امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری
حضرت امیر ملّت پیر سیّد حافظ جماعت علی شاہ محدّث علی پُوری قدس سرہ
علی پور سیّداں ضِلع سیالکوٹ ۱۲۵۷ھ/۱۸۴۱ء۔۔۔ ۱۳۷۰ھ/ ۱۹۵۱ء علی پور سیّداں ضِلع سیالکوٹ
قطعۂ تاریخِ وصال
ہوئے آج راہی وہ خُلدِ بریں کو |
|
علی پُور کے تھے جو معروف صُوفی |
|
||
|
||
|
||
|
(صابر براری، کراچی)
سنو سئِ ہند امیر ملّت حضرت پیر سیّد جماعت علی شاہ قدس سرہ کی ولادت با سعادت ۱۲۵۷ھ/۱۸۴۱ء میں علی پور سیّداں تحصیل نا رو وال ضِلع سیال کوٹ (پنجاب) میں قطبِ وقت حضرت پیر سیّد کریم شاہ (ف ۴؍صفر ۱۳۲۰ھ/۱۳؍مئی ۱۹۰۲ء بروز منگل)کے ہاں ہوئی سلسلۂ نسب طرفین سے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔ پدری شجرۂ نسب یُوں ہے: پیر سیّد جماعت علی شاہ بن سیّد کریم شاہ بن سیّد منوّر علی شاہ بن سیّد محمد حنیف بن سیّد محمد عابد بن سیّد امان اللہ بن سیّد عبدالرحیم بن سیّد میر محمد بن سیّد علی بن سیّد محمد سعید نوروزبن سیّد حسین شیرازی بن سیّد محی الدّین بن سیّد میر احمد بن سیّد امام الدین بن سیّد علی بن سیّد علاؤ الدین بن سیّد جلال الدین بن سیّد منصور بن سیّد نظام الدین بن سیّد حبیب اللہ بن سیّد خلیل اللہ بن سیّد شمس الدین بن سیّد عبد اللہ بن سیّد نور اللہ بن سیّد کمال الدین بن سیّد اسد اللہ بن سیّد خسرو بن سیّد عارف بن سیّد ابراہیم بن سیّد طاہر احمد بن سیّد حسین بن سیّد علی عارض بن سیّد محمد مامون قطب شیرازی بن حضرت سیّد امام جعفر صادق بن حضرت امام محمد باقر بن حضرت سیّد امام زین العابدین بن سیّد الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
آپ نے اپنے ہی گاؤں میں حافظ قاری شہاب الدین کشمیری حمۃ اللہ علیہ [۱] سے قرآن پاک حفظ کیا۔ عربی اور فارسی کی ابتدائی کتب میاں عبدالرشید علی پوری رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھ کر مولانا عبدالوہاب امر تسری رحمۃ اللہ علیہ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ بعد ازاں لاہور جاکر مولانا غلام قادر بھیروی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا مفتی محمد عبداللہ ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ (پرو فیسر اورنٹیل کالج لاہور) سے مولوی عالم اور مولوی فاضل کے درسیات پڑھے۔ اس کے بعد سہار نپور جا کر مولانا محمد مظہر سہار نپوری اور مولانا فیض الحسن سہا نپوری رحمۃ اللہ علیہ سے استفادہ کیا۔ مگر تشنگی علم ہنوز باقی تھی۔ چنانچہ یہ تشنگی کشاں کشاں آپ کو مولانا سیّد محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ ناظم دارالعلوم ندوہ، مولانا احمد حسن کانپوری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا میر محمد عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ مولانا ارشاد حسین رامپوری رحمۃ اللہ علیہ، ومولانا شاہ فضلِ رحمٰن گنج مراد آبادی، مولانا شاہ عبدالحق الہ آبادی مہاجر مکّی، مولانا قاری عبدالرحمٰن محدّث پانی پتی اور حضرت علامہ محمد عمر ضیاء الدین استانبولی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی خدمت میں لے گئی اور تمام علوم متداولہ عقلیہ و نقلیہ پر دسترس اور مہارتِ تامہ حاصل کر کے اسناد حاصل کیں۔ حضرت شاہ فضلِ رحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے تو اپنی کُلاہ مبارک اُتار کر آپ کے سرِ اقدس پر رکھ دی اور اپنا پس خوردہ پانی پلا کر بہت سے اوراد و وظائف اور سندِ حدیث کی اجازت عنایت فر ماکر رخصت کیا۔
[۱۔ حضرت امیر ملّت قدس سرہ کے اساتذہ کے حالات طیّبات پر احقر نے ایک علیحدہ کتاب اساتذۂ امیرِ ملّت لکھی ہے۔ شائقین حضرات تفصیلات کے لیے مذکورہ کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔ (قصوری)]
علومِ ظاہری میں یدِ طولیٰ حاصل کرنے کے بعد آپ غوثِ وقت حضرت بابا جی فقیر محمد فاروقی نقشبندی مجدّدی رحمۃ اللہ علیہ (ف ۱۳۱۵ھ) چورہ شریف ضِلع اٹک کی خدمت میں حاضر ہوکر شرفِ بیعت سے مشرّف ہوئے۔ بابا جی آپ کی آمد سے ازحد مسرور ہوئے اور بے ساختہ پکار اُٹھے۔
اے آتشِ فراقت دلہا کباب کردہ |
|
سیلابِ اشتیاقت جانہا خراب کردہ |
چند روزہ صحبت کے بعد آپ اجازت و خلافت سے نوازے گئے تو دوسرے مریدوں نے اعتراض کیا کہ ہم عرصے سے حاضر خدمت ہیں مگر ہمیں آج تک خلافت نہیں ملی اور جماعت علی شاہ کو آپ نے آتے ہی سب کچھ عطا فرما دیا ہے۔ اس پر بابا جی نے ارشاد کیا کہ:
’’جماعت علی شاہ کے پاس چراغ بھی تھا، تیل بھی تھا اور بتّی بھی، ہم نے تو صِرف آگ ہی لگائی ہے‘‘۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا |
|
ہر مدعی کے واسطے دارو سن کہاں |
مُرشدِ کامل نے آپ کے حق میں یہ دعا فر ماکر رخصت کیا کہ:
’’خدا وند! اس دَور میں میرے جماعت علی شاہ کو لا ثانی بنادے’’۔
چنانچہ مرشد کامل کی دُعا رنگ لائی اور جو شہرتِ عام بقائے دوام آپ کو ملی، دوسرے ہم عصروں کو اس کا عشرِ عشیر بھی نصیب نہ ہُوا۔ پشاور سے راس کماری اور کشمیر سے مدراس تک آپ کی دھوم مچی۔ دس لاکھ سے زائد لوگ حلقۂ غلامی میں داخل ہوئے۔ برصغیر کے علاوہ کابل، برما، سعودی عرب، رُوس اور دیگر ممالک میں بھی مسلمانوں کی کثیر تعداد نے آپ کی غلامی کا طوق پہنا۔ آغا خلیل کلید بردار و جاروب کش روضۂِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، نادر شاہ والئیِ افغانستان (ف ۱۹۳۴ء) میر عثمان علی خاں نظام حیدر آباد دکن، قائدِ ملّت با بائے کشمیر چوہدری غلام عباس، مولانا غلام محمد ترنم امر تسری ثم لاہوری، بیر سٹر عبدالرب مرزا (والد گرامی قدر جناب غلام مجدّد مرزا (ریٹائرڈ) چیف جسٹس پنچاب ہائی کورٹ لاہور) علامہ ابوالمعانی تاج الدین احمد تاج عرفانی جیسے نابغۂ روز گار اور مشاہیر نے آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت کر کے آپ کی عظمت کا لوہا مانا۔ اور قائدِ اعظم محمد علی جناح، حکیم الامّت علامہ اقبال، نواب مشتاق حسین المعروف نواب وقار الملک نواب بہادر یار جنگ، سر آغا خاں، نواب شاہ نواز ممدوٹ، نواب احمد یار خاں دولتانہ، نواب محمد اسماعیل خاں آف میرٹھ، علی برادران (مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر) مولانا عبدالباری فرنگی محلی، حکیم اجمل خاں، مولانا ظفر علی خاں، علامہ عنایت اللہ المشرقی، میر غلام بھیک نیزنگ، مخدوم سیّد صدر الدین گیلانی ملتانی شاہ محمد علی حسین کچھو چھوی، شاہ محمد سلیمان پھلواردی، شاہ سیّد محمد محدّث کچھوچھوی، مولانا حامد رضا خاں بریلوی، مولانا عبدالحامد بدایونی، پیر محمد امین الحسنات آف مانکی شریف، پیر محمد فضل شاہ جلال پوری، مولانا سیّد محمد نعیم مراد آبادی، مولانا مظہر الدین شیر کوٹی ایڈیٹر ’’الامان‘‘ دہلی، میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ، نوابزادہ لیاقت علی خاں، سردار عبدالرب نشتر، نواب افتخار حسین ممدوٹ اور ابوالاثر حفیظ جالندھری جیسے مقتدر اور عبقریٰ عصر حضرات آپ کی عقیدت کا دم بھرتے رہے۔
علومِ ظاہری و باطنی کے حصول کے بعد آپ نے سب سے پہلے علی پور شریف کی مسجد ہی کو وعظ و نصیحت کا مرکز بنایا۔ بعد ازاں پشاور، کوئٹہ، بمبئی، کلکتہ، کراچی، میسور، حیدر آباد دکن، دہلی، بھوپال، کوہ نیلگڑھی، کشمیر، کابل وغیرہ دور دراز علاقوں کے تبلیغی دورے فرمائے۔ ہزار ہا مشکلات و مصائب کو برداشت کر کے لاکھوں گمگشتگان راہ کو صراطِ مستقیم پر گامزن کیا۔ ہزاروں غیر مسلموں نے آپ کے دستِ حق پرست پر اسلام قبول کیا۔ کئی جگہوں پر آپ نے تبلیغی انجمنیں، مدرسے، مسجدیں اور کنویں بنوائے۔ آپ کی اِن تبلیغی کوششوں اور سرگرمیوں سے اسلام کے خزاں دیدہ چمن میں بہار آگئی، اس لحاظ سے آپ بلا شبہ ’’محی الدین ثانی‘‘ اور ’’مجدّد دوراں‘‘ کہلانے کے مستحق ہیں۔
عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ کے قلب و روح میں سمایا ہوا تھا۔ سرکارِ مدینہ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامِ نامی اسم گرامی سُن کر آپ کی پلکیں بھیگ جاتیں، رنگ زرد ہوجاتا۔ سرد آہوں اور سسکیوں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا۔ آپ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کے اِن اشعار کی عملی تفسیر تھے۔
عاشقاں راشش نشان ست اے پسر! |
|
آہ سرد و رنگ زرد و چشم تر |
|
مندرجہ ذیل اشعار تو ہر وقت آپ کی زبان پر رہتے تھے اور آنکھیں اشکوں کا ہار پروتی رہتی تھیں۔
قابل تھا میں نار کے مجھے جنّت ہوئی نصیب |
|
اس در کی حاضری سے مری قسمت بدل گئی |
|
آپ کے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتراف مخالفوں نے بھی کیا ہے۔ چنانچہ مولانا حسین احمد دیوبندی سابق صدر جمعیّت علماء ہندو سابق پرنسپل دارالعلوم دیوبند آپ کے نکتہ چینوں کے جواب میں کہا کرتے تھے کہ
’’عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شاہ صاحب (امیر ملّت) کے مقام کو کوئی نہیں پہنچ سکتا‘‘۔
ذیل میں چند واقعات پیشِ خدمت ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ واقعی فنافی الرسول تھے۔ ۱۹۱۶ء کی بات ہے کہ آپ ایک طویل دورے کے بعد لاہور مسجد پٹولیاں (اندرون لوہاری دروازہ) میں فردکش تھے۔ سردی کا موسم تھا اور آپ کو شدید بخار تھا۔ اتنے میں بر صغیر کے نامور نعت گو شاعر حافظ پیلی بھیتی رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کی اطلاع ملی۔ آپ نے حکم دیا کہ ’’فوراً بلاؤ‘‘۔ حالانکہ آپ لحاف اوڑھے ہوئے تھے اور کپکپی طاری تھی۔ بابائے لاہور شیخ عبدالشکور لاہوری رحمۃ اللہ علیہ [۱] کا بیان ہے کہ میں بھی اُس وقت آپ کے قدموں میں حاضر تھا۔
[۱۔ حضرت شیخ عبدالشکور لاہوری نامور اہل قلم، معروف ادیب اور علم دوست بزرگ تھے۔ موصوف حضرت امیر ملّت کے مریدِ خاص اور عاشق صَادق تھے۔ آپ کے مضامین مقالات کا مجموعہ ’’سبزۂ بِیگانہ‘‘ چھپ کر سندِ قبولیّت حاصل کرچکا ہے۔ مشہور ماہر اقبالیات پروفیسر محمد منوّر مرزا (ف ۲۰۰۰ء) سلسلہ عالیہ شکوریہ (علی، ادبی اور زندہ دلی کا سلسلہ) میں آپ کے خلیفۂ اوّل تھے۔ آپ کی وفات بعمر شریف ۸۹ برس یکم ؍جون ۱۹۸۵ء کو ہوئی اور قبرستان میانی صاحب لاہور میں دفن ہوئے۔ مزید حالات کے لیے احقر کی کتاب ’’شیدایانِ امیر ملّت‘‘ دیکھی جا سکتی ہے۔ (قصوری)]
آپ نے حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا۔
’’آپ حضور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس و اطہر میں نعتیں لکھتے ہیں افسوس کہ بیماری کی وجہ سے آپ کا استقبال نہ کرسکا‘‘۔
پھر دریافت فرمایا: ’’حافظ صاحب! کوئی تازہ نعت لکھی ہے؟ حافظ صاحب فوراً دو زانو ہو بیٹھے، بیاض کھولی اور نعت شروع کی۔ مطلع تھا۔
زائروں کی بھیڑ ہو روضہ تِرا ہو میں نہ ہُوں |
|
وائے نا کامی کہ اک خلقِ خدا ہو میں نہ ہُوں |
مطلع بے پناہ پُر سوز تھا۔ سب محظوظ ہوئے۔ حضرت نے فرمایا، مکرّر پڑھو، دو تین بار سماعت فرمایا اور لحاف چہرۂ مبارک سے دُور کردیا۔ حافظ صاحب نے دوسرا شعر پڑھا۔
صدقے اُس روضے کے جس پر سَر سے دل سے جان سے |
|
اِک جہاں اِک خَلق، اِک عَالَم، فِدا ہو میں نہ ہُوں |
اَب تو آپ نے بے ساختہ لحاف جسم پر سے اتار دیا۔ ہم سب ڈر رہے تھے کہ کہیں سردی نہ لگ جائے حافظ صاحب نے تیسرا شعر پڑھا۔
میں وہ رُدِّ خلق ٹھہرا ہُوں کہ بزمِ شاہ میں |
|
اِنس ہو، جِن ہو، فرشتہ ہو، ہوا ہو، میں نہ ہوں |
اب تو آپ اُٹھ کر بیٹھ چکے تھے کہ گویا بخار تھا ہی نہیں۔ جسم سے پسینہ جاری تھا بے اختیار داد لے رہے تھے اور کیف طاری تھا۔ جب حافظ صاحب نے یہ شعر پڑھا۔
مَیں وہاں ہوں، وہ وہاں ہوں یا نہ ہوں پَر یہ نہ ہو |
|
شاہ کے دربار میں چرچا مرا ہو مَیں نہ ہوں |
تو حضرت صاحب بے تاب ہوگئے اور اِک دم حجرہ سے مسجد میں تشریف لے گئے اور (حاجی بُوٹا خادِم خاص) کو حکم دیا:
’’جلد اسباب باندھو اور مدینہ شریف چلو‘‘۔
جہاز پر سوار ہوتے وقت بھی یہ مصرع زبان پر جاری تھا۔
شاہ کےدربار میں چرچا مِرا ہو میں نہ ہوں
مشہور احراری لیڈر سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری (ف ۱۹۶۱ء) باوجود آپ سے اختلافات کے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ اکثر و بیشتر بیان کر کے اپنی تقاریر کو مزیّن کیا کرتے تھے اور مشہور اہلحدیث عالم مولانا محمد داؤد غزنوی (ف ۱۹۶۳ء) کا بیان ہے کہ میں نے یہ واقعہ بچشمِ خود دیکھا ہے کہ ’’ ایک دفعہ مدینہ منوّرہ میں باب السّلام کے قریب چند کُتّے لیٹے ہوئے تھے۔ ایک نا سمجھ نے جاتے جاتے ایک کتّے کو زور سے لاٹھی ماری۔ کتّا لنگڑا تا اور چیختا چلاتا ہوا جا رہا تھا کہ اچانک آپ رحمۃ اللہ علیہ وہاں تشریف لے آئے۔ جب حقیقت حال معلوم ہوئی تو کتّے کو پاس بٹھالیا اور اُس شخص سے کہا، ’’ظالم! تُو نے یہ نہ دیکھا کہ مدینہ شریف کا کتّا ہے‘‘۔پھر عمامہ پھاڑ کر کُتّے کی زخمی ٹانگ پر پٹی باندھی اور با زار سے کھانا منگوا کر اُسے کھلایا۔
ایک دفعہ سر زمین حجاز میں قحط نمودار ہوا تو آپ یہ سُن کر تڑپ اُٹھے کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے ملک میں قحط پڑ گیا ہے۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک لاکھ روپیہ کی گرانقدر رقم بھجوائی۔ ابوالمعانی مومن ثانی حضرت علامہ تاج الدین احمد تاج عرفانی (ف ۱۹۵۹ء) نے اس واقعہ کی طرف یُوں اشارہ کیا ہے۔
کی آپ نے امد لو مصیبت زدگان کی |
|
وَا اُن کے لیے کیسۂ زر دیکھ رہا ہُوں |
|
||
|
آپ رحمۃ اللہ علیہ کو مدینہ منوّرہ کے چرند پرند اور گردو غبار تک سے بے پناہ محبّت تھی۔ آپ مدینہ شریف کی ہر چیز کا احترام کرتے تھے۔ جب تک مدینہ شریف رہتے، نعت خوانی کی مجلسیں ہوت رہتیں ایک ایسی ہی مجلس میں حضرت حفیظ جالندھری (ف ۱۹۸۲ء) نے یہ شعر سُنایا۔
کہاں تھے یہ نصیب اللہ اکبر حجرِ اَسوَد کے |
|
یہاں کے پتھروں نے پاؤں چومے ہیں محمّدﷺ کے |
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ شعر سُنتے ہی فوراً اپنی گرم واسکٹ بمعہ نقدی حفیظ صاحب کی نذر کردی۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ جب بھی مدینہ شریف حاضر ہوتے تو سب سے پہلے غُسل فرماتے۔ پھر نہایت عجزو انکسار کے ساتھ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر سلام عرض کرتے، حضوری کے وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کا جِسم کانپتا رہتا اور سردیوں میں بھی کپڑے پسینے سے تر ہوجاتے۔ چہرہ مبارک کی رنگت کبھی سُرخ ہوجاتی کبھی زرد۔ مواجہ شریف میں سلام عرض کرنے کے بعد دوسری طرف جا بیٹھتے تو سردی ہوتے ہوئے بھی دیر تک پنکھا جھلنا پڑتا محسوس ہوتا تھا کہ آپ پر کامل رعب طاری ہے یہ شہنشاہوں کے شہنشاۂِ اعظم کا دربار ہے۔ یہاں کی حاضری کوئی آسان بات نہیں، بیخبروں کو کیا معلوم کہ وہ کس عظیم الشان بارگاہ میں حاضر ہیں۔ ؎
ادب گاہیست زیرِ آسمان از عرش نازک تر |
|
تفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا |
(عزّت بخاری)
اس قسم کے ایک نہیں بلکہ بیسیوں واقعات پیش کیے جاسکتے ہیں مگر طوالت کے خوف سے انہی پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔ شائقین حضرات سیرتِ امیرِ ملّت کا مطالعہ فرما کر مستفید و مستفیض ہوسکتے ہیں
سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے
حکیم الامّت حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو آپ رحمۃ اللہ علیہ سے بہت عقیدت و محبت تھی۔ اکثر و بیشتر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر رُوحانی استفادہ کرتے رہتے تھے۔ چند ایک واقعات درج ذیل ہیں:
ایک دفعہ آپ رحمۃ اللہ علیہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ اجلاس کی صدارت فرما رہے تھے۔ تمام کرسیاں بھری ہوئی تھیں، فرش پر بھی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ذرا دیر سے پہنچے تو جگہ نہ پاکر آپ رحمۃ اللہ علیہ کے قدموں میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے کہ ’’اولیاء اللہ کے قدموں میں جگہ پانا موجبِ فخر ہے‘‘۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے تبسّم فرمایا اور کہا، ’’اقبال جس کے قدموں میں آجائے اُس کے فخر کا کیا ٹھکانا‘‘۔
۱۹۳۷ء کا واقعہ ہے کہ ایک صحبت میں حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ نے حکیم الامّت رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ آپ کا ایک شعر تو ہمیں بھی یاد ہے‘‘۔ پھر یہ شعر پڑھا۔
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کےزورِ بازوکا |
|
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں |
حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ یہ سُن کر بے حد مسرور ہوئے اور کہنے لگے، ’’میری نجات کے لیے اتنا ہی کافی ہے‘‘۔ حضرت امیرِ ملّت رحمۃ اللہ علیہ سے حکیم الامّت رحمۃ اللہ علیہ کی عقیدت اس قدر گہری تھی کہ حکیم الامّت رحمۃ اللہ علیہ نے سوائے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے کسی کو بھی نہیں بتایا تھا کہ اُنہوں نے بیعت کہاں کی ہے؟ چنانچہ اس راز کی عقدہ کشائی سب سے پہلے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ہی ۱۹۳۵ء میں فرمائی تھی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد کیا کہ:
اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے راز داری کے طور پر مجھ سے کہا تھا کہ میں اپنے والد مرحوم سے بیعت ہوں۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مزید فرمایا کہ
’’اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد کے پاس ایک مجذوب صفت درویش آیا کرتے تھے وہ انہی سے سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے‘‘۔
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ کی جو قدر و منزلت تھی، اُس کا اظہار ’’ضربِ کلیم میں‘‘ میں مرد بزرگ‘‘ کے عنوان والے مندرجہ ذیل قطعہ سے ہوتا ہے۔
اُس کی نفرت بھی عمیق اُس کی محبت بھی عمیق |
|
قہر بھی ہے اُس کا اللہ کے بندوں پہ شفیق! |
|
||
|
||
|
حضرت امیر ملّت کو بھی علامہ مرحوم سے بہت محبّت و شفقت تھی چنانچہ وصال سے قبل اکثر علامہ کا یہ شعر زبان پر رہتا تھا۔
تِری بندہ پروری سے مِرے دن گزر رہے ہیں |
|
نہ گِلہ ہے دوستوں کا، نہ شکایتِ زمانہ |
گزشتہ سطور میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ذکر کے ضمن میں انجمن حمایت اسلام لاہور کا ذکر بھی آیا ہے کہ اس کے سالانہ اجلاس کی صدارت حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی تھی۔ اس موقعہ پر ایک ایسی ہی صدارت کی تفصیل بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس سے حضرت کی جرأت و استقلال، حاضر جوابی، مضبوطیٔ اعصاب اور داد و دہش کا اظہار ہوتا ہے۔ مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی (ف ۱۹۸۲ء، کراچی) کے الفاظ میں واقعہ کچھ یُوں ہے:
’’ایک سال انجمن حمایت اسلام لاہور کے اجلاس کا صدر حضرت پیر صاحب کو بنایا گیا چندے کی اپیل کے لیے مولانا ظفر علی خاں کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہم سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے محترم صدر صاحب ہماری انجمن کو کیا تبرک عطا فرماتے ہیں۔ مولانا ظفر علی خاں نے یہ آغاز اس لیے کیا تھا کہ صدر صاحب زیادہ سے زیادہ ہزار پانچ سو دیں گے اُن کے مقابلے میں دوسرے امیر لوگ اُن سے کہیں بڑھ کر رقم کا اعلان کریں گے تو صاحب صدر خود اپنی خِفت محسوس کریں گے اور تمام لوگ بھی انہیں کچھ حقیر سمجھنے لگیں گے۔ مگر واہ رے درویشِ دانا، جونہی مولانا ظفر علی خان نے کہا کہ چندے کا اعلان صدر صاحب کے اعلان سے ہونا چاہیے، اُسی وقت پیر صاحب کھڑے ہوئے اور فرمایا:
’’ارے بھئی! فقیر کے پاس کیا ہے اور کیا دے سکتا ہے۔ یہاں بڑے بڑے دولت مند چندہ دینے والے بیٹھے ہیں۔ اُن کے سامنے میں اپنی خالی جھولی میں سے کیا نکال کر پیش کرسکتا ہوں، مَیں صرف یہ کَر سکتا ہوں کہ اس وقت آپ سب حضرات اپنے اپنے چندوں کا اعلان کریں یہ سب چندے مل کر جتنی رقم ہے اُتنی رقم تنہا اس فقیر کی طرف سے ہوگی‘‘۔
یہ اعلان ہونا تھا کہ مجمع اچھل پڑا اور حضرت صاحب کو خفیف کرنے کی جتنی اسکیم تھی وہ فیل ہوگئی۔
حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ کی داد و دہش کا ذِکر چلا تو یہاں ایک اور دلچسپ واقعہ بھی سُن لیجیے جو استاذِ گرامی حکیم اہلسنّت حضرت حکیم محمد موسیٰ امر تسری ثم لاہوری رحمۃ اللہ علیہ (ف ۱۹۹۹ء) نے مولوی ضیا احمد کے حوالے سے سنایا۔ مولوی صاحب راوی ہیں کہ:
’’ایک دفعہ مشہور مزاح نگار سیّد احمد شاہ پطرس بخاری، لاہور ریلوے اسٹیشن پر گئے تو خلافِ معمول لوگوں کا انبوہِ کثیر دیکھا کسی سے پوچھا کہ آج کیا بات ہے کہ کثیر القعداد لوگ جمع ہیں، اس نے بتایا کہ آج حضرت پیر سیّد جماعت علی شاہ علی پوری تشریف لا رہے ہیں۔ یہ سب لوگ اُن کے عقیدت مند ہیں اور استقبال کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ اس پر پطرس بخاری کہنے لگے کہ بڑا پیر بنا پھرتا ہے آج دیکھتا ہوں کہ واقعی پیر ہے یا سب کچھ نام و نمود ہی ہے۔ ’’دریں اثنا گاڑی آگئی۔ حضرت صاحب ایک ڈبے سے نمودار ہوئے تو لوگ دیوانہ وار دَست بوسی اور استقبال کے لیے بڑھے۔ پطرس بخاری بھی آگے بڑھے حضرت صاحب ایک قیمتی دوشالہ اوڑھے ہوئے تھے، پطرس صاحب نے جاتے ہی دوشالہ پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ یہ دوشالہ مجھے دے دیجیے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فوراً عنایت کردیا۔ اس پر پطرس صاحب کہنے لگے: ’’واقعی جیسا سُنا تھا ویسا ہی پایا‘‘۔
مارچ ۱۹۰۴ء میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے منظم طریقے سے دینِ متین کی تبلیغ اور سلسلۂ عالیہ کی ترویج کے لیے انجمن خدام الصوفیہ‘‘ قائم کی جس کے مقاصد کی تشریح یُوں کی گئی۔
۱۔ اتحادِ جمیع سلاسلِ تصوّف
۲۔ اشاعتِ اسلام و تصوّف
۳۔ تر دیدِ الزامات خلاف اسلام و تصوّف
۴۔ تر یدِ مذاہبِ باطلہ
اس انجمن کا پہلا جلسہ اُسی سال بادشاہی مسجد لاہور میں ہوا اور متواتر تین سال تک اجتماعات کا مرکز حضرت محی الدین اورنگ زیب عالمگیر شہنشاہِ ہند رحمۃ اللہ علیہ کی بنا کردہ مسجد میں رہنے کے بعد ۱۹۰۷ء سے یہ سلسلہ علی پور سیّداں میں شروع ہوگیا۔ انجمن کے اجلاسوں میں بر صغیر کے ممتاز علماء کرام اپنے مواعظ حسنہ سے مستفید و مستفیض فرماتے اور اکناف و اطراف سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہوکر ایمان تازہ کرتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس انجمن نے فتنۂ ارتداد تحریکِ خلافت، ساردا ایکٹ، تحریک شہید گنج، غازی علم الدین کیس، تحریک پاکستان و دیگر تحریکوں میں جو کردار ادا کیا وہ اسی کا حصّہ ہے۔ اس انجمن کی شاخیں بر صغیر کے طول و عرض میں پھیل گئی تھیں اس کے علاوہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۹۰۴ء ہی میں ماہنا ’’انور الصوفیہ‘‘ جاری کیا تھا تاکہ تحریری میدان میں بھی مذہب و ملّت کی خدمت کی جائے یہ رسالہ پہلے لاہور اور پھر سیال کوٹ سے شائع ہوکر اکناف و اطراف عالم کو اپنی ضیا پاشیوں سے منوّر کرتا رہا۔ بعد ازاں ۱۹۶۱ء سے دسمبر ۱۹۸۴ء تک قصور سے منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوتا رہا۔ رسالہ کے علاوہ انجمن نے بے شمار کتابیں چھاپ کر دنیائے تصوّف میں ایک تاریخ ساز انقلاب برپا کیا۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ دین کے کاموں کا بڑی تن دہی اور فرض شناسی سے انجام دیا کرتے تھے۔ خود فرمایا کرتے تھے کہ ’’جب تک میں دین کا کام نہ کرلوں، ایک لقمہ کھانا بھی حرام سمجھتا ہوں‘‘۔ چنانچہ مرزا قادیانی کی سر کوبی کے لیے آپ کی خدمت نا قابلِ فراموش ہیں۔ مرزا قادیانی کا مقابلہ ہر وقت علماء ظواہر کے ساتھ رہتا تھا۔ اگرچہ وہ اُن سے بھی ہر وقت شکت کھاتا اور ذلیل و خوار ہوتا رہتا تھا۔ مگر ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء کو جب مرزا نے سیال کوٹ میں حضرت امیرِ ملّت رحمۃ اللہ علیہ سے مناظرہ کا ارادہ کیا تو تاب نہ لاکر میدان سے بھاگ کھڑا ہوا اور جس قدر لوگ اُس کی بیعت کے لیے تیار تھے اُس کی یہ ذلّت و رسوائی دیکھ کر بدظن ہوگئےا ور آپ رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے۔
۶؍ مئی ۱۹۰۸ء کو مرزا قادیانی اپنی بیوی کے علاج کے لیے لاہور میں خواجہ کمال الدین کے مکان پر وارد ہوا تو اپنا دامِ دجل و فریب پھیلانا شروع کردیا۔ مسلمانِ لاہور نے حضرت امیر ملّت کی خدمت میں حاضر ہوکر صورتِ حال بیان کر کے لاہور تشریف لانے کی درخواست کی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ لاہور تشریف لائے اور آتے ہی بادشاہی مسجد میں ۲۲؍ مئی کو ایک شاندار جلسہ منعقد کیا جس میں کثیر التعداد علمائے اہلسنت بھی موجود تھے۔ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ سے تعاون کے لیے تشریف فر ما تھے۔
آپ نے اس تاریخی اور عدیم النظیر جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
’’اگر مرزا اپنے دعویٰ نبوّت میں سچّا ہے تو سامنے آکر ثابت کرے اگر مباحثہ نہ کر سکے تو مباہلہ ہی سہی‘‘
مگر چونکہ مرزا اپنے میکائد سمیت حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں ۱۹۰۴ء میں ذلیل و خوار ہوچکا تھا، اس لیے آپ کے سامنے آنے کی جرأت نہ کرسکا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ:
’’ہم نے اس کا بہت انتظار کیا ہے لیکن وہ سامنے نہیں آیا پیش گوئی کرنا میری عادت نہیں لیکن میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ مرزا جی کا خدائی فیصلہ ہو چکا ہے لٰہذا وہ چند دن کے اندر اندر کیفرِ کردار کو پہنچے گا‘‘۔
آپ نے جلسۂ عام میں ہلاکتِ مرزا کی بد دعا بڑے شدوّمد سے کرائی جس میں ہزاروں مسلمانوں نے بیک زبان التجا کی کہ:
’’یا اللہ! اس ابتلائے قادیانی سے اسلام کو رہائی بخش اور مسلمانوں کو راہِ راست پر قائم رکھ‘‘۔
آمین کی صدائیں بلند ہوتی رہیں۔ آخر کار ۲۵؍مئی ۱۹۰۸ء بروز پیر حضرت امیر ملت رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد کیا کہ مرزا جی چوبیس گھنٹے کے اندر اندر دنیا سے رخصت ہوجائیں گے۔ یہ بات حضرت نے رات دس بجے ارشاد فرمائی اور ۲۶؍ مئی کو صبح دس بجکر دس منٹ پر مرزا جی آنجہانی ہوگئے۔ مرنے سے چھ گھنٹے قبل زبان بند ہوگئی۔ خدا جانے ہیضہ تھا یا کچھ اور، نجاست منہ سے نکلتی رہی اور اسی حالت میں خاتمہ ہوگیا۔ مرزا جی کی تاریخِ وفات ہے۔
لَقَدْ دَخَلَ فِیْ قَعَرِ جَہَنَّمَ (۱۳۲۶ھ)
جس وقت آپ نے مرزا جی کی موت کی پیش گوئی فرمائی تو لوگوں نے اُسے اہمیّت نہ دی مگر جب پُوری ہوگئی تو حد درجہ حیران ہوئے۔ اس پیش گوئی کا مرزائیوں نے آج تک ذکر نہیں کیا۔
۱۹۱۰ء میں جب خلیفۂ اسلام سلطانِ ترکی غازی عبدالحمید خاں مرحوم نے حجاز ریلوے لائن کی تعمیر کے لیے مسلمانانِ عالم سے چندہ کی اپیل کی تو اُس وقت آپ نے اپنے اور اپنے متوسلین کی جانب سے چھ لاکھ روپیہ نقد کی امداد فرمائی۔ بنا بریں سلطان المسلمین نے اپنے دستخطِ خاص کے ہمراہ حضرت کو پانچ تمغے خوشنودی کے اظہار کے لیے بھیجے اور شاہی فرامین میں آپ کو ’’عمدۃ الا ماثل والا فاضل‘‘ کے معزز القاب اور خطاب سے سر فراز فرمایا۔
مُسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے لیے جب چندہ جمع کرنے کی مہم شروع ہوئی تو لاہور میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا۔ نواب وقار الملک (ف ۱۹۱۷ء) نے دورانِ تقریر اپنی ٹوپی اتار کر حضرت کے قدموں میں رکھ دی اور پُر نم آنکھوں کے ساتھ اپیل کی کہ ’‘معاملہ مسلمانوں کی حمیّت و وقار کا ہے آپ ہاتھ بٹائیں‘‘۔ آپ نے استفسار فرمایا کہ یونیورسٹی میں دینیات کی تعلیم لازمی ہوگی؟ تو نواب وقار الملک نے یقین دلایا کہ انگریزی کے ساتھ ساتھ دینیات کی تعلیم بھی لازمی ہوگی اور پھر یونیورسٹی کی مساجد میں پنج وقتہ نمازوں میں تمام طلبہ کی حاضری لازمی ہو گی۔ اس پر آپ نے تین لاکھ روپیہ کی گرانقدر رقم چندہ میں دی اور بعد ازاں بھی معاونت فرماتے رہے چنانچہ سب جانتے ہیں کہ علی گڑھ کی ہمیشہ یہ خصوصیّت رہی ہے کہ وہاں نماز کی باقاعدہ حاضری ہوتی تھی اور دینیات کی تدریس کا خصوصی اہتمام ہوتا تھا۔ حضرت مولانا سیّد سلیمان اشرف بہاری (ف ۱۳۵۲ھ) جیسے علماء کرام دینیات کی تعلیم کے نگران تھے۔ یہ سب حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ کا ہی فیض تھا۔ حضرت امیرِ ملّت رحمۃ اللہ علیہ کے مرید خاص اور بر صغیر کے نامور فلاسفی ڈاکٹر سیّد ظفر الحسن[۱] (ف ۱۹۴۹ء) کا علی گڑھ یونیورسٹی میں اسلامی خدمات کا سر انجام دینا بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔
[۱۔ ڈاکٹر سید ظفرالحسن ۱۴؍ فروری ۱۸۷۹ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ سے ایم اے (فلسفہ کرنے کے بعد جرمنی سے فلسفہ کے مضمون REALISM پر پی۔ایچ۔ڈی کی۔ پھر علی گڑھ میں اُستاد ہوگئے۔ آپ کی شادی بر صغیر کی نامور شخصیت میر غلام بھیک نیرنگ کی صاحبزادی سے ہوئی۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں تبلیغِ اسلام اور تحریک پاکستان میں آپ کی خدمت بے بہا ہیں۔ ۱۹؍جون ۱۹۴۹ء کو راولپنڈی میں وفات پائی اور لاہور میں قبرستان میانی صاحب میں دفن ہوئے۔ تفصلی حالات کے لیے احقر کی کتابیں ’’فدایانِ امیر ملّت‘‘ اور ’’تحریک پاکستان اور علماء کرام‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ (قصوری)]
۱۹۱۴ء میں حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تحریکِ ترکِ موالات‘‘ کی مخالفت کی اور اعلان فرمایا کہ:
’’ہندو مُردے کو جلا کر خاک کر دیا جاتا ہے اور خاک ہوا میں اُڑ جاتی ہے، اگر مسلمان مرے تو دو گز زمین تا قیامت اُس کی ملکیّت ہوتی ہے۔ مسلمانو! ہجرت نہ کرو، آپ کا وطن آپ کا جَدّی ورثہ ہے، اسے ہاتھ سے نہ جانے دو‘‘۔
مگر پھر بھی دو لاکھ کے قریب مُسلمان بہک کر افغانستان اور عرب ممالک میں جا پہنچے اور پھر پریشان حالت میں واپس ہندوستان آئے۔ اس مقام پر یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خاں بریلوی (ف ۱۹۲۱ء) بھی اس مسئلہ میں آپ کے ہمنوا تھے۔
تحریکِ خلافت میں آپ نے جان جوکھوں میں ڈال کر حصّہ لیا۔ اس تحریک میں آپ نے جِس قدر خدمات سر انجام دیں شاید بانیانِ تحریک نے بھی نہ دی ہوں گی۔ آپ نے بجلی کی سی سرعت و تیزی کے ساتھ تمام ملک کا دورہ کیا، خلافت فنڈ میں لاکھوں روپے چندہ دیا۔ دورانِ تحریک اُن علاقوں کا بھی دورہ کیا، جہاں تک پہنچنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی تھا مثلاً ریاست کو رک (علاقہ مدراس) مکارا، ویر اجندر، پیٹ اسّی، بلگنڈا اور کوہِ نیلگڑھی وغیرہ وغیرہ۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ بمبئی سے حیدر آباد دکن کے لیے روانہ ہو رہے تھے کہ مولانا شوکت علی اور احمد صدیق جنرل سیکرٹری خلافت کمیٹی آپ کو الوداع کہنے کے لیے اسٹیشن پر آئے تو مولانا موصوف نے آپ کو ایک جھُولا پہنایا جس پر لفظ ’’خلافت‘‘ اور ’’تمغہ‘‘ جس پر’’ نَصْرٌمِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِیْب‘‘ کندہ تھا، پیش کیا اور کہا کہ میرے پاس صرف یہی چیز تھی جسے پیش کرتا ہوں۔ برگ سبز است تحفۂ درویش۔ اس کے ساتھ خلافت کمیٹی کی طرف سے پانچ سو روپے (۵۰۰) کی رسیدیں بھی دیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے رسیدوں کو حیدر آباد میں فروخت کردیا اور پانچ سو کے بجائے پانچ سو بیس روپیہ خلافت کمیٹی حیدر آباد کی وساطت سے بمبئی روانہ فرما دیے، جس پر مولانا شوکت علی نے کہا کہ ’’مجھے اصل بھی مل گیا ہے اور سُود بھی‘‘۔
ایک بار مولانا شوکت علی نے یہ تحریک پیش کی کہ ہندوستان کے ہر مسلمان سے ایک روپیہ فی کس کے حساب سے خلافت فنڈ وصول کیا جائے تو آپ نے نیلگڑھی (علاقہ میسور کا ایک دُور افتادہ مقام) سے اپنا اور اپنے تمام متعلقین کا چند بحساب ایک روپیہ فی کس بمبئی بھیج دیا اور ساتھ ہی یہ اعلان جاری فرمایا کہ:
’’فقیر کے سب محبّت والے ایک ایک روپیہ فی کس اپنا اور اپنے متعلقین کا چندہ خلافت فنڈ میں داخل کریں‘‘۔
مولانا شوکت علی نے اس اعلان کو تمام ملک میں مشتہر کردیا۔ جس کے نتیجے کے طور پر ہندوستان کے گوشے گوشے سے زرِ کثیر موصول ہوا۔ اس کے علاوہ آپ کے اکثر معتقدین نے تن تنہا ہزروں روپے خلافت فنڈ میں دیے۔ چنانچہ نُورانی سیٹھ آف بمبئی نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد پر پچیس ہزار (۲۵۰۰۰) روپے اور اہالیان کوہاٹ نے ستائیس ہزار روپیہ کی گرانقدر قومات خلافت فنڈ میں پیش کیں۔ لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ہرگز ہرگز یہ گوارا نہ فرمایا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد پر عامتہ المسلمین تو عمل کریں اور خود اس کا رِخیر کے ثواب میں شامل نہ ہوں۔ چنانچہ سالانہ جلسہ انجمن خدام الصوفیہ ہند منعقدہ علی پور سیّداں شریف کے موقع پر ایک دفعہ تیرہ سو روپے ملک لال دین سیکرٹری خلافت کمیٹی لاہور کی وساطت سے اور دوسری دفعہ اٹھارہ سو روپے کی گرانقدر رقم جیب خاصِ سے خلافت فنڈ میں دی۔
۳؍۴؍ مارچ ۱۹۲۱ء کو لائل پور (حال فیصل آباد) میں ڈسٹرکٹ خلافت کانفرنس منعقد ہوئی تو حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی صدارت قبول فرمائی اور اپنے خطبۂ صدارت میں فرمایا کہ:
’’جس کو خلافت سے محبت نہیں ہے، اُسے اسلام سے کوئی سروکار نہیں ہے، جو لوگ مجھ پر بہتان باندھتے ہیں کہ میں خلافت میں دلچسپی نہیں لیتا وہ کذّاب اور مفتری ہیں، پڑھو لوگو لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ
چنانچہ سب مسلمانوں نے پڑھا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فی البدیہہ خطبہ[۱] صدارت میں پُر جوش اور درد انگیز کلمات سے عوام و خواص کے دلوں کو مسخر کرلیا۔ عوام خدمتِ خلافت کے لیے ایسے کمربستہ ہوئے کہ ہزاروں کے خلافت نوٹ آن کی آن میں فروخت ہوگئے۔
[۱۔ حضرت اقدس رحمۃ اللہ علیہ کا یہ عدیم النظیر تاریخی خطبہ ’’سیرت امیر ملّت‘‘ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ (قصوری)]
مولانا ظفر علی خاں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ سے بھر پُور مخالفت (مولانا ظفر علی خاں چونکہ اہلحدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے بدیں وجہ وہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے شدید مخالف تھے۔ قصوری) کے با وجود اپنے اخبار ’’زمیندار‘‘ مورخہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۲۱ء میں آپ کو یُوں ہدیہ تبریک پیش کیا۔ انہوں نے لکھا کہ:
۳؍ ۴؍ مارچ ۱۹۲۱ء کو لائل پور میں عظیم الشان جلسۂ خلافت منعقد ہوا، اُس میں پنجاب کے مشہور و معروف صوفی حضرت پیر سیّد جماعت علی شاہ صاحب قبلہ صدر تھے۔ آپ نے اپنے فی البدیہہ خطبہ صدارت میں جس بے نظیر جرأتِ ایمان اور جوش اسلامی سے مسلمانانِ عالم کی صحیح رہنمائی فرمائی ہے وہ اس قابل ہے کہ ہمارے تمام مشائخ اور پیر زادگان اس سے سبق حاصل کریں، آپ نے اپنے خطبہ صدارت میں اُن تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کردیا ہے جو بعض سیاہ باطن لوگ حضرت محدوح کے متعلق پھیلاتے تھے اور صاف صاف کہہ دیا ہے کہ جو مسلمان خلافت سے محبّت نہیں رکھتا وہ بے ایمان ہے۔
اور ہر گز مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مَیں خلافتِ اسلامیہ اور مقاماتِ مقدسہ کے لیے اپنی جان تک نثار کرنے کو تیار ہوں اور میرا جو مرید تحریکِ خلافت میں حصّہ نہیں لیتا اُس کو میں یارانِ طریقت میں سے نہیں سمجھتا کیونکہ ’’خلافت‘‘ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جو مسلمان، خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت سے بیزار ہے یا بعض دنیاوی مصلحتوں کے پیش نظر صداقت سے خوف کھاتا ہے، وہ میرے نزدیک مسلمان نہیں ہے۔
ہم حضرت قبلہ شاہ صاحب کی خدمت میں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں کہ: خدائے بزرگ و برتر نے حضرت محدوح کو کلمۃ الحق اور صداقت کی وہی جرأت عطا کی ہے جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کا طرّہ امتیاز تھی۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ جیسی متقی شخصیّت، متشرع عالم اور پیشوا کی رہنمائی سے تحریک خلافت کو عظیم الشان تقویت پہنچے گی۔ اور دیگر مشائخ عظام میں بھی اپنی سنہری اور روپہلی مصلحتوں اور طواغیّتِ باطلہ کے خوف کو بالا نے طاق رکھ کر خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آجائیں گے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ پنجاب خلافت کانفرنس عنقریب راولپنڈی میں منعقد ہونے والی ہے۔ اس کی صدارت بھی کسی روشن ضمیر بزرگ کی خدمت میں پیش کی جائیگی اگر انہوں نے منظور کی تو یقیناً مسلمانانِ پنجاب کی خوش قسمتی ہوگی۔ (یاد رہے کہ راولپنڈی کانفرنس کی صدارت بھی حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ ہی نے فرمائی تھی۔ (قصوری)
اگر ملک کے تمام مشائخ عظام اور پیر زادگان حضرت حافظ جاجی پیر جماعت علی شاہ علی پوری کی تقلید کریں اور خلافتِ اسلامیہ کی حمایت و اعانت پر کمربستہ ہو جائیں تو خلافت اور آزادیٔ وطن کے تمام مسائل کا حل بہت جلد ہوسکتا ہے۔ ہم حضرت محدوح کا پُورا خطبۂ صدارت عنقریب ہی کسی آئندہ اشاعت میں شائع کریں گے۔
مولانا شوکت علی نے اس خطبہ کی پچیس ہزار کاپیاں انگریزی میں ترجمہ کر کے یورپ بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا مگر معلوم نہیں کہ بعد میں کیا ہوا۔ دورانِ تقریر جب مولانا شوکت علی نے دریافت کیا کہ:
’’کوئی ہے جو راہِ خدا میں اپنی جان فِدا کرے‘‘۔
تو اس وقت بارہ ہزار کے مجمع میں سے صرف حضرت قبلہ ہی کھڑے ہوئے تھے اور آپ نے نہایت جاہ واستقلال سے فرمایا کہ تھا کہ:
’’میں حاضر ہوں اور راہِ خدا میں اپنی جان فدا کرنے کو تیار ہوں‘‘
مولانا شوکت علی نے آپ کے ایثار کی بے حد تحسین کی اور آپ کو’’سنوسئ ہند‘‘[۱] کے لقب سے یاد کیا۔ آپ کی اس اُولوالعزمی اور سر فروشی کا حال معلوم کرکے شملہ میں ایک بزرگ نے کہا کہ:۔
[۱۔ حضرت شیخ احمد شریف سنوسئ، طرابلس(لیبیا) کے مشہور شیخ طریقت اور کفن بردوش مجاہد تھے۔ آپ تازلیت فرنگی سا مزاج کے خلاف جہاد کرتے رہے۔ آپ کی اسلام دوستی، انگریز دشمنی اور حب الوطنی ضرب المثل تھی۔ ہر سُو آپ کے کارناموں کا شہرہ تھا۔ آپ حضرت امیرملّت کے معاصر تھے۔ چونکہ امیر ملّت بھی اس دور میں برصغیر کی سیاست، طریقت اور روحانیت کے میدان میں انقلابی کردار ادا کررہے تھے، اس لیے مولانا شوکت علی نے آپ کو’’ شیخ سنوسی‘‘ کی نسبت سے’’سنوسئ ہند‘‘ کے لقب سے پکارا۔ (قصوری)]
’’واقعی آپ کو’’سنوسئ ہند‘‘ کا لقب زیب دیتا ہے‘‘
تحریکِ خلافت میں آپ کی روزافزوں سرگرمیوں سے حکومت کے اخبار’’سول اینڈ ملڑی گزٹ‘‘ لاہور نے بڑی بُوکھلاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ:۔
’’حکومت کو گاندھی جی کا اِس قدر خطرہ نہیں ہے جِس قدر پیر جماعت علی شاہ صاحب کا ہے‘‘
اُن دنوں آپ حیدرآباد دکن میں جلوہ افروز تھے۔ مرزا محمداصغر بیگ المخاطب بہ اصغر یارجنگ بیر سٹر ودیگر ارکانِ خلافت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جلسئہ خلافت کی صدارت کے لیے درخواست کی جسے آپ نے قبول فرمایا حالانکہ اُسی روز واپسی کا ٹکٹ خریداجاچکا تھا۔ حضرت نے ٹکٹ واپس کردیا اور بڑی جرأت اور عزم وہمت سے کام لیتے ہوئے صدارت فرمائی۔ اس جلسہ میں نامور لیڈروں نے شرکت کی۔ آپ نے جس انداز سے صدارتی تقریر کی، اُس کی مثال ناپید ہے۔ آپ کی تحریک پر تیس ہزار(۳۰۰۰۰) روپے چندہ جمع ہوا۔
گوجرہ، ضلع لائلپور میں سیّد مہدی شاہ سرکاری درباری آدمی تھے۔ اُن کے رُعب، اثرورسوخ اور دبدبے کی وجہ سے ارکانِ خلافت شہر میں داخل نہیں ہوتے تھے۔ آپ کو صورتِ حال کا علم ہوا تو خود بنفس نفیس تشریف لے گئے اور اپنے ہمراہ غازی عبدالرحمٰن سیکریٹری خلافت کمیٹی لائلپور(حال فیصل آباد) کو لے جاکر خلافت کمیٹی قائم کرکے عہدیدار مقرر کئے۔ اسی طرح کوہاٹ میں آپ کی تحریک پر۲۷ ہزار روپیہ جمع ہوا۔ جب حکومت نے محسوس کیا کہ آپ کی شبانہ روز کوششوں سے خلافت کا نفرنس کا شجر بارآور ہورہا ہے تو آپ کو صوبہ سرحد سے۲۴ ∕ گھنٹے کے اندر نکل جانے کا حکم دیا گیا۔ بلوچستان میں داخلہ بند کردیا گیا اور کشمیر میں دوسال تک داخلہ کہ اجازت نہ دی گئی۔ ذرااندازاہ فرمائیے کہ حکومت اس مردِ حق سے کس قدر خائف تھی۔
آئینِ جوانمرداں حق گوئی دبے باکی |
|
اللہ کے شیروں کی آتی نہیں روباہی |
۱۹۲۱ء میں سارداایکٹ کا نفاذ ہوا جس کی رو سے نابالغ بچوں کہ شادی ممنوع قرار پائی۔ جس دن اس ایکٹ کا نفاذ ہوا۔ حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ میسور میں جلوہ افروز تھے۔ آپ کو یہ غیر ضروری قدغن ناگوار گزری۔ آپ نے اس ایکٹ کی پابندی کو قبول نہ کرتے ہوئے متعدد نکاح پڑھائے اور ٹیلیفون پر پولیس کو اطلاع دیدی کہ میں نے اتنے نکاح پڑھا کر قانون توڑدیا ہے۔ حضرت کے اس ارشاد پر ہندوستان میں ہزاروں نکاح پڑھائے گئے اور فرنگی حکومت کے اس دل آزار اور اسلام دشمن قانون کی دھجیاں بکھر گئیں۔ مجبور ہوکر حکومت کو اس ایکٹ میں ترمیم کرنا پڑی۔ حضرت کے اس طرح فولادی چٹان بن کر مقابلہ کرنے سے یہ غیر شرعی اور مذموم قانون جاری نہ رہ سکا۔ حکیم الامت اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے یوں ہی نہیں کہ دیا تھا کہ
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم |
|
رزم حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن |
۱۹۲۳ء میں جب صوبہ یوپی(انڈیا) میں شدھی تحریک کا آغاز ہوا تو چند ہندوسرمایہ داروں نے اور بالخصوص سوامی شردھانندےنے انگریز حکمرانوں کی سازش سے مسلمانوں کو مرتد بنانے کی اسکیم بنائی۔ اس صورت حال سے حضرت امیرملّت رحمۃ اللہ علیہ کو سخت صدمہ پہنچا۔ آپ نے اس فتنہ کے انسدادو استیصال کا مصمّم ارادہ کرلیااور ۱۰؍ اپریل ۱۹۲۳ء کے سالانہ اجلاس انجمن خدام الصوفیہ ہند منعقدہ علی پور سیّداں میں اپنے تاثرات، غرائم اور پروگرام کا یوں اظہار فرمایا کہ:
’’یہ ایک ایسا نازک موقع ہے کہ اس کی نظیر تاریخ اسلام میں نہ ملے گی اسلام کی دنیاوی وجاہت کو نہیں تاکا جاتا بلکہ سِرے سے اسلام کی ہستی پر زور لگائی جاتی ہے۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہے جس کا دل اس صدمے سے متاثر نہ ہوا ہو۔
بانئِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ حکم ہے کہ اپنے مُردے بھی اغیار کے ہاتھوں میں نہ جانے دو اور یہاں یہ حالت ہے کہ ہمارے زندوں کو اغیار لیے جائیں اور ہم دیکھا کریں۔
ببیں تفاوتِ راہ ازکجا است تابکجا
اس وقت حمیّت تو یہ ہے کہ جب تک اس فتنہ کا انسداد نہ ہو ہر مسلمان اپنے اوپر خواب وخور حرام سمجھے اور دامے، درمے، قلمے، قدمے، سُخنےالغرض ہر ذریعہ سے جو خدمت اسلام کی اس سے ممکن ہو اس سے دریغ نہ کرے اور جب تک یہ فتنہ فرو نہ ہوجائے اپنی سعی کو مسلسل جاری رکھے۔ میں نے عزم بالجزم کرلیا ہے کہ اس اہم مقصد کی خاطر سینکڑوں مبلغ میدانِ ارتداد میں بھیجوں گا اور خود بھی موقع پر پہنچ کر حصہ لوں گا، اور جب تک گمَکشتگانِ دین متین کو حلقہء اسلام میں واپس نہ لے آؤں، چَین سے نہ بیٹھوں گا۔ سرِد ست مبلغ گیارہ (۱۱۰۰) سو روپے نقد دیتا ہوں اور سو روپیہ (۱۰۰) ماہوار اس کارِخیر میں دیتا رہوں گا۔ اور اپنے تمام ذرائع ووسائل کو انسدادِفتنۂ ارتدادکے لیے وقف کردوں گا۔‘‘
اس اعلان کے فوراً بعد آپ نے اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے مہم شروع کردی۔ آپ کے صاجزادگان ودیگر اہلِ خاندان نے بھر پور کردار ادا کیا۔ آپ نے پہلا وفد۲۱ مئی۱۹۲۳ء کو روانہ کیا اور خود رُہتک شہر تک اس کے ساتھ تشریف لے گئے۔ تین ماہ میں آپ نے۸۶ وفد بھیجے جن میں خلفِ اکبر سراج الملّت حضرت صاحبزادہ پیر سیّد محمد حسین شاہ صاحب (ف۱۹۶۱ء)، خلف ِاصغر شمس الملّت صاحبزادہ سیّد نور حسین شاہ صاحب (ف۱۹۷۸ء)، مولانا غلام احمد اخگرامر تسری (ف۱۹۲۷ء)، مولانا قاضی حفیظ الدین رہتکی (ف۱۹۴۴ء)، مولانا محمد حسین قصوری بی۔ اے (ف۱۹۲۷ء)، مولانا امام الدین رائے پوری (ف۱۹۵۲ء)، مولانا قاضی عبدالمجید قصوری (ف۱۹۵۶ء)، جیسے علماء وفضلاء اور مناظر سبھی لوگ شامل تھے۔
اللہ کے فضل و کرم سے آپ کی کوشش بار آور ثابت ہوئیں اور ہزاروں مرتد دوبارہ داخلِ اسلام ہوگئے۔ آپ نے باری باری تمام متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ آگرہ، ہتھرا، ریاست بھرّت پور ریاست بڑودہ، گانواں، فرخ آباداور رُہتک میں وفود کے ساتھ شب وروز کام کیا۔
دوانہ گنگ وجمن علاقہ بّرج میں آگرہ شہر سے ایک ہزار بااثر ہندووکلاء، بیرسٹر، بڑے بڑے تاجراورزمیندار موٹروں اور تانگوں کے ذریعے سکندر پورہ پہنچے اور مسلمانوں کو مرتد بنانے کی پوری پوری کوشش کی۔ آپ نے مردانہ وار مقابلہ کرکے ان کو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اس طرح علاقہ مذکورہ اس عظیم فتنہ سے محفوظ رہا۔ اس تحریک کے دوران آگرہ آپ کا ہیڈکوارٹر تھا۔ آپ نے اکیس جلسوں کی صدارت خود فرما کر فتنہ مذکورہ کو کچل دیا۔ کئی دینی مدارس، مسجدیں اور کنویں بنوائے۔ لاکھوں روپیہ غرباء میں تقسیم کر کے انہیں دولت اسلام سے محروم ہونے سے بچالیا۔ بڑی زیادتی ہوگی کہ اگر اس مقام پر اس تحریک کے دوران آپ کے سرفروش ار جانثار ساتھیوں کا ذکر نہ کیا جائے۔ حضرت صدرالافاضل مولانا سیّد محمد نعیم الدین مردآبادی (ف۱۹۴۸ء) میر غلام بھیک نیرنگ (۱۹۵۲ء) ودیگر حضرت نے بھی آپ کے ساتھ پورا پورا تعاون کیا۔
۱۹۲۵ء میں آل انڈیا سنّی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں برصغیر کے طول وعرض سے ہزاروں علماء ومشائخ اور لا تعداد عوام اہلسنت نے شرکت کر کے دہر میں اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اجالا کرنے کا عہد کیا اور پروگرام کی تشکیل ہوئی۔ آپ کو بااتفاق رائے صدر منتخب کیا گیا۔ آپ نے معرکۃالآرا فی البدیہہ خطبۂ صدارت میں اسلام کی حقانیت، تبلیغ، عیسائی مشینریوں کا مقابلہ کرنے اہلسنت کے حقوق کی حفاظت اور دیگر ضروری اُمور کا تفصیل سے ذکر کیا اور عوام اہلسنت کو متحرک، فعال اور منظم کرنے کے لیے تجاویز پیش کیں۔
۱۹۳۵ء میں مسجد شہید گنج کی تحریک چلی تو آپ تن من دھن کی بازی لگا کر میدان میں آئے۔ مسجد کی داگزاری کے لیے یکم؍ستمبر کو راولپنڈی میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں آپ کو امیرملّت اور مولانا محمد اسحاق مانسہروی کو نائب امیرملّت منتخب کیا گیا۔بیعتِ امارت سب سے پہلے علامہ عنایت اللہ المشرقی (ف۱۹۱۲ء) نے کی۔
امیرملّت منتخب ہونے کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل اعلان جاری فرمایا:
۱۔ مجھے ایک لاکھ سرفروش جانباز درکار ہیں۔
۲۔ ایک روپیہ فی کس کے حساب ایک لاکھ روپیہ بیت المال کے لیے درکار ہے۔
۳۔ تمام بازاری عورتیں پیشہ ترک کردیں اور شرعی نکاح کر کے رمضان المبارک سے پہلے پہلے گھروں میں بیٹھ جائیں۔
۴۔ مسلمان تجارت اپنے ہاتھ میں لے لیں۔
رات کو مسجد انگورامحلہ امام باڑہ راولپنڈی میں آپ کی صدارت میں ایک سو سے زائد نمائندگانِ قوم کا اجتماع ہوا اور آپ کی باوقار قیادت میں انگریز حکمرانوں سے ٹکر لینے کا بااتفاق رائے فیصلہ ہوا۔تمام پولیس کو اجلاس سے باہر نکال دیا گیا تو ڈی سی (D.C.) کا حکم آیا کہ ڈی ایس پی (D.S.P.) لازماً اجلاس میں شریک رہے گا ورنہ ہم طاقت استعمال کریں گے۔ اس موقع پر حضرت امیرملّت نے کس قدر جرأت و پا مردی کا ثبوت دیا۔ اس کی مثال شاذ ہی ملتی ہے۔ تحریک پاکستان کے نامور سپاہی سیّد غلام مصطفےٰ خالد گیلانی آف راولپنڈی اپنے ایک مضمون مطبوعہ ماہنامہ انوارالصوفیہ، قصور بابت اگست ۱۹۷۵ءصفہ نمبر۳ پر لکھتے ہیں کہ:
’’یہ مرحلہ امیرملّت بننے کے چند گھنٹے بعد پیش آیا۔ اس آزمائش میں تمام ذمہ داری حضرت امیرملّت رحمۃ اللہ علیہ پر ڈال دی گئی اور حضرت نے ایک عظیم مجاہد کی طرح اپنے نیلی پوش کفن بردوش رضا کاروں کو حکم دیا کہ اجلاس میں موجود ڈی ایس پی خفیہ پولیس کو مسجد انگورا کی حدود نے خارج کردیا جائے۔ پھر دیکھا جائے گا کہ انگریز کیا کرتا ہے۔ الغرض حکم کی تعمیل کی گئی اور ڈی ایس پی کو مسجد کی حدود سے نکال باہر کیا۔ اس جرأت مندانہ اقدام سے اجلاس میں غیر معمولی جوش وخروش پیدا ہوگیا اور تمام لیڈروں نے امیرملّت کے حکم پر کٹ مرنے کی بیعت کی‘‘۔
اس کے چند روز بعد لاہور میں گولی چلنے کی خبر پہنچی تو آپ بے چین ہوگئے۔ کیونکہ
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر |
|
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے |
(امیر مینائی)
اخوّت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں |
|
تو ہندونستان کا ہر پیروجواں بیتاب ہوجائے |
(اقبال رحمۃ اللہ علیہ)
آپ فوراً عازم لاہور ہوئے۔ جب راولپنڈی اسٹیشن پر پہنچے تو مسلمانوں میں بہت جوش وخروش پیدا ہوا۔ فضانعرۂ تکبیر ورسالت سے گونج اٹھی۔ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے آپ کو روکنا چاہا مگر ایس پی نے اسے سمجھایا کہ راولپنڈی کو لاہور نہ بناؤ اور حضرت کو لاہور جانے دو۔ لاہور والے جانیں اور ان کا کام۔ حضرت اقدس ٹرین پر سوار ہوکر بادامی باغ لاہور کے اسٹیشن پر اترے اور سیدھے کوچہ فقیر خانہ پہنچ گئے۔ باقی ہمراہی لاہور ریلوئے اسٹیشن پر جااُترے۔
۸؍نومبر۱۹۳۵ء کو بادشاہی مسجد لاہور سے آپ کی قیادت میں پانچ لاکھ جانبازوں کا ننگی تلوار کے ساتھ شاندار اور عدیم النظیر جلوس نکلا جس کا نظارہ چشمِ فلک نے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ جب آپ صحن مسجد سے جلوس کی قیادت کے لیے اترے تو مسلمان دیوانہ وار خیر مقدم کے لیے آپ کی طرف لپکے۔حکومت اور غیر مسلموں کو خدشہ تھا کہ کہیں فساد نہ ہوجائے لیکن نظام ایک مرد حقیقت آگاہ کے ہاتھ میں تھا لہٰذا فساد کیسے ہوسکتا تھا۔یہ جلوس بخیروخوبی دہلی دروازہ پہنچ کر ختم ہوگیا۔
اس عدیم المثال جلوس میں حضرت اقسدس کے صاجزادگان اور متوسلین کے علاوہ برصغیر کی مشہور شخصیتوں مثلاً مولانا حامد رضا خاں بریلوی (ف۱۹۴۳ء) حضرت شاہ عبدالقدیر بدایونی (ف۱۳۷۹ھ) حضرت مخدوم سیّد صدرالدین گیلانی ملتانی (ف۱۹۴۶ء) مولانا شوکت علی (ف۱۹۳۸ء) ڈاکٹر خاں صاحب (ف۱۹۵۸ء) ڈاکٹر محمد عالم بیرسٹر (ف۱۹۴۷ء) ملک لال خان(ف۱۹۷۶ء) میر غلام بھیک نیرنگ (ف۱۹۵۲ء) مولانا مظہر الدین شیرکوٹی ایڈیٹر’’الامان‘‘ دہلی (ف۱۹۳۹ء) خالد لطیف گابا (ف۱۹۸۱ء) میاں محمد صادق ایم ایل سی امر تسری (ف؟؟؟۱۹ء) حاجی رب نواز خاں میونسپل کمشنر قصور (ف۱۹۶۳ء) نے شرکت کی۔
دہلی دروازہ کے باہر رات کو عظیم الشان جلسۂ عام منعقد ہوا جس میں مختلف مقررین کے بعد آپ نے عدیم المثال خطبۂ صدارت ارشاد فرمایا جو درجہ ذیل ہے:
’’میرے عزیزو ! میں جانتا ہوں کہ تمہارے دل شہید گنج کی شہادت کی وجہ سے مجروح ہیں اور آپ اس کی واگزاری کے لیے مضطرب ہیں اور چاہتے کہ وہاں دوبارہ نعرۂِ تکبیر بلند ہو۔ اگر آپ اتفاق اور یک جہتی سے کام کریں گے تو کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ میں نے اجمیر شریف اور دیگر مقامات کا سفر کر کے اپنے خیالات پیش کیے۔ کانپور کی جمعیتِ علماء کے اجلاس میں شرکت کی جہاں تمام اکابرِ قوم جمع ہوئے۔ فقیر نے دوسرے شہروں میں دورے کیے اور وہاں کے مقتدر مسلمانوں، پنجاب کے مسلمانوں کا نقطۂ نظر پیش کیا۔ مقامِ شکر ہے کہ فقیر نے ہر مسلمان کو اپنا ہمنوا پایا۔ فقیر کو امید ہے کہ مسلمان اپنے مدّعا میں کامیاب ہوں گے۔ فقیر نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مسلم اخبارات کی ضبط شدہ زر ضمانت کی واپسی، نظر بندانِ اسلام کی غیر مشروط رہائی اور مسجد شہیدگنج کی واگزاری منظور کرے۔فقیر کو اس امر کا سخت صدمہ ہے کہ حکومت نے ابھی تک مسلمانوں کے مطالبات پر توجہ نہیں دی۔ یہ مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے جس میں صوفیائے کرام اور گوشہ نشین آگئے ہیں اور یہ تحریک کبھی ختم نہ ہوگی۔ مسلمانوں کے دلوں میں جو ناسُور پیدا ہوچکا ہے اس کا اندمال مسجد کی واگزاری سے یہ ہوسکتا ہے۔ ہم نے حکومت کے ایماء پر قانونی کاروائی بھی شروع کردی ہے اور دیوانی دعوے شروع کردیے ہیں جن کی پیروی ڈاکڑ محمد عالم صاحب کر رہے ہیں اب ہمیں دیکھنا ہے کہ حکومت اپنا وعدہ کس شکل میں پورا کرتی ہے اور اس سلسلہ میں وہ کیا کچھ کر رہی ہے۔
عزیزو! فقیروں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ دس لاکھ والنٹیر بھرتی کرو، بیت المال کا قیام امن میں لاؤ اور دارالقضاۃ کی تکمیل کرو۔ میں خوش ہوں کہ میری صداپر تم لبیک کہہ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہورہے ہو، یہ کام جاری ہے مگر ارکانِ حکومت کی طفیل تسلّیاں تساہل برتنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ میں تمہارا فرض یاد دلاتا ہوں کہ میرے حکم کی تعمیل کرو، جو کچھ ہورہا ہے، ہونے دو اور جو ہوگا تمہارے سامنے آجائے گا، کسی امیدِموہُوم پر نہ بیٹھے رہو، اپنا کام کیے جاؤ، اللہ تمہارے ساتھ ہے‘‘۔
حضرت اقدس کے اس ایمان افروز اور باطل سوز خطاب کے بعد قراردادیں منظور کی گئیں اور پھر دعائے خیر کے ساتھ جلسہ اختتام پذیر ہوا۔
تحریک شہیدگنج میں آپ کی سرفروشانہ خدمات سے متاثر ہوکر مولانا عبدالمجید سالک (ف۱۹۵۹ء) مدیر ’’انقلاب‘‘ لاہور نے یہ شعر کہاتھا۔
چلے پیر طریقت بھی کفن باندھے ہوئے سر سے |
|
جنودِ کفر سے اسلام کی پیکار ہے ساقی |
تحریکِ پاکستان میں قائداعظم اور مسلم لیگ کو آپ کا پورا پورا تعاون حاصل رہا۔ ۱۹۳۸ء میں جب بڑے بڑے جبّہ ودستار پوش علماء، انگریز حکومت اور کانگریز کے حاثیہ برداربن کر’’ملّت از وطن است‘‘ کا نعرہ لگارہے تھے تو آپ نے ببانگِ دہل مسلم لیگ اور نظریۂ پاکستان کی حمایت کی اور قائداعظم کو مکمل تعاون کا یقین دلایا جس کی پاداش میں آپ کو گاناگوں مخالفتوں، تکلیفوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
۱۹۳۹ء میں جب کانگرس کے سیاسی مقابلے میں مسلم لیگ کو فتح نصیب ہوئی اور کانگرس وزارت سے مستعفی ہوگئی تو حضرت قائداعظم نے جمعۃالمبارک۲۳؍ستمبر۱۹۳۹ء کو’’ یوم نجات‘‘ قرار دے کر اسلامیانِ ہند سے بعد نماز جمعہ بارگاہِ عزّوجل میں نفل شکرانہ پیش کرنے کی اپیل کی تو آپ نے علی پورسیّداں (سیال کوٹ) میں شایان شان’’یومِ نجات‘‘ منانے کا اہتمام فرمایا اور مسجد میں کثیر جماعت کے ساتھ نمازجمعہ ادا کرنے کے بعد دوگانہ شکرانہ ادا فرمایا اور اپنے مخصوص دلپذیر انداز میں حاضرین سے خطاب کیا اور’’یومِ نجات‘‘ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’دو جھنڈے ہیں، ایک اسلام کا دوسرا کفر کا۔ مسلمانو! تم کس جھنڈے کے نیچے کھٹرے ہوگے؟ حاضرین نے بآواز بلند جواب دیا کہ اسلام کے ! پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ جو کفر کے جھنڈے تلے کھڑا ہواکیا تم اس کے جنازے کی نماز پڑھو گے؟ حضرین نے انکار کیا۔ پھر آپ نے استفسار فرمایا کہ کیا تم اُس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کروگے؟ حاضرین نے بالاتفاق کہا، نہیں! ہرگز نہیں! اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اس وقت اسلامی جھنڈا مسلم لیگ کا ہے، ہم بھی مسلم لیگ کے ساتھ ہیں اور سب مسلمانوں کو مسلم لیگ میں شامل ہونا چاہیے‘‘۔
۲۳؍مارچ ۱۹۴۰ء کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے علی الاعلان مسلم لیگ کی حمایت اور استحکام کے لیے کام شروع کردیا اور سفر وحضر میں تلقین فرمانے لگے کہ سب مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہونا چاہیے۔
۱۹۴۳ء میں جب قائداعظم پر قاتلانہ حملہ ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ اُس وقت حیدرآباد دکن میں فردکش تھے۔ وہاں سے آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے خلیفۂ خاص حضرت بخشی مصطفےٰ علی خاں رحمۃ اللہ علیہ (ڈی ایس پی بنگلور (ف۱۹۷۴ء) کے ہاتھ مزاج پُرسی کا خط لکھا اور مندرجہ ذیل تحائف بھی ارسال فرمائے۔
۱۔ نادرقلمی نسخہ قرآن مجید
۲۔ تسبیح
۳۔ مخملی جانماز
۴۔ شال
۵۔ آبِ زم زم کی زمزمی
۶۔ متفرق اشیاء
اپنے مکتوبِ گرامی میں حضرت اقدس رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام ودعا کے بعد قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کو یہ تحریر فرمایا:
’’قوم نے مجھے امیر ملّت مقرر کیا ہے اور پاکستان کے لیے جو کوشش آپ کررہے ہیں، وہ میرا کام ہے لیکن میں اب سوسال سے زیادہ کا ضعیف وناتواں شخص ہوں۔میرا بوجھ جو آپ پر پڑا ہے، اس میں آپ کی امداد کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں، آپ مطمئن رہیں۔ نمرودکی دشمنی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کی، فرعون کی دشمنی حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کے دین کی، ابو جہل کی دشمنی ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی ترقی کا باعث ہوئی ہے۔
اب جو یہ حملہ آپ پر ہوا ہے، آپ کی کامیابی کے لیے نیک فال ہے۔ آپ کو میں مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے، آپ کو حصول مقصد میں خواہ کتنی ہی دشواری کا سامنا ہو آپ بالکل پرواہ نہ کریں اور پیچھے نہ ہٹیں، جس شخص کو اللہ کامیاب فرمانا چاہتا ہے، اُس کے دشمن پیدا کر دیتا ہے۔
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دشمنوں کو ذلیل کرے۔ میں اور میرے تمام یارانِ طریقت آپ کے معاون ومددگار رہیں گے۔ آپ بھی عہد کریں کہ آپ اپنے مقصد سے ذرہ بھر نہیں ہٹیں گے‘‘۔
بخشی صاحب خط اور تحائف لے کر بمبئی گئے۔ مالابارہل پر قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی فرودگاہ پر پہنچے تو معلوم ہواکہ ڈاکٹروں نے ملاقات پر قدغن لگا رکھی ہے۔ وہ محترمہ فاطمہ جناح سے مل کر خط اور تحائف ان کو دے آئے اور واپس آکر تفصیل اور خیریتِ مزاج سے حضرت امیر ملّت کو مطلع کیا۔ چند روز بعد قائداعظم کا خط آیا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ:
’’ آپ جیسے بزرگوں کی دعا میرے شامل حال ہے تو میں اپنے مقصد میں ابھی سے کامیاب ہوں اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میری راہ میں کتنی ہی تکلیفیں کیوں نہ آئیں میں اپنے مقصد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ آپ نے قرآن شریف اس لیے عنایت فرمایا ہے کہ میں مسلمانوں کا لیڈر ہوں۔ جب تک قرآن اور دین کا علم نہ ہو، کیا لیڈری کرسکتا ہوں ! میں وعدہ کرتا ہوں کہ قرآن شریف پڑھوں گا، انگریزی ترجمے میں نے منگوالیے ہیں، ایسے عالم کی تلاش میں ہوں جو مجھے انگریزی میں قرآن کی تعلیم دے سکے۔ جانماز آپ نے اس لیے عطا کی ہے کہ جب میں اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں مانتا تو مخلوق میرا حکم کیوں مانےگی؟ میں وعدہ کرتا ہوں کہ نماز پڑھوں گا۔ تسبیح آپ نے اس لیے ارسال کی ہے کہ میں اس پر درود شریف پڑھا کروں، جو شخص اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی رحمت طلب نہیں کرتا، اس پر اللہ کی رحمت کیسے نازل ہوسکتی ہے، میں اس اشارے کی تعمیل بھی کروں گا۔‘‘
۱۹۴۴ء میں آپ رحمۃ اللہ علیہ سری نگر (کشمیر) تشریف لے گئے تو قائدملّت چوہدری غلام عباس[۱] (ف۱۹۶۷ء) جو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مرید صادق تھے، قائداعظم کو ساتھ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی پُر تکلف دعوت کی اور انواع واقسام کے ۴۵ کھانے دسترخوان پر چنے گئے، کشمیری رواج کے مطابق آخر میں گشتابہ نامی کھانہ بھی پیش کیا گیا، اس کے لیے گوشت کو میٹھے میں پکایا جاتا ہے۔
[۱۔ چوہدری غلام عباس رحمۃ اللہ علیہ کے تفصیلی حالات کےلیے احقر کی کتاب ’’اکابر تحریک پاکستان‘‘ اور ’’فدایانِ امیرملّت‘‘ دیکھی جاسکتی ہیں (قصوری)]
دعوت سے فارغ ہوئے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی کامیابی کی پیش گوئی فرمائی اور دو جھنڈے عطا فرمائے۔ ان میں ایک جھنڈا سبز تھا اور دوسرا سیاہ، نقد روپیہ بھی دیا۔ پھر فرمایا کہ سبز جھنڈا، مسلم لیگ کا ہے اور دوسرا کفر کا ۔ بعدازاں قدآور اشتہارات کے ذریعے مسلم لیگ کی حمایت کا اعلان فرمایا۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی اس پیشگوئی پر کامل یقین کرتے ہوئے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے لاہور کے ایک عظیم الشان اجتماع میں کہاتھا کہ:
’’میرا ایمان ہے کہ پاکستان ضرور بنے گا کیونکہ امیر ملّت مجھ سے فرماچکے ہیں کہ پاکستان ضرور بنے گا اور مجھے یقین واثق ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی زبان مبارک کو ضرور سچا کریں گے۔‘‘
۱۹۴۵ء میں جب کانگریسی علماء نے پاکستان کی مخالت میں سردھڑ کی بازی لگا رکھی تھی تو حضرت امیرملّت نے قیام پاکستان کی حمایت میں ملک کے کونے کونے کے دورے کیے اور قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں فضا سازگار بنائی۔ جامع اور مدلّل تقاریر سے متاثر ہوکر لوگ کانگرس سے الگ ہوکر مسلم لیگ مین شامل ہونے لگے تو بمصداق ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘، جمیعت علماء ہند، مجلسِ احرار اور جماعتِ اسلامی نے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ والا صفات پر گھناؤنے اور رکیک حملے شروع کر دیے تب، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پنجاب مسلم لیگ کے اجلاسِ عام کی صدارت کرتے ہوئے فرمایا:
’’دو قومی نظریہ سب سے پہلے سرسیّد رحمۃ اللہ علیہ نے پیش کیا تھا اور اقبال مرحوم نے اپنے کلام کے ذریعے قوم کو متاثر کیا۔ اب قائداعظم نے اسی دو قومی نظریے کے باآور ہونے کے لیے مسلمانوں کا علیحدہ وطن قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ قائدہ اور اصول یہ ہے کہ ہر شخص اپنے مقدمے کی پیروی کےلیے قابل وتجربہ کا وکیل تلاش کرتا ہے، بلاتمیز غیرے کہ وہ وکیل ہندو ہے یا مسلمان یا عیسائی۔ اب ہمار امقدمہ انگریز اور ہندو کے ساتھ ہے، مسلمانوں نے قائداعظم کو اس مقدمے کا وکیل بنالیا ہے اور پھر ان کی ذات پر کیچڑ اچھالنا اور رکیک و سوقیانہ حملے کرناکیا معنی؟ ماسوائے ذاتی کدورت وحسد کے، یہ تو اصول کی بات تھی، اب رہی میری عقیدت، اگر چراغ لے کر ڈھونڈوں تو مجھے ہندوستان میں ایک بھی جناح صاحب ایسا ایمان والا مسلمان نظر نہیں آتا جو ایسی خدمتِ اسلام بجالارہا ہو‘‘۔
جنوری؍۱۹۴۶ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں جمعیت علماء اسلام پنجاب کا ایک اجلاس آپ رحمۃ اللہ علیہ کی صدارت میں منعقد ہوا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے صدارتی تقریر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’حکومت اور کانگریس دونوں کان کھول کر سن لیں کہ اب مسلمان بیدار ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اپنی منزل مقصود متعین کرلی ہے۔ اب دنیا کی کوئی طاقت ان کے مطالبۂ پاکستان کو ٹال نہیں سکتی۔ بعض دین فروش نام نہاد لیڈر مسٹر جناح کو گالیاں دیتے ہے لیکن انہوں نے آج تک کسی کو برا نہیں کہا۔ یہ ان کے سچا رہنما ہونے کا ثبوت ہے۔ خاکساروں نے مجھے قتل کی دھمکیاں دی ہیں، میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ:
’’میں سیّد ہوں اور سیّد کبھی موت سے نہیں ڈرتا‘‘۔
اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مریدوں اور حلقہ بگوشوں سے ارشاد فرمایا کہ وہ مسلم لیگ کے امیدواروں کو ووٹ دیں۔
حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر دلپذیر کے بارے میں زُبدۃالحکماء حکیم آفتاب احمد قریشی (ف۱۹۸۱ء) اپنی کتاب ’’ کاروانِ شوق‘‘ کے صفحہ ۲۳۴ پر اپنے تاثرات یوں بیان کرتے ہیں:
’’حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ نے تقریر کی ابتداء کی تو ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے شبنم غنچوں پر گر رہی ہے۔ چند منٹ بعد حضرت جوش وخروش سے خطاب کر رہے تھے ان کی تقریر نے نوجوان کے سینوں کو جزبہ وجوش سے بھر دیا۔ حضرت امیر ملّت نے برطانوی سامراج اور ان کے حاشیہ برداروں کو دعوتِ مبارزت دی۔ حضرت نے اعلان فرمایا کہ پاکستان کی جنگ کفرواسلام کی جنگ ہے، حق وباطل کی آویزش ہے اور نور وظلمت کی معرکہ آرائی ہے۔ کانفرنس سے حضرت کے تاریخی اور ولولہ انگریز خطاب سے پنجاب میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ ظلمت کے بادل چھٹ گئے اور امید کا آفتاب طلوع ہوا۔ جنگِ پاکستان کا پہلا مورچہ مسلمانوں نے جیت لیا‘‘۔
۲۷؍اپریل ۱۹۴۶ء کو آل انڈیا سنّی کا نفرس بنارس کا فقیدالمثال اجلاس شروع ہواتو کانگریسی علماء نے اپنے ایجنٹ بھیج کر اجلاس کو درہم برہم کرنے کہ سازش تیار کی، ایک قرارداد مرتب کی جس میں قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کو کافر، ملعون اور مرتد قرار دیا گیا۔ آپ جلسہ گاہ میں تشریف لارہے تھے تو کسی نے راستہ میں اس کی خبر دے دی۔ آپ جلسہ گا پہنچے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ کی صدارت کے اعلان کے بعد جلسہ کی کاروائی کا آغاز نہ ہوا۔ تلاوتِ کلامِ مجید کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ یک لخت پورے جوش کے ساتھ جلسہ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا:
’’جناح کو کوئی کافر کہتا ہے، کوئی مرتد بناتاہے، کوئی ملعون ٹھہراتا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ وہ ولی اللہ ہے ! آپ لوگ اپنی رائے سے کہتے ہیں لیکن میں قرآن وحدیث کی رو سے کہتا ہوں‘‘۔
اس موقع پر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ آیۂکریمہ تلاوت فرمائی:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا
’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دیتا ہے محبت ان کی‘‘۔ (سورۃ مریم آیت ۹۴)
اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’تم بتلاؤ، ہے کوئی مائی کالال مسلمان جس کے ساتھ ہندوستان کے دس کروڑ مسلمان قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ ایسی والہانہ محبت رکھتے ہوں؟ یہ تو قرآن کا فیصلہ ہے اب رہی میری عقیدت، تم اس کو کافر کہو، میں اس کو ولی اللہ کہتا ہوں‘‘۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اِن دندان شکن دلائل کے سامنے کسی کو بولنے کی جرأت نہ ہوسکی۔
۱۹۴۶ء کے انتخابات کا مرحلہ آیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جس قدر سرگرمی دکھائی، عقل وخرد اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بنفسِ نفیس ہندوستان بھر کے دورے فرمائے، اشتہارات چھپوائے اور اخبارات میں فتویٰ شائع کروایا کہ:
’’جو شخص مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دے گا، اس کا جنازہ مت پڑھو اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں مت دفن ہونے دو‘‘۔
بالآخر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور نبی رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر عنائیت کے طفیل آپ رحمۃ اللہ علیہ کی پرخلوص مساعی رنگ لائیں اور ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو ہمیں سورج سے بھی روشن منزل پاکستان کی شکل میں مل گئی۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی حق گوئی وبے باکی ایک مسلّم امر ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ:
’’سیّد کے معنی یہ ہیں کہ جو سوائے خدا کے کسی سے نہ ڈرے‘‘۔
چنانچہ حضرتِ اقدس کی ساری زندگی حق گوئی وبے باکی کی آئینہ دار ہے۔ آپ باطل کے لیے برہنہ تلوار تھے۔ ذیل میں اسی نوع کے چند واقعات پیش خدمت ہیں:
۱۔ حیدرآباد دکن میں مجلسِ میلاد بمقام بنی خانہ خیرالمبین منعقد تھی۔ ہزار ہا لوگ شریک محفل تھے۔ آپ اپنے مخصوص انداز میں تقریر فرمارہے تھے کہ میر عثمان علی خاں دالئِ دکن (ف۱۹۶۷ء) اپنی جواں سال شہزادیوں کو لے کر مسجد میں داخل ہوگئے۔ آپ نے موضوع بدل کر پردہ کے متعلق شرعی احکام سنانا شروع کردیے تو کسی نے عرض کیا کہ حضور نظام تشریف فرماہیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: ’’یہاں نظام ہو یا غلام سب برابر ہیں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایسی مؤثر تقریر فرمائی کہ شہزادیاں تازیست باپردہ رہیں‘‘۔
۲۔ حضرت مولانا مولوی خیرالمبین رحمۃ اللہ علیہ کا جب انتقال ہو اتو ان کی وصیّت کے مطابق نماز جنازہ حضرت امیر ملّت نے پڑھائی۔ تدفین کے وقت مہاراجہ کشن پرشاد وزیراعظم حیدرآباد دکن بھی مسلمانوں کے ساتھ مل کر قبر پر مٹی ڈالنے کے لیے بڑھا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ناراض ہوکر کہا:
’’اُوہ مَردود ! دُور ہو، کیا مسلمان مرگئے ہیں کہ ایک کافر مسلمان کی میّت کو مٹی دے رہا ہے‘‘۔
ہزاروں کے اجتماع میں وزیراعظم نہایت شرمندہ ہوا اور مسلمانوں کی صف سے باہر نکل گیا۔
۳۔ سعودی حکومت کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جب آپ حج کے لیے تشریف لے گئے تو ابنِ سعود نے ایک خاص ایلچی کے ذریعے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو مدعو کیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو ابنِ سود (ف۱۹۵۳ء) سے اختلافاتِ مسلک وعقائد تھا آپ نے یہ دعوت سختی سے رَد فرمادی۔
۴۔ ۱۹۱۹ء میں جنرل ڈائر نے جلیانوالہ باغ امر تسر کے اجلاس میں شین گن سے فائرنگ کرکے ہزاروں انسانوں کو ہلاک کردیا تو عیار انگریزی حکومت نے مسلمانوں کی اشک شوئی کے لیے ایک محضر نامہ تیار کرکے پنجاب کے مشہور سجادہ نشینوں سے دستخط کروائے۔ لیکن حضرت امیر ملّت نے یہ کہ کر دستخط کرنے سے انکار کردیا کہ:
’’وہ باطل کی حمایت کسی قیمت پر نہیں کرسکتے‘‘۔
۵۔ مارچ ۱۹۲۳ء میں حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ ، دہلی میں حضرت شاہ ابوالخیر نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ کے چہلم پر تشریف لےگئے۔ اس مبارک تقریب میں ہندوستان کے مشاہیر نقشبندی سجادگان رونق افروز تھے۔ شاہِ کابل امیرامان اللہ خاں، حضرت شاہ ابوالخیر رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ ارادت میں شامل تھا۔بدیں وجہ تقریب کا اہتمام وانتظام سفیرِ کابل سردار غلام حیدر خاں کے ہاتھ میں تھا جوصاجزادگان (حضرت ابوالخیر کے صاجزادگان) کی مجوزّہ مسند پر جوتوں سمیت چھرتا تھا۔ حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ مسند کے دائیں طرف جلوہ افروز تھے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جب اس گستاخ سفیر کو جوتوں سمیت پھرتے دیکھا تو نہایت جلال سے فرمایا، ’’یہ کون ہے؟‘‘ کسی نے کہا، ’’سفیر کابل‘‘۔ اس پر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’فقیر کی مسند پر دنیا کے کتّے کا جوتے سمیت پھرنا میں برداشت نہیں کرسکتا۔ ایسا بے ادب میری آنکھوں کے سامنے نہ آئے ورنہ میں یہاں سے اٹھ کر چلاجاؤں گا‘‘۔
چنانچہ سفیر کابل باقی تقریب میں سامنے نہ آیا اور حضور امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دستِ مبارک سے صاجزادگان کی دستاربندی فرمائی۔
اُن کی نظر میں شوکت جچتی نہیں کسی کی |
|
آنکھوں میں بس رہا جس کی جلال تیرا |
۶۔ ۱۹۲۴ء میں آپ رحمۃ اللہ علیہ بمبئی سے بذریعہ ٹرین پنجاب واپس آرہے تھے کہ راستہ میں مسیح الملک حکیم اجمل خاں (ف۱۹۲۷ء) نے آپ سے مولانا ابوالکلام آزاد (ف۱۹۵۸ء) کا تعارف کرایا۔ آپ نے ابوالکلام آزاد سے فرمایا کہ:
’’آپ ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ بلند کررہے ہیں۔ ہندو شردھانند مسلمانوں کو کافر بنانے کی شدھی تحریک بڑی شدومد سے شروع کیے ہوئے ہیں؟‘‘
یہ سن کر ابوالکلام آزاد نے نہایت طنز سے کہاکہ ’’شاہ صاحب ! تیرہ سو برس سے آپ ہندو کو مسلمان بناتے آرہے ہیں، اُن کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے دھرم کا پرچار کریں‘‘ اس غیر متوقع جواب پر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’مسلمانوں کے دلوں سے متاع ایمان چھینی جائے اور ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں۔ یہ دینی حمیّت کے خلاف ہے اور قیامت کے روز خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مُوجبِ رسوائی۔‘‘
یہ سن کر ابوالکلام آزاد پر سناٹا چھاگیا اور تمام راستہ میں دہلی تک کوئی کلام نہ کیا۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار مساجد تعمیر کرائیں۔ ۱۳۳۹ھ/۲۱۔۱۹۲۰ء میں علی پورسیّداں شریف میں ’’مسجدنور‘‘ کے نام سے ایک عدیم المثال مسجد تعمیر کرائی جو آج بھی اپنے صوری کمالات کی بنا پر تمام ملک میں مشہور ومعروف ہے۔ اُس وقت کے ارزانی کے دور میں اس پر چھ لاکھ روپیہ صرف ہواتھا۔ دروازے صندل کی لکڑی کے بنوائے گئے تھے جن پر ہاتھی دانت کا کام کیا گیا تھا۔ مسجد میں چھت پر ویل مچھلی کا ۲۱ فٹ لمبا کانٹا خوبصورتی کے لیے لگایا گیا تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفۂ خاص حضرت شیخ محمد ابراہیم آزاد بیکانیزی رحمۃ اللہ علیہ (ف۱۹۴۷) نے مسجد کی تیاری پر مندرجہ ذیل قطعہ تاریخ کہا۔
خدا رکھے سلامت قبلہ شاہ جماعت کو |
|
کہ جن کی ہمّتِ والاسے ایسی بن گئی مسجد |
|
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اطاعتِ خداوندی اور غلامئِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں بسر ہوا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ بعداز نماز فجر تا اشراق اور بعدازِ عصر تا مغرب دیناوی بات بالکل نہیں کرتے تھے اور بعدنمازِ عصر ختم شریف حضرت خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ پڑھا کرتے تھے۔ تہجد کی نماز کبھی قضا نہیں ہوئی۔ تمام یارانِ طریقت کو بھی تہجد پڑھنے کی تلقین فرماتے تھے۔ طالب علموں کے ساتھ بہت محبت سے پیش آتے تھے۔ جب کوئی بزرگ آپ کے پاس آتا تو اسے اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ جب آپ کسی بزرگ کے پاس جاتے تو دوزانو ہوکر بیٹھتے تھے۔ حق گوئی وبےباکی آپ کا طرّۂامتیاز تھا۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کا قد مبارک موزوں، قدرے بلند، جوانی میں اعضاء مضبوط، سڈول ومتناسب تھے۔ مگر ضعیفی میں لاغرونحیف ہوگئےتھے۔ رنگ گندم گوں مائل بہ سفیدی مگر چہرۂ مبارک عالمِ شباب میں سرخ انار کی طرح چمکتا تھا۔ سر بڑا، پیشانی کشادہ وبلند اور اس پر ہلکا سا سجدوں کا نشان۔ آنکھیں بڑی اور روشن۔ پُتلی سُرخی مائل، کبھی کبھی ایک آنکھ دباکر دیکھتے تھے۔ بینی مبارک بلند وباریک، لب سُرخ وپتلے۔ دہن مبارک متوسط و خوبصورت۔ دندان مبارک سفید موزوں گویا موتیوں کی لڑی، مسکراتے وقت نہایت بھلے معلوم ہوتے تھے۔ مسکراہٹ آپ کی ہنسی تھی۔ کھلکھلا کر کبھی نہیں ہنستے تھے۔ نوّے سال کی عمر تک تمام دانت موجود تھے اور مضبوط ایسے خود گنّے چھیل کر کھاتے۔ ریش مبارک کثیر اور اس پر حنائی رنگ۔ داڑھی اور سر پر ہمیشہ مہندی لگاتے۔ سرکے بال ہمیشہ مقصّر رکھتے۔ شانے کشادہ، ہاتھ لمبے، انگلیاں پتلی ودراز، سینہ فیض گنجینہ کشادہ، کمر پتلی، پاؤں مضبوط مگر آخری عمر میں چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے۔ آواز بلند، تقریر دلپذیر جس کا ایک ایک لفظ سمجھا جاسکتا تھا۔ تقریر میں امثال و مشاہدات زیادہ بیان فرماتے۔ آنجناب کے چہرۂ اقدس سے ایسا رعب وادب نمایاں تھا کہ حاضرین ہمیشہ اس وجہ سے با ادب و خائف رہتے تھے۔ آپ کی آمد پر بڑے بڑے آدمی تعظیم کےلیے کھڑے ہوجاتے تھے۔
گوشۂ کرامت کو یہ کہ کر واضح کرتا ہوں کہ آپ کی سب سے بڑی کرامت سنّتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور دینِ اسلام پر قربان ہونے کا وہ لازوال جذبہ تھا جس نے عمر بھر آپ کو مجاہدانہ کردار پر کمر بستہ رکھا۔
قیام پاکستان کے بعد آپ نے اسلامی آئین کے نفاذ کی پوری پوری کوشش کی جگہ جگہ جلسوں اور یاد داشتوں کے ذریعے حکومت کو مقامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ اور نظامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ کا وعدہ یاددلایا۔ حضرت پیر صاحب مانکی شریف امین الحسنات (ف۱۹۶۰ء) اور ضیغم اسلام مجاہد ملّت حضرت مولانا محمد عبدالستار خاں نیازی (ف ۲۰۰۱ء) نے آپ کی ہمنوائی میں ملک بھر کا دورہ کیا مگر افسوس کہ حکومت نے وعدہ پورا نہ کیا جس کا آپ رحمۃ اللہ علیہ کو تادمِ زیست صدمہ رہا۔
آپ کی وفات حسرت آیات ۲۶؍ذیقعد۱۳۷۰ھ/۳۰؍اگست۱۹۵۱ء بروز جمعرات ایک سو دس برس کی عمر میں ہوئی اور علی پورسیّداں میں آخری آرام گاہ بنی۔ بہت سے شعراء نے قطعاتِ تاریخ وفات کہے، جن میں سے چند ایک درجہ ذیل ہیں:
۱۔ از حضرت مولانا ھنیاوالقادری ۔۔۔کراچی
ہوئے واصل بحق وہ پیر طریق |
|
تھا ولایت کا جن کی ذات پر حصر |
|
۲۔ حضرت مائل بنگلوری رحمۃ اللہ علیہ ۔۔۔ بنگلور (انڈیا)
عارفِ حق مراشدِ روشن ضمیر |
|
پائے ہیں اب قُربِ ربّ ذوالجلال |
|
ارشاداتِ قُدسیہ
۱۔ ایک وقت بھی اللہ کا لفظ زبان سے نکلا تو زبان کا ذکر ہوا۔ دل سے ایک مرتبہ اللہ کو یاد کیا تو تین کروڑ پچاس لاکھ مرتبہ ذکرِ زبان کے برابر ہوگا۔ یہ دل کا ذکر ہے۔
سارے جسم کی رگیں تین کروڑ پچاس لاکھ ہیں، دل سے یہ ساری رگیں لگی ہوئی ہیں ایک دفعہ دل سے اللہ کانام کیا تو ساری رگیں بھی اللہ کا نام لیتی ہیں۔
۲۔ دریا میں کشتی پانی کے اوپر تیرتی ہے، جتنا پانی زیادہ ہوگااتناہی کشتی کو آرام ملے گا۔ اگر وہی پانی کشتی میں آگیا تو کشتی ڈوب جائے گی۔ دل کشتی ہے اور دنیا کے رنج وغم پانی۔ سب کی کشتی ڈوبی ہوئی ہے مگر اللہ کے بندوں کی کشتی یعنی ذاکروں کی کشتی تیرتی ہے۔
۳۔ جو لوگ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں، اُن کے لیے خدا تعالیٰ نے جہنم بنائی ہے اور جو آپ کی محبت والے ہیں ان کے لیے جنّت۔ جو لوگ یہ فکر کرتے ہیں کہ ہم مرنے کے بعد جہنم جائیں گے یا جنّت میں۔ اُن کو سوچ لینا چاہیے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں یا اُن کے ساتھ محبت کرنے والے۔
۴۔ کُلُّ جَدِیْدٍ لَذِیُذٌ ۔دینا کی ہر نئی چیز کو پسند کر سکتے ہو مگر دین وہی پرانا، قدیم اختیار کرو جس کو تمہارے باپ دادا نے اختیار کیا۔
۵۔ انسان بد عمل ہو تو ہو لیکن خدا کرے بدعقیدہ نہ ہو۔ حدیث شریف ہے کہ کوڑھی سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے۔ بدعقیدہ لوگ دل کے کوڑھی ہوتے ہیں۔ اُن سے بچو بلکہ ان کے بیٹھنے کی جگہ پر بھی مت بیٹھو۔
۶۔ نماز کی فکر کا نام نماز ہے۔ یعنی کوئی شخص کسی کام میں لگارہے مگر دل اس کا نماز میں ہے کبھی کسی سے پوچھتا ہے کہ کیا وقت ہ کبھی گھڑیال کو دیکھتا ہے، کبھی سورج کو دیکھتا ہے کہ میری نماز کا وقت تنگ نہ ہوجائے۔ جب تک ایسی فکر نہ پیدا ہوجائے تو نماز ایک عادت ورسم ہے جو پوری کردیتے ہیں۔ خداوند تعالیٰ وہ فکر نصیب کرے۔
۷۔ کسان عمر بھر ہل چلاتارہے اور بیچ نہ ڈالے تو کھیتی ہو سکتی ہے؟ نہیں ہوسکتی۔ ہل چلانا، روزہ، نماز، حج ہے اور بیچ ڈالنا زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ ادا نہ کرے تو نماز، روزہ، حج سب بیکار ہے۔
۸۔ دو کام کرنے ہوں ایک دین کا، ایک دنیا کا، تو پہلے دین کاکا م کرنا چاہیے۔ خدا تعالیٰ اس کی برکت سے دنیا کا کام بھی پورا کر دیں گے۔
۹۔ دعا کے دو پَر ہیں۔ اکلِ حلال، صدقِ مقال۔ جو حلال کماکے کھائے اور سچ بولے اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔
۱۰۔ جو شخص تم سے مانگتا ہے وہ دراصل تم پر احسان کرتا ہے۔ اس وجہ سے کہ ایک پیسہ تم سے مانگتا ہے اور خداتعالیٰ اس کا اجر تم کو سات سو تک دیتا ہے۔
۱۱۔ فقط لَااِلٰہٰ اِلّااللہ پڑھ لیا تو موحد بن گیا، مومن نہیں بنا۔ مومن کب بنے گا؟ جب لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ پڑھے گا۔ ہمارے لیے سب سے اعلیٰ اور سب سے افضل نعمت ایمان کی نعمت ہے۔ لاالہ الا اللہ تو شیطان بھی پڑھتا ہے پھر اس کو لعنتی کیوں کہتے ہیں شیطان کہتاہے، اِنّیْ اَخَافُ اللہ رَبَّ الْعَالَمِیْنَ (بے شک مجھ کو اللہ کا خوف ہے جو سب کا پروردگار ہے) جتنے فرقے دنیا میں ہیں سب توحید کے قائل میں۔ بھنگی ہوں یا چوہڑے چمار، عیسائی ہوں یا کوئی اور، مگر ملعون کیوں ہیں؟ اس وجہ سے کہ وہ صرف لااِلہ اِلّا اللہ پڑھتے ہیں۔ لیکن مُحَمَّد رَسُوْل اللہ نہیں پڑھتے۔
۱۲۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک زبان پر آجانے سے تمام عمر کا کفر وشرک اور تمام گناہ مٹ جاتے ہیں۔
۱۳۔ آج کل عام بات مشہور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو حد سے نہ بڑھاؤ، حد سے وہ ہی بڑھا سکتا ہے جس کو حد معلوم ہو، جس کو حد معلوم ہی نہ ہو وہ کیا بڑھائے گا۔ آپ کی حد سوائے خداتعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں۔ ایک بار کے کلمہ شریف پڑھنے سے تمام عمر گناہ بخشے جاتے ہیں۔ اس قدر حد تو ہم کو معلوم ہے۔
محمدﷺ مصطفےٰ اے کیف ممدوح الٰہی ہیں |
|
بشر کیا، کوئی بھی ان کا ثناخواں ہو نہیں سکتا |
|
۱۴۔ محمد رسول اللہ میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسّلام کی نعمت ہے، جن کو آپ کی نعمت بھی نہیں لگتی، ان کو چاہیے کہ کلمہ طیّبہ میں رسول اللہ بھی نہ پڑھیں۔
۱۵۔ انبیاء کے جسم کو زمین نہیں کھاتی اور نہ چھوتی ہے۔ انبیاء قبروں میں نماز پڑھتے ہیں سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قیاس کرو، کیا درجہ ہوگا۔
۱۶۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کو شخص مجھ پر سلام بھیجے گا میں اس کے سلام کا جوب دوں گا۔
۱۷۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جو شخص محبت سے درود شریف پڑھے، اس کو میں اپنے کانوں سے سنتاہوں۔
۱۸۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی بے شک زندہ ہیں اور اپنی نبوّت پر قائم، اپنی امّت کی اطاعت ونیکی سے خوش ہوتے ہیں اور گناہ و نافرمانی سے غمگین۔
۱۹۔ شتر بے جہار منزلِ مقصود کو نہیں پہنچ سکتا ڈنڈے اور مار کھائے گا۔ قطار کا اونٹ خواہ کتنا ہی دبلا اور بیمار کیوں نہ ہو، ضرور منزل تک پہنچے گا۔
۲۰۔ جسم برتنے کے لیے دیا گیا ہے نہ کہ پالنے اور موٹا کرنے کے لیے۔
جاگنا ہے تو جاگ لے افلاک کے سایہ تلے |
|
حشر تک سونا پڑے گا خاک کے سایہ تلے |
۲۱۔ سر خاک پہ رکھ کر انسان پاک ہوجاتا ہے۔
کیا حق ہے ہمیں زمیں پر پاؤں رکھنے کا |
|
جب رکھا نہیں سر سجدہ میں کبھی |
۲۲۔ بد عقیدہ لوگوں کی صحبت میں نہ رہو بلکہ ان کے بیٹھنے کی جگہ پر بھی مت بیٹھو۔
۲۳۔ وضو کا پانی جس جگہ لگے گا وہ دوزخ میں نہ جلے گا۔
۲۴۔ گر بعددِفقیر پھر سگِ دنیا ہوا فقیر!۔۔۔کمبخت پاک ہو کے پلیدوں میں جاملا۔
۲۵۔ قرآنِ پاک کی سورۃ الحمد شریف کی آیت اِھْدِنَاالصِّراطَ المُسْتَقِیْمْ صِرَاطَ االَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ سے تقلید کا ثبوت اور اس کی ضرورت ثابت ہوتی ہے۔
۲۶۔ وَاتَّبَعُوْا مِلَّۃَ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفَاً ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر تھے۔ یہ حکم صرف ایک پیغمبر حضرت ابراھیم علیہ السلام کے مذہب کی تابعداری کرو، ثابت کرتا ہے کہ امام کی تقلید فرض ہے۔
۲۷۔ سب لوگوں کی قبروں میں اندھیرا ہوگا، لیکن تہجّد پڑھنے والوں کی قبروں میں روشنی ہوگی۔ آیت الکرسی ہر نماز کے بعد اور سُورۃ تَبَارَکَ الَّذِیْ ہر رات کو پڑھنے کی وجہ سے عذاب ہرگز نہ ہوگا۔
۲۸۔ نماز میں جس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا فرض ہے، اسی طرح آپ کی آل پر بھی درود شریف پڑھنا فرض ہے ورنہ نماز ہی نہیں ہوتی۔
۲۹۔ بیش ازقسمت ازوقت کچھ نہیں ملتا۔
۳۰۔ دل اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کے لیے پیدا کیا ہے نہ کہ پریشانیوں کے لیے پیدا کیا ہے۔
۳۱۔ پہلی امّتوں میں جو لوگ گناہ کرتے تھے ان کے چہرے مسخ ہوجاتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ پاک، میرے نام لیواؤں کے چہرے نہ بدلیں گے۔
۳۲۔ قیامت اُس وقت آئے گی جب کہ اللہ کا کوئی بندہ، اللہ کانام لینے والا نہ رہے گا۔
۳۳۔ بزرگوں کا ادب کرو، اگر وہ ناراض ہوجائیں تو پھر کہیں بھلائی کی امید نہیں۔ ایک کا مردود سب کا مردود، ایک مرغی کسی انڈے کو گندا کردے تو ہزار مرغیوں کے نیچے اس انڈے کو رکھا جائے تو کبھی اُس سے بچہ نہیں ہوسکتا۔
۳۴۔ خدا کا کلام خدا ہی کے لیے پڑھو، دنیا کے لیے پڑھنا ایسا ہے گویا لعل دے کر کوڑیاں لینا، یہ اور بات ہے کہ اللہ کے واسطے پڑھنے کے بعد اس کی طفیل میں اللہ عزّوجل آخر ودنیا کا فائدہ بھی دے دیں۔
۳۵۔ جس میں غیرت نہیں اُس میں ایمان بھی نہیں۔
۳۶۔ دعوت کا قبول کرنا سنّت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تین میل کے فاصلے پر بھی کوئی دعوت دے اور پکی ہوئی معمولی چیز ہو تب بھی اُس کی دعوت میں جانا چاہیے۔
۳۷۔ مدینہ شریف کی حاضری کے زمانہ میں آداب کا لحاظ ضرور رکھنا چاہیے۔ کم ازکم صورت مسلمان کی بنانی چاہیے۔ کر زن فیشن، فرنچ کٹ وغیرہ سے پرہیز ضروری ہے۔
۳۸۔ راہِ خدا میں جو کچھ دینا ہو وہ اپنی زندگی میں اپنے ہاتھ سے دے دینا چاہیے مرنے کے بعد ہمارے نام پر نہ بیوی دے گی نہ بچّے۔ بلکہ ہماری قبر پر فاتحہ پڑھنے کے لیے آنا مشکل ہوگا۔
جو کچھ دینا ہے راہِ خدامیں دے اب وقت ہے |
|
قاروں ڈھونڈتا ہے قبر میں گدا ملتا نہیں |
(ذوق)
۳۹۔ اگر دس ذاکر ہوں اور ایک غافل تو ذاکر غافل کو بھی نورانی کردیں گے۔ اللہ کا ذکر کرنے والوں کی صحبت میں رہنے سے اطمینان ملے گا۔
۴۰۔ کہا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد مردے کو ثواب نہیں پہنچتا۔ حال یہ کہ روح نہیں مرتا۔ جب روح نہیں مرتا۔ تو اُسے ثواب کیوں نہیں پہنچتا۔
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں |
|
حقیقت میں وہ ہم سے جدا ہوتے نہیں |
|
(اقبال)
حضرت امیر ملّت نے اپنے پیچھے تین صاجزادے اورایک صاجزادی یاد گار چھوڑی جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔ صدر الافاضل سراج الملّت حضرت پیر سیّد محمد حسین شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔ راقم الحروف کو آپ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ کے تفصیلی حالات آئندہ صفحات میں آرہے ہیں۔
۲۔ خادم الملّت حضرت پیر سیّد خادم حسین شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ کے ولادت ۱۳۰۷؍/۱۸۹۰ء میں ہوئی۔آپ بڑے عالم، فاضل، متقی اور پرہیزگارتھے۔ دُور دُور تک تبلیغی دَور سے فرماتے تھے۔ آپ کی وفات حسرت آیات ۲۱؍محرم الحرام۱۳۷۱ھ بمطابق ۲۲؍اکتوبر۱۹۵۱ء بروز پیر ہوئی۔ حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں سپرد خاک ہوئے۔ ایک صاحبزادے پیر سیّد نذر حسین شاہ صاحب یادگار ہیں جب کی ولادت اکتوبر؍نومبر۱۹۳۲ء میں ہوئی۔ مدرسہ نقشبندیہ علی پور سیّداں سے سندِ فراغت حاصل کی۔ ۵۸؍۱۹۵۷ء میں حضرت سراج الملّت پیر سیّد محمد حسین شاہ علی پوری رحمۃ اللہ علیہ نے اجازت وخلافت سے نوازا۔ سلسلہ کی خوب خدمت کررہے ہیں۔ بڑے مہمان نواز، متواضح اور دلکش شخصیت کے مالک ہیں۔ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کے مظہر ہیں۔ (مزید حالات کے لیے حضرت امیر ملّت اور ان کے خلفاء ‘‘ اور ’’تذکرہ اولیائے علی پور سیّداں‘‘ دیکھی جا سکتی ہیں۔ (قصوری)
۳۔ شمس الملّت حضرت پیر سیّدنور حسین شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ کی ولادت باسعادت ۱۳۱۷ھ؍ ۱۸۹۹ء میں ہوئی۔ تاریخی نام ’’اعظم شاہ‘‘ تھا۔ جس سے ۱۳۱۷ء کے عدد برآمد ہوتے ہیں۔ آپ درس نظامی کے فاضل اور دورۂ حدیث کے سند یافتہ تھے۔ شکل وصورت میں حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ سے بہت مشابہت رکھتے تھے۔ آپ ابتداء ہی سے پابند شریعت اور اتباعِ سنّت پر سختی سے کاربند تھے۔ تقویٰ، پرہیزگاری، دریادلی، خوش طبعی اور خوش اخلاقی آپ کے اوصاف حسنہ کی امتیازی صفات تھیں۔ آپ کی رحلت۳؍جمادی الثانی۱۳۹۸ھ مطابق ۱۱مئی۱۹۷۸ء بروز جمعرات ہوئی اور حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں آخری آرامگاہ بنی۔ آپ کے اکلوتے صاجزادے حضرت پیر سیّد بشیر حسین شاہ صاحب تھے۔ جب کی وفات ۲۸؍ربیع الثانی۱۳۹۶/ ۲۹؍اپریل۱۹۷۶ء بروز جمعرات بعمر شریف ۵۵ سال ہوئی۔ سیّد بشیر حسین شاہ کامل ولی اللہ اور عالم اکمل اور بے نظیر مقررتھے۔ ان کے حا لات کے لیے دیکھئے، ’’تذکرہ اولیاء علی پور سیّداں‘‘ شریف (قصوری)
۴۔ صاجزادی بنت رسول: آپ حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ کی اکلوتی صاجزادی تھیں۔ آپ کا اسم گرامی بنتِ رسول اور عرف بوجی صاحبہ تھا۔ آپ کی دینداری، تقویٰ، خوش اخلاقی اور سیر چشمی زباں زدِ خاص وعام ہے۔ آپ کی شادی حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ کے برادرِ اصغر حضرت پیر سیّد صادق علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے صاجزادے حضرت پیر سیّد اولاد حسین شاہ رحمۃ اللہ علیہ (ف۱۴۰۳ھ/۱۹۸۳ء) سے ہوئی تھی۔ آپ کی صرف اولاد حضرت پیرسیّد حیدر حسین شاہ رحمۃ اللہ علیہ (ف۱۹۸۶ء) تھے۔ حضرت بنتِ رسول صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ کی وفات۶؍ذوالحجہ ۱۳۸۱ھ مطابق ۱۱؍مئی ۱۹۶۲ء بروز جمعۃ المبارک ایک بجے دوپہر ہوئی۔ یہ حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ کے عرس مبارک کا دن تھا لہذا جنازے میں بڑا اژدھام تھا۔ حضرت امیر ملّت قدس سرہ کے روضہ مبارک کے جنوب مشرقی گوشے کے حجرے میں آپ آسودۂ خاک کی گئیں۔ رحمۃ اللہ علیہا۔ (مزید حالات کے لیے ’’تذکرہ اولیاء علی پورسیّداں‘‘ دیکھی جاسکتی ہے۔ (قصوؔری)
(تاریخِ مشائخ نقشبند)
حضرت سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
شریعت و طریقت میں مستحکم، مشائخ نقشبندیہ کے نامور بزرگ حضرت سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ ایک نہایت باکمال ولی اللہ تھے خلق خدا کی اصلاح اور ان کو صراط مستقیم پر گامزن کرنے کے لیے آپ کی بہت زیادہ خدمات ہیں اور اس ضمن میں آپ نے اسلام کے عظیم تبلیغی مشن کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
والدین و آباؤ اجداد:
آپ کے والد ماجد کا اسم مبارک سید عبد الکریم شاہ تھا اور آپ کے آباؤ اجداد میں سے علی پور سیداں کے بانی حضرت سید محمد سعید شاہ شیرازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے دور سے پہلے ایران کے شہر شیراز سے ہندوستان میں تشریف لائے اور سعید آباد کے نام سے ایک موضع کی بنیاد رکھی جس کو بعد میں علی پور سیداں کہا جانے لگا اور اس نام کی شہرت آج تک برقرار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موضع سعید آباد کسی وجہ سے کچھ عرصہ کے بعد غیر آباد ہوگیا تھا اور پھر اس جگہ کو حضرت سید علی اکبر شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دوبارہ آباد کیا اور اس کا نام علی پور سیداں رکھا۔ حضرت سید جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد ماجد اللہ رب العزت کے نیک اور برگزیدہ بندے تھے تقویٰ اور پرہیز گاری ان کا شعار تھا ہمہ وقت عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے تھے آپ کی والدہ ماجدہ بھی نیکی اور انسانی ہمدردی کے کاموں میں پیش پیش رہتی تھیں بیواؤں اور حاجت مندوں کی امداد میں کوئی کسر اُٹھانہ رکھتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر اذکار میں مشغول رہتی تھیں صوم و صلوٰۃ کی پابند اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس کی مقبول بندی تھیں۔
ولادت باسعادت:
آپ کی ولادت باسعادت ۱۸۴۵ء میں علی پور سیداں میں ہوئی۔ آپ کی پیشانی اقدس سے نور ولائیت ہویدا تھا۔
تعلیمی سرگرمیاں:
حضرت سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دینی تعلیم اپنے گاؤں میں ہی حاصل کی اللہ تعالیٰ نے پ کو کمال حافظہ عطا فرمایا تھا اس قدر ذہین تھے کہ جو سبق پڑھتے فوراً یاد ہوجاتا تھا۔ تقریباً سات برس کی عمر میں قرآن حکیم حفظ کرلیا تھا اس کے علاوہ مولانا عبد الرشید سے عربی اور فارسی کی ابتدائی کتب بھی پڑھیں اور عربی و فارسی زبانوں میں خاصی شناسائی حاصل کرلی۔
دوران تعلیم آپ بڑی توجہ و یکسوئی کا مظاہرہ فرماتے آپ کی تعلیمی معاملات میں دلچسپی و توجہ سے آپ کے اساتذہ کرام آپ سے بہت متاثر تھے چونکہ آپ اپنے اساتذہ کرام کا بے حد ادب کرتے تھے اور ان سے عقیدت کا اظہار کرتے رہتے تھے اس لیے اساتذہ کرام بھی آپ کے ساتھ خصوصی شفقت فرماتے اور تعلیمی میدان میں آپ کی رہنمائی کرتے اساتذہ کرام کی خصوصی شفقت کی وجہ سے آپ کا شمار ذہین اور قابل ترین طالب علموں میں ہونے لگا اور آپ ہر جماعت میں اول پوزیشن حاصل کرتے۔ آپ کے اساتذہ کرام میں مولانا شاہ فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی، مولانا فضل حق خیر آبادی، مولانا احمد حسن کانپوری، شیخ الحدیث استنبول حضرت مولانا عمر ضیاء الدین، مولانا عبد الوہاب امر تسری، مولانا محمد علی اور مولانا عبد الحق الہٰ آبادی مہاجر مکی شامل ہیں۔ آپ نے اورنٹیئل کالج لاہور کے پروفیسر مفتی محمد عبد اللہ ٹونکی سے بھی استفادہ حاصل کیا جب کہ مولوی فاضل اور مولوی عالم کا امتحان مولانا فیض الحسن سہانپوری کے زیر سایہ نمایاں پوزیشن میں پاس کیا۔
بیعت و خلافت کا حصول:
چونکہ آپ کی طبیعت عالیہ روحانیت کی طرف مائل تھی ظاہری علوم کے حصول کے ساتھ ساتھ باطنی علوم کے حصول کی طلب بھی دل میں موجزن تھی سلوک و عرفان کی منازل طے کرنے کی جستجو و تڑپ بھی تھی انہی دنوں اللہ رب العزت کے نیک اور برگزیدہ بندے حضرت بابا فقیر محمد چوراہی نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا خوب شہرہ تھا بے شمار طالبان حق ان سے کسب فیض کرتے ہوئے مستفید ہو رہے تھے آپ کے قلب اطہر میں ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی تمنا پیدا ہوئی اور آپ ایک دن چورہ شریف تشریف لے گئے اور حضرت بابا فقیر محمد چوراہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں بیعت کی استدعا کی اور بیعت سے مشرف ہوکر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں داخل ہوئے۔ حضرت بابا جی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ کو اپنی خصوصی توجہ سے نوازا آپ نے چند روز تک مرشد کی خدمت میں رہ کر فیوض و برکات سمیٹیں مرشد نے جب آپ کو کامل پایا تو شفقت و مہربانی فرماتے ہوئے خرقہ خلافت سے نوازا اور اپنی دستار مبارک آپ کے سر پر رکھتے ہوئے آپ کے حق میں دُعا فرمائی اس کے بع آپ مرشد کی اجازت سے رخصت ہوئے اور خلق خدا کی ہدایت و رہنمائی میں مصروف ہوگئے۔
شجرہ طریقت:
نقشبندی طریق میں آپ کا سلسلہ اس طرح سے ہے حضرت الحاج حافظ سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری، حضرت خواجہ بابا فقیر محمد چوراہی، حضرت خواجہ نور محمد خاں، حضرت خواجہ محمد فیض اللہ خان، حضرت خواجہ محمد عیسیٰ ولی، حضرت سید حافظ محمد جمال اللہ رام پوری، حضرت خواجہ محمد اشرف مدنی، حضرت خواجہ محمد زبیر سرہندی، حضرت خواجہ حجۃ اللہ سر ہندی، حضرت خواجہ محمد معصوم سر ہندی، حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی، حضرت خواجہ باقی با اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔
حیات طیبہ واقعات کے آئینہ میں:
آپ کو حضور سرکارِ مدینہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات اقدس سے بے پناہ عشق و محبت تھی۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سرشار رہا کرتے ہر سال حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کی غرض سے حجاز مقدس تشریف لے جاتے اور بیشتر وقت مدینہ منورہ میں گزارتے حضور سرکار مدینہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اسم پاک جب بھی سنتے تو آپ پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی اور طبیعت میں گداز پن پیدا ہوجاتا تھا۔
مدینہ منورہ سے محبت:
جن دِنوں آپ مدینہ منورہ کی زیارت و حاضری کی غرض سے مدینہ منورہ میں تھےاُن دنوں کا واقعہ ہے کہ مدینہ منورہ میں باب السلام کے پاس چند کُتے لیٹے ہوئے تھے کسی شخص نے راہ چلتے ہوئے اپنی لاٹھی ایک کُتے کو ماری جس سے کتا چیختا اور لنگڑاتا ہوا وہاں سے چل دیا اسی ثناء میں آپ وہاں تشریف لے آئے اور کُتے کو تکلیف میں دیکھ کر آگے بڑھے اور کُتے کو پیار سے اپنے قریب بٹھایا اور لاٹھی مارنے والے شخص سے کہا اے ظالم! تجھے یہ دکھائی نہ دیا کہ یہ مدینہ منورہ کا کُتا ہے۔ پھر آپ نے اپنا عمامہ پھاڑا اور کُتے کی زخمی ٹانگ پر کپڑا باندھ دیا اس کے بعد بازار سے کھانا منگوایا اور اس کو کھلایا۔
تبلیغ دین:
آپ نے اپنی حیات طیبہ دینِ اسلام کی تبلیغ و ترویج کے لیے وقف کر رکھی تھی اس مقصد کے لیے آپ مختلف شہروں اور علاقوں میں اکثر تبلیغی مشن کے لیے تشریف لے جایا کرتے آپ اپنے اخلاق عالیہ کردار کی عظمت و پاکیزگی اور حسن سلوک اور معاملات کے باعث لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتے لوگ آپ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے آپ کی سیرت طیبہ لوگوں کی اصلاح کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ و مثال تھی۔ آپ ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ باطنی علوم سے بھی مالا مال تھے۔ ہر مکتبہ فکر کے افراد سے آپ کے راہ ورسم تھے کسی بھی معاملے میں تعصب روا نہ رکھتے تھے شریعت مطہرہ کے احکامات کے مطابق لوگوں کو اپنی زندگیاں گزارنے کی تلقین کرتے تھے۔ غیر شرعی کاموں اور غلط رسم و رواج سے منع فرماتے خلاف شرع کسی بھی کام کی حوصلہ افزائی نہ کرتے بلکہ اس کی مذمت کرتے تھے اور بیانگ دہل کرتے تھے گویا کہ کوئی بھی غیر شرعی کام ہوتا ہوئے دیکھتے تو آپ کی برداشت سے باہر ہوجاتا اور اس کی مذمت و مخالفت میں پیش رہتے تھے۔ اکثر فرماتے کہ ہمارا سلسلہ نقشبندی ہے اور اس سلسلہ کے سالار اعظم شیخ احمد سرہندی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہیں اور انہوں نے اپنے دور میں اپنے مصائب و تکالیف میں ڈال کر بادشاہوں سے ٹکرلی اور ان کے سامنے اسلام کی سچی تصویر پیش کی اور اُس وقت ابن الوقت علماء سُونے دربار ساہی میں اپنا اثر و رسوخ قائم کر رکھا تھا اور بادشاہ کی خوشنودی کی خاطر دینِ اسلام کی شکل کو بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس نازک دور میں امام ربانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے غیر شرعی کاموں کی مخالفت کرتے ہوئے علم حق بلند کیا اور ان کو راہِ حق پر گامزن ہونے کی تلقین و دعوت دی تو سب سے پہلے انہی ابن الوقت علماء نے آپ کی مخالفت پر کمر کسی اور دربار شاہی میں اپنے اثر ور سوخ کو استعمال کرکے آپ کے خلاف سرکاری طور پر کاروائیاں کروائیں آپ کو اس دوران قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں اور دیگر تکالیف بھی آپ کو پہنچائی گئیں مگر آپ کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی اور آپ بڑی ثابت قدمی اور استقامت سے دینِ حق کی تبلیغ کے لیے کوشاں رہے اور حق بات پر ڈٹے رہے آخر کار فتح حق کی ہوئی وقت کے بادشاہ اور ابن الوقت علماء حق کے سامنے ٹھہر نہ سکے اور ہر طرف حق کا بول بالا ہوگیا مجدد کا یہی فرض ہوتا ہے کہ وہ علم حق بلند رکھے اور ہم اسی طریقہ کے پیر و کار ہیں۔
بیعت کرنے کا طریقہ:
ایک بزرگ مولوی غلام جیلانی نقشبندی جو کہ چک ۲۳۰ ج ب سیوال ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ آپ کے متعلق بات کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے سامنے ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیعت ہونے کی استدعا کی آپ نے اس سے سوال کیا کہ کیا تم نماز پنجگانہ ادا کرتے ہو؟ اُس نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے اسے نماز کے فوائد بتاتے ہوئے نماز کے طریقہ سے آگاہ فرمایا پھر ارشاد فرمایا کہ پہلے تم نماز پنجگانہ باجماعت پابندی سے پڑھنے کی عادت ڈالو۔ اسی طرح جو بھی آتا اس کے ساتھ اسی طرح کا ہی سلوک فرماتے کچھ مدت تک اس پر توجہ رکھتے اگر وہ شخص باجماعت نماز پنجگانہ کی پابندی کرتا ہوتا پھر اس کو اپنا مرید کرتے تھے۔
تحریک پاکستان میں حصہ:
آپ کا تحریک پاکستان میں بہت بڑا حصہ و کردار ہے آپ نے نظریہ پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے مسلم لیگ کا بھرپور ساتھ دیا اور قائد اعظم محمد علی جناح کو مکمل طور پر اپنا تعاون پیش کیا اس ضمن میں آپ نے عملی طور پر بہت کام کیا۔ ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں آپ نے مسلم لیگ کی حمایت میں پورے ہندوستان کے دورے کیے جگہ جگہ انتخابی جلسوں میں لوگوں کو مسلم لیگ کے پروگرام کی طرف آمادہ کرتے ہوئے ان کو اس بات لیے تیار کیا کہ وہ اپنا ووٹ صرف اور صرف مسلم لیگ کے اُمیدوار کو دیں۔ پاکستان بن جانے کے بعد آپ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی کوشش کرتے رہے اور اس حوالے سے حکومت وقت کو یاد داشتیں کرتے ہر جلسہ اور ہر پلیٹ فارم پر حکومت کو پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا وعدہ یاد دلانے میں سر گرم رہتے تھے۔
شدھی کی تحریک کی مخالفت:
۱۹۲۳ء میں شدھی کی ایسی زبردست تحریک ہندوستان میں چلی کہ جس نے مسلمانوں کے عقائد کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا اس تحریک کا مقصد مسلمانوں کو دینِ اسلام سے پھیر کر مرتد بنانا تھا یہ تحریک بڑے زور و شور سے جاری تھی۔ اس پُر آشوب دور میں آپ نے اس تحریک کی مخالفت کے لیے کمر کسی اور اس فتنے کی سرکوبی کے لیے بھرپور طریقے سے ایک مہم شروع کی اور مسلمانوں کو صحیح صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے اپنا دینی و ملی فریضہ پورا کیا۔
تحریک خلافت میں حصہ:
تحریک خلافت کی آپ نے مکمل طور پر حمایت کی خلافت فنڈ میں لاکھوں روپے چندہ اکٹھا کر کے دیا اور ہر طرح سے تحریک خلافت کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔
علی گڑھ یونیورسٹی کی اعانت:
آپ نے علی گڑھ یونیوسٹی کی بھی بہت دفعہ مالی اعانت فرمائی علی گڑھ یونیورسٹی کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم کا آغاز ہوا تو آپ اس میں پیش پیش تھے اور اس فنڈ میں آپ نے اُس وقت تین لاکھ روپے کی خطیر رقم جمع کرائی مالی اعانت کا یہ سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رہا۔
حجاز ریلوے لائن کی تعمیر میں حصہ:
حجاز ریلوے لائن کی تعمیر کے سلسلہ میں جب سلطان عبد الحمید نے تمام مسلمانِ عالم سے چندہ کی اپیل کی تو آپ اس ملی کام میں بھی پیچھے نہ ہٹے اور بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے ہوئے چھ لاکھ روپے اپنے اور اپنے متوسلین کی طرف سے بھجوائے آپ کے اس جذبہ کی قدر کرتے ہوئے سلطان عبد المجید نے آپ کو ’’عمدہ الا ماثل والا فاضل‘‘ کا خطاب دیا۔ اس واقعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ مسلمانوں کی بہبود کے لیے اپنے دل میں کس قدر عظیم جذبہ رکھتے تھے۔
فِتنہ قادیانیت کی سر کوبی:
قادیانیت کے فتنہ کی سرکوبی کے لیے آپ کی خدمات سے کسی طور انکار ممکن نہیں ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے غلط عقائد کی مخالفت کرتے ہوئے اُن دنوں حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مرزائیت کے رد کے لیے خصوصی طور پر گولڑہ شریف سے لاہور تشریف لائے ہوئے تھے۔ علماء مشائخ اس عظیم دینی مشن پر اپنا ایک واضح مؤقف رکھتے تھے اور فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے کوشاں تھے حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے فرمایا کہ شاہ صاحب! یہ شکار آپ ہی کے مارنے کا ہے اس کے بعد حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ گولڑہ شریف واپس تشریف لے گئے۔ حضرت سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ردِ قادیانیت کے سلسلہ میں لاہور میں ایک عظیم الشان جلسہ عام میں مرزا غلام احمد قادیانی کو دعوت مباہلہ دی اور اس ضمن میں چوبیس گھنٹے کی مہلت دیتے ہوئے مرزا قادیانی کی عبرتناک موت کی پیش گوئی فرمائی چنانچہ اگلے ہی روز مرزا غلام احمد قادیانی ۲۶ مئی ۱۹۴۰ء کو شدید اذیت کے عالم میں فوت ہوگیا۔
تبلیغ کا طریقہ:
آپ کا طریقہ تبلیغ انتہائی سادہ تھا آپ کے حسن سلوک اور اخلاق عالیہ سے متاثر ہوکر لوگ آپ کے گرویدہ اور معتقد ہوجاتے تھے اگر کبھی تبلیغی دورے کے سلسلہ میں کسی دوسرے شہر میں تشریف لے جاتے تو کسی مرید کے گھر میں قیام نہ کرتے تھے اور نہ ہی اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ کسی مرید کے گھر میں قیام کیا جائے اس حوالے سے آپ کے ایک مرید خاص مولوی غلام جیلانی نقشبندی سکنہ ٹوبہ سنگھ بیان کرتے ہیں کہ آپ جب کبھی ٹوبہ ٹیک سنگھ تشریف لاتے تو لطیف ہائی سکول میں قیام فرماتے حالانکہ آپ کے مریدوں کی ایک خاصی تعداد شہر میں موجود تھی مگر آپ ان میں سے کسی کے ہاں بھی قیام نہ فرماتے تھے۔ کھلی اور عام جگہ پر قیام کرکے خوشی محسوس کرتے اور فرماتے کہ ہمارا مشن تبلیغی ہے مریدوں کے گھروں میں رہ کر تبلیغ نہیں ہوسکتی کیونکہ ہر کوئی اس جگہ پر نہیں آسکتا۔ آپ کا قیام ہمیشہ ایسی جگہ پر ہوتا تھا کہ جہاں پر ہر شخص اور ہر مذہب کے لوگ بلا روک ٹوک آجاسکیں جب آپ کی تشریف آوری کی خبر لوگوں کو ہوتی تو ارد گرد کے دیہات سے بے شمار عقیدت مند آپ کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل کرتے آپ کے ارشادات عالیہ سے مستفید ہوتے لاتعداد مسلمان آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوکر روحانی فیض حاصل کرتے جب کہ غیر مسلم افراد بھی اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکر آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتے تھے۔
پسندیدہ غذائیں:
آپ معاملہ میں سادگی کو پیش نظر رکھا کرتے تھے اسی لیے غذا بھی سادہ ہی استعمال فرماتے تھے۔ آپ کی پسندیدہ اور مرغوب غذاؤں میں آم اور شلجم کا اچار خاص طور پر قابل ذکر ہیں اس کے علاوہ آپ دودھ کے بغیر قہوہ بھی شوق سے نوش فرماتے تھے جب کہ گرمیوں میں گنے کے رس کی کھیر، فرنی، دیسی کدو، مرغی کا شوربہ، بکری کا دودھ، وہی اور ساگ کا استعمال فرماتے تھے سردی کے موسم میں بھینس کا دودھ پسند فرماتے تھے اور لسی و شہد کا استعمال بھی کرتے تھے۔ بلا شبہ آپ سادہ غذائیں تناول فرماتے مگر آپ کا دستر خوان بہت وسیع تھا مہمانوں کے لیے مختلف اقسام کے کھانے تیار کرا کر دستر خوان کی زینت بناتے تھے سینکڑوں افراد ایک ہی وقت میں آپ کے دستر خوان پر حاضر ہوکر ما حضر تناول کرتے تھے۔ آپ کے دستر خوان کی وسعت کو دیکھ کر بڑے بڑے راجے مہارا جے، صاحب ثروت لوگ اور اعلیٰ سیاسی مقام رکھنے والے لوگ حیرت زدہ ہوتے تھے اور آپ کی مہان نوازی اور دریا دلی کی داد دیئے بغیر نہ رہتے تھے۔
مدرسہ کی تعمیر:
۱۹۱۶ء میں آپ نے علی پور سیداں میں ایک عظیم الشان مدرسہ نقشبندیہ قائم کیا جس سے آج تک ہزار طالبان حق مستفید ہو رہے ہیں اس مدرسہ کے تمام انتظامی اخراجات اساتذہ اور طلباء کے قیام و طعام کا بند و بست اب تک آپ کا گھرانہ کرتا چلا آرہا ہے اس مدرسہ کا قیام ابتداء میں ایک حویلی میں عمل میں لایا گیا تھا پھر رفتہ رفتہ اس کی اہمیت کے پیش نظر ضرورت یہ محسوس کی گئی کہ اس کے لیے ایک الگ عمارت تعمیر کی جائے چنانچہ مسجد نوری سے ملحقہ ایک نئی تعمیر شدہ عمارت میں مدرسہ کو منتقل کردیا گیا جب یہ عمارت پرانی اور بوسیدہ ہوگئی تو ا کی جگہ پر ایک نئی عمارت تعمیر کردی گئی اب یہ مدرسہ اس نئی عمارت میں اپنی پوری شان کے ساتھ موجود ہے۔ بے شمار تشنگان علم اس علمی درس سے اپنی علمی پیاس بجھا کر ملک کے کونے کونے میں دینِ اسلام کی خدمت میں کوشاں ہیں اس دینی مدرسہ میں ایک عظیم الشان لائبریری بھی قائم کی گئی ہے جس میں نادر و نایاب کتب کا ایک گراں بہا ذخیرہ موجود ہے سینکڑوں کی تعداد میں قدیمی اور قلمی نسخے بھی موجود ہیں۔ جن سے اہل علم حضرات استفادہ کرتے ہیں۔
عبادت و ریاضت:
آپ بچپن سے ہی عبادت الٰہی کی طرف راغب تھے زمانہ طالب علمی میں آبادی سے دور جاکر نہایت توجہ و یکسوئی سے عبادت الٰہی میں مشغول ہوتے اس دوران آپ پر وجد کی کیفیت بھی طاری ہوجاتی۔ ذکر الٰہی میں مستغرق رہ کر آپ کو سکون قلبی کی دولت حاصل ہوتی تھی۔ آپ کا یہ معمول عمر بھی اسی طرح ہی رہا عبادت الٰہی سے کبھی بھی غفلت نہ برتتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی ذکر الٰہی ہمہ وقت کرتے رہنے کی تلقین فرمایا کرتے۔
حلیہ مُبارک:
آپ کا چہرہ انور بڑا با رعب اور متاثر کن تھا جو بھی آپ کو دیکھتا اپنی نگاہیں نیچی کرلیتا تھا آپ کو دیکھنے کی تاب نہ لاسکتا تھا اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت خوبصورت حلیہ مبارک عطا کیا ہوا تھا۔ ضعیفی کے دنوں میں بھی آپ کے چہرہ مبارک کی رونق و شگفتگی قائم و دائم تھی۔ ہونٹوں پر تبسم رہتا تھا آواز نہایت مدہم رکھتے تھے مگر جب گفتگو فرماتے تو تاحد نگاہ موجود لوگوں تک آواز صاف سنائی دیتی تھی۔ قد مبارک درمیانہ تھا ہاتھوں کی انگلیاں نرم و نازک اور دراز تھیں۔ عالم پیری میں مہندی کا استعمال فرماتے تھے جس کے باعث داڑھی مبارک سرخ دکھائی دیتی تھی۔ آپ ہمیشہ سفید لباس زیب تن فرماتے موسم سرما میں سبز رنگ کے پشمینہ کی پگڑی باندھتے تھے۔ زیادہ تر زمین پر بستر کرکے استراحت فرماتے تھے، صاف ستھرا لباس پہنتے تھے۔
ازواج و اولاد:
حضور سرکار مدینہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت مطہرہ کی پیروی کرتے ہوئے آپ نے شادی کی آپ کی شادی اپنے ماموں حضرت سید توکل شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دختر نیک اختر سیدہ امیر بیگم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا سے ہوئی۔ آپ کی زوجہ مطہرہ نہایت نیک سیرت، بلند کردار اور صوم و صلوٰۃ کی پابند خاتون تھیں۔ آپ کے تین صاحبزادے ہوئے جن کے اسمائے مبارک یہ ہیں حضرت سید خادم حسین شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت سید محمد حسین شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت سید نور حسین شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔
اقوال زریں:
۱۔ آپ اکثر فرمایا کرتے کہ مجھے کچھ علم کی دولت نصیب ہوئی ہے وہ والدین اور اساتذہ کا ادب کرنے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔
۲۔ فرمایا ادب کا پہلا زینہ والدین ہیں والدین کا ادب فرض سمجھ کر کیا کرو والدین خوش ہیں تو پھر ہر منزل کامیابی و کامرانی سے طے ہوگی۔ پھر اساتذہ کرام کا ادب عقیدت و احترام سے کرو کیونکہ یہ بھی روحانی والدین ہیں۔
۳۔ ہر کام میں ادب کو مقدم رکھو اسی میں کامیابی ہے ورنہ دنیا و آخرت میں خسارہ ہے۔
۴۔ حقہ نوشی سے نفرت کرتے تھے فرماتے جس کے منہ سے بدبو آتی ہو وہ درود شریف نہیں پڑھ سکتا اور نماز اور دُعا میں درود پاک پڑھنا لازم ہے۔
۵۔ بے نماز سے کوئی چیز نہ پکڑتے فرماتے کہ نمازی بنو اس میں نجات اور کامیابی ہے۔
۶۔ فرماتے بے نماز کا حشر فرعون اور نمرود کے ساتھ ہوگا۔ نماز چھوڑنا کفر ہے۔ بے نماز کی ہر نیکی نا مقبول ہے وہ ناکام ہے۔
۷۔ فرماتے نماز ہر دُکھ تکلیف کا مداوا ہے، روح کی غذا ہے دین کا ستون ہے، مومن کی معراج ہے، جنت کی کنجی ہے قبر اور حشر میں ساتھی ہے روز محشر پہلا لازمی پرچہ ہے۔ بے نماز جنت کی خوشبو سے محروم ہے اور مسلمانوں کی صف سے باہر ہے۔
وصال مبارک:
حضرت سید جماعت علی شاہ صاحب محدث علی پوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس فانی دنیا میں اپنی حیات طیبہ کے ماہ وسال گزار کر علی پور سیداں میں کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے ۲۶ ذیقعدہ ۱۳۷۰ھ بمطابق ۳۱ اگست ۱۹۵۱ء کو رحلت فرماگئے آپ کے وصال کی خبر ہر طرف پھیل گئی عقیدت مندوں کا ایک ہجوم تھا جو اطراف و اکناف سے علی پور سیداں کی طرف رواں دواں تھا نماز جنازہ میں بے شمار عقیدت مند پُر نم آنکھوں سے شامل تھے آپ کو علی پور سیداں میں اُس جگہ پر دفن کیا گیا جہاں آپ کا عالی شان مزار مبارک ہے۔
(مشائخ نقشبند)