حضرت ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ

ام حبیبہ دختر ابوسفیان صخر بن حرب بن امیہ بن عبدشمس قرشیہ امویہ،یہ خاتون ازواجِ مطہرات میں شامل تھیں،ام حبیبہ ،ان کی لڑکی کے نام پر جوعبیداللہ بن حجش کی بیٹی تھیں ان کی کنیت تھی،اور نام رملہ تھا،ان کا ذکر گزر چکا ہے،قدیم الاسلام ہیں،اپنے شوہر کے ساتھ ہجرت کر کے حبشہ چلی گئیں،وہاں ان کی بیٹی حبیبہ پیدا ہوئیں،خاوند نے عیسائیت قبول کرلی اور وہیں مر گیا۔

حضورِاکرم نے نجاشی کو پیغام بھیجا،کہ وہ ام حبیبہ تک آپ کی یہ خواہش پہنچائیں کہ حضورِ اکر م ان سے نکاح کے متمنی ہیں،ام حبیبہ کہتی ہیں،مجھے اس وقت پتہ چلا جب نجاشی کی ایک لونڈی ابرہہ نامی یہ پیغام لے کر میر ے پاس آئی،جو نجاشی کی لڑکیوں کی خدمت پر مامور تھی،اور بادشاہ کے لئے تیل کا بندوبست کرتی تھی،اس نے اندر آنے کی اجازت طلب کی،اور میں نے اسے اندر بُلالیا،اس نے بتایا،کہ حضورِاکرم نے نجاشی کو لکھاہے کہ وہ آپ سے دریافت کریں،آیا آپ حضورِ اکرم سے نکاح پر آمادہ ہیں،میں نے بصد شکریہ اس پیشکش کو قبول کرلیا،پھر لونڈی نے کہا،نیز یہ بتاؤ کہ اس سلسلے میں تمہارا وکیل کو ن ہوگا،میں نے خالد بن سعید بن عاص بن امیہ کو اپنا وکیل مقررکیا،اور ابرہہ کو میں نے چاندی کے دو کنگن اور انگشتریاں بطور تحفہ دیں۔

جب رات ہوئی تو نجاشی نے جعفر بن ابی طالب اور حبشہ میں موجود مسلمانوں کو مجلس نکاح میں شرکت کی دعوت دی،خطبہ نکاح کے بعد نجاشی نے اللہ کی حمد و ثنابیان کی اور کہا،کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے لکھا،کہ میں ام حبیبہ دختر ابوسفیان سے آپ کا نکاح پڑھادُوں،ام حبیبہ نے رضامندی کا اظہار کیا،میں نے ان کا مہر چارسو دینا ر مقرر کیا ہے،اس پر نجاشی نے وہ رقم مجلس میں انڈیل دی۔

اس کے بعد خالد بن سعید نےاللہ کی حمد و ثناء کے بعد اہلِ مجلس کوبتایا،کہ میں نے رسول اکرم کے ارشاد کی تکمیل میں ام حبیبہ دختر ابوسفیان کا نکاح آپ سے پڑھادیاہے،میں دعاکرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس رشتے کو حضور کے لئے مبارک کرے،اس پر نجاشی نے وہ دینار خالد بن سعید کے سپر د کردئیے،جب مجلس نکاح برخاست ہونے لگی،تو نجاشی نے کہا،ابھی بیٹھے رہو،کیونکہ انبیاء کی یہ سنت ہے کہ بعد ازنکاح ان کے طرف سے حاضرین کوکھاناکھلایاجاتا ہے،چنانچہ کھانا کھانے کے بعد وہ لوگ منتشر ہوگئے۔

ایک روایت میں ہے کہ اس نکاح میں ام حبیبہ کی طرف سے وکالت کے فرائض عثمان بن عفان بن ابوالعاص بن امیہ نے سر انجام دئیے تھے،کیونکہ ام المومنین کی والدہ صفیہ دختر ابوالعاص عثمان کی پھوپھی تھیں۔

ابنِ اسحاق کا قول ہے کہ اس نکاح کا انعقاد زینب دختر خزیمہ ہلالیہ کے نکاح کے بعد ہوا،اور تمام اہل السّیر کا اس پر اتفاق ہے،کہ حضور نبیِ کریم کا نکاح جناب ام حبیبہ سے اس وقت پڑھاگیاہے جب ام ام المومنین حبشہ میں تھیں،لیکن امام مسلم بن حجاج نے صحیح مسلم میں لکھاہےکہ یہ نکاح ابوسفیان کی خواہش پر اس وقت پڑھاگیا جب فتح مکہ کے بعد ابوسفیان نےاسلام قبول کیا،لیکن یہ بعض روات کا وہم ہے۔

ابوبکر محمد بن عبدالوہاب بن عبداللہ بن ابنِ علی انصاری(جوابن شیرحی دمشقی کے عرف سے مشہور ہیں)نےاور نیزاور کئی راویوں نے حافظ ابوالقاسم علی بن حسن بن ہبتہ اللہ سے،انہوں نے ابولمکارم محمد بن احمد بن محسن طوسی سے،انہوں نے ابوالفضل محمد بن احمد بن حسن عارف المہینی سے،انہوں نے ابوبکراحمد بن حسن بن احمد جرشی سے،انہوں نے ابومحمد حاجب بن احمد بن خم الطوسی سے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن منیب مروزی سے ،انہوں نے یزید بن ہارون سے،انہوں نے محمد بن عبداللہ شیعشی سے،انہوں نے والد سے ،انہوں نے عتبہ بن ابوسفیان سے،انہوں نے ام حبیبہ سے، انہوں نے حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت کی،آپ نے فرمایا،جس آدمی نے چار رکعتیں قبل از ظہر اور چار بعد از ظہر ادا کیں،اس نے جہنم کو خود پر حرام کرلیا،جناب ام حبیبہ نے چوالیسویں سال میں وفات پائی،تینوں نے ذکر کیا ہے۔


متعلقہ

تجویزوآراء