محدثِ اعظم پاکستان علامہ سردار احمد
حضرت علامہ مولانا سردار احمد چشتی قادری
محدث اعظم پاکستان
بانی جامعہ رضویہ مظھر اسلام فیصل آباد (پاکستان)
ولادت
جامع شریعت وطریقت، محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد رضوی چشتی بن چودھری میراں بخش ۱۳۲۲؍۱۹۰۴ء میں موضع دیال گڑھ گورداسپور میں پیدا ہوئے۔
تعلیم وتربیت
محدث اعظم پاکستان نے ابتدائی تعلیم موضع دیال گڑھ میں حاصل کی ۱۳۴۳ھ؍۱۹۲۴ء میں اسلامی ہائی اسکول بٹالہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ایف اے کی تیاری کے لیے لاہور تشریف لائے۔ انہی دنوں مرکزی انجمن حزب الاحناف لاہور کے زیر اہتمام مسجد وزیر خاں میں ایک عظیم الشان اجلاس ہوا۔ جس میں پاک وہند کے کثیر التعداد علماء ومشائخ کے علاوہ شہزادۂ اعلیٰحضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں بریلوی قدس سرہٗ بھی شریک ہوئے محدث اعظم پاکستان حضرت حجۃ الاسلام قدس سرہٗ کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہوگئے کہ انگریزی تعلیم، کو خیر آباد کہہ کر مرکز علوم و معارف بریلی شریف چلے گئے۔ حضور مفتی اعظم اور مولانا محمد حامد رضا بریلوی قدس سرہٗ سے استفادہ کیا، اور آتھ سال تک صدر الشریعہ مولانا امجد علی رضوی اعظمی قدس سرہٗ کی خدمت میں رہ کر جامعہ معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف سے سند فراغت حاصل کی، زمانۂ قیام اجمیر شریف میں حضرت مولانا سید امیر اجمیری سے بھی مستفید ہوئے۔
بیعت وخلافت
حضرت محدث اعظم پاکستان سلسلہ عالیہ چشتیہ میں حضرت شاہ محمد سراج الحق چشتی کے دست اقدس پر بیعت ہوئے اور خلافت سے مشرف ہوئے۔ اور سلسلہ قادریہ رضویہ میں شہزادۂ اعلیٰحضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں بریلوی سے فیض یاب ہوئے [1] ۔ اور حضور مفتی اعظم الشاہ مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ نے جمیع سلاسل کی اجازت وخلافت عطا فرمائی [2] ۔
بریلی سے اجمیر
حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ منظر اسلام سے کافیہ تک کتابیں پڑھ کر جامعہ معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف تشریف لے گئے۔ مسلسل آٹھ برس تک علم وعرفان کی پیاس بجھاتے رہے یزدانی شابق شیخ الحدیث دارالعلوم مظہر اسلام بریلی، امام النحو مولانا سید غلام جیلانی میرٹھی علیہ الرحمہ محدث اعظم پاکستان کے شریک درس تھے۔ وہ سب کے سب اپنے علم و فضل میں مشاہیر روزگار رہے۔ محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ نے ان ماہ وسال میں کتب درسیہ کے ساتھ ساتھ امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہٗ کی تصنیفات کا بڑا گہرا مطالعہ فرمایا، جامعہ اجمیر میں ایک فاضل مدرس جامعہ معقول و منقول تھے ایک دن درس میں امام احمد رضا بریلوی کی تفقہ فی الدین کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔
اعلیٰ حضرت فقہ میں ماہر تھے۔ اس جملہ میں فقہ کی قید احترازی تھی۔ اشارہ امام احمد رضا بریلوی کے علوم معقول پر مہارت کا انکار تھا۔ محدث اعظم پاکستان یہ سُن کر تڑپ اُٹھے، اور دوسرے ہی دن امام احمد رضا بریلوی کی معرکۃ الآراء اور امکان کذب پر منفرد کتاب سبحٰن السبوح کا ایک ورق کھول کر فاضل مدرس کے سامنے درس میں بیٹھ گ ئے۔ اور اس پر اظہار خیال چاہا۔ مدرس مذکور فاضل تھے۔ دو چار بارہ دیکھتے ہی کہا۔ میں پہلے مطالعہ کرلوں پھر کتاب کے باب میں کچھ کہہ سکوں گا۔ چنانچہ دوسرا تیسرا دن بھی آگیا۔ اور یہ کہہ کر فاضل مدرس نے کتاب اور مصنف قدس سرہٗ کی انفرادی حیثیت کا برملا اقرار کرتے ہوئے فرمایا
سبحٰن السبوح اپنے موضوع میں لا جواب ہے، قاضی اور افق المبین جیسی کتب معقول کے علمی مباحث کا خلاصہ اس میں موجود ہے اور اس کا مصنف یقیناً علوم معقول (منطق وفلسفہ) پر استخصار رکھتا ہے [3] ۔
حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ نے درس نظامیہ کی تکمیل میں بڑی محنت شاقہ فرمائی۔ اپنی کہنیوں کے بل پوری پوری رات کتب درسیہ کا مطالعہ فرماتے۔ اُستاد گرامی صدر الشریعہ کی خدمت میں ہر وقت حاضر رہتے۔ عصر و مغرب کے درمیان بھی حصول علم کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔محدث اعظم پاکستان کے مشائخ حدیث میں حضرت شاہ عبدالعزیزی محدث دہلوی حضرت سیدنا الشاہ آل رسول مارہروی، امام احمد رضا فاضل بریلوی کلے اسماء نمایاں ہیں۔ اسی طرح علوم منطق و فلسفہ میں محدث اعظم پاکستان کا سلسلۂ زریں حضرت مولانا فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمۃ تک پہنونچتا ہے۔
اجمیر سے بریلی
محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ جامعہ معینیہ اجمیر سے فراغت کے بعد بریلی تشریف لائے اور منظر اسلام میں ہدایہ اخیر سے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا۔ جامعہ رضویہ منظر اسلام جہاں مطالعہ کے لیے لالٹین فراہم کی گئی تھی۔ وہاں محدث اعظم پاکستان کو علم ودانش کی روشنی پھیلانے کے لیے منتخب کیا جاچکا تھا۔ محدث اعظم پاکستان کے آنے سے منظر اسلام میں غیر معمولی چہل پہل تھی۔ ہدایہ اخیر بن کو پڑھنے والے طلبہ متن و شرح پھر مہینہ کی عبارتوں کو یاد کیے سوال و جواب کے ہتھیار سے آراستہ اُستاد گرامی کے سامنے حاضر تھے۔ طلبہ اس سے پہلے کہ مسائل فقہ میں کچھ کہتے، شرح ومتن میں الجھتے اعتراضات کرتے، محدث اعظم پاکستان نے فقہ اور اصول فقہ سے متعلق کے چند سوالات ارشاد فرمائے، ہدایہ اخیرین کے طلبہ دم بخود ولاجواب تھے۔ فقہ دانی کا سار نشہ ہرن تھا اور انہیں یہ شعور ہوچلا تھا کہ آج قطرے نے بحر علم کے ساحل کو پالیا ہے،
ادھر یہ پر لطف چھیڑ چھاڑ تھی اور ادھر محدث اعظم پاکستان کا مرکز ارز وحضرت حجۃ الاسلام قدس سرہٗ اس علمی منظر سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ فرط مسرت سے چہرۂ انور تبسم زار بنا ہوا تھا۔ اپنے صاحبزادے حضرت مفسر اعظم ہند مولانا ابراہیم رضا جیلانی سے بار بار ارشاد فرمارہے تھے۔
‘‘دیکھو کل کی بات ہے مولانا (محمد سردار) احمد نے اسی مدرسہ میں میزان شروع کی تھی [4]
بریلی سے فیصل آباد
قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۸ء میں محدث اعظم پاکستان لائل پور تشریف لے گئے جھنگ بازار کے گول میں نماز جمعہ کا آغاز فرمایا۔ قائم کردہ جامعہ رضویہ مظہر اسلام میں خود درس دینا شروع کیا، محدث اعظم پاکستان کے درس کی وہ شہرت ہوئی کہ ہندوستان سے باذوق طلبہ درس میں شرکت کرنے لگے۔ آخری دور میں سو سو کی تعداد میں صحاح ستہ کا دورہ طلبہ پڑھتے [5] ۔
چودہ سال کے مختصر عرصہ میں لائلپور کی کایا پلٹ دی۔ اسی وقت سے جگہ جگہ سے صلوٰۃ وسلام کی روح پرور صدائیں سُنائی دیتی ہیں۔ ہزاروں افراد حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے۔ سینکڑوں طلباء درس حدیث لے کر پاکستان کے گوشے گوشے بلکہ دیگر ممالک میں بھی دین متین کی تبلیغ میں مصروف ہیں۔ جامعہ رضویہ مظہر سلام لائل پور عظیم دینی درسگاہ اکور لائل پور کی سب سے بڑی مسجد سنی رضوی جامع مسجد محدث اعظم پاکستان کی یادگار اور گواہ میں جمعیۃ الخدام الرضا منظر اسلام بریلی میں قائم فرمایا اور ایک ضروری ہسپتال بھی جاری فرمایا۔
حج وزیارت
حرمین طیبین میں پیلی بار حاضری کا شرف حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کے ساتھ ۱۹۴۵ء میں حاصل ہوا۔ دس سال ۱۹۵۵ء تک حج وزیارت کی دوبارہ حاضری کے لیے بے چین رہے کہ مدنی سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کا بلاوا ۱۹۵۶ء میں آگیا۔ اس سفر وسیلۂ ظفر کے لیے کئی درخواستیں لائلپور سے دی گئیں جونا منظور ہوئیں۔ اس سفر میں حضرت مولانا ابراہیم خوشتر صدیقی رضوی رفیق سفر رہے۔ اندازِ سفر یہ رہا کہ اس کی پہلی منزل (قبل حج) مدینہ منورہ، اور آخری منزل (بعد حج) بھی مدینہ شریف رہا۔ محدث اعظم پاکستان کا کل قیام مدینہ منورہ میں ۵۴ یوم رہا۔ مسجد نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں سنی صحیح العقیدہ افراد کے ساتھ نماز باجماعت ادا فرماتے رہے۔
بریلی کا تاریخی مناظرہ
قیام بریلی شریف کے دوارن محدث اعظم پاکستان نے مشہود دیوبندی مناظرہ مولوی منطور احمد نعمانی سے حفظ الایمان (از مولوی اشرف علی تھانوی) کی مشہور گستاخانہ عبارت پر ۲۵؍اپریل ۱۹۳۵ء؍۱۳۵۴ھ کو کامیاب مناظرہ کیا۔ یہ مناظرہ چار دن جاری رہا اور فریق مخالف کو زبردست شکست ہوئی۔ چوتھے دن مولوی منظور احمد نعمانی نے بع باکی کی انتہا کردی اور کہا۔
‘‘میں فاتحہ کو بدعت کہتا ہوں اور محرم کی سبیل لگانے اور محرم میں دودھ یا شربت پلانے کو بدعت کہتا ہوں اور اسی وجہ سے میں کم بخت ہوں تو میں ایسا کمبخت ہی اچھا ہوں۔ میں بھی بھوکا مرتا ہوں اور میرے آقا محمد رسول اللہ بھی بھوکے مراکرتے تھے۔ جو حشر میرا وہ ان کا [6] ۔ (العیاذ باللہ تعالیٰ)
حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ مناظرہ میں نہایت درجہ مہارت رکھتے تھے۔ رو داد مناظرہ بریلی کے مطالعہ سے علمی قابلیت، تبحر علمی، حاضر جوابی کا حال منکشف ہوتا ہے، محدث اعظم پاکستان فرماتے ہیں کہ
‘‘تم (دیوبندی) جن امور میں مناظرہ کرنا چاہو فقیر بھی بحمدللہ تعالیٰ ان امور میں مناظرہ کرنے کے لیے تیار ہے۔’’
بریلی میں مناطرہ کا پہلا دن ہوا تھا کہ توالی مسجد، نماز مغرب میں چند سپاہی آئے انہوں نے مسجد میں اعلانیہ بیان کیا کہ
فلاں صاحب وہابیہ کے طرفدار ہیں اور پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ میں سمجھتا تھا کہ مولوی منطور نعمانی کے سامنے بریلی میں کوئی بولنے والا نہیں۔ آج مجھے معلوم ہوگیا کہ مولوی منظور نعمانی مولوی سردار احمد صاحب کے سامنے بھی نہیں بول سکتے۔ مولوی سردار احمد صاحب نے تو مولوی منظور نعمانی کی آج بولتی بند کردی [7]
یہاں تک کہ خود منظور احمد نعمانی نے محدث اعظم پاکستان سے کہا کہ
آپ تو مولانا حشمت علی خاں سے بھی آگے بڑھ گئے [8] ۔
یہ تاریخ ساز مناظرہ اکبری مسجد معروف بہ مرزائی مسجد محلہ شہر کہنہ بریلی میں ۲۰؍محرم الحرام سے ۲۳؍محرم ۱۹۵۴ء تک جاری رہا۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے حق کو عظیم الشان فتح عطا فرمائی اور وہابیہ کو شرمناک شکست فاش نصیب ہوئی۔ شہر بریلی میں اس فتح کی مبارکباد کی متعدد اجلاس صدر الشریعہ مولانا امجد علی رضوی اعظمی قدس سرہٗ کی زیر صدارت میں منعقد ہوئے۔ اس نمایاں کامیابی کی نہایت مسرت حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی رضوی اعظمی قدس سرہٗ کو حاصل ہوئی۔ اور کیوں نہ ہو کہ شاگرد نے دیوبندیوں کے مأیہ ناز مناظر کے حواس باختہ کردیئے۔ اس مناظرہ کی کامیابی پر حسب ذیل مقامات پر جلسہ منعقد کیے گئے۔
۱۔ حضرت صدر الشریعہ قدس سرہٗ کی جانب سے منظر اسلام میں
۲۔ منظر اسلام کی جانب سے آستانہ قادریہ رضویہ پر
۳۔ جمعیت خدام الرضا کی جانب سے منظر اسلام میں (جس کے صدر محدث اعظم پاکستان تھے)
۴۔ جمعیت خدام المصطفیٰ کی جانب سے محلہ اعظم نگر میں
۵۔ مسلمانان شہر بریلی کی جانب سے جامع مسجد قلعہ میں
۶۔ مرزا رفیق بیگ کی جانب سے محلہ گڑھی میں
۷۔ حضور مفتئ اعظم قدس سرہٗ کی جانب سے فاتحہ مناظر کو دستار پہنائی اور دارالعلوم منظر اسلام کی جانب سے عبابھی محدث اعظم پاکستان کو نذر کیا گیا [9]
حجۃ الاسلام کا مکتوب گرامی
مناظرہ کے ایام حضرت حجۃ الاسلام قدس سرہٗ ضلع بدایوں شریف میں رونق افروز تھے فتح کی خبر سُنکر فوراًفرمایا:
قَدْتَدَّ مَنْظُوْر (منظور بھاگا)
۵۴ھ ۱۳
دَقْ دَنَّ مَنْظُوْر (منظور کا بھانڈا پھوڑا گیا)
عدد نکالنے سے مولوی منظور احمد نعمانی کے فرار کی تاریخ نکلتی ہے۔ اور حجۃ الاسلام قدس سرہٗ نے ایک مکتوب گرامی تحریر فرمایا جو بطور تبریک نقل کیا جاتا ہے۔
مولانا المکرم عزیز محترم مولوی سردار احمد صاحب سلمہٗ صدر جمعیت خدام الرضا بعد سلام مسنون داد عدویہ خلوص ومشحون، فقیر اس فتح نمایاں کی مبارک باد دیتا ہے، مولیٰ تعالیٰ ہمیشہ آپ کو اعداد دین پر مظفر و منصور رکھے اور آپ کا بول بالا، اہل باطل کا منہ کالا کرے، بریلی میں اس فتح کا سہرا آپ کے سر رہا۔ آپ کی قائم کردہ جماعت بحمدہٖ تعالیٰ بہت مفید اور کار آمد ثابت ہوئی اور خدا اسے اور ترقی عطا فرمائے تو اہلسنت کے لیے اس کا وجود موجب برکات وحسانات وقوت اہل سنت ونکابت بدعت کا باعث ہوگا۔ باذنہٖ تعالیٰ، فقیر حاضر آستانہ ہونے پر خدا نے چاہا تو جمعیت کے متعلق خاص توجہ کریگا۔ والسلام فقیر حامد رضا خاں غفرلہٗ ۲۷؍محرم الحرام ۱۳۵۴ھ [10]
علم وفضل
محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ پیکر اخلاق، سراپا شفقت، باوقار، بارعب اور پرکشش شخصیت تھے، علوم فنون کے بحر بے پایاں، زبردست مناظر اور باکمال محدث تھے۔ انہیں سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے والہانہ محبت تھی۔ اسی بے پناہ محبت وعقیدت کا اثر تھا کہ ان کا ہر قول و فعل شریعت و سنت کے مطابق ہوتا تھا۔ سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عن ہٗ امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ کی محبت عشق کی حد تک پہنچی ہوئی تھی۔ چونکہ فوٹو کے بغیر بیرون ملک جانے پر پابندی تھی اس لیے پاکستان آکر بے انتہا آرزو کے باوجود نہ بغداد شریف حاضری دے سکے نہ ہی بریلی شریف،
محدث اعظم پاکستان کا وعظ اس قدر پر اثر ہوتا تھا کہ سخت سے سخت دل بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ محدث اعظم پاکستان کے مخالف لوگوں نے آپ کے خلاف مخالفتوں کے طوفان اٹھائے۔ مگر ہائےاستقلال میں لغزش نہیں آئی۔ تمام عمر علوم دینیہ اور خاص طور پر حدیث شریف کی خدمت اور وعظ وارشاد کے ذریعہ عوام کے دلوں کو جب نبوی سے منور کرنے میں صرف کی اس لیے تصیف و تالیف کا موقع نہیں ملا، تاہم چند تصانیف یادگار ہیں۔
۱۔ اسلامی قانون وراثت
۲۔ تبصرہ مذہبی (علامہ مشرقی کے تذکرے پر تبصرہ)
۳۔ مرزا مرد ہے یا عورت؟ (رد مرزائیت)
۴۔ موت کا پیغام دیوبندی مولویوں کے نام [11]
۵۔ اصلاح المومنین ‘‘یادگر رضا بریلی’’ (ماہنامہ) کے مختلف شماروں میں یہ مضمون چھپا۔
مشہور تلامذہ
محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمۃ کی شخصیت اس قدر پرکشش تھی کہ ایک دفعہ حاضری دینے والا ہمیشہ کے لیے دامن محبت وعقیدت میں گرفتار ہوجاتا، کئی دیوبندی علماء محدث اعظم پاکستان کے درس حدیث میں شامل ہوئے اور آپ کی زبان مبارک سے مسلک اہلسنت کے زور دار دلائل سنکر اس قدر متاثر ہوئے کہ بد عقیدگی سے تائب ہوکر مسلک اہلسنت کے مبلغ بن گئے۔ محدث اعطم کے سینکڑوں تلامذہ کا شمار کرنا مشکل ہے۔ آخری سالوں میں سند فراغت حاصل کرنے والوں کی تعداد سو سے متجاوز ہوجایا کرتی تھی۔ چند ممتاز تلامذہ کے نام یہ ہیں:
۱۔ مولانا غلام رسول رضوی لائلپوری شیخ الحدیث جامع رضویہ لائلپور
۲۔ علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری رضوی ایم۔ اے۔ این شیخ الحدیث دارالعلوم امجدیہ کراچی
۳۔ مولانا وقار الدین رضوی نائب شیخ الحدیث دارالعلوم امجدیہ کراچی
۴۔ مولانا مفتی عبدالقیوم رضوی ہزاروی ناظم اعلیٰ دارالعلوم نظامیہ رضویہ لاہور
۵۔مولانا ابو داؤد محمد صادق رضوی مدیر ماہنامہ رضائے مصطفیٰ گوجرانوالہ
۶۔ مولانا مفتی محمد شریف الحق رضوی امجدی دارالافتاء اشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ
۷۔ مولانا محمد صابر القادری نسیم بستوی چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیض الرسول براؤں ضلع بستی
۸۔ مولانا مفتی محمد مجیب الاسلام نسیم اعظمی سابق شیخ الحدیث دارالعلوم منظر اسلام بریلی
۹۔ علامہ مولانا عبدالرشید جھنگوی
۱۰۔ علامہ مولانا ابو الحسنات محمد اشرف چشتی سیالوی شیخ الحدیث سیال شریف
۱۱۔ علامہ مولانا اللہ بخش رحمۃ اللہ علیہ (واں بھچراں)
۱۲۔ مولانا سید جلال الدین شاہ (بھبکھی شریف)
۱۳۔ مولانا ابو المعال محمد معین الدین شافعی ناظم اعلیٰ جامعہ قادریہ لائلپور
۱۴۔ مولانا محمد ابراہیم خوشتر صدیقی رضوی مبلغ اسلام ماریشس افریقہ
۱۵۔ مولانا ابو الشاہ محمد عبدالقادر شہید لائلپوری علیہ الرحمہ
۱۶۔ مولانا محمد شریف ملتانی شیخ الحدیث مظہر العلوم ملتان
۱۷۔ مولانا عنایت اللہ، مناظر اہلسنت (سانگلہ ہل)
۱۸۔ مولانا ابو الانوار محمد مختار احمد لائلپوری
۱۹۔ مولانا سید زاہد علی قادری شاہ ناظم اعلیٰ جامعہ نوریہ رضوی لائلپوریہ
۲۰۔ مولانا سید منصور شاہ مدرس جامعہ رضویہ لائلپور
۲۱۔ مولانا فیض احمد اویسی رضوی۔ شیخ الحدیث جامعہ اویسیہ بھاولپور
۲۲۔ مولانا مفتی محمد حسین قادری، سکھروی، ایم۔ پی۔ اے
۲۳۔ مولانا مفتی امین مہتمم جامعہ امینیہ لائلپور
۲۴۔ مولانا حافظ احسان الحق، صدر مدرس جامعہ ا مینیہ لائلپور
۲۵۔ مولانا سید حسین الدین شاہ ناظم اعلیٰ ضیاء العلوم جامعہ رضویہ راولپنڈی [12]
۲۶۔ مولانا محمد علی رضوی مہتمم انوار ملیسی ضلع ملتان [13]
۲۷۔ مولانا صوفی خالد علی خاں رضوی بریلوی مہتمم دارالعلوم مظہر اسلام مسجد بی بی جی صاحبہ بریلی [14]
۲۸۔ فیض العارفین مولانا غلام آسی پیا حسنی رضوی، سجادہ نشین بھنیوڑی شریف ضلع رام پور [15]
۲۹۔ حضرت علامہ تحسین رضا خاں رضوی بریلوی شیخ الحدیث جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف [16]
وصال پر ملال
حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ یکم شعبان المعظم ۲۹؍دسمبر جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب ۱۳۸۲ھ؍۱۹۶۲ء کو کراچی میں وصال فرمایا۔ جسد مبارک شاہین ایکسپریس کے ذریعہ لائلپور لایا گیا۔ اسٹیشن سے جامعہ رضویہ تک راستہ میں ہزاروں افراد نے دیکھا کہ جنازہ پر نور کی پھوار پڑ رہی ہے، حالانکہ بادل کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ محدث اعظم پاکستان کی نماز جنازہ تقریباً تین لاکھ افراد نے شرکت کی۔ مزار سنی رضوی جامع لائلپور میں مرجع خلائق ہے۔
منظوم تاریخ وصال
محدث اعظم پاکستان کے انتقال پر حضور مفتی اعظم الشاہ مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ نے پر درد احساسات کو منظو فرمایا۔
کیا کہوں میں ہائے کیا جاتا رہا |
آہ دل کا حوصلہ جاتا رہا |
|
سنیّوں کا دل نہ بیٹھے کس طرح |
زور ان کے قلب کا جاتا رہا |
|
موت عالمِ جہاں موت ہے |
زندگی کا مزا جاتا رہا |
|
اس زمانہ کا محدث بے مثال |
جس کا ثانی ہی نہ تھا جاتا رہا |
|
مولوی سردار احمد اُٹھ گئے |
لطف سارا درس کا جاتا رہا |
|
غوث اعظم قطبِ عالم کا غلام |
نائب شاہ رضا جاتا رہا |
|
حضرت صدر الشریعہ کا وہ چاند |
میرا مہر پر ضیاء جاتا رہا |
|
مرگیا فیضان جس کی موت سے |
ہائے وہ فیض انتما جاتا رہا |
|
۸۲ھ۱۳ |
||
یا مجیب اغفرلہٗ تاریخ ہے |
کس برس وہ رہنما جاتا رہا |
|
۸۲ھ۱۳ |
||
دیو کا سر کاٹ کر نوری ؔ کہو |
چاند روشن علم کا جاتا رہا [17] |
|
۸۲ھ۱۳ |
تاریخی قطعہ
خطیب پاکستان حضرت مولانا محمد شفیع اوکاڑوی علیہ الرحمہ (متوفی ۲۱؍ رجب ۲۴؍اپریل ۱۴۰۴ھ؍۱۹۸۶ء) نے تاریخ وصال کہی؎
سید و سردار ما |
وارث علوم مصطفیٰ |
|
نائب احمد رضاؔ |
اللہ سے واصل ہوا [18] |
۸۲ ھ ۱۳
محدث اعظم پاکستان کے تین صاحبزادے اس وقت تشریف فرما ہیں۔
۱۔ صاحبزادہ مولانا قاضی محمد فضل رسول رضوی سجادہ نشین
۲۔ صاحبزدہ مولانا قاضی فضل احمد رضوی
۳۔ صاحبزادہ مولانا قاضی محمد فضل کریم رضوی
[1] ۔ محمد عبدالحکیم شرف قادری مولانا: تذکرۂ اکابر اہلسنت پاکستان ص ۱۴۹، ۱۵۰
[2] ۔ قلمی یاد داشت مولانا محمد انور علی رضوی بہرائچی استاذ منظر اسلام بریلی
(ب) مکتوب گرامی حضرت مولانا محمد حسن علی رضوی میلسی ملتان بنام راقم محررہ ۱۲،رضوی غفرلہٗ
[3] ۔ ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی ص۵۵ بابت اکتوبر ۱۹۸۹ء؍ صفر، ربیع الاول ۱۴۱۰ھ شمارہ ۱۰ جلد ۲۹، مضمون مولانا ابراہیم خوشتر رضوی صدیقی مانچسٹر
[4] ۔ ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی ص۵۶، اکتوبر ۱۹۸۹ء۱۴۱۰ھ
[5] ۔ محمد دین کلیم، مورخ لاہور، تذکرہ مشائخ قادریہ
[6] ۔ محمد عبدالحکیم شرف قادری، مولانا: تذکرہ اکابر اہلسنت پاکستان ص ۱۵۰، بھوالہ مناظرۂ بریلی مفصل رؤد اومصنفہ محمد حامد فقیہہ شافعی
[7] ۔ محمد حامد فقیہہ شافعی، مولانا: ردود او مناظرہ بریلی ص ۵۸
[8] ۔ ایضاً ص ۴۵ مولانا: ردود او مناظرہ بریلی ص ۵۸
[9] ۔ محمد حامد فقیہہ شافعی، مولانا: روئید اد مناظرہ بریلی ص ۱۶۴
[10] ۔ محمد حامد فقیہہ شافعی، مولانا: ردود او مناظرہ بریلی ص ۱۶۴
[11] ۔ محمد عبدالحکیم شرف قادری، مولانا: تذکرہ اکابر اہلسنت پاکستان ص ۱۵۱، ۱۵۲
[12] ۔ محمد عبدالحکیم شرف قادری، مولانا: تزکرہ اکابر اہلسنت ص ۵۲، ۱۵۳۔
[13] ۔ مکتوب مولانا محمد حسن علی رضوی میلسی بنا راقم،
[14] ۔ مکتوب گرامی حضرت صوفی خالد علی رضوی بریلوی بنام راقم محررہ ۱۹۸۹ء
[15] ۔ مولانا غلام آسی پیا حسی رضوی رام پوری سے راقم کی گفتگو مورخہ صفر المظفر ۱۴۱۰ھ؍ ۱۹۸۹ء بمعیت مکرمی جناب محمد سعید نوری سکریٹری رضا اکیڈمی بمبئی
[16] ۔ مکتوب گرامی حضرت علامہ تحسین رضا خاں بریلوی مدظلہٗ بنام راقم۔۔۔، ۱۲،رضوی غفرلہٗ
[17] ۔مکتوب گرامی حضرت مولانا محمد حسن علی رضوی میلسی ضلع ملتان بنام راقم، ۱۲غفرلہٗ
[18] ۔ محمد عبدالحکیم شرف قادری، مولانا: تذکرہ اکابر اہلسنت پاکستان ص ۱۵۴، ۱۵۵
شیخ الحدیث والتفسیر ، جامع شریعت و طریقت حضرت مولانا ، ابو الفضل محمد سردار احمد ابن چوہدری میراں بخش ۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴ء میں موضع دیاں گڑھ ضلع گورد اسپور میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم قصبہ دیال گڑھ میں حاصل کی ۱۳۴۳ھ/۱۹۲۴ء میں اسلامیہ ہائی سکول بٹالہ میٹرک کا امتحان پاس کیا ،ایف اے کی تیاری کے لئے لاہور تشریف لائے ۔ انہی دنوں مرکزی انجمن حزب الاحناف لاہور کے زیر اہمتام مسجد وزیر خاں میں عظیم الشان اجلاس ہوا[1]جس میں پاک و ہند کے کثیر التعداد علماء مشائخ کے علاوہ شہزدئہ اعلیٰ حضر حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں بریلوی بھی شریک ہوئے ۔ حضرت شیخ الحدیث حجۃ الاسلام کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہو ئے کہ انگریزی تعلیم کو خبر باد کہہ کر مرکز علوم و معارف بیرلی شریف چلے گئے ۔ حضرت حجۃ الاسلام اور مفتی ٔ اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خاں بریلوی سے استفادہ کیا اور آٹھ سال تک صدر الشریعہ مولانا حکیم امجد علی مصنف ’’بہارشریعت‘‘ کی خدمت میں عہ کر جامعہ معینیہ اجمیر شریف سے سند فراغت حاصل کی[2]
زمانۂ قیام اجمیر شریف مٰن حضرت مولانا سید امری اجمیر ی سے بھی مستفید ہوئے[3]
آپ سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں حضرت شاہ محمد سراج الحق چشتی کے دست اقدس پر بیعت ہوئے اور خلافت سے مشرف ہوئے اور سلسلۂ قادریہ میں شاہزادہ اعلیٰ حضرت بریلوی حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں بریلوی سے فیض یاب ہوئے[4](۲)
تکمیل علوم کے بعد پانچ سال تک جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف میں تسنگان علوم کو سیراب فرمایا، پھر جامعہ رضویہ مظہر اسلام بریلی میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے اور علم حدیثک ی گرا نقدر خدمات انجام دیں ۔ اس دور میں بے شمار اہل علم نے آپ سے فیض حاصل کیا [5]
قیام بریلی شریف کے دوران حضرت قبلہ شیخ الحدیث مولانا سردار احمد قدس سرہ نے مشہو ر دیوبندی مناظر مولوی منظور احمد نعمانی سے حفظ الایمان (ازمولوی اشرف علی تھانوی) کی مشہور گستاخانہ عبارت پر ۲۰ محرم ، ۲۵ اپریل (۱۳۵۴ھ/۱۹۳۵ئ) کو کامیاب مناظرہ کیا[6]
یہ مناظرہ چار دن جاری رہا اور فریق مخالف کو زبر دست شکست ہوئی، چوتھے دن مولوی منظور احمد نعمانی نے بے باکی کی انتہاکردی اور کہا:
’’میں فاتحہ کو بدعت کہتا ہوں اور محرم کیسبیل لگانے اور محرم میں دودھ یا شربت پلانے کو حرام کہتا ہوں اور اس وجہ سے میں کم بخت ہوں تو میں ایسا کم بخت ہی اچھاہوں ، میں بھی بھوکا مرتا ہوں اور میورے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بھو کے مرا کرتے تھے ، جو حشر میرا وہ ان کا ۔‘‘ [7]
(العیاذ باللہ تعالٰی)
تقسیم ملک کے بعد پاکستان تشریف لے آئے ۔ کچھ عرصہ وزیر آباد اور سارو ی میں قیام فرمایا ۔ ۱۳۶۸ھ/۱۹۴۸ء کے اواخر میں لائل پور تشریف لے آئے اور بے سرو سامانی کے عالم میں درس حدیث دینا شروع کیا اور جامعہ رضویہ مظہر اسلام کی بنیاد رکھی[8]
اور چودہ سال کے مختصر عرصے میں لائل پوری کی کایا پلٹ دی ۔ اس وقت سے جگہ جگہ سے صلوٰۃ و سلام کی روح پر ور صدائیں سنائی دیتی ہیں ، ہزاروں افہ حلقۂ ارادت م ین داخل ہوئے سینکڑوں علماء آپ سے درس حدیث ل کر پاکستان کے گوشے گوشے بلکہ دیگر ممالک میں بھی دین متین کی تبلیغ میں مصروف ہیں۔ جامعہ رضویہ مظہر اسلام لائل پورعظیم دینی درس گاہ اور لائل پوری کی سب سے بڑی مسجد سنی رضوی جامع مسجد آپ کی عظمت کی یادگار اور گواہ ہیں ۔ ۱۹۴۵ء میں حضرت مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خاں بریلوی کی معیت میں حرمین شریفین کی زیاتر سے مشرف ہوئے ۔ دوسری مرتبہ ۱۳۷۶ھ/۱۹۵۶ء میں اس سعادت سے مشرف ہوئے [9]
لیکن پابندی کے باوجود تصویر نہیں بنوائی۔
حضرت قبلہ شیخ الحدیث پیکر اخلاق ، سراپا شفقت ، باوقار ، بارعب اور پر کشش شخصیت تھے ، علوم دفنون کے بحر بے پایا ں، زبر دست مناظر اور با کمال محدث تھے۔ انہں سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے والہانہ محبت تھی، اسی بے پناہ محبت و عقیدت کا اثر تھا کہ ان کا ہر قول و فعل شریعت و سنت کے مطابق ہوتا تھا ، سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کی محبت عشق کی حد تک پہنچی ہوئی تھی۔ چونکہ فوٹو کے بغیر بیرون ملک جانے پر پانبدی تھی اس لئے پاکستان آکر بے انتہا آرزو کے باوجود نہ بغداد شریف گئے اور نہ بریلی شریف ۔
آ پ کا وعظ اس قدر پر اثر ہوتا تھا کہ سخت سے سخت دل ھی متاثر ہوئے بغیر نہ وہ سکتا تھا ۔ آپ کے مخالف لوگوںنے آپ کے خلاف مخالفتوں کے طوفان اٹھائے مگر آپ کے پائے استقلال میں بغزش نہیں آئی ۔ آپ نے تمام عمر علوم دینیہ اور خاص طور پر حدیث شریف کی خدمت اور وعث و ارشاد کے ذریعہ عوام کے دلوں کے حب نبوی سے منو کرنے مین صرم کی اس لیے تصنیف و تالیف کا موقا نہیں ملا تا ہم چند تصانیف یادگار ہیں:۔
۱۔ اسلامی قانو وراثت ۔
۲۔ تبصرہ مذہبی ( علامہ مشرقی کے تذکرے پرتبصرہ )۔
۳۔ مرزا مرد ہے یا عورت؟ (رد مرزائیت)
۴۔ موت کا پیغام دیوبندی مولویوں کے نام[10]۔
حضرت قبہ شیخ الحدیث مولا نا سردا ر احمد قدس سہر کی شخصیت اس قدر پر کشش تھی کہ ایک دفعہ حاضری دینے والا ہمیشہ کے لئے دام محبت و عقیدت میں گرفتار ہو جاتا ، کئی دیوبندی علماء آپ کے درس حدیث میںشامل ہوئے اور آپ کی زبان بارک سے مسلک اہل سنت کے زور دار دلائل سن کر اس قدر متاثر ہوئے ہ بد عقید گی سے تائب ہو کر مسلک اہل سنت کے مبلغ بن گئے ۔ آپ کے سینکڑوں تلامذہ شما کرنا مشکل ہے ۔ آخری سالوں میں سدن فراغت حاصل کرنے والوں کی تعداد سو سے متجاز ہو جایا کرتی تھی، چند ممتاز تلامذہ کے نام یہ ہیں:۔
۱۔ مولانا غلام رسول لائپوری مدظلہ العالی شیخ الحدیث جامعہ رضویہ لائپور ۔
۲۔ علامہ عبد المصطفیٰ ازہری ایم، این اے ، شیخ الحدیث دار العلوم امجدیہ کراچی۔
۳۔ مولانا وقار الدین مدظلہ نائب شیخ الحدیث
۴۔ مولانا مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی مدظلہ ، ناظم اعلیٰ دار العلوم جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور۔
۵۔ مولانا ابو دائود محمد صادق مدظلہ ، مدیر ماہنامہ رضائے مصطفی گوجرانوالہ۔
۶۔ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی مدظلہ انڈیا۔
۷۔ مولانا محمد صابر القادری نسیم بستوی،
۸۔ مولانا مفتی محمد مجیب الاسلام اعظمی ، انڈیا
۹۔ مولانا علامہ عبد الرشیدجھنگوی۔
۱۰۔ مولانا علامہ ابو الحسان محمد اشر ف چشتی سایلوی شیخ الحدیث سیال شریف۔
۱۱۔مولانا عامہ اللہ بخش رحمہ اللہ تعالیٰ (واں بھچراں)
۱۲۔ مولانا سید جلال الدین شاہ ( بھکھی شریف )
۱۳۔ مولانا ابو المعالی محمد میعن الدین شافعی ناظم اعلی جامعہ قادریہ لائپور۔
۱۴۔ مولانا محمد ابراہیم خوشتر، مبلح اسلام ماریشس۔
۱۵۔ مولانا ابو الشاہ محمد عبدالقادر شہید لائپوری قدس سرہ ۔
۱۶۔ مولانا محمد شیف ملتانی شیخ الحدیث مظہر العلوم ملتان ۔
۱۷۔ مولانا عنیا اللہ ، مناظر اہل سنت (سانگلہ ہل)
۱۸۔ مولانا ابو الانورمحمدمختار احمد لائلپوری ۔
۱۹۔ مولانا سید زاہد علی شاہ ناظم اعلیٰ جامعہ نوریہ لائپور[11]۔
۲۰۔مولانا سید منصور شاہ مدرس جامعہ رضویہ لائپور ۔
۲۱۔ مولانا فیض احمف اویسی شیخ الحدیث جامعہ اویسیہ بہالپور۔
۲۲۔ مولانا مفتی محمد حسین سکھر دی ایم ۔ پی اے ۔
۲۳۔ مولانا مفتی محمد امین مہتمم جامعہ امینیہ لائپور ۔
۲۴۔ مولانا سید حسین الدین شاہ ناظم اعلیٰ ضیاء العلوم جامعہ رضویہ راولپنڈی وغیرہم۔
آئندہ صفحات میں حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ کے ایک مکتوب کا عکس دیا جارہا ہے جس میں انہوں نے مولانا اللہ بخش رحمہ اللہ تعالیٰ ( جو ان دنو ں جامعہ نطامیہ رضویہ لاہور میں مدرس تھے) کے لئے یہ دعائیہ کلمات لکھے ہیں :۔
’’مولیٰ عزوجل آپ کو مدارج عللیا عطا فرمائے ار خدمت درس و تدریس و خدمت خطابت و امامت و خد مت مذہب اہل سنت میں خوب ترقی و قبولیت عطافرمائی، آمین۔‘‘
یقینا حضرت شیخ الحدیث قدس سہر کی یہ کرام تھی کہ اس دعا کا ایک ایک لفظ مولانا اللہ بخش رحمہ اللہ تعالیٰ کی زندگی میں ظہور پذیر ہوا۔
یکم شعبان المعظم ، ۲۹ دسمبر جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب (۱۳۸۲ھ/۱۹۶۲ئ) کو کراچی میں وصال فرمایا[12]
جسد مبارک شاہین ایکسپریس کے ذریعے لائپور لایا گیا ، اسٹیشن سے جامعہ رضویہ تک راستے میں ہزارہا افراد نے دیکھا کہ جنازے پر نور کی پھوار پڑ رہی ہے حالانکہ بادل کا کہیں نام و نشان نہ تھا ۔ آپ کی نماز جنازہ میں تین لاکھ افراد نے شرکت کی ۔ آپ کا مزار سنی رضوی جامع مسجد لائل پوری میں مرجع خلائق ہے۔
حضرت مفتی ٔ اعظم ہند مولانا شہا مصطفی رضا خاں بریلوی دامت بر کاتہم العالیہ نے پر درد احساسات کے منظوم فرمایا ؎
کیا کہوں میں ہائے کیا جاتا رہا
آہ دل کا حوسلہ جاتا رہا
سنیوں کا دل نہ بیٹھے کس طرح
زور ان کے قب کا جاتا رہا
موت عالم کی جہاں کی موت ہے
زندگانی کا مزا جاتا رہا
اس زمانہ کا محدث ے مثال
جس کا ثانی ہی نہ تھا جاتا رہا
مولوی سردار احمد اٹھ گئے
لطف سار درس کا جاتا رہا
حضرت صدر الشریعہ کا وہ چاند
میرا پر ضیاء جاتا رہا[13]
تاریخی شعر ملاحظہ ہوں ۔
مر گیا فیضان جس کی موت سے
ہائے وہ ’’فیض انتما‘‘ جاتا رہا
یا مجید اغفرلہٗ تاریخ ہے
کس برس وہ رہنما جاتا رہا
دیو کا سر کاٹ کر نوریؔ کہو
چاند روشن علم کا جاتا رہا
خطیب پاکستان مولانا محمد شفیع اوکاڑوی مدظلہ نے تاریخ وصال کہی ؎
سید و سردار ما
وارث علوم مصطفی
نائب احمد رضا
اللہ سے واصل ہوا [14]
آپ کے تین صاحبزادے اس وقت تشریف فرما ہیں :
۱۔ صاحبزادے قاضی محمد فضل رسول رضوی مدظلہ سجادہ نشین
۲۔صاحبزادہ قاضی محمد فضل احمد مدظلہ ٗ
۳۔صاحبزادہ قاضی محمد فضل کریم ،
قوم کے سردار پاکستان کے شیخ الحدیث
ہے تری ذات گرامی ، لائق صد احترام ( عزیز حاصلپوری )
[1] یہ اجلاس ۱۵ شوال المکرم ۱۳۵۲ھ/۱۹۳۴ ء کو مسجد وزیر خاں لاہور میں ہو نا قرار پایا تھا جس میں اہلسنت کی طرف سے حجۃ الاسلام مولانا ھامد رضا خاں بریلوی اور دیو بندی مکتب فکر کی طرف سے مولوی اشرف علی تھانوی مسافر مقرر ہوئے تھے تاکہ حفظ الایمان ، براہیں قاطعہ اور تحذیر الناس کی متنازعہ فیہا عبارات پر فیصلہ کن گفتگو کی جائے، افسوس کہ تھانوی صاحب مقر رہ تاریخ پر نہ آئے جبکہ متحدہ پاک و ہند کے علماء اہلسنت کا جم غفیر لاہور پہنچ چکا تھا اور حضرت حجۃ الاسلام بھی تشریف لے آئے تھے ، اس موقع پر مسلک اہلسنت و جماعت کی حقایت کا زبر دست مظاہر ہ ہوا۔(آخری فیصلہ کن لاہور کا مناظرہ ، مطبوعہ ممبئی ۱۹۳۴) اس اجلاس کی شہر ت کی بناء پر ذہن میں یہ خیال راسخ تھا کہ یہی وہ اجلاس تھا جس میں مولانا سردار احمد قدس سرہٗ حضرت حجۃ الاسلام کے ساتھ بریلی شریف تشریف لے گئے تھے۔ مولانا جلال الدین قادری (کھاریاں ) کے توجہ دلانے پر غور کیا متعین ہو گیا کہ یہ اجلاس ۷۔ ۱۹۲۶ء میں ہوا تھا۔
[2] محمد افضل کوٹلوی ،مولانا : نائب اعلیٰ حضرت ( جامعہ قادریہ لائل پور) ص ۶۔۷
[3] محمد موسیٰ امر تسری ، حکیم اہل سنت: مولانا سید امیر علوی اجمیری، ضیائے حرم جولائی ۱۹۷۲ئ،ص ۴۰
[4] محمد عتیق الرحمن : عاشق رسول ، مکتبہ سعادت لاہور ، ۱۹۶۳ء ، ص ۱۰
[5] ابو الحسان : محدث اعظم پاکستان ، ادرائہ علمیہ لاہور ، ص ۸
[6] محمد حامد نقیہ شافعی ، مولانا : مناظرہ بریلی کی مفصل روئیداد ، نوری کتب خانہ لاہور،ص ۲۶
[7] ایضاً :ص ۱۳۹
[8] محمد افضل کوٹلولی، مولانا : نائب اعلیٰ حضرت ، ص ۱۵۔۱۹
[9] ایضاً : ص ۱۵۔۲۵
[10] محمد افضل کوٹلوی ، مولانا : نائب اعلی حضرت ، ص ۲۹۔ ۷۰
[11] محمد حسن علی مولانا : روز نامہ سعاد ت، ائمہ اہل سنت نمبر ، اگست ۱۹۲۹ء
[12] غلام مہر علی ، مولانا : الیواقیت ،ص ۸۵
[13] ماہنامہ فوری کرن بریلی شریف : محدث اعظم پاکستان نمبر ، مارچ اپریل ۱۹۶۳ئ، ص ۸
[14] ماہنامہ رضائے مصطفی گوجرانوالہ افسوس کہ ۲۱ رجب ۲۴ اپریل ۱۴۰۴/۱۹۸۴خطیب پاکستان کا وصال ہوگیا۔
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)
قصبہ دیال گڈھ،ضلع گورداس پور،پنجاب وطن،چودھری میراں بخش کے بیٹے، اوائل ۱۹۰۳ھ میں یہیں آپ کی ولادت ہوئی،انگریزی تعلیم میٹرک پاس کر کے دیال سنگھ کالج لاہور میں داخلہ لیا،علماء اور مشاءخ کے شیدائی وعقیدت کیش تھے،انٹر کے دوسرےسال میں تھے،کہ دار العلوم حزب الاحناف کے جلسۂ سالانہ منعقدہ تقریباً ۱۹۲۵ھ میں مولانا شاہ حامد رضا بریلوی قدس سرہٗ شرکت کے لیے لاہور تشریف لے گئے،حضرت محدث اعظم پاکستان ملاقات کے لیے حاضر ہوئے،حجۃ الاسلام کے حسن خدا دادا اور کمال علمی سے متاثر ہوئے،اسی مجلس میں عربی ودینی تعلیم کا شوق لے کر اٹھے،ساتھ میں بریلی آئے،کامل تہماک سے تعلیم میں مصروف ہوئے،کافیہ تک دار العلوم منظر اسلام میں تعلیم پائی،بعدہٗ دار العلوم معینیہ اجمیر شریف میں داخل ہوکر حضرت صدر الشریعۃ مولانا شاہ محمد امجد علی قدس سرہٗ سے کتب متداولہ کا درس لیا، ۱۳۵۱ھ میں حضرت صدر الشریعۃ کے ہمراہ بریلی منظر اسلام مدرسہ میں آئے ،اور درسیات سے فراغت پائی، اور اسی مدرسہ میں تعلیم کی مناظرہ فرمایا،۱۳۵۶ھ میں مفتی اعظم حضرت مولانا شاہ مصطفیٰ رضا مدظلہٗ نے اپنے مدرسہ مظہر اسلام کا صدر مدرس مقرر کردیا،جہاں تقسیم ملک تک فیض رسال رہے،قیام پاکستان کے بعد لائل پور میں عظیم الشان جامعہ مظہر اسلام قائم فرمایا، اور خود درس دینا شروع کیا،درس کی وہ شہرت ہوئی کہ ہندوستان سے باذوق طلبہ آپ کے درس میں شرکت کے لیے گئے،آخر دور میں سو ۱۰۰ سو ۱۰۰ کی تعداد میں صحاح ستہ کے دور میں طلبہ شریک ہوئے،
شیخ الحدیث اور محدث اعظم پاکستان کے لقب وخطاب سے اہل علم یاد کرتے تھے،۱۳۸۲ھ یکم شعبان میں رات میں ایک بج کر چالیس منٹ پر کراچی میں راہی حاکم جادوانی ہوئے،۴لاکھ افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ جنازہ پر برابر ایک نور کو سایہ کُناں دیکھا،یہ حضرت شیخ الحدیث کے مقبول بارگاہ الٰہی و رسالت پناہی کی روشن دلیل ہے، حضرت علامہ عبد المصطفیٰ ازہری امحدی مدظلہ العالی نے نماز جنازہ کی امامت فرمائی،حضرت شیخ الحدیث مرشد طریقت بھی تھے،ہزارہا افراد آپ سے داخل سلسلۂ عالیہ قادریہ ہوئے،
(روداد مناظرہ بریلی،نوری کرن بریلی محدث اعظم پاکستان نمبر)