مختصر تعارف منظور احمد فیضی

  1. آپ کی پیدائش :

          آپ کی پیدائش، بستی فیض آباد علاقہ مدینۃ الاولیاء اوچ شریف ضلع بہاول پور پاکستان کے ایک عظیم علمی و روحانی گھرانے میں ہوئی۔ آپ پیر طریقت، عارف باللہ ، عاشق رسول اللہ ، پروانۂ مدینہ منورہ ، فنانی فی الشیخ ، استاذ العلماء و العرفاء حضرت علامہ الحاج پیر محمد ظریف صاحب فیضی قدس سرہ کے دولت کدہ میں ۲ رمضان المبارک ۱۳۵۸ھ بمطابق ۱۶ اکتوبر ۱۹۳۹ء شب پیر بوقت صبح صادق جلوہ افروز ہوئے۔ جب آپ کی ولادت ہوئی تو بستی میں جشن کا سماں بندھ گیا اور خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ آپ سے پہلے آپ کے والدین کے ہاں اولادِ نرینہ نہیں ہوئی تھی ۔

قبلہ بیہقیِٔ وقت عطائے مصطفیٰ کریم ﷺہیں :

آپ ﷫کے والد ماجد نے فرمایا ! میں حضرت قبلہ پیر سید محمد عالم شاہ ﷫ کے جلسہ میں مدعو تھا علماء کرام کثرت سے آئے ہوئے تھے مجھے دن کو تقریر کا وقت نہ ملا۔ شام کو میں نے پیر صاحب سے اجازت چاہی تو انہوں نے فرمایا تمہارا بیان رات کو ہوگا لہٰذا تمہیں اجازت نہیں ۔میں نے گھر جانے کیلئے بار بار عرض کیا مگر وہ نہ مانے۔میں نے کہا ایک شرط پر رہتا ہوں کہ مجھے بیٹا دلا دو۔ پیر صاحب نے فرمایا تم یہاں رہو ہم تمہاری درخواست ،حضور پرنورﷺ کی بارگاہ میں آج رات پیش کریں گے امید ہے کہ درخواست قبول ہوجائے گی اور جو صورت حال ہوگی صبح کی نماز کے بعد بتاؤں گا۔ آپ نے جانا نہیں درخواست کا حال سن کر جانا ہے۔ حسب الحکم میں نے رات وہاں بسر کی صبح کی نماز کے بعد پیر صاحب نے مجھے بلا کر فرمایا تمہاری درخواست سرکاردو عالم ﷺنے منظور فرمالی ہے اور تمہیں منظورِ احمد عطا ہوگا۔

ادہر آپ کے مرشد کریم، غوث زمانہ صاحب ذوق بلالی حضرت خواجہ فیض محمد شاہ جمالی ﷫حج سے واپس تشریف لائے حضرت مولانا محمد ظریف صاحب انہیں ملنے اور حج او روضۂ رسول اللہ ﷺکی زیارت سے مشرف ہونے کی مبارک دینے کیلئے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے عجوہ کھجور کا ایک دانہ دیکر فرمایا مولانا محمد ظریف صاحب یہ کھجور کا دانہ امانت ہے اسے تم نے نہیں کھانامولانا نے پوچھا حضور یہ کس کو دینا ہے فرمایا دینا بھی کسی کو نہیں اپنے پاس سنبھا ل کر رکھنا ہے عرض کی اس کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا مولانا !یہ دانۂ کھجور حضور پر نورﷺ کی طرف سے آپ کے بچے کیلئے ہے ۔حالانکہ اس وقت حمل و غیرہ کے آثار نہ تھے آپ حیران بھی ہوئے اور یقین بھی فرمایا اور دانہ کو رکھ دیا جب آپ کی ولادت ہوئی تو وہی دانہ گھٹی کے کام آیا اور آپ کے شکم کی پہلی خوراک عجوہ کھجور بنی۔

آپ کا سلسلہ نسب :

علامہ محمد شریف ،الشّہیر علامہ محمد منظور احمد صاحب فیضی ابن علامہ محمد ظریف فیضی ابن علامہ الٰہی بخش قادری ابن حاجی پیر بخش رحمھم اللہ تعالیٰ ۔

         آپ کے وا لد گرامی قدس سرہ السّامی اپنےوقت کے ثانی شیخ سعدی و جامی تھے آپ نے اپنی زندگی درس و تدریس ا ور عشق خیر الوریٰ علیہ التحیۃ و الثناء میں بسر کی۔ آپ کی خواہش یہی تھی کہ

مدینہ جاؤں پھر آؤں پھر جاؤں

میری زندگی یونہی تمام ہوجائے

آپ ۲۰سے ۲۵ مرتبہ حاضری ِحرمین شریفین کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے آپ کا وصال (شوال ۱۳۱۵ھ بمطابق ۱۹۹۵)کو ہوا آپ کےوصال بعد چوہدری محمد اشرف صاحب حال مقیم بہاول پور نے آپ کوجیتے جاگتے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، منی، عرفات، مزدلفہ ہر جگہ ، ہر مقام پر دیکھا ا ور یہ بات انہوں نے حلفاً بیان کی۔

آپ کے دادا محترم حضرت مولانا الٰہی بخش قادری ﷫فارسی ،اور فقہ میں مہارت ِ تامّہ رکھتے تھے۔ نہایت متقی، پابند ِشرع ، اور شب زندہ دار بزرگ تھے اور سلسلہ قادریہ میں حضرت قبلہ صالح محمد صاحب قادری﷫ سوئی شریف، سند ھ سے نسبت رکھتے تھے۔

بچپن میں ذکر اللہ کرنا و بیعت :

          آپ کی عمر تقریباً ایک سال کی تھی حضرت مرشد امام اہل التّحقیقِ والتّدقیق ،صاحب ِذوق ِبلالی حضرت مولانا خواجہ فیض محمد شاہجمالی ﷫ خواجہ غلام فرید ادام المجید فی لقاء الحمید ﷫کے سالانہ عرس ۷ ربیع الثانی ۱۳۵۹؁ھ سے واپسی کے موقع پر آپ کے گھر بستی فیض آباد تشریف لائے۔ آپ کی دادی صاحبہ آپ کو حضرت شاہ جمالی کریم﷫ کی خدمت میں لے گئیں اور عرض کی حضور!اس کے لئے دعا فرمائیں پھر آپ کے والد محترم علامہ محمد ظریف صاحب فیضی ﷫نے آپ کی خدمت میں عرض کیا حضور!منظور احمد کو بیعت کرلیں۔ آپ نے فرمایا ابھی بچہ ہے۔ آپ کے والد نے عرض کیا حضور ! کیا خواجہ اللہ بخش تونسوی ﷫نے آخری وقت بچوں کو بیعت نہیں کیا تھا۔؟پھر آپ نے بیعت فرمایا اور کہا‘‘بچہ آکھ اللہ’’ یعنی بچے کہو اللہ دو تین بار یہی فرمایا۔ جب تیسری بار فرمایا تو آپ نے اسی وقت صِغرِِسِنّی میں اپنی دادی کے ہاتھوں میں حرکت کرتے ہوئے ……اللہ ،اللہ… کہنا شروع کردیا۔

ایں طاقت بزور بازو نیست

تا نہ بخشند خدائے بخشندہ

بسم اللہ۔ آغازِ تعلیم:

          جب آپ کی عمر مبارک کو چار سال چار ماہ چار دن ہوئے یعنی ۶ محرم الحرام ۱۳۶۲؁ ھ بروز پیر جامع مسجد سندیلہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان میں قبلہ شاہ جمالی کریم ﷫نے دوبارہ بیعت فرمایا، اور قرآن مجید شروع کرایا ،اور سورۃ فاتحہ شریف پڑھائی ،پھر آپ نے ابتدائی تعلیم قرآن پاک ،فارسی، صرف، نحو، فقہ، اصول فقہ، منطق، مشکوۃ شریف، جلالین تک اپنے و الد ماجد ﷫ سے پڑھیں۔

         ابھی آپ کا فیہ نحو کی مشہور درسی کتاب پڑھتے تھے کہ غزالی ِزماں،رازیِ دوراں ،ضیغم اسلام ، علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی ﷫نے آپ سے ‘‘عدل ’’ کے متعلق سوال فرمایا۔ آپ نے بہت عمدہ جواب عرض کیا آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا مولانا صاحب!اپنا بیٹا مجھے دے دو۔

           آپ کے والد ماجد نے جواباً عرض کیا حضور! ابھی بچہ ہے آپ کی بات سمجھنے کے لا ئق ہوجائے تو پھر آپ کی خدمت میں پیش کردوں گا۔۔ چنانچہ حسبِ وعدہ آپ کو مشکوۃ ، جلالین کی تکمیل کے بعد جملہ علوم عقلیہ و نقلیہ کی تکمیل اور علم ِحدیث کے حصول کیلئے غزالی ِزماں، رازی دوراں، قبلہ کاظمی کریم ﷫کی خدمت میں پیش کردیا۔ آپ نے تقریباً بیس سال کی عمر مبارک میں ۱۷شوال المکرم ۱۳۷۸ھ بمطابق ۲۶اپریل۱۹۵۹ء کو جامعہ انوار العلوم ملتان سے سند فراغت حاصل فرمائی۔ پھر آپ نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فاضل عربی کا امتحان پاس کیا اور بعد ہ آپ نے اپنے والد ماجد سے علم ِتصوف میں تحفہ مرسلہ، لوائح ِجامی شریف، توفیقیہ شریف، اور مثنوی شریف، وغیرہ پڑھ کر حدیث شریف اور جملہ علوم عقلیہ و نقلیہ کی سند فراغت حاصل فرمائی۔ جس سال    آپ نے جامعہ انوار العلوم ملتان سے سند فراغت حاصل کی اسی سال جامعہ انوار العلوم کے سالانہ جلسہ دستار فضیلت میں حضور نبی کریم رؤف الرحیم ﷺجلوہ گر اور ضوفگن تھے۔ الحمد للہ حمد اکثیرا۔ کرم بالائے کرم

           غزالی زمان، رازی دوراں ،علامہ سید احمد سعید کاظمی ﷫کے علاوہ مفتی ِاعظم آگرہ حضرت علامہ مفتی عبدالحفیظ حقانی اشرفی ﷫ (والدِ ماجد استاذ العلماء علامہ محمد حسن حقانی صاحب ﷫)اور مفتیِ ملت حضرت علامہ سید مسعود علی قادری ﷫ (والد ماجد مبلّغِ اسلام علامہ سید سعادت علی قادری ﷫و ڈاکٹر مفتی سید شجاعت علی قادری﷫)اور حضرت علامہ مولانا امید علی خان گیاوی ﷫سے بھی شرف تلمذ حاصل کیا ۔

سند الحدیث من الشیخ المحقق:

          شیخ المحققین برکۃ ِرسول اللہ ﷺفی الہند ،محقق علی الاطلاق ،سند المحدثین ،شیخ عبدالحق محدّثِ دہلوی ﷫جن کو ہر رات حضور ا کرم ﷺکا دیدار نصیب ہوتا تھا …زہے نصیب…نے فراغت والے سال حضرت علامہ فیضی صاحب ﷫کو عالم رؤیا میں خود سندِ حدیث عطا فرمائی۔الحمد للہ علیٰ ذٰلک۔

           آپ اپنے اعلیٰ علمی و روحانی مرتبہ و مقام کی وجہ سے بزرگان ِتونسہ شریف، گولڑہ شریف، سیال شریف اور قبلہ مفتی ِاعظم ہند، قطب مدینہ شیخ ضیاء الدین مدنی، شیخ علاء الدین بکری مدنی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی توجہ کا مرکز رہے ۔

اجازت و خلافت:

           آپ کو شہزادہ ٔ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند حضرت مفتی مصطفیٰ رضا خاں بریلوی ﷫نے حدیث،تفسیر ،و فقہ ،وغیرہ تمام علوم ،اور تمام سلاسل ،میں اجازت و خلافت عطا فرمائی،اور قطب ِمدینہ شیخ العربِ و العجم حضرت سیدی ضیاء الدین احمد قادری مدنی ﷫نے بھی اجازت ِحدیث ،و تمام علوم ،و تمام سلاسل ،میں اجازت و خلافت عطا فرمائی۔

          غزالی زماں، رازی دوراں ،امام ِاہلسنّت حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی ﷫نے بھی حدیث و تفسیر وغیرہ تمام علوم و  سلسلہ چشتیہ صابریہ، اور قادریہ رضویہ، اور تمام سلاسل ،میں اجازت و خلافت سے نوازا۔میرے مرشد کریم ،سلطان العارفین قلندروقت، حضرت مولانا خواجہ غلام یٰسین شاہ جمالی ﷫نے بھی تمام سلاسل میں خلافت سے نوازا اور بار بار فرمایا کہ مرید کیا کرو۔قطبِ مکہ حضرت شیخ سید محمد امین کتبی ﷫اور شیخ مدینہ حضرت شیخ علاؤ الدین المد نی البکری ﷫نے بھی آپ کو اجازت و خلافت سے نوازا۔

 

جامعہ مدینۃ العلوم کا سنگ بنیاد:

          آپ نے فراغت ِعلوم عقلیہ و نقلیہ کے بعد ۱۱ذوالحجۃ ۱۳۷۹ھ کو اپنے آبائی گاؤں بستی فیض آباد علاقہ اوچ شریف مدینۃ الاولیاء ، ضلع بہاول پور میں ایک بڑے ادارے جامعہ مدینۃ العلوم کی بنیاد رکھی ،یہ ادارہ اپنی مثال آپ تھا، ایک گاؤں میں علم و عرفان کے سمندر جاری ہوگئے۔ مختصر عرصہ میں یہ اد ارہ پورے پاکستان بلکہ برِّصغیر میں اچھی شہرت حامل ہوگیا اور پاکستان کے اطراف و اکناف افغانستان، غزنی، بنگلہ دیش سے تشنگانِ علوم و معارف اپنی علمی و روحانی پیاس بجھانے کیلئے جوق در جوق گاؤں میں آن پہنچے۔

          ادارہ ہذا ۱۲ جمادی الثانی ۱۳۸۸ھ تک علم و حکمت کے دریا بہاتا رہا اور تشنگان علوم ومعارف کی پیاس بجھاتا رہا۔

جامعہ فیضیہ رضویہ احمد پور شرقیہ کا قیام:

          ۱۲جمادی الاولی ۱۳۸۸ ھ کو آپ نے یہ ادارہ بستی فیض آباد اوچ شریف سے احمد پور شرقیہ منتقل فرمایا اور ‘‘ جامعہ فیضیہ رضویہ’’ کے نام سے اپنے ذاتی مکان محلہ سعید آباد امیر کالونی کچہری روڈ میں اسکی نشا ۃثانیہ فرما کر تعلیم و تدریس کا اہتمام فرمایا جو کہ آج تک جاری و ساری ہے نیزاس جامعہ کا سنگ ِبنیاد آپ کے استاذ ِمکرّم غزالی زماں ﷫نے رکھا ۔

جامعہ فیضیہ رضویہ فیض الا سلام کا قیام:

          ۲۱ مارچ۱۹۹۵ ء کو آپ نے اپنے ذاتی پلاٹ ۵ کنال میں اس جامعہ کی بنیاد اس وقت رکھی جب آپ کے والد محترم حضرت مولانا علامہ محمد ظریف فیضی ﷫اس دار فانی سے رحلت فرما کر عالم برزخ جلوہ گر ہوئے ،آپ کا مزار مبارک اسی جامعہ فیض الاسلام میں مرجع خلائق ہے۔ انشاء اللہ ادارہ آنے والے وقت کا عظیم ترین اور مثالی ادارہ ہوگا۔ آپ کا سالانہ عرس مبارک جامعہ فیض الاسلام دربار فیضیہ چشتیہ نزد ریلوے لائن محلہ قریش آباد احمد پور شرقیہ میں ۲۰، ۲۱ مارچ کو احتشام سے ہوتا ہے۔ حضرت اباجی قبلہ ﷫ کا مزار بھی اپنے والد ماجد کے پہلو میں ہے آپ کا عرس مبارک ہر سال ۲۹،۲۸ جمادی الاول کو ہوتا ہے ۔

آپ ﷫ ،بطورِ محدّث و مفسّر:

          حضرت بیہقی وقت ﷫دیگر اساتذہ کے ساتھ خود بھی تدریسی فرائض انجام دیتے تھے بالخصوص تفسیر و حدیث کی تدریس میں مہارت تامہ کے مالک تھے اسی لئے آپ تقریباً ہر سال ماہ رمضان المبارک میں دورہ تفسیر القرآن تمام علوم و فنون کے ساتھ خود پڑھا تے تھے ۔ جس میں دور دراز سے علماء کرام اور طلباء شامل ہو کر علمی و روحانی فیض پاتے تھے ۔ آپ کو فن حدیث سے خاص شغف تھا۔ اس کا اندازہ آپ کی بے مثال و نایاب لائبریری سے کیا جاسکتا ہے کہ جتنا احادیث کا ذخیرہ آپ کے پاس ہے شاید آپ کو کسی اور لائبریری میں ملے۔ کیوں کہ آپ جب بھی حرمین شریفین تشریف لے جاتے تھے تو کتب احادیث کے انبار لاتے ۔ جو دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتا تھا، باقی سامان الیکٹرونک وغیرہ کچھ بھی نہیں ہوتا تھا صرف کتب کا ذخیرہ ہوتا تھا۔ آپ دورہ حدیث شریف کی تدریس کے فرائض بھی خود انجام دیتے تھے۔نیزآپ نے دو مرتبہ جامعہ ہدایت القرآن ملتان اور ایک مرتبہ جامعہ رکن الاسلام حیدر آباد میں اورایک مرتبہ مدرسہ رضویہ مصباح القرآن میں دورہ تفسیر القرآن پڑھایا ۔

          ۷جنوری۲۰۰۲؁ء ۲۲شوال المکرم۱۴۲۲؁ھ بروز پیر کو آپ جامعۃ المدینہ گلستان جوہر کراچی میں بطور شیخ الحدیث تشریف لائے تھے اور بخاری و ابو داؤد، نسائی ابن ماجہ و مو طائین کے اسباق آپ نے پڑھائے اور مسلسل تین سال آپ جامعۃ المدینہ میں شیخ الحدیث کے طور پر پڑھاتے رہے۔جامعۃ المدینہ کے طلباء حضرت اباجی قبلہ ﷫سے فیض لینے کیلئے حاضر رہتے۔

         پھر آپ ۲۰۰۵؁ء دارالعلوم برکاتیہ میں کچھ ماہ حدیث پڑھائی پھر جامعہ فیضیہ رضویہ احمد پور شرقیہ میں آخر سال تک آپ نے دورہ حدیث کرایا دارالعلوم برکاتیہ میں حضرت ابا جی قبلہ ﷫نے ابن ماجہ، اور موطا امام محمد، اور سراجی ،کے اسباق میرےذمہ لگائے پھر جامعہ فیضیہ رضویہ احمد پور شرقیہ میں یہ اسباق آخر سال تک مکمل نصاب میں نے پڑھایا اور یہ حضرت ابا جی قبلہ ﷫کی نگاہ کرم اور انکی دعا تھی۔

آپ﷫ بطور مناظرِ اسلام:

          ماضی میں جب مقام مصطفیﷺ اور عظمت ِصحابہ و اہلبیت، اور ولایت اولیاء اللہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر مذاہب باطلہ کے پے در پے حملے ہوئےتو ایسے میں اللہ جل جلالہ اور ر سول اللہﷺ کے شیر اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے ہم مسلک علمائے اہلسنّت اور مشائخ عظام کے شانہ بشانہ و ہ کام کیا اور ان کو وہ دندان شکن اور مسکت جواب دئیے کہ مذاہب باطلہ کے محل لرز اٹھے ۔آپ نے حق کواجاگر کرنے کیلئے باطل سے کئی مناظرے کیے ۔ جن کا احصاء ممکن نہیں چند اہم مناظرے مندرجہ ذیل ہیں۔

(1)    آپ نے گِدہ پور علاقہ روہیلانوالی، ضلع مظفر گڑھ میں مولوی سعید احمد چتروڑگھڑی مشہور گستاخ ِرسول غیر مقلد نجدی سے مناظرہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح مبین عطا فرمائی اور اسے ذلت آمیز شکست فاش دی۔ پھر آخر تک مولوی سعید احمد چتروڑ گڑھی سامنے آنے سے عاجز رہابلکہ آپ کے نام سے لرز جاتا تھا اور وہ مقام چھوڑنے پر مجبور و بے بس ہوجاتا تھا۔ آج تک عینی شواہد موجود ہیں۔

(2)    اسی رسوائے زمانہ ،غیر مقلد مولوی سعید احمد چتروڑ گڑھی سے موضع لاڑ کے نزدیک (ضلع ملتان)مناظرہ طے پایا مگر مقرر تاریخ پر علامہ فیضی صاحب ﷫بمع کتب و تلامذہ مقررہ مقام پر پہنچ گئے۔ مگر جب اس مولوی سعید کو معلوم ہوا کہ قبلہ علامہ فیضی صاحب جلوہ گر ہیں تو ا س نے بھاگ نکلنے میں اپنی عا فیت سمجھی۔ آج بھی ہزاروں ا فراد اس بات کے عینی گواہ موجود ہیں پھر اسی مقام پر اسی روز جشن فتح کا جلسہ بڑی دھوم دھام سے منایا گیا۔ جس میں علامہ فیضی صاحب ﷫نے بطورِمہمان خصوصی آخر میں خطاب لاجواب سے لوگوں کو محظوظ و مسرور کیا۔

(3) آپ نے شیعہ مولوی قاضی سعید الرحمان سے علاقہ جندو پیر لیاقت پور ضلع رحیم یار خان میں مناظرہ کیا جو کہ رات گئے تک ہوتا رہا۔ جس میں قاضی سعید الرحمان شیعہ کو شکست فاش ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہمیشہ کی طرح کامیابی و کامرانی سے ہمکنار فرمایا۔ اس میں شہر احمد پور شرقیہ کے چند شیعہ حضر ات بھی موجود تھے جو کہ آج تک علامہ فیضی صاحب ﷫کی حقانیت و علمی مقام کے معترف ہیں۔ اور اپنی شکست اور اپنے مولوی کی ہار کو تسلیم کرتے ہیں۔ جب قاضی سعید الرحمان مبہوت ہوا تو کہنے لگا کہ حضرت علی مومن نہیں۔ آپ نے اس سے یہی تحریر لے لی اور اس نے بھی اپنے قلم و ہاتھ سے لکھ دیا حضرت علی مومن نہیں ، آج تک وہ ریکارڈ میں موجود ہے۔

(4) ۲۴ دسمبر ۱۹۹۷ء کو آپ نے ایک غیر مقلد وہابی مولوی عبید الرحمن سکنہ دائرہ دین پناہ ضلع مظفر گڑھ سے مناظرہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب لبیب ﷺ کے طفیل آپ کو فتح نصیب فرمائی۔ اور اسے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا علامہ فیضی صاحب ﷫ نے اسی وہابی مولوی سے یہ تحریر لکھوائی جو کہ نجدیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔‘‘شفاعتِ پیغمبر ﷺبرحق ہے ،جو بھی اس کا منکر ہے وہ کافر ہے۔جونبی ﷺکی شفاعت کے متعلق لکھتا ہے کہ شفاعت مصطفی ﷺبرحق ہے۔ اس کو ابو جہل جیسا مشرک کہنے والا(جیسا کہ مولوی اسماعیل قتیل نے اپنی کتاب تقویت الایمان کے ۳۳۰ پر لکھا ہے)ہمارے نزدیک کا فر ہے۔’’ اس سے بڑھ کر حقانیت کی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ وہابی شاطر نے اپنے منہ سے اپنے بڑے مولوی اسماعیل کو کافر لکھ دیا۔ فللہ الحمداس مناظرہ میں پیرطریقت حضرت قبلہ فقیر محمد باروی صاحب ﷫اور حضرت علامہ مولانا محمد ہاشم صاحب باروی﷫ اور مفتی   محمداکرام المحسن فیضی صاحب بھی اس میں حضرت قبلہ ﷫کے ہمراہ تھے۔

(5) آپ ﷫ کی کتابِ لاجواب بنام ‘‘مقام رسولﷺ’’ پر مخالفین نے ای ،اے ،سی، احمد پور شرقیہ کی عدالت میں ۱۹۸۴ء میں درخواست دی۔ اسی کتاب پر عدالت میں وکلاء، اور دانشوروں ،کے سامنے مناظرہ طے ہوا۔ وہاں بھی ان کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ علامہ فیضی صاحب ﷫کی طرف سے دلائل قاہرہ کے انبار تھے اور ادھر لغویات تھیں۔بالاخر ای ،اے،سی ،نے پولیس کو کمرہ ٔ عدالت میں طلب کرکے ان کی خوب     پٹائی کرائی۔فللہ الحمد

(6) پھر کچھ عرصہ بعد ہائی کورٹ بہاول پور میں آپ﷫ نے مقام رسولﷺ پر قائم اعتراضات پر مناظرہ فرمایا الحمد للہ اس میں بھی آپ کوتاریخی کامیابی ملی اور اسی شب جسٹس محبوب احمد صاحب کی دعوت پر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے تحت محفل میلاد النبیﷺ میں خصوصی خطاب فرمایا۔

(7) ۱۹ جون ۲۰۰۲؁ء بمطابق ۷ ربیع الثانی۱۴۲۳؁ھ کو آپ نے روا فض سے تاریخی مناظرہ انٹر نیٹ پر فرمایا جو کہ رات 10:30بجے شروع ہوا اور صبح 09:00بجے اختتام پذیر ہوا ان کے چار مجتہدین جو کہ دوبئی، لکھنؤ ،قم، تہران میں بیٹھے ہوئے تھے حضرت بیہقی وقت ﷫نے اکیلے ان چاروں کو شکست فاش دی ان کے مُناظر بدلتے رہے لیکن حضرت بیہقی وقت ﷫اکیلے مناظرہ فرماتے رہے۔ آپ کی معاونت اور حوالہ جات کی تلاش وغیرہ میں آپ کے فرزند اکبر، جانشین بیہقی دوراں،استاذ العلماء، مناظرِ اسلام حضرت علامہ صاحبزادہ مفتی محمد محسن فیضی صاحب دامت برکاتہم آپ کے شاگرد کے شاگرد ،استاذ العلماء ، مناظر ِاسلام آسمانِ تحقیق کے نیّرِ اعظم،حضرت علامہ مولانا مفتی عبدالمجید سعیدی صاحب دامت برکاتہم العالیہ تھے حضرت مولانا مفتی محمد منیر برکاتی، میرے عمین صاحبزادہ حافظ محمد حسن فیضی ،صاحبزادہ حاجی محمد حسین فیضی میرے بھائی مولانا صدیق احمد قادری اورمفتی اکرام المحسن فیضی حضرت بیہقی وقت ﷫کے ساتھ کمرے میں تھے۔ اس مناظرے کی مکمل ریکارڈنگ ہوئی جو کہ اب سی ڈی ‘‘علم کے موتی’’ کے نام سے دستیاب ہے۔

          شیخ الحدیث وا لتفسیر ، استاذ العلماء ، مناظر اسلام رئیس المحققین حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عبدالمجید صاحب سعیدی دامت برکاتہم نے اس مناظرہ کو مکمل تحریر فرمایا ہے اور ان شاء اللہ عنقریب وہ منظر عام پر آجائے گا۔

آپ بطور شیریں بیاں خطیب:

          جہاں آپ ایک قابل ترین مدرس ،و مفسر، و محدث، تھے وہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو فنِّ خطابت میں بھی بے پناہ صلاحیت عطا فرمائی تھی۔ آپ کی زبان مبارک میں وہ شیرینی تھی کہ سننے والا یکسوئی کے ساتھ محو ہو کر آپ کے خطاب لاجواب سے مستفید ہوتا تھا آپ جماعت اہلسنّت کے مایہ ناز خطیب تھے۔

          آپ جامعہ فیضیہ رضویہ کی نورانی جامع مسجد میں خطابت کے فرائض بلامعاوضہ انجام دیتے رہے بلکہ آپ اپنی ذاتی آمدنی سے جامعہ فیضیہ و فیض الاسلام کے اخراجات برداشت کرتے تھے ایک بزرگ عالم دین عاشق رسول اللہ حافظ مولانا محمد عارف صاحب احمد پوری ﷫نے علامہ فیضی صاحب ﷫اور ان کے والد محترم علامہ محمد ظریف صاحب فیضی ﷫کو لوگوں کی موجودگی میں بتایا اے علامہ فیضی صاحب!حضرت خضر علیہ السلام پہلے بھی آپ کو شرف بخشنے کیلئے آپ کے پیچھے نماز جمعہ ادا فرما گئے ہیں اور آئندہ جمعہ بھی آپ کے پیچھے اسی نورانی جامع مسجد میں ادا فرمائیں گے۔ انسانی لباس و خوش شکل و صورت میں ہوں گے۔ نورانی شفاف چہرہ ہوگا سفید چمکدار ریش مبارک ہوگی اور سفید لباس میں ملبوس ہوں گے۔ اور ان کے ہاتھ ریشم کی طرح نرم و ملائم ہوں گے او ر داہنے ہاتھ کے انگوٹھے کی ہڈی نہیں ہوگی بالکل نرم و نازک انگوٹھا ہوگا۔ اسی جمعہ کئی حضرات نے حضرت خضر علیہ السلام سے مصافحہ کیا۔(کما صلی النبینا خلف ابی بکر الصدیق و عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما و جبرائیل علیھم السلام تشریفا لھم)اس سے قبل آپ ان مقامات پر خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے ۔

1۔      جامع مسجد دربار حضرت سید جلال الدین بخاری ﷫،اوچ شریف

2۔      جامع مسجد دربار حضرت مخدوم جہانیاں جہانگشت ﷫، اوچ شریف

3۔      جامع مسجد کرنل عبدالطیف محلہ سرور شاہ ،احمد پور شرقیہ

4۔      جامع مسجد داروغہ اللہ ڈیوایا محلہ شکاری ،احمد پور شرقیہ

          تبلیغِ دین کے سلسلے میں آپ نے اندرون و بیرون ملک کئی دورے فرمائے تھے، حج بیت اللہ کے موقع پر آپ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران میلاد شریف کی محافل میں حضرت قبلہ مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان صاحب ﷫ (بریلی شریف)، قطب مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی ﷫، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی ﷫، فقیہ اعظم حضرت مولانا نور اللہ بصیر پوری ﷫،مفتی محمد حسین قادری صاحب ﷫ کی صدارت میں اردو، عربی میں علماء مصر و شام کی موجودگی میں تقاریر فرما کر علماء عرب وعجم اور بزرگان ِاسلام کے دل موہ لیے۔ آپ کی تقاریر کی آڈیو کیسٹ عربی، اردو ،اور سرائیکی میں مختلف موضوعات پر موجود ہیں غالباً( 1998)میں آپ ﷫شیخ عیسٰی مانع صاحب مدظلہ کی دعوت پر دوبئی تشریف لے گئے اور کئی محافل سے خطاب فرمایا ۔

علامہ فیضی صاحب ﷫بارگاہِ رسالت مآب ﷺمیں:

          جس سال آپ ﷫کی جامعہ انوار العلوم ملتان کے سالانہ جلسۂ دستار فضیلت میں دستار بندی تھی ، حاجی محمد حنیف فیضی مرحوم جو کہ آپ ﷫کے خالو تھے یہ بھی آپ کی دستار بندی میں شرکت کیلئے باغ لانگے خاں ملتان آئے نماز کے دوران تشہد میں انکی آنکھ لگ گئی حضور ﷺکی زیارت کی ،دیکھا کہ حضور نبی کریم ﷺ لوگوں کو جلسہ گاہ کی طرف بلا رہے ہیں، حاجی محمد حنیف مرحوم حضرت علامہ مولانا محمد ظریف فیضی رحمۃ اللہ علیہ کے چچا زاد بھائی اور غوث زماں استاذ الاساتذہ حضرت مولانا خواجہ فیض محمد شاہ جمالی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے اس وقت یہ وہابیت کی طرف مائل ہو رہے تھے اس واقعہ کے بعد انہوں نے اس سے تو بہ کی۔

          اس سے جہاں حضرت غزالی زماں ﷫کے جامعہ انوار العلوم کی مقبولیت ہے وہاں آپ کی مقبولیت بھی ہے آپ کی بھی اس جلسہ میں دستار بندی ہوئی تھی۔

مقام رسول ﷺکی تصنیف کے بعد آپ پر کرم:

          آپ نے جب ‘‘مقام رسول ﷺ’’تصنیف فرمائی اس کے بعد آپ کو حضور نبی کریم ﷺکا دیدار نصیب ہوا تو          ‘‘مقام رسول ﷺ ’’آپ کے ہاتھ میں تھی اور آپ خوشی و مسرت کا اظہار فرمارہے تھے کہ میری شان اور مقام پر تم نے بہترین   کتاب تالیف کی ہے اس کے بعد حضور نبی کریم ﷺنے مہر تصدیق ثبت فرمائی کہ اسمیں جو بھی ہے حق ہے ۔اس کتاب میں ایک ایسی حدیث شریف بھی موجود ہے جس کی تصدیق حضورﷺ نے فرمائی ۔

وہ حدیث شریف یہ ہے :۔               ‘‘ان اللہ قد رفع لی الدنیاء و انا انظر الیہا والی ماھو کائن فیہا الی یوم القیامۃ کانماانظر الی کفی ھذہ ’’ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ واقعی یہ میری حدیث ہے۔

آپ کی زیارت و دعا پر نجات :

          ایک صوفی، عاشق رسول ا درود شریف کثرت سے پڑھنے والے نے مسجد میں یہ حلفاً بتایاکہ اکتوبر ۱۹۹۷؁ء کو میں نے حضرت شیخ الحدیث و التفسیر علامہ فیضی صاحب ﷫کو مدینہ شریف میں قدمین شریفین میں دیکھا کہ آپ دلائل الخیرات پڑھ رہے ہیں اور سرکار مدینہ ﷺ مواجہہ شریف سے تشریف لارہے ہیں اور حضرت علامہ فیضی صاحب ﷫کی جانب اشارہ فرماکر حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا! کہ جس نے اس کی زیارت کی اس کی بخشش ہوگئی اور جس کے حق میں اس نے دعا کی اس کی بھی بخشش ہوگئی اس سے پتہ چلا کہ آپ واقعی اسم بامسمیٰ منظور احمد تھے۔

حضور ﷺسے سلام کا جواب:

          رمضان المبارک۱۴۲۴؁ ھ کے اول دنوں میں مفتی محمد اکرام المحسن کو بھی اپنے اباجی قبلہ شیخ الحدیث و التفسیر علامہ مفتی محمد منظور احمد فیضی ﷫کی معیت میں بیت اللہ، و روضہ رسول اللہﷺ، کی زیارت کا شرف نصیب ہوا حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں جب پہلی مرتبہ سلام عرض کرنے حاضر ہوئے ا س کے بعد حضرت قبلہ ﷫نے آپ سے فرمایا ا کرام! تمہیں سلام کا جواب ملا ہے؟مجھے تو سلام کا جواب ملا ہے۔ آپ   نے عرض کی !میں تو بہت گناہ گار ہوں آپ اس قابل بنادیں۔

قیام مدینہ شریف کے دوران آپ ﷫پر کرم :

          جامعۃ المدینہ گلستان جوہر کراچی کے ایک فاضل، حضرت اباجی قبلہ ﷫کے شاگرد رشید کا بیان ہے کہ ۲۰۰۲؁ء میں رمضان المبارک میں ہم مدینے شریف میں حضرت استاذ علامہ فیضی صاحب قبلہ ﷫کی خدمت میں اکثر و بیشتر حاضری دیتے ایک مرتبہ حضرت استاذ صاحب قبلہ ﷫نے فرمایا کہ باب مجیدی کے قریب حضرت سیدی قطب مدینہ امام ضیاء الدین احمد القادری المدنی ﷫کے آستانہ کے پاس مجھے حضور نبی کریمﷺ نے زیارت کا شرف بخشا۔

سرکار ﷺکا آپ پر کرم :

          یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب ابا جی قبلہ ﷫کی طبیعت ناساز تھی اور آپ کے ڈائلا سز ہوتے تھے اور اس کے باوجود آپ درس بخاری دیتے تھے۔

          ۲۷فروری ۲۰۰۴ ؁ء بروز جمعۃ المبارک بعد جمعہ حضرت مولانا فضل احمد صاحب کریمی جو کہ آ پ کے تلامذہ میں سے ہیں اور جامع مسجد طیبہ صغیر سینٹر کراچی میں امام و خطیب اور عاشق رسول ﷺ ہیں۔ میں نے خود ابا جی قبلہ ﷫سے سنا کہ ان کواکثر دربار گوہر بارسرکار دو عالم ﷺ کی حاضری نصیب ہوتی ہےاور وہ تشریف لائے ابا جی قبلہ ﷫نے فرمایا۔ مولانا!آپ کو حضور نبی کریم ﷺکی بارگاہ میں حاضری کا شرف حاصل ہوتا رہتا ہے ۔آپ میری صحت یابی کیلئے سرکار ﷺکی بارگاہ میں عرض کرنا۔

          چند دن بعد مولانا فضل احمد صاحب کریمی تشریف لائے اور حضرت ابا جی قبلہ ﷫سے عرض کی کہ حضور جمعرات کو مجھ پر کرم ہوا او ر سرکار ﷺکی بارگاہ میں حاضری نصیب ہوئی ،اورانہوں نے بتایا کہ سرکار علیہ ﷺکا دربار عالیشان لگا ہوا تھا اولیاء کرام علیہم الرحمۃ و الرضوان حاضر تھے میں حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی کہ ہمارے استاذ صاحب پر کرم فرمائیں (استاذ صاحب سے مراد اباجی قبلہ﷫) تو سرکار ﷺمسکرائے اور کوئی جواب ارشاد نہ فرمایا۔

          پھر میں نے عرض کی ہمارے استاذ صاحب پر کرم فرمائیں وہ صحت یاب ہوجائیں تو آپ ﷺمسکرائے کوئی جواب ارشاد نہ فرمایا۔ تیسری بار بھی ایسا ہوا مولانا فضل احمد صاحب کہتے ہیں کہ میں حیران تھا کہ آپﷺ مسکرائے کوئی جواب نہ عنایت فرمایا کہ اسی حالت میں محفل برخاست ہوگئی۔ حضرت سلطان باہو ﷫تشریف لائےاور فرمایا ! پریشان نہ ہو حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ محمد منظور احمد فیضی جتنے دن بیمار رہا ہے ہمارے قرب میں رہا ہے اب زندگی کے بقیہ ایام خیریت سے گذریں گے۔

          اس کے بعد حضرت ابا جی قبلہ ﷫کے ڈائلا سز کبھی ایک ماہ بعد ہوتے اور کبھی پندرہ دن بعد ہوتے تھے۔

موت کے وقت دیدار کی عرضی قبول ہوئی:

          حضرت ابا جی قبلہ ﷫تقریباً ہر بیان و درس وخطاب میں دعا میں فرماتے تھے کہ خاتمہ ایمان پر ہو، مرتے وقت حضورﷺ کا دیدار نصیب ہو ،اور فرماتے میرے لب ہوں ،اور سرکار ﷺکے قدم ہوں، اور روح پرواز کرجائے۔

          یہی بات حضرت اباجی قبلہ ﷫نے مولانا فضل احمد کریمی صاحب سے فرمائی کہ آپ سرکار ﷺکی بارگاہ میں عرض کرو۔ ۸ ربیع الثانی ۱۴۲۵؁ھ شب جمعہ مولانا فضل احمد صاحب کریمی کا فون آیا کہ گزشتہ شب جمہ یعنی یکم ربیع الثانی ۱۴۲۵؁ کو حضور ﷺ نے فرمایا محمد منظور احمد فیضی سے کہو تیری یہ عرضی قبول ہے ،بوقت موت دیدار بھی کراؤنگا ،اور ذکر اللہ بھی نصیب ہوگا ،اور فرمایا کہ ہماری اس پر ہر وقت نگاہ کرم ہے بیماریاں ترقی درجات کیلئے ہیں پریشان نہ ہو۔

          حافظ مولانا فضل احمد کریمی صاحب نے عرض کیا استاذ صاحب آپ اس کو کسی جگہ تحریر فرمالیں حضرت ابا جی قبلہ علیہ الرحمہ نے اپنی ڈائر ی میں تحریر فرمایا(جو اب میرے پا س محفوظ ہے)

من قبلہ فی لیلۃ الاحد والا ثنین قال الصدیق و الحیدر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کذالک۔(فافہم وتدبر)

اسی طرح حضرت ابا جی قبلہ ﷫کی ذاتی ڈائری(جو میرے پاس محفوظ ہے)حضرت اباجی قبلہ ﷫۱۰شوال المکرم۱۴۲۳؁ھ ۱۵دسمبر۲۰۰۲؁ھ بروز اتوار کی تاریخ میں عربی میں لکھتے ہیں کہ رات فقیرپر کرم ہوا اور حضور نبی کریم ﷺٓ کی زیارت نصیب ہوئی والد ماجد حضرت مولانا محمد ظریف صاحب فیضی ﷫بھی ساتھ تھے۔

حضرت علامہ فیضی صاحب ﷫فنافی الرسول ﷺ۔

حضرت ابا جی قبلہ﷫ فنا فی الرّسول ﷺکے عظیم منصب پر فائز تھے۔

         جگر گوشہ حضرت شاہ جمالی کریم ﷫استاذ العلماء ، پیر طریقت حضرت علامہ مولانا محمد اعظم شاہ جمالی دامت برکاتہم العالیہ نے فرمایا کہ آپ فنا فی الرسولﷺ ہیں۔

بیہقی ِزماں اکابرین ِملّت کے نظر میں۔

حضرت شاہ جمالی کریم ﷫،اور بیہقی زماں﷫

          حضرت ابا جی قبلہ ﷫کے مرشد کریم، محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد چشتی قادری ﷫کے استاذ الاستاذ، شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی ﷫کے استاذ الاستاذ ،جامع المعقول و المنقول حضرت علامہ عطاء محمد بندیالوی ﷫کے استاذ الاستاذ، غوث زماں،سلطان العارفین استاذ العلماء ،و العرفاء ،امام اہل التحقیق و التدقیق، حضرت خواجہ مولانا فیض محمد شاہ جمالی ﷫نے بیعت کے وقت ۷ ربیع الثانی ۱۳۵۹؁ھ کو فرمایا کہ باپ سے بڑا عالم ہوگا۔

          نیز اس کے بعد آپ کے والد ماجد استاذ العلماء حضرت علامہ مولانا محمد ظریف فیضی ﷫متوفی1995؁ء کو خواب میں فرمایا کہ تیرا بیٹا ولی اللہ ہے آپ نے عرض کی حضور نے فرمایا تھا کہ بڑا عالم ہوگا آپ نے فرمایا کہ بڑا عالم بھی ہے اور ولی اللہ بھی ہے۔

          آپ حضرت ابا جی قبلہ﷫ کے بارے میں فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا محبوب دیا ہے۔نیز خطوط میں آپ کا نام اس طرح تحریر فرماتے فرزند ارجمند السلام علیکم، برخوردار محمد شریف(منظور احمد)را دعا و پیار، بر خود دار محمد شریف راد دعا و ناصیہ بوسی۔

حضور مفتی اعظم ﷫اور بیہقی دوراں﷫ :

          حضور مفتی اعظم عالم ِاسلام، شہزادہ ٔ اعلیٰ حضرت حضرت سیدی مفتی مصطفیٰ رضا خان بریلوی قادری ﷫ ۱۳۹۱؁ھ بمطابق ۱۹۷۱؁ء حرمین شریفین حاضر ہوئے تو حضرت ابا جی قبلہ اور حضرت جد امجد علیہما الرحمہ بھی اس سال حج کیلئے حاضر تھے۔ شیخ العرب و العجم سیدی قطب مدینہ امام ضیاء الدین احمد القادری المدنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو کہ حرم مکہ میں تشریف فرما تھے نے فرمایا بیٹے منظور احمد! میرے مرشد کے شہزادے حضور مفتی اعظم تشریف لارہے ہیں میں ان کیلئے حاضر ہوا ہوں آ پ بھی ان کی زیارت کرنا وہ ولی اللہ ہیں آپ کو دلی سکون میسر ہوگا اباجی قبلہ فرماتے تھے ایسا ہی ہوا تھا اور پہلے مکہ شریف میں حضرت مفتی اعظم ﷫کی زیارت کی پھر مدینے شریف میں حاضر ہوئے حضرت سیدی قطب مدینہ کے آستانہ   عالیہ پر محفل میلاد شریف میں حضور مفتی اعظم﷫ کی صدارت میں سیدی قطب مدینہ نے اباجی قبلہ ﷫کو حکم دیابیٹے منظور احمد! تم تقریر کرو توابا جی قبلہ نے خود فقیر راقم الحروف سے فرمایا کہ میں نے تقریر کی تو حضور مفتی اعظم ﷫نے تقریر کے بعد فرمایا کہ میں سمجھتا تھا کہ پاکستان میں محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد صاحب ﷫کے وصال کے بعد کوئی محدّث نہیں ہوگا لیکن الحمد للہ مولانا محمد منظور احمد فیضی جیسے محدث موجود ہیں۔ اور آپ کو بے شمار دعاؤں سے نوازا نیز تمام علوم اور حدیث کی اجازت و خلافت عطا فرمائی حضور مفتی اعظم ﷫نے آپ کا نام سند پر خود اپنے قلم سے اس طرح لکھا۔‘‘الفاضل الامجد مولینا منظور احمد الفیضی سلمہ’’ نیز اپنے قلم سے سند پر اجازۃ الحدیث اور سیدی اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کے نام سے پہلے لکھا ‘‘و بکل ما اجا زنی’’ یعنی ہر جمیع علوم وجمیع فنون وجمیع سلاسل کی اجازت دیتا ہوں جو مجھے میرے والدماجدسیدی اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے دیں۔اعلیٰ حضرت عظیم البرکت ، مجدد دین و ملت ، امام اہلسنّت سیدی امام شاہ احمد رضا خان محدث بریلوی ﷫نے جو اجازات اپنے لخت جگر حضور مفتی اعظم عالم اسلام، مرجع علماء انام، محدث اعظم، مفسر اکرم، حضرت سیدی الشاہ مصطفی رضا خان ﷫کو عنایت فرمائیں وہ حضور مفتی اعظم﷫ نے میرے ابا جی قبلہ بیہقی دوراں علامہ مفتی محمد منظور احمد فیضی ﷫کو دیں۔ حضور مفتی اعظم ﷫نے جو ‘‘سند الاجازۃ’’ میرے ابا جی قبلہ﷫ کو دی وہ فقیر کے پاس محفوظ ہے اس کا عکس کتاب ہذا کے آخر میں موجود ہے۔

سیدی قطب مدینہ ﷫،اور بیہقی زماں﷫:

          شیخ العرب و العجم قطب مدینہ امام ضیاء الدین احمد القادری المدنی ﷫آپ سے بہت محبت و شفقت فرماتے تھے حضرت ابا جی قبلہ ﷫فرماتے تھے کہ فقیر سیدی قطب مدینہ کی زیارت سے مدینہ منورہ میں بارہا مشرف ہوا اور ایک دفعہ مکہ مکرمہ مسجد حرام شریف میں مستفیض ہوا اور حضرت ابا جی قبلہ ﷫قیام مدینہ منورہ کے دوران عموماً رات کو حضرت سیدی قطب مدینہ کی بارگاہ میں حاضری دیتے۔

          حضرت سیدی قطب مدینہ ﷫نے حضرت ابا جی قبلہ سے بہت دفعہ تقریریں اور نعتیں سنیں ایک دفعہ شام و مصر، غرض عرب و عجم ،کے علماء و مشائخ پر مشتمل محفل میلاد تھی عربی میں تقاریر ہورہی تھیں ہند و پاک کی نمائندگی کیلئے عربی زبان میں خطاب کیلئے حضرت سیدی قطب مدینہ ﷫کی نگاہ کرم نے حضرت ابا جی قبلہ ﷫کو منتخب فرمایا اور حضرت ابا جی قبلہ کو حکم فرمایا کہ آپ عربی میں خطاب کریں تو ابا جی قبلہ ﷫نے عربی زبان میں خطاب فرمایا فقیہ اعظم پاکستان حضرت علامہ مولانا نور اللہ نعیمی بصیر پوری ﷫بھی موجود تھے اور بھی کثیر تعداد میں علماء کرام تشریف رکھتے تھے۔

          حضرت ابا جی قبلہ ﷫کے خطاب کے بعد حضرت سیدی قطب مدینہ ﷫نے بے شمار دعاؤں سے نوازا۔

          حضرت سیدی قطب مدینہ ﷫حضرت ابا جی ﷫کو ازراہ شفقت اکثر بھائی منظور احمد کہہ کر بلاتے اور حکم فرماتے۔

          ایک مرتبہ حضرت سیدی قطب مدینہ ﷫نے فرمایا بھائی منظور احمد میں نے آپ کی کتاب ‘‘مقام رسول ﷺ’’ کو اول سے آخر تک حرف حرف سنا بہت اچھی کتاب ہے۔ اور آپ کواجازت حدیث و خلافت بھی عطاء فرمائی۔ ابا جی قبلہ ﷫ایک مضمون میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدی قطب مدینہ نے فرمایا کہ اعلیٰ حضرت ﷫کی یہ عرضی....

نقصان نہ دے گا تجھے عصیاں میرا

عفو میں کچھ خرچ نہ ہوگا تیرا

جس میں تیرا نقصان نہیں کر دے معاف

جس میں تیرا خرچ نہیں دے مولا

          یہ حدیث کا ترجمہ ہے ،اس کے بعد بہت روئے اور ریش مبارک اشکوں سے تر ہوگئی برجستہ ارشاد فرمایا ! بیٹے میں نے بھی تم کو اجازت دی اور بیٹھ کر مزید اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ دلائل الخیرات، قصیدہ بردہ کی بھی اجازت ہے پھر خوب خوب دعاؤں سے نوازا۔

          حضرت مفتی اعظم ﷫کی ‘‘سندالاجازۃ’’ پر آپ کی تصدیق و تائید فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ ‘‘فقیر ضیاء الدین احمد القادری عفی عنہ اس پر متفق اور مؤید ہے اور دعا کرتا ہے اللہ تعالیٰ مزید توفیق عطا فرمائے ۔آمین’’

غزالی زماں، اور بیہقی دوراں علیہما الرحمہ:

          غزالی زماں، رازی دوراں، امام اہلسنّت حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی ﷫اپنے شاگرد رشید ابا جی قبلہ سے بے حد محبت فرماتے تھے۔

          اور حضرت غزالی زماں ﷫نے آپ کو آپ کے والد ماجد سے مانگا کہ اس کو میں پڑھاؤنگا۔ دوران تعلیم جامعہ انوار العلوم میں رخصت کے بعد آپ کو علیحدہ بھی پڑھاتے تھے۔ جب حضرت ابا جی قبلہ ﷫کا ایکسیڈنٹ مظفر گڑھ میں ہوا پھر آپ کو نشتر ہسپتال ملتان لے جایا گیا تو فوراً حضرت کاظمی صاحب ﷫اپنے بیٹے و شاگرد سے ملنے کیلئے بے تاب تھے جیسے ایک حقیقی بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوا ہو جب تک اپنے شاگرد رشید سے نہ ملے ہسپتال میں ہی تشریف فرما ہوئے پھر جب حضر ت ہسپتال سے احمد پور شرقیہ جانے لگے تو اپنے شیخ و استاذ مکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت غزالی زماں ﷫آپ کی پیشانی پر بار بار بوسہ دے رہے تھے اور دعائیں دے رہے تھے ،اور حضرت کاظمی صاحب قبلہ آپ کی تصنیف لطیف‘‘اسلام اور د اڑھی’’ میں فرماتے ہیں !

‘‘اجز مولف ھذہ الر سالۃ النافۃ، العزیز الفاھم ،البارع ،الذ کی ،المولوی ،منظور احمد الفیضی ،دام بالمجد القوی علی ماالف ،و حرر، و حقق باحسن الکلام الخ’’

آپ کے دوسرے رسالہ‘‘ مختار کل’’ میں فرماتے ہیں۔

          عزیز القدر مولانا محمدمنظور احمد صاحب فیضی سلمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے اختصار کے ساتھ پیش نظر رسالہ سلم المناجیح فی بیان انہ مالک المفاتیح االمعروف ‘‘مختار کل’’ لکھ کر عوام الناس کو متزلزل ہونے سے بچانے کی سعی جمیل کی ہے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے آمین......... سید احمد سعید کاظمی غفرلہ

          اور آپ نے یہ بات بار ہا علی الاعلان فرمائی کہ اگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا اے احمد سعید کاظمی تو دنیا میں کیا کرکے آیا ہے تو میں مولانا منظور احمد فیضی کو پیش کردونگا، حضرت اباجی قبلہ ﷫کے وصال سے ایک سال قبل اوچشریف میں حضرت کاخطاب تھا حضرت علامہ مولانا محمد سراج احمد سعیدی صاحب دامت بر کاتہم نے آپ کے خطاب سے پہلے جب یہی بات جلسہ میں بیان کی ایک سن رسیدہ حاجی صاحب جلسہ میں کھڑے ہوئے اور کہا کہ مجھے حضرت غزالی زماں ﷫کے یہ الفاظ یاد ہیں میں بھی اس جلسہ میں موجود تھا جب غزالی زماں ﷫نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی ۔

          نیز جب آپ جامعہ فیضیہ رضویہ کے سالانہ جلسہ میں آخری بار تشریف لائے تو تقریباً آدھا گھنٹہ حضرت ابا جی قبلہ کی تعریف و توصیف میں گذارا اور فرمایا کہ مولانا منظور احمد فیضی میرا دایاں بازوہے ،اور آپ بہت قابل عالم باعمل مدرس ہیں، آپ نے ان کا ساتھ نہ دیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ عوام اہلسنّت سے پوچھے گا کہ علامہ فیضی صاحب کا تم نے ساتھ کیوں نہ دیا۔

محدث اعظم پاکستان، اور بیہقئی دوراں علیہما الرحمہ:

         محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ مولانا سردار احمد چشتی قادری ﷫نے ابا جی قبلہ ﷫کو 1959؁ء میں جامعہ مدینۃ العلوم اوچ شریف کے قیام پر ایک خط لکھا اور سو روپے جامعہ کے تعاون کیلئے بھجوائے۔ ہوا یوں کہ حضر ت ابا جی قبلہ ﷫نے فراغت کے بعد ایک اشتہار جسمیں دورہ حدیث تک تعلیم کا اعلان تھا حضور محدث اعظم ﷫کی خدمت میں بھیجا حضرت محدث اعظم پاکستان ﷫نے شیخ الحدیث، و التفسیر استاذ العلماء ،فیض ملت ،حضرت علامہ مولانا فیض احمد اویسی صاحب ﷫سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟آپ نے عرض کی کہ یہ استاذ العلماء حضرت علامہ مولانا محمد ظریف فیضی صاحب ﷫کے صاحبزادے اور غوث زماں استاذ الاساتذہ حضرت مولانا خواجہ فیض محمد شاہ جمالی ﷫کے مرید اور غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی ﷫کے شاگرد رشید ہیں ابھی فارغ التحصیل ہوئے ہیں اس کے بعد محدث اعظم پاکستان ﷫نے ابا جی قبلہ کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کیلئے 100روپے روانہ فرمائے۔

شیخ الاسلام ،اوربیہقی دوراں علیہما الرحمہ:

          شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی ﷫کی بھی حضرت ابا جی قبلہ ﷫پر بے حد نگاہ کرم تھی۔

          آپ کی دستار بندی بھی حضرت خو اجہ قمر الدین سیالوی ﷫نے فرمائی تھی پھر آپ جامعہ فیضیہ رضویہ کے سالانہ جلسہ میں حضرت ابا جی قبلہ ﷫کی دعوت پر تشریف لائے۔ اور بے حد دعاؤں سے نوازا اور آپ کی سرپرستی فرماتے رہے۔

حکیم الامت، اور بیہقی دوراں علیہما الرحمہ :

          حکیم الامت ،مفسر شہیر،حضرت علامہ مولانا مفتی احمد یار خاں نعیمی ﷫ابا جی قبلہ ﷫کی تصنیف لطیف ‘‘اسلام اور داڑھی’’ پر اس طرح تقریظ لکھتے ہیں۔

          میں مدرسہ انوار العلوم کے جلسہ میں شرکت کیلئے ملتان حاضر ہوا اور رسالۂ مبارکہ‘‘ ا سلام اور داڑھی’’ کو متعدد مقامات سے بغور سنا الحمد للہ رسالہ مبارکہ کیا ہے سچے موتیوں کی لڑیوں کا مجموعہ ہے اس کے سننے سے مجھے بہت ہی خوشی حاصل ہوئی۔ماشاء اللہ میرے محترم عزیز فاضل لبیب مولانا منظور احمد صاحب نے قرآن و حدیث و عبارات فقہاء کی روشنی میں ثابت کیا ہے الخ

          حضرت حکیم الامت آپ سے بے حد محبت فرماتے تھے اور دعائیں دیتے تھے اور کئی مرتبہ حضرت ابا جی قبلہ ﷫کا خطاب سنا اور بے شمار دعاؤں سے نوازا۔

قلند روقت ،اور بیہقئی دوراں علیہما الرحمۃ:

          میرے مرشد کریم ،امام العارفین، قلندر وقت، سلطان الکاملین حضرت مولانا خواجہ غلام یٰسین شاہ جمالی رحمۃ اللہ علیہ جو کہ میرے ابا جی قبلہ ﷫کے شیخ تھے کہ آپ کو خلافت عطا فرمائی تھی اور سلطان الواعظین، استاذ العلماء ،عارف باللہ ، پیر طریقت، خورشیدِ ملت، حضرت علامہ مولانا خورشید احمد فیضی ﷫اور خطیب پاکستان ،مبلغ اعظم، مجاہد ملت ،حضرت علامہ مولانا خدا بخش اظہر ﷫کے بھی شیخ تھے میرے مرشد کریم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا تعارف آپ ان شاء اللہ ‘‘انوار فیضیہ’’میں پڑھیں گے۔

          میرے مرشد کریم علیہ الرحمہ نے میرے ابا جی قبلہ علیہ الرحمہ کو بہت نوازا اور آپ فرماتے تھے کہ مولانا منظور احمد فیضی میرا محبوب ہے اور آپ کو گھر آکر باربار خلافت دی اور حکم فرمایا کہ مرید کیا کرو۔

          ایک مرتبہ ابا جی قبلہ علیہ الرحمہ سے فر مایا فیضی صاحب !اگر دس محرم کوٹائم ہو تو ہمارے آستانے پر تقریر کرنا خدا تجھے بے شمار مسخّرات سے نوازے گا حضرت ابا جی قبلہ فرماتے تھے کہ میں نے تقریر کی تو واقعی نوازشات ہوئیں۔

گفتہ او گفتہ اللہ بود   گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

          میرے مرشد کریم علیہ الرحمۃ اپنے مریدین و متعلقین و حاضرین کو بار بار فرماتے کہ آپ کی تقریر سنا کرو اور فرماتے کہ یہ ہمارا شیر ہے خود بھی آپ کی تقریر بالمشافہ اور کیسٹوں کے ذریعے سنتے ا ور عشق محبوب و حبیب میں سخت گریہ فرماتے اور جھوم جاتے تھے۔

مفتی ملت ،اور بیہقی دوراں علیہما الرحمہ:

          مفتی ملت ،استاذ العلماء، حضرت علامہ مولانا مفتی سید مسعود علی قادری ﷫نائب شیخ الحدیث ،و نائب مہتمم ،و مفتی جامعہ انوار العلوم ملتان آپ کے استاذ مکرم ہیں آپ سے دوران طالب علمی بہت محبت فرماتے تھے آپ کے صاحبزادے مبلغ اسلام حضرت علامہ سید سعادت علی قادری دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد ﷫تو حضرت علامہ فیضی صاحب ﷫ پر زیادہ ہی مہربان تھے اتنے مہربان کہ بسا اوقات مجھے اور میرے برادر ڈاکٹر مفتی سید شجاعت علی قادری ﷫کو رشک ہوتا تھا ہم دونوں آپس میں شکوہ کیا کرتے تھے لیکن ہمت نہ تھی کہ والد صاحب ﷫سے گلہ کرتے ۔

          اسی طرح حضرت علامہ مولانا مفتی سید مسعود علی قادری ﷫آپ کی تصنیف لطیف ‘‘اسلام اور داڑھی’’ پر تصدیقی دستخط بھی ثبت فرمائے ۔ہذاھوالحق۔ سید مسعود علی قادری۔   مفتی مدرسہ انوار العلوم ملتان

آپ کے والد ِماجد، اور بیہقئی دوراں علیہما الرحمہ :

          آپ کے والد ماجدا ور میرے جد ا مجد استاذالعلماء ،و العرفاء ،سند المدرسین، عاشق رسول ، عارف باللہ، پروانۂ مدینہ منورہ،فنافی الشیخ، حضرت علامہ مولانا محمد ظریف فیضی ﷫آپ کے بارے میں یوں ارشاد فرماتے ہیں : و لنعم ماقال ولدی محمد شریف المعروف منظور احمد الفیضی ادام اللہ فیضہ علی سائر المتعلمین و المعتقدین و المریدین الی یوم الدین(مکتوبات شاہ جمالی)

اور آپ کی تقریر دلپذیر کے بارے میں نظماً فرماتے ہیں۔

تقریر فیضی ایں چنیں تاثیر داد

درنہاد نجدیاں لرزہ فتاد

چو بیانش ومحکم و مثبت بود

دیوبندی بنددر حیر ت شود

:

آپ کی مطبوعہ تصانیف:

(1)مقام رسول(۲)تعارف چند مفسرین، محدثین،مؤرخین(۳)اسلام اور داڑھی (۴)انوارالقرآن(۵)فیضی نامہ (۶)حاشیہ کریما(۷)کلمات طیبات (۸)چہل احادیث(۹)وہابی کی تاریخ و پہچان(۱۰)عقائد و مسائل(۱۱)پانچ احادیث (۱۲)دس صیغ درود و سلام(۱۳)گستاخان مصطفی اکی جامہ تلاشی (۱۴)روحانی زیور(۱۵)نظریات صحابہ(۱۶)کتاب الدعوات والاذکار (۱۷)القول السدید (۱۸)مرج البحرین(۱۹)مقام صحابہ(۲۰)مقام اہل بیت(۲۱)مقام والدین (۲۲)نبوی دعائیں(۲۳)وضو کی شان(۲۴) خصائص مصطفی ا(۲۵) ضیائے میلاد النبی ا (۲۶)فضائل الحرمین(۲۷)برکات میلاد شریف (۲۸) مختار کل و غیرہ مطبوعہ تصانیف ہیں ۔

آپ کی غیر مطبوعہ تصانیف :

          افہام الاغبیاء ، الحق الجلی، فتاویٰ فیضیہ ۵ جلدوں میں(یہ زیر ترتیب ہے)اعلام العصر بحکم سنت الفجر، بستان المحدثین، الکلام المفید فی حکم التقلید ، تطہیر الجنان، العلم نور علی نور ،فضائل حبیب الرحمن، مقام ولی، وغیرہ ہیں کل تقریباً70کتب ہیں۔

اولاد :

          آپ کے تین صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں ہیں (۱)جانشین بیہقی ِدوراں ،استاذ العلماء، مناظر ِاسلام، محقق عصر حضرت علامہ صاحبزادہ مفتی محمد محسن فیضی صاحب دامت برکاتہم العالیہ (آپ کاتعارف ‘‘انوار فیضیہ ’’ میں ہوگا ) (۲)حضرت صاحبزادہ حافظ قاری محمد حسن فیضی صاحب(۳)حضرت صاحبزادہ حاجی محمد حسین فیضی صاحب

تلامذہ :

          ویسے آپ کے ہزاروں شاگرد ہیں جنہوں نے آپ سے اکتساب فیض کیا درس نظامی، دور ۂ تفسیر القرآن، دورۂ حدیث، دورۂ ختم نبوت میں کثیر تعداد میں علماء و فضلاء نے آ پ سے اکتساب فیض کرتے رہے ہیں۔

بالخصوص:

(1)استاذ العلماء، شیخ الحدیث و التفسیر، مناظر اسلام ،جامع المعقول و المنقول حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اقبال سعیدی صاحب دامت برکاتہم العالیہ شیخ الحدیث جامعہ انوار العلوم ملتان آپ کے قابل ترین شاگرد اور خلیفہ اجل ہیں آپ کا تعارف‘‘ انوار فیضیہ’’میں ہوگا (۲) جانشین بیہقی دوراں مناظر اسلام حضرت علامہ صاحبزادہ مفتی محمد محسن فیضی صاحب دامت بر کاتہم (۳)حضرت علامہ صوفی حفیظ الدین حیدر(۴)حضرت علامہ سید غیاث الدین شاہ صاحب(غزنی)(۴)علامہ صاحبزادہ نظام الدین صاحب فریدی صاحب(۵)علامہ مولانا مقبول احمد فیضی صاحب (۶)علامہ غلام رسول سورتی صاحب علیہ الرحمہ(۷)علامہ غلام محمد سعیدی صاحب (۸)مولانا کریم بخش چشتی صاحب (۹)مولانا سراج احمد سعیدی صاحب (۱۰)مولانامفتی عبدالرشید چشتی صاحب (۱۱)مولانا مفتی عبدالخالق عظمتی صاحب (۱۲)مولانا عبدالعزیز فیضی صاحب(۱۳)مولانا قاضی جلیل احمد یٰسینی صاحب علیہ الرحمہ(۱۴) مولانا حق نواز صابری صاحب (۱۵)مولانا فدا حسین سعیدی صاحب (۱۶)مولانا عبد الرشید سعیدی (۱۷)مولانا غلام محمد ناجی

          فقیرراقم الحروف بھی آپ کا تلمیذ ہے باقی تفصیلِ اسماء ‘‘انوار فیضیہ’’ میں ملاحظہ فرمائیں ۔

علالت :

          رمضان المبارک ۱۴۲۴؁ھ میں آپ ﷫ حرمین شریفین کی حاضری کیلئے تشریف لے گئے راقم الحروف بھی حضرت ابا جی قبلہ کے ہمراہ تھا واپسی شوال المکرم میں ہوئی اس کے بعد آپ اپنے مرشد کریم ﷫کے ٓاستانہ (سندیلہ شریف ڈی، جی خان)پر حاضر تھے آپ ﷫کے ساتھ راقم الحروف اور میرے عم مکرم حضرت صاحبزادہ قاری محمد حسن فیضی صاحب تھے رات کو ایک بجے آپ کی طبیعت خراب ہوئی ۔ ڈی جی خان آئے 2بجے ہاسپٹل میں شوگر چیک کرائی تو 525 پر تھی اس وجہ سے آپ کو پہلی مرتبہ انسولین لگی پھر بہاول پور وکٹوریہ ہاسپٹل میں داخل ہوئے تقریباً ایک ہفتہ بعد کراچی تشریف لائے پہلے کتیانہ میمن ہاسپٹل کھارا در پھر لیاقت نیشنل ہاسپٹل میں داخل رہے اس دوران آپ کے گر دے کام کرنا چھوڑ گئے پھر ڈائلا سز شروع ہوئے اس کے بعد آپ نے درس بخاری بھی دینا شروع فرمادیا ڈائلاسز پہلے ہفتے میں دو مرتبہ پھر ایک مرتبہ پھر پندرہ دن بعد ہونے لگے اس دوران آپ نے کئی محافل سے بھی خطاب فرمایا۔

          ۲۰۰۶؁ء   میں آ پ بے حد بیمار رہنے لگے علاج کے لئے کراچی میں قیام رہا آپ نے اپنی زندگی کا آخری رمضان المبارک مدینہ شریف میں گذارا آپ کے فرزند اکبرو جانشین میرے والد ماجد حضرت علامہ صاحبزادہ مفتی محمد محسن فیضی صاحب دامت برکاتہم العالیہ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔پہلے براستہ سیریا جانا تھا۔لیکن طبیعت کی خرابی کی وجہ سے سیریا نہ جاسکے اور سیدھے مدینہ شریف حاضر ہوئے ۔۲۰ مارچ ۲۰۰۶ کو اپنے والد ماجد استاذ العلماء حضرت علامہ مولانا محمد ظریف فیضی ﷫کے سالانہ عرس میں احمد پور شرقیہ تشریف لائے اور احمد پور شرقیہ میں اپنی زندگی کا آخری خطاب فرمایا۔

          اس کے بعد پلاسٹک سرجری ہاسپٹل کراچی میں آپ کا آپریشن ہوا اس دوران کاروان اسلامی انٹرنیشنل کی پہلی قرعہ اندازی میں ا پنی زندگی کا آخری خطاب فرمایا جو کہ QTVسے براہ راست دکھایا گیا علالت کے باوجود آپ نے مدینے شریف کی حاضری کے بارے میں مختصر مگر جامع خطاب فرمایا علالت کے دوران ہمدرد مسلک اہلسنّت الحاج محمد امین پردیسی بر کاتی صاحب نے آپ کی بہت خدمت کی اللہ تعالی ان کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔

وصال اور اس سے تین دن قبل کرم:

          حضرت مولانا فضل احمدکریمی صاحب نے راقم الحروف کو بتایاکہ حضرت قبلہ فیضی صاحب ﷫کو وصال سے تین دن قبل جب آپ ﷫احمد پور شرقیہ میں تھے تو آپ کو حضور پر نور شافع یوم النشور علیہ صلوٰ ۃ اللہ وسلام الغفور کی زیارت کا شرف حاصل ہوا حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ منظور احمد ! ہم آپ کے منتظر ہیں اسکے بعد حضرت قبلہ فیضی صاحب ﷫حضور نبی کریم ﷺ کے جلووں میں گم ہوگئے اور اس کے بعد کوئی دنیاوی بات نہ فرمائی حتی کہ آپ کو کراچی لایا گیا جس کو بعض بزرگوں نے محسوس کیا اور فرمایا کہ فیضی صاحب کو حالت ِ تکلیف میں کراچی نہیں لانا چاہئے تھاحتی کہ وصال کے وقت حضور نبی کریمﷺ نے اپنے غلام کو دوبارہ زیارت کا شرف بخشا اور کلمہ شریف پڑھایا ۔

          حضرت ابا جی قبلہ ﷫اپنے ہر خطاب میں تقریبا ً یہ فرماتے کہ خاتمہ ایمان پر ہو ،جب وقت اخیر ہو سامنے سراج منیر ہو ﷺ،میرے لب ہوں ،آقا ا کے قدم ہوں ، اللہ تعالی نے آپ کی اس دعا کو شرف قبولیت بخشا ،اورحضور نبی کریم ﷺ نے اپنے غلام پر کرم فرمایا اور آخری وقت بھی دیدار کا شرف بخشا …زہے نصیب

آخری ایام ووصال:

          جون 2006؁ء کے اوائل میں آپ لیاقت نیشنل ہاسپٹل میں داخل ہوئے اور پھر بے ہوشی کا عالم ہوگیا لیکن پھر بھی زبان پر درود شریف و ذکر اللہ جاری تھا اس دوران تما م اہل خانہ ،قبلہ والد صاحب ،چچا صاحبان آپ کے پاس تھے اور راقم الحروف آپ کے پاس حاضر ہوگیا تقریباً 10جون کو میں نے عرض کی کہ میں احمد پور شرقیہ جاتا ہوں اور مدرسین کو تنخواہ دیکر واپس آجاؤنگا ،اجازت نہ دی بار بار اصرار پر اجازت عطا فرمائی میں ایک دن کیلئے احمد پور شرقیہ گیا اور دوسرے دن ہی واپس چلا آیا اس دوران وصال سے تقریباً ۸، ۱۰ دن پہلے ڈاکٹرز نے لاعلاج کیا کہ پلاسٹک سرجری سے زخم میں پیپ ہوگئی ہے اور ڈائلسز کی وجہ سے اس کا زہر پورے جسم میں پھیل گیا لہٰذا ا سی حالت میں آپ کو کرا چی سے اپنے شہر احمد پور شرقیہ لے آ ئے تھوڑا ہوش راستے میں آیا پھر احمد پور شرقیہ میں ہوش آگیا نماز ،و معمولات، وظائف ،ادا فرمانے لگے نعتیں بھی سنتے تھے تمام احباب ،و اقرباء ،کو پہچان لیتے تھے مجھے بار بار بلاتے اور فرماتے میرے مدرسوں کو تم نے چلانا اور پڑھانا ہے ۔

          اس حال میں ڈاکٹرز نے دوبارہ کراچی لانے کو کہا ۲۶جون ۲۰۰۶؁ بروز پیر را ت کو جب وا لد ما جد حضرت علامہ مفتی محمد محسن فیضی صاحب میرے چچا صاحبزادہ حافظ محمد حسن فیضی صاحبزادہ حاجی محمد حسین فیضی صاحب ، اماں جان، پھوپھی اور میرے کزن محمد احمد رضا صاحب رات تقریباً۱۰ بجے احمد پور شرقیہ سے کار پرروانہ ہورہے تھے تواسی وقت بارش شروع ہوگئی۔

          کراچی تقریباً 3بجے دوپہر المصطفیٰ میڈیکل سینٹر پہنچے تو ڈاکٹرز ڈائلاسز کرنے کیلئے تیاری میں تھے مغرب کے بعد ذکر الہٰی پھر بالآخر میرے ابا جی قبلہ ﷫ (66سال، 8ماہ 11دن کی عمر میں ) یکم جمادی الاخری ۱۴۲۷؁ھ ۲۷جون ۲۰۰۶؁بروز منگل شب بدھ 8:45پر عین اذانِ عشاء کے وقت ہم سب کو روتا ،بلکتا، اکیلا ،چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے لیکن آپ کا فیض تا قیامِ قیامت جاری رہیگا ۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)

عرش پر دھومیں مچیں وہ مومن و صالح ملا

فرش پر ماتم اٹھا وہ طیب و طاہر گیا

ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے

مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ

مٹتے نہیں دہر سے جن کے نشاں کبھی

          پہلاجنازہ آپ کی وصیت کے مطابق پیرطریقت ،رہبر شریعت ،مفکّر ِاسلام، حضرت علامہ مولانا سید شاہ تراب الحق قادری صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے دارالعلوم امجدیہ میں رات تقریباً12:30 بجے پڑھائی اس مختصر وقت میں عوام اہلسنّت نے نماز جنازہ پڑھی اس میں کراچی کے تقریباً تمام علماء کرام، دانشور حضرات شریک ہوئے۔

          دوسرا جنازہ سکھر پیٹرول پمپ پر حضرت علامہ مفتی محمد ابراہیم قادری صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے پڑھایا جبکہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عارف صاحب سعیدی دامت برکاتہم العالیہ نے دعا مانگی ،احمد پور شرقیہ میں تقریبا دوپہر 3 بجے پہنچے پھر رات بھر دیدار کیلئے حضرت ابا جی قبلہ کا جسد اقدس کمرے میں رکھا رہا۔

          رات ہی سے عوام پہنچنا شروع ہوگئی صبح ۸بجے حضرت ابا جی قبلہ ﷫ کے جسد اقدس کو کمرے سے اٹھایا اور عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر کے ساتھ محمود پارک پہنچے جہاں پہلے سے ہی کافی محبین ومعتقدین ومریدین پہنچے ہوئے تھے تقریباً9:15بجے آپ کی نماز جنازہ محمود پارک احمد پور شرقیہ میں آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے جانشین، مناظر اسلام، استاذ العلماء حضرت علامہ صاحبزادہ مفتی محمد محسن فیضی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے پڑھائی جبکہ جانشین امام اہلسنت، مظہر غزالی زماں ،پیر طریقت رہبر شریعت ،حضرت علامہ صاحبزادہ سید مظہر سعید کاظمی صاحب دامت بر کاتہم العالیہ نے دعا فرمائی۔

          نماز جنازہ میں جگر گوشہ غزالی زماں حضرت صاحبزادہ سید سجاد سعید کاظمی صاحب و جگر گوشہ امام اہلسنّت حضرت صاحبزادہ سید حامد سعید کاظمی صاحب جگر گوشہ غزالی زماں شیخ الحدیث حضرت علامہ صاحبزادہ سید ارشد سعید کاظمی صاحب، حضرت   علامہ مولاناخواجہ پیر محمد اکرم شاہ جمالی صاحب ، حضرت علامہ مولانا خواجہ پیر محمد اعظم شاہ جمالی صاحب ، حضرت علامہ سید محمد محفوظ الحق شاہ صاحب، حضرت علامہ میاں فتح محمد قادری صاحب ، حضرت علامہ مفتی مختار احمد درانی صاحب ،حضرت علامہ مفتی محمد اقبال سعیدی صاحب ،حضرت علامہ مفتی عبدالمجید سعیدی صاحب،حضرت خواجہ محمد حسن باروی صاحب،قاری گوہر علی قادری صاحب، حضرت علامہ نذیر احمد قریشی صاحب، حضرت مولانا مفتی محمد مختار احمد غوثوی صاحب، حضرت مولانا علامہ اقبال اظہری صاحب اور ان کے علاوہ کثیر تعداد میں علماء کرام و مشائخ عظام ،و دانشور حضرات، مریدین ،متعلقین، محبین، شامل ہوئے ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً80ہزار عوام اہلسنت نے شرکت کی جو کہ ایک تاریخی جنازہ تھا۔

          تقریباً 11بجے دن آپ کو اپنے والد ماجد حضرت علامہ مولانا محمد ظریف فیضی صاحب ﷫ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

                                                         بچھڑے وہ اس ا دا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص سارے ملک کو ویران کرگیا

(نوٹ) آپ﷫کی مفصّل سوانح حیات ،اور تأثّراتِ علماء پر مشتمل کتاب‘‘ بیہقیٔ وقت ’’ مؤلف : صاحبزادہ مفتی محمد اکرام المحسن فیضی صاحب زید مجدہ کا مطالعہ فرمائیں ۔


متعلقہ

تجویزوآراء