امام المسلمین حضرت سیدنا امام جعفر صادق
امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
خاندانی حالات:
آپ امام زین العابدینؓ کے پوتے اور امام محمد باقر کے صاحبزادے ہیں۔ آپ کی والدہ ام فروہ حضرت ابوبکر صدیق کے پوتے قاسم کی صاحبزادی ہے۔ اور ام فروہ کی ماں اسماء حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن ؓکی صاحبزادی ہے۔ اسی واسطے آپ فرمایا کرتے تھے ولدنی ابوبکر مرتین۔ یعنی میں ا بوبکر سے دو مرتبہ پیدا ہوا ہوں۔ مگر حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں[۱] کہ حضرت امام کا نسب صوری اور نسب معنوی حضرت صدیق اکبر سے ہے۔ اس واسطے آپ نے ایسا فرمایا ہے۔ علم باطن میں آپ کا انتساب اپنے نانا قاسم سے ہے۔
[۱۔ مکتوبات احمدیہ دفتر اول، مکتوب ۲۹۰]
ولادت با سعادت:
آپ مدینہ منورہ میں ۸۰ھ میں پیدا ہوئے۔ صدق مقال کے سبب سے آپ کو صادق کہتے ہیں۔ آپ کی سیادت و امامت پر سب کا اتفاق ہے۔ عمرو بن ابی المقدام کا قول ہے کہ میں جس وقت امام جعفر کو دیکھتا ہوں معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ خاندانِ نبوت سے ہیں۔
علم و فضل:
آپ لطائف تفسیر اور اسرار تنزیل میں بے نظیر تھے۔ علامہ ذہبی نے آپ کو حفاظ حدیث میں شمار کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ ،مالک، شعبہ، ہر دو سفیان، حاتم بن اسماعیل، یحییٰ قطان، ابوعاصم بنیل رحمہم اللہ وغیرہ نے آپ سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؓفرماتے ہیں کہ میں نے (اہلبیت میں) امام جعفر بن محمدؓ سے بڑھ کر کسی کو فقیہ نہیں دیکھا۔ غرض آپ تمام علوم و اشارات میں کامل اور مشائخ کے پیشرو اور مقتدائے مطلق تھے۔
زہد و سخاوت:
ایک روز امام سفیان ثوری آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ خز[۱] کا جبہ اور خز کا کمبل اوڑھے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر سفیان بولے۔ اے فرزند رسولﷺ! یہ آپ کے آباؤ اجداد کا لباس نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ تنگدستی کے زمانہ میں تھے۔ اب امارت کا زمانہ ہے۔ یہ کہہ کر آپ نے خز کا جبہ اٹھاکر اس کے نیچے کا کھردرا جبہ دکھایا۔ اور فرمایا اے ثوری! یہ ہم نے اللہ کے واسطے پہنا ہے۔ اور وہ تمہارے واسطے۔ جو اللہ کے واسطے ہے اسے ہم نے پوشیدہ رکھا ہے اور جو تمہارے واسطے ہے اسے ہم نے ظاہر رکھا ہے۔
[۱۔ خز ایک قسم کا ابریشمی کپڑا ہے۔ بقول بعض ابریشم و پشم سے تیار ہوتا ہے۔ اور بعضے ایک قسم کی پوستین بتاتے ہیں۔]
آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ ہیاج بن بسطام فرماتے ہیں کہ امام جعفر صادق اوروں کو یہاں تک کھلاتے کہ اپنے عیال کے لیے کچھ باقی نہ رہتا۔
خشیت الٰہی:
منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت داؤد طائی نے امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے فرزند رسول! مجھے کوئی نصیحت فرمائیں، کیونکہ میرا دل سیاہ ہوگیا ہے۔ فرمایا: یا ابا سلیمان! آپ زاہد زمانہ ہیں۔ آپ کو میری نصیحت کی کیا ضرورت ہے۔ داؤد نے عرض کیا اے فرزند رسول! آپ کو سب پر فضیلت حاصل ہے۔ اس لیے آپ پر واجب ہے کہ سب کو نصیحت کریں، فرمایا: یا ابا سلیمان! مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں قیامت کے دن میرے جد بزرگوار میرا دامن نہ پکڑیں اور یوں فرمادیں کہ میرا حق متابعت کیوں نہ ادا کیا، کیونکہ یہ کام نسب کی شرافت پر موقوف نہیں۔ بلکہ درگاہ رب العزت میں عمل کی پسندیدگی معتبر ہے۔ یہ سن کر داؤد بہت روئے۔ اور بارگاہ الٰہی میں عرض کی کہ پروردگار! جس شخص کی سرشت نبوت کے آب و گل سے ہے اور جس کی طبیعت کی ترکیب آثار رسالت سے ہوئی ہے اور جس کے جد بزرگوار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ماں حضرت فاطمہ بتول ہیں جب وہ ایسی حیرانی میں ہے تو داؤد کس شمار میں ہے کہ اپنے حال پر نازاں ہو۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ادب:
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں امام جعفر صادق کی زیارت کیا کرتا تھا۔ جلوت میں حسن خلق کے سبب سے ان کے مزاج میں مزاح و تبسم زیادہ تھا۔ مگر جس وقت ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آتا تو ان کا رنگ زرد ہوجاتا۔ میں نے ان کو حدیث شریف بیان کرتے وقت کبھی بے وضو نہیں دیکھا۔ ان کی خدمت میں میری آمد و رفت دیر تک رہی۔ مگر جب کبھی میں ان سے ملاتو ان کو نماز پڑھتے یا خاموش یا قرآن پڑھتے پایا۔ وہ (خلوت میں) فضول و لغو کلام نہ کیا کرتے تھے۔ اور علوم شرعیہ کے عالم اور خدا ترس تھے۔[۱]
[۱۔ شفا شریف قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ]
کرامات کا بیان:
۱۔ لیث بن سعد کا بیان ہے کہ میں نے ۱۱۳ھ میں حج کیا۔ جب میں نے مسجد حرام میں عصر کی نماز پڑھی تو میں جبل ِ ابوقبیس پر چڑھ گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص بیٹھا ہوا یوں دعا مانگ رہا ہے یا رب یا رب، پھر خاموش ہوگیا بعد ازاں بولا یا حی یا حی یا حی، پھر کچھ دیر کے بعد بولا، الٰہی میں انگور چاہتا ہوں، خدایا مجھے انگور کھلادے، میری دونوں چادریں پھٹ گئی ہیں، مجھے نئی پہنادے۔ راوی کا قول ہے کہ اس کا کلام تمام نہ ہونے پایا تھا کہ میں نے ایک انگوروں کا بھرا ہوا ٹوکرا دیکھا حالانکہ اس وقت روئے زمین پر انگور نہ تھے اور دو چادریں دیکھیں کہ جن کی مثل میں نے دنیا میں نہیں دیکھی۔ اس شخص نے چاہاکہ انگور کھالے میں نے کہا میں تیرا شریک ہوں۔ اس نے پوچھا کیونکر؟ میں نے جواب دیا کہ جب تم دعا کر رہے تھے تو میں آمین کہہ رہا تھا یہ سن کر ا س نے کہا آگے آئیے کھائیے۔ میں آگے بڑھا اور وہ انگور کھائے کہ ایسے کبھی نہ کھائے تھے۔ ہم نے پیٹ بھر کر کھائے مگر ٹوکرا اسی طرح بھرا ہوا تھا اس نے فرمایا کہ ان کو ذخیرہ مت کرو اور نہ چھپاؤ بعد ازاں اس شخص نے ایک چادر خود لے لی اور دوسری مجھے دے دی۔ میں نے کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ اس پر اس نے ایک چادر بطور تہ بند باندھ لی اور دوسری بدن پر اوڑھ لی، پھر وہ دونوں پرانی چادریں ہاتھ میں لیے پہاڑ سے اترا۔ صفا و مروہ کے درمیان ایک شخص نے اس سے سوال کیا۔ اے فرزند رسول اللہ! میں ننگا ہوں، مجھے اوڑھا دے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے اوڑھایا ہے پس اس نے وہ دونوں سائل کو دے دیں۔ یہ دیکھ کر میں نے پوچھا کہ یہ کون بزرگ ہیں۔ جواب ملا کہ جعفر صادق ہیں۔ اس کے بعد میں نے ان کو ڈھونڈا کہ ان سے کچھ سنوں مگر نہ ملے۔
گائے زندہ ہوگئی:
ایک روز حضرت جعفر صادق مکہ میں پھر رہے تھے۔ اچانک آپ کا گزر ایک عورت پر ہوا۔ جس کے آگے ایک گائے مردہ پڑی ہوئی تھی۔ اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ رو رہی تھی۔ حضرت امام نے پوچھا کہ کیا حال ہے؟ اس نے عرض کی کہ میرا اور میرے بچوں کا گزارہ اسی گائے کے دودھ سے ہوتا تھا۔ اب جو مرگئی۔ حیران ہوں کہ کیا کروں، امام نے فرمایا کیا تو چاہتی ہے کہ خدا تعالیٰ اس کو زندہ کردے۔ اس نے جواب دیا مجھ پر تو یہ مصیبت پڑی ہوئی ہے اور آپ ہنسی کرتے ہیں۔ امام نے فرمایا کہ میں ہنسی نہیں کرتا۔ بعد ازاں آپ نے دعا فرمائی اور گائے کو ایک ٹھوکر ماری۔ وہ زندہ ہوکر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اور آپ عام لوگوں میں جاملے۔ اس عورت کو معلوم نہ ہوا کہ کون تھے۔
خلیفہ وقت پر رعب:
منقول ہے کہ منصور جو خلیفہ وقت تھا۔ اپنےو زیر سے کہا کہ امام جعفر صادق کو لاؤ تاکہ میں اسے قتل کردوں۔ وزیر نے کہا کہ جو شخص گوشہ نشین اور عبادت میں مشغول ہے اور ملک سے قطع تعلق کیے ہوئے ہے اس کے قتل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ خلیفہ نے ناراض ہوکر کہا کہ اسے ضرور لاؤ، میں قتل کرنا چاہتا ہوں، وزیر نے بہتیراً سمجھایا مگر اس نے ایک نہ سنی۔ آخر کار وزیر تلاش میں نکلا۔ خلیفہ نے غلاموں سے کہا کہ جس وقتامام صادق آئے اور میں سر سے ٹوپی اتاروں تم اسے قتل کردینا۔ جب حضرت امام آئے تو منصور استقبال کے لیے آگے بڑھا، اور آپ کو تخت پر بٹھاکر خود ادب سے سامنے ہو بیٹھا۔ غلام یہ دیکھ کر حیران ہوئے، منصور نے عرض کیا، کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے۔ امام نے فرمایا کہ صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ مجھے پھر اپنے پاس نہ بلانا۔ اور اب مجھے اجازت دو کہ جاکر یادِ الٰہی میں مشغول ہوجاؤں یہ سن کر خلیفہ نے آپ کو بڑے اعزاز و اکرام سے رخصت کیا۔ جب آپ رخصت ہوئے تو خلیفہ کانپ کر بیہوش گر پڑا۔ تین روز تک بیہوش رہا۔ بعضے کہتے ہیں کہ اس کی تین نمازیں فوت ہوگئیں۔ جب ہوش میں آیا تو وزیر نے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ تھا۔ خلیفہ بولا کہ جب امام جعفر صادق یہاں آئے تو کیا دیکھتاہوں کہ آپ کے ہمراہ ایک اژدہا ہے۔ جس کا ایک ہونٹ اس مکان کے نیچے اور دوسرا اوپر ہے۔ اور زبان فصیح سے مجھے کہہ رہا ہے کہ اگر تو حضرت امام کو تکلیف دے گا تو میں تجھے اس مکان سمیت نگل جاؤں گا۔ اس لیے میں اس اژدہا کے ڈر کے مارے کچھ نہ کہہ سکا۔ بلکہ اس سے معافی مانگی اور بیہوش ہوگیا۔
وصال مبارک:
آپ نے مدینہ منورہ میں (۱۵رجب) ۱۴۸ھ میں اڑسٹھ سال کی عمر میں وصال فرمایا اور جنت البقیع میں قبہ اہلبیت میں مدفون ہوئے۔
ارشاداتِ عالیہ
۱۔ چار چیزیں ہیں جن سے شریف آدمی کو عار نہ چاہیے۔ اپنے والد کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجانا۔ اپنے مہمان کی خدمت کرنا۔ اپنے چوپایہ کی خبر لینا خواہ اس کے سو غلام ہوں۔ اپنے استاد کی خدمت کرنا۔
۲۔ نیکی سوائے تین خصلتوں کے تمام و کامل نہیں ہوتی۔ اسے جلدی کرنا۔ اسے چھوٹا سمجھنا۔ اسے چھپانا۔
۳۔ جب دنیا کسی انسان کے پاس آتی ہے اسے غیروں کی خوبیاں دے دیتی ہے اور جب اس سے منہ پھیرلیتی ہے تو اس کی ذاتی خوبیاں بھی اس سے چھین لیتی ہے۔
۴۔ جب تجھے اپنے بھائی سے ایسی چیزپہنچے جو تو ناپسند کرتا ہے تو اس کے لیے ایک عذر سے ستر عذر تلاش کر۔ اگر تجھے اس کے لیے کوئی عذر نہ ملے تو یوں کہہ کہ شاید اس کے لیے کوئی عذر ہوگا جو مجھے معلوم نہیں۔
۵۔ جب تم کسی مسلمان سے کوئی کلمہ سنو تو اسے اچھے سے اچھے معنی پر حمل کرو۔ یہاں تک کہ اگر تمہیں کوئی محمل نیک نہ ملے تو اپنے تئیں ملامت کرو۔
۶۔ تم ایسے ہاتھ کا کھانا نہ کھاؤ جو بھوکا تھا پھر سیر ہوگیا۔
۷۔ آپ نے کسی قبیلے کے ایک شخص سے پوچھا کہ اس قبیلے کا سردار کون ہے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ میں، آپ نے فرمایا کہ اگر تو ان کا سردار ہوتا تو جواب میں میں نہ کہتا۔
۸۔ جب تو گناہ کرے تو معافی مانگ کیونکہ گناہ مردوں کے گلوں میں ان کی پیدائش سے پہلے ڈالے گئے ہیں اور ان پر اصرار کرنا کمال درجہ کی ہلاکت ہے۔
۹۔ جو شخص اپنےر زق میں تاخیر پائے۔ اسے طلب مغفرت زیادہ کرنی چاہیے۔
۱۰۔ جو شخص اپنے مالوں میں سے کسی مال پر ناز کرے۔ اور اس مال کا بقا چاہے اسے یوں کہنا چاہیے ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ۔
۱۱۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی طرف یہ حکم بھیجا کہ جو شخص میری خدمت کرے تو اس کی خدمت کر اور جو تیرا خادم بنے تو اسے تکلیف دے۔
۱۲۔ علمائے شریعت پیغمبروں کے امین ہیں جب تک کہ بادشاہوں کے دروازوں پر نہ جائیں۔
۱۳۔ یا اللہ!تو مجھے اس شخص کے ساتھ غم خواری عطا فرما جس پر تونے اپنا رزق تنگ کر دیا ہے اور جس حالت میں میں ہوں وہ تیرے فضل سے ہے۔
۱۴۔ آپ کو جب کسی چیز کی حاجت ہوتی تو یوں دعا کرتے، پروردگار! مجھے فلاں چیز کی حاجت ہے۔ آپ کی دعا تمام نہ ہوتی کہ وہ چیز آپ کے پہلو میں موجود ہوتی۔
۱۵۔ جس نے اللہ کو پہچانا اس نے ماسواء سے منہ پھیرلیا۔
۱۶۔ عبادت توبہ کے سوا درست نہیں کیونکہ ا للہ تعالیٰ نے توبہ کو عبادت پر مقدم کیا چنانچہ فرمایا التائبون العابدون۔
۱۷۔ مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو چار میں مبتلا ہو۔ وہ چار سے کیسے غافل رہتا ہے۔ تعجب ہے اس پر جو غم میں مبتلا ہو وہ یہ کیوں نہیں کہتا (لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین)۔کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد فرماتاہے۔ (فاستجبنا لہ ونجینہ من الغم وکذالک ننجی المومنین ) اور تعجب اس پر جو کسی آفت سے ڈرتا ہو وہ یہ کیوں نہیں کہتا (حسبنا اللہ ونعم الوکیل) کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (فانقلبو بنعمۃ من اللہ وفضل لم یمسسھم سوء) اور تعجب ہے اس پر جو لوگوں کے مکر سے ڈرتا ہو وہ یہ کیوں نہیں کہتا (وافوض امری الی اللہ ان اللہ بصیر بالعباد) کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (فوقہ اللہ سیات مامکروا) اور تعجب ہے اس پر جو جنت میں رغبت کرتا ہے وہ یہ کیوں نہیں کہتا (ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ) کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (فعسی ربی ان یوتین خیرا من جنتک)۔
(تذکرۃ الحفاظ للذہبی۔ تہذیب التہذیب للعسقلانی۔ طبقات کبرےٰ للشعرانی۔ صواعق محرقہ للشیخ ابن حجر۔ شواہد النبوۃ للجامی۔ تذکرۃ الاولیاء للشیخ عطار۔ کشف المحجوب للشیخ مخدوم علی ہجویری)۔
(تاریخ مشائخِ نقشبندیہ)