حضرت ابراھیم بن ادھم
حضرت ابراھیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ
آپ پہلے طبقہ میں سے ہیں اورآپ کی کنیت ابو اسحٰق ہے۔آپکا نسب یوں ہے"ابراھیم بن ادھم بن سلیمان بن منصور بلخی"،آپ شہزادوں میں سے ہیں۔جوانی میں آپ نے توبہ کی ، ایک دفعہ جنگل میں شکار کے لیے گئے تھے"ہاتف نے آواز دی کہ اے ابرھیم تم کو اس لیے پید ا نہیں کیا گیا ۔اسی وقت آپکو ہوش آگیا اور طریقت پر اچھی مضبوطی کے ساتھ قائم ہوئے۔مکہ معظمہ میں گئے اور وہاں پر سفیان ثوریٖ ٖفضیل، عیاض ،ابو ویوسف غسولی سے صحبت رکھی۔پھر شام میں گئےوہاں پر مال حلال کماتے تھے ،ناظور بانی کرتے تھے ۔آپ محدث ہیں اور اہل کرامت و ولایت ہیں ۔ملک شام میں انتقال کیا ۱۶۱ یا ۱۶۲ ہجری میں بعض کہتے ہیں کہ ۱۶۶ہجری میں اور یہی زیادہ مشہور ہے۔ایک شخص حضرت ابراھیم بن ادھم کے ہمراہ رہا اور ہمراہی دیر تک رہی،جب وہ چاہتا کہ جاؤں تو آپ فرماتے "شاید کہ تم اس صحبت میں مجھ سے ناراض ہو گئے ہو"،ٹہرو کہ میں نے تمہاری بہت بے حرمتی کی ہے ۔ابراھیم نے کہا میں تیرا دوست تھا اور دوستی نے تیرا عیب مجھ پر چھپادیا ،سو دوستی کی وجہ سے نہ دیکھا کہ تم اچھا کرتے ہو یا برا۔
ویقبح من سواک الفعل عندی فتفعلہ یحسن منک ذاک
یعنی تیرے سوا کوئی اور شخص برا کام کرے تو مجھے برا معلوم ہوتا ہےلیکن تو وہی کام کرتا ہے تو اچھا معلوم ہوتا ہے۔عثمان عمارہ کہتے ہیں کہ "میں حجر کے علاقے میں تھا اور ابراھیم بن ادھم ،محمد بن ثوبان عباد منقری سے مل کر باہم باتیں کر رہے تھے"،ایک جوان بہت دور بیٹھا تھا اس نے پوری اعتقاد و نیاز سے ہم کو کہا کہ اے جوان مردو!میں ایک مرد ہوں جو اس کام کے پیچھے پھر رہا ہوں ،نہ رات کو نیند آتی ہے نہ دن کو خوراک اپنی عمر تکلیف میں گزارتا ہوں ،ایک سال حج کرتا ہوں ،ایک جہاد کرتا ہوں مگر میرا کیا حال ہو کہ وہاں تک رسائی نہیں اور دل میں مجھے کچھ معلوم نہیں ہوتا ۔مجھے معلوم نہیں کہ تم اس بارے میں کیا کہتے ہو۔ہم میں کسی نے اسکو جواب نہیں دیا اپنی باتوں میں لگے رہے۔آخر یاروں میں سے ایک بولا کہ میرا دل اسکی عاجزی پر جلااور میں نے کہا"اے جوان مرد ! یہ لوگ جو اس کام کے درپے ہیں وہ خدا کے طالب ہیں "۔ یہ نہ زیادہ عبادت و خدمت میں سعی کرتے ہیں لیکن اسکے دیکھنے میں خوب سعی کرتے ہیں ۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ اسکا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ خدمت و عبادت نہیں کرنی چاہیے،مطلب یہ ہے کہ کسی اور چیز کی طرف متوجہ نہ ہونا چاہیے۔صوفی عبادت و خدمت کے بغیر نہیں ہوتا ،لیکن تصوف خدمت نہیں ہے۔صوفی عبادت چھوڑتے نہیں بلکہ تمام لوگوں سے زیادہ کرتے ہیں لیکن جو کچھ بھی کرتے ہیں اسکو خیال میں نہیں لاتے۔یعنی اسکی مزدوری اور بدلہ عوض لینا نہیں چاہتے۔انکا سرمایہ باطن میں کچھ اور ہی ہے۔ظاہر میں تو اشتباہی حالت میں بسر کرتے ہیں مگر باطن میں دوسری جہان میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ابوالقاسم نصرآبادی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں "جذبۃ من جذبات الحق تربی علی عمل الثقلین "یعنی خدا کے جذبات میں ایک جذبہ ایسا ہے کہ انسان اور جن کے عمل سے بڑھ کر ہے۔ابراھیم بن ادھم ،علی بکار ، حذیفہ مرعشی،سلم خواص ایک دوسرے کے یار اور دوست ہیں سب نے مل کر اس بات کا عہد وپیمان کرلیا کہ جب تک کوئی چیز کوئی حلال کی معلوم نہ ہوجائے نہ کھائیں گے ،لیکن جب خالص حلال کے ملنے سے عاجز ہوئے تو تھوڑا تھوڑا کھانے لگے ۔یہ کہنے لگے"ہم اس قدرکھائیں کہ جس سے گریز نہ ہوسکے "۔القصّہ شبہ بہت تھوڑا ہوتا ہے۔
(نفحاتُ الاُنس)