امام المسلمین حضرت سیدنا امام جعفر صادق
حضرت جعفر بن محمد بن علی بن حسین
آپ کی کنیت ابوعبداللہ، ابواسماعیل تھی۔ لقب صادق۔ آپ کی والدہ ام فروہ حضرت عبدالرحمٰن بن صدیق اکبر کی پوتی تھیں۔ آپ مدینہ منورہ میں ۱۳ ربیع الاول ۸۰ھ بروز پیر پیدا ہوئے۔ آپ ائمہ اثنا عشر کے امام ششم تھے۔ آپ عظمائے اہلبیت اور علمائے سادات میں ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔
خلیفہ منصور عباسی کسی معاندِ اہلبیت کے کہنے پر حضرت جعفر سے کبیدہ خاطر ہوگیا۔ اپنے مصاحب ربیع کو بلا کر حکم دیا کہ حضرت کو پیش کریں۔ جب آپ منصور کے سامنے آئے تو کہنے لگا: مجھے اللہ تعالیٰ قتل کردے اگر میں آپ کو قتل کروں لیکن میں سن رہا ہوں کہ آپ مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں اور فتنہ گری میں مصروف ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں نے تو کچھ نہیں کیا۔ نہ ہی کوئی فتنہ برپا کیا ہے۔ آپ کے پاس اگر کسی نے ایسی خبر پہنچائی ہے تو وہ دروغ گو اور جھوٹا ہے۔ اگر خدانخواستہ جو کچھ آپ نے فرمایا ہے مجھ سے سرزد ہوا ہے تو جس طرح یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ظلم کیے تھے تو حضرت یوسف نے انہیں معاف کردیا تھا آپ بھی درگزر کریں۔ خلیفہ منصور نے خوش ہوکر آپ کو اوپر بلالیا اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھالیا اور کہا: فلاں ابن فلاں نے یہ باتیں میرے کانوں تک پہنچائی ہیں۔ آپ نے فرمایا: اسے طلب کیا جائے۔ جب وہ آیا تو آپ نے پوچھا: کیا تم نے یہ باتیں حضرت صادق کی زبان سے خود سنی تھیں۔ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: تم قسم کھا کر کہتے ہو۔ اس نے قسم کھانا چاہی۔ ابھی یہ الفاظ کہے تھے: باللہ الذی لا الٰہ الا ھو عالم الغیب والشھادۃ ھو الرحمٰن الرحیم۔ حضرت جعفر نے فرمایا: ایسی قسم مجھے قبول نہیں۔ جس طرح میں قسم کھانے کو کہتا ہوں، کہیں اور یہ بھی کہو کہ من حول اللہ وقوتہ والنجات الیٰ حول وقوتی لقد فعل کذا وکذا جعفر وقال کذا کذا جعفر۔ اس شخص نے ایسی قسم کھانے سے پہلے تو تامل کیا لیکن پھر کھاگیا۔ اسی وقت وہ زمین پر گرا اور مجلس میں ہی مرگیا۔ منصور نے کہا: اسے پاؤں سے کھینچ کر مجلس سے باہر پھینک دیا جائے۔
ربیع کہتے ہیں کہ اس دن حضرت جعفر صادق زیرِ لب کچھ پڑھ رہے تھے۔ منصور کا غصّہ دور نہیں ہوتا تھا۔ حتی کہ آپ نے اسے اپنے پاس بٹھالیا۔ ربیع کہتے ہیں: میں نے حضرت جعفر صادق سے دریافت کیا: کیا بات ہے وہ جھوٹا مفتری دوبار بعض کلمات کے ساتھ قسم کھا گیا مگر اسے کچھ نقصان نہ ہوا۔ لیکن جب آخری بار قسم کھائی تو اسے سزا مل گئی۔ آپ نے فرمایا: پہلے اس نے خدا کو معبودیت اور رحمانیت کے ساتھ یاد کرکے قسم کھائی تھی اور اس کے عذاب میں تاخیر ہوگئی۔ غلبۂ صفت رحمانیت غالب تھا۔ دوسری بار جب میں نے اُسے قسم کھانے کو کہا اس میں لفظ رحمان و رحیم نہیں تھے اس لیے وہ فوری طور پر عذاب میں گرفتار ہوگیا۔
ایک دن خلیفہ منصور نے حضرت جعفر صادق کو دربار میں طلب کیا اور اپنے حاجب کو حکم دیا کہ جونہی حضرت امام دربار میں داخل ہوں، انھیں قتل کردیا جائے۔ جب آپ دربار میں آئے اور منصور کے پاس بیٹھ گئے تو اسے سخت تعجب ہوا کہ حاجب نے انہیں قتل کیوں نہیں کیا۔ جب آپ واپس گئے تو منصور نے حاجب سے پوچھا کہ تم نے اپنا کام کیوں نہیں کیا۔ اس نے کہا: خدا کی قسم مجھے قطعاً علم نہیں ہے کہ حضرت امام کب دربار میں آئے اور کب واپس گئے۔ اگر میں انہیں دیکھ لیتا تو یقیناً قتل کردیتا۔
خلیفہ منصور کے ایک قریبی شخص نے بتایا کہ میں ایک دن خلیفہ منصور کے پاس آیا تو اسے بڑا مفہوم اور متفکر پایا ۔ وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ میں نے علویوں کے سیکڑوں آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتروادیا ہے مگر ان کے امام جعفر صادق ابھی تک زندہ ہیں۔ میرا دل ان کی طرف سے مطمئن نہیں ہے ۔ میں نے کہا: وہ ایک خدا پرست آدمی ہیں انہیں دنیا اور منصب دنیاوی کی حاجت نہیں ہے ان کے قتل میں کیا فائدہ۔ خلفیہ منصور نے مجھے کہا: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی اس کی امامت پر راضی ہو۔ میں آج قسم کھاتا ہوں کہ جب تک میرا دل ان کی طرف سے مطمئن نہیں ہوگا، کھانا پینا ترک رہے گا۔ پھر اس نے کہا: میں حضرت جعفر کو بلاؤں گا۔ جب آپ تشریف لائیں گے تو میں اپنا ہاتھ ان کے سر پر رکھوں گا تم انہیں فوراً قتل کردینا۔
جب آپ دربار میں تشریف لائے تو میں نے دیکھا کہ آپ کے لب ہل رہے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ کچھ پڑھ رہے ہیں۔ اسی وقت منصور کا محل کانپنے لگا اور ایک ہیبت ناک زلزلہ آیا۔ منسور سر و پا برہنہ آپ کے استقبال کو دوڑا اور آپ کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھالیا اور خود ہاتھ باندھ کر نیچے بیٹھ گیا اور کہنے لگا: یا حضرت! اگر کوئی چیز درکار ہو تو مجھے حکم فرمائیں تاکہ بجالاؤں۔ آپ نے فرمایا: بس ایک ہی حاجت ہے کہ مجھے دوبارہ دربار میں نہ بلایا جائے اگر میں خود بخود آؤں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ پھر آپ اٹھے اور باہر چلے گئے۔ آپ کے چلے جانے کے بعد منصور بے ہوش ہوگیا۔ آدھی رات تک بیہوش رہا۔ چند نمازیں بھی قضا ہوگئیں۔ آدھی رات کے بعد جب ہوش آیا تو اس نے نمازیں ادا کیں۔ جب وہ فارغ ہوا تو میں نے اس کی پریشانی ، بیہوشی اور اضطراب کی وجہ پوچھی۔ اس نے بتایا: جب حضرت امام دربار میں تشریف لائے تو میں نے ایک اژدہا دیکھا جس کی زبان کا ایک سر تو محل کے فرش پر تھا اور دوسرا محل کی چھت پر۔ اور فصیح زبان سے کہہ رہا تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ اگر حضرت امام کو ذرّہ بھر بھی تکلیف پہنچی تو تمھیں اور تمہارے محل کو تباہ کردیا جائے گا۔ یہ واقعہ تھا جس نے مجھے پریشان کردیا۔
داؤد بن علی بن عبداللہ بن عباس نے حضرت امام جعفر کے ایک غلام کو قتل کرکے اس کے مال و اسباب پر قبضہ کرلیا۔ حضرت امام داؤد کے پاس آئے اور فرمایا: تم نے میرے غلام کو قتل کردیا ہے۔ اس کے مال و اسباب پر قبضہ کرلیا ہے۔ میں تمہارے حق میں بد دعا مانگوں گا۔ اس نے ازرہِ مذاق کہا: مجھے اپنی بد دعا کی دھمکی سے ڈرا رہے ہو۔ حضرت امام گھر چلے آئے۔ اسی رات داؤد اپنے غلاموں کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔
ابونصیر فرماتے ہیں کہ میں مدینہ میں آیا۔ میری ایک کنیزتھی جس کے ساتھ میں نے جماع کیا تو مجھے صبح غسل کی حاجت ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ میرے دوستوں کی ایک جماعت حضرت جعفر صادق کی زیارت کو جا رہی ہے میں بھی ان کے ساتھ ہولیا اور مجھے یاد ہی نہ رہا کہ میں کس حالت میں ہوں۔ جب میں وہاں پہنچا تو حضرت امام مجھے مخاطب کرکے فرمانے لگے: نصیر! رسولِ خدا کے اہلبیت کے گھر جنابت کی حالت میں چلے آئے ہو۔ میں نے کہا: حضرت! میں نے احباب کو دیکھا کہ آپ کی خدمت میں آرہے تھے۔ خیال آیا کہ میں زیارت سے محروم نہ رہ جاؤں۔ اس لیے چلا آیا۔ آپ نے فرمایا: اگر تم غسل کرکے آتے تو زیارت و ثواب دونوں چیزیں مل جاتیں۔ میں اٹھا اور غسل کرنے چلا گیا۔
اک دن میں امام جعفر صادق کے ساتھ مکہ میں جا رہا تھا کہ اچانک ہمیں ایک عورت دکھائی دی، جس کے سامنے ایک مردہ گائے پڑی تھی۔ وہ زار زار رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی: میرا اور میرے بچوں کا گزارہ تو صرف اسی گائے کے دودھ پر تھا۔ اب وہ مرگئی ہے میں کیا کروں۔ حضرت امام اس کے حالِ زار پر متوجہ ہوئے۔ آپ نے فرمایا: تم چاہتی ہو کہ تمہاری گائے پھر زندہ ہوجائے۔ بڑھیا نے کہا: نوجوان! تم اس ضعیفہ مصیبت زدہ کے ساتھ کیوں مذاق کر رہے ہو۔ آپ نے فرمایا: واللہ مذاق نہیں کر رہا۔ پھر آپ نے دست دعا بلند کیے۔ گائے نے پہلے تو سر پاؤں ہلائے، پھر اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ بڑھیا خوش ہوگئی اور دو نفل نمازِ شکرانہ ادا کیے اور آسودہ حال ہوگئی۔
ایک اور راوی نے بیان کیا کہ میں امام جعفر کے ساتھ صبح کو جا رہا تھا۔ برسر راہ ایک خشک کھجور کا درخت نظر پڑا جس کے نیچے ہم نے ڈیرہ ڈال دیا۔ جب چاشت کا وقت آیا تو آپ نے فرمایا: اے کھجور۱ ہمارے لیے کھانے کا بندوبست کرو۔ کھجور اسی وقت سرسبز ہوگئی۔ اس کے ساتھ خوشے لگے اور حضرت امام کی طرف جھک گئے۔ حضرت امام نے مجھے آواز دی اور کہا: آؤ بسم اللہ کرو اور کھانا کھاؤ۔ جو ہم نے کھائیں تو بڑی میٹھی اور شیریں کھجوریں تھیں۔ میں نے زندگی بھر ایسی میٹھی کھجوریں نہیں کھائی تھیں۔ ایک اور شخص وہاں کھڑا تھا کہنے لگا: کیا زود اثر جادو ہے۔ آپ نے فرمایا: جادو نہیں، یہ دعا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا۔ اگر تم چاہو تو میں ابھی دعا کروں اور تم کتے کی شکل میں نظر آنے لگو۔ اعرابی اپنی سگ طبعی کے باعث کہنے لگا: اچھا دعا کرلو۔ حضرت نے فی الفور بد دعا کی تو کتے کی شکل میں تبدیل ہوکر اپنے گھر کو جانے لگا۔ حضرت امام نے مجھے حکم دیا کہ اس کتے کے پیچھے پیچھے جاؤ۔ جب وہ اعرابی اپنے گھر جاکر اپنی اہلیہ کے پاس گیا تو دم ہلانی شروع کردی۔ اس نے ایک ڈنڈا اٹھایا اور اسے گھر سے باہر نکال دیا۔ وہاں سے نکل کر پھر حضرت امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے قدموں میں لیٹنے لگا اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ حضرت امام کو اس کی حالتِ زار پر رحم آگیا اور دعا کی تو وہ اپنی اصلی حالت میں آگیا۔
شواہد النبوت میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے جو حضرت امام جعفر صادق کی مجلس میں بیٹھا تھا۔ روایت کی ہے کہ کسی نے آپ کے سامنے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معجزات کا ذکر کیا کہ حضرت خلیل اللہ نے اللہ کے حکم سے چار پرندوں کو پکڑا اور ذبح کرکے ان کے گوشت کا قیمہ بنالیا اور باہم ملا کر انھیں پھر بلایا۔ وہ زندہ ہوکر حاضر ہوگئے۔ حضرت امام نے فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ ایسا واقعہ پھر رونما ہو اور تم اسے آنکھوں سے دیکھ لو۔ لوگوں نے کہا: یا ابن رسول کیا مضائقہ ہے۔ چنانچہ آپ نے آواز دی: اے مور تم آؤ، اے کوّے تم آؤ۔ اے باز تم آؤ، اے کبوتر تم بھی آؤ۔ چاروں پرندے فوراً حاضر ہوگئے۔ چاروں کو ذبح کرکے ریزہ ریزہ کردیا اور باہم ملادیا۔ لیکن ان کے سر علیحدہ محفوظ کرلیے۔ پھر آپ نے مور کا سر اٹھایا اور مور کو بلایا۔ میں نے دیکھا کہ گوشت سے مور کے گوشت کے ریزے بکھرنے لگے اور یکجا اکٹھے ہوکر ایک مور کی شکل میں نظر آنے لگے۔ مور زندہ ہوگیا۔ اسی طرح سارے پرندے ایک ایک کرکے زندہ ہوگئے۔
آپ کا ایک دوست حج بیت اللہ کو روانہ ہوا۔ رخصت ہوتے وقت اس نے دس ہزار درہم آپ کو بطور امانت دیے اور کہا اس رقم سے میرے لیے ایک مکان خرید رکھیں تاکہ واپسی پر اس میں سکونت کرسکوں۔ آپ نے اس کے جانے کے بعد سارا روپیہ اللہ کی راہ میں تقسیم کردیا۔ جب وہ واپس آیا تو آپ نے فرمایا: تمہارے لیے میں نے جنت میں مکان خرید لیا ہے جس کی ایک دیوار سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان سے ملتی ہے اور دوسری حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مکان سے جا ملتی ہے۔ تیسری دیوار حضرت حسن اور چوتھی دیوار حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے گھر سے ملتی ہے۔ میں نے اس مکان کی دستاویز بھی تیار کرلی ہے جو میں تمہارے حوالے کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ ایک کاغذ لائے جو اس کے حوالے کردیا۔ اس شخص نے یہ کاغذ اپنے پاس رکھا اور وفات سے پہلے وصیت کی کہ یہ دستاویز میرے کفن میں رکھی جائے۔ اس کے لواحقین نے ایسا ہی کیا۔ دوسرے دن لوگوں نے وہ کاغذ اس کی قبر پر پڑا پایا۔ اس کی پشت پر لکھا تھا کہ جعفر بن محمد کی تحریر کو منظور کرلیا گیا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق کی وفات مدینہ پاک میں بروز منگل ۱۵ رجب یا بروز جمعہ ۱۸ رجب ۱۴۸ھ میں ہوئی۔ آپ اپنے باپ اور دادا کے روضہ کے ساتھ جنّت البقیع میں دفن کیے گئے۔
امام باصفا صادق شہِ دین! |
|
کہ بود اند ز طلب مطلوب کامل |
(خزینۃ الاصفیاء)