کے مطابق ہوتا تھا ۔ آپ سنت مطہرہ کا بہترین نمونہ تھے ۔
کبھی سرکار دو عالم ﷺ کی محبت و فراق میں زبان حال سے بادصبا سے سر کار دو عالم ﷺ کی طرف پیغام بھیجتے تھے اور اپنے دل کو تسلی دیتے تھے۔ فرماتے ہیں :
ایسا نسیم صبا ان زرت روضۃ
سلم علی المصطفیٰ صاحب النعم
ترجمہ :اے نسیم صبا! اگر تو ان کے روضے کی زیارت کرے تو صاحب نعمت یعنی مصطفی ﷺ کو میرا سلام کہنا ۔
وقف عند مضجعہ فی مواجھۃ
وبلغ صلواتی و تسلیمی علی روح اکرم
ترجمہ : اور ان کے مواجھہ شریف کے سامنے کھڑے ہو کر وح پاک پر میرا صلوۃ و سلام پیش کر ۔
وقل یا رسول اللہ عبد مقصر
غریق فی بحار السیئات و مظلم
ترجمہ :اور عرض کرنا کہ یارسول اللہ ﷺ ایک کو تاہی کرنے والا غلام گناہوں کے اندھیرے سمندر میں ڈوب رہا ہے۔
یلو ذالی جنابک مستغیثا
ویشکو ذنوبا کالجبال الاعاظم
ترجمہ : آپ کی جناب میں پناہ کے لئے فریاد کر رہا ہے اور گناہوں کی شکایت کر رہا ہے جو کہ بلند پہاڑوں کی مانند ہیں ۔
روحی فداک و انت حیا۔ۃ روحی
وقر۔ۃ عینی والشفاء من السقم
ترجمہ : میری روح تم پر فدا اور آپ میری روح کی زندگی ہیں ۔ میری آنکھوں کی ٹھنڈک میری بیماری کی دو ا آپ ہی تو ہیں ۔
اور کبھی سر کار دو عالم ﷺسے یوں استغاثہ کرتے ہیں ۔
اغثنی یارسول اللہ حانت ندامتی
اغثنی یا حبیب اللہ قامت قیامتی
ترجمہ : اے اللہ کے رسول ﷺ مدد کیجئے میری ندامت کا وقت آیا، اے اللہ کے حبیب ﷺ مدد کیجئے میری قیامت قائم ہو گئی ۔
ان اشعار سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کے دل میں کس قدر عشق مصطفی تھا۔
صاحب تکملہ لکھتے ہیں :
دربار رسالت میں مخدوم صاحب کے فتوے کی مقبولیت :
ایک سائل کسی مسئلہ کے بارے میں آپ سے فتویٰ لکھوا کر پھر آپ کے استاد مکرم حضرت مخدوم ضیاء الدین ٹھٹوی کے ہاں برائے تصدیق لے گیا ۔
حضرت مخدوم ضیاء الدین ؒ نے آپ کی رائے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔
پھر جب رات کو محواستر احت ہوئے تو خواب میں سر کار دوعالم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہرئے اور سر کار دو عالم ﷺ نے فرمایا۔ ج
چنانچہ محمد ہاشم گوید شمابرآں فتویٰ بدھید
یعنی جس طرح محمد ہاشم نے فتویٰ دیا ہے آپ بھی اسی کے مطابق فتویٰ دیں ۔
چنانچہ مخدوم ضیاء الدین رحمتہ اللہ علیہ نے صبح ہوتے ہی اس سائل کو بلایا اور فورا فتویٰ پر دستخط کر دیا۔ ا س کے بعد جب بھی حضرت مخدوم ضیاء الدین رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں کوئی بھی سوال آتا تو آپ فورا حضرت مخدوم محمد ہاشم ؒ کے ہاں بھیج دیتے اور فرماتے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
فتویٰ دردست ایشاں دادہ اند
یعنی افتاء کا کام محمد ہاشم کے ہاتھ دے دیا گیا ہے۔
وصال شریف :
جوں جوں سفر ا ٓخرت کا زمانہ قریب آتا رہا حضرت شیخ الاسلام پر علم و حکمت کی نئی نئی راہیں کھلتی جارہی تھیں ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فیضان نبوی علیٰ صاحبہ الصلوۃ والسلام کے نئے نئے چشمے پھوٹ رہے ہیں ۔ بالآخر علم و عرفان ، معرفت و ایقان کا یہ آفتاب جہاں تاب ۶، رجب شریف بروز جمعرات ۱۱۷۴ھ بمطابق ۱۷۱۶ء کو بظاہر غروب ہو گیا۔ شہر مکلی ( ضلع ٹھٹھہ ) میں آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے۔
خدا رحمت کندایں عاشقاں پاک طینت را
قطعہ تاریخ :
از: نتیجہ فکر ۔ میاں محمد رحیم ٹھٹوی ؒ
بو حنیفہ عصر خاذل اہل کفر
رخت خود بستہ سوئے جنت شتافت
سال فوتش ز خرد جستم بگفت
در جوار مصطفی ماوای یافت
۱۱۷۴ھ
قطعہ تاریخ وصال :
از: نتیجہ فکر ۔ میاں محمد حسن خان ٹھٹوی
کرد رحلت ز عالم فانی
مقتدائے علوم ربانی
گفت تاریخ ھاتفم با آہ
جعل اللہ جنۃ مشواہ
۱۱۷۴ھ
(ماخوذ : باغ باغ مطبوعہ ملیر کراچی )
[مولانا ڈاکٹر عبدالرسول صاحب قادری نے بزبان سندھی حضرت مخدوم ؒ پر تحقیقی مقالہ تحریر کر کے سندھ یونیورسٹی جامشورو سے ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کر لی تھی ۔ اس مقالہ کو دارالعلوم امجد دیہ نعیمیہ ملیر نے ۲۰۰۴ء کو شائع کیاہے ]
امام الاولیاء حضرت سید محمد بقا شاہ شہید
حضور اما م الاولیا ء ، سرتاج السالکین ، غواض معرفت ، صاحب اسرار حقیقت ، سید العارفین ، مجمع البحرین سید محمد بقا شاہ لکیاری شہید المعروف پیر سائیں پٹدھنی بن حضور قبلہ عالم ، مرشد انس وجن خواجہ سید محمد اما شاہ لکیاری حسینی ۱۱۳۵ھ کو گوٹھ رسول پور تحصیل کنگری ضلع خیر پور میرس ( سندھ ) میں تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت :
پروفیسر لطف اللہ بدوی شکار پوری کی تحقیق کے مطابق آپ نے مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کر کے نصاب مکمل کیا۔ ( تذکرہ لطفی ج اص ۲۸۳)
لیکن تفصیل معلوم نہ ہوسکی کہ آپ نے کن استاتذہ و مدارس میں تحصیل علم کی۔
گھر کی منتقلی :
آپ نے بعد میں رسول پور گوٹھ سے نقل مکانی کر کے گوٹھ رحیم ڈنہ ( تحصیل پیر جو گوٹھ ) میں مستقل رہائش اختیار کی۔ ( ملفوظات شریف جلد اول مترجم )
صحبت صالح :
آپ نے بعد تحصیل عارف کامل ، شیخ المشائخ ، حضرت مقتدا اہل مقبول دربار جلیل ، مخدوم محمد اسماعیل جو نیجو نقشبندی قدس سرہ ( پر یان لوء شریف ضلع خیر پور میرس ) سے صحبت اختیار کی اور اس صحبت مبارکہ نے زندگی کے لئے اکسیر کا درجہ حاصل کر لیا اور آپ نے مخدوم صاحب کی زندگی مبارکہ تک صحبت جاری رکھی اور بعد وصال بھی مزار مقدس پر حاضری دیتے رہے۔ یہ وہ لازوال محبت تھی جس نے آپ کو بہت کچھ دیا تھا بلکہ روحانیت کی بلندیوں تک پہنچایا تھا۔ اسی محبت کے سبب ایک روز بیعت ہونے کی درخواست کی۔
بیعت :
حضرت مخدوم صاحب نے آپ سے فرمایا: سید صاحب !آپ کی بیعت قادری سلسلہ میں ایک پیر کامل سے ہوگی جس کی نشانی یہ ہو گی کہ ان کے ہاتھ پر پکی ہوئی مچھلی زندہ ہو گی ۔ حضرت کی روحانی تڑپ دن بدن بڑھتی جارہی تھی بالآخر آپ کی امید پوری ہوئی کہ آپ کے شیخ کامل پنجاب سے روہڑی شریف حضور اکرم ﷺ کے موئے مبارک کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے اور ادھر سے آپ نے بھی بے کراری کے سبب موئے مبارک کی زیارت کے لئے حاضری دی ، وہیں حضور پاک کے موئے مبارکہ کے وسیلہ جلیلہ سے طالب و مطلوب کا آمنا سامنا ہوا، نظر نظر سے ملی تو بے قرار دل کو قرار نصیب ہوا، اس لئے یقین ہوا کہ یہی مرشد مربی ہیں ، یہی رہبر و رہنما ہیں لیکن مخدوم صاحب سے جو نشان ملا تھا ، اس کادیکھنا باقی تھا اس لئے سندھ کی عظیم و لذیذ ڈش تلی ہوئی مچھلی اور پکی ہوئی روٹی بزرگ کے سامنے پیش کی۔ بزرگ نے ہاتھ دھوئے اور دھلے ہوئے ہاتھوں کے چھینٹے تلی ہوئی مچھلی پر مارے تو مچھلی میں جان آگئی دستر خوان سے زندہ اٹھ کر چھلانگ لگاتی ہوئی واپس دریائے سندھ میں چلی گئی ۔ اب تو آپ کو یقین کامل ہو گیا کہ یہ وہی میرے پیر ہیں جن کے لئے دل تڑپ رہا ہے اور عرصہ سے متلاشی ہو ں بس بغیر دیر کے بزرگ کے دست بوس ہوئے اور موئے مبارک کے مقام پر ساحل دریا سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت ، فرد حقیقت شیخ المشائخ ، قطب الاقطاب ، حضرت سید عبدالقادر جیلانی بغدادی قدس سرہ کے دست اقدس پر بیعت ہوئے ۔ پھر وہیں سے مرشد کے ساتھ سفر اختیار کیا اور ایک عرصہ تک مرشد کامل کی صحبت میں درگاہ شریف پیر کوٹ ( چناہ شریف ) ضلع جھنگ صدر پنجاب گذارا ۔
مرشد کا احترام اور اس کاانعا م:
حضرت ، پیر خانہ پر کچھ عرصہ قیام کے بعد مرشد کریم سے اپنے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی تو مرشد کریم نے رخصت کی اجازت دے کر فرمایا: ’’اپنے گھر سے جب واپس آنے لگیں تو راستہ میں ‘‘رامتڑ ’’( تحصیل روہڑی شریف ) سے ہمارے لئے تازی مسواک ضرور لیتے ہوئے آیئے گا‘‘۔ آپ پیر خانہ سے رخصت ہو کر اپنے گھر پہنچے مگر ابھی چند روز ہی گذرے تھے کہ مرشد کریم کی یاد نے تڑپا دیا اور آپ حاضری کے لئے گھر سے پیدل روانہ ہوئے ۔ غلبہ شوق و ذوق میں چلے جا رہے تھے یہاں تک کہ آپ ’’رامتڑ‘‘سے گذر کر تقریبا سات میل آگے بمقام رشید پور جا پہنچے تو حضرت مرشد کریم کا فرمان یاد آیا، آپ نے فوری طور پر الٹے قدم رامتڑ پہنچے تاکہ مرشد کریم کے فرمان کی تاخیر کا مداوا ہو سکے ۔ رامتڑمیں چند مسواک بنوا کر دیوانہ وار درگاہ پیر کوٹ پہنچ کر حضرت مرشد کے حضور پیش کیں ۔ حضرت جیلانی بچشم باطن اس محبت بھرے منظر کا مشاہدہ کر چکے تھے ، فرمایا: ’’محمد بقا شاہ!آپ کو ہماری خاطر بہت مشقت اٹھانی پڑی ۔‘‘
عرض کی : حضور !بندہ کے نزدیک تعمیل ارشاد میں راحت ہی راحت ہے ۔ حضرت جیلانی نے بکمال مسرت آپ کو سینے سے لگایا جو دینا تھا وہ دے دیا ، مرید نے مرشد کا دل جیت کر بہت کچھ پالیا۔ آپ نے فرمایا : شاہ صاحب ! اب میں تمہیں اور تمہاری اولاد کو یہاں ( پیر کوٹ ) پہنچنے کے لئے دور دراز کا سفر معاف کرتا ہوں ۔ ’’حضور قبلہ عالم شہید بادشاہ سے لے کر آج تک آپ کے مبارک خاندان کا ایک فرد بھی وہاں حاضر نہ ہو سکا۔ یہاں تک کہ فقیر راشدی غفرلہ الہادی نے بار ہا حاضری دینے کی کوشش کی یہاں تک کہ جھنگ صدر بھی پہنچ گیا لیکن وہاں جانے میں بے شما ر رکاوٹیں کھڑی ہو جاتیں کہ پندرہ منٹ کاسفر طے نہیں ہو پاتا پھر مجھے حضرت جیلانی کا یہ فرمان عالیشان یاد آتا اور سوچتا کہ مشیت الہٰی یہی ہے بغیر چوں و چرا کے قبول کرنا چاہئے ورنہ حاضری کی ضد میں کوئی تکلیف نہ اٹھانی پڑے ۔ اس طرح ہر بار جھنگ سے واپسی ہوئی ۔ لیکن حضرت جیلانی کی اولاد و سجادہ نشین ، حضرت کے خاندان کے ایک ایک گھر پر چاہے وہ سندھ کے کسی بھی مقام پر ہو شہر ہو چاہے دیہات سال میں دوبار تشریف لاتے ہیں ۔اور ین بغیر مشقت کے گھر بیٹھے زیارت سے مشرف ہوتے رہتے ہیں ۔ اس طرح حضرت جیلانی کا فرمان الہامی آج تک پورا ہو رہا ہے۔
خلافت و تبرکات:
حضرت جیلانی نے آپ کو خلافت کے ساتھ مختلف تبرکات بھی عنایت فرمائے ۔ ایک بار حضرت سید عبدالقادر جیلانی آخرین نے اپنے مرید خاص ، خلیفہ اجل حضرت سید محمد بقا شاہ لکیاری سے بہت مسرور ہو کر فرمایا :
بابا !ہمارے جدامجد ، غوث الثقلین ، محبوب سبحانی قطب ربانی حضور شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی حسنی حسینی رضی اللہ عنہ ( بغداد شریف ) کے روح مبارک پر شب معراج حضور پر نور سید عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ نے قدم شریف رکھا تھا ۔ اسی قدم شریف کی برکت سے حضرت غوث الثقلین کا قدم مبارک تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے۔ آپ کا فرمان عالیشان ہے:
قدمی ھذہ علیٰ رقبۃ کل ولی اللہ ۔
یعنی ، میرا یہ قدم ( مبارک ) تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے ۔
اس کے مطابق ہمارے خاندان میں یہ طریقہ رائج ہے کہ جس خاص الخاص منظور نظر مرید پر مخصوص توجہ اور شفقت فرماتے ہیں تو جدی سنت کے مطابق اس کی گردن پر اپنا قدم رکھتے ہیں اور یہ قدم پشت بہ پشت ہم پہ بھی آیا ہے۔ لیکن میں نے کسی مرید کے ساتھ یہ سنت و مطابقت پوری نہیں کی ہے ۔ آج دل چاہ رہا ہے کہ آپ کی گردن پر اپنا قدم رکھوں ۔ حضرت سائیں محمد بقا شاہ نے مرشد کے حکم کی تعمیل میں فوری طور پر اپنی گردن جھکادی اور حضرت نے اپنا قدم مبارک آپ کی گردن مبارک پر رکھ کر اپنی خاندانی سنت سے سر فراز اور مشرف فرمایا اور اجازت عطا فرمائی۔ ( آفتاب ولایت ص ۲۹)
وصیت میں فرمایا: مخدوم محمد اسماعیل میرے دینی بھائی ہیں ان کی خدمت میں ضرور حاضری دیتے رہیے گا۔
بعد میں سورہ یاسین شریف کی تعلیم فرمائی اور زکوۃ نکالنے کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ ( الراشد )
حضرت مخدوم صاحب سے بھی آپ کو سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں خلافت و اجازت حاصل تھی ۔
حضرت مخدوم صاحب نے ۸ ، ربیع الاول ۱۱۷۴ھ کو انتقال فرما گئے ۔ اس کے تقریبا ۱۷برس بعد ۱۱۹۱ ھ میں حضرت جیلانی کا انتقال ہو گیا۔ ( مخزن فیضان ص ۳۹۲)
ان صدمات نے آپ کو چور چور کر دیا اور سات سال کے بعد آپ نے بھی انتقال کیا۔
علمی مقام :
ایک بار گوٹھ کھہڑا (تحصیل گمبٹ ) میں مخدوم احمد ی ؒ کے پاس علماء وصوفیاء کا مجمع جمع تھا کہ الفقر سواد الوجہ فی الدارین ( حدیث ) کے مفہوم سمجھنے میں وقت پیش آئی ۔ استاد العلماء حضرت علامہ مخدوم احمد ی عباسی ؒ نے کہا کہ حضرت پیر سید محمد بقا شاہ صاحب سے اس کا مفہوم سمجھا جائے گا ۔ ایک بار سید العارفین حضرت لکیاری بادشاہ اپنے دوست مخدوم احمد ی کے پاس تشریف لے گئے ، مخدوم صاحب نے موقعہ و محل کی مناسبت سے حدیث شریف کا مفہوم سمجھانے کی درخواست کی۔
آپ نے فرمایا: ’’حدیث شریف صحیح ہے ۔ ‘‘ سواد ’’سے آنکھ کے ڈھیلا کی سیاسی مراد ہے جس طرح کی روشنی سیاہ دھیلا کی وجہ سے ہے اسی طرح ، ‘‘دونوں جہانوں میں چہرے کی روشنی فقیری سے ہے۔ ‘‘(ملفوظات شریف ج ۵، ص ۲۸۶)
آپ مرشد کریم کی خدمت میں رہ کر اپنی ہستی کو مٹا چکے تھے، انا کو مار چکے تھے، تبھی تو سید اور کامل اکمل کے صاحبزادے ہونے کے باوجود مرشد کی خدمت کو معمول بنا رکھا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے خدمت میں عظمت ہے، جب تک خادم نہیں بنے گا تو مخدوم بھی نہیں بن سکتا۔ اور مخدوم بننے کے لئے خادم بننا ضروری ہے۔ ان دنوں کی بات ہے جب آپ مرشد خانہ پر عا م فقیر کی طرح خدمت مین مشغول تھے ۔ ( غالبا ابتدائی دنوں کی بات ہے) مرشد کریم حضرت جیلانی کے صاحبزادے صاحب کو ایک مشکل تحریر استاد نے دی کہ حضرت جیلانی تک پہنچا دیں وہ کہیں سے حل کرا کردیں گے ۔ صاحبزادہ صاحب دہ لے کر جارہے تھے کہ آپ راستے میں مل گئے ۔ آپ نے دریافت کیا کہ آپ کے دست اب ابا جان کے پاس لے کر جا رہا ہوں ۔ آپ نے عرض کیا یہ پرچہ مجھے فقط ایک رات عنایت فرما دیں ۔ صاحبزادہ صاحب بڑی مشکل سے رازی ہوئے ۔ حضرت نے رات ہی میں لکڑیاں جلا کر بغیر کتب کی مدد کے جواب تحریر فرما کر صبح سویرے صاحبزادے صاحب کو تحریر پیش کر دی ۔ ایک سیدھے سادھے خادم سے لاینحل مسئلہ کا حل دیکھ کر سب خادمین حیرت کا مجسمہ بن گئے ۔ اس روز خادمین و مریدین کو پتہ چل گیا کہ یہ فقیر صاحب بہت بڑے عالم بھی ہیں جنہوں نے اپنے علم و فضل کو فقیری میں چھپا رکھا تھا گویا کہ گودری میں لال ، لیکن مشک و عنبر چھپ سکتی کہاں !
شادی و اولاد:
ایک روز پیر خانہ پر مجلس میں شادی بیاہ کا ذکر تھا ۔ آپ نے اس امر پر اپنی ناگواری کا اظہار کیا۔ حضرت جیلانی نے سن کر فرمایا: آ پ نکاح و شادی سے کس لئے اجتناب کرتے ہیں ؟‘‘
آپ نے عرض کی، حضور ! محض اس خیال سے کہ شادی کے بعد اولاد خدا جانے کیسی پیدا ہو۔
یہ سن کر حضرت جیلانی نے فرمایا:
’’آپ شادی کر لیں بفضلہ تعالیٰ تمہارے ہاں اولاد صالح تولد ہوگی جن میں غوث و قطب بھی ہوں گے ۔‘‘
اس کے بعد آپ نے اپنے خاندان میں جلد ایک عفیفہ سید ہ سے نکاح کیا۔ (مخزن فیضان ) اس سے آپ کو چار صاحبزادے تولد ہوئے جو کہ عالم دین کے علاوہ کامل اکمل ولی اللہ تھے ۔
٭ قدوۃ اہل صفاء ، مقتدائے عارفان حضرت پیر سید عبدالرسول شاہ لکیاری قدس سرہ ولادت ۱۱۶۸ھ وفات ۱۲۳۱ھ
٭ امام العارفین ، مجدد برحق، آفتاب ولایت حضرت پیر سید محمد راشد شاہ پیر سائیں روزے دہنی قدس سرہ ولادت ۱۱۷۱ھ وفات ۱۲۳۴ھ
٭ تاج الاصفیاء ، زین الاولیاء ، حضرت میاں سید مرتضیٰ علی شاہ لکیاری قدس سرہ ولادت ۱۱۷۲ھ وفات ۱۲۳۵ھ
٭ عارف باللہ ، عالم علم علیم ، حضرت پیر سید میاں محمد سلیم شاہ لکیاری قدس سرہ ولادت ۱۱۷۸ھ وفات ۱۲۴۱ھ
حضرت سید العارفین پیر سائیں پٹ دھنی اور آپ کے چاروں صاحبزادوں نے عین مطابعت حبیب کریم ﷺ کے مطابق ۶۳ سال کی عمر شریف میں انتقال کیا۔
عبادت دریاضت :
آپ جانشین امام العارفین نے آپ کی زبان فیض ترجمان سے ایک واقعہ سماعت فرمایا جس کو روایت کیا اور آپ کی ملفوظات کے جامع نے محفوظ کیا جس سے آپ کے بچپن کی پاکیزہ زندگی اجاگر ہوتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں : ’’شروع سے عادت تھی کہ نماز پنج گانہ ، شب خیزی ، تہجد ، اشراق کے نوافل اور درود شریف میں پوری طرح مشغول رہتا تھا۔ شوق کا یہ عالم تھا کہ نماز تہجد مسجد میں ادا کرتا تھا اور فجر تک وظائف میں مشغول رہتا اور سنت کی ادائیگی کے بعد درود شریف کا ورد رکھتا اس کے بعد نماز فجر ادا کرتا اس کے بعد تلاوت کلام مجید سورج طلوع کے بعد اشراق کے نوافل ادا کرکے مسجد شریف سے باہر نکلتا اور رب کریم جل شانہ سے یہ دعا کرتا تھا کہ:
’’یاالہی تیرا شکر ہے کہ تونے عبادت کی توفیق عطا فرمائی ‘‘۔
ان دنوں گوٹھ سائیدی ( رسول پور ) کی مسجد شریف کے دروازے پر ایک مجذوب شخص برہنہ سرو ، شب و روزآگ جلائے بیٹھے ہوتے تھے ، وہ مجھے دیکھ کر فرماتے: ’’بیٹا !ہنوز دلی دوراست ‘‘۔ دہلی ابھی دور ہے۔ اس وقت مجذوب کا کہنا سمجھ میں نہیں آتااور جب رب کریم جل شانہ کی طلب میں قدم بڑھایا تو پتہ چلا کہ مجذوب کا کہنا درست تھا۔ بے شک اللہ عزوجل کے عشق کے بغیر سب کچھ فضول ہے۔
(ملفوظات شریف ج ، ۳ص ۹، مطبوعہ درگاہ عالیہ مشوری شریف)
ترک دنیا :
اس سلسلہ طریقت میں مشائخ طریقت ترک دنیا کے عمل کے پابند رہے ہیں ۔ حضرت مخدوم محمد اسماعیل تارک دنیا تھے، حضرت سید عبدالقادر جیلانی آخرین کیمیا ئے نظر ایسے تارک دنیا تھے کہ ساری زندگی سیر و سیاحت و تبلیغ میں بسر فرمائی بغداد شریف سے نکلے برصغیر کی سیاحت کی، گھر گھر حب رسول کا پیغام پہنچایا مردہ دلوں کو زندہ کیا اور زندگی کا آخری حصہ پیر کوٹ میں بسر کیا ۔ وہ ہی تعلیم حضرت سید العارفین سید محمد بقا شاہ کو ملی اور پھر آپ کے ذریعے آپ کی اولاد اور خلفاء کرام کو پہنچی ۔
ایک روز حضرت مخدوم محمد اسماعیل قدس سرہ نے آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’شاہ صاحب !زمین کا تپہ ( ٹکڑا ) بھی ایک قسم کا تپ ( بخار ) ہے ۔‘‘
آپ نے مخدوم صاحب کی زبانی یہ ارشاد گرامی سن کر اپنی خاندانی جاگیر بغیر دیر کے راہ خدا میں دے دی۔ ( ملفوظات شریف ج ۴ص ۷۰)
آج دنیا کا کیا عالم ہے کہ زن وزر کے حصول کے لئے خاندانی و قبائلی جھگڑے کھڑے ہو جاتے ہیں اور برسوں تک بلاوجہ طرفین کا خون بہتا رہتا ہے۔ ترک دنیا اور حب دنیا میں اس قدر طویل خلیج و فرق ہے۔
پٹ دھنی کا مطلب :
سندھی زبان میں پٹ ، پڈھر ، دھرتی کو کہتے ہیں یعنی دھرتی والے ؍خاک نشین ۔ جس طرح مولائے کائنات ، امیر الموٗمنین ، امام المشارق و المغارب حضرت سید نا علی المرتضی شاہ رضی اللہ عنہ کو ’’ابو تراب ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ابو تراب اس لئے کہا گیا کہ آپ انتہائی سادہ زندگی گذارتے تھے ، اکثر فقر و فاقہ رہتا ، مٹی پر بیٹھنے لیٹنے میں آپ کو کوئی قباحت نہیں ہوتی بلکہ مٹی پر آرام فرمانا آپ کو مرغوب تھا اس لئے آپ کو ابو تراب ( مٹی کے باپ ؍مٹی والے ) کہا گیا ۔ اسی طر ح آپ کے لخت جگر ، جگر گوشہ حضرت پیر سائیں پٹ دھنی ( مٹی والے ) بھی انتہائی سادگی پسند تھے، تارک دنیا تھے ، فقر و فاقہ کی سنت سے سر فراز تھے۔ نہ کوئی مسند تھی اور نہ آرائش سے لدھا ہوا حجرہ بلکہ تکلف سے آزاد تھے ۔ ساری زندگی کچی مسجد شریف کے کچے صحن پر مٹی پر رکوع و سجود کرتے ہوئے گذری ۔ جب سفر پر جاتے گرمی ہو چاہے سردی ، سر پر کتابوں کی گٹھڑی کا بار گراں اور پاپیا دہ ، کہیں دیتی کے ٹیلے جس پر پاوٗں رکھتے ہی دب جاتا ہے، کہیں نو ہموارراستے پھر بھی اللہ کا شیر اپنی منزل کی طرف رواں دواں نہ تھکتے تھے ، نہ گرمی سردی سے گھبراتے ، نہ سفر کی صعوبتوں سے دل برداشت ہوتے بلکہ شوق و محبت میں چلتے رہتے اپنے حدف پر ضرور پہنچتے ۔ اس طرح آپ کی زندگی سخت جدوجہد سے عبارت ہے۔
نذر :
آپ نے جب ترک دنیا اختیار کیا تو نذرانہ بھی قبول کرنا چھوڑ دیا۔ لیکن شیخ کامل سے مرید صادق کا حال کیسے چھپ سکتا ہے ۔ ایک بار آپ ، حضرت مخدوم صاحب کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے تو مخدوم صاحب نے پانچ پیسہ آپ کی چادر مبارک کی دامن میں باندھ دیئے اور فرمایا:
’’میری اہلیہ محترمہ نے نذر مانی تھی کہ اگر گائے کو بچھڑ ا ہو گا تو پانچ پیشہ پیر دستگیر ( شہنشاہ بغداد ) کی نذردوں گی اور نذر پوری ہوئی۔ یہ پانچ پیسہ بادشاہ پیر دستگیر کے نذر کے ہیں ۔ اس کے بعد آپ نذرانہ قبول فرماتے ۔ ‘‘(ملفوظات شریف جلد ۵، ص ۳۰۰، مطبوعہ درگاہ شریف راشدیہ )
اس سے واضح ہوا کہ حضرت مخدوم صاحبجیسے کامل اکمل الی اللہ بلکہ وقت کے غوث نے نہ فقط پیران پیر دستگیر رضی اللہ عنہ کی نذر کو جائز بتایا بلکہ حل المشکلات کے لئے مجرب بھی سمجھتے تھے اور یہ بھی کہ پیران پیر دستگیر کی نذر کے بہتر مستحق سادات کرام ہیں ۔ حضرت کے لئے یہ ارشاد تھا کہ نذرانہ رد نہ کریں قبول فرمائیں ۔ جب بندہ محبت سے نذرانہ پیش کرتا ہے تو دراصل میں یہ رب کریم کی عطاو عنایت سے عطا ہوتا ہے اس لئے بندہ کا کام ہے کہ مالک پر نظر رکھے نہ کہ بندہ پر۔
حضرت سید نا امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نور مجسم ﷺ نے فرمایا: ’’جو مال تمہارے پاس بے مانگے اور بے طمع آجائے اسے لے لو اور جو نہ آئے اس کے پیچھے اپنے نفس کو مت ڈالو‘‘۔ ( بخاری و مسلم بحوالہ قاسم ولایت ص ۸۹)
رزق نہ رکھیں ساتھ پنچھی اور درویش
جن کا رب پر آسرا ان کو رزق ہمیش
حضرت مخدوم محمد اسماعیل جو نیجو نقشبندی نور اللہ مرقدہ ، سر کار غوث اعظم کے حضور درج ذیل شعر میں نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں :
غوث سراج الاولیاء
قطب المعارف اصفیاء
سرمہ بصائر اتقیاء
بغداد اوجائے نگر
شوق مطالعہ :
آپ کو دینی کتب کو جمع کرنے اور مطالعہ کرنے کا انتہائی شوق دامن گیر تھا۔ تفسیر ، حدیث ، فقہ آپ کے پسندیدہ موضوع تھے۔ تصوف میں مولانا جلال الدین عارف رومی قدس سرہ السامی کی بلند پایہ کتاب ’’مثنوی شریف ‘‘ کو نہ صرف اپنے ساتھ رکھتے بلکہ اپنے صاحبزادوں کو اس سے درس بھی دیا کرتے تھے۔ آپ کتابوں کے متعلق فرمایا کرتے تھے: ’’کتاب مہنگی خریدنے میں فیض زیادہ ملتا ہے ‘‘۔ کتابوں کی گٹھڑی ہمیشہ آپ کے ساتھ رہا کرتی تھی ، چاہے آ پ گھر میں ہوں ، چاہے مسجد شریف میں ہوں اور چاہے سفر پر ہوں ۔ کتابوں کو ساتھ رکھنا آپ کو بہت مرغوب تھا ، اس سے علم کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے اور علم دشمن جاہل صوفیوں کی تکذیب ہوتی ہے۔ اس سے بھی آپ کے شوق علم کا پتہ لگتا ہے کہ آپ نے اپنے چاروں صاحبزادوں کو دور دراز علاقوں لاڑکانہ ، شکار پور کے دینی مدارس میں داخل کراکے تحصیل علم کی لگن پیدا فرمائی ۔ اور صاحبزادوں کی بھی ایسی تربیت فرمائی کہ انہوں نے آپ کو ناامید نہیں کیا بلکہ علم ظاہر و باطن میں کمال حاصل کر کے آپ کو مسرور کیا۔
وصال :
مولانا اعجاز الحق قدوسی مرحوم ( کراچی ) رقمطراز ہیں :
حضرت سید محمد بقا شاہ نے قادریہ چشتیہ اور نقشبندیہ سلسلہ کے سرچشموں سے فیضیاب ہو کر سندھ میں عرفان و تصوف کی دولت کو عام کیا اور اپنی پوری زندگی رشد و ہدایت اور اعلائے کلمۃ الحق میں صرف فرمائی ۔ وہ اپنے زمانے کے نہ صرف عارف کامل اور عظیم المرتبت عالم تھے بلکہ سندھی زبان کے بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ ( تذکرہ صوفیائے سندھ ، ص ۲۶۵، مطبوعہ اردو اکیڈمی سندھ ، کراچی نومبر ۱۹۵۹ئ)
پروفیسر لطف اللہ بدوی شکار پوری نے ’’تذکرہ لطفی ‘‘ جلد او ل میں آپ کی مختصر شاعری کو تبر کا محفوظ کیا ہے۔
قدوسی لکھتے ہیں : سید العارفین حضرت سید محمد بقا شاہ لکیاری کتابوں کا ایک گٹھا سر پر رکھے ہوئے تشریف لئے جارہے تھے کہ راستے میں ڈاکووٗں نے اس گٹھے کو مال و دولت کا انبار سمجھ کر آپ کو شہید کر دیا۔ حضرت شیخ طیب مجذوب قدس سرہ کے نام سے مشہور قبرستان ( تحصیل پیر جو گوٹھ ضلع خیر پور میرس سندھ ) میں آپ مدفون ہوئے ۔ ذیل کے قطعہ سے آپ کی تاریخ شہادت نکلتی ہے۔
چوں سید محمد بقاشد شہید
حلاوت زرحمت الہی چشید
بسے بود نافع بہر خاص و عام
کز و زود طالب خدا شد رسید
خرو سال تاریخ او درد لم
بگفتا بدرجہ شہادت رسید
۱۱۹۸ھ
( تذکرہ صوفیائے سندھ )
زخمی ہونے کے بعدڈاکووٗ ں نے پہچان لیا، فورا پشیمان ہو کر معافی کے خواستگار ہوئے اور آپ نے ڈاکووٗ ں کو معاف کردیا۔ یہی ڈاکو آپ کو چار پائی پر لٹا کر آپ کے دربار لے کر آئے ۔ مشہور ہے کہ آپ نے انہیں شربت پلا کر رخصت کیا کہ انہوں نے بے خبری میں زخمی کیا اور خوش تھے کہ مجھے شہادت کی نعمت عطا ہوئی ۔
مخزن فیضان میں تاریخ وصال ۱۰، محرم الحرام ( یوم عاشورہ ) ۱۱۹۸ھ ؍ ۱۷۷۹لکھی ہے ۔
حضرت علامہ مفتی محمد قاسم مشوری قدس سرہ السامی نے آپ کی ولادت اور وصال کا سن اس طرح تحریر فرمایاہے :
’’آپ ۱۱۳۵ھ کو تولد ہوئے اور ۱۱۹۸ھ کو ۶۳سال کی عمر مبارکہ میں شہادت کی خلعت پائی ۔ مزار مقدس شیخ طیب کے قبرستان میں مرجع خلائق ہے ‘‘۔
( نفحات الکرامات ج اول ص ۶ مطبوعہ مشوری شریف سن ۱۹۶۲ء )
اما م اہل سنت ، شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی
داستاں عہد گل را از نظیری می شنو
عندلیب آشفتہ تر می گوید ایں افسانہ را
شیخ الاسلام ، حضرت، مخدوم المخادیم ، سند الاقالیم ، ملجاء افقھاء والمحدثین ، مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی قدس سرہ العزیز نسبا حارثی (پنھور ) مسلکا حنفی ، مشربا قادری اور مولد ا سندھی تھے ۔حضرت مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز کو علمی دنیا اور مذہبی تاریخ میں ایک خاص اہمیت اور عظمت حاصل ہے۔ وہ ذات فرشتہ صفات ایک رحمت کا خورشید تھا جو خلق کو روشنی پہنچاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور رحمت کا ایک بادل تھا کہ دنیا اس عنایت کی بارش سے فیض حاصل کرتی تھی ۔
تقریبا نصف صدی تک ان کی خانقاہ علم و فضل کو گہوارہ اور ارشاد و تلقین کا مرکز رہی ۔ ہزاروں تشنگان علم نے وہاں آکر اپنی پیاس بجھائی اور سینکڑوں گم گشتگان علم نے وہاں آکر روشنی حاصل کی۔
سالہائے گوش جہاں زمزمہ زا خواہد بود
زیں نواہا کہ دریں گنبد گردوں زدہ است
ولادت باسعادت :
شیخ الاسلام حضرت مخدوم ؒ کی ولادت باسعادت ۱۰، ربیع الاول بروز جمعرات ۱۱۰۴ھ بمطابق ۱۲۹۲ء کو بٹھورہ شہر (ضلع ٹھٹھہ ، سندھ ) میں ہوئی ۔
زندگی گفت کہ در کاک تپیدم ہمہ عمر
تا ازیں گنبد دیرینہ درے پیدا شد
آپ کا سن ولادت اس فقرہ سے نکلتا ہے۔
’’انبت اللہ نباتا حسنا‘‘
۱۱۰۴ھ
نام و نسب :
آپ کانام نامی اسم گرامی محمد ہاشم کنیت ابوعبدالرحمن اور القاب شیخ الاسلام ، شمس الملت والدین ، مخدوم المخادیم ہیں ۔
شجرہ نسب :
آپ کا شجرہ نسب اس طرح ہے۔ محمد ہاشم بن عبدالغفور بن عبدالرحمن بن عبداللطیف بن عبدالرحمن بن خیر الدین حارثی رحمہم اللہ تعالیٰ ۔
تعلیم و تربیت :
حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ العزیز نے ابتدائی تعلیم اپنے والد حضرت مخدوم عبدالغفور ؒ سے حاصل کی اور تھوڑے عرصہ میں حفظ قرآن اور ابتدائی تعلیم مکمل کی بعد میں مزید تعلیم کیلئے آپ ٹھٹھہ تشریف لائے ۔ اس وقت شہر ٹھٹھہ علم و ادب ، تہذیب و تمدن کا مرکز تھا۔ وہاں آپ نے حضرت مخدوم محمد سعید ؒ اور حضرت مخدوم ضیاء الدین رحمتہ اللہ علیہ سے بقیہ تعلیم کو مکمل کیا اور سند فراغت حاصل کی۔
اسی دوران ۱۱۱۳ھ میں آپ کے والد گرامی حضرت مخدوم عبدالغفور ؒ کا وصال ہوا۔ حضرت مخدوم صاحب ؒ کو علم حدیثو تفسیر و تصوف میں کمال حاصل کرنے کا شوق تھا وہ سعادت آپ کو ۱۱۳۵ھ میں حرمین شریفین کے سفر کے دوران وہاں کے جید علماء کرام سے حاصل ہوئی ۔
زیارت حرمین شریفین ـ:
۱۱۳۵ھ بمطابق ۱۷۲۳ء میں تقریبا اکتیس سال کی عمر میں حرمین شریفین کی زیارت کیلئے روانہ ہوئے ۔ اس سعادت کے ساتھ ساتھ آپ نے وہاں کے اکابر علماء کرام سے علم تفسیر ، حدیث ، تصوف اور دیگر علوم و فنون میں استفادہ کیا اور سندیں حاصل کیں ۔ مثلا
٭ حضرت شیخ عبدالقادرمکی حنفی ؒ المتوفی ۱۱۳۸ھ
٭ حضرت شیخ عبد بن علی مصریؒ
٭ حضرت شیخ علی بن عبدالمالک دراوی ؒ
کے اسماء سر فہرست ہیں ۔
زیارت رسول اکرم ﷺ :
اسی سفر میں آپ بتاریخ ۹، رجب المرجب شریف بروز جمعرات ۱۱۳۶ھ مدینہ طیبہ میں سر کار دو عالم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے جس کو آپ نے بطور یادداشت ایک کتاب کے حاشیہ میں تحریر فرمایا۔
علو مرتبت :
یہ روایت شینہ بسینہ منقول ہے کہ حضرت مخدوم صاحب روضہ رسول اکرم ﷺ پر حاضر ہوئے صلوۃ وسلام کا نذرانہ پیش کیا تو سر کار دو عالم ﷺ نے آپ کو سلا م کا جواب دیا اور فرمایا:
’’وعلیکم السلام یا محمد ھاشم التتوی‘‘
اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کو دربار رسالت ماب ﷺ میں کیا مرتبہ حاصل ہے۔
سیرت ہاشمیہ :
حضرتع مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز کی سیرت اور خوف خدا کا اندازہ آپ کے ان فرمودات سے لگایا جا سکتا ہے۔ آپ ہمیشہ اپنے نفس کو مخاطب ہو کر فرمایا کرتے تھے۔
۱۔ اے نفس !اگر اللہ سبحان و تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو کر، ورنہ اس کا رزق نہ کھا۔
۲۔ اے نفس !جن چیزوں سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے روکا ہے ان سے بازآ، ورنہ اس کی سلطنت سے نکل جا ۔
۳۔ اے نفس!قسمت ازلی سے جو تمہیں مل رہا ہے اس پر قناعت کرورنہ اپنے لئے کوئی اور تلاش کر جو تیری قسمت زیادہ کرے ۔
۴۔ اے نفس !اگر گناہ کا ارادہ کرتاہے تو ایسی جگہ تلاش کر جہاں تجھے خدا تعالیٰ دیکھ نہ سکے ،ورنہ گناہ نہ کر ۔
تصنیف و تالیف :
درس و تدریس ، وعظ و نصیحت ، رشد و ہدایت اور قضاء وافتاء کے علاوہ حضرت مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز نے تصنیف و تالیف کا بھی سلسلہ جاری رکھا ۔
آپ کی تصنیفات اکثر عربی و فارسی زبان میں ہیں اور بعض سندھی زبان میں بھی ہیں ۔ جملہ تصنیفات کا احوال ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے جس کی وجہ سے جملہ تصنیفات کا احاطہ ممکن نہیں ۔ مکتوبات و فتاویٰ کے علاوہ مختلف حوالہ جات سے آپ کی تصانیف کی مختلف تعدادمنقول ہے۔
بعض نے ایک سو پانچ ، بعض نے ایک سوچودہ ، بعض نے ایک سو چالیس اور بعض نے تین سو سے بھی زیادہ آپ کی تصانیف کا ذکر کیا ہے۔
جنہیں دیکھ کر حضرت مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز کے علم و نظر کی وسعت ، فقہی بصیرت ، استد لال کی قوت ، نگاہ کی جولانی اور نے پناہ قوت فیصلہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
آپ کی جملہ تصنیفات افادیت و اہمیت کے اعتبار سے منفرد اور ممتاز حیثیت کی حامل ہیں ۔
ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء
علوم و فنون :
حضرت مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز کی تصنیفات و تالیفات فن و موضوع کے اعتبار سے مندرجہ ذیل عنوانات کے ماتحت آتی ہیں ۔
علم قرآن ، علم حدیث ، اصول تفسیر ، اصول حدیث ، فقہ حنفی ، اصول فقہ ، فقہ مذاہب اربعہ ، علم کلام علم نحو ، علم صرف ، قراۃ و تجوید ، علم فرائض ، علم معانی و بیان ، نحو ، جدل ، علم بیان ، علم منطق ، علم مناظرہ ،علم فلسفہ ، عروض و قوافی ، جفر ، علم حساب ، تاریخ ، اخلاقیات ، سیر ، ادب ، نعت ، اسماء الرجال ، تصوف ، نظم و نثر عربی ، نظم و نثر فارسی ، نظم و نثر سندھی وغیرہ ۔ جب اس بات پر غﷺر کیا جاتاہے کہ ایک ہی قلم سے یہ مختلف انواع تصانیف نکلی ہیں اور ان سب کا علمی معیار نہایت اعلیٰ ہے تو حضرت مخدوم صاحب رحمتہ الل علیہ کے علمی تبحر کا غیر فانی نقش دل پر قائم ہو جاتاہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
یک چراغ است دریں خانہ کہ از پر تو آں
ہر کجا می نگری انجمے ساختہ اند
بیعت و خلافت :
حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی قدس سرہ العزیز نے علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد اس وقت کے شیخ کامل ، آفتاب مکلی ، حضرت مخدوم ابوالقاسم نور الحق درس نقشبندی ؒ ( المتوفی ۱۱۳۸ھ ) کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور بیعت کی درخواست کی۔
حضرت مخدوم ابوالقاسم نقشبندی ؒ نے جوابا فرمایا’’مجھ سے تلقین لینے والوں ( مریدین ) کی صورتیں مجھ پر پیش کی گیئں ان میں آپ کا نام نہیں ‘‘
تو آپ نے عرض کیا کہ میرے شیخ کے متعلق رہنمائی فرمائیں تو حضرت مخدوم ابوالقاسم نے فرمایا کہ آپ کے مرشد قطب ربانی سید اللہ بن سید غلام محمد سورتی قادری ( المتوفی ۱۱۳۸ھ ) ہیں ۔ آپ ان کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوں ۔ حضرت سید سعد اللہ ؒ سلسلہ عالیہ قادریہ کے عظیم پیشوا تھے ۔ ہندوستان میں الہ آباد قصبہ سورت کے رہنے والے تھے۔
لہذا حضرت مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز ۱۱۳۴ھ میں حرم شریف سے واپس ہوتے ہوئے ہندوستان کے شہر سور ت کی بندر گاہ پر اترے۔
حضرت شیخ سعد اللہ قادری ؒ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور سلسلہ عالیہ قادریہ میں داخل ہوئے اور کامل ایک سال اپنے شیخ کی خدمت میں رہ کر سلوک اور تصوف کی منزلیں طے کیں ۔ اور شیخ نے حضرت مخدوم صاحب کو خرقہ خلافت پہنا کر بیعت کی اجازت سے مشرف فرمایا۔
اس کے بعد آپ اپنے وطن واپس لوٹے ۔
حضرت مخدوم صاحب قدس سرہ العزیز کو مندرجہ ذیل سلاسل کی اجازت ملی تھی ۔
۱۔ قادریہ
۲۔ نقشبندیہ
۳۔ چشتیہ
۴۔ سہروردیہ
۵۔ شطاریہ
۶۔ قشیریہ
۷۔ شاذلیہ
لیکن حضرت کا قلبی اور حقیقی تعلق سلسلہ عالیہ قادریہ سے تھا ۔
عشق رسول ﷺ :
حضر ت شیخ الاسلام قدس سرہ العزیز کی زندگی کا تخصص ہی عشق رسول اکرم تھا ۔ عشق رسالت مآ ب ﷺ آپ کو ورثہ میں ملا تھا ۔ جس کا اثر آپ کی زندگی پر نمایاں نظر آتا تھا۔ آپ کا سب کچھ سنت رسول کے مطابق ہوتا تھا ۔ آپ سنت مطہرہ کا بہترین نمونہ تھے ۔
کبھی سرکار دو عالم ﷺ کی محبت و فراق میں زبان حال سے بادصبا سے سر کار دو عالم ﷺ کی طرف پیغام بھیجتے تھے اور اپنے دل کو تسلی دیتے تھے۔ فرماتے ہیں :
ایسا نسیم صبا ان زرت روضۃ
سلم علی المصطفیٰ صاحب النعم
ترجمہ :اے نسیم صبا! اگر تو ان کے روضے کی زیارت کرے تو صاحب نعمت یعنی مصطفی ﷺ کو میرا سلام کہنا ۔
وقف عند مضجعہ فی مواجھۃ
وبلغ صلواتی و تسلیمی علی روح اکرم
ترجمہ : اور ان کے مواجھہ شریف کے سامنے کھڑے ہو کر وح پاک پر میرا صلوۃ و سلام پیش کر ۔
وقل یا رسول اللہ عبد مقصر
غریق فی بحار السیئات و مظلم
ترجمہ :اور عرض کرنا کہ یارسول اللہ ﷺ ایک کو تاہی کرنے والا غلام گناہوں کے اندھیرے سمندر میں ڈوب رہا ہے۔
یلو ذالی جنابک مستغیثا
ویشکو ذنوبا کالجبال الاعاظم
ترجمہ : آپ کی جناب میں پناہ کے لئے فریاد کر رہا ہے اور گناہوں کی شکایت کر رہا ہے جو کہ بلند پہاڑوں کی مانند ہیں ۔
روحی فداک و انت حیا۔ۃ روحی
وقر۔ۃ عینی والشفاء من السقم
ترجمہ : میری روح تم پر فدا اور آپ میری روح کی زندگی ہیں ۔ میری آنکھوں کی ٹھنڈک میری بیماری کی دو ا آپ ہی تو ہیں ۔
اور کبھی سر کار دو عالم ﷺسے یوں استغاثہ کرتے ہیں ۔
اغثنی یارسول اللہ حانت ندامتی
اغثنی یا حبیب اللہ قامت قیامتی
ترجمہ : اے اللہ کے رسول ﷺ مدد کیجئے میری ندامت کا وقت آیا، اے اللہ کے حبیب ﷺ مدد کیجئے میری قیامت قائم ہو گئی ۔
ان اشعار سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کے دل میں کس قدر عشق مصطفی تھا۔
صاحب تکملہ لکھتے ہیں :
دربار رسالت میں مخدوم صاحب کے فتوے کی مقبولیت :
ایک سائل کسی مسئلہ کے بارے میں آپ سے فتویٰ لکھوا کر پھر آپ کے استاد مکرم حضرت مخدوم ضیاء الدین ٹھٹوی کے ہاں برائے تصدیق لے گیا ۔
حضرت مخدوم ضیاء الدین ؒ نے آپ کی رائے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔
پھر جب رات کو محواستر احت ہوئے تو خواب میں سر کار دوعالم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہرئے اور سر کار دو عالم ﷺ نے فرمایا۔ ج
چنانچہ محمد ہاشم گوید شمابرآں فتویٰ بدھید
یعنی جس طرح محمد ہاشم نے فتویٰ دیا ہے آپ بھی اسی کے مطابق فتویٰ دیں ۔
چنانچہ مخدوم ضیاء الدین رحمتہ اللہ علیہ نے صبح ہوتے ہی اس سائل کو بلایا اور فورا فتویٰ پر دستخط کر دیا۔ ا س کے بعد جب بھی حضرت مخدوم ضیاء الدین رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں کوئی بھی سوال آتا تو آپ فورا حضرت مخدوم محمد ہاشم ؒ کے ہاں بھیج دیتے اور فرماتے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
فتویٰ دردست ایشاں دادہ اند
یعنی افتاء کا کام محمد ہاشم کے ہاتھ دے دیا گیا ہے۔
وصال شریف :
جوں جوں سفر ا ٓخرت کا زمانہ قریب آتا رہا حضرت شیخ الاسلام پر علم و حکمت کی نئی نئی راہیں کھلتی جارہی تھیں ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فیضان نبوی علیٰ صاحبہ الصلوۃ والسلام کے نئے نئے چشمے پھوٹ رہے ہیں ۔ بالآخر علم و عرفان ، معرفت و ایقان کا یہ آفتاب جہاں تاب ۶، رجب شریف بروز جمعرات ۱۱۷۴ھ بمطابق ۱۷۱۶ء کو بظاہر غروب ہو گیا۔ شہر مکلی ( ضلع ٹھٹھہ ) میں آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے۔
خدا رحمت کندایں عاشقاں پاک طینت را
قطعہ تاریخ :
از: نتیجہ فکر ۔ میاں محمد رحیم ٹھٹوی ؒ
بو حنیفہ عصر خاذل اہل کفر
رخت خود بستہ سوئے جنت شتافت
سال فوتش ز خرد جستم بگفت
در جوار مصطفی ماوای یافت
۱۱۷۴ھ
قطعہ تاریخ وصال :
از: نتیجہ فکر ۔ میاں محمد حسن خان ٹھٹوی
کرد رحلت ز عالم فانی
مقتدائے علوم ربانی
گفت تاریخ ھاتفم با آہ
جعل اللہ جنۃ مشواہ
۱۱۷۴ھ
(ماخوذ : باغ باغ مطبوعہ ملیر کراچی )
[مولانا ڈاکٹر عبدالرسول صاحب قادری نے بزبان سندھی حضرت مخدوم ؒ پر تحقیقی مقالہ تحریر کر کے سندھ یونیورسٹی جامشورو سے ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کر لی تھی ۔ اس مقالہ کو دارالعلوم امجد دیہ نعیمیہ ملیر نے ۲۰۰۴ء کو شائع کیاہے ]
امام الاولیاء حضرت سید محمد بقا شاہ شہید
حضور اما م الاولیا ء ، سرتاج السالکین ، غواض معرفت ، صاحب اسرار حقیقت ، سید العارفین ، مجمع البحرین سید محمد بقا شاہ لکیاری شہید المعروف پیر سائیں پٹدھنی بن حضور قبلہ عالم ، مرشد انس وجن خواجہ سید محمد اما شاہ لکیاری حسینی ۱۱۳۵ھ کو گوٹھ رسول پور تحصیل کنگری ضلع خیر پور میرس ( سندھ ) میں تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت :
پروفیسر لطف اللہ بدوی شکار پوری کی تحقیق کے مطابق آپ نے مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کر کے نصاب مکمل کیا۔ ( تذکرہ لطفی ج اص ۲۸۳)
لیکن تفصیل معلوم نہ ہوسکی کہ آپ نے کن استاتذہ و مدارس میں تحصیل علم کی۔
گھر کی منتقلی :
آپ نے بعد میں رسول پور گوٹھ سے نقل مکانی کر کے گوٹھ رحیم ڈنہ ( تحصیل پیر جو گوٹھ ) میں مستقل رہائش اختیار کی۔ ( ملفوظات شریف جلد اول مترجم )
صحبت صالح :
آپ نے بعد تحصیل عارف کامل ، شیخ المشائخ ، حضرت مقتدا اہل مقبول دربار جلیل ، مخدوم محمد اسماعیل جو نیجو نقشبندی قدس سرہ ( پر یان لوء شریف ضلع خیر پور میرس ) سے صحبت اختیار کی اور اس صحبت مبارکہ نے زندگی کے لئے اکسیر کا درجہ حاصل کر لیا اور آپ نے مخدوم صاحب کی زندگی مبارکہ تک صحبت جاری رکھی اور بعد وصال بھی مزار مقدس پر حاضری دیتے رہے۔ یہ وہ لازوال محبت تھی جس نے آپ کو بہت کچھ دیا تھا بلکہ روحانیت کی بلندیوں تک پہنچایا تھا۔ اسی محبت کے سبب ایک روز بیعت ہونے کی درخواست کی۔
بیعت :
حضرت مخدوم صاحب نے آپ سے فرمایا: سید صاحب !آپ کی بیعت قادری سلسلہ میں ایک پیر کامل سے ہوگی جس کی نشانی یہ ہو گی کہ ان کے ہاتھ پر پکی ہوئی مچھلی زندہ ہو گی ۔ حضرت کی روحانی تڑپ دن بدن بڑھتی جارہی تھی بالآخر آپ کی امید پوری ہوئی کہ آپ کے شیخ کامل پنجاب سے روہڑی شریف حضور اکرم ﷺ کے موئے مبارک کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے اور ادھر سے آپ نے بھی بے کراری کے سبب موئے مبارک کی زیارت کے لئے حاضری دی ، وہیں حضور پاک کے موئے مبارکہ کے وسیلہ جلیلہ سے طالب و مطلوب کا آمنا سامنا ہوا، نظر نظر سے ملی تو بے قرار دل کو قرار نصیب ہوا، اس لئے یقین ہوا کہ یہی مرشد مربی ہیں ، یہی رہبر و رہنما ہیں لیکن مخدوم صاحب سے جو نشان ملا تھا ، اس کادیکھنا باقی تھا اس لئے سندھ کی عظیم و لذیذ ڈش تلی ہوئی مچھلی اور پکی ہوئی روٹی بزرگ کے سامنے پیش کی۔ بزرگ نے ہاتھ دھوئے اور دھلے ہوئے ہاتھوں کے چھینٹے تلی ہوئی مچھلی پر مارے تو مچھلی میں جان آگئی دستر خوان سے زندہ اٹھ کر چھلانگ لگاتی ہوئی واپس دریائے سندھ میں چلی گئی ۔ اب تو آپ کو یقین کامل ہو گیا کہ یہ وہی میرے پیر ہیں جن کے لئے دل تڑپ رہا ہے اور عرصہ سے متلاشی ہو ں بس بغیر دیر کے بزرگ کے دست بوس ہوئے اور موئے مبارک کے مقام پر ساحل دریا سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت ، فرد حقیقت شیخ المشائخ ، قطب الاقطاب ، حضرت سید عبدالقادر جیلانی بغدادی قدس سرہ کے دست اقدس پر بیعت ہوئے ۔ پھر وہیں سے مرشد کے ساتھ سفر اختیار کیا اور ایک عرصہ تک مرشد کامل کی صحبت میں درگاہ شریف پیر کوٹ ( چناہ شریف ) ضلع جھنگ صدر پنجاب گذارا ۔
مرشد کا احترام اور اس کاانعا م:
حضرت ، پیر خانہ پر کچھ عرصہ قیام کے بعد مرشد کریم سے اپنے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی تو مرشد کریم نے رخصت کی اجازت دے کر فرمایا: ’’اپنے گھر سے جب واپس آنے لگیں تو راستہ میں ‘‘رامتڑ ’’( تحصیل روہڑی شریف ) سے ہمارے لئے تازی مسواک ضرور لیتے ہوئے آیئے گا‘‘۔ آپ پیر خانہ سے رخصت ہو کر اپنے گھر پہنچے مگر ابھی چند روز ہی گذرے تھے کہ مرشد کریم کی یاد نے تڑپا دیا اور آپ حاضری کے لئے گھر سے پیدل روانہ ہوئے ۔ غلبہ شوق و ذوق میں چلے جا رہے تھے یہاں تک کہ آپ ’’رامتڑ‘‘سے گذر کر تقریبا سات میل آگے بمقام رشید پور جا پہنچے تو حضرت مرشد کریم کا فرمان یاد آیا، آپ نے فوری طور پر الٹے قدم رامتڑ پہنچے تاکہ مرشد کریم کے فرمان کی تاخیر کا مداوا ہو سکے ۔ رامتڑمیں چند مسواک بنوا کر دیوانہ وار درگاہ پیر کوٹ پہنچ کر حضرت مرشد کے حضور پیش کیں ۔ حضرت جیلانی بچشم باطن اس محبت بھرے منظر کا مشاہدہ کر چکے تھے ، فرمایا: ’’محمد بقا شاہ!آپ کو ہماری خاطر بہت مشقت اٹھانی پڑی ۔‘‘
عرض کی : حضور !بندہ کے نزدیک تعمیل ارشاد میں راحت ہی راحت ہے ۔ حضرت جیلانی نے بکمال مسرت آپ کو سینے سے لگایا جو دینا تھا وہ دے دیا ، مرید نے مرشد کا دل جیت کر بہت کچھ پالیا۔ آپ نے فرمایا : شاہ صاحب ! اب میں تمہیں اور تمہاری اولاد کو یہاں ( پیر کوٹ ) پہنچنے کے لئے دور دراز کا سفر معاف کرتا ہوں ۔ ’’حضور قبلہ عالم شہید بادشاہ سے لے کر آج تک آپ کے مبارک خاندان کا ایک فرد بھی وہاں حاضر نہ ہو سکا۔ یہاں تک کہ فقیر راشدی غفرلہ الہادی نے بار ہا حاضری دینے کی کوشش کی یہاں تک کہ جھنگ صدر بھی پہنچ گیا لیکن وہاں جانے میں بے شما ر رکاوٹیں کھڑی ہو جاتیں کہ پندرہ منٹ کاسفر طے نہیں ہو پاتا پھر مجھے حضرت جیلانی کا یہ فرمان عالیشان یاد آتا اور سوچتا کہ مشیت الہٰی یہی ہے بغیر چوں و چرا کے قبول کرنا چاہئے ورنہ حاضری کی ضد میں کوئی تکلیف نہ اٹھانی پڑے ۔ اس طرح ہر بار جھنگ سے واپسی ہوئی ۔ لیکن حضرت جیلانی کی اولاد و سجادہ نشین ، حضرت کے خاندان کے ایک ایک گھر پر چاہے وہ سندھ کے کسی بھی مقام پر ہو شہر ہو چاہے دیہات سال میں دوبار تشریف لاتے ہیں ۔اور ین بغیر مشقت کے گھر بیٹھے زیارت سے مشرف ہوتے رہتے ہیں ۔ اس طرح حضرت جیلانی کا فرمان الہامی آج تک پورا ہو رہا ہے۔
خلافت و تبرکات:
حضرت جیلانی نے آپ کو خلافت کے ساتھ مختلف تبرکات بھی عنایت فرمائے ۔ ایک بار حضرت سید عبدالقادر جیلانی آخرین نے اپنے مرید خاص ، خلیفہ اجل حضرت سید محمد بقا شاہ لکیاری سے بہت مسرور ہو کر فرمایا :
بابا !ہمارے جدامجد ، غوث الثقلین ، محبوب سبحانی قطب ربانی حضور شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی حسنی حسینی رضی اللہ عنہ ( بغداد شریف ) کے روح مبارک پر شب معراج حضور پر نور سید عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ نے قدم شریف رکھا تھا ۔ اسی قدم شریف کی برکت سے حضرت غوث الثقلین کا قدم مبارک تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے۔ آپ کا فرمان عالیشان ہے:
قدمی ھذہ علیٰ رقبۃ کل ولی اللہ ۔
یعنی ، میرا یہ قدم ( مبارک ) تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے ۔
اس کے مطابق ہمارے خاندان میں یہ طریقہ رائج ہے کہ جس خاص الخاص منظور نظر مرید پر مخصوص توجہ اور شفقت فرماتے ہیں تو جدی سنت کے مطابق اس کی گردن پر اپنا قدم رکھتے ہیں اور یہ قدم پشت بہ پشت ہم پہ بھی آیا ہے۔ لیکن میں نے کسی مرید کے ساتھ یہ سنت و مطابقت پوری نہیں کی ہے ۔ آج دل چاہ رہا ہے کہ آپ کی گردن پر اپنا قدم رکھوں ۔ حضرت سائیں محمد بقا شاہ نے مرشد کے حکم کی تعمیل میں فوری طور پر اپنی گردن جھکادی اور حضرت نے اپنا قدم مبارک آپ کی گردن مبارک پر رکھ کر اپنی خاندانی سنت سے سر فراز اور مشرف فرمایا اور اجازت عطا فرمائی۔ ( آفتاب ولایت ص ۲۹)
وصیت میں فرمایا: مخدوم محمد اسماعیل میرے دینی بھائی ہیں ان کی خدمت میں ضرور حاضری دیتے رہیے گا۔
بعد میں سورہ یاسین شریف کی تعلیم فرمائی اور زکوۃ نکالنے کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ ( الراشد )
حضرت مخدوم صاحب سے بھی آپ کو سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں خلافت و اجازت حاصل تھی ۔
حضرت مخدوم صاحب نے ۸ ، ربیع الاول ۱۱۷۴ھ کو انتقال فرما گئے ۔ اس کے تقریبا ۱۷برس بعد ۱۱۹۱ ھ میں حضرت جیلانی کا انتقال ہو گیا۔ ( مخزن فیضان ص ۳۹۲)
ان صدمات نے آپ کو چور چور کر دیا اور سات سال کے بعد آپ نے بھی انتقال کیا۔
علمی مقام :
ایک بار گوٹھ کھہڑا (تحصیل گمبٹ ) میں مخدوم احمد ی ؒ کے پاس علماء وصوفیاء کا مجمع جمع تھا کہ الفقر سواد الوجہ فی الدارین ( حدیث ) کے مفہوم سمجھنے میں وقت پیش آئی ۔ استاد العلماء حضرت علامہ مخدوم احمد ی عباسی ؒ نے کہا کہ حضرت پیر سید محمد بقا شاہ صاحب سے اس کا مفہوم سمجھا جائے گا ۔ ایک بار سید العارفین حضرت لکیاری بادشاہ اپنے دوست مخدوم احمد ی کے پاس تشریف لے گئے ، مخدوم صاحب نے موقعہ و محل کی مناسبت سے حدیث شریف کا مفہوم سمجھانے کی درخواست کی۔
آپ نے فرمایا: ’’حدیث شریف صحیح ہے ۔ ‘‘ سواد ’’سے آنکھ کے ڈھیلا کی سیاسی مراد ہے جس طرح کی روشنی سیاہ دھیلا کی وجہ سے ہے اسی طرح ، ‘‘دونوں جہانوں میں چہرے کی روشنی فقیری سے ہے۔ ‘‘(ملفوظات شریف ج ۵، ص ۲۸۶)
آپ مرشد کریم کی خدمت میں رہ کر اپنی ہستی کو مٹا چکے تھے، انا کو مار چکے تھے، تبھی تو سید اور کامل اکمل کے صاحبزادے ہونے کے باوجود مرشد کی خدمت کو معمول بنا رکھا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے خدمت میں عظمت ہے، جب تک خادم نہیں بنے گا تو مخدوم بھی نہیں بن سکتا۔ اور مخدوم بننے کے لئے خادم بننا ضروری ہے۔ ان دنوں کی بات ہے جب آپ مرشد خانہ پر عا م فقیر کی طرح خدمت مین مشغول تھے ۔ ( غالبا ابتدائی دنوں کی بات ہے) مرشد کریم حضرت جیلانی کے صاحبزادے صاحب کو ایک مشکل تحریر استاد نے دی کہ حضرت جیلانی تک پہنچا دیں وہ کہیں سے حل کرا کردیں گے ۔ صاحبزادہ صاحب دہ لے کر جارہے تھے کہ آپ راستے میں مل گئے ۔ آپ نے دریافت کیا کہ آپ کے دست اب ابا جان کے پاس لے کر جا رہا ہوں ۔ آپ نے عرض کیا یہ پرچہ مجھے فقط ایک رات عنایت فرما دیں ۔ صاحبزادہ صاحب بڑی مشکل سے رازی ہوئے ۔ حضرت نے رات ہی میں لکڑیاں جلا کر بغیر کتب کی مدد کے جواب تحریر فرما کر صبح سویرے صاحبزادے صاحب کو تحریر پیش کر دی ۔ ایک سیدھے سادھے خادم سے لاینحل مسئلہ کا حل دیکھ کر سب خادمین حیرت کا مجسمہ بن گئے ۔ اس روز خادمین و مریدین کو پتہ چل گیا کہ یہ فقیر صاحب بہت بڑے عالم بھی ہیں جنہوں نے اپنے علم و فضل کو فقیری میں چھپا رکھا تھا گویا کہ گودری میں لال ، لیکن مشک و عنبر چھپ سکتی کہاں !
شادی و اولاد:
ایک روز پیر خانہ پر مجلس میں شادی بیاہ کا ذکر تھا ۔ آپ نے اس امر پر اپنی ناگواری کا اظہار کیا۔ حضرت جیلانی نے سن کر فرمایا: آ پ نکاح و شادی سے کس لئے اجتناب کرتے ہیں ؟‘‘
آپ نے عرض کی، حضور ! محض اس خیال سے کہ شادی کے بعد اولاد خدا جانے کیسی پیدا ہو۔
یہ سن کر حضرت جیلانی نے فرمایا:
’’آپ شادی کر لیں بفضلہ تعالیٰ تمہارے ہاں اولاد صالح تولد ہوگی جن میں غوث و قطب بھی ہوں گے ۔‘‘
اس کے بعد آپ نے اپنے خاندان میں جلد ایک عفیفہ سید ہ سے نکاح کیا۔ (مخزن فیضان ) اس سے آپ کو چار صاحبزادے تولد ہوئے جو کہ عالم دین کے علاوہ کامل اکمل ولی اللہ تھے ۔
٭ قدوۃ اہل صفاء ، مقتدائے عارفان حضرت پیر سید عبدالرسول شاہ لکیاری قدس سرہ ولادت ۱۱۶۸ھ وفات ۱۲۳۱ھ
٭ امام العارفین ، مجدد برحق، آفتاب ولایت حضرت پیر سید محمد راشد شاہ پیر سائیں روزے دہنی قدس سرہ ولادت ۱۱۷۱ھ وفات ۱۲۳۴ھ
٭ تاج الاصفیاء ، زین الاولیاء ، حضرت میاں سید مرتضیٰ علی شاہ لکیاری قدس سرہ ولادت ۱۱۷۲ھ وفات ۱۲۳۵ھ
٭ عارف باللہ ، عالم علم علیم ، حضرت پیر سید میاں محمد سلیم شاہ لکیاری قدس سرہ ولادت ۱۱۷۸ھ وفات ۱۲۴۱ھ
حضرت سید العارفین پیر سائیں پٹ دھنی اور آپ کے چاروں صاحبزادوں نے عین مطابعت حبیب کریم ﷺ کے مطابق ۶۳ سال کی عمر شریف میں انتقال کیا۔
عبادت دریاضت :
آپ جانشین امام العارفین نے آپ کی زبان فیض ترجمان سے ایک واقعہ سماعت فرمایا جس کو روایت کیا اور آپ کی ملفوظات کے جامع نے محفوظ کیا جس سے آپ کے بچپن کی پاکیزہ زندگی اجاگر ہوتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں : ’’شروع سے عادت تھی کہ نماز پنج گانہ ، شب خیزی ، تہجد ، اشراق کے نوافل اور درود شریف میں پوری طرح مشغول رہتا تھا۔ شوق کا یہ عالم تھا کہ نماز تہجد مسجد میں ادا کرتا تھا اور فجر تک وظائف میں مشغول رہتا اور سنت کی ادائیگی کے بعد درود شریف کا ورد رکھتا اس کے بعد نماز فجر ادا کرتا اس کے بعد تلاوت کلام مجید سورج طلوع کے بعد اشراق کے نوافل ادا کرکے مسجد شریف سے باہر نکلتا اور رب کریم جل شانہ سے یہ دعا کرتا تھا کہ:
’’یاالہی تیرا شکر ہے کہ تونے عبادت کی توفیق عطا فرمائی ‘‘۔
ان دنوں گوٹھ سائیدی ( رسول پور ) کی مسجد شریف کے دروازے پر ایک مجذوب شخص برہنہ سرو ، شب و روزآگ جلائے بیٹھے ہوتے تھے ، وہ مجھے دیکھ کر فرماتے: ’’بیٹا !ہنوز دلی دوراست ‘‘۔ دہلی ابھی دور ہے۔ اس وقت مجذوب کا کہنا سمجھ میں نہیں آتااور جب رب کریم جل شانہ کی طلب میں قدم بڑھایا تو پتہ چلا کہ مجذوب کا کہنا درست تھا۔ بے شک اللہ عزوجل کے عشق کے بغیر سب کچھ فضول ہے۔
(ملفوظات شریف ج ، ۳ص ۹، مطبوعہ درگاہ عالیہ مشوری شریف)
ترک دنیا :
اس سلسلہ طریقت میں مشائخ طریقت ترک دنیا کے عمل کے پابند رہے ہیں ۔ حضرت مخدوم محمد اسماعیل تارک دنیا تھے، حضرت سید عبدالقادر جیلانی آخرین کیمیا ئے نظر ایسے تارک دنیا تھے کہ ساری زندگی سیر و سیاحت و تبلیغ میں بسر فرمائی بغداد شریف سے نکلے برصغیر کی سیاحت کی، گھر گھر حب رسول کا پیغام پہنچایا مردہ دلوں کو زندہ کیا اور زندگی کا آخری حصہ پیر کوٹ میں بسر کیا ۔ وہ ہی تعلیم حضرت سید العارفین سید محمد بقا شاہ کو ملی اور پھر آپ کے ذریعے آپ کی اولاد اور خلفاء کرام کو پہنچی ۔
ایک روز حضرت مخدوم محمد اسماعیل قدس سرہ نے آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’شاہ صاحب !زمین کا تپہ ( ٹکڑا ) بھی ایک قسم کا تپ ( بخار ) ہے ۔‘‘
آپ نے مخدوم صاحب کی زبانی یہ ارشاد گرامی سن کر اپنی خاندانی جاگیر بغیر دیر کے راہ خدا میں دے دی۔ ( ملفوظات شریف ج ۴ص ۷۰)
آج دنیا کا کیا عالم ہے کہ زن وزر کے حصول کے لئے خاندانی و قبائلی جھگڑے کھڑے ہو جاتے ہیں اور برسوں تک بلاوجہ طرفین کا خون بہتا رہتا ہے۔ ترک دنیا اور حب دنیا میں اس قدر طویل خلیج و فرق ہے۔
پٹ دھنی کا مطلب :
سندھی زبان میں پٹ ، پڈھر ، دھرتی کو کہتے ہیں یعنی دھرتی والے ؍خاک نشین ۔ جس طرح مولائے کائنات ، امیر الموٗمنین ، امام المشارق و المغارب حضرت سید نا علی المرتضی شاہ رضی اللہ عنہ کو ’’ابو تراب ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ابو تراب اس لئے کہا گیا کہ آپ انتہائی سادہ زندگی گذارتے تھے ، اکثر فقر و فاقہ رہتا ، مٹی پر بیٹھنے لیٹنے میں آپ کو کوئی قباحت نہیں ہوتی بلکہ مٹی پر آرام فرمانا آپ کو مرغوب تھا اس لئے آپ کو ابو تراب ( مٹی کے باپ ؍مٹی والے ) کہا گیا ۔ اسی طر ح آپ کے لخت جگر ، جگر گوشہ حضرت پیر سائیں پٹ دھنی ( مٹی والے ) بھی انتہائی سادگی پسند تھے، تارک دنیا تھے ، فقر و فاقہ کی سنت سے سر فراز تھے۔ نہ کوئی مسند تھی اور نہ آرائش سے لدھا ہوا حجرہ بلکہ تکلف سے آزاد تھے ۔ ساری زندگی کچی مسجد شریف کے کچے صحن پر مٹی پر رکوع و سجود کرتے ہوئے گذری ۔ جب سفر پر جاتے گرمی ہو چاہے سردی ، سر پر کتابوں کی گٹھڑی کا بار گراں اور پاپیا دہ ، کہیں دیتی کے ٹیلے جس پر پاوٗں رکھتے ہی دب جاتا ہے، کہیں نو ہموارراستے پھر بھی اللہ کا شیر اپنی منزل کی طرف رواں دواں نہ تھکتے تھے ، نہ گرمی سردی سے گھبراتے ، نہ سفر کی صعوبتوں سے دل برداشت ہوتے بلکہ شوق و محبت میں چلتے رہتے اپنے حدف پر ضرور پہنچتے ۔ اس طرح آپ کی زندگی سخت جدوجہد سے عبارت ہے۔
نذر :
آپ نے جب ترک دنیا اختیار کیا تو نذرانہ بھی قبول کرنا چھوڑ دیا۔ لیکن شیخ کامل سے مرید صادق کا حال کیسے چھپ سکتا ہے ۔ ایک بار آپ ، حضرت مخدوم صاحب کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے تو مخدوم صاحب نے پانچ پیسہ آپ کی چادر مبارک کی دامن میں باندھ دیئے اور فرمایا:
’’میری اہلیہ محترمہ نے نذر مانی تھی کہ اگر گائے کو بچھڑ ا ہو گا تو پانچ پیشہ پیر دستگیر ( شہنشاہ بغداد ) کی نذردوں گی اور نذر پوری ہوئی۔ یہ پانچ پیسہ بادشاہ پیر دستگیر کے نذر کے ہیں ۔ اس کے بعد آپ نذرانہ قبول فرماتے ۔ ‘‘(ملفوظات شریف جلد ۵، ص ۳۰۰، مطبوعہ درگاہ شریف راشدیہ )
اس سے واضح ہوا کہ حضرت مخدوم صاحبجیسے کامل اکمل الی اللہ بلکہ وقت کے غوث نے نہ فقط پیران پیر دستگیر رضی اللہ عنہ کی نذر کو جائز بتایا بلکہ حل المشکلات کے لئے مجرب بھی سمجھتے تھے اور یہ بھی کہ پیران پیر دستگیر کی نذر کے بہتر مستحق سادات کرام ہیں ۔ حضرت کے لئے یہ ارشاد تھا کہ نذرانہ رد نہ کریں قبول فرمائیں ۔ جب بندہ محبت سے نذرانہ پیش کرتا ہے تو دراصل میں یہ رب کریم کی عطاو عنایت سے عطا ہوتا ہے اس لئے بندہ کا کام ہے کہ مالک پر نظر رکھے نہ کہ بندہ پر۔
حضرت سید نا امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نور مجسم ﷺ نے فرمایا: ’’جو مال تمہارے پاس بے مانگے اور بے طمع آجائے اسے لے لو اور جو نہ آئے اس کے پیچھے اپنے نفس کو مت ڈالو‘‘۔ ( بخاری و مسلم بحوالہ قاسم ولایت ص ۸۹)
رزق نہ رکھیں ساتھ پنچھی اور درویش
جن کا رب پر آسرا ان کو رزق ہمیش
حضرت مخدوم محمد اسماعیل جو نیجو نقشبندی نور اللہ مرقدہ ، سر کار غوث اعظم کے حضور درج ذیل شعر میں نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں :
غوث سراج الاولیاء
قطب المعارف اصفیاء
سرمہ بصائر اتقیاء
بغداد اوجائے نگر
شوق مطالعہ :
آپ کو دینی کتب کو جمع کرنے اور مطالعہ کرنے کا انتہائی شوق دامن گیر تھا۔ تفسیر ، حدیث ، فقہ آپ کے پسندیدہ موضوع تھے۔ تصوف میں مولانا جلال الدین عارف رومی قدس سرہ السامی کی بلند پایہ کتاب ’’مثنوی شریف ‘‘ کو نہ صرف اپنے ساتھ رکھتے بلکہ اپنے صاحبزادوں کو اس سے درس بھی دیا کرتے تھے۔ آپ کتابوں کے متعلق فرمایا کرتے تھے: ’’کتاب مہنگی خریدنے میں فیض زیادہ ملتا ہے ‘‘۔ کتابوں کی گٹھڑی ہمیشہ آپ کے ساتھ رہا کرتی تھی ، چاہے آ پ گھر میں ہوں ، چاہے مسجد شریف میں ہوں اور چاہے سفر پر ہوں ۔ کتابوں کو ساتھ رکھنا آپ کو بہت مرغوب تھا ، اس سے علم کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے اور علم دشمن جاہل صوفیوں کی تکذیب ہوتی ہے۔ اس سے بھی آپ کے شوق علم کا پتہ لگتا ہے کہ آپ نے اپنے چاروں صاحبزادوں کو دور دراز علاقوں لاڑکانہ ، شکار پور کے دینی مدارس میں داخل کراکے تحصیل علم کی لگن پیدا فرمائی ۔ اور صاحبزادوں کی بھی ایسی تربیت فرمائی کہ انہوں نے آپ کو ناامید نہیں کیا بلکہ علم ظاہر و باطن میں کمال حاصل کر کے آپ کو مسرور کیا۔
وصال :
مولانا اعجاز الحق قدوسی مرحوم ( کراچی ) رقمطراز ہیں :
حضرت سید محمد بقا شاہ نے قادریہ چشتیہ اور نقشبندیہ سلسلہ کے سرچشموں سے فیضیاب ہو کر سندھ میں عرفان و تصوف کی دولت کو عام کیا اور اپنی پوری زندگی رشد و ہدایت اور اعلائے کلمۃ الحق میں صرف فرمائی ۔ وہ اپنے زمانے کے نہ صرف عارف کامل اور عظیم المرتبت عالم تھے بلکہ سندھی زبان کے بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ ( تذکرہ صوفیائے سندھ ، ص ۲۶۵، مطبوعہ اردو اکیڈمی سندھ ، کراچی نومبر ۱۹۵۹ئ)
پروفیسر لطف اللہ بدوی شکار پوری نے ’’تذکرہ لطفی ‘‘ جلد او ل میں آپ کی مختصر شاعری کو تبر کا محفوظ کیا ہے۔
قدوسی لکھتے ہیں : سید العارفین حضرت سید محمد بقا شاہ لکیاری کتابوں کا ایک گٹھا سر پر رکھے ہوئے تشریف لئے جارہے تھے کہ راستے میں ڈاکووٗں نے اس گٹھے کو مال و دولت کا انبار سمجھ کر آپ کو شہید کر دیا۔ حضرت شیخ طیب مجذوب قدس سرہ کے نام سے مشہور قبرستان ( تحصیل پیر جو گوٹھ ضلع خیر پور میرس سندھ ) میں آپ مدفون ہوئے ۔ ذیل کے قطعہ سے آپ کی تاریخ شہادت نکلتی ہے۔
چوں سید محمد بقاشد شہید
حلاوت زرحمت الہی چشید
بسے بود نافع بہر خاص و عام
کز و زود طالب خدا شد رسید
خرو سال تاریخ او درد لم
بگفتا بدرجہ شہادت رسید
۱۱۹۸ھ
( تذکرہ صوفیائے سندھ )
زخمی ہونے کے بعدڈاکووٗ ں نے پہچان لیا، فورا پشیمان ہو کر معافی کے خواستگار ہوئے اور آپ نے ڈاکووٗ ں کو معاف کردیا۔ یہی ڈاکو آپ کو چار پائی پر لٹا کر آپ کے دربار لے کر آئے ۔ مشہور ہے کہ آپ نے انہیں شربت پلا کر رخصت کیا کہ انہوں نے بے خبری میں زخمی کیا اور خوش تھے کہ مجھے شہادت کی نعمت عطا ہوئی ۔
مخزن فیضان میں تاریخ وصال ۱۰، محرم الحرام ( یوم عاشورہ ) ۱۱۹۸ھ ؍ ۱۷۷۹لکھی ہے ۔
حضرت علامہ مفتی محمد قاسم مشوری قدس سرہ السامی نے آپ کی ولادت اور وصال کا سن اس طرح تحریر فرمایاہے :
’’آپ ۱۱۳۵ھ کو تولد ہوئے اور ۱۱۹۸ھ کو ۶۳سال کی عمر مبارکہ میں شہادت کی خلعت پائی ۔ مزار مقدس شیخ طیب کے قبرستان میں مرجع خلائق ہے ‘‘۔
( نفحات الکرامات ج اول ص ۶ مطبوعہ مشوری شریف سن ۱۹۶۲ء )
(انوارِ علماءِ اہلسنت )