امام المسلمین حضرت سیدنا امام جعفر صادق
حضرت سیدنا امام جعفر صادق
(از:اقتباس الانوار(
حضرت سیدنا امام جعفر صادق بن امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آں سوختہ نار محبت و جلال، مستغرق در م شاہدہ انورجمال، در تربیت مریدین ازہمہ فائق امام ابو عبداللہ جعفر ابن محمد صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ائمہ اہل بیت کے چھٹے امام ہیں کہ جن کے نور حقیقت و تصرف سے سارا جہان روشن ہوا۔ آپ کا اسم مبارک امام جعفر کنیت ابو عبداللہ وابو اسمٰعیل، اور القاب صادق، صابر فاضل طاہر ہیں ۔آپ کی والدہ ماجدہ ام فروہ بنت قاسم بن ابو بکر صدیق تھیں۔
ولادت با سعادت :
آپ کی ولادت با سعادت بروز شنبہ یا یکشنبہ بتاریخ سترہ ماہ ربیع الاول سال 83ھ مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ اپنے جد امجد حضرت امام زین العابدین کی وفات کے وقت پندرہ سال کے تھے۔ دوسری روایت کے مطابق اس وقت آپ کی عمر بارہ سال تھی۔ اپنے والد ماجد کے وصال کے وقت آپ کی عمر چونتیس سال تھی۔ دوسری روایت کے مطابق اکتیس سال تھی۔ اپنے والد ماجد کے وصال کے بعد آپ مسند نشین ہوئے تو آپ کے نور ہدایت سے ایک جہان منورہوا اور آپ کے کرامات و کمالات کا چر چا مشرق سے مغرب تک پھیل گیا۔ جس قدر کرامات اور تصرفات آپ کے والد ماجد کے زمانےمیں پوشیدہ تھے سب ظاہر ہوگئے۔ مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ عجیب و غریب علوم جو وراثتاً آپ کو آنحضرتﷺ سےسینہ بسینہ پہنچے تھے آپ نے وہ تمام ظاہر کردیئے آپ فرمایا کرتےتھے کہ:۔
علمنا غابرد، مذبو نکت فی القلوب، نقرفی الاسماع وان عندنا الجفر، الاحمر والجفر الابیض و مصحف فاطمہ رخی اللہ عنہا وان عندنا الجامعۃفیہاجمیعمایحتاجالناسالیہ۔
(ہمارے علوم یہ ہیں۔ علم غابر، علم مذبور، علم نکت فی القلوب، علم نقرفی الاسماع علم جفر سرخ، علم جفر سفید، مصحف فاطمہ، الجامعہ جس میں تمام خلقت کی جوانچ ہیں)
مراۃ الاسرار میں ان علوم کی وضاحت کتاب حبیب السیر کے حوالہ سے یوں آئی ہے علم غابر وہ ہے جو آئندہ ہونے والے واقعات کی خبر دیتا ہے۔
علم مذبور گذشتہ واقعات کی خبر دیتا ہے علم نکت فی القلوب الہام ہے اور نقرفی الاسماع سے مراد کلام ملائک ہے جس کو آپ سنتے تھےلیکن دیکھتے نہیں تھے اور جفر احمروہ مقام ہے کہ جہاں رسول خداﷺ کے اسلحہ جات پوشیدہ ہیں اور وہاں سے باہر نہیں آئیں گےتاوقتیکہ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہوگا۔ علم جفرا بیض بھی ایک مقام ہے جہاں تو رات موسیٰ انجیل عیسیٰ زبور داؤد اور دیگر آسمانی کتابیں پوشیدہ ہیں۔
مصحف فاطمہ وہ کتاب ہے کہ جس میں ہر چیز کا قوت سےفعل میں ظہور ہوگا مثل تمام ملکوں کے واقعات اور نام اور حاکموں کے نام سے جب تک وجود میں آئیں گے۔ جامعہ وہ کتاب ہے کہ جس کا طو ل ستر گز ہے اور جسے آنحضرتﷺ نے املا فرمایا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے ہاتھ سے لکھا۔ اور جو کچھ حوائج خلق سے ہے سب اس میں درج ہے۔ یہ تمام علوم ائمہ اہل بیت سے مخصوص ہیں دوسرے کسی کو یہ علم نہیں ہے۔
نسبت طریقت :
امام جعفر صادق کو طریقت میں دو طرف سے فیض حاصل ہوا ہے۔ ایک اپنے والد بزرگوار حضرت امام محمد باقر سے دوسرے امام قاسم بن محمد بن ابو بکر صدیق سے جو آپ کے نانا تھے۔ امام قاسم کو حضرت سلمان فارسی سے فیض ملا ہے اور ان کو آنحضرتﷺ کے فیض صحبت کے علاوہ حضرت ابو بکر صدیق سے حاصل ہوا۔
کرامات وکمالات :
کتاب شواہد النبوت میں لکھا ہے کہ ابن جوزی اپنی کتاب میں لیث بن سعد سے روایت کرتے ہیں کہ موسم حج میں ایک دفعہ میں مکہ معظمہ میں حاضر تھا۔ عصر کی نماز پڑھ کر میں کوہ ابو قبیس پر چڑھ گیا وہاں میں نے ایک بزرگ کو دیکھا جو قبلہ رو ہوکر بیٹھے تھے اور یہ پڑھ رہے تھے یاربّ، یا اللہ یا حیی یا رحیم یا ارحم الراحمین ۔ سات مرتبہ یہ کلمات پڑھ کر انہوں نے حق تعالیٰ سے دعا کی اور کھانے کو کوئی چیز اور پہننے کو کپڑا طلب کیا۔ اسی وقت غیب سے ایک خوانچہ تازہ انگور کا اور دو چادریں ظاہر ہوئے۔ حالانکہ وہ انگور کا موسم نہیں تھا۔ میں نے ان کے پاس جاکر عرض کیا کہ مجھے بھی اس میں شریک فرمادیں۔ آپ نے فرمایا آؤ کھاؤ لیکن ذخیرہ نہ کرنا۔ میںنے ان کے قریب جاکر انگور کھائے حتی کہ سیر ہوگیا۔ لیکن انگور بالکل کمنہ ہوئے اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ ان چاروں میں سے جسے پسند کرو لے جاؤ۔ میں نے عرضکیا کہ اس کی مجھے ضرورت نہیں ہے چنانچہ انہوں نے ایک چادر کاتہ بند بنالیا اور دوسری چادر اوپر اوڑھ لی۔ اور پرانی دو چادروں کو لے کر چلے آئے۔ میں آپ کے پیچھے ہولیا۔ راستے میں ایک آدمی ملا۔ آپ نے پرانی چادریں اس آدمی کے حوالہ کیں اور چلے گئے میں نے اس آدمی سے دریافت کیا کہ یہ بزرگ کون ہیں اس نےجواب دیا کہ یہ امام جعفر صادق ابن امام محمد باقر ہیں۔ اس کے بعد میں نے جس قدر ان کو تلاش کیا نہ پایا۔
اژدہا کا محافظ ہونا :
شواہد النبوت میں لکھا ہے کہ منصور کے مقربین میں سے ایک شخص کا بیان ہے ایک دن میں نے دیکھا کہ منصور (خلیفہ المنصور عباسی) متفکر بیٹھا ہے۔ میں نے تفکر کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا کہ میں نے بیشمار علویوں کو تہ تیغ کیا ہے لیکن ان کے پیشوا کو چھوڑ رکھا ہے۔ میں نے کہا کونسا پیشوا میں نے کہا جعفر بن محمد میں نے کہا وہ ایسا مرد ہے جو ہر وقت عبادت الٰہی میں مشغول رہتا ہے اور ہر گز دنیا کی طرف نظر نہیں کرتا۔ منصور نے کہا مجھے معلوم ہے تم اس کے معتقد ہو۔ لیکن صرف فرشتہ ہی بے ضرر ہوسکتا ہے۔ پس میں نے قسم کھاکر کہا کہ جب تک اسےتہ تیغ نہیں کروں گا آرام نہیں کروں گا۔ چنانچہ اس نے جلّاد کو بلاکر کہا کہ جعفر بن محمد آئے گا۔ جب میں اپنا ہاتھ سر پر رکھوں اسے قتل کردینا۔ اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ امام جعفر صادق کو حاضر کیا جائے۔ جب وہ آئے تو میں بھی دربار میں چلا گیا میں نے دیکھا کہ امام موصوف زیر لب کچھ پڑھ رہے تھے۔ لیکن خلیفہ منصور پر امام صاحب کو دیکھتے ہی لرزہ طارہ ہوگیا، اٹھ کر ان کا استقبال کیا اور ساتھ لاکر اپنے پاس سجادہ پر بٹھایا۔ اس کے بعد دریافت کیا کہ اے ابن رسول !آپ کے آنے کا سبب کیا ہے ؟آپ نے فرمایا کہ تم نے مجھے بلایا ہے منصور نے کہا اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو فرمایئے۔ آپ نے فرمایا میں یہ چاہتا ہوں کہمجھے نہ بلایا کرو اور جب میں چاہوں اپنے اختیار سے آؤں جب امام موصوف چلے گئے تو منصور نے اپنا خواب گاہ کا لباس طلب کیا اور سوگیا حتی کہ آدھی رات تک سویارہا اور کئی نمازیں بھی اس سے فوت ہوگئیں۔ بیدار ہوکر اس نے تمام نمازیں قضا پڑھیں اس کے بعد مجھے بلاکر کہا کہ جب جعفر بن محمد آئے تو انکے ساتھ ایک اژدہا تھا کہ جس کا ایک لب زمین پر اور دوسرا محل کی چھت تک تھا اور فصیح زبان میں مجھ سے کہہ رہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہےکہ اگر تم نے صادق کو نقصان پہنچایا تو میں تجھے محل سمیت نکل جاؤں گا۔ یہ دیکھ کرمیرا حال متغیر ہوگیا جیسا کہ تجھے معلوم ہے۔ میں نے کہا کیا یہ جادو نہیں ہے اس نے کہا جادو نہیں بلکہ یہ اسم اعظم کا اثر ہے جو رسول خداﷺ کو ملا ہے اس کی بدولت جو کچھ وہ چاہتےتھےہوجاتا تھا۔
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ علی بن حمزہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن میں امام جعفر صادق کے ساتھ ایک کھجور کے درخت کے قریب کھڑا تھا۔ آپ نے درخت کی طرف دیکھ کر زیر لب کچھ پڑھا تو فوراً درخت بارود ہوگیا اور ہم نے ایسا پھل کھایا کہ پہلے کبھی نہ کھایا تھا کہ وہاں ایک اعرابی (دیہاتی) بھی موجود تھا اس نے یہ کرامت دیکھ کر کہا کہ اس قسم کا جادو میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ امام صاحب نے فرمایا کہ ہم پیغمبر علیہ السلام کے وارث ہیں۔ ہمارے پاس جادو نہیں ہے ہم صرف دعا کرتے ہیں اور حق تعالیٰ قبول فرماتے ہیں۔ اگر تم چاہو تو دعا کروں کہ خدا تعالیٰ تجھے مسخ کر کے کتا بنادے۔ اس جاہل نے کہا اچھا دعا کرو۔ پس وہ فوراً کتا بن گیا اور گھر چلا گیا اہل خانہ نے اسے دیکھ کر ڈنڈے اٹھالیے اور گھر سے باہر نکال دیا۔ اس کے بعد وہ امام صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور زمین پر لیٹ رہا تھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہےتھے۔ یہ دیکھ کر امام صاحب کو اس کے حال پر رحم آیا اور دعا دی جس کی بدولت وہ اپنی اصلی صورت پر آگیا۔
شواہد النبوت میں لکھا ہےکہ خلیفہ منصور نے اپنے دربان کو حکم دیا کہ جب جعفر بن محمد میرے پاس آئے تو میرے پاس پہنچنے سے پہلے اسے قتل کردینا۔ ایک دن امام موصوف بادشاہ کے پاس جاکر بیٹھ گئے۔ بادشاہ نے دربان کو طلب کیا۔ دربان نے آکر دیکھا کہ امام صاحب بادشاہ کے پاس تشریف رکھتے ہیں۔ جب امام صاحب چلے گئے تو اس نے دربان سے کہا کہ میں نے تم کو کیا حکم دیا تھا۔ دربان نے قسم کھاکر کہا کہ میں نے ان کو صرف آپ کے سامنے بیٹھا دیکھا نہ مجھےوہ آتے وقت نظر آئے نہ جاتے وقت۔
کاشف اسرار شیخ فرید الدین عطّار قدس سرہٗ تذکرۃ الاولیاء میں لکھتےہیں کہ ایک دن ایک شخص نے امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے حق تعالیٰ کی زیارت کراؤ۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے کمالات نبوت کے باوجود لن ترانی کا جواب سنا۔ تم کس طرح دیکھ سکتے ہو اس نے جواب دیا کہ یہ خطاب خاص موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھا میرے لیے حجت نہیں ہے۔۔ اس وجہ سے کہ میں محمد مصطفیٰﷺ کی امت میں سے ہوں اور جنہوں نے حق تعالیٰ کی زیارت کی تھی آپ نے فرمایا اچھا دریائے دجلہ کے اندر چلےجاؤ یہ سنتے ہی وہ فوراً دریا میں کود پڑا جب غوطے کھانے لگا تو صادق صادق کہہ کر پکارنے لگا۔ لیکن کچھ نہ بنا۔ جب پانی سر تک پہنچا تو گھبرا کر کہنے لگا یا اللہ! یہ کہنا تھا کہ اس کے دل کا دروازہ کھل گیا۔ نیز غرق ہونے سے بھی بچ گیا۔ امام صاحب نے فرمایا جب تک تم صادق صادق کہہ رہے تھے تو کاذب تھے جب تم نے حق تعالیٰ کا نام لیا اور اس کی پناہ مانگی تو صادق ہوئے۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دفعہ امام جعفر صادق اکیلے صحرا میں جارہے تھے اور اللہ، اللہ کہہ رہے تھے۔ ایک سوختہ جان بھی آپ کے پیچھے چلتا ہوا اللہ اللہ کرنےلگا۔ جب امام صاحب نے کہا یا اللہ میرے پاس جبہ نہیں کپڑا نہیں تو فوراً غیب سے ایک ہاتھ نمودار ہوا جس میں خوب صورت کپڑا تھا۔ امام صاحب نے کپڑا پہن لیا۔ یہ دیکھ کر وہ سوختہ جان امام صاحب کے سامنے آیا اور کہنے لگا اللہ اللہ کہنے میں میں بھی آپ کے ساتھ شریک تھا پر انا کپڑا مجھے عنایت فرمائیں امام صاحب کو یہ بات پسند آئی اور پرانا کپڑا اس کو دے دیا۔
معجزۂ ابراہیمی :
شواہد النبوت میں لکھا ہے کہ ایک شخص کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں ایک جماعت کے ساتھ امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ایک آدمی نے عرض کیا کہ جب حق تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیاکہ خذاربعۃمن الطیر فصر ھنالیک( چار پرندے لے کراپنے پاس بلاؤ) کیا وہ پرندے ایک جنس تھے یا مختلف اجناس سے تعلق رکھتے تھے امام صاحب نے فرمایا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ وہی چیز تم کو دکھاؤں۔ اس نے کہا جی ہاں آپ نےفرمایا اے مور حاضر ہوجاؤ فوراً مورآگیا اس کے بعد فرمایا اے کوے حاضر ہوجاؤ فوراً ایک کوا پہنچ گیا۔آپ نے فرمایا اے باز حاضر ہوجاؤ۔ فوراً ایک باز آ پہنچا۔ آپ نے فرمایا اے کبوتر حاضر ہوجاؤ فوراً کبوتر حاضر ہوگیا۔ آپ نے حکم دیا کہ ان سب کو ذبح کر کے ٹکڑے کرو اور آپس میں ملادو۔ انہوں نے حکم کی تعمیل کی اور ان پرندوں کے سروں کو اپنے پاس محفو ظ کرلیا اس کے بعد آپ نے فرمایا اے طاؤس۔ یہ کہنا تھا کہ مور کا گوشت پوشت اور ہڈی جدا ہوکر اس کے سر کے ساتھ لگ گئی اس کاجسم صحیح ہوگیا اور زندہ ہوکر بیٹھ گیا۔ اس کے بعد آپ نے یکے بعد دیگرے تمام پرندوں کو طلب فرمایا ور وہ سب زندہ ہوگئے۔
حضرت امام جعفر صادق کے کمالات اس قدر ہیں کہ دائرہ تحریر سے باہر ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا کمال ہوسکتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کوفی آپ کے پاس دو سال رہ کر درجہ تکمیل تک پہنچ گئے اور نعرہ لگایا کہ لولا السنتان لھلک النعمان (اگر مجھے امام موصوف کی صحبت کے دو سال نہ ملتے تو میں ہلاک ہوجاتا) تمام صوفیاء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ وہ علم جو امام ابو حنیفہ آپ کی خدمت میں مقیم تھے ایک دن امام موصوف نے ان سے پوچھا کہ عاقل کون ہے امام ابو حنیفہ نے جواب دیا کہ عاقل وہ ہے جو خیرو شر میں تمیز کر سکے۔ آپ نے فرمایا یہ کام تو جانور بھی کر سکتے ہیں کیونکہ وہ مارنے والے اور چارہ کھلانے والے کے درمیان تمیز کر سکتے ہیں۔
امام ابو حنیفہ نے عرض کیا کہ آپ فرمائیں آپ نے فرمایا کہ عاقل وہ ہے جو دو خیر میں یہ تمیز کر سکے کہ ان میں سے بہتر خیر کیا ہے او ردو شر میں یہ تمیز کر سکے کہ بد تر شر کیا ہے امام صاحب نے عرض کیا کہ اَنْتَ الاستاد باللہ۔
سلطان العارفین حضرت ابو یزید بسطامی بھی حضرت امام جعفر صاد ق کے فیض یافتہ[1] ہیں تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ وہ بارہ سال امام موصوف کی خدمت میں رہے۔ ایک دن امام جعفر صادق نے فرمایا کہ طاق سے فلاں کتاب اٹھاکر لاؤ۔ انہوں نے جواب دیا کہ کونسا آپ نے فرمایا اتنی مدت یہاں رہے ہو طاقکی خبر نہیں ہے انہوں نے جواب دیا کہ میری کیا مجال کہ آپ کے سامنے سر اٹھاکر طاق کی طرف دیکھوں۔ میں یہاں نظارہ کے لیے نہیں آیا۔ آپ نے فرمایا اگر یہی حال ہے تو بسطام جاؤ تمہارا کام مکمل ہوگیا۔ چنانچہ خرقہ خلافت حاصل کر کے چلے گئے اور مسند خلافت پر بیٹھ کر ایک جہان کو فیض یاب فرمایا۔ لیکن میر سید شریف جرجانی اور دوسرے سوانح نگار کے نزدیک حضرت ابو یزید بسطامی امام جعفر صادق کی ظاہری صحبت نصیب نہیں ہوتی تھی بلکہ باطنی طریق پر فیض حاصل کیا تھا۔ یہ دونوں قول مقبول ہیں۔ لطائف اشرفی میں لکھا ہے کہ حضرت ابو یزید بسطامی نے حضرت خواجہ حبیب عجمی قدس سرہٗ سےبھی خرقہ خلافت حاصل کیا تھا۔
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ امام جعفر صادق کا وصال بروز شنبہ بتاریخ پندرہ رجب 148ھ خلیفہ ابو جعفر المنصور کے عہد سلطنت میں ہوا۔ بعض مورخین کا خیال یہ ہے کہ خلیفہ منصور نے آپ کو زہر دیا تھا۔ آپ کی عمر اڑسٹھ سال اور دوسری روایت کے مطابق پینسٹھ سال تھی آپ کی مدت امامت چونتیس سال تھی۔
اولاد :
آپ کے چھ بیٹے اور ایک بیٹی تھیں۔ لیکن زیادہ صحیح روایت یہ ہےکہ آپ کے سات بیتے اور چار بیٹیاں تھیں آپ کے سب سے بڑے بیٹے کا اسم گرامی اسماعیل تھا جنہیں آپ بہت عزیز رکھتے تھے لوگوں کا خیال تھا کہ امامت حضرت اسماعیل کو مل جائے گی۔ لیکن ان کا امام صاحب کی زندگی میں وصال ہوگیا ۔ اس وجہ سے امامت حضرت موسیٰ کاظم کو ملی۔ اللہم صلی علی محمد وآلہٖ واصحابہٖ اجمعین۔
ازرہگذرِ خاکِ سرِکوئے شمابود ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد
[1] ۔یعنی ان کو روحانیت سے بطریق اویسیہ اخذ فیض کیا۔