حضرت ام المؤمنین سیدہ حفصہ

حضرت ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

حفصہ رضی اللہ عنہا دختر عمر بن خطاب:ہم ان کا نسب ان کے والد کے ترجمے میں بیان کر آئے ہیں،زینب دخترِ مظعون جن کے بھائی کا نام عثمان تھا،حفصہ اور عبداللہ بن عمر کی والدہ تھیں،اور جناب حفصہ نے ہجرت کی تھی،ان کے پہلے خاوند کا نام خنیس بن حذافہ سہمی تھا،جو بدر میں شریک تھے،اور مدینے میں فوت ہوئے تھے۔

 جب حفصہ بیوہ ہوگئیں،تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان سے نکاح کی درخواست کی،لیکن وہ دونوں ٹال گئے،انہوں نےحضور ِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ان احباب کی بے رخی کا گلہ کیا،تو آپ نے فرمایا،گھبراؤ نہیں،عثمان کو (جو ان دنوں رنڈوے تھے) حفصہ سے بہتر بیوی مل جائے گی اور حفصہ کو عثمان سے بہتر خاوند مل جائے گا،جب حضورِ اکرم نے حفصہ سے نکاح کرلیا ،تو حضرت ابوبکر نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا،میری طرف سے دل میں کوئی کدورت نہ رکھنا،کیونکہ میں رسولِ کریم کے راز کو افشا نہیں کرنا چاہتا تھا،اگر حضورِ اکر م کا ارادہ نہ ہوتا،تو میں نکاح کرلیتا،حضورِ اکرم نے نکاح حسبِ روایت اکثر سیرت نگاراں تیسرے سال ہجری میں کیا،اور ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ اس نکاح کا انعقاد دوسرے سال ہجری میں ہوا،اس سےپہلے حضرت عائشہ آپ کے عقد میں آچکی تھیں،ایک موقعہ پر حضورِ اکرم نے اس خاتون کو طلاق دے دی تھی،لیکن پھر جبریل کے کہنے پر کہ یہ خاتون جنت میں بھی آپ کے ساتھ ہوں گی،رجوع فرمالیا تھا، آپ کی یہ زوجہ صوامہ (کثرت سے روزہ رکھنے والی) اور قوامہ (احکام کی بجا آوری میں پورا اہتمام کرنے والی) تھیں۔

موسیٰ بن علی بن رباح نے اپنے والد سے انہوں نے عقبہ بن عامر سے روایت کی،کہ جب حضورِ اکرم نے حفصہ کو طلاق دی اور حضرت عمر کو اس کاعلم ہوا،تو انہوں نے شدتِ غم سے سر پر مٹی ڈالی،اور کہنے لگے،اس کے بعد اب اللہ کی نگاہ میں عمر اور اس کی لڑکی کی کوئی قدر وقیمت نہیں رہی،اس پر جبریل علیہ السّلام نازل ہوئے اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عمر کی خاطر رجوع کرلینے کا مشورہ دیا۔

 ابوالفضل بن ابوالحسن مخزومی نے باسنادہ ابویعلی سے،انہوں نے ابو کریب سے،انہوں نے یونس بن بکیر سے ،انہوں نے اعمش سے،انہوں نے ابو صالح سے،انہوں نے ابنِ عمر سے روایت کی،کہ ایک دفعہ حضرت عمر بیٹی سے ملنے گئے تو وہ بیٹھی رو رہی تھیں،پوچھا ،کیا تجھے پھر طلاق ہو گئی ہے،دیکھو،ایک دفعہ پیشتر ازیں بھی تجھے طلاق مل چکی ہے،اگر پھر یہ صورتِ حال پیش آگئی ،تو میں تم سے ہر گز کلام نہیں کروں گا۔

اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بوقت وفات جناب حفصہ کے لئے غابہ میں کچھ مال کی وصیّت کی تھی،جب وہ فوت ہونے لگیں،تو انہوں نے وہی مال اپنے بھائی کے نام وصیّت کردیا،کہ وہ مال فی سبیل اللہ صدقہ کر دیا جائے۔

 جناب حفصہ نے حضورِ اکرم سے روایت کی،اور ان سے ان کے بھائی عبداللہ نے ہمیں کئی آدمیوں نے باسنادہم ابو عیسٰی سے،انہوں نے اسحاق بن منصور سے،انہوں نے معن سے،انہوں نے مالک سے،انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے سائب بن یزید سے،انہوں نے مطلب بن ابو وداعہ سے،انہوں نے حفصہ سے روایت کی کہ انہوں نے حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنی کالی چادر میں بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا،آپ قرآن مجید کی تلاوت فرماتے،اور پھر سہج سہج کر تلاوت شروع کرتے،اور نماز طویل سے طویل تر ہوتی چلی جاتی۔

 ابو الحرم بن ریان نے باسنادہ یحییٰ بن یحییٰ سے انہوں نے مالک سے،انہوں نے نافع سے ، انہوں نے ابن عمر سے، انہوں نے حفصہ سے روایت کی،کہ جب مؤذن صبح کی اذان ختم کرتا تو حضورِ اکرم قبل از نماز صبح دو مختصر سی رکعتیں ادا کرتے تھے۔

ام المؤ منین نے اس زمانے میں وفات پائی،جب امیر معاویہ نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خلافت لے لی،یہ واقعہ جمادی الاولیٰ اکتالیس ہجری میں پیش آیاتھا،ایک روایت میں ان کی وفات 45ھ میں اور ایک میں 47ھ میں مذکور ہے،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔


متعلقہ

تجویزوآراء