بیہقیِ وقت مفتی منظور احمد فیضی

تعارف مصنف

حضرت علامہ مولانا مفتی محمد

 منظور احمد فیضی مدظلہ العالی

از قلم : صاحبزادہ علامہ مفتی محمد محسن فیضی صاحب مدظلہ العالی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم

 وعلی الہ وصحبہ اجمعین

       تخلیق کائنات کے ساتھ ہی جب سے خلاق کائنات نے ابن آدم کو وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ سے عزت ومقام عطا فرمایا تو اسے پردہ عدم سے عرصہ شہود میں لاکر زمین پر آباد فرمایا ۔ بقول شاعر  ؎

عدم سے وجود میں لائی ہے جستجوئے رسول ﷺ

کہاں کہاں لئے پھرتی ہے جستجوئے رسول ﷺ

        ہر دور اور ہر عہد میں دینی امور ورشد وہدایت اور دنیوی ضروریات، فلاح وبہبود کے فیضان کے لئے حضرات انبیاء کرام علیٰ نبیینا علیہم الصلوٰۃ والسلام اور ان کے بعد اولیائے کاملین اور علمائے ربانیین کو ان کا وارث بناکر مبعوث کیا اور اپنے اسی مشن کو جاری وساری رکھا ۔ جن کی ذات والا صفات ہر فردوبشر کے لئے سنگ میل ثابت ہو اور ان کی حیات طیبہ تمام بنی نوع انسان کے لئے مشعل راہ ہو ۔

        دور حاضر اور ماضی میں ترقی کے نام پر اخلاقی اقدار اور اسلام کے نام پر بانی اسلام کے مخالفوں سے جو خطرات لاحق ہوئے ان کے سدباب کے لئے علمائے حق اور صوفیائے کرام نے قرون اولیٰ کے اکابرین کی طرح میدان عمل میں اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف رہ کر علماء سوء کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دندان شکن جواب دے کر انہیں لاجواب کیا ۔

        سرزمین احمد پور شرقیہ (جو کبھی علمائے سو کا مرکز رہی) کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی ہستی کا انتخاب کیا جو علمی وعملی کرداد واخلاق میں اپنی مثال آپ ہے ۔ جن کو اپنے بیگانے تسلیم کرتے ہیں ۔ امام المفسرین ، استاذ المحدثین ، مناظر اہلسنّت ، نابغہ عصر، شیخ الحدیث والتفسیر، استاذ الاساتذہ، جامع المعقول والمنقول، حاوی الفروع والاصول ، صاحب تصانیف کثیرہ، زائر رسول اللہ ﷺ (مرازا)، عاشق مصطفیٰ، پیر طریقت رہبر شریعت، فخر العلماء والصلحائ، آقائے نعمت، مربی جسم وروح، سیدی وسندی ووسیلتی وذخیرتی وملجائی وماوی، حضرت الحاج محبوب حبیب علامہ محمد منظور احمد فیضی مشرفاً، حنفی مذہباً، مدنی محبتاً، بلوچ نسبتاً، اوچی مولدا، احمد پوری وطناً ادام اللہ ظل عاطفۃ علینا بالصحۃ والسلامۃ والرضاء والدعاء ابذا، والحضور دائما،یہ شخصیت یہ ذات والا صفات محتاج تعارف نہیں ۔

مشک انست کہ خود ببوید نہ انست کہ عطار بگوید

آفتاب آمد دلیل آفتاب

        آپ قرآن وحدیث اور فقہ حنفی کو اپنی عالمانہ صلاحیت اور ضیاء باریوں سے منور کرتے ہیں اور عشاق مصطفیٰ ﷺ کو چھلکتے جام پلاکر سکون وقرار دیتے ہیں اور گم گشتگان بادیہ ضلالت اور موذیان رسول کو اپنی علمی وروحانہ اور نورانی شعاعوں سے راہ ہدایت کی طرف رہنمائی فرماتے ہیں ۔ جن کی ہر تقریروتحریر کے علمی وروحانی فیضان سے نجدیت ووہابیت کے قصر ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں اور طاغوتی قوتیں پاش پاش ہوجاتی ہیں ۔

آپ کی پیدائش :

        آپ کی پیدائش ، بستی فیض آباد علاقہ مدینۃ الاولیاء اوچ شریف ضلع بہاولپور ، پاکستان کے ایک عظیم علمی وروحانی گھرانے میں ہوئی ۔آپ ، پیر طریقت ، عارف باللہ ، شاشق رسول اللہ ، پروانہ مدینہ منورہ ، فنافی الشیخ ، استاذ العلماء والعرفاء حضرت علامہ الحاج پیر محمد ظریف صاحب فیضی قدس سرہ کے دولت کدہ میں 2 رمضان المبارک 1358 ہجری بمطابق 16؍اکتوبر 1939ء شب پیر بوقت صبح صادق جلوہ افروز ہوئے ۔

آپ کا سلسلہ نسب :

        علامہ محمد شریف الشہیر علامہ محمد منظور احمد صاحب فیضی ابن علامہ محمد ظریف فیضی ابن علامہ الٰہی بخش قادری ابن حاجی پیر بخش رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ ۔

قیل …آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے ایک کنیز کے واسطہ سے جا ملتا ہے ۔ واللہ ورسولہ اعلم

        آپ کے والد گرامی قدس سرہ السامی وقت کے ثانی شیخ سعدی وجامی تھے آپ نے اپنی زندگی درس وتدریس اور عشق خیر الوریٰ علیہ التحیۃ والثناء میں بسر کی ۔ آپ کی خواہش یہی تھی کہ ……

مدینہ جائوں پھر آئوں پھر جائوں

میری زندگی یونہی تمام ہوجائے

        آپ 20سے 25مرتبہ حاضری حرمین شریفین کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے آپ کے وصال (شوال 1315ہجری بمطابق 1995ئ)کے بعد چودھری محمد اشرف صاحب حال مقیم بہاولپور نے آپ کو جیتے جاگتے مکہ مکرمہ،مدینہ منور، منیٰ، عرفات ، مزدلفہ ہر جگہ ، ہر مقام پر دیکھا اور یہ بات حلفاً بیان کی ۔

        آپ کے دادا حضرت مولانا الٰہی بخش قادری رحمۃ اللہ علیہ فارسی اور فقہ میں مہارت تامہ رکھتے تھے ۔ نہایت متقی ، پابند شریعت اور شب زندہ دار بزرگ تھے اور سلسلہ قادریہ میں حضرت قبلہ صالح محمد صاحب قادری ، سوئی شریف ، سندھ سے نسبت رکھتے تھے ۔

آپ کی ولادت کی بشارت  :

        آپ کے والد محترم علامہ پیر محمد ظریف صاحب فیضی ر حمۃا ﷲ علیہ ، حضور قبلہ غوث زماں ،صاحب ذوق بلالی، استاذالعلماء والعرفا ء حضرت قبلہ خواجہ فیض محمد شاہ جمالہ علیہ الرحمہ الباری کے شاگرد و مرید خاص اور خلیفہ مجاز تھے۔حضرت شاہ جمالی کریم کو مولاناعبدالکریم صاحب فیضی اعوان علیہ الرحمۃالرضوان نے مدینہ منورہ سے واپسی کے موقع پر عجوہ کھجوریں پیش کیں۔ قبلہ شاہ جمالی نے پہلے ایک دانہ علامہ پیر محمد ظریف کو عطا فرمایا اور فرمایا یہ تمہارے بیٹے کا حصہ ہے جو کہ سرکار ابد اقرار علیہ الصلٰوۃ والسلام الغفار نے مدینہ منورہ سے ارسال فر مایا ہے جب کہ ابھی علامہ فیضی صاحب مدظلہ پیدا نہ ہوئے تھے اور نہ والدہ کے بطن میں تھے۔ آپ کے والد محترم نے دریافت کیا حضور میرا بچہ ؟ آپ نے فرمایا ہاں! ہاں! تیرا بچہ .........آپ نے دریافت کیا ، تو آپ نے فرمایا اس کا نام محمد شریف رکھنا(بعد میں آپ نے اس نام کو تبدیل فر ماکر منظور احمد منتخب فر ما یا اور سلسلہ چشتیہ جمالیہ میں بھی محمد منظور احمد درج ہے)اور یہ کھجور پہلے دن اس کو گھٹی میں کھلانا آپ نے وہ کھجور ایک سال تک محفوظ رکھی۔ سال بعد اﷲتعالیٰ نے حسب فرمان مرشد شاہ جمالی کریم آپ کو ایسا عظیم علمی و روحانی صفات کا پیکر بیٹا عطا فر مایا جو نہ صرف منظور احمد    ﷺ ہوا۔ بلکہ منظور عالم بن گیا۔ الحمد ﷲعلیٰ ذالک حمدا کثیرا۔

رفتم بیائے خود کو بکویت رسیدہ ام

نازم باں زماں کہ بلطفم خریدہ

پھر اسی کھجور عجوہ مبارک سے آپ کو پہلے دن گھٹی دی گئی (درج الآلی صفحہ 83-84) آپ کی والدہ محترمہ ایک صالحہ،حاجہ ومتقیہ خاتون تھیں۔بغیر وضو کے آپ کو دودھ نہ پلاتی تھیں۔ سبحان ا ﷲ العظیم۔

بچپن میں ذکر اﷲ کرنا :

        آپ کی عمر مبارک تقریبًا ایک سال کی تھی حضرت مرشد شاہ جمالی کریم خواجہ غلام فرید ادام المجید فی لقاء الحمید کے سالانہ عرس 7ربیع الثانی 1359ہجری سے واپسی کے موقع پر آپ کے گھر بستی فیض آباد تشریف لائے۔ آپ کی دادی صاحبہ آپ کو حضرت شاہ جمالی کریم کی خدمت میں لے گئیںاور عرض کی حضور! اس کے لئے دعا فرمائیں۔ پھر آپ کے والد محترم علامہ پیر محمد ظریف صاحب نے آپ کی خدمت میں عرض کیا حضور ! منظور احمد کو بیعت کرلیں۔ آپ نے فرمایا ابھی بچہ ہے۔ آپ کے والد نے عرض کیا حضور کیا خواجہ اﷲ بخش تونسوی نے آخری وقت بچوں کو بیعت نہیں کیا تھا؟پھر آپ نے بیعت فرمایا اور کہا ـ"بچوآکھ اﷲ"یعنی بچے کہو اﷲ دو تین بار یہی فرمایا ، جب تیسری بار فرمایا تو آپ نے اسی وقت صغر سنی میں اپنی دادی کے ہاتھوں میں کودتے ہوئے ......اﷲاﷲ.......کہنا شروع کردیا ۔

ایں طاقت بزور بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

علم عظیم کی بشارت :

     ذکر اﷲ کے بعد آپ نے علامہ فیضی مدظلہ کی پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا: "باپ سے بڑا عالم ہوگا"۔

ولایت کی بشارت :

     آپ کے والد محترم اپنی کتاب  "درج الآلی صفحہ "85پر رقمطراز ہیں کہ ایک مرتبہ فقیر رات کو اپنے گھر بستی فیض آباد میں سویا ہوا تھاکہ حضرت شاہ جمالی کریم کی مجھے زیارت ہوئی ۔ آپ نے ایک طالب علم کی دستار بندی کی اور فرمایا.......تو پڑھائے گا........پھر آپ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ..... "تیرا بیٹا ولی ہے"۔ میں نے عرض کی حضور نے فرمایا تھا کہ"بڑا عالم ہوگاـ"آپ نے فرمایا کہ "بڑا عالم بھی ہے اور ولی اﷲ بھی ہے"بفضلہ تعالیٰ دونوں چیزیں مکمل ہوگئیں۔

گفتئہ او گفتئہ اﷲ بود

گرچہ از حلقوم عبداﷲ بود

 محبوبیت کے درجہ پر فائز ہونا :

       غوث زماں، قبلہ خواجہ فیض محمد شاہ جمالی ( جوکہ دوران تدریس آنکھیں بند کر کے ادق مسئلہ وہ مقام سرکار دو عالم ﷺ فرمالیتے تھے) اپنے شاگرد و مرید و محبوب علامہ فیضی صاحب مدظلہ العالی کے بارے میں اکثرو بیشتر فرمایا کرتے تھے "اﷲ اپناں محبوب ڈتے"۔ یعنی اﷲ نے اپنا محبوب دے دیا ہے اب کسی اور محبوب کی ضروررت باقی نہیں رہی۔

             قلندر وقت ، غوث زماں، سلطان العارفین ،حضرت قبلہ خواجہ پیر غلام یاسین فیضی شاہ جمالی بھی کئی بار اپنے مریدوں اور غلاموں کے سامنے فرمیا کرتے تھے کہ"علامہ محمد منظور احمد فیضی صاحب بڑے عالم ہیںـ "مزید فرمایا کرتے تھے کہ "توں محبوب نیں، یعنی تم محبوب ہو"۔

بسم اﷲ، آغاز تعلیم :

      جب آپ کی عمر مبارک کو چار سال چار ماہ چار دن ہوئے یعنی 6محرم الحرام1362ہجری بروز پیر جامع مسجد سندیلہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان میں (جہاں آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے )قبلہ شاہ جمالی کریم نے دوبارہ بیعت فرمایا اور قرآن مجید شروع کرایا اور سورۃالفاتحہ شریف پڑھائی پھر آپ نے ابتدائی تعلیم قرآن پاک ، صرف، نحو، فقہ ، اصول فقہ، منطق، مشکٰوۃ شریف ، جلالین تک اپنے والد ماجد سے پڑھیں۔

        ابھی آپ کافیہ نحو کی مشہور درسی کتاب پڑھتے تھے کہ غزالی زمان ، ضیغم اسلام ، محدث پاکستان علامہ پیر سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی علیہ الرحمہ نے آپ سے ـ"عدل "کے متعلق سوال فرمایا ۔ آپ نے تسلی بخش جواب دیا آپ خوش ہوئے اور فرمایا مولا نا صاحب ! اپنا بیٹامجھے دو۔

        آپ کے والد ماجد نے جوابًا عرض کیا حضور ابھی بچہ ہے آپ کی بات سمجھنے کے لائق ہوجائے پھر آپ کی خدمت میں پیش کردوں گا ۔چنانچہ حسبِ وعدہ آپ کو مشکٰوۃ جلالین کی تکمیل کے بعد جملہ علوم عقلیہ کی تکمیل اور علم حدیث کے حصول کے لئے آپ نے غزالی زماں، رازی دوراں قبلہ کاظمی کریم کی خدمت میں پیش کردیا ۔ آپ نے تقریبًا بیس سال کی عمر مبارک میں 17شوال المکرم ، 1378ہجری بمطابق 26اپریل 1959ء کو مدرسہ انوار العلوم ملتان سے سند فراغت حاصل فرمائی۔ پھر آپ نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فاضل عربی کا امتحان پاس کیا اور بعدہ آپ نے اپنے والد ماجد سے علم تصوف میں تحفہ مراسلہ ، لوائح جامی شریف، توفیقہ شریف اور مثنوی شریف وغیرہ پڑھ کر حدیث شریف اور جملہ علوم عقلیہ ونقلیہ کی سند فراغت حاصل فرمائی ۔ جس سال آپ نے مدرسہ انوار العلوم ملتان سے سند فراغت حاصل کی اسی سال مدرسہ انوار العلوم کے سالانہ جلسہ دستار فضیلت میں حضور نبی کریم رؤف رحیم علیہ الصلوٰۃ والسلام جلوہ گر اور ضوفگن تھے ۔ الحمد للّٰہ حمدا کثیرا ۔ کرم بالائے کرم ۔

سند الحدیث من الشیخ المحقق :

شیخ المحققین برکت رسول اللہ فی الہند محقق علی الاطلاق سند المحدثین شیخ محمد عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ جن کو ہر رات حضور ﷺ کا دیدار نصیب ہوتا تھا … زہے نصیب … نے فراغت والے سال علامہ فیضی صاحب کو عالم رؤیا میں سند حدیث خود عطا فرمائی ۔

        آپ اپنے اعلیٰ علمی وروحانی مرتبہ ومقام کی وجہ سے بزرگان تونسہ شریف ، گولڑہ شریف ، سیال شریف اور قبلہ مفتی اعظم ہند ، امام ضیاء الدین مدنی ، شیخ علاء الدین بکری مدنی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی توجہ کا مرکز رہے ہیں ۔

اکتساب فیض وخلافت :

        آپ اپنے والد ماجد محقق سند المدرسین حضرت علامہ پیر محمد ظریف صاحب فیضی اور حضور قبلہ غوث زماں خواجہ فیض محمد شاہ جمالی اور غزالی زماں ، امام اہلسنّت حضور قبلہ سید احمد سعید شاہ کاظمی کے علاوہ قلندر وقت سلطان العارفین حضرت قبلہ خواجہ غلام یاسین فیضی شاہ جمالی (نے خود گھر آکر خلافت عطا فرمائی اور بار بار حکم دیا کہ مرید کیا کرو) حضور مفتی اعظم ہند مولانامصطفیٰ رضا خان صاحب قادری بریلی شریف اور حضرت قبلہ مولانا ضیاء الدین صاحب قادری مدنی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے اکتساب فیض کیا ۔

        کسی کو محنت کرکے اور مطالعہ کے بعد خرقہ خلافت عطا ہوا مگر آپ کو بن مانگے اور بلا کردیا بلکہ خود گھر آکر عطا کیا ۔ بقول شاعر ؎

بن مانگے دیا اور اتنا دیا دامن میں ہمارے سمایا نہیں

مدرسہ مدینۃ العلوم کا سنگ بنیاد :

        آپ نے فراغت علوم عقلیہ ونقلیہ کے بعد 11؍ذوالحجہ 1979ہجری کو اپنے آبائی گائوں بستی فیض آباد علاقہ اوچ شریف مدینۃ الاولیاء ، ضلع بہاولپور میں ایک بڑے ادارے مدرسہ مدینۃ العلوم کی بنیاد رکھی ۔ یہ ادارہ اپنی مثال آپ تھا ۔ ایک گائوں میں علم وعرفان کے سمندر جاری ہوگئے ۔ مختصر عرصہ میں یہ ادارہ پورے پاکستان بلکہ برصغیر میں اچھی شہرت حاصل کرگیا اور پاکستان کے اطراف واکناف افغانستان ، غزنی ، بنگلہ دیش سے تشنگان علوم ومعارف اپنی علمی وروحانی پیاس بجھانے کے لئے جوق در جوق گائوں میں آن پہنچے ۔

        ادارہ ہذا 12؍جمادی الثانی 1388ہجری تک علم وحکمت کے دریا بہاتا رہا اور تشنگان علوم ومعارف کی پیاس بجھاتا رہا ۔ مختلف علاقہ جات وممالک افغانستان ، بھارت اور اندرون ملک سندھ ، پنجاب اور کشمیر سے علم کے شیدائی ومتلاشی آتے رہے اور اکتساب علم کرکے پوری دنیا کو فیض یاب کرتے رہے اور آج تک کررہے ہیں آج بھی اس ادارہ سے فارغ التحصیل علماء کرام آپ کے تلامذہ نامور اساتذہ ، محدث ، مفسر ، مناظر اور محقق کے نام سے پہچانے جاتے ہیں اور اندرون ملک اور بیرون ملک دنیا کے مختلف خطہ جات میں تبلیغ دین اسلام اور مذہب حقہ اہلسنّت کا تحفظ کرکے اپنے فرائض باحسن انجام دے رہے ہیں ۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء

مدرسہ مدینۃ العلوم کے چند قابل ترین علماء کرام

(فارغ التحصیل طلباء آپ کے تلامذہ )

1۔     مناظر اسلام علامہ مفتی محمد اقبال سعیدی                         نائب شیخ الحدیث ، انوار العلوم ملتان

2۔     علامہ صوفی محمد حفیظ الدین حیدر                                 (چٹاکانگ ، بھارت)حال

پرنسپل جامعہ ظریف العلوم مزنبیق، سائوتھ افریقہ

3۔     علامہ سید غیاث الدین شاہ صاحب                              غزنی ، افغانستان

4۔     علامہ صاحبزانہ نظام الدین صاحب                               پوتا مولانا محمد یار فریدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

گڑھی اختیار خان پور

5۔     علامہ عبدالرزاق صاحب

راولپنڈی

6۔     علامہ قبول احمد صاحب فیضی                            ترنڈ ، محمد پناہ ، رحیم یار خان

7۔     علامہ غلام رسول صاحب سعیدی                                خطیب آرمی پاکستان

8۔     علامہ غلام محمد صاحب سعیدی                           ترنڈ محمد پناہ ، رحیم یار خان

9۔     علامہ غلام قادر صاحب                                         سمر سٹہ ، بہاولپور

10۔   علامہ کریم بخش صاحب سعیدی                          خطیب لیاقت پور ، رحیم یار خان

11۔   علامہ حافظ محمد عارف صاحب سعیدی                    خطیب وامام کھتری مسجد میٹھادر ومدرس المدنیہ

دعوت اسلامی کھارادر برانچ ، کراچی ۔

مدرسہ فیضیہ رضویہ احمد پور شرقیہ کا قیام :

        12؍جمادی الاولیٰ1388ہجری کو آپ نے یہ ادارہ بستی فیض آباد اوچ شریف سے احمد پور شرقیہ منتقل فرمایا اور مدرسہ فیضیہ رضویہ کے نام سے اپنے ذاتی مکان محلہ سعید آباد امیر عالم کالونی کچہری روڈ میں اس کی نشاۃ ثانیہ فرماکر تعلیم وتدریس کا اہتمام فرمایا جوکہ آج تک جاری وساری ہے ۔

جامعہ فیضیہ کے چند نامور فارغ التحصیل علماء جن کو آپ سے شرف تلمذ حاصل ہوا

1۔     حضرت مولانا سراج احمد صاحب سعیدی                  صدر مدرس عزیز العلوم اوچ شریف

         (صاحب تصنیف)

2۔     مناظر اسلام علامہ عبدالرشید صاحب یاسینی                       مدرس مدرسہ چوک بھٹہ احمد پور

3۔     علامہ مفتی عبدالخالق اعظمی                              

مہتمم انوار الاسلام حسین گوٹھ ، ضلع بہاولپور

4۔     مولانا غلام محمد صاحب یاسینی                            خطیب 9 DNBضلع بہاولپور

5۔     مولانا قاضی تاج محمد صاحب                             خطیب نورا کوٹ بہاولپور

6۔     مولانا حق نواز صاحب قمر                               ایڈووکیٹ ہائی کورٹ بہاولپور

7۔     مولانا عبدالعزیز صاحب                        

محمد علی لاری اڈہ احمد پور شرقیہ

8۔     مولانا حق نواز صاحب صابری                           خطیب مدرس شعبہ درس نظامی کراچی

9۔     علامہ محمد شفیع صاحب گولڑوی                           خطیب ملتان

10۔   مولانا فدا حسین صاحب سعیدی                          خطیب کراچی

11۔   صاحبزادہ مولانا ارشاد احمد شاہ صاحب بخاری                    شکارپور ۔ڈیرہ غازی خان

12۔   صاحبزادہ مولانا خورشید احمد شاہ صاحب بخاری                   شکار پور ۔ ڈیرہ غازی خان ۔ حال لاہور

13۔   مولانا قاری غلام یاسین صاحب                                 خطیب سیالکوٹ

14۔   مولانا حافظ منظور احمد صاحب                           خطیب آرمی پاکستان

15۔   مولانا قاضی جلیل احمد صاحب یاسینی                             خطیب آرمی پاکستان

16۔   مولانا غلام حیدر صاحب                                         ہزارہ

مدرسہ فیض الاسلام کا قیام :

        21؍مارچ 1995ء کو آپ نے اپنے ذاتی پلاٹ 5کنال میں اس مدرسہ کی بنیاد اس وقت رکھی جب آپ کے والد محترم اس دار فانی سے رحلت فرماکر عالم برزخ جلوہ گر ہوئے ۔ آپ کا مزار مبارک اسی مدرسہ فیض الاسلام میں مرجع خلائق ہے ۔ انشاء العزیز یہ ادارہ آنے والے وقت کا عظیم ترین اور مثالی ادارہ ہوگا ۔ آپ کا سالانہ عرس مبارک مدرسہ فیض الاسلام دربار فیضیہ چشتیہ نزد ریلوے لائن محلہ قریش آباد احمد پور شرقیہ ، 21-20مارچ دھوم دھام اور احتشام سے ہوتا ہے ۔

آپ بطور محدث ومفسر :

        آپ کے اعلیٰ علمی مقام کا اندازہ آپ کے قابل ترین تلامذہ موجودہ دور کے قابل ترین اساتذہ ، مدرسین اور مناظر علماء حضرات سے کیا جاسکتا ہے ۔ کہ جس نے بھی آپ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا بہت کچھ آپ سے حاصل کیا ۔ آپ کا طریقہ تدریس مثالی اور اچھوتا ہے ۔ جس نے بھی آپ سے جو سبق پڑھا آج تک علمی نقاط اس کے دل ودماغ میں محفوظ ہیں اور وہ بار بار آپ سے اکتساب علم وفیض کی کوشش کرتا ۔ موجودہ دور کے کئی علماء مدرسین اپنے آپ کو علامہ فیضی مدظلہ کے تلامذہ کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور کئی شرف تلمذحاصل کرنے لئے بیتاب ہیں اور تڑپتے ہیں ۔ تلامذہ ذہین وکند ذہن ہر قسم کے ہوتے ہیں مگر آپ سے سب یکساں مستفید ہوتے ہیں ۔

        حضرت علامہ فیضی مدظلہ دیگر اساتذہ کے ساتھ خود بھی تدریسی فرائض انجام دیتے ہیں بالخصوص تفسیر وحدیث کی تدریس میں مہارت تامہ کے مالک ہیں ۔اسی لئے آپ تقریباً ہر سال ماہ رمضان المبارک میں دورہ تفسیر القرآن تمام علوم وفنون کے ساتھ خود پڑھاتے ہیں ۔ جس میں دور دراز سے علمائے کرام اور طلباء شامل ہوکر علمی وروحانی فیض پاتے ہیں ۔ آپ کو فن حدیث سے خاص شغف ہے ۔ اس کا اندازہ آپ کی بے مثال ونایاب لائبریری سے کیا جاسکتا ہے کہ جتنا احادیث کا ذخیرہ آپ کے پاس ہے شایدآپ کو کسی لائبریری میں ملے ۔ کیونکہ آپ جب بھی حاضری حرمین شریفین پر تشریف لے جاتے ہیں تو کتب احادیث کے انبار لاتے ہیں ۔ جو دیکھنے والے کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں کہ باقی سامان الیکٹرونک وغیرہ کچھ بھی نہیں صرف کتب کا ذخیر ہ ہے ۔ آپ دورہ حدیث شریف کی تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں ۔ نیز آپ دو مرتبہ مدرسہ ہدایت القرآن ملتان اور ایک مرتبہ مدرسہ رکن الاسلام حیدرآباد میں دورہ تفسیر القرآن پڑھا چکے ہیں ۔

آپ بطور مناظر اسلام :

        ماضی میں مقام مصطفی ﷺ عظمت صحابہ واہلبیت اور ولایت اولیاء اللہ پر نجدیت خارجیت اور رافضیت کے پے در پے حملے ہوئے ۔ ایسے میں اللہ ورسول اللہ ﷺ کے شیر اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے ہم مسلک علمائے اہلسنّت اور مشائخ عظام کے شانہ بشانہ وہ کام کیا اور ان کو وہ دندان شکن اور مسکت جواب دئیے کہ نجدیت ورافضیت کے محل لرز اٹھے ۔ جن وادیوں میں تاحد نگاہ اندھیرے چھائے ہوئے تھے وہ وادیاں آج علم وعرفان اور فقہ حنفی کے نور سے جگمگا اٹھیں ۔ مرد حق ومناظر اسلام علامہ فیضی صاحب مدظلہ العالی کی بدولت پاکستان کے باشندوں کے دل ودماغ میں زندگی کی نئی تڑپ وجود میں آئی اور لوگ جوق در جوق وہابیت ونجدیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکل کر نوروعرفان کی وادی میں آگئے ۔ کئی لوگ آپ کے اعلیٰ علمی مرتبہ وروحانی مقام وفن مناظرہ کو دیکھ کر توبہ تائب ہوکر صحیح العقیدہ سنی مسلمان ہوگئے ۔ نور مصطفی ﷺ کی کرنیں پھوٹ پڑیں ۔ قریہ ، قریہ شہر شہر روحانیت وحدانیت اور سنیت کا پرچم سر بلند ہوا ۔ آپ نے علماء سوء سے کئی مناظرے مباحثے کئے بفضلہ تعالیٰ وحبیبہ ﷺ آپ نے سنیت اور مذہب صوفیائے کرام کو رسوانہ ہونے دیا ۔ علمی وروحانی لحاظ سے آپ کی شخصیت آج بھی مسلم ہے ۔ آج بھی سنی بریلوی اساتذہ ، تلامذہ ، سب اس مناظر اسلام علامہ فیضی حب مدظلہ پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ آپ نے حق کو چمکانے اور اجاگر کرنے کے لئے باطل سے کئی مناظرے کئے جن کا احصاء ممکن نہیں ۔ چند مندرجہ ذیل ہیں ۔

1۔     آپ نے موضع گوپور علاقہ روہلا نورانی ، ضلع مظفر گڑھ میں مولوی سعید احمد چتروڑی گستاخ رسول ﷺ غیر مقلد نجدی سے مناظر ہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح مبین عطا فرمائی اور اسے ذلت آمیز شکست فاش دی ۔ پھر آج تک مولوی سعید احمد چتروڑ گڑھی سامنے آنے سے عاجز ہے ۔ بلکہ آپ کے نام سے لرز جاتا ہے اور وہ مقام چھوڑنے پر مجبور وبے بس ہوجاتا ہے ۔ آج تک عینی شواہد موجود ہے ۔

2۔     اسی غیر مقلد مولوی سعید احمد چتروڑ گڑھی سے لاٹ کے نزد (ضلع ملتان) مناظرہ طے پایا مگر مقررہ تاریخ پر علامہ فیضی صاحب کتب حوالہ جات وتلامذہ (جس میں راقم الحروف بھی ساتھ تھا ) مقررہ مقام پر پہنچ گئے ۔ مگر جب اس مولوی سعید کو معلوم ہوا کہ قبلہ علامہ فیضی صاحب جلوہ گر ہیں تو اس نے بھاگ نکلنے میں اپنی عافیت سمجھی ۔ہزاروں افراد اس بات کے عینی گواہ ہیں پھر اسی مقام پر اسی روز جشن فتح کا جلسہ بڑی دھوم دھام سے منایا گیا ۔ جس میں آپ علامہ فیضی صاحب نے مہمان خصوصی کے طور پر آخر میں خطاب لاجواب سے لوگوں کو محظوظ ومسرور کیا ۔

3۔     آپ نے شیعہ مولوی قاضی سعید الرحمن سے علاقہ جندہ پیر لیاقت پور ضلع رحیم یار خان میں مناظرہ کیا جو کہ رات گئے تک ہوتا رہا ۔ جس میں قاضی سعید الرحمن شیعہ کو شکست فاش ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہمیشہ کی طرح کامیابی وکامرانی سے ہمکنار فرمایا ۔اس میں ہمارے شہر احمد پور شرقیہ کے چند شیعہ حضرات بھی موجود تھے جو کہ آج تک علامہ فیضی صاحب کی حقانیت وعلمی مقام کے معترف ہیں اور اپنی شکست اور اپنے مولوی کی ہار کو تسلیم کرتے ہیں ۔ جب قاضی سعید الرحمن مبہوت ہوا تو کہنے لگا کہ حضرت علی مومن نہیں ۔ آپ نے اس سے یہی تحریر لے لی اور اس نے بھی اپنے قلم وہاتھ سے لکھ دیا کہ حضرت علی مومن نہیں ۔ آج تک وہ ریکارڈ میں موجود ہے ۔

4۔     غیر مقلدوں کے امام مولوی عبداللہ روپڑی سے حویلی لکھا علاقہ پاکپتن سے مناظرہ طے ہوا ۔ آپ بمع کتب وتلامذہ مولانا عبدالرشید صاحب یاسینی وغیرہ کے مقررہ تاریخ ومقام پر پہنچ گئے ۔ دو دن تک اس کا انتظار کرتے رہے مگر اسے سامنے آنے کی تاب نہ ہوئی ۔

5۔     24دسمبر 1997ء کو آپ نے ایک غیر مقلد وہابی قاری مولوی عبید الرحمن سکنہ دائرہ دین پناہ ، ضلع مظفر گڑھ سے مناظرہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب لبیب ﷺ کے طفیل آپ کو فتح نصیب فرمائی اور اسے ذلت ورسوائی کا سامنا ہوا ۔علامہ فیضی صاحب مدظلہ نے اس وہابی مولوی سے یہ تحریر لکھوائی جو کہ نجدیت کے منہ پر طمانچہ رسید کرنے کے مترادف ہے ۔ شفاعت پیغمبر ﷺ برحق ہے جوکوئی اس کا منکر ہے وہ کافر ہے ۔ جو نبی ﷺ کی شفاعت کے متعلق لکھتا ہے کہ شفاعت مصطفی ﷺ برحق ہے ۔ اس کو ابوجہل جیسا مشرک کہنے والا (جیسا کہ مولوی اسمعیل قتیل نے اپنی کتاب تقویت الایمان کے صفحہ 330پر لکھا ہے )ہمارے نزدیک کافر ہے ۔ دستخط عبید الرحمن۔

        اس سے بڑھ کر حقانیت کی کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ وہابی شاطر ، اپنے کافر اپنے بڑی مولوی اسمعیل کو کافر لکھ دیا ۔ فللہ الحمد ۔

        آپ کی طرف سے چھپے ہوئے کافی تعداد میں مختلف اشتہارات اور پمفلٹ کی صورت میں موجود ہیں ۔ مگر آج تک کسی بد مذہب ، وہابی ، نجدی ، دیوبندی کو جرأت وہمت نہ ہوئی اور نہ ہی ان سوالات کے جوابات دے سکے ۔ بلکہ آج بھی ان کو ہمارا چیلنج ہے کہ اگر کسی میں علم وجرأت ہے تو ان کے تحریری جوابات سے اپنے بڑوں کا منہ دھوکر اپنے قرض اتارے ۔ تاکہ اہل علم پر حق وباطل کا امتیاز ہوسکے ۔

        مولانا درخواستی جو رخصت ہوچکے ہیں مذہب باطلہ مولانا سرفراز گکھڑوی مولوی عبدالستار تونسوی مولوی عبداللہ روپڑی وغیرہم پوری ذریت سے وہ سوالات تشتہ جواب ہیں ۔ کچھ چلے گئے مگر قرض نہ اتارا ۔ ان کے بس میں ہی نہ تھا جواب کیسے لکھتے   ؎

تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے

جب بڑھائے تجھے اللہ تعالیٰ تیرا

نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے

یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

6۔     آپ کی اسی کتاب لاجواب ومستطاب مقام رسول پر مخالفین دیوبندیوں ، نجدیوں نے ای ،اے ، سی احمد پور شرقیہ کی عدالت میں 1984ء میں درخواست دی ۔ اسی کتاب پر عدالت میں وکلاء ودانشوروں کے سامنے مناظرہ طے ہوا ۔وہاں بھی ان کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ۔ علامہ فیضی صاحب کی سے دلائل قاہرہ کے انبار اور ادھر لغویات تھیں ۔ بالآخر ای ، اے ، سی ، نے پولیس کو کمرہ عدالت میں طلب کرکے ان کی پٹائی کرائی ۔ فللہ الحمد

7۔     پھر انہیں نجدیوں نے 1992ء میں اسی کتاب کو بند کرانے کے لئے سیشن کورٹ میں رٹ دائر کی ۔ بحمد اللہ تعالیٰ وہ رٹ سیشن جج نے خارج کردی ۔ جس کی نقل اور بدست سیشن جج اسی کتاب کے آخر میں موجود ہے ۔ اہل علم ومنصف مزاج پڑھ کر خود فیصلہ فرماسکتے ہیں حق اور باطل میں امتیاز کرسکتے ہیں ۔

آپ بطور شیریں بیاں خطیب :

        جہاں آپ ایک قابل ترین مدرس ومفسر ومحدث ہیں وہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو فن خطابت میں بے پناہ صلاحیت عطا فرمائی ہے ۔ آپ کی زبان مبارک میں وہ شیرینی ہے کہ سننے والا یکسوئی کے ساتھ محو ہوکر آپ کے خطاب لاجواب سے مستفید ہوتا ہے ۔ آپ جماعت اہلسنّت کے مایہ ناز خطیب ہیں ۔ مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ آپ کی ڈائری کئی کئی ماہ تک پرُ ہوتی ہے ۔ پروگرام لینے کے لئے کئی ماہ پہلے رابطہ کیا جاتا ہے آپ کراچی سے لے کر حویلیاں ہزارہ پنڈی تک ادھر بلوچستان کوئٹہ اوستا محمد تک تبلیغی تقریری دوروں پر تشریف لے جاتے ہیں ۔ آپ کی تقریر دل پذیر میں وہ اثر ہے وہ جادو ہے کہ کئی عشاقان مصطفی ﷺ آپ کی تقریر میں جان کا نذرانہ دے چکے ہیں اور شہادت کا جام نوش کرچکے ہیں ۔ آپ کے لئے تین چار گھنٹے بیان فرمانا غیر معمولی بات ہے ۔ فقط ایک موضوع پر چار چار گھنٹے بیان فرمانے کی صلاحیت اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے ۔جس سے علماء دنگ رہ جاتے ہیں اور حوالہ جات کے انبار ہوتے ہیں ۔ بلادلیل آپ کی کوئی بات نہیں ہوتی ۔ جو بھی ایک بار آپ کے خطاب لاجواب سے مستفیض ہوتا ہے وہ بار بار آپ کے بیان عالی شان کے سننے کی سعی وتگ ودو کرتا ہے ۔ کوئی خطیب فقط اردو زبان میں خطاب فرماتے ہیں اور کوئی سرائیکی میں فقط مگر یہ صلاحیت اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے کہ سرائیکی ، اردو ، فارسی ، عربی سب پر عبور رکھتے ہیں ۔ فی البدیہہ جو بھی زبان ہو آپ تقریر شروع فرمادیتے ہیں اور صاحب زبان عربیوں سے اس انداز میں داد حاصل کرتے ہیں کہ مائۃ فی المائۃ فی الرد علی الوہابیہ آپ کی نورانی تقریر سو فیصد وہابیوں کا رد بلیغ ہے ۔ مزید یہ کہ ہر شخص آپ کے خطاب لاجواب سے یکساں مفید ہوتا ہے ۔ خواہ وہ عالم وطالب علم ہو خوندہ یا ناخواندہ ۔ جب علمائے کرام آپ کے علمی جواہر پارے سنتے ہیں تو بغیر داد دئیے رہ نہیں سکتے اور آپ کی تقریر میں جدت ہوتی ے نیا موضوع ہوتا ہے نیارنگ ہوتا ہے ۔ یہ فقط آپ کا خاصہ ہے نیز آپ کی یہ کرامت ہے کہ بغیر مجمع واجتماع کے تقریر شروع فرمادیتے ہیں ۔ 10-15منٹ تک پنڈال کھچا کھچ بھر جاتا ہے ۔ جب کہ عام علماء حضرات اس سے گریز کرتے ہیں کہ ہائوس فل ہو پھر خطابت کا میدان سنبھالیں ۔ علمی سوالات وجوابات آپ کا خاص مشغلہ ہے ۔ دوران خطابت بہت سے سوالات کئے جاتے ہیں اور آپ فوراً دلائل قائرہ سے باحوالہ جوابات سے نوازتے جاتے ہیں اور اپنے مؤقف کو دلائل قاہرہ سے روز روشن کی طرح واضح فرمادیتے ہیں اور مذہب باطلہ کے عالی محلات کو پاش پاش کرکے اپنے مذہب حقہ اہلسنّت کی حقانیت کو دوبالا کردیتے ہیں کراچی ، ملتان ، لاہور وغیرہ کئی مقامات سے آپ کو جمعہ کی خطابت کی بیش کش کی گئی ۔ مگر آپ نے اپنے پسماندہ شہر احمد پور شرقیہ کو بلا کسی معاوضہ کے ترجیح دی اور باقی سب کو کثیر مالی اعانت وپیش کش کے باوجود ٹھکرادیا ۔ آج کل آپ مدرسہ فیضیہ رضویہ کی نورانی جامع مسجد میں خطابت کے فرائض بلامعاوضہ انجام دے رہے ہیں ۔بلکہ آپ اپنی ذاتی آمدنی سے مدرسہ فیضیہ وفیض الاسلام کے اخراجات برداشت کرتے ہیں ایک بزرگ عالم دین عاشق رسول ﷺ حافظ مولانا محمد عارف صاحب احمد پوری رحمۃ اللہ علیہ نے جس کا علامہ فیضی صاحب مدظلہ اور ان کے والد محترم علامہ پیر محمد ظریف صاحب فیضی رحمۃ اللہ علیہ کو لوگوں کی موجودگی میں بتایا اے علامہ فیضی صاحب ! حضرت خضر علیہ السلام پہلے بھی آپ کو شرف بخشنے کے لئے آپ کے پیچھے نماز جمعہ ادا فرماگئے ہیں اور آئندہ جمعہ بھی آپ کے پیچھے اسی نورانی جامع مسجد میں ادا فرمائیں گے ۔ انسانی لباس وشکل وصورت میں ہوں گے ۔ نورانی شفاف چہرہ ہوگا سفید چمکدار ریش مبارک ہوگی اور سفید لباس میں ملبوس ہوں گے اور ان کے ہاتھ ریشم کی طرح نرم وملائم ہوں گے اور داہنے ہاتھ کے انگوٹھے کی ہڈی نہیں ہوگی بالکل نرم ونازک انگوٹھا ہوگا ۔ اسی جمعہ کئی حضرات نے خضر علیہ السلام سے مصافحہ کیا ۔ (کما صلی النبی ﷺ خلف ابی بکر الصدیق وعبدالرحمن یتاعون وجبرائیل علیہم السلام تشریفا لھم )

اس سے قبل آپ ان مقامات پر خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں ۔

1۔     جامع مسجد دربار حضرت سید جلال الدین بخاری اوچ شریف ۔

2۔     جامع مسجد دربار حضرت مخدوم جہانیاں جہانگشت اوچ شریف ۔

3۔     جامع مسجد کرنل عبداللطیف محلہ سرمد شاہ احمد پورشرقیہ ۔

4۔     جامع مسجد داروغہ اللہ ڈیوایا محلہ شکاری احمد پور شرقیہ ۔

        تبلیغ دین کے سلسلے میں آپ اندرون وبیرون ملک دورے کرچکے ہیں ۔ حج بیت اللہ کے موقع پر آپ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران میلاد شریف کی محافل میں حضرت قبلہ مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان صاحب (بریلی شریف)، حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی ، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی ، حضرت مولانا نور اللہ بصیر پوری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعیناور مفتی محمد حسین نعیمی صاحب سکھر مدظلہ العالی کی صدارت میں اردو عربی میں علماء مصر وشام کی موجودگی میں تقاریر فرماکر علماء عرب وبزرگان اسلام کے دل موہ لئے ۔ آپ کی تقاریر کی آڈیو کیسٹ عربی ، اردو اور سرائیکی میں مختلف موضوعات پر موجود ہیں ۔

تحریک پاکستان میں آپ کا کردار :

        تحریک پاکستان کے وقت آپ اگرچہ جواں سال تھے مگر جذبہ اسلام وآزادی سے اس وقت بھی سرشار تھے اور اپنے عمائدین وقائدین کی طرح اس تحریک میں سرگرم عمل رہے اور اپنے والد محترم علامہ پیر محمد ظریف صاحب فیضی کے زیر سایہ مسلم لیگ کا بھرپور ساتھ دیا ۔ تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفی ﷺ میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ اپنے دل پذیر خطاب لاجواب سے عوام الناس کو ان تحریکوں کے پس منظر سے آگاہ کیا ۔ اسلام اور سوشل ازم کے موضوع پر مستقل کتاب کے ذریعے مسلمانوں کو بیدار کیا اور ہر طرح سے ان تحریکوں سے بڑھ چڑھ کر تحریر وتقریر کے ذریعے ان کی اہمیت کو اجاگر کیا مزید برآں خود عملی طور پر جلوسوں کی قیادت فرماتے رہے اور جب احمد پور شرقیہ میں تحریک نظام مصطفی کے دوران گولی چلی اور خون کی ندیاں بہیں تو اس میں آپ کے چچا زاد بھائی مولانا قبول احمد صاحب آپ کے رضاعی بھائی مولوی عبدالعزیز صاحب اور مدرسہ فیضیہ رضویہ کے طالب علم حاجی محمد حنیف صاحب اور سید گل حسن شاہ صاحب زخمی ہوکر خون میں لپ پت ہوگئے اور آپ کے ایک عقیدت مند نے جام شہادت نوش کیا ۔ سیاسی طور پر آپ ابتداء ہی سے جمعیت علمائے پاکستان سے وابستہ رہے اور اس کے سرگرم رکن کی حیثیت سے کام کیا ۔ 1978ء تا 1989ء میں علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نے جب احمد پور شرقیہ کا دورہ فرمایا تو آپ کو تحصیلی سطح پر جمعیت کا کنوئیر مقرر کیا گیا ۔ مئی 1978ء میں آپ کو جماعت اہلسنّت پاکستان ضلع بہاولپور کا صدر منتخب کیا گیا ۔ آپ نے اپنے دور صدارت میں جماعت کے لئے دن رات تگ ودو اور سخت محنت فرمائی ۔کل پاکستان سنی کانفرنس ملتان اور میلاد مصطفی کانفرنس رائے ونڈ میں شرکت کے لئے بڑے پیمانے پر کوشش کی ۔ کئی کاروں اور بسوں کا قافلہ آپ کی نگرانی میں ملتان اور رائیونڈ پہنچا اور آپ کو مرکزی مجلس عاملہ کا رکن بھی منتخب کیا گیا ۔

حرمین شریفین کی حاضری اور مقامات مقدسہ کی زیارت :

        ویسے تو آپ ہر وقت اللہ تعالیٰ ورسول اللہ ﷺ کی حاضری میں رہتے ہیں ۔ لیکن ظاہری طور پر آپ پہلی مرتبہ 1970ء میں حرمین شریفین کی حاضری پر تشریف لے گئے ۔ مدینہ منورہ کی حاضری پر آپ نے مواجہہ شریف کے سامنے سرکار دوعالم ﷺ کی بارگاہ میں یہ نعت پیش کی ۔ جس کا مطلع ومقطع یہ ہے ۔

حبیب خدا سائیں الیسو کے کیناں ……کتی کوں ولا سائیں سڈیسو کے کیناں

ہے عصیاں دا مایارے فیضی دی حاضر ……نگاہ تلطف بھلیسو کے کیناں

        دوسری حاضری 1971ء میں ہوئی ۔ اس حاضری میںآپ کے والد محترم علامہ الحاج پیر محمد ظریف صاحب فیضی رحمہ اللہ بھی ساتھ تھے ۔ آپ سفینۃ الحجاج بحری جہاز سے پہلے روانہ ہوئے تو آپ کے والد محترم الوداعی وقت میں مغموم ہوگئے کہ منظور احمد مجھے چھوڑ کے اکیلا روانہ ہوگیا ۔ آپ جب قدم بوس ہوئے تو اپنے والد محترم سے کہنے لگے اے آقائے نعمت !انشاء اللہ العزیز آپ مجھ سے پہلے پہنچیں گے ۔

گفتئہ او گفتئہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

        جب آپ مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ کے والد محترم پہلے سے موجود تھے اور بوتل نوش فرمارہے تھے ۔ اپنے والد محترم کے قدم بود ہوکر مخاطب ہوئے اے آقائے نعمت ! میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ اگر چہ میں پہلے جارہا ہوں ۔ مگر آپ مجھ سے پہلے حاضری دیں گے ۔

آپ کے والد محترم کا پیار اور آپ کی نیاز وادب :

        اگر کوئی والد اپنی اولاد پر مہربان اور دعائوں کا مرکز ہوگا تو علامہ فیضی صاحب کے والد محترم اس کی مثال تھے ۔ جتنا پیارومحبت وشفقت اور اپنی نیک دعائوں میں اپنے اکلوتے لڑکے علامہ فیضی صاحب مدظلہ کو یاد فرمایا کرتے تھے ۔ اتنا شاید کسی کے والد نے اپنی اولاد کو نیک دعائوں میں یاد کیا ہوگا اور اگر کوئی والدین کا بادب لڑکا دیکھنا ہوتو علامہ فیضی صاحب مدظلہ کو دیکھ لو ۔ پورے علاقہ میں والد اور ولد کا پیاروادب مشہور ومعروف تھا اور اسے بطور نمونہ ومثال پیش کیا جاتا تھا ۔ پیار ومحبت اور نیک دعائوں میں مالا مال اور سرشار دیکھنا ہوتو آپ کے والد محترم کو دیکھ لو اور باادب وباحترام وتابع فرمان لڑکا دیکھنا ہوتو علامہ فیضی صاحب کو دیکھو ۔ وبالوالدین احسانا۔پر اگر کسی نے عمل کیا تو بلا مبالغہ علامہ فیضی صاحب مدظلہ اس کی جیتی جاگتی تفسیر وتصویر ہیں ۔ آپ اس کی تشریح یوں بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وبالوالدین احسانا کہ والدین سے احسان کرو یہ نہیں فرمایا کہ صرف ان کی زندگی میں احسان کرو بلکہ بعد از وصال بھی احسان کرو ۔ قرآن ، قل ، کلمہ ، درود شریف ، صدقات ، دعا وغیرہ سے احسان کرو ۔ زندگی میں بھی اور ان کے وصال کے بعد جتنا آپ نے اس آیت پر عمل کیا ہے شاید ہی آج کل کوئی حافظ یا عالم اس پر عمل کرتا ہو رب ارحمھما کما ربیانی صغیراکی تلاوت کرکے آپ آگے اس طرح مجھے تشریح وتفسیر فرماتے ہیں کہ رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا وکبیرا وکحولا۔یعنی اے میرے پروردگار میرے والدین پر رحم فرمایا جیسا کہ انہوں نے بچپن ، جوانی اور بڑھاپے میں میری پرورش فرمائی ۔ آپ کے والد محترم بھی آپ کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے ،جگر کو تسکین اپنے محبوب ، علامہ ، مناظر ، تقویٰ کے پیکر لڑکے کو دیکھ کر دیتے تھے ۔ نیز انت ومالک لابیک (الحدیث )کا مصداق آپ ہیں ۔ والد محترم نے جتنی رقم کا مطالبہ کیا آپ نے بلا چوں وچرا اور بغیر توقف کے حسب فرمان رسول اللہ ﷺ پیش کردیا اف تک نہ فرمائی ۔ آپ کے والد محترم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تقریباً 20سے 25مرتبہ حرمین شریفین کی حاضری ہوئی ۔ سب اخراجات آپ نے برداشت کئے ۔

منت منہ کی خدت سلطان ہمی کسی ……منت شناس کہ درخدمت تا گذاشت

        تیسری حاضری آپ کی 1976ء میں ہوئی ۔ جس میں آپ اپنے ساتھ چھ افراد کا قافلہ لے گئے ۔ جس میں آپ کے والد محترم ، آپ کی زوجہ محترمہ ، اور آپ کا بیٹا ، راقم الحروف محمد محسن فیضی ایک آپ کی بیٹی اور آپ کا ایک طالب علم حاجی مولوی محمد حنیف شمسی ساتھ تھے ۔ یہ حاضری رمضان شریف میں عمرہ کی ادائیگی کی تھی عمرہ کی ادائیگی کے بعد عازم مدینۃ الرسول ﷺ ہوئے ۔ رمضان شریف میں اعتکاف حرم نبوی میں نصیب ہوا پھر شوال ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے کچھ ایام (یعنی تین ماہ ) مدینہ منورہ میں قیام فرمایا ۔ جو کہ احب البقاء الی اللہ ہے اور دن رات محافل میلاد النبی ﷺ میں تقاریر فرماتے رہے ۔ آپ بابا العوالی بیرون جنت البقیع ایک ملتانی بستی حاجی نذر محمد صاحب مدنی ملتانی اور صوفی اللہ دتہ مدنی ملتانی کی مسجد میں آپ روزانہ علی الصبح بعد نماز فجر درس حدیث دیا کرتے تھے اور اسی مسجد میں آپ تین ماہ امامت کے فرائض انجام دیتے رہے اور حاجی محمد حنیف مؤذن تھے ۔ ملتانی مدنی حضرات نے آپ کو ہمیشہ یہیں رہنے کا کہا کہ آپ کے سب اخراجات ہم برداشت کریں گے ۔ مگر آپ نے فرمایا پیچھے درس وتدریس کا سلسلہ ختم ہوجائے گا آپ دعا کریں کہ ہر سال مدینہ منورہ کی حاضری نصیب ہوتی رہے ۔ ایک دن آپ جب احد شریف تشریف لے گئے اور ایک پتھر اٹھا کر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کی کہ اے پروردگار !کاش مجھے مدینہ منورہ کے جبل احد کا ایک پتھر بنا دیتا وہ پہاڑ جس کو حضور ﷺ سے محبت ہے اور آپ کو بھی جبل احد سے محبت ہے ۔ نیز یہ کہ حساب وکتاب سے بھی محفوظ رہتا ۔ حاجی محمد حنیف نے عرض کی ، حضور آپ کا علمی وروحانی فیض کیسے دنیا کو نصیب ہوتا؟دنیا آپ سے کیسے اکتساب فیض علم وعرفان پاتی ؟ اسی مقصد کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی پیدائش فرماکر اہلسنّت پر احسان فرمایا ۔

        چوتھی حاضری 1982ء میں آپ کو نصیب ہوئی اس بار بھی آپ کے والد محترم اور ایک آپ کی عزیزہ آپ کے ساتھ تھیں ۔ اس مرتبہ آپ رمضان المبارک میں تشریف لے گئے اور بعد ادائیگی حج واپس ہوئی ۔ اس مرتبہ آپ جب تشریف لے گئے تو چند شر پسند عناصر تعصب بغض وحسد کی بنیاد پر یہ افواہ اڑا دی کہ آپ کراچی میں بیٹھے ہیں کبھی یہ کہتے کہ آپ سعودی عرب میں گرفتار ہیں ۔ کبھی یہ افتراء باندھتے کہ آپ کے سعودی عرب جانے پر پابندی ہے ۔ مگر بحمدہٖ تعالیٰ آپ نے اس مرتبہ بھی حسب سابق ودستور بھرپور محافل میلاد میں شرکت فرمائی ۔ اس سال علامہ مولانا خورشید احمد صاحب فیضی ظاہر پیر والے بھی آپ کے ساتھ تھے ۔ آپ عربی میں مہارت نامہ وید طولیٰ کے مالک ہیں۔ اس لئے عرب شریف میں آپ اردو، عربی اور سرائیکی میں تقاریر فرماتے ہیں اور صاحب عرب زبان سے خود داد پاتے ہیں ۔

        پانچویں حاضری غالباً یہ حاضری آپ کی 1985ء یا 86ء میں ہوئی واللہ ورسولہ اعلم

        چھٹی حاضری 1988ء میں ہوئی ۔ اس حاضری میں بھی آپ کے والد محترم اور آپ کے دوسرے لڑکے حافظ محمد حسن فیضی ساتھ تھے ۔ اس میں آپ کے والد محترم اور آپ کے لڑکے رمضان شریف میں تشریف لے گئے تھے اور آپ حج کے ایام ماہ ذوالحجہ میں تشریف لے گئے ۔ غلام مصطفی شاہ صاحب اور ملک حاجی عبداللہ صاحب رشید والے بھی ساتھ تھے ۔ آپ حج ویزا کے ذریعہ تشریف لے گئے تھے ۔ آپ کا ارادہ تو اپنے بزرگوار والد کے ساتھ جانے کا تھا ۔ مگر رمضان شریف میں نہ جاسکے ۔ آپ کے والد محترم نے وہیں سے بشارت دی کہ سرکار مدینہ ﷺ نے اجازت مرحمت فرمائی ہے اب آجائو پھر آپ عین حج کے دنوں میں پہنچ گئے بعد حج واپس تشریف فرما ہوگئے ۔

        ساتویں حاضری بھی رمضان المبارک 1991ء میں نصیب ہوئی ۔ اس دفعہ آپ کے والد محترم اور آپ کی زوجہ محترمہ بھی ساتھ تھے اور اپنے تیسرے اور چھوٹے صاحبزادے حاجی محمد حسین فیضی کو بھی اپنے ساتھ لے گئے ۔ آپ کے والد محترم رمضان المبارک کے بعد عمرہ کی ادائیگی اور اعتکاف حرم نبوی کے بعد واپس تشریف لائے ۔ مگر آپ بمع اہلیہ وبیٹے کے حج مبرور (حج اکبر)کی ادائیگی کے بعد تشریف لائے ۔

        آٹھویں حاضری اکتوبر 1997ئمیں ہوئی مدینہ منورہ میں ایک ماہ کا قیام صرف محافل میلاد النبی ﷺ کے لئے تھا ۔ کیونکہ درمیان میں چھ سات سال کا وقفہ تھا اس لئے عشاق بیتاب تھے تشنگان علم وعرفان آپ کے دیدار کے شائق تھے ۔ سب تگ ودو اہل مدینہ منورہ نے کی ۔ پندرہ دن کا حسب معمول ویزہ تھا بعدہ اہل مدینہ منورہ نے مزید پندرہ دن کے قیام کی اجازت دلائی جب بھی واپسی کا پروگرام بنتا تو پھر کوئی رکاوٹ حائل ہوجاتی ۔ ایک اہل مدینہ بزرگ نے فرمایا اگر علامہ منظور احمد صاحب فیضی کو حضور ﷺ اجازت مرحمت نہ فرمانویں تو وہ کیسے پاکستان جاسکتے ہیں ۔ لہٰذا جتنے دن سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام الغفار نے چاہا اپنے قرب خاص میں رکھا ۔

آتے ہیں وہی جن کو سرکار بلاتے ہیں

آمدن بارادت ۔ ورفتن باجازت

        نویں حاضری 1998ء میں ہوئی اس بار آپ بمع اہل خانہ آپ کی زوجہ محترمہ دوصاحبزادیاں ، ایک عزیزہ ، اور ایک آپ کے والد محترم کا مرید نور احمد رمضان المبارک میں تشریف لے گئے عمرہ کی ادائیگی کے بعد عازم طیبہ ہوئے مدینہ منورہ میں رات کو پہنچے اور اسی رات محفل میلاد وعرس حضرت خواجہ محمد قمر الدین صاحب سیالوی رحمۃ اللہ علیہ میں آپ نے شرکت کی ۔راقم الحروف بھی اس بابرکت محفل میں شامل تھا نعت خوانی کے بعد تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا پہلے خطاب مولانا عبدالتواب صدیقی اچھروی لاہوری صاحب نے کیا بعدہ آپ کا خطاب لاجواب جب شروع ہوا تو عشاقان مصطفی ﷺ کی آنکھوں میں آنسو کی چھڑی لگ گئی کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو نمدیدہ نہ ہو ۔ بعد اختتام محفل حاضرین نے آپ کو خراج تحسین پیش کیا آپ کے ہاتھوں کو بوسے دینے لگے اور پوچھنے لگے یہ کون سی ہستی ہیں جو کہ عشق سرکار ﷺ میں ڈوبی ہوئی ہے یہ نورانی اور روحانی چہرہ کسی خاص بزرگ کا ہے کہ دیدار کرتے ہی خدایاد آجاتا ہے ۔ اذارؤ واذکر اللہ کا مصداق آپ کی ذات بالا صفات ہے ۔ بلاریب وبلا مبالغہ یہ ایک حقیقت ہے ۔ پھر بعد اعتکاف مکہ مکرمہ میں حج تک قیام فرمایا اور تصانیف کا سلسلہ جاری رکھا ۔ تقریباً دس کتابیں تحریر فرمائیں جن میں اکثر عربی اور کچھ اردومیں ہیں ۔ آپ اپنے گرامی قدر والد محتشم کے ساتھ دہلی،اجمیر شریف کی زیارات بھی فرماچکے ہیں آپ حضور خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سالانہ عرس سراپا قدس کے موقع پر تشریف لے گئے اور آپ کو وہاں سے بہت روحانی فیض ملا ۔ آپ دسمبر 94وجنوری 1995ء میں ایران ، عراق کے مقامات مقدسہ کی زیارات پر بھی قافلہ کے ساتھ تشریف لے گئے تھے ۔ اس زیارتی قافلہ میں آپ کی زوجہ محترمہ آپ کا بیٹا حافظ محمد حسن اور دوسرے سنی سادات کرام آپ کی معیت میں تھے ۔

        آپ نے کربلا معلی میں امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روضہ مبارک ومزار شریف کی حاضری دی تو آپ کو مزار مبارک کے اندر سے کوئی خاص تحفہ بھی عطا ہوا ۔ فللہ الحمد نیز حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار مبارک کی حاضری پر بھی آپ کو اکتساب فیض کا موقع ملا اور آپ نے کربلا معلی روضہ کے اندر اپنی علیحدہ جماعت کا بھی اہتمام فرمایا آپ کے ساتھ جو سنی سادات کرام سید فدا حسین شاہ صاحب بخاری وغیرہ تھے آپ کی معیت سے بہت لطف اندوز ہوئے اور بار بار وہ سفر زیارات یاد کرتے اور کہتے ہیں کہ حضرت علامہ فیض صاحب کی معیت میں جو قلبی سکون واطمینان اور فیض حاصل ہوا کاش ، وہ دوبارہ آپ کی معیت میں نصیب ہو ۔

آپ کی تصانیف (مطبوعہ):

        آپ جیسے فن خطابت کے شہسوار فن مناظرہ کے امام اور فن تدریس کے مایہ نام معلم ہیں ویسے آپ فن تصنیف وتحقیق میں ید طولیٰ کے مالک ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس نعمت عظمیٰ سے بھی نوازا ہے ۔ آپ کی ہر تصنیف وتالیف علمی وتحقیقی شاہکار ہے ۔

۱۔      مقام رسول ﷺ آپ کی یہ تصنیف لطیف ، کتاب لاجواب  عرب وعجم میں یکساں مقبول ، عالم اور متعلم کے درمیان محبوب ہے ۔ جس نے بھی اس کا ایک بار مطالعہ کیا پھر بار بار پڑھنے کی کوشش کی ۔ جس کے ہاتھ یہ کتاب لگی پھر واپس بڑی مشکل سے ہوئی اور کیوں نہ ہو کہ والی دوجہاں حامی بیکساں باعث تخلیق کائنات فخر موجودات محبوب خدا قادر مطلق وحسن مطلق کے حسن وجمال کا آئینہ ومظہر اتم قدرت کا شاہکار احمد مختار علیہ صلوٰۃ اللہ وسلام الغفار کی بارگاہ بیکس پناہ میں بھی شرف قبولیت کا درجہ رکھتی ہے ۔ آپ کو جب حضور ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا تویہی کتاب مستطاب مقام رسول ﷺ آپ کے ید الٰہی ہاتھوں میں تھی اور آپ خوشی ومسرت کا اظہار فرما رہے تھے کہ میری شان اور مقام پر بہترین تونے تالیف کی ہے بعدہ سرکار دو عالم ﷺ فخر آدم وابن آدم ﷺ نے مہر تصدیق اس کتاب پر ثبت فرمائی کہ اس میں جو بھی ہے حق ہی حق ہے اس میں ایک ایسی حدیث نبوی موجود ہے کہ جس کی تصدیق خود حضور ﷺ نے فرمائی کہ ان اللہ الدرفع لی الدنیا وانا انظر الیھا والی ماھو کائن فیھا الی یوم القیامۃ کانما انظر کفی ھذہ واقعی یہ میری حدیث ہے ، سبحان اللہ العظیم وبحمدہٖ اس کتاب میں کسی مسلمان کو شک وشبہ کا شائبہ وگنجائش تک باقی نہ رہے ۔ تو کیوں نہ اسے عشاق بار بار پڑھیں اور اپنے ایمان کی آبیاری کریں ۔

        مقام رسول ﷺ کے پانچ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور اس ایڈیشن کو جدید طرز پر ضیاء القرآن سے شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے ۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ اس کوشش کو قبول فرمائے ۔(آمین ثم آمین )

۲۔     تعارف ابن تیمیہ ، بہت سے نامور شخصیات ، پردہ نشینوں کا اصل چہرہ دلائل قاہرہ سے بے نقاب کرکے پیش کیا گیا ہے ۔ بیش بہا علمی خزانہ ، معلومات کا وافر ذخیرہ ۔ بد مذہب کے بڑے بڑے محلات وقعر فقط ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور ان میں ایسی دراڑیں پڑگئیں کہ دھڑام سے پوری نجدیت کا خول گر کر پاش پاش ہوگیا اور شیشہ کی طرح چکنا چور ہوگیا ۔

۳۔     اسلام اور داڑھی آپ کی مایہ ناز تصنیف ہے اس کتاب میں آپ نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ مسلمان کے لئے ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے اور داڑھی منڈانے اور کترانے والوں کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی اور واجب الاعادہ ہے ۔ اس کتاب پر 32جید علماء کرام اور بزرگان دین کی تصدیقات وتقریظات موجود ہیں ۔ قابل مطالعہ کتاب ہے بالخصوص خش خشی داڑھی والے اماموں اور ان کے مقتدیوں کے لئے انمول تحفہ ہے ۔

۴۔     مختصر انوار القرآن تفسیر فیضی آپ نے اپنی اس تصنیف میں صرف آیات قرآنیہ سے عقائد ومسائل اہلسنّت کو روز روشن کی طرح واضح کرکے ثابت کیا ہے جس میں تمام مسائل ، توحید ورسالت ، علم غیب ، حاضر وناظر، مختار کل ، نورانیت حیات النبی ، شان اہل بیت وصحابہ ، ازواج مطہرات، ماتم منع، شان اولیاء ، صدقہ وطفیل عصمت انبیاء وغیرہ سب کو صرف آیات قرآنیہ سے بیان کیا ہے ۔

۵۔     فیضی نامہ فارسی قوانین کی بہترین جامع کتاب سلیس اردو زبان میں ہے ۔ اس سے قبل شاید ایسی فارسی گرائمر کی کتاب تحریر کی گئی ہو ۔ فارسی کے شائقین حضرات کے لئے بہترین تحفہ ہے ۔ خصوصاً عربی مدارس کے ابتدائی طلبہ کے لئے بے حد مفید ہے ۔

۶۔     حاشیہ کریما شیخ سعدی علیہ الرحمہ کی فارسی کی ابتدائی کتاب مستطاب کریما کا بہترین اور مستند حاشیہ ہے ۔

۷۔     کلمات طیبات ودرود شریف دعائوں اور وظائف کا بہترین مختصر مجموعہ الفاظ مختصر مگر ثواب زیادہ ۔

۸۔     چہل حدیث عقائد واعمال پر چالیس احادیث کا بہترین انتخاب پڑھنے کے لائق ہے ۔

۹۔     علماء دیوبند کی عبارات سے وہابی کی تاریخ وپہچان نام سے ظاہر ہے ۔

۱۰۔    عقائد ومسائل اہلسنّت جیسی سائز مختصر ترین مگر مدلل رسالہ ۔

۱۱۔     پانچ احادیث جیسی سائز کا مختصر رسالہ فضائل کلمات کلمہ درود شریف وغیرہ ۔

۱۲۔    دس صیغہ درود وسلام مع فضائل وخواص نام سے ظاہر ہے جیسی سائز جامع۔

۱۳۔    پانچ احادیث عقائد اہلسنّت کے تحفظ کے لئے ان احادیث کا پڑھنا بے حد ضروری ہے ۔

۱۴۔    کتب وہابیہ سے وہابیوں کے عقائد ان کی کتب اور تحریروں کے فوٹواسٹیٹ کے ساتھ ۔

۱۵۔    گستاخان مصطفی کی جامہ تلاشی اس کتاب میں دلائل اور حوالہ جات کے ساتھ خارجیوں ، نجدیوں کی ۱۰۳گستاخانہ عبارات درج ہیں ۔ اصل حقیقت سے آگاہ ہونا ضروری ہے ۔ ہر مسلمان پڑھے اور ان کے عقائد وشر سے بچے ۔

۱۶۔    حلت سماء کی احادیث قوالی کے ثبوت کے لئے بہترین رسالہ صرف احادیث سے ۔

۱۷۔    مختار کل تین آیات بائیس احادیث اور اقوال ائمہ سے اس بات کا ثبوت کہ اللہ تعالیٰ کے تمام خزانوں کی چابیاں حضور ﷺ کے قبضہ میں ہیں ۔

۱۸۔    نظریات صحابہ اس کتاب میں صحابہ کرام کے عقائد ونظریات کا بہترین اور مدلل بیان ہے ۔ قابل مطالعہ کتاب ہے ۔ صحابہ کے نام شیدائیوں کے لئے لمحہ فکریہ ۔ کیوں ؟ اورصحابہ کے عقائد کی ان کو دعوت دی گئی ہے کہ شخصیات سے پیار ہے اور عقائد سے نفرت ۔

۱۹۔    مسائل احناف کا مدلل ثبوت قرآن واحادیث صحیحہ سے دیا گیا ہے جس میں فاتحہ خلف الامام رفع یدین آمین بالجہروغیرہ سب کا جواب موجود ہے ۔ مختصر مگر جامع

۲۰۔    سوانح حیات عارف باللہ عاشق رسول اللہ ﷺ حضرت علامہ الحاج پیر محمد ظریف صاحب فیضی رحمہ اللہ کی مکمل سوانح حیات کا ذکر موجود ہے آپ کے مریدین ومعتقدین کے لئے بہترین تحفہ ہے ۔

۲۱۔    معترضین مقام رسول سے سوال شر پسند دیوبندی مولویوں سے علمی سوال جس کا جواب آج تک نہ دے سکے ۔

۲۲۔    مسائل عید قربانی نام سے ظاہر ہے سلیس اردو میں تمام مسائل موجود ہیں ۔

۲۳۔   سلسلہ چشتیہ جمالیہ نام سے ظاہر ہے ۔

۲۴۔   اذکار وتذکار درود وظائف کا مختصر ترین رسالہ نیز مختصر سوانح حیات حضرت علامہ پیر محمد ظریف صاحب فیضی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ ۔

۲۵۔   دیوبندیوں کی عبارات فتح مبین المعروف کذب مبین کا جواب ہماری طرف سے ان سے سوالات کے جوابات چھپے ہوئے موجود ہیں مگر ہمارے کسی ایک سوال کا جواب آج تک کسی بد مذہب دیوبندی وہابی نے نہیں دیا اور نہ دے سکتا ہے ۔؎

کلک رضا ہے خنجر خونخوار برق بار

اعداء سے کہہ دو کہ خیر منائیں نہ شر کریں

رضا کے سامنے کی تاب کس میں

فلک دار اس پہ تیرا ظل ہے یا غوث

۲۶۔    سوشلز یا اسلام قرآن مجید سے اسلام کا پرچم بلند کیا گیا ہے اور باطل نظریہ سوشلزم کی نفی کی گئی ہے ۔

۲۷۔   کتاب الدعوات والاذکار من کلام اللہ تعالیٰ وحبیبہ سید الابراروسائر الاخیار قرآنی آیات اور احادیث نبویہ سے اور ادووظائف اور دعائوں کی لاجواب کتاب مستطاب مفید شیخ وشباب ۔

۲۸۔   شجرہ پیران چشت اہل بہشت بمع مدفن وتاریخ وصال

۲۹۔    القول السدید فی محاسن الشہید وذمائم یزید

اس میں امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان قرآن وحدیث سے بیان کی گئی ہے اور یزید پلید کی مذمت وپٹائی کی گئی ہے یزیدیت وخارجیت پر ایک اور علمی دھماکہ پڑھیں اور اہل بیت کی محبت کا جام نوش کریں ۔

۳۰۔   مرج البحرین فی ذکر الغوثین

اس میں غوث زماں شیخ المشائخ استاذ العلماء والعرفاء حضرت خواجہ فیض محمد شاہ جمالی اور قلندر وقت حضور قبلہ سلطان العارفین خواجہ غلام یاسین رحمہما اللہ تعالیٰ کی سوانح حیات کا ذکر خیر ہے ۔

۳۱۔    مقام صحابہ شان صحابہ قرآن واحادیث سے مختصر مگر جامع ۔

۳۲۔   مقام اہل بیت شان اہل بیت قرآن واحادیث سے مختصر مگر جامع ۔

۳۳۔   روحانی زیورمسلم طلبہ وخواتین کے لئے جامع ترین لاجواب کتاب مستطاب فی زمانہ اس کا ہر گھر میں ہونا ضروری ہے سب حقوق زوجین ، والدین وغیرہ اس میں جمع ہیں ۔

غیر مطبوعہ تصانیف :

۳۴۔   افہام الاغنیاء بحیاۃ الانبیاء والاولیاء

۳۵۔   الحق الجی فی بیان ان الخوارق مقدورۃ للنبی والولی

۳۶۔   فتاویٰ فیضیہ ۵جلدوں میں

۳۷۔   اعلام العصر بحکم سنت الفجر

۳۸۔   بستان العارفین

۳۹۔    الکلام المفین فی حکم التقلید ، غیر مقلدین کا مدلل رد اور تقلید کی اہمیت

۴۰۔   تطہیر الجنان واللسان بمدح الامام ابی حنیفہ نعمان امام اعظم ابوحنیفہ کی شان

۴۱۔    کتاب العلم (عربی)

۴۲۔   القول السدید فی حکم ضبط التولید ، برتھ کنٹرول کے متعلق لاجواب تحقیق

۴۳۔   العتق فی العشق ، الملقب بہ المفاز فی المجاز

۴۴۔   دلائل الشرعیہ

۴۵۔   ازالہ الرین عن مسئلہ رفع الیدین کی ممانعت دلائل قاہرہ سے

۴۶۔   نور علی نور فی کلام سید یوم النشور چالیس موضوعات پر ۱۶۰۰   سے زائد احادیث کا بہترین مجموعہ

۴۷۔   مائتا آیہ (عربی)عقائد پر بہترین جامع کتاب

۴۸۔   اربعون حدیثا (عربی)فضائل سید المرسلین ﷺ پر لاجواب احادیث صحیحہ از بخاری ومسلم کا انتخاب

۴۹۔    فضائل حبیب الرحمن ﷺ من صحیح ابن حبان (عربی) ۱۱۵ احادیث صحیح سے فضائل سید عالم ﷺ

۵۰۔   اربعون حدیثا فی احکام الدین (عربی) احام دین پر جامع احادیث کا بہترین انتخاب ۔ بہت جلد منظر عام پر آرہی ہے ۔

۵۱۔    اربعوان حدیثا ، شرح الصدور فی الصلوٰۃ والسلام علی سید یوم النشور علیہ صلوٰۃاللہ وسلام الغفور (عربی)

۵۲۔   اربعون حدیثا تنویر القلوب فی الصلوٰۃ والسلام علی الحبیب المحبوب (عربی)

۵۳۔   اربعون حدیثا سرور القلب المحزون فی عالم ماکان وما یکون (عربی)

۵۴۔   مقام ولی ۔ قرآن واحادیث کی روشنی میں ولایت کا مرتبہ ومقام

۵۵۔   فضائل صلوٰۃ وسلام ۸۰احادیث سے صلوٰۃ وسلام کی فضیلت وبرکت

۵۶۔   ترجمہ تفسیر خازن

۵۷۔   ترجمہ اریفین الربعین سلیس اردو زبان میں

        ۴۶ تا ۵۴ تک کی کتب آپ نے حرم مکہ میں اسی سال ۱۹۹۸ء کی حاضری میں تالیف فرمائیں)

آپ کی زیارت ودعا پر نجات :

        ایک پاک باز متشرع آدمی نے مسجد میں بیان کیا کہ عالم رؤیا میں اکتوبر ۱۹۹۷ء میں میں نے علامہ فیضی صاحب مدظلہ العالی کو مدینہ منورہ حرم نبوی قدمین شریفین میں دیکھا کہ آپ دلائل الخیرات پڑھ رہے ہیں اور سرکار مدینہ ﷺ مواجہہ شریف سے آرہے ہیں اور علامہ فیضی صاحب کی طرف سرکار نے اشارہ کرکے فرمایا کہ جس نے اس کی زیارت کی اس کی بخشش ہوگئی ۔ اور جس نے اس کے حق میں دعا کی اس کی بھی بخشش ہوگئی ۔ سبحان اللہ العظیم وبحمدہٖ !آپ واقعی منظور احمد ﷺ ہیں بار ہا آپ کو اور آپ کے طفیل آپ کے غلاموں کو حضور ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے اور ہورہا ہے اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کے طفیل آپ کے مزید درجات بلند فرمائے ۔ زیارات وحاضری وعمرمبارک میں برکتیں عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

آپ کا حلقہ ارادت:

آپ جہاں اعلیٰ علمی مقام پر فائز ہیں وہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو روحانیت وعرفان کا مظہر بھی بنایا ہے ۔ آپ کا نورانی قابل زیارت چہرہ منورہ اور سیدھی سادی بلند رتبہ طبع ومزاح اس بات کی روشن اور واضح دلیل ہے کہ آپ واقعی بلا مبالغہ ایک اہم روحانی شخصیت اور ولی کامل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اولیاء کاملین کے متعلق ارشاد فرمایا الذین وکانوا یتقون (اولیاء اللہ وہ ہیں )جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیا ۔

        سرکار دوعالم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے اذا رؤاذکر اللّٰہ (حدیث شریف)کہ ولی کامل ولی اللہ کی نشانی یہ ہے کہ جب انہیں دیکھو اللہ یاد آجائے ۔ بلا مبالغہ آپ قرآن وحدیث کی مکمل تفسیر وتشریح ہیں ایمان وتقویٰ کا پیکر بھی ہیں اور آپ کے دیدار سے پروردگار کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اپنے تو اپنے رہے ایک بیگانہ حافظ دیوبندی جو نہ آپ کا شاگرد ہے اور نہ کسی طرح سے اس کا آپ کی ذات سے تعلق ونسبت ہے وہ کہتا ہے کہ میں جب علامہ فیضی صاحب کی زیارت کرتا ہوں تو میرا دل چاہتا ہے کہ قبلہ فیضی صاحب کی بیعت میں اپنے آپ کو شامل کرکے قلبی سکون حاصل کروں ۔ آپ کے مریدین وارادت مندوں کا حلقہ بہت وسیع ہے جو کہ ہزاروں میں ہے لیکن مختصراً یہ کہ اندرون ملک پاکستان ، کراچی ، حیدرآباد ، ضلع رحیم یار خان ، ضلع لودھراں ، ضلع بہاولپور ، ضلع ملتان ، ضلع مظفر گڑھ وضلع ڈیرہ غازی خان ، لاہور وبیرون ملک ، سعودی عرب ودبئی تک پھیلا ہوا ہے جس میں ہر طبقہ کے افراد ، دانشور ، علمائے کرام ، حفاظ حضرات وغیرہ شامل ہیں ۔ آپ کی ذات والا صفات ہر لحاظ سے کامل واکمل ہے ۔ ریاہ تکبر نام کی کوئی چیز آپ میں نہیں آپ بالکل سادہ طبع ومزاج کے مالک ہیں ۔ درویش منش انسان ہیں ہر وقت ذکر وفکر میں مگن یا کتب واحادیث کے مطالعہ میں مصروف ، یا اللہ ورسول ﷺ کے ذکرویاد میں مستغرق ہوں گے تو کیوں نہ خلق خدا آپ کے قدموں میں جھکے اور آپ کے فیض سے مستفیض ہو۔ اللہ تعالیٰ بتصدیق اپنے حبیب ﷺ آپ کے علمی وروحانی فیض کو قیامت تک جاری وساری رکھے تاکہ خلق خدا آپ کے فیض سے فیض یاب ہوتی رہے ۔آمین ثم آمین

آپ کے دست حق پرست پر غیر مسلموں کا اسلام قبول کرنا :

        آپ کی تحریر و تقریر اور آپ کے اعلیٰ علمی و روحانیت سے متاثر ہوکر کئی غیر مسلموں  نے اسلام قبول کیا اور غیر مذہب سے توبہ تائب ہوئے۔ جن میں شہر احمد پور شرقیہ اور ملتان وغیرہ کے کئی افراد عیسائیت سے توبہ تائب ہوکر مشرف باسلام ہوئے اور آپ کے دست حق پر بیعت ہوئے ۔

بزرگانِ دین اور علماء ربانین کے آپ کے بارے میں تاثرات و دعائیہ کلمات:

۱۔      غوث زماں حضرت قبلہ علامہ خواجہ فیض محمد صاحب شاہ جمالی قدس سرہ العالی نے آپ کے والد ماجد علامہ پیر محمد ظریف صاحب فیضی کے چند خطوط لکھے ان خطوط میں آپ نے علامہ فیضی صاحب کو ان الفاظ و کلمات دعائیہ سے یاد فرمایا فرزندار جمندار، السلام علیکم ۔ برخودار محمد شریف (منظور احمد) رادعا و پیار۔ بجمیع پیر بھائیاں السلام علیکم خصوصاً حنیف و برخودار محمد شریف رادعائ۔ وبجناب والد ماجد خود السلام علیکم رسانتد و برخودار محمد شریف رادعاوناصیہ ۔وجناب والد ماجد آنعزیز دعا والسلام علیکم وجمیع خاندان آنعزیز دعا، برخودار اطال اﷲ عمرہ رادعائ۔ مزید آپ نے سلسلہ چشتیہ جمالیہ میں علامہ فیضی صاحب کو ان دعاؤں میں یاد فرمایا الٰہی بخدمت محبوباں عاقبت خاک راہ درد مندان فقیر فیض محمد و برخودار منظور احمد رابعمل صالح عمر طویل فرما۔

۲۔     آپ کے والد محترم آ پ کے بارے میں یوں ارشاد فرماتے ہیں اور دعا دیتے ہیں۔ونعم قال ولدی محمد شریف المعروف منظور احمد فیضی ادام اﷲفیضہ علی سائر المتعلمین والمعتقدین المریدین الی یوم الدین (مکتوبات شاہ جمالی) مزید آپ کے والد محترم اپنے دیوان فیضی میں آپ کی تقریر دلپذیر کے متعلق نظماًفرماتے ہیں۔

رباعی

تقریر فیضی ایں چنیں تاثیر داد

در نہار نجدیاں لرزہ فتاد

چوں بیانش محکم و مثبت بود

دیوبندی بند در حیرت شود

 ۳۔     سرمست بادہ توحید و رسالت قلندر وقت سلطان العارفین حضرت خواجہ غلام یاسین علیہ الرحمۃ رب العالمین اپنے مرید و متعلقین و حاضرین کو بار بار آپ کی تقریر دلپذیر کا حکم دیتے تھے اور فرماتے کہ یہ ہمارا شیر ہے خود بھی آپ کی تقریر بالمشافہ اور کیسیٹوں کے ذریعے سنتے اور عشق محبوب و حبیب اﷲ ﷺ میں سخت گریہ فر ماتے اور جھوم جاتے اور آپ کو مخاطب کرکے ارشاد فرماتے کہ توں محبوب ہیں۔

۴۔     بیہقی وقت ، غزالی زماں ، امام اہلسنت ، محدث اعظم علامہ سید احمد شاہ صاحب کاظمی رحمۃاﷲعلیہ نے آپ کی ایک تصنیف لطیف اسلام اور داڑھی کے متعلق تقریظ و تصدیق ان الفاظ میں ضبط تحریر فر مائی ۔ اجز مئولف ھذہ الرسالہ النافعہ العزیزالفاہم البارع الذکی المولوی منظور احمد دام بالمحد القوی علی مالف و حرور حق باحسن الکلام الخ۔

آپ کے رسالے مختار کل کے متعلق آپ رقمطراز ہیں :

        عزیز القدر مولانا منظور احمد صاحب فیضی سلمہٗ اللہ کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے اختصار کے ساتھ پیش نظر رسالے مسلم المناجیح فی بیان انہ مالک المفاتیح رالمعروف مختار کل لکھ کر عوام الناس کے اعتقاد کو متزلزل ہونے سے بچانے کی سعی جمیل کی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ۔ آمین

                                                                                سید احمد سعید کاظمی غفرلہٗ

        نیز جب آپ مدرسہ فیضیہ کے سالانہ جلسے میں آخری بار تشریف لائے تو تقریباً آدھا گھنٹہ علامہ فیضی صاحب کی تعریف وتوصیف میں گزارا کہ آپ بہت قابل عالم باعمل مدرس ہیں آپ نے ان کا ساتھ نہ دیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آپ عوام اہلسنّت سے پوچھے گا کہ علامہ صاحب کا تم نے ساتھ کیوں نہ دیا ؟

        تواتر سے یہ بات علمائے کرام بیان فرماتے ہیں کہ حضور کاظمی کریم فخریہ طور پر بیان فرماتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن مجھ سے دریافت فرمایا کہ دنیا سے کیا لائے ہو تو میں فخرہ علامہ فیضی صاحب کو پیش کردوں گا ۔

۵۔     استاذ المحدثین شیخ المشائخ علامہ السید محمد خلیل احمد کاظمی امروہی رحمۃ اللہ علیہ استاد شیخ علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ رقمطراز ہیں ۔ محترم مولانا منظور احمد صاحب فیضی سلامت باشند السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کتاب تعارف ابن تیمیہ ومسلم المناجیح فقیر کو موصول ہوئی ۔ جس کے مطالعے سے بہت مسرت ہوئی اللہ بتصدق اپنے حبیب ﷺ کے آپ کو اجر عظیم سے مشرف فرمائے ۔ آمین فقیر چونکہ تقریظ لکھنے کا عادی نہیں اس لئے معزور ہے چند کلمات فقیر کی جانب سے زیب نظر فرمادیجئے ۔ اس فقیر حقیر نے دونوں کتابوں کا مطالعہ کیا حق یہ ہے کہ آپ کی سعی بلیغ اور تحقیق انیق کی داد دینے سے زبان وقلم دونوں قاصر ہیں ۔ باری تعالیٰ اس حیات میں آپ کے جہاد فیض بنیاد سے ظلمت وہابیت کو دور فرماکر سنّت راشدہ کے جلوے سے صراطِ مستقیم کو عوام وخواص پر اس طرح روشن فرمائے کہ ہر ایک مصنف مزاج کی زبان پر بے اختیار لاریب فیہ جاری ہوجائے اور تہہ دل سے عقائد حقہ کو مان لینے پر مجبور ہوجائے اور اس حیات میں ہادیان صراط مستقیم کی وصیت عطا کرکے درجاتِ عالیہ سے سرفراز فرمائے ۔ آمین ثم آمین ۔

والسلام فقیر

محمد خلیل احمد کاظمی امروہی عفی عنہ  ۱۲؍جولائی ۱۹۲۸ء

۶۔     حکیم الامت مفسر قرآن حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی علیہ الرحمۃ الباری کے دعائیہ کلمات الحمدللہ رسالہ مبارکہ کیا ہے سچے موتیوں کی لڑیوں کا مجموعہ ہے ۔ اس کے سننے سے مجھے بہت خوشی حاصل ہوئی ۔ ماشاء اللہ میرے محترم عزیز فاضل لبیب مولانا منظور احمد صاحب نے قرآن وحدیث وعبارات فقہاء کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ ایک مشت داڑھی مسلمان کے لئے اشد ضروری ہے ۔ الخ

۷۔     حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ صدر مرکزی جمعیت علمائے پاکستان فاضل محترم مولانا منظور احمد ادام اللہ فیوضہم نے داڑھی کے مسئلے پر جس تخصیص سے علمی بحث فرمائی اور جو ذخیرہ معلومات اس صنف پر جمع فرمایا بلاشبہ قابل مبارکباد ہے ۔

۸۔     مفتی اعظم پاکستان علامہ سید ابوالبرکات سید احمد صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (حزب الاحناف ،لاہور) رسالہ نافعہ عجالہ وصنفہ فاضل جلیل عالم نبیل مولانا وبالفضل اولنا مخلصی ومحبی علامہ منظور احمد صاحب فیضی ……فقیر دعا کرتا ہے کہ مولا سبحانہ مؤلف کی عمر میں علم وعمل میں برکت عطا فرمائے ۔

۹۔     حضرت علامہ مولانا مفتی محمد فیض احمد صاحب اویسی (جامعہ اویسیہ رضویہ بہاولپور)

        مولانا المحترم علامہ فیضی صاحب زید رشدہ کے وسعت مطالعہ سے بہت جی خوش ہوا ۔ مولاعزوجل اپنے پیارے حبیب اکرم ﷺ کے طفیل اور اولیائے کرام کے صدقے مولانا المکرم کو علمی وعملی دوستوں سے مالامال کرے ۔ آمین ۔

آپ کی اولا د :

        آپ کے تین لڑکے اور چار لڑکیاں ہیں ۔مفتی محمد محسن فیضی راقم الحروف غفرلہ فارغ التحصیل درس نظامی ، شہادۃ عالیہ (تنظیم المدارس اہلسنّت پاکستان ) بی اے ، فاضل عربی ، حافظ مولانا محمد حسن فیضی ۔ فارغ التحصیل درس نظامی ۔ مولانا حاجی محمد حسین فیضی فارغ التحصیل درس نظامی ۔

        اللہ رب العزت آپ کے علمی وروحانی فیض کو تاقیام قیامت جاری وساری رکھے اور اللہ تعالیٰ آپ کی تمام جسمانی وروحانی اولاد کو آپ کے نقشے قدم پر چلائے اور آپ کے فیض سے مستفیض فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

 

دعاگو راقم الحروف الفقیر

محمد محسن فیضی غفرلہ وعفی عنہ

(مقامِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)


متعلقہ

تجویزوآراء