محسن ملت تاج العلماء حضرت علامہ مفتی محمد عمر نعیمی مراد آبادی
محسن ملت تاج العلماء حضرت علامہ مفتی محمد عمر نعیمی مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
و۱۳۱۱ھ/۱۳۸۶ھ/۱۹۶۶ء
تاج العلماءمفتی عمر نعیمی ابن محمد صدیق مراد آبادی، ضلع مراد آباد ہند کے رہنے والے تھے، آپ کی پیدائش ۲۷/ ربیع الاخر ۱۳۱۱ھ کو مراد آباد میں ہوئی آپ کے والد عمارتی لکڑے کے تاجر تے، ان کے کئی بچے صغ سنی میں انتقال کر گئے تھے اس لیے آپ کے نانا یہ منت مانی تھی کہ اگر میری بیٹی کے یہاں اب کوئی اولاد نرینہ زندہ رہی تو اس کو دین مصطفوی کی تبیع کے لیے وقف کردوں گا، نانا نے اپنی اس منت کو بخوبی پورا کیا اور آپ کو علم دین کو دولت سے مالا مال کرایا، ابتدائی تعلیم جناب منشی شمس الدین سے حاصل کی پھر درس نظامی کے لیے حضرت صدر الافاضل مفسر قرآن مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ کی خدمت میں پیش کردیا، آپ نے درس نظامی کی مکمل تعلیم از ابتداء تا آخر صدر الافضل ہی سے حاصل کی، آپ اپنے اساتذہ کا بے حد ادب فرماتے تھے، جب آپ نے کوئی علمی سوال کیا جس کا جواب مفتی صاحب صغر سنی کے باعث نہ دے سکے اس پر صدر الافاضل نے فرمایا، یہی استاذ نے پڑھا ہے؟ آپ نے جواب دیا استاذ نے تو صحیح پڑھایا تھا مگر مجھے یہی یاد تھا، یہ اپنے استاذ کا ادب تھا، ورنہ تو آج کل طالب علم اپنی کوتاہیوں کو اپنے اساتذہ کی طرف منسوب کرتے ہیں، ادب دین کا بڑا حصہ ہے، حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے۔ الدین ادب۔ حافظ شیرازی فرماتے ہیں:
ادب تاجیست از لطف الٰہی
بنہ بر سر برو ہر جاکہ خواہی
تقریباً ۱۹ سال کی عمر میں آپ نے علوم الٰہیہ اور علوم عالیہ سے سند فراغ حاصل کی یہ آپ کی خوش قسمتی تھی کہ آپ کی دستاربندی کی رسم امام اہل سنت مولانا شاہ احمد رضا خان نے ادا فرمائی، آپ مراد آباد تشریف لائے اور دستار فضیلت اپ کے سر پر رکھی، استاد محترم کے ارشاد کے مطابق آپ نے انہی کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں تدریس شروع کی اور نصف صدی تک علم و عرفان کے جام لنڈھائے آپ کی فقہی مہارت کے باعث آپ کو افتا کی خدمت مقرر کی گئی۔
آپ نے عارف باللہ حضرت شاہ علی حسین صاحب اشرفی جیلانی قدس سرہ کےدست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا، شیخ نے آپ سے فرمایا، درس حدیث و تفسیر ہی آپ کی ریاضت تھے، حضرت شاہ علی حسین صاحب نے آپ کو خلافت سے بھی نوازا۔
تقسیم برصغیر کے بعد بھی آپ نے ہندوستان میں قیام فرمایا، ایک مرتبہ بغداد تشریف لے جانے کے لیے کراچی تشریف لائے تو اتفاقا پاک و ہندو کی سرحدیں بند ہوگئیں چوں کہ آپ کے اہل خانہ ۱۹۵۱ء میں ہی کراچی آگئے تھے کچھ تو ان کے اصرار پر اور کچھ مبلغ اسلام حضرت مولانا عبدالعلیم صدیقی کے اصرار پر آپ نے ہندوستان واپسی کا ارادہ ترک کر دیا، اور کراچی میں رہ پڑے، مفتی صاحب نے کراچی میں بھی تبلیغ اسلام کی مساعی کو بھر پور انداز میں شروع فرما دیا، درس و افتاء تبلیغ و ارشاد کا سلسلہ یہاں بھی چل نکلا، آپ نے ۱۳۷۱ھ/۱۹۵۱ء میں ایک مختصر جگہ واقع رابسن روڈ عقب جامع کلاتھ مارکیٹ میں ایک دارالعلوم کی بنیاد رکھی جس کا نام ‘‘دارالعلوم مخزن عربیہ بحرالعلوم’’تھا ، نیز جامع مسجد آرام باغ میں خطابت پر درس و تدریس اور افتاء خطابت کا کام انجام دیتے رہے۔
اعلیٰ حضرت کا ترجمہ قرآن اور صدر الافاضل کی تفسیر، کنزالایمان وخزائن العرفان کو پہلی مرتبہ نعیمی پریس سے طبع کرانے کا شرف مفتی صاحب کو حاصل ہوا، مسلک اہل سنت کی کتب پاکستان میں بہت کم شائع ہوتی تھیں۔ آپ نے اس مقصد کے لیے اپنے ایک صاحبزادے کے نام پر ازھر بک ڈپو قائم کیا اس ادارہ نے اردو، سندھی، گجراتی، وغیرہ زبانوں میں کئی کتب شائع کیں، اطیب البیان، الکمتہ العلیاء، شان حبیب الرحمٰن ، رحمت خدا، سلطنت مصطفیٰ، سوانح کربلا اردو گجراتی، کتاب العقائد اردوسندھی، کشف اعجاب اردو سندھی حدائق بخشش وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
۱۹۵۳ء میں تحریک ختم بنوت چلی تو ملک کے طول وعرض سے علماء و عوام اہل سنت سر بکف میدان عمل میں داخل ہوگئے، کراچی میں مفتی صاحب نے ناموس مصطفیٰ ﷺ کی خاطر بے مثال جدو جہد کی اور بالا خر آپ کو جیل میں قید و بند کی صعوبتیں اٹھانی پڑیں، جو ہمیشہ اہل اللہ کا مقدر رہی ہیں،
خون نہ کردہ ام کسے رانہ کشتہ ام
جرم ہمیں کہ عاشق روئے تو گشتہ تم
مفتی صاحب والی کامل ہیں مدرس محقق، مصنف، مفتی، خطیب، سب کچھ ہی تھے، آپ کی تقادیر جو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتی تھیں بڑے شوق سے سنی جاتی تھیں، آرام باغ میں قبل از جمعہ کی تقریر سننے کے لیے لوگ آتےتھے، کیوں کہ آپ کی تقریر مسائل فقیہہ کا خزانہ ہوتی تھی،فقیر مولف کو مفتی صاحب مرحوم کی صحبت میں بارہا بیٹھنے، ان کی تقریر سننے اور ان کے ساتھ تقریر کرنے کا بارہا شرف حاصل رہا ہے ان کی شفقت ناقابل فراموش اور ان کی تواضع قابل تقلید ہے، مفتی صاحب مرحوم نے بروز جمعرات مورخہ ۲۳/ذوالقعدہ/ ۱۳۸۶ھ/۔۱۷/مارچ/ ۱۹۶۶ء ناظم آباد کراچی میں وصال پایا تو پورے ملک میں صف ماتم بچھ گئی، ریڈیو پاکستان سے آپ کی وفات اور نماز جنازہ کا اعلان ہوا تو عید گاہ ناظم آباد ۳ میں پورا شہر امڈ آیا ، سینکڑوں علماء و مشائخ موجود تھے، امامت کے فرائض آپ کے خلف اکبر حضرت مولانا محمد اظہر نعیمی زید مجد ہم نےادا کیے۔ مسجد دارالصلواۃ ناظم آباد جس میں عرصہ دراز تک آپ نے فی سبیل اللہ امامت کے فرائض انجام دیئےتھے کے شرقی دروازہ کے پاس آپ کا مزار مرجع خلائق ہے، تاریخ وفات پر آپ کا عرس دارالعلوم نعیمیہ فیڈرل بی ایریا کراچی اور دوسرے مقامات پر ہوتا ہے۔
(یہ تمام معلومات محترم مولانا جمیل احمد نعیمی زید مجد ہم کے رسالہ ‘‘تذکرہ تاج العماء’’ دارالعلوم نعیمیہ کراچی سے ماخوذ ہیں، مولانا جمیل احمد نعیمی مفتی صاحب مرحوم کے اجل تلامذہ میں سے ہیں۔ مولف)
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )