امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری
حضرت پیر سید جماعت علی شاہ ابن سید کریم شاہ علی پوری ۱۲۵۷ھ/۱۸۴۱ء میں علی پور سیداں ضلع سیالکوٹ (پنجاب ) میں پیدا ہوئے۔ آپ نجیب الطرفین سید اور سادات شیراز کے حضرت سید محمد مامون المعروف بہ قطب شیرازی کی اولادا امجاد سے تھے ۔ آپ کا سلسلۂ نسب ۳۸ واسطوں سے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے ۔ آپ نے حضرت حافظ شہاب الدین کشمیری سے علی پور سیداں میں قرآن حفظ کیا۔ ابتدائی کتب مولانا عبد الرشید علی اور مولانا عبد الوہاب امر تسری سے پڑھیں ۔ مولانا غلام قادر بھیروی ، مولانا فیض الحسن سہارنپوری سے کسب فیج کیا ۔ کانپور میں مولانا محمد علی مونگیری ناظم ندوۃ العلماء سے بھی استفادہ کیا ، علامہ زماں مولانا احمد حسن کانپوری سے علمی استفادہ کیا[1]
مولانا قاری عبد الرحمن پانی پتی سے بھی فیضیاب ہوئے ۔ حدیث شریف کی سند مولانا عبد الحق مہاجر مکی سے حاسل کی[2]
حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی نے بھی حدیث کی سند عطا فرمائی [3]
سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت خواجہ فقیر محمد المعروف با با جی علیہ الرحمہ (چورہ شریف) کے مرید ہوئے اور قلیل مدت کے بعد خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے[4]
آپ نے تبلیغ اسلام کے سلسے میں گرا نقدر خدمات انجام دیں ، اسلام کا پیغام متحدہ ہندوستان ( متحدہ پاک وہند) کے کونے کونے تک پہنچا یا ۔ عیسائی مشزیوں اور آریہ سماج کی ریشہ دوانیوں کو نام بنایا، ہزار ہا عیسائیوں اور ہندوئوں کو مشرف بہ اسلام کیا ، شدھی تحریک (مسلمانوں کو ہندو بنانے کی تحریک ) کے خلاف بھر پور جدہ جہد ی اور آگرہ میں تبلیغی مرکز قائم کرکے طوفانی دورے کئے۔ مرزائے قادیانی کے دعاوی باطلہ کی زبر دست تر دید کی ، شاہی مسجد ، لاہور میں مرزا کی موت کی پیش گوئی کی جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی ،(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الکادیہ علی انعاویہ، حصہ دوم ، مصنفہ حضرت مولانا محمد عالم آسی امر تسری)
آپ کی سیاسی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں ۔ تحریک ترک موالات اور تحریک ہجرت (۲۱۔ ۱۹۲۰ء )کے نقصانات سے مسلمانوں کو پوری طرح باخر کیا ۔ ۱۹۳۵ء میں مسجد شہید گنج کی تحریک کے وقت شاہی مسجد لاہور میں دلولہ انگیز تقریری کی جس کی بنا پر آپ کو امیر ملت کا خطاب دیا گیا آپ کے لاکھوں مریدین پاک و ہند اور دیگر ممالک میں پھیلے ہوئیں ہیں۔
آپ نے تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لیا اور تمام مریدین کو مسلم لیگ کی حمایت کرنے کی پرزور تلقین کی ۔ ۱۹۳۹ء میں جب کا نگر س وزارت سے مستعفی ہوئی تو قائد اعظم نے جمہ ۲۳، ستمبر( ۱۳۵۸ھ/ ۱۹۳۹ئ) کو یوم نجات منانے کی اپیل کی ، اس موقع پر آپ نے نماز جمعہ کے بعد علی پور سیداں میں دوران تقریر فرمایا:۔
’’دو جھنڈے ہیں ایک اسلام کا ، دوسرا کفر کا ۔ مسلمانو! تم کس جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو گے ؟ حاضرین نے با آواز بلند جواب دیا کہ اسلام کے ، پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ جو کفر کے جھنڈے تلے کھڑا ہو تا کیا تم اس کے جنازہ کی نماز پڑھوگے؟ حاضرین نے انکار کیا ۔ پھر آپ نے استفسار فرمایا کہ کیا تم اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کروگے ؟ حاضرین نے بالا تفاق کہا نہیں ہر گز نہیں ! اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اس وق اسلامی جھنڈا مسلم لیگ کا ہے ، ہم مسلم لیگ کے ساتھ ہیں اور سب مسلمانوں کو مسلم لیگ میں شامل ہونا چاہئے۔‘‘[5]
ّ(۱)حید رحسین شاہ تذکرہ شہ جماعت ( بحوالہ بقت روزہ الفقیہ امر تسر ۷ فروری ۱۹۴۰ء)
دینی مدارس کی امداد اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے ۱۹۱۰ء میں سلطان عبد الحمید کی اپیل پر آپ نے حجاز ریلوے فنڈ میں اپنے متوسلین کی طرف سے چھ لاکھ روپے جمع کرائے ۔ ۱۹۱۱ء میں علیگڑھ کالج کو یونیورسٹی بنانے کی عرض سے نواب وقر الملک نے امداد کی اپیل کی اور یقین دلایا کہ انگریزی کے ساتھ دینیات کی تعلیم لازمی ہوگی اور یونیورسٹی کی مساجد میں پنجوقتہ نمازوں کی حاضری تمام طلبہ پر لازمی ہوگی ، آپ نے کئی لاکھ روپیہ اپنے حلقۂ ارادات سے جمع کرادیا [6]
کوئی اندازہ کر سکتا ہے ان کے زور بازوکا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اس پر علامہ اقبال نے کہا :۔
’’ میر ی نجات کے لئے یہی کافی ہے کہ آپ کو میرا یہ شعر یاد ہے[7] ‘‘
آپ کے مریدین اور خلفاء میں زیادہ تر جدیدی تعلیم یافتہ طبقہ شامل ہے۔ آپ نے بے شمار حجف کئے ، کم و بیش پچاس مرتبہ دربار رسالت میں حاضری دی ، سینکڑوں مسجدیں تعمیر کرائیں ، متعدد مدسے جاری کئے ۔ ۹۰۴ ء میں انجم کدام الصوفیہ کی بنیاد لاہور میں رکھی ، اس انجمن نے ماہنامہ انوار الصوفیہ لاہور ( جو ان دنوں قصور سے شائع ہوتا ہے ) اور ماہنامہ لمعات الصوفیہ سیالکوٹ پر آپ کی خاص نظر عنایت تھی، اس دور میں یہ رسائل بڑے وقیع مضامین پر مشتمل ہوتے تھے۔
آل انڈیا سننی کانفرنس بنارس میں بحیثیت سر پرست شریک ہوئے ، ورض آپ کے کارہائے نمایاں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں لیکن افسوس اس طرف خاطر خواہ توجہ نہ دی گئی[8]
آپ کی سخاوت اور دریا دلی کا ایک عالم میں چر چھا تھا ، کوئی سائل آپ کے دربار سے خالی نہ جاتا تھا ، خاص طور پر عربو ں کی بہت عزت و تکریم کریت چنانچہ اہل عرب آپ کو ابو العرب کے لقب سے یاد کرتے تھے ۔
حضرت پیر سید جماعت علی شاہ قدس سرہ بے پناہ دینی اور مللی مشاغل ی وجہ سے تصیف و تالیف کی طرف توجہ نہ دے سکے ، تاہم چند رسائل آپ سے یادگار ہیں:۔
۱۔ ضرورت شیخ :قرآن و حدیث اور بزرگان دین کے اقوال سے بیعت کی اہمیت کا بیان کیا گیا ہے ۔
۲۔ یاران طریقت:۔ بیعت کے روحانی فوائد ۔
۳۔ اطاعت مرشد۔
۴۔ مرید صادق: مرید کی تعریف اور پیر و مرید کے تعلق کی و ضاحت ( یہ رسائل طبع ہو چکے ہیں ) علاہ ازین فضیلت تہجف پر ایک مقالہ تحریر فرمایا جو ماہنامہ انوار الصفیہ سیالکوٹ میں شائع ہوا۔ ایک رسالہ فضائل مدینہ طیبہ پر لکھا جو ۱۹۱۰ء میں انوار الصوفیہ لاہور کے شمارہ ۱۱ میں شائع ہوا[9]
’’ یا ر ان طریقت کی ابتداء میں حافظ پیلی بھیتی کی ایک نعت شائع ہوئی تھی ، چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
کسی کو مرض سے شفا چاہئے
ہمیں تو مرض لا دوا چاہئے
مدینہ کہاں اور یہ عاجز کہاں
پہنچنے کو بخت رسا چاہئے
وہ مانیں نہ مانیں انہیں اختیار
ہمیں رات دن التجا چاہئے
محبت محبت تو کہتے ہیں سب
محبت کو ساماں بڑا چاہئے
شریعت کے آگے ہو گردن جھکی
طریقت پہ دل مبتلا چاہئے
جو آنکھوں میں آنسو تو لب پر ہوا آہ
موافق یہ آب و ہوا چاہئے
ہو منہ زرد ، لب خشک یانبی!یانبی!
ادھر دل سے نام خدا چاہئے
جو موت آئے تو زندگی بن کے آئے
قضا کی نرالی ادا چاہئے
دم خاتمہ بھی ہو لب پر یہ بات
مجھے خاتم الانبیاء چاہئے
جو قسمت سے ایس محبت ملے
تو حافظ کو پھر اور کیا چاہئے[10]
امیر ملت ، ابو العرب حضرت پیر سید جماعت علیشاہ قدس سرہ کا وصال ۲۶ ذیعقدہ (۲۶ ور ۲۷ کی درمیانی شب )۳۰ اگست (۱۳۷۰ھ/۱۹۵۱ء) جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب کو ہوا۔ آپ کا مزار انور علی پور سیداں میں مرجع خلائق ہے ، ہر سال نہایت شان و شوکت سے آپ کا عرس ہوتا ہے جس میں ہزاروں مریدین شرکت کرتے ہیں ۔
[1] حیدر حسین شاہ ، پیر سید : تذکرہ شہ جماعت ، مطبوعہ ۱۳۹۳ھ/۱۹۷۳ء لاہور ، ص ۲۵۔
[2] ایضاً:ص ۳۰
[3] محمد دین کلیم : لاہور میں اولیائے نقشبند کی سر گرمیاں
[4] حید ر حسین شاہ پیر سید :تذکرہ شہ جماعت ،ص ۳۰۔۳۱
[6] ابن الدین سید : صوفیائے نقشبند ، ص۳۵۴۔
[7] ایضاً:ص ۳ ۳۵۔
[8] الحمد للہ ! جناب پروفیسر محمد طاہر فاروقی ( صدر شعبۂ اردو ، پشاور یونیورسٹی ) نے اس طرف توجہ اور ایک ضمیم سوانحمبارک مدون فرمائی ہے ( مسعود) اس کے علاوہ حضرت پیر سید حیدر حسین شاہ مد ظلہ نے ’’ تذکرہ شہ جماعت‘‘ مرتب فرمایا ہے جو مئی ۱۹۷۳ء میں شائع ہو چکا ہے
[9] حیدر حسین شاہ ، پیر سید تذکرہ شہ جماعت ، ص ۴۳۔ ۴۴۔
[10] جماعت علی شاہ ، امیر ملت پیر سید : یاران طریقت ، ص ۲
(تزکرہ اکابرِ اہلسنت)