امام المسلمین حضرت سیدنا امام جعفر صادق
حضرت امامِ جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
مدینہ منوّرہ (80ھ/ 699ء۔۔۔149ھ/ 766ء) مدینہ منوّرہ
قطعۂ تاریخِ وصال
ہے عیاں آپ کا نسب نامہ |
آپ سیّد ہیں ابنِ باقر ہیں |
اُن کا سالِ وصال اے صاؔبر |
کہیے ’’نوری امام جعفر ہیں‘‘ 766ء |
(صاؔبر براری، کراچی)
آپ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے اور حضرت امام محمد بن باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے ہیں۔ آپ کی والدہ حضرت امِ فروہ رضی اللہ عنہا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی ہیں اور اُمّ فروہ کی ماں حضرت اسماء، حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمٰن کی بیٹی ہیں۔ بدیں وجہ آپ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ ولدنی ابوبکر مرتین یعنی میں ابوبکر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ سے دو مرتبہ پیدا ہوں۔ اول ولادتِ ظاہری کہ میری والدہ کے باپ حضرت قاسم بن محمد بن ابوبکر ہیں اور دوم ولادتِ باطنی کہ علمِ باطن بھی میں نے حضرت قاسم سے پایا ہے۔
آپ کی ولادتِ باسعادت 13؍ربیع الاوّل 80ھ کو مدینہ منوّرہ میں ہوئی۔ صدقِ مقال کے سبب سے آپ کو ’’صادق‘‘ کہتے ہیں۔ آپ کی سیادت و امامت پر سب کا اتفاق ہے۔ عمرو بن ابی المقدام کا قول ہے کہ میں جس وقت حضرت امام جعفر کو دیکھتا ہوں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ خاندانِ نبوت سے ہیں۔ آپ کا شجرۂ نسب یوں ہے امام جعفر صادق بن امام محمد بن باقر بن امام زین العابدین بن سیّد شہداء امام حسین بن حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
علم:
آپ لطائفِ تفسیر اور اسرارِ تنزیل میں بے نظیر تھے۔ علامہ ذہبی نے آپ کو حفاظِ حدیث میں شمار کیا ہے بانی مخقہ امام الآئمہ سراج الامّت حضرت امام ابوحنیفہ امام مالک، شعبہ، ہر دو سفیان (سفیان ثوری اور سفیان یمینہ) حاتم بن اسمٰعیل، یحییٰ قطان ابوعاصم نبیل (رحمۃ اللہ علیہم) نے آپ سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ حضرت امامِ ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ میں نے اہل بیت میں امام جعفر بن محمد سے بڑھ کر کسی کو فقیہ نہیں دیکھا۔ الغرض آپ تمام علوم و اشارات میں کامل اور مشائخ کے پیش رو اور مقتدائے مطلق تھے۔ آپ اخلاقِ حسنہ اور تفسیرِ قرآن بلکہ جملہ علوم میں بے نظیر تھے۔ آپ مدینہ منورہ میں لوگوں کی ظاہر و باطنی تشنگی دور فرماتے تھے۔ بعد ازاں عراق تشریف لے جاکر ایک عرصہ تک خلقِ خدا کو مستفید و مستفیض فرمایا۔
زہد و سخاوت:
ایک روز حضرت سفیان ثوری آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ خز (ایک قسم کا ریشمی کپڑا) کا جبّہ اور کمبل اوڑھے ہوئے تھے یہ منظر دیکھ کر حضرت سفیان یوں گویا ہوئے، اے فرزندِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کے آباؤاجداد تو ایسا لباس نہیں پہنتے تھے، آپ نے ارشاد فرمایا کہ وہ تنگدستی کے زمانہ میں تھے اب امارت کا زمانہ ہے۔ یہ ارشاد فرماکر آپ نے خز کا جبہ اٹھاکر اس کے نیچے پشم کا کھردرا جبہ دکھایا اور فرمایا اے سفیان ثوری! یہ ہم نے اللہ کی رضا جوئی کے لیے پہنا ہے اور وہ تمہارے واسطے جو اللہ کے لیے ہے اُسے ہم نے پوشیدہ رکھا ہے اور جو تمہارے لیے ہے اسے ہم نے ظاہر رکھا ہے۔
آپ کی سخاوت کا یہ حال تھا کہ بقول ہیاج بن بسطام، اوروں کو یہاں تک کھلاتے کہ اپنے بال بچوں کے لیے کچھ باقی نہ رہتا۔ ایک شخص کی اشرفیوں کی تھیلی گم ہوگئی تو عدم واقفیت اور لاعلمی کے سبب اس نے حضرت امام جعفر صادق سے کہا کہ میری تھیلی آپ کے پاس ہے آپ نے اس سے پوچھا کہ اُس تھیلی میں کتنے دینار تھے، اس نے بتایا کہ ایک ہزار، آپ نے اُسے گھر لے جاکر ایک ہزار دینار دے دیے جب وہ شخص اپنے گھر واپس گیا تو اُسے گمشدہ تھیلی مل گئی، وہ حضرت امام صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری تھیلی مجھے مل گئی ہے، آپ اپنے دینار واپس لے لیجیے، حضرت امام نے فرمایا کہ تم لے جاؤ، ہم جو کچھ دیتے ہیں پھر واپس نہیں لیتے۔ اس شخص نے لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں کسی نے کہا یہ امام جعفر صادق ہیں وہ شرمندہ ہوکر چلا گیا۔
خوف و خشیّت:
روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت داؤد طائی آپ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے فرزندِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے کچھ نصیحت فرمائیے کہ میرا دل سیاہ ہوگیا ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ بھلا تم کو میری نصیحت کی کیا حاجت ہے تم خود زاہدِ زمانہ ہو۔ انہوں نے عرض کیا کہ آپ کی فضیلت سب پر ثابت اور عیاں ہے۔ بدیں وجہ آپ پر واجب ہے کہ سب کو پند و نصیحت سے نوازیں، فرمایا: یا ابا سلیمان! مجھے تو خود اندیشہ ہے کہ کہیں قیامت کے دن میرے جد بزرگوار میرا دامن نہ پکڑیں اور یوں فرمادیں کہ میرا حق متابعت کیوں نہ ادا کیا کیونکہ یہ کام نسبت کی شرافت پر موقوف نہیں بلکہ بارگاہِ رب العزت میں عمل کی پسندیدگی پر منحصر ہے۔ یہ سن کر حضرت داؤد طائی خوب روئے اور بارگاہِ خداوندی میں عرض کی کہ اے میرے پروردگار! جس شخص کی سرشت نبوت کے آب و گل سے ہے اور جس کی طبیعت کی ترکیب آثارِ رسالت سے ہوئی ہے اور جس کے جد بزرگوار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور والدہ ماجدہ حضرت سیدہ طیبہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہو، اُس کا یہ حال ہے تو داؤد بیچارہ کس شمار و قطار میں ہے۔
ایک روز آپ اپنے خادموں کے جھرمٹ میں جلوہ افروز تھے کہ فرمایا! آؤ ہم سب آپس میں بیعت و اقرار کریں کہ ہم میں سے جس کو بھی نجات نصیب ہو وہ دوسروں کی شفاعت کرے گا۔ سب خادموں نے عرض کیا کہ اے فرزندِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کو ہماری شفاعت کی کیا ضرورت اور حاجت ہے جبکہ آپ کے جد کریم صلی اللہ علیہ وسلم شفیعِ خلائق ہیں، فرمایا کہ مجھے اپنے اعمال سے شرم آتی ہے کہ ان کو لے کر اُن کے روبرو جاؤں۔ حکیم الامت حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس حقیقت کو کس خوبصورتی سے بیان فرمایا ہے ۔
؎
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر |
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر |
ور تو بینی، حسابم را نا گزیر |
از نگاہِ مصطفےٰ پنہاں بگیر |
ایک مرتبہ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ مجھے کچھ نصیحت فرمائیے، فرمایا، اے سفیان! جھوٹ بولنے والے کو مروت نہیں ہوتی اور حاسد کو راحت نہیں ہوتی، بدخلق کو سرداری نہیں ہوتی اور ملوک کو اخوت نہیں ہوتی، عرض کیا کہ کچھ اور فرمائیے، فرمایا: اے سفیان! اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے محارم (احرام، ممنوعہ کام) سے بچانا تاکہ عابد ہو اور جو کچھ قسمت میں ہوگیا اُس پر راضی رہنا کہ مسلمان ہو۔ فاجر سے صحبت مت رکھا کر تجھ پر فجور غالب ہوجائے گا۔ اپنے معاملہ میں ایسے لوگوں سے مشورہ کر کہ جو اطاعتِ خداوندی خوب بجالاتے ہوں۔ عرض کیا کہ کچھ اور فرمائیے، فرمایا: اے سفیان جو شخص چاہے کہ اُس کی عزت بلا ذات و قبیلہ ہو اور ہیبت بلا حکومت ہو اُس سے کہو کہ گناہ چھوڑ دے اور اطاعت خداوندی اختیار کرے۔ عرض کیا کہ کچھ اور فرمائیے، فرمایا اے سفیان! جو شخص ہر آدمی کے ساتھ صحبت رکھتا ہے وہ سلامت نہیں رہتا۔ جو کوئی برے راستہ پر چلتا ہے وہ اتہام سے محفوظ نہیں رہتا اور جو شخص اپنی زبان کو قابو میں نہیں رکھتا وہ پشیمان ہوتا ہے۔ مزید فرمایا کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے انس رکھتا ہے اُسے خلق سے وحشت ہوجاتی ہے۔ بہت سے ایسے گناہ ہیں کہ جن کی وجہ سے بندہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہوجاتا ہےا ور بہت سی ایسی عبادتیں ہیں کہ جن کی وجہ سے بندہ اللہ تعالیٰ سے دور ہوجاتا ہے کیونکہ مغرور مطیع گنہگار ہوتا ہے اور نادم گنہگار مطیع ہوتا ہے۔
ایک دن حضرت امام جعفر صادق نے حضرت امام ابوحنیفہ سے دریافت فرمایا کہ عقلمند کس کو کہتے ہیں امام ابوحنیفہ نے کہا جو خیر و شر میں تمیز کرے۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ تمیز تو بہائم (جانوروں) میں بھی ہوتی ہے کہ مارنے والے اور چارہ دینے والے میں تمیز رکھتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ نے عرض کیا تو پھر آپ کے نزدیک عقلمند کون ہے؟ فرمایا: عقل مند وہ ہے جو دو خیر اور دو شر میں امتیاز کرے۔ خیر میں خیرالخیرین کو اختیار کرے اور شر میں شرالشرین کو۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ آپ میں تمام خوبیاں ہیں، آپ زاہد بھی ہیں اور آپ میں کرمِ باطن بھی ہے آپ قرۃ العین خاندانِ نبوت بھی ہیں لیکن متکبر کمال ہیں ارشاد فرمایا کہ میں متکبر نہیں ہوں اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا مجھ پر پرتو ضرور ہے۔
آپ سے کسی نے دریافت فرمایا کہ درویش صابر اچھا ہے یا تونگر شاکر، فرمایا، درویش صابر کیونکہ تونگر کا دل کیسہ میں لٹکا رہتا ہے اور درویش کا اللہ تعالیٰ میں، فرمایا کہ توبہ کے بغیر عبادت درست نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے توبہ کو عبادت پر مقدم کیا ہے (التائبون العابدون) توبہ ابتداء مقامات اور عبودیت انتہاءِ مقامات و درجات ہے۔
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ حسنِ خلق کے سبب جلوت میں اُن کے مزاجِ گرامی میں مزاح و تبسم ارزاں تھا مگر جب اُن کے سامنے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ انور ہوتا تو اُن کا رنگ زرد ہوجاتا۔ عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ نے کیسی سچی بات کی ہے۔
؎
عاشقاں راشش نشان ست اے پسر |
آہ سرد و رنگ زرد و چشمِ تر |
گر ترا پُر سند پس دیگر کدام |
گفتن و خوردن کم و خفتن حرام |
امام مالک مزید کہتے ہیں کہ میں نے اُن کو حدیث شریف بیان کرتے وقت کبھی بے وضو نہیں دیکھا میں عرصہ دراز تک اُن کی خدمت میں حاضری دیتا رہا مگر جب بھی اُن کے قدموں میں پہنچا تو اُن کو نماز پڑھتے یا خاموش بیٹھے یا قرآن کریم کی تلاوت کرتے پایا۔ وہ خلوت میں کبھی بھی فضول و لغو کلام نہیں کرتے تھے۔ علوم شرعیہ کے عالمِ باعمل اور خدا ترس تھے۔
کرامات
آپ کی کرامات بے حد و بے حساب ہیں ۔
ذیل میں تبرکاً چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ قارئین کرام اپنی کشتِ ایمان کو سر سبز و تازہ کرکے اُن کے نقشِ قدم پر چلیں اور دنیا میں ایک ایسا روحانی انقلاب برپا کردیں جس سے ہر سو انوار کی تجلیات ہی نظر آئیں۔
1۔ لیث بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں 113ھ میں حج کے دوران مسجد حرام میں عصر کی نماز کے بعد کوہِ ابو قبیس پر چڑھ گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص وہاں بیٹھا ہوا یوں دعا مانگ رہا ہے ’’یا رب یار ب‘‘ پھر خاموش ہوگیا۔ بعد ازاں بولا ’’یاحی یا حی یا حی‘‘ پھر کچھ دیر کے بعد بولا ’’الٰہی میں انگور چاہتا ہوں، خدایا مجھے انگور کھلادے اور میری دونوں چادریں پھٹ گئی ہیں، نئی عنایت فرمادے‘‘۔ ابھی اُس کی دعا ختم نہ ہونے پائی تھی کہ میں نے انگوروں کو بھرا ہوا ایک ٹوکرا دیکھا حالانکہ اس وقت روئے زمین پر کہیں بھی انگور نہ تھے اور پھر دو چادریں بھی دیکھیں کہ جن کی مثل میں کبھی بھی نہ دیکھی تھیں، اُس شخص نے چاہا کہ انگور کھالے۔ میں نے کہا کہ میں تیرا شریک ہوں، اُس نے پوچھا کیونکر؟ میں نے کہا کہ جب تم دعا کر رہے تھے تو میں ’’آمین‘‘ کہہ رہا تھا، اس پر اس نے کہا کہ آئیے اور کھائیے، میں اُس کے ساتھ بیٹھ گیا، ہم نے سیر ہوکر انگور کھائے مگر ٹوکرا اُسی طرح بھرا ہوا تھا۔ انگور ایسے لذیذ تھے کہ ایسے کبھی سنے اور نہ کھائے، پھر اُس شخص نے مجھے کہا کہ ان انگوروں کو مت چھپاؤ اور نہ ذخیرہ کرو، پھر اُس شخص نے ایک چادر خود لے لی اور دوسری مجھے دید ی میں نے معذرت کی کہ مجھے ضرورت نہیں ہے۔ اس پر اُس نے ایک چادر بطور تہبند باندھ لی اور دوسری بدن پر اوڑھ لی اور دونوں پرانی چادریں ہاتھ میں لیے پہاڑ سے اتر گیا۔ صفا و مروہ کے درمیان ایک شخص نے اُس سے سوال کیا، اے فرزندِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ننگا ہوں، مجھے اوڑھنے کو کپڑا دیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے اوڑھنے کو کپڑے دیے ہیں پس اُس نے وہ دونوں چادریں سائل کو دے دیں۔ یہ دیکھ کر میں نے سائل سے پوچھا کہ یہ کون بزرگ ہیں، جواب ملا کہ یہ ’’حضرت جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘‘ ہیں ۔ اس کے بعد میں نے اُن کو ڈھونڈا تاکہ ملفوظاتِ طیبات سنوں مگر تلاش بسیار کے باوجود نہ ملے۔
2۔ ایک روز حضرت جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ مکرمہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ ایک عورت کو بچوں کے ساتھ روتے دیکھا جس کے آگے مردہ گائے پڑی ہوئی تھی، حضرت امام نے رونے کا سبب دریافت فرمایا تو اس عورت نے کہا کہ ہمارے پاس صرف ایک یہی گائے تھی جس کے دودھ سے ہمارا گزارا ہو رہا تھا۔ اب یہ مر گئی ہے تو ہم پریشان حال ہیں کہ اب کیا کریں گے گزارا کیسے ہوگا، آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا تو یہ چاہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے زندہ کردے؟ اُس نے کہا کہ ہم پر تو مصیبت طاری ہے اور آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ میں مذاق نہیں کرتا پھر آپ نے دعا فرماکر گائے کو ایک ٹھوکر ماری اور وہ زندہ ہوکر کھڑی ہوگئی اور آپ فوراً عام لوگوں میں جاملے تاکہ کوئی شناخت نہ کرسکے۔ اس عورت کو معلوم نہ ہوسکا کہ آپ کون ہیں۔
3۔ عباسی خلیفہ منصور نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لایا جائے تاکہ انہیں قتل کردیا جائے۔ وزیر نے کہا کہ جس شخص کے شب و روز زہد و عبادت، گوشہ نشینی، ملکی حالات سے قطع تعلقی و عدم دلچسپی میں گزر رہے ہیں ایسے شخص کو قتل کرنے کا مقصد اور فائدہ کیا ہے۔ خلیفہ نے اظہارِ خفگی کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ضرور لاؤ تاکہ میں قتل کردوں، وزیر با تدبیر نے ہر چند خلیفہ کو سمجھانے کی کوشش کی مگر بے سود، ناچار وزیر بدل فگار حضرت امام کی تلاش میں نکلا تو خلیفہ نے غلاموں کو حکم دیا کہ جونہی حضرت امام نمودار ہوں اور سر سے ٹوپی اتاروں تم ان کو فوراً تہ تیغ کردینا جب حضرت امام باوقار تشریف لائے تو خلیفہ اُن کو دیکھتے ہی بہرِ استقبال بڑھا اور آپ کو بکمالِ ادب و احترام اپنی مسند پر بٹھاکر خود بصد عجز و انکسار سامنے ہو بیٹھا۔ غلام یہ منظر دیکھ کر حیران و پریشان ہوئے، منصور نے دست بستہ عرض کیا کہ اگر حضور والا کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو حکم فرمائیں، حضرت امام نے ارشاد کیا کہ مجھے صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ پھر کبھی مجھے اپنے پاس نہ بلانا۔ یہ ارشاد فرماکر آپ تشریف لے گئے اور خلیفہ منصور فی الفور بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ تین روز تک مسلسل بے ہوشی طاری رہی۔ بقول بعضے کہ اُس کی تین نمازیں فوت ہوگئیں،
جب ہوش میں آیا تو وزیر نے پوچھا معاملہ کیا تھا؟ خلیفہ نے کہا کہ جب حضرت امام یہاں جلوہ افروز ہوئے تو ایک اژدھا آپ کے ہمراہ تھا جس کا ایک ہونٹ اس مکان کے نیچے اور دوسرا اوپر ہے اور زبان حال سے مجھے کہہ رہا ہے کہ اگر تو نے حضرت امام کو ذرہ بھر بھی تکلیف پہنچائی تو میں تمہیں اس مکان سمیت نگل جاؤں گا، بدیں وجہ مجھ پر بے پنا خوف و ہراس طاری ہوگیا اور میں حضرت امام سے کچھ نہ کہا بلکہ عذر کیا اور پھر بے ہوش ہوگیا۔
آپ کی وفات حسرت آیات 15؍رجب 149ھ/ 766ء کو بعمر شریف اڑسٹھ سال چند ماہ مدینہ منورہ میں ہوئی اور جنت البقیع میں قبۂ اہلبیت میں آخری آرامگاہ بنی۔
کلماتِ قدسیہ:
1۔ ہر شریف آدمی کو چار چیزوں سے بالکل عار نہ چاہیے۔ اپنے والد کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونا۔ اپنے مہمان کی خدمت کرنا ، اپنے چوپایہ کی دیکھ بھال کرنا خواہ اس کے سو غلام (نوکر) ہی کیوں نہ ہوں۔ اپنے استاد کی خدمت کرنا۔
2۔ نیکی تین خوبیوں کے بغیر کامل و اکمل نہیں ہوتی، اُسے جلدی کرنا، اُسے چھوٹا سمجھنا، اُسے چھپانا۔
3۔ دنیا جب کسی انسان کے پاس آتی ہے تو اُسے غیروں کی خوبیاں دیتی ہے اور جب اُس سے منہ پھیر لیتی ہے تو اس کی ذاتی خوبیاں بھی اُس سے چھین لیتی ہے۔
4۔ جب تجھے اپنے بھائی سے ایسی چیز پہنچے جو تو ناپسند کرتا ہے تو اس کے لیے ایک عذر سے ستر عذر تلاش کر، اگر تجھے اس کے لیے کوئی عذر نہ ملے تو یوں کہہ کر شاید اُس کے لیے کوئی عذر ہوگا جو مجھے معلوم نہیں۔
5۔ جب تم کسی مسلمان سے کوئی کلمہ سنو تو اُسے اچھے سے اچھے معنی پر محمول کرو۔ اگر اس میں تمہیں کوئی نیک امر معلوم نہ ہو تو اپنے آپ کو ملامت کرو۔
6۔ تم ایسے ہاتھ کا کھانا نہ کھاؤ جو پہلے بھوکا تھا اب سیر ہوگیا ہو۔
7۔ آپ نے کسی قبیلے کے ایک شخص سے پوچھا کہ اس قبیلے کا سردار کون ہے؟ اُس شخص نے جواب دیا کہ میں، آپ نے فرمایا کہ اگر تو اُن کا سردار ہوتا تو جواب میں میں نہ کہتا۔
8۔ جب تو گناہ کرے تو معافی مانگ کیونکہ گناہ مردوں کے گلوں میں اُن کی پیدائش سے پہلے ڈالے گئے ہیں اور اُن پر اصرار کرنا کمال درجہ کی ہلاکت ہے۔
9۔ جو شخص اپنے رزق میں تاخیر پائے اُسے طلبِ مغفرت زیادہ کرنی چاہیے۔
10۔ جو شخص اپنے مالوں میں سے کسی مال پر ناز کرے اور اُس مال کا بقا چاہے تو اُسے یوں کہنا چاہیے۔ ماشَاء اللہ لا قوۃالاباللہ
11۔ اللہ تعالیٰ نے د نیا کی طرف یہ حکم بھیجا کہ جو شخص میری خدمت کرے تو اُس کی خدمت کر اور جو تیرا خادم بنے تو اُسے تکلیف دے۔
12۔ علمائے شریعت پیغمبروں کے امین ہیں جب تک کہ بادشاہوں کے دروازوں پر نہ جائیں۔
13۔ یا اللہ! تو مجھے اُس شخص کے لیے ہمدردی و غمخواری کی توفیق عطا فرما جس پر تو نے رزق تنگ کردیا ہے اور جس حالت میں مَیں ہو یہ تیرا فضل و کرم ہے۔
14۔ آپ کو جب کسی چیز کی حاجت ہوتی تو یوں دعا کرتے، اے میرے پروردگار! مجھے فلاں چیز کی حاجت ہے، آپ کی دعا ابھی ختم نہیں ہوتی تھی کہ وہ چیز آپ کے سامنے موجود ہوتی۔
15۔ جس نے اللہ کو پہچانا اُس نے دنیا سے منہ پھیرلیا۔
16۔ تعجب ہے اس شخص پر جو چار چیزوں میں مبتلا ہواور اُن سے غافل رہتا ہے۔ تعجب ہے اس پر جو غم میں مبتلا ہو وہ یہ کیوں نہیں کہتا لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد فرماتا ہے: فَاسْتَجَبْنَالَہٗ وَنَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ ط وَکَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَ اور تعجب ہے اس پر جو کسی آفت سے ڈرتا ہو وہ یہ کیوں نہیں کہتا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَانْقَلبُوْا بِنِعْمَۃٍمِّنَاللہِوَفَضْلٍ لَّمْیَمْسَسْھُمْسُوْٓءٌ اور تعجب ہے اس پر جو لوگوں کے مکر سے ڈرتا ہو وہ یہ کیوں نہیں کہتا وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللہِ اِنَّ اللہَ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَوَقٰہُ اللہُ سَیِّاٰتِ مَامَکَرُوْا اور تعجب ہے اُس پر جو جنت کی رغبت اور خواہش رکھتا ہے وہ یہ کیوں نہیں کہتا مَاشَاء اللہُ لَا قُوَّۃَاِلَّابِاللہِ کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَعَسٰی رَبِّی اَنْ یُّوْتِیَنِ خَیْرًا مِّنْ جَنَّتِکَ۔
17۔ مومن کی تعریف یہ ہے کہ نفس کی سرکشی کا مقابلہ کرتا رہے اور عارف کی تعریف یہ ہے کہ اپنے مولیٰ کی اطاعت میں ہمہ تن مصروف رہے۔
18۔ صاحبِ کرامت وہ ہے جو اپنی ذات کے لیے نفس کی سرکشی سے آمادہ بجنگ رہے کیونکہ نفس سے جنگ کرنا اللہ تعالیٰ تک رسائی کا سبب ہوتا ہے۔
19۔ نیک بختی کی علامت یہ بھی ہے کہ عقلمند دشمن سے واسطہ پڑجائے۔
20۔ پانچ قسم کے لوگوں کی صحبت سے اجتناب کرنے میں بہتری ہے۔ اوّل، جھوٹے سے، کیونکہ اُس کی صحبت فریب میں مبتلا کردیتی ہے۔ دوم، بیوقوف سے، کیونکہ تمہارے فائدے سے زیادہ تمہیں نقصان پہنچائے گا۔ سوم، کنجوس سے، کیونکہ وہ تمہارا بہترین وقت ضائع کرے گا۔ چہارم بزدل سے، کیونکہ وقت پڑنے پر ساتھ چھوڑ دے گا۔ پنجم، فاسق سے، کیونکہ وہ ایک نوالہ کی طمع میں کنارہ کش ہوکر مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے۔
21۔ جو شخص عبادت پر فخر کرے گناہ گار ہے، جو معصیت پر اظہارِ ندامت کرے وہ فرمانبردار ہے۔
(تاریخِ مشائخ نقشبند)