محدثِ اعظم پاکستان علامہ سردار احمد
محدث اعظم پاکستان
حضرت علامہ مولانا سردار احمد چشتی قادری
بانی جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد (پاکستان)
ولادت
جامع شریعت وطریقت، محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد رضوی چشتی بن چودھری میراں بخش 1322؍1904ء میں موضع دیال گڑھ گورداسپور میں پیدا ہوئے۔
تعلیم وتربیت
محدث اعظم پاکستان نے ابتدائی تعلیم موضع دیال گڑھ میں حاصل کی 1343ھ؍1942ء میں اسلامی ہائی اسکول بٹالہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ایف اے کی تیاری کے لیے لاہور تشریف لائے۔ انہی دنوں مرکزی انجمن حزب الاحناف لاہور کے زیر اہتمام مسجد وزیر خاں میں ایک عظیم الشان اجلاس ہوا۔ جس میں پاک وہند کے کثیر التعداد علماء ومشائخ کے علاوہ شہزادۂ اعلیٰحضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں بریلوی قدس سرہٗ بھی شریک ہوئے محدث اعظم پاکستان حضرت حجۃ الاسلام قدس سرہٗ کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہوگئے کہ انگریزی تعلیم، کو خیر آباد کہہ کر مرکز علوم و معارف بریلی شریف چلے گئے۔
حضور مفتی اعظم اور مولانا محمد حامد رضا بریلوی قدس سرہٗ سے استفادہ کیا، اور آٹھ سال تک صدر الشریعہ مولانا امجد علی رضوی اعظمی قدس سرہٗ کی خدمت میں رہ کر جامعہ معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف سے سند فراغت حاصل کی، زمانۂ قیام اجمیر شریف میں حضرت مولانا سید امیر اجمیری سے بھی مستفید ہوئے۔
بیعت وخلافت
حضرت محدث اعظم پاکستان سلسلہ عالیہ چشتیہ میں حضرت شاہ محمد سراج الحق چشتی کے دست اقدس پر بیعت ہوئے اور خلافت سے مشرف ہوئے۔ اور سلسلہ قادریہ رضویہ میں شہزادۂ اعلیٰحضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں بریلوی سے فیض یاب ہوئے [1] ۔ اور حضور مفتی اعظم الشاہ مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ نے جمیع سلاسل کی اجازت وخلافت عطا فرمائی [2] ۔
علم وفضل
محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ پیکر اخلاق، سراپا شفقت، باوقار، بارعب اور پرکشش شخصیت تھے، علوم فنون کے بحر بے پایاں، زبردست مناظر اور باکمال محدث تھے۔ انہیں سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے والہانہ محبت تھی۔ اسی بے پناہ محبت وعقیدت کا اثر تھا کہ ان کا ہر قول و فعل شریعت و سنت کے مطابق ہوتا تھا۔ سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ کی محبت عشق کی حد تک پہنچی ہوئی تھی۔ چونکہ فوٹو کے بغیر بیرون ملک جانے پر پابندی تھی اس لیے پاکستان آکر بے انتہا آرزو کے باوجود نہ بغداد شریف حاضری دے سکے نہ ہی بریلی شریف،
محدث اعظم پاکستان کا وعظ اس قدر پر اثر ہوتا تھا کہ سخت سے سخت دل بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ محدث اعظم پاکستان کے مخالف لوگوں نے آپ کے خلاف مخالفتوں کے طوفان اٹھائے۔ مگر پائےاستقلال میں لغزش نہیں آئی۔ تمام عمر علوم دینیہ اور خاص طور پر حدیث شریف کی خدمت اور وعظ وارشاد کے ذریعہ عوام کے دلوں کو جب نبوی سے منور کرنے میں صرف کی اس لیے تصیف و تالیف کا موقع نہیں ملا،
وصال پر ملال
حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ یکم شعبان المعظم 29؍دسمبر جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب 1382ھ؍1962ء کو کراچی میں وصال فرمایا۔ جسد مبارک شاہین ایکسپریس کے ذریعہ لائلپور لایا گیا۔ اسٹیشن سے جامعہ رضویہ تک راستہ میں ہزاروں افراد نے دیکھا کہ جنازہ پر نور کی پھوار پڑ رہی ہے، حالانکہ بادل کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ محدث اعظم پاکستان کی نماز جنازہ تقریباً تین لاکھ افراد نے شرکت کی۔ مزار سنی رضوی جامع لائلپور میں مرجع خلائق ہے۔
منظوم تاریخ وصال
محدث اعظم پاکستان کے انتقال پر حضور مفتی اعظم الشاہ مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ نے پر درد احساسات کو منظو فرمایا۔
کیا کہوں میں ہائے کیا جاتا رہا |
آہ دل کا حوصلہ جاتا رہا |
سنیّوں کا دل نہ بیٹھے کس طرح |
زور ان کے قلب کا جاتا رہا |
موت عالمِ جہاں موت ہے |
زندگی کا مزا جاتا رہا |
اس زمانہ کا محدث بے مثال |
جس کا ثانی ہی نہ تھا جاتا رہا |
مولوی سردار احمد اُٹھ گئے |
لطف سارا درس کا جاتا رہا |
غوث اعظم قطبِ عالم کا غلام |
نائب شاہ رضا جاتا رہا |
حضرت صدر الشریعہ کا وہ چاند |
میرا مہر پر ضیاء جاتا رہا |
مرگیا فیضان جس کی موت سے |
ہائے وہ فیض انتما جاتا رہا 1382ھ |
یا مجیب اغفرلہٗ تاریخ ہے 1382ھ |
کس برس وہ رہنما جاتا رہا |
دیو کا سر کاٹ کر نوری ؔ کہو |
چاند روشن علم کا جاتا رہا [17] 1382ھ |
تاریخی قطعہ
خطیب پاکستان حضرت مولانا محمد شفیع اوکاڑوی علیہ الرحمہ (متوفی 21؍ رجب 24؍اپریل 1404ھ؍1986ء) نے تاریخ وصال کہی؎
سید و سردار ما |
وارث علوم مصطفیٰ |
نائب احمد رضاؔ |
اللہ سے واصل ہوا [18]1382 ھ |
محدث اعظم پاکستان کے تین صاحبزادے اس وقت تشریف فرما ہیں۔
صاحبزادہ مولانا قاضی محمد فضل رسول رضوی سجادہ نشین
صاحبزدہ مولانا قاضی فضل احمد رضوی
صاحبزادہ مولانا قاضی محمد فضل کریم رضوی
[1] ۔ محمد عبدالحکیم شرف قادری مولانا: تذکرۂ اکابر اہلسنت پاکستان ص 149، 150
[2] ۔ قلمی یاد داشت مولانا محمد انور علی رضوی بہرائچی استاذ منظر اسلام بریلی () مکتوب گرامی حضرت مولانا محمد حسن علی رضوی میلسی ملتان بنام راقم محررہ 12،رضوی غفرلہٗ
[3] ۔ ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی ص55بابت اکتوبر 1989ء؍ صفر، ربیع الاول 1410ھ شمارہ 10جلد 29، مضمون مولانا ابراہیم خوشتر رضوی صدیقی مانچسٹر
[4] ۔ ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی ص56، اکتوبر 1989ء1410ھ
[5] ۔ محمد دین کلیم، مورخ لاہور، تذکرہ مشائخ قادریہ
[6] ۔ محمد عبدالحکیم شرف قادری، مولانا: تذکرہ اکابر اہلسنت پاکستان ص 150، بھوالہ مناظرۂ بریلی مفصل روئد ادمصنفہ محمد حامد فقیہہ شافعی
[7] ۔ محمد حامد فقیہہ شافعی، مولانا: ردود او مناظرہ بریلی ص 58
[8] ۔ ایضاً ص 45 مولانا: ردود او مناظرہ بریلی ص 58
[9] ۔ محمد حامد فقیہہ شافعی، مولانا: روئید اد مناظرہ بریلی ص 164
[10] ۔ محمد حامد فقیہہ شافعی، مولانا: ردود او مناظرہ بریلی ص 164
[11] ۔ محمد عبدالحکیم شرف قادری، مولانا: تذکرہ اکابر اہلسنت پاکستان ص 151، 152
[12] ۔ محمد عبدالحکیم شرف قادری، مولانا: تزکرہ اکابر اہلسنت ص 152، 153۔
[13] ۔ مکتوب مولانا محمد حسن علی رضوی میلسی بنا راقم،
[14] ۔ مکتوب گرامی حضرت صوفی خالد علی رضوی بریلوی بنام راقم محررہ 1989ء
[15] ۔ مولانا غلام آسی پیا حسی رضوی رام پوری سے راقم کی گفتگو مورخہ صفر المظفر 1410ھ؍ 1989ء بمعیت مکرمی جناب محمد سعید نوری سکریٹری رضا اکیڈمی بمبئی
[16] ۔ مکتوب گرامی حضرت علامہ تحسین رضا خاں بریلوی مدظلہٗ بنام راقم۔۔۔، 12،رضوی غفرلہٗ
[17] ۔مکتوب گرامی حضرت مولانا محمد حسن علی رضوی میلسی ضلع ملتان بنام راقم، 12غفرلہٗ
[18] ۔ محمد عبدالحکیم شرف قادری، مولانا: تذکرہ اکابر اہلسنت پاکستان ص 154، 155
شیخ الحدیث والتفسیر ، جامع شریعت و طریقت حضرت مولانا ، ابو الفضل محمد سردار احمد ابن چوہدری میراں بخش 1322ھ/1904ء میں موضع دیاں گڑھ ضلع گورد اسپور میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم قصبہ دیال گڑھ میں حاصل کی 1343ھ/1924ء میں اسلامیہ ہائی سکول بٹالہ میٹرک کا امتحان پاس کیا ،ایف اے کی تیاری کے لئے لاہور تشریف لائے ۔ انہی دنوں مرکزی انجمن حزب الاحناف لاہور کے زیر اہمتام مسجد وزیر خاں میں عظیم الشان اجلاس ہوا[1]
جس میں پاک و ہند کے کثیر التعداد علماء مشائخ کے علاوہ شہزادۂ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں بریلوی بھی شریک ہوئے ۔ حضرت شیخ الحدیث حجۃ الاسلام کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہو ئے کہ انگریزی تعلیم کو خیر باد کہہ کر مرکز علوم و معارف بریلی شریف چلے گئے ۔ حضرت حجۃ الاسلام اور مفتی ٔ اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خاں بریلوی سے استفادہ کیا اور آٹھ سال تک صدر الشریعہ مولانا حکیم امجد علی مصنف ’’بہارشریعت‘‘ کی خدمت میں رہ کر جامعہ معینیہ اجمیر شریف سے سند فراغت حاصل کی[2]
زمانۂ قیام اجمیر شریف میں حضرت مولانا سید امری اجمیر ی سے بھی مستفید ہوئے[3]
آپ سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں حضرت شاہ محمد سراج الحق چشتی کے دست اقدس پر بیعت ہوئے اور خلافت سے مشرف ہوئے اور سلسلۂ قادریہ میں شہزادہ ٔاعلیٰ حضرت بریلوی حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں بریلوی سے فیض یاب ہوئے[4]
(۲) تکمیل علوم کے بعد پانچ سال تک جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف میں تسنگان علوم کو سیراب فرمایا، پھر جامعہ رضویہ مظہر اسلام بریلی میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے اور علم حدیثک ی گرا نقدر خدمات انجام دیں ۔ اس دور میں بے شمار اہل علم نے آپ سے فیض حاصل کیا [5]
قیام بریلی شریف کے دوران حضرت قبلہ شیخ الحدیث مولانا سردار احمد قدس سرہ نے مشہو ر دیوبندی مناظر مولوی منظور احمد نعمانی سے حفظ الایمان (ازمولوی اشرف علی تھانوی) کی مشہور گستاخانہ عبارت پر 20محرم ، 25اپریل (1354ھ/1935ء) کو کامیاب مناظرہ کیا[6]
یہ مناظرہ چار دن جاری رہا اور فریق مخالف کو زبر دست شکست ہوئی، چوتھے دن مولوی منظور احمد نعمانی نے بے باکی کی انتہاکردی اور کہا: ’’میں فاتحہ کو بدعت کہتا ہوں اور محرم کی سبیل لگانے اور محرم میں دودھ یا شربت پلانے کو حرام کہتا ہوں اور اس وجہ سے میں کم بخت ہوں تو میں ایسا کم بخت ہی اچھاہوں ، میں بھی بھوکا مرتا ہوں اور میرے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بھو کے مرا کرتے تھے ، جو حشر میرا وہ ان کا ۔‘‘ [7] (العیاذ باللہ تعالٰی)
تقسیم ملک کے بعد پاکستان تشریف لے آئے ۔ کچھ عرصہ وزیر آباد اور ساری میں قیام فرمایا ۔ 1368ھ/1948ء کے اواخر میں لائل پور تشریف لے آئے اور بے سرو سامانی کے عالم میں درس حدیث دینا شروع کیا اور جامعہ رضویہ مظہر اسلام کی بنیاد رکھی[8]
اور چودہ سال کے مختصر عرصے میں لائل پوری کی کایا پلٹ دی ۔ اس وقت سے جگہ جگہ سے صلوٰۃ و سلام کی روح پر ور صدائیں سنائی دیتی ہیں ، ہزاروں افراد حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے سینکڑوں علماء آپ سے درس حدیث لے کر پاکستان کے گوشے گوشے بلکہ دیگر ممالک میں بھی دین متین کی تبلیغ میں مصروف ہیں۔ جامعہ رضویہ مظہر اسلام لائل پورعظیم دینی درس گاہ اور لائل پوری کی سب سے بڑی مسجد سنی رضوی جامع مسجد آپ کی عظمت کی یادگار اور گواہ ہیں ۔ 1945ء میں حضرت مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خاں بریلوی کی معیت میں حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ دوسری مرتبہ 1376ھ/1956ء میں اس سعادت سے مشرف ہوئے [9]
لیکن پابندی کے باوجود تصویر نہیں بنوائی۔
حضرت قبلہ شیخ الحدیث پیکر اخلاق ، سراپا شفقت ، باوقار ، بارعب اور پر کشش شخصیت تھے ، علوم وفنون کے بحر بے پایا ں، زبر دست مناظر اور با کمال محدث تھے۔ انہیں سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے والہانہ محبت تھی، اسی بے پناہ محبت و عقیدت کا اثر تھا کہ ان کا ہر قول و فعل شریعت و سنت کے مطابق ہوتا تھا ، سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کی محبت عشق کی حد تک پہنچی ہوئی تھی۔ چونکہ فوٹو کے بغیر بیرون ملک جانے پر پانبدی تھی اس لئے پاکستان آکر بے انتہا آرزو کے باوجود نہ بغداد شریف گئے اور نہ بریلی شریف ۔
آ پ کا وعظ اس قدر پر اثر ہوتا تھا کہ سخت سے سخت دل بھی متاثر ہوئے بغیر نہ وہ سکتا تھا ۔ آپ کے مخالف لوگوں نے آپ کے خلاف مخالفتوں کے طوفان اٹھائے مگر آپ کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی ۔ آپ نے تمام عمر علوم دینیہ اور خاص طور پر حدیث شریف کی خدمت واشاعت و ارشاد کے ذریعہ عوام کے دلوں کے حب نبوی سے منو رکرنے میں صرف کی اس لیے تصنیف و تالیف کا موقع نہیں ملا تا ہم چند تصانیف یادگار ہیں:
۔ ۱۔ اسلامی قانونِ وراثت ۔
۲۔ تبصرہ مذہبی ( علامہ مشرقی کے تذکرے پرتبصرہ )۔
۳۔ مرزا مرد ہے یا عورت؟ (رد مرزائیت)
۴۔ موت کا پیغام دیوبندی مولویوں کے نام[10]۔
آئندہ صفحات میں حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ کے ایک مکتوب کا عکس دیا جارہا ہے جس میں انہوں نے مولانا اللہ بخش رحمہ اللہ تعالیٰ ( جو ان دنو ں جامعہ نطامیہ رضویہ لاہور میں مدرس تھے) کے لئے یہ دعائیہ کلمات لکھے ہیں :۔
’’مولیٰ عزوجل آپ کو مدارج علیا عطا فرمائے اور خدمت درس و تدریس و خدمت خطابت و امامت و خد مت مذہب اہل سنت میں خوب ترقی و قبولیت عطافرمائی، آمین۔‘‘
یقینا حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ کی یہ کرامت تھی کہ اس دعا کا ایک ایک لفظ مولانا اللہ بخش رحمہ اللہ تعالیٰ کی زندگی میں ظہور پذیر ہوا۔
یکم شعبان المعظم ، 29 دسمبر جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب (1382ھ/1962ء) کو کراچی میں وصال فرمایا[12]
جسد مبارک شاہین ایکسپریس کے ذریعے لائپور لایا گیا ، اسٹیشن سے جامعہ رضویہ تک راستے میں ہزارہا افراد نے دیکھا کہ جنازے پر نور کی پھوار پڑ رہی ہے حالانکہ بادل کا کہیں نام و نشان نہ تھا ۔ آپ کی نماز جنازہ میں تین لاکھ افراد نے شرکت کی ۔ آپ کا مزار سنی رضوی جامع مسجد لائل پور میں مرجع خلائق ہے۔
منظوم تاریخ وصال
محدث اعظم پاکستان کے انتقال پر حضور مفتی اعظم الشاہ مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ نے پر درد احساسات کو منظو فرمایا۔
کیا کہوں میں ہائے کیا جاتا رہا |
آہ دل کا حوصلہ جاتا رہا |
سنیّوں کا دل نہ بیٹھے کس طرح |
زور ان کے قلب کا جاتا رہا |
موت عالمِ جہاں موت ہے |
زندگی کا مزا جاتا رہا |
اس زمانہ کا محدث بے مثال |
جس کا ثانی ہی نہ تھا جاتا رہا |
مولوی سردار احمد اُٹھ گئے |
لطف سارا درس کا جاتا رہا |
غوث اعظم قطبِ عالم کا غلام |
نائب شاہ رضا جاتا رہا |
حضرت صدر الشریعہ کا وہ چاند |
میرا مہر پر ضیاء جاتا رہا |
مرگیا فیضان جس کی موت سے |
ہائے وہ فیض انتما جاتا رہا 1382ھ |
یا مجیب اغفرلہٗ تاریخ ہے 1382ھ |
کس برس وہ رہنما جاتا رہا |
دیو کا سر کاٹ کر نوری ؔ کہو |
چاند روشن علم کا جاتا رہا [17] 1382ھ |
تاریخی قطعہ
خطیب پاکستان حضرت مولانا محمد شفیع اوکاڑوی علیہ الرحمہ (متوفی 21؍ رجب 24؍اپریل 1404ھ؍1986ء) نے تاریخ وصال کہی؎
سید و سردار ما |
وارث علوم مصطفیٰ |
نائب احمد رضاؔ |
اللہ سے واصل ہوا [18]1382 ھ |
محدث اعظم پاکستان کے تین صاحبزادے اس وقت تشریف فرما ہیں۔
صاحبزادہ مولانا قاضی محمد فضل رسول رضوی سجادہ نشین
صاحبزدہ مولانا قاضی فضل احمد رضوی
صاحبزادہ مولانا قاضی محمد فضل کریم رضوی
قوم کے سردار پاکستان کے شیخ الحدیث
ہے تری ذات گرامی ، لائق صد احترام ( عزیز حاصلپوری )
[1] یہ اجلاس 15شوال المکرم 1352ھ/1934 ء کو مسجد وزیر خاں لاہور میں ہو نا قرار پایا تھا جس میں اہلسنت کی طرف سے حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں بریلوی اور دیو بندی مکتب فکر کی طرف سے مولوی اشرف علی تھانوی مسافر مقرر ہوئے تھے تاکہ حفظ الایمان ، براہین قاطعہ اور تحذیر الناس کی متنازعہ فیہا عبارات پر فیصلہ کن گفتگو کی جائے، افسوس کہ تھانوی صاحب مقر رہ تاریخ پر نہ آئے جبکہ متحدہ پاک و ہند کے علماء اہلسنت کا جم غفیر لاہور پہنچ چکا تھا اور حضرت حجۃ الاسلام بھی تشریف لے آئے تھے ، اس موقع پر مسلک اہلسنت و جماعت کی حقانیت کا زبر دست مظاہر ہ ہوا۔(آخری فیصلہ کن لاہور کا مناظرہ ، مطبوعہ ممبئی 1934) اس اجلاس کی شہر ت کی بناء پر ذہن میں یہ خیال راسخ تھا کہ یہی وہ اجلاس تھا جس میں مولانا سردار احمد قدس سرہٗ حضرت حجۃ الاسلام کے ساتھ بریلی شریف تشریف لے گئے تھے۔ مولانا جلال الدین قادری (کھاریاں ) کے توجہ دلانے پر غور کیا متعین ہو گیا کہ یہ اجلاس 1926ء میں ہوا تھا۔
[2] محمد افضل کوٹلوی ،مولانا : نائب اعلیٰ حضرت ( جامعہ قادریہ لائل پور) ص ۶۔۷
[3] محمد موسیٰ امر تسری ، حکیم اہل سنت: مولانا سید امیر علوی اجمیری، ضیائے حرم جولائی 1972ء،ص 40
[4] محمد عتیق الرحمن : عاشق رسول ، مکتبہ سعادت لاہور ، 1963ء ، ص 10
[5] ابو الحسان : محدث اعظم پاکستان ، ادرائہ علمیہ لاہور ، ص 8
[6] محمد حامد نقیہ شافعی ، مولانا : مناظرہ بریلی کی مفصل روئیداد ، نوری کتب خانہ لاہور،ص 26
[7] ایضاً :ص 139
[8] محمد افضل کوٹلولی، مولانا : نائب اعلیٰ حضرت ، ص 15۔19
[9] ایضاً : ص 15۔25
[10] محمد افضل کوٹلوی ، مولانا : نائب اعلی حضرت ، ص 29۔ 70
[11] محمد حسن علی مولانا : روز نامہ سعاد ت، ائمہ اہل سنت نمبر ، اگست 1929ء
[12] غلام مہر علی ، مولانا : الیواقیت ،ص 85
[13] ماہنامہ فوری کرن بریلی شریف : محدث اعظم پاکستان نمبر ، مارچ اپریل 1963ء، ص 8
[14] ماہنامہ رضائے مصطفی گوجرانوالہ افسوس کہ 21 رجب 24 اپریل 1404/1984خطیب پاکستان کا وصال ہوگیا۔
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)
قصبہ دیال گڈھ،ضلع گورداس پور،پنجاب وطن،چودھری میراں بخش کے بیٹے، اوائل 1903ء میں یہیں آپ کی ولادت ہوئی،انگریزی تعلیم میٹرک پاس کر کے دیال سنگھ کالج لاہور میں داخلہ لیا،علماء اور مشائخ کے شیدائی وعقیدت مند تھے،انٹر کے دوسرےسال میں تھے،کہ دار العلوم حزب الاحناف کے جلسۂ سالانہ منعقدہ تقریباً 1925ء میں مولانا شاہ حامد رضا بریلوی قدس سرہٗ شرکت کے لیے لاہور تشریف لے گئے،حضرت محدث اعظم پاکستان ملاقات کے لیے حاضر ہوئے،حجۃ الاسلام کے حسن خدا دادا اور کمال علمی سے متاثر ہوئے،اسی مجلس میں عربی ودینی تعلیم کا شوق لے کر اٹھے،ساتھ میں بریلی آئے،کامل انہماک سے تعلیم میں مصروف ہوئے،کافیہ تک دار العلوم منظر اسلام میں تعلیم پائی،بعدہٗ دار العلوم معینیہ اجمیر شریف میں داخل ہوکر حضرت صدر الشریعۃ مولانا شاہ محمد امجد علی قدس سرہٗ سے کتب متداولہ کا درس لیا، 1351ھ میں حضرت صدر الشریعۃ کے ہمراہ بریلی منظر اسلام مدرسہ میں آئے ،اور درسیات سے فراغت پائی، اور اسی مدرسہ میں تعلیم کی مناظرہ فرمایا1356ھ میں مفتی اعظم حضرت مولانا شاہ مصطفیٰ رضا مدظلہٗ نے اپنے مدرسہ مظہر اسلام کا صدر مدرس مقرر کردیا،جہاں تقسیم ملک تک فیض رساں رہے،قیام پاکستان کے بعد لائل پور میں عظیم الشان جامعہ مظہر اسلام قائم فرمایا، اور خود درس دینا شروع کیا،درس کی وہ شہرت ہوئی کہ ہندوستان سے باذوق طلبہ آپ کے درس میں شرکت کے لیے گئے،آخر دور میں سو 100سو 100 کی تعداد میں صحاح ستہ کے دور میں طلبہ شریک ہوئے،
شیخ الحدیث اور محدث اعظم پاکستان کے لقب وخطاب سے اہل علم یاد کرتے تھے1382ھ یکم شعبان میں رات میں ایک بج کر چالیس منٹ پر کراچی میں راہی حاکم جاودانی ہوئے،4لاکھ افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ جنازہ پر برابر ایک نور کو سایہ کُناں دیکھا،یہ حضرت شیخ الحدیث کے مقبول بارگاہ الٰہی و رسالت پناہی کی روشن دلیل ہے، حضرت علامہ عبد المصطفیٰ ازہری امجدی مدظلہ العالی نے نماز جنازہ کی امامت فرمائی،حضرت شیخ الحدیث مرشد طریقت بھی تھے،ہزارہا افراد آپ سے داخل سلسلۂ عالیہ قادریہ ہوئے،
(روداد مناظرہ بریلی،نوری کرن بریلی محدث اعظم پاکستان نمبر)