امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق
امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
اِن کی کنیت ابو بکر، جاہلیت کا نام عبد الکعبہ، اسلامی نام عبد اللہ، لقب عتیق صدیق تھا، والد کا نام ابو قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مُرّہ بن کعب القرشی تھا، والدہ ماجدہ کا نام امّ الخیر سلمیٰ بنت صخر بن عمرو بن کعب تھا، آپ کے والدین آپس میں چچازاد تھے۔
واقعہ فیل سے دو (۲) برس چار مہینے اور کچھ دن بعد پیدا ہوئے، مردوں میں سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے، اور رسالت کی تصدیق کی، اور تا حیاتِ نبوی حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے ہر طرح سے معین و مددگار و وزیر و مشیر رہے اور جب حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقالہَوا تو باتفاقِ جمیع صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جلوہ افروز مسند خلافت ہوئے، دو (۲) برس اور چند ماہ تک ترویجِ اسلام فرما کر شب شنبہ بتاریخ بائیسویں (۲۲) جمادی الآخر ۱۳ھ / ۶۳۴ء میں رحلت فرمائے خُلدِ برین ہوئے، اور حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے روضہ اطہر میں مدفون ہوئے۔
فتوحاتِ صِدّیقی
انہوں نے خلیفہ ہوتے ہی اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے لشکر کو بلادِ شام کی طرف روانہ کیا، پھر مرتدّین کے ساتھ جنگ کر کے تمام عرب میں اسلام کا سکہ بٹھایا،
۱۲ھ میں مثنے بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو عراق پر چڑھائی کا حکم دیا، اور خالِد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بھی اُس کی مدد کے لیے روانہ فرمایا، اسلامی فوج نے بانقیا، کسکر، حیرہ کے اضلاع کو فتح کیا،
۱۳ھ کچھ مدّت کے بعد خلیفۃ المسلمین رضی اللہ عنہ نے خالد رضی اللہ عنہ کو شام کی طرف جانے کا حکم دیا کیونکہ وہاں جو فوج گئی تھی اُسے کمک کی سخت ضرورت تھی، خالد رضی اللہ عنہ کو راستے میں اکثر چھوٹی چھوٹی لڑایاں لڑنی پڑیں، لڑتے بھرتے خالد رضی اللہ عنہ شام میں پہنچ گئے۔ اور متحدہ قوت سے بصرٰے، مخل، اجنادین پر قبضہ کیا، توج، مِکران اور اُس کے متصل علاقے اور زارہ اور اُس کے اطراف بھی اسلامی حدود میں داخل کئے گئے۔
فضائل صدّیقی
اِن کے فضائل قرآن مجید و احادیث میں بکثرت ہیں۔ یہاں تین ۳ حدیثیں تبرکًا لکھی جاتی ہیں۔
حدیث: عن عبد الہ بن مسعود عن النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم قال لو کنتُ متّخِذًا خلیلًا لا تّخذتُ ابا بکرٍ خلِیلًا ولکنّہٗ اخی وصاحبی وقد اتّخذ اللہ صاحبکم خلیلًا۔ (صحیح مسلم)
حدیث: عن عبد اللہ بن مسعود عن النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم قال لکلّ نبیّ خاصۃً من اصحابہٖ وانّ خاصتی من اصحابی ابو بکرٍ (طبرانی)
حدیث: عن سلمۃ بن الا کوع قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکرٍ الصّدّیق خیر النّاس الّا ان یکون نبیًّا (طبرانی)
اولادِ صدّیقی
اِن کے تین بیٹے تھے۔ اوّل حضرت عبد اللہ (متوفی شوال ۱۱ھ)[۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۷۳] دوم حضرت عبد الرحمٰن (متوفی ۵۳ھ) [۱] [۱۔مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۷۳] سوم حضرت محمّد (شہید ۳۸ھ) [۱] [۱۔مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۷۳]
حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ کی نسل باقی ہے جو بَکری یا صدّیقی کہلاتے ہیں۔
خلفاء صدّیقی
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو خلافتِ باطنی دے کر کلاہِ یک تَر کی عطا فرمائی تھی، اور اِن سے تین (۳) صاحبوں کو نسبتِ باطنی پہنچی۔
۱وّل: حضرت ابو محمد مطعم قریشی رضی اللہ عنہ: اِن سے سلسلہ فقر چلا چنانچہ منصور سلمی مرید محمد بن مسلم زاہدی کے، وہ مرید محمد بن جبیر نوفلی کے، وہ مرید حضرت ابو محمد مطعم قریشی کے رحمہم اللہ۔[۱] [۱۔ تاریخ الاولیاء ۱۲ شرافت]
دوم: حضرت عبد اللہ عَلَم بردار رضی اللہ عنہ: اگرچہ اِن کو نسبت صدّیقی بھی ملی ہے لیکن ان کی زیادہ تربیت حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے ہوئی، اس لیے ان کا تذکرہ خلفاء مرتضوی میں آئے گا۔
سوم: حضرت ابو عبد اللہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ: اِن کا جدّی وطن اصفہان تھا، آباء دین مجوسی پر تھے، یہ پہلے موسوی دین میں پھر عیسوی دین میں داخل ہوئے، جب دنیا پر اسلام کا آفتاب چمکا تو حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔ اور حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی خدمت میں مدت العمر گذاری، بعد ازاں اہل بیت نبوی علیہم السلام کے بھی خاص خادِم رہے بلکہ حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے اِن کو فرما دیا تھا سلمان منّا اھل البیت یعنی سلمان ہمارے اہل بیت سے ہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں اِن کو مدائن کا والی مقرر کیا، چنانچہ وہیں انتقال کیا، انہوں نے عمر طویل پائی، بروایتِ صحیح دو سو پچاس (۲۵۰) سال عمر پا کر دسویں (۱۰) رجب ۳۳ھ میں فوت ہوئے۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اول ص ۵۱۷ ۱۲شرافت]
نسبتِ باطنی حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ سے حاصل کی، آگے اِن سے بھی سلسلہ فقر چلا جو اکثر ممالک میں باہم نقشبندیہ جاری ہے۔
اِس سلسلہ عالیہ میں سے آج کل ہمارے ملک پنجاب میں ایک مشہور بزرگ حضرت حافظ حاجی سید جماعت علی شاہ صاحب محدّث شیرازی موضع علی پور سیّداں ضلع سیالکوٹ میں سکونت رکھتے ہیں، سو (۱۰۰) سال سے زیادہ عمر ہے، متیمتن پاکباز صاحبِ عبادات و ریاضت ہیں، کبار مشایخِ وقت سے ہیں، مختلف ممالک میں اِن کے فیض کا شہرہ ہے، اکثر رؤساء و نوّاب والیانِ ریاست بھی اِن کے ارادتمندوں سے ہیں، مریدوں کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچتی ہے، ہر سال حج کو تشریف لے جایا کرتے ہیں غالبًا تیس (۳۰) سے زیادہ حج کیے ہوئے ہیں، حرمین الشریفین زادہما اللہ شرفًا و تعظیما کے لوگ بھی ان سے اچھا اعتقاد رکھتے ہیں، چنانچہ ایک عربی بزرگ شیخ احمد کمال صدیقی مدنی ہمارے ہاں تشریف لائے، تو میں نے اُن کو پوچھا ما یقولون اھل الحرمین الشّریفین فی حق ھٰذا الشیخ۔ انہوں نے فرمایا شَیْخٌ صَالِحٌ جب حج کو جاتے ہیں تو امیر عرب سلطان عبد العزیز ابن سعود نجدی وہابی ہادِم القباب کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، اپنی جماعت علیٰحدہ کرواتے ہیں، فقیر شرافت عفٰی عنہ دو (۲) مرتبہ زیارتِ ظاہری و مصافحہ سے مشرف ہوا ہے ایک مرتبہ خواب میں بھی دیکھا کہ درگاہِ عالیہ نوشاہیہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے پالکی پر تشریف لا رہے ہیں، اور ہمارے گاؤں کے پاس اُترے ہیں، فقیر نےسعادتِ دارَین کے لیے کچھ پوچھا تو انہوں نے فرمایا ہے کہ روزانہ نمازِ مغرب کے بعد ایک سو مرتبہ یَا حَییُّ یَا قَیُّوْمُ پڑھا کرو، اور ہر ماہِ قمری کے آخری عشرہ میں ایک روزہ رکھا کرو، تم کو دنیا و دین میں کافی ہوگا۔ چنانچہ فقیر اس سے متمتع ہوا ہے سلمہ اللہ تعالٰی وادام اللہ فیوضہ۔حضرت شاہ صاحب علی پوری مرید حضرت بابا فقیر محمد فارقی چوراہی (متوفی ۲۹؍ محرم ۱۳۱۴ھ) کے، وہ مرید اپنے والد خواجہ نور محمد چوراہی (متوفی ۱۲؍ شعبان ۱۲۸۶ھ) کے، وہ مرید اپنے والد خواجہ محمد فیض اللہ تیرا ہی (متوفی ۲۰ ربیع الاوّل ۱۲۴۵ھ) کے، وہ مرید سید محمد عیسیٰ شاہ گونڈہ پوری (متوفی ۷؍ ذی حجہ ۱۲۲۰ھ) کے، وہ مرید حافظ سید محی الدین جمال اللہ بن سید سلطان محمد روشن شاہ گیلانی گجراتی رامپوری (متوفی ۳؍ صفر ۱۲۰۹ھ) کے، وہ مرید شاہ قطب الدین محمد اشرف حیدر حسین بخاری مدنی (متوفی ۱۰؍ رجب ۱۲۰۰ھ) کے، وہ مرید قیّومِ رابع خواجہ ابو البرکات شمس الدین محمد زبیر بن ابو العُلٰے فاروقی سرہندی (متوفی چہار شنبہ ۴؍ ذیقعدہ ۱۱۵۲ھ) کے، وہ مرید اپنے جدّ امجد قیّومِ ثالِث خواجہ ابو القاسم شرف الدّین حجّہ اللہ محمد نقشبندی سرہندی (متوفی شب جمعہ ۲۹؍ محرم ۱۱۱۴ھ) کے، وہ مرید اپنے والد قیّوم ثانی خواجہ مجد الدین محمد معصوم عروۃ الوثقٰے سرہندی (متوفی دوشنبہ ۹؍ ربیع الاول ۱۰۷۹ھ) کے، وہ مرید اپنے والد قیّومِ اوّل امامِ ربانی خواجہ ابو البرکات بدر الدین شیخ احمد سرہندی (متوفی سہ شنبہ سلخِ صفر ۱۰۳۴ھ) کے وہ مرید خواجہ بیرنگ محمد باقی باللہ دہلوی (متوفی سہ شنبہ ۲۵؍ جمادی الآخر ۱۰۱۲ھ) کے، وہ مرید مولانا خواجگی محمد امکنگی (متوفی ۲۲؍ شعبان ۱۰۰۸ھ) کے، وہ مرید اپنے والد خواجہ درویش محمد اسقراری (متوفی ۱۹؍ محرم ۹۷۰ھ) کے، وہ مرید اپنے ماموں خواجہ محمد زاھد رخشی (متوفی غرہ ربیع الاول ۹۳۶ھ) کے، وہ مرید خواجہ ناصر الدین عبید اللہ احرار بن محمود بن شہاب الدین نقشبندی سمر قندی (متوفی شب شنبہ ۲۹؍ ربیع الاوّل ۸۹۵ھ) کے، وہ مرید مولانا یعقوب چرخی ہلغنونی (متوفی ۵؍ صفر ۸۵۱ھ) کے، وہ مرید سید علاؤ الدین محمد بن محمد عطّار بخاری جفانیانی (متوفی شب چہار شنبہ ۲۰ ؍ رجب ۸۰۲ھ) کے، وہ مرید اپنے خسر خواجہ بہاؤ الدین محمد بن محمد نقشبند بخاری قصر عارفانی (متوفی شب دو شنبہ ۳؍ ربیع الاوّل ۷۹۱ھ) کے، وہ مرید خواجہ سید امیر کلال سوخاری (متوفی پنجشنبہ ۸؍ جمادی الاول ۷۷۲ھ) کے، وہ مرید خواجہ محمد بابا سماسییٰ (متوفی ۱۰؍ جمادی الآخر ۷۵۵ھ) کے، وہ مرید خواجہ عزیزان علی رامیتنی خوارزمی (متوفی ۲۸؍ ذیقعدہ ۷۲۱ھ) کے، وہ مرید خواجہ محمود الخیر فغنوی (متوفی ۱۷؍ ربیع الاوّل ۷۱۵ھ) کے، وہ مرید خواجہ محمد عارف ریوگری (متوفی یکم شوال ۶۱۶ھ) کے وہ مرید خواجہ عبد الخالق بن عبد الجمیل غجدوانی (متوفی ۱۲؍ ربیع الاوّل ۵۷۵ھ) کے، وہ مرید خواجہ ابو یعقوب یوسف بن ایّوب ہمدانی مروزی (متوفی ۲۷؍ رجب ۵۳۵ھ) کے، وہ مرید خواجہ ابو علی فضیل بن محمد قارمدی طوسی (متوفی ۴؍ ربیع الاول ۴۷۷ھ) کے، وہ مرید خواجہ ابو الحسن علی بن جعفر خرقانی [۱] [۱۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے انتباہ میں لکھا ہے کہ حضرت ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی ظاہری ملاقات خواجہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے نہیں ہوئی کیونکہ اُن کی وفات سے کافی عرصہ بعد پیدا ہوئے لہذا روحانی طور پر اُن سے مستفیض ہوئے چنانچہ لکھتے ہیں من طریق الباطن لا من طریق الظاھر ۱۲] (متوفی شب سہ شنبہ روز عاشورہ محرم ۴۲۵ھ) کے، وہ روحی طور پر مرید و تربیت یافتہ شیخ ابا یزید طیفور بن عیسیٰ بن آدم بن سرو شان بسطامی [۱] [۱۔ انتباہ میں ہے کہ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی ظاہری طور پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ملاقات نہیں ہوئی ان کی روحانیت سے فیضیاب ہوئے ہیں۔ ان کا متصل سلسلہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ عزیزیہ ص ۴۰۱ میں اس طرح پر لکھا ہے کہ خواجہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ مرید سید جعفر کذّاب رحمۃ اللہ علیہ کے وہ مرید اپنے والد امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے وہ مرید اپنے والد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے نیز صحیح یہ ہے کہ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت حضرت شیخ حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ سے تھی جیسا کہ صاحب حقیقت گلزار صابری نے اس کی تصریح کی ہے اور اسی کو ہم نے مقدمہ کتاب ہذا باب اوّل فصلِ ہشتم میں اختیار کیا ہے ۱۲ شرافت] (متوفی جمعہ ۱۵؍ شعبان ۲۶۱ھ) کے، وہ روحی طور پر مرید و تربیت یافتہ امام ششم حضرت امام ابو عبد اللہ جعفر صادق (متوفی دوشنبہ ۱۵؍ رجب ۱۴۸ھ) کے، وہ مرید اپنے نانا شیخ قاسم [۱] [۱۔ انتباہ میں ہے کہ حضرت شیخ قاسم بن محمد رحمۃ اللہ علیہ کو بھی حضرت سلمان فارسی رحمۃ اللہ علیہ سے ظاہری ملاقات نہیں ہوئی اُن سے بطور روحانیت ہی مستفیض ہوئے۔ ۱۲ جاننا چاہیے کہ سلسلہ نقشبندیہ کی سند متصل طور پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تک ثابت نہیں ہوئی تین جگہوں میں انقطاع پایا جاتا ہے جیسا کہ شاہ صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے مستفاد ہوتا ہے اور اس کا صحیح طور پر اتصال خاندانِ جنیدیہ سے ہے جیسا کہ مقدمہ کتاب ہذا باب اوّل فصل ہشتم میں ہم نے درج کیا ہے] بن محمد بن ابو بکر صدیق (متوفی جمادی آلاخر ۱۰۷ھ) کے وہ روحی طور پر مرید و تربیت یافتہ حضرت سلمان فارسی کے رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
(شریف التواریخ)
خاص کر جناب امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر خدا کی بے شمار رحمتیں اور سلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تمام امت سے بزرگ و فاضل تر اور سید رحمۃ اللعالمین کے معزز و ممتاز خلیفہ تھے اور جو اہل تجرید کے سر تاج ارباب تفرید کے بادشاہ تھے جن کی ان گنت و بے شمار کرامتیں مشہور و معروف ہیں اور صدہا آیات و دلائل ان پر بڑی وضاحت کے ساتھ دلالت کرتی ہیں آپ کو قلت روایات و حکایات کی وجہ سے حضرات مشائخ ارباب مشاہد و کا مقتدا و پیشوا مانتے اور ان کو سرتاج تسلیم کرتے ہیں آپ کے پُر مغز عاقلانہ کلمات اور عبرت آمیز نصائح سے ایک یہ ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے۔ دار نا فانیۃ و اموالنا عاریۃ والفاسنا معدودۃ وکسلنا موجودہ۔ (ہمارے گھر فانی اور مال مستعار اور سانس گِنے ہوئے اور خدا کی عبادت و فرمانبرداری میں ہماری کسل و کاہلی موجود ہے) زہری رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں کہ جب امیر المومنین جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تو آپ نے منبر پر چڑھ کر نہایت پُر اثر الفاظ میں خطبہ پڑھا اور اثناء خطبہ میں یہی ذکر کیا کہ واللہ ماکنت جریصا علی الا مارۃ یوما ولیلۃ قط ولا کنت فیھا راغبا ولا سالتھا اللہ قط فی سرو علانیۃ و مالی مع الامارۃ راحۃ۔ یعنی بخدا میں کبھی رات دن میں امیر ہونے پر حریص نہ تھا نہ مجھے امارت میں کبھی رغبت پیدا ہوئی اور نہ میں نے کبھی ظاہر و باطن میں اس کی بابت خدا سے سوال کیا اور مجھے اس امارت میں راحت ہی کیا ہے؟ میں حضرت سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز کے خط مبارک سے لکھا دیکھا ہے کہ قال الاعرابی لابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انت خلیفۃ رسول اللہ قال لا الا مالخا فی بعدہ۔
یعنی ایک بدوی نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ تم رسول خدا کے خلیفہ ہو۔ فرمایا میں خلیفہ نہیں ہوں بلکہ ان کے بعد ان کا خلاف ہوں۔ ایک حکایت میں یہ بھی آیا کہ جناب امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے عہذ میں جناب امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیبیوں میں سے ایک بی بی سے نکاح کیا جب خلوت ہوئی تو آپ نے اس سے فرمایا کہ تم میرے سامنے امیر المومنین حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے معاملات کا کچھ ذکر کرو اور یہ بتاؤ کہ وہ زیادہ تر کِن کاموں میں مشغول رہتے تھے تاکہ میں ان کاموں میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کی پیروی کروں بی بی نے کہا کہ میں بجز اس کے اور کچھ نہیں جانتی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رات کے اکثر حصہ میں مشغول بحق رہتے اور جب صبح کی پَو پھوٹتی تو سینہ مبارک سے ایک ایسا سانس نکالتے جس سے جلے ہوئے جگر کی بو تمام گھر میں پھیل جاتی حضرت امیر المومنین جناب فاروق اعظم بی بی کی یہ تقریر سن کر زارو قطار رونے لگے اور ایک آہ سرد بھر کر فرمایا ممکن ہے کہ میں ان کی تمام کاموں اور باتوں میں پیروی و متابعت کروں لیکن جلے ہوئے جگر کی بو کہاں سے لا سکتا ہوں یہی وجہ تھی کہ جناب امیر المومنین حضرت ابو بکرصدیق ذیل کی بشارت کے ساتھ مخصوص ہوئے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان اللہ یتجلی الخلق عامۃ ولا بی بکر خاصۃ یعنی خدا تعالیٰ تمام خلق پر عام طور پر تجلی کرتا ہے لیکن ابو بکر پر خصوصیت کے ساتھ تجلی فرماتا ہے اور اس لیے جناب فاروق اعظم اکثر اوقات فرمایا کرتے تھے یا یتنی کنت شعرۃ فی صدر ابی بکر۔ یعنی کاش میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سینے کا ایک بال ہوتا۔ زان بعد جناب امیر المومنین حضرت فاروق اعظم نے اس عورت کو جس سے نکاح کیا تھا بلا کر فرمایا اس عقد سے میرا ذاتی مقصد صرف اس قدر تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی اور معاملات روز مرہ کی بابت اطلاعات حاصل کروں ورنہ اس عقد سے میری کوئی اور غرض نہ تھی یہ کہ کر آپ نے اس کا مقررہ مَہر حوالہ کردیا اور طلاق دے کر رخصت کردیا۔ اور میں نے حضرت سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز کے قلم مبارک سے لکھا دیکھا ہے کہ لقب ابی بکر بالعتیق قیل لجمالہ وقیل لقولہ علیہ السلام انت عتیق اللہ من النار قالت عائشۃ کان لا بی قحافۃ ثلاث ولد عتیق ومعتق معتق۔ یعنی حضرت ابو بکر کا لقب عتیق ہونے میں سب کو اتفاق ہے مگر اس کی وجہ اور سبب میں تھوڑا اختلاف ہے بعض نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ حسن و جمال کی خوبی کے باعث آپ کو عتیق کہتے تھے۔ اور بعض کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا ابو بکر تم دوزخ کی آگ سے آزاد ہو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ابو قحافہ کے تین فرزند تھے ایک عتیق دوسرے مُعْتَقَ تیسرے معِتق۔ آپ آخری عمر میں پندرہ روز بیمار رہے اور ۱۳ ہجری میں انتقال فرمایا۔
میں نے حضرت سلطان المشائخ قدس سرہ اللہ العزیز کے خط مبارک سے لکھا ہوا دیکھا ہے کہ لمامات ابو بکر قام علی رضی اللہ عنہ علی الباب الذی ھو مسبحی فیہ فقال کنت واللہ للذین یعسوبا اولا حین یفرالناس عنہ واخر حین فشلو کنت کالجبل لا تتحر کہ العو اصف ولا تتزیلہ القوا صف (الیعسوب فحل النحل لا لہ، سابق فیما اختلفت اراٰئھم فی قتال ما نعی الزکوۃ العاصف الریح الکاسرۃ) یعنی جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو جناب علی رضی اللہ نے اس دروازہ پر کھڑے ہوکر فرمایا جس میں خدا کو پاکی کے ساتھ یاد کرتے تھے کہ اے ابو بکر بخدا تم ابتدائی زمانہ میں بھی لوگوں کے لیے یعسوب تھے جبکہ وہ دین اسلام سے بھاگتے اور نفرت کرتے تھے اور آخر زمانہ میں جبکہ انہوں نے بزدلی اختیار کی تو بھی آپ ایک ایسے پہاڑ کی طرح ثابت قدم رہے جسے نہ تو تیز و تند ہواہی حرکت دے سکتی ہے نہ سخت آندھی ہی جگہ سے ہٹاسکتی۔ یعسوب شہد کی مکھی کے سردار کو کہتے ہیں اور جیسا کہ وہ تمام مکھیوں کے آگے ہوتا ہے اس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مانعین زکوۃ سے جہاد کرنے میں ثابت تھے جبکہ صحابہ کی اس بارے میں مختلف رائیں ظاہر ہوئیں اور عاصف تیز اور توڑ دینے والی ہوا کو کہتے ہیں۔
خواجہ حکیم سنائی اس خلیفہ کی مدح میں کہتے ہیں۔
قصیدہ
دوسرای سرور و مونس و یار |
|
ثانی اثنین اذ ہمانی الغار |
ترجمہ: (حضرت ابو صدیق رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اشد درجہ یار غم گسار تھے کہ آپ کے بارہ میں خدا تعالیٰ نے آیہ ثانی اثنین اذہمافی الغار نازل فرمائی آپ جیسے زبان کے سچے تھے ویسے ہی جان سے آپ کے دوست بھی تھے اور جس طرح نبی کی طرح مہربان و شفقت کی صفت پائی جاتی تھی اُسی طرح کعبہ کی مانند عتیق کی صفت سے موصوف تھے یہ بات خصوصیت کے ساتھ آپ ہی میں دیکھی جاتی ہے کہ جب ایک عالم نے کفر دار تداد کا قصد کیا تو آپ نے پیغمبر صاحب کی نبوت کا کام خود انجام دیا جب آپ نے راہ خدا میں اپنا سارا مال صرف کر کے صرف ایک کالا کمل زیب تن فرمایا تو جبرائیل پشمینہ پہن کر اہل دین کے حلقہ میں تشریف لائے الغرض آپ کی سیرت و صورت ہمہ تن جان تھی اور اسی لیے آپ کے ذاتی جو ہر عوام کی آنکھوں سے مخفی تھے آپ کے سینہ کے اسرار سے صاف باطن ہی واقف ہوسکتے ہیں رافضی اس کی قدر نہیں جانتے جو شخص شیطان کی طرح جسم دیکھتا ہے وہ تمام عالم کو اپنے جیسا خیال کرتا ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اہل دین کی آنکھ سے دیکھنا چاہیے نہ نفسانی خواہش اور بغض و عداوت اور رفض کی نظر سے کیونکہ جن کی آنکھوں پر تعصب اور عداوت کی پٹی بندھی ہوتی ہے وہ نہ تو تابش سے واقف ہوسکتے ہیں نہ ایماندار مرد کو پہچان سکتے ہیں آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مخالف نہ تھے نہ آپ سے یہ ہوسکتا تھا کہ ان سے عداوت برتتے کیونکہ جو شخص ایک خاندان کی تحفظ جان کا دعویدار ہو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نقصان کس طرح پہنچا سکتا ہے اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ میں خلافت کی لیاقت نہ ہوتی تو بھلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی سپردگی میں ایک عظیم الشان ملک کیوں دیتے اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اس پر کیوں کر قابض ہوتے حضرت علی رضی اللہ عنہ جو دشمنوں کی کھال کھینچنے میں مشہور تھے اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کے دشمن ہوتے تو وہ کیسے ان کے دوست ہوتے جو کچھ حضرت علی سے ظہور میں آیا عین مصلحت تھی اور جب یہ ہے تو پھر کسی کو ان باتوں میں جھگڑا نکال کھڑا کرنا ہر گز سزا وار نہیں اور جب ان دونوں حضرات میں موافقت و محبت تھی تو ہر شخص کو زبان فضول بند کرنی چاہیے۔ دونوں پر خدا کی رحمت و برکت نازل ہو۔)
(سیر الاولیاء)
آں قدوۃ مہاجرین وانصار، آں ثانی اثنین ازہمافی الغار، آں زمدۂ فانیان فی ذات رسول، آں عمدۂ سابقان بہ معارج وصول، آں امام ارباب عرفان وتحقیق خلیفہ رسول اللہ امیر ولمومنین ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آنحضرتﷺ کے پہلے صحابی پہلے خلیفہ اور اجماع امت کے مطابق آنحضرت صلعم کے بعد افضل ترین خلائق ہیں۔ اور یہ قول قرآن مجید کی دو آیات سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ وَیَتَجَنُّھَا الا تقی الذی یؤتی مالہ یتزکّٰی ائمہ تفسیر اس بات پر متفق ہیں کہ آیت اس خلیفہ برحق کی شان میں نازل ہوئی ہے اسی قرینہ سے آیۃ کریمہ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ بھی صدیق اکبر کی جملہ اصحاب پر افضلیت پر ولالت کرتی ہے
نسب
آپ کا اسم شریف عبداللہ ابن ابی قحاففہ اور نام ابنع ثمان بن عامر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوئی ہے۔ آپ کا نسب مرہ بن کعب پر آنحضرتﷺ کے پاک نسب سے جاملتا ہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی ام الخیر سلمیٰ بنت صخر بن عامر تھا جو ابو قحافہ کی دختر تھیں صدیق اکبر کا قریش کے امراء ورد ساء میں شمار ہوتا تھا اور علم انساب، علم تعبیر خواب اور عروض وقافیہ میں ماہر ہونے کے علاوہ ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے اور تہام کمالات انسانی سے مزیّن تھے۔
قبول اسلام
سفر شام سے واپسی کے وقت آپ نے ایک خواب دیکھا اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف باسلام ہوئے۔ آنحضرت کی بعثت سے لے کر وصال تک سفر وحضر میں آپ کبھی آپﷺ کی صحبت سے علیحدہ نہ ہوئے اور کمال صدق کی وجہ سے آپ نے جان ومال آنحضرت پر قربان کردیا۔ اور کسی حالت میں آنحضرت کی متابعت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ امامِ اصحاب کرام ہوئے اور تمام شائخ عظام کے نزدیک آپ ارباب مشاہدہ کے سردار ہیں۔ کتاب سیر الاولیا
صدیق کا جگر سوختہ
میں لکھا ہے کہ حضرت عمر ابن الخطاب نے حضرت ابو بکر صدیق کی بیوہ سے اس لیے عقد نکاح کیا کہ صدیق اکبر کی مشغولی کے متعلق معلومات حاصل کریں دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ میں اس قدر جانتی ہوں کہ رات کا بیشتر حصہ آپ م شغول بحق رہتے تھے اور صبح کے وقت جب آپ آہ نکالتے تو آپ ک ے سینہ مبارک سے جگر سوختہ کی بو آتی تھی۔ حضرت عمر ے کہا میں دوسرے کاموں میں تو ان کی متابعت کر سکتا ہوں لیکن جگر وسوختہ کہاں سے لاؤں۔ یہ کہہ کر انہوں نے اسے طلاق دے دی اور کہا میں نے صرف یہی کچھ معلوم کرنے کی خاطر نکاح کیا تھا ور کوئی عرض نہ تھی۔ صدیق اکبر کے کمالات کا اس با ت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ کاش کہ میں حضرت ابو بکر صدیق کے سینہ م بارک کے بالوں سے ایک بال ہوتا کہتے ہیں کہ قیامت میں ساری خلقت کو یکبار گی تج لی ہوگی اور صدیق اکبر کو علیحدہ ایک بار۔
لقب صدیق کی وجہ تسمیہ
آپ ک لقب صدیق سے ملقب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے معراج کی سب سے پہلے آپ نے تصدیق کی اور آنحضرت کی رسالت کی تصدیق میں بھی آپ سے پہلے تھے۔ بعض عارفین کا کہنا ہےکہ صدیق وہ ہے جو مشاہدہ حق سبحانہٗ وتعالیٰ میں کونین کو وار دے۔ چنانچہ صدیق اکبر نے بھی یہی کیا۔ جب شکر عرہ کی تیاری میں سرور کونین صلعم نے آپ سے دریافت کیا ما ابقیت لنفس( تونے اپنے گھر خرچ کے لیے کیا باقی چھوڑا ہے) تو آپ نے جواب دیا کہ‘‘اللہ ورسولہ’’۔
لقب عتیق کی وجہ تسمیہ
آپ کا ایک لقب عتیق بھی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک دن آنحضرت نے فرمایا: من ارادنی ینظر الیٰ عتیق من النار ینظر الیٰ ابی بکر۔
(جو شخص آتش دوزخ سے پاک کی زیارت کرنا چاہے تو ابی بکر کی زیارت کرے)
معنی خلافت
جب آنحضرتﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر صدیق مسند خلافت پر اجماع صحابہ کے ساتھ متمکن ہوئے اور حضرت رسالت پناہ کے نائب مطلق و خلیفہ برحق ہوئے اور آنحضرت کے تما اسرار واحوال (اجمع حال بمعنی روحانی مقامات) اذکارواشغال کے حامل ہوئے تو آپ حقیقی معنوں میں خلیفہ رسول اللہ کے نام سے موسوم ہوئے۔
آپ کی خلافت میں قدرے اختلاف
قوم انصار نے شروع میں آپ کی خلافت میں اختلاف کیا لیکن بحث وتمحیص کے بعد انہوں نے اختلاف ترک کردیا اور آپ سے بیعت کرلی۔ لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور اکثر بنوہاشم نے بیعت میں توقف کیا اورجب حضرت بی بی فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال ہوا تو حضرت علی نے بھی آپ سے بیعت کرلی۔[1]
جمع قرآن
حضرت ابو بکر صدیق کے عہد میں حضرت عمر کے مشورہ پر قرآن مجید جمع کیا گیا۔ اس سے پہلے قرآن متفرق تھا۔ جو صحابی قرآن کی کوئی آیت لاتا تھا جب تک وہ گواہ گواہی نہین دیتے قبول نہ ہوتی تھی، یہ کان زید بن ثابت انصاری کے سپرد تھا۔ انہوں نے بڑی احتیاط سے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا۔
حق تعالیٰ کی طرف سے خلفاء الراشدین کے لیے تحفہ
رونق المجالس میں لکھا ہےکہ ایک دن جبرائیل آنحضرت کی خدمت میں سیب کا ٹوکرہ لاکر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے کہ یہ سیب اس کو دیئے جائیں جسے آپ م حبوب رکھتے ہیں ٹوکرے کا منہ ایک خلاف سے بند تھا آنحضرت نے غلاف کے اند ہاتھ ڈال کر ایک سیب نکالا اور حضرت ابو بکر صدیق کو عنایت فرمایا۔ اس سیب کی ایک طرف یہ لکھا تھا بِسْمِ اللہِ الرّحمٰن الرّحیم ھٰذا ھدیۃ من اللہ الرفیق الشفیق الی ابی بکر ن الصدیق۔ (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ یہ تحفہ ہے اللہ رفیق و شفیق کی طرف سے ابی بکر صدیق کے لیے) سیب کی دوسری طرف یہ لکھا تھا من ابغض الصدیق فھو زندیق(جو صدیق سےبغض رکھتا ہے وہ زندیق یعنی کافر ہے) آنحضرتﷺ نے دوسری مرتبہ غلاف کے اندر ہاتھ ڈال کر ایک اور سیب نکالا اور حضرت عمر کو عطا فرمایا اس کی ایک جانب پر لکھا ہوا تھا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ھذا ھدیۃ من اللہ التواب الوہاب الی عمر ابن الخطاب (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم یہ تحفہ ہے اللہ تواب(توبہ قبول کرنے والا) وہاب (عطا کرنے والا) کی طرف سے عمر ابن الخطاب کے لیے) اس کی دوسری جانب یہ لکھا تھا من الاحقر عمر فلہٗ نارو سقر جو عمر سے بغض رکھتا ہے اس کیلئے آتش دوزخ ہے۔ اس کی ایک طرف یہ لکھا تھا بسم اللہ الرحمن الرحیم ھذا ھدیۃ من اللہ الحنان المنان الی عظمان ابن عفان (یہ تحفہ ہے اللہ خسان ومسنان کی طرف سےعثمان ابن عفان کےلیے) اور اس کی دوسری طرف یہ لکھا تھا من ابغض عثمان فخصم الرحمان(جس نےعثمان سے بغض رکھا اس نے رحمٰن سے عداوت کی) چوتھی بار آنحضرت نے سیب نکال کر حضرت علی کودیا۔ اس کی ایک طرف پر لکھا تھا بسم اللہ الرحمن الرحیم ھٰذا ھدیۃ من اللہ الغالب الیٰ علی ابن ابی طالب۔ (یہ تحفہ ہے اللہ غالب کی طرف سےعلی ابن ابی طالب کے لیے) اس کی دوسری جانب یہ لکھا تھا من ابغض علیا لم مکن اللہ لہ ولہ ولیاً(جس نے علی سے بغض رکھا اللہ تعالیٰ اس کو ولی نہیں بنائے گا)۔رضی اللہ عنہم اجمعین۔
خلفاء الراشدین کے متعلق حضرت ابو ذر غفاری کا مکاشفہ
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ابو ذر غفار می فرماتےہیں کہ ایک دن میں آنحضرتﷺکی رفاقت میں جارہا تھا مختلف کو چوں اور محلات (جمع محلہ)سے گذر کر ہم ایک صحرا میں پہنچے۔وہاں ایک جنگل تھا آنحضرتﷺ نے فرمایا اس جنگل میں حق تعالیٰ کے بہت عجانبات ہیں۔ اگر تم چاہو تو تمہیں دکھاؤں۔ پس اس کے اندر جاؤ۔ میں نے جنگل کے اندر جاکر دیکھا کہ ایک درخت ہے جس کی چارشاخیں ہیں اور ہر شاخ پر ایک سفید پھول ہے جس پر یہ لکھا تھا انا صدیق اکبر اور اس کو گالی دینے والے پر خدائے عزوجل کی لعنت ہے۔ جب واپس آنے لگا تاکہ آنحضرتﷺ کو بتاؤں کہ کیا دیکھا ہے تو دوسری شاخ سے آواز آئی کہ میری طرف دیکھنا کہ عجائب قدرت کا مشاہدہ ہو۔ میں اس کی طرف گیا اور دیکھا کہ اس شاخ پر ایک پھول ہے برنگ سرخ اور اس پر یہ لکھا ہے انا الفاروق عمر اور اس پر سب کرنے والےپر اللہ عزوجل کی لعنت ہے۔ جب واپس آنے لگا تو تیسری شاخ پر ایک سبز رنگ کا پھول تھا جس پر یہ لکھا تھا انا العثمان المقتول ظلما اور اس کو گالی دینےوالےپر خدائے عزوجل کی لعنت ہے جب باہر آنے کا ارادہ کیا تو آواز آئی کہمیری طرف دیکھ تاکہ عجائب کا مشاہدہ کرے۔ جب میں اس کے نزدیک گیا تو میں نے ایک پھول دیکھا برنگ زرد جس پر یہ لکھا تھا انا الفتیٰ علی ابن ابی طالب اور اس کو برا کہنے والے پر لعنت ہے خدائے عزوجل کی رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین۔
ایک رافضی مسخ ہوگیا
کتاب جامع السلاسل ازولائل نبوت میں لکھا ہے کہ ایک ثقہ راوی نے فرمایا ہے کہ ہم تین آدمی بمن کی طرف روانہ ہوئے۔ ہمارے ساتھ ایک کو ذکا باشذہ تھا جو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو برا کہتا تھا۔ ہم جس قدر اسے نصیحت کرتے تھے بازنہ آتا تھا، جب ہم بمن کے قریب پہنچے تو ایک منزل پر قیام کیا اور سوگئے منزل سے روانگی کے وقت ہم نے اس کوفی کو بیدار کیا۔ اس نے بیدار ہوتے ہی کہا کہ افسوس مین اس منزل پر تم سے جدا ہوجاؤں گا جب تم لوگوں نے مجھے بیدار کیا تو اس سے ہلے نے خواب میں رسول خداﷺ کو خواب میں دیکھا کہ میرے سرہانے کی طرف کھڑے ہوئے فرمارہے ہیں کہ اے فاسق خدا تعالیٰ تجھے خوار کرے گا او تو اسی منزل پر مسخ ہوجائے گا۔ ہم نے اسے کہا کہ بدبخت اٹھو اور وضو کرو۔ جب وہ اٹھا تو ہم کیا دیکھتےہیں کہ اس کے پاؤں کی انگلیاں مسخ ہورہی ہیں اور اس کے دونوں پاؤں بندر کے پاؤں کی طرح ہوگئے۔ تھوڑی دیر میں اس کے گھٹنے بھی تبدیل ہوگئے اور رفتہ رفتہ اس کا سینہ اور سر اور چہرہ بھی بندر کا ساہوگیا۔ ہم نے اسے پکڑ کر اونٹ پر باندھ دی اور چل پڑے۔ غروب آفتاب کے وقت ہم ایک ج نگل میں پہنچے جہاں چند بندر نظر آئے جب اس نے بندروں کو دیکھا تو بے قرار ہوگیا اور رسیاں توڑ کر ان بندروں سے جاملا اور ایک دوسرے کے ساتھ مایوس ہوگئے کچھ دیر کے بعد وہ وہماری طرف دیکھ کر اپنے دُم پر بیٹھ گیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے جب دوسرے دوسرے بندر جانے لگے تو وہ بھی اٹھ کر ان کےساتھ چلا گیا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامات اس قدر ہیں کہ اس مختصر کتاب میں ان کی گنجائش نہیں ان میں سے چن بیان کردی گئی جس تفصیل کے خواہان حضرات کتب سیرت میں ملاحظہ کر سکتے ہیں حضرت صدیق اکبر واقعہ فیل سے دو سال چار ماہ بعد پیدا ہوئے۔ آخر عمر میں آپ پندرہ دن متواتر عارضہ بخار میں مبتلا رہے۔ لوگوں نے کہا کیا ہم طبیب کو بلائیں۔ آپ نے فرمایا حکیم ولقد اجاد من افاد
بیت
اشک خونی بہ نمودم بہ طبیباں گفتند |
|
درد عشق است جگر سوزچہ روائے دار |
(جب طبیوں نے میرے خونی آنو دیکھے تو کہا یہ درد عشق ہے جگر جلانے والا اس کی کیا دوا ہوسکتی ہے)
وصال پُر ملال
آخر روز دو شنبہ اور ایک قول کے مطابق روز سہ شنبہ اور یہ سب سے زیادہ وہ صحیح قول ہے اور بعض کے نزدک بروز جمعہ بائیس یا تئیس جمادی الثانی ۱۳ھ ہجری آپ نے اپنی جان جاں آفرین کے سپرد کردی۔ ایک روایت کے مطابق پینسٹھ سال تھی۔ آپ کی مدت خلافت بقول صھیح دو سال چھ ماہ اور ایک اور روایت کے مطابق دو سال دو ماہ پچیس دن، تیسری روایت کی رو سے د سال تین ماہ بیس دن اور چوتھی روایت کے مطابق دو سال چار ماہ تھی۔ آپ نے آخری وقت میں خلافت کے لیے حضرت عمر کو نامز فرمایا اور رحلت کے وقت وصیت فرمائی کہ میرا جنازہ روضہ رسول اللہ ﷺ کے دروازے پر رکھ کر عرض کرنا کہ یا رسول اللہ ابو بکر آپ کے آستانہ مبارک پر آیا ہے اگر اجازت مل جائے درتس ورنہ مجھ قبرستان قیع میں لے جانا۔ چنانچہ آپ کی وفات کے بعد یہی کیا گیا۔ ابھی یہ کلمات پورے نہیں ہوئے تھے کہ پردہ اٹھا اور دروزہ کھل گیا اور تمام حاضرین نے یہ آواز سنی کہ در حبیب کو حبیب کے پاس لے آؤ۔
ازواج واولاد
آپ کی چار ازواج تھیں جن کے بطن سے تین فرزند اور دود ختران پیدا ہوئے حضرت عبداللہ حضرت عبد الرحمٰن، حضرت محمد آپ کی دختران نیک اختر کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ اسماء اور عائشۃ آپ کی خلافت کے ایام میں حضرت عثمان عفان آپ کے وزیر تھے۔ اللّٰھم صلی علی محمد وآلہٖ واصحابہ اجمعین۔
ازرہ گذرِ خاکِ سرِ کوئے شمابود
ہر نافہ کہ درد ستِ نسیم سحر افتاد
[1] ۔ تاریخ طبری اور دیگر مستند رتواریخ میں لکھا ہے کہ جس وقت انصار کے محلہ میں حضرت ابو بکر صدیق خلیفہ منتخب ہوگئے تو آپ مسجد نبوی میں تشریف لائے اور عامۃ المسلمین نے آپ ہاتھ پر بیعت کرنا شروع کیا جب حضرت علی کو اس بات کا علم ہوا تو آپ جن کپڑوں میں گھر کے اندر بیٹھے تھے باہر چلے آئے اور مسجد میں جاکر حضرت ابو بکر صدیق سے بیعت کی اسکے بعد اپنے پار چات خادم کے ذریعے گھر سے منگوائے جب لوگوں نے پوچھا کہ حضور اسقدر جلدی کی کیا ضرورت تھی کہ اچھی طرح کپڑے بھی پہن کر گھر سے نکلے تو فرمایا کہ میں نے جلدی اس لیے کی کہ میرے بھائی ابو بکر یہ خیال نہ کریں کہ علی نے بیعت میں دیر کردی۔ البتہ مجھے ان سے ایک شکایت تھی وہ یہ کہ ھر خلافت میں میرا مشورہ نہ لیا گیا لیکن جب صدیق اکبر سے میں نے شکایت کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ لوگ تو آنحضرت کے اہل بیت تھے آپ تجہیز وتکفین میں مصروف تھے ہم آپ کو اس کام سے کس طرح علیحدہ کر سکتے تھے حضرت علی فرماتے ہیں کہ یہ جواب سن کر میں مطمئن ہوگیا۔
(اقتباس الانوار)
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
مکہ معظّمہ (۳ھ / ۵۷۳ء عام الفیل ۔۔۔ ۱۳ھ/ ۶۳۴ء) مدینہ منورہ
قطعۂ تاریخِ وصال
یارِ غارِحبیب رَبِّ علیٰ
|
|
صاحب عز و شان ہیں صدیق
|
(صابر براری، کراچی)
آپ رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی عبداللہ والد بزرگوار کا نام مبارک عثمان اور کنیت ابوقحافہ تھی۔ صدیق اور عتیق آپ رضی اللہ عنہ کے لقب ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی پیدائش حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے تولد شریف سے دو سال اور کچھ مہینے بعد ۳؍ذوالحجہ بروز بدھ ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں مرہ بن کعب سے جاملتے ہیں۔ مرہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چھ واسطے ہیں۔ اسی طرح مرّہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے درماین بھی چھ واسطے ہیں۔ آپ زمانہ جاہلیت میں رؤسائے قریش میں سے تھے اور سب سے بڑھ کر عالمِ النساب تھے۔
فضائل و مناقب:
مردوں میں آپ سب سے پہلے اسلام لائے۔ اسلام لاتے ہی آپ نے تبلیغ کا کام شروع کردیا۔ چنانچہ حضراتِ عشرہ مبشرہ میں سے عبدالرحمٰن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، عثمان بن عفان، زبیر بن العوام اور طلعہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ ہی کی دعوت سے مشرف باسلام ہوئے۔ صحابہ کرام میں آپ کے لیے ایک خصوصیت اور انفرادیت یہ بھی ہے کہ آپ کے والد، آپ کی تمام اولاد اور پوتے ابوعتیق محمد بن عبدالرحمٰن سب صحابی تھے۔ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔
۶ھ نبوّت میں آپ بارادۂ ہجرت حبشہ کی طرف نکلے۔ برک الغماد (جو مکہ مکرمہ سے یمن کی طرف پانچ دن کی مسافت ہے) تک پہنچے تھے کہ قبیلہ قارہ کا سردار ابن الاغنہ (ربیعہ بن رفیع) ملا۔ اس نے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ آپ نے جواب میں فرمایا کہ میری قوم نے مجھے مکہ مکرمہ سے نکلنے پر مجبور کردیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کہیں الگ جاکر خدا کی عبادت کروں۔ ابن الاغنہ نے کہا: یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ جیسا فیاض، اپنوں سے نیک سلوک کرنے والا، غریب پرور، مہمان نواز اور مصیبت کے وقت لوگوں کی مدد کرنے والا مکہ سے نکل جائے یا نکالا جائے۔ میں آپ کو اپنی حفاظت میں لیتا ہوں آپ واپس چلیں اور اپنے شہر میں اپنے پروردگار کی عبادت کریں۔ چنانچہ آپ ابن لاغنہ کے ساتھ واپس آگئے۔ اُس (ابن الاغنہ) نے شام کو سردار انِ قریش کو بلایا اور کہا کہ ابوبکر جیسا شخص نکلنے نہ پائے اور نکالا جائے۔ کیا تم ایسے شخص کو نکالتے ہو جو فیاض، اپنوں سے نیک سلوک کرنے والا، غریب پرور، مہمان نواز اور مصیبت میں لوگوں کی مدد کرنے ولا اہے۔ یہ سن کر قریش نے ابن الاغنہ کی حفاظت کو رد نہ کیا اور اُس سے کہا کہ ابوبکر سے کہہ دو کہ اپنے گھر میں سکون سے اپنے رب کی عبادت کرے، نماز آہستہ آواز سے پڑھے، قرآن پاک بلند آواز سے نہ پڑھے اور ہمیں ایذا نہ دے کیونکہ ہمیں خطرہ ہے کہ کہیں ہماری عورتوں اور بچوں کو قرآن کا اثر نہ ہوجائے۔ ابن الاغنہ نے یہ شرائط آپ سے بیان کردیں، کچھ مدت تک تو آپ نے یہ پابندی اختیار کی کہ چپکے اور خاموشی سے نماز پڑھتے اور گھر کے سوا کسی اور جگہ قرآن نہ پڑھتے، بعد ازاں آپ نے اپنے گھر کے پاس ایک مسجد بنالی جس میں آپ نماز پڑھے اور قرآن پاک بلند آواز سے پڑھتے، مشرکین کی عورتیں اور بچے آپ کے گرد جمع ہوجاتے اور تعجب و حیرت سے آپ کی طرف دیکھتے، آپ چونکہ رقیق القلب تھے، قرآن پڑھتے تو بے اختیار روتے۔ آپ کی قراءت اور رقت سے سردارانِ قریش خوفزدہ ہوگئے انہوں نے ابن الاغنہ کو بلاکر کہا کہ ہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تمہاری حفاظت کی وجہ سے اس شرط پر پناہ دی تھی کہ وہ اپنے گھر میں چپکے سے اپنے رب کی عبادت کرے مگر اس نے تو خلافِ شرط و معاہدہ اپنے گھر کے پاس ایک مسجد بنالی ہے جس میں وہ بہ آواز بلند نماز قرآن پڑھتا ہے۔ ہمیں خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ کہیں ہماری عورتیں اور بچے اثر قبول کرکے مسلمان ہی نہ ہوجائیں، تم اس کو روک دو کہ ایسا نہ کرے اور حسبِ معاہدہ اپنے گھر کے اندر ہی چپکے سے عبادت کرے اور اگر بہ آواز بلند قرآن پڑھنے پر اصرار کرے تو تم اس کی حفاظت کی ذمہ داری واپس لے لو کیونکہ ہم اس امر کو پسند نہیں کرتے کہ تمہارے عہدِ حفاظت کوت وڑدیں ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کسی قیمت پر بھی اونچی آواز سے قرآن پڑھنے کی اجازت نہیں دے سکتے، یہ سن کر ابن الاغنہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ کو میری شرطِ حفاظت معلوم ہے، آپ اس کی پابندی کریں ورنہ میری ذمہ داری واپس کردیں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ عرب یہ سنیں کہ ایک شخص کی حفاظت کا عہد جو میں نے کیا تھا وہ توڑ ڈالا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں تمہاری حفاظت تم کو واپس کرتا ہوں اور خدا کی حفاظت پر راضی ہوں۔ (صحیح بخاری باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
مندرجہ بالا واقعہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ظاہر ہوتی ہے کیونکہ ابتدائے بعثت میں حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہ نے جن اوصاف سے حضور پر نور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کیا تھا اُن ہی اوصاف سے ابن الاغنہ نے جو بعد میں ایمان لائے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو یاد کیا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ علق)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے خلیفۂ برحق، مبشر بالجنۃ (جسے دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی گئی ہو) اور افضل البشر بعد الانبیاء ہیں۔ آپ کے فضائل میں کئی آیتیں وارد ہوئی ہیں۔
۱۔ اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللہ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَا فِی الْغَارِ اِذْیَقُوْلُ لِصَاحِبِہ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہ مَعَنَا.
’’اگر تم نے محبوب کی مدد نہ کی تو بے شک اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے جب وہ دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سے (ابوبکر سے) فرماتے تھے غم نہ کھا۔ بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے ‘‘۔
اس آیت میں ’’صاحب‘‘ مراد بالاتفاق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور یہ وہ منقبت ہے جس میں کوئی دوسرا صحابی آپ کا ہمسر یا شریک نہیں ہے۔
ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شاعرِ خاص حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا تم نے ابوبکر کی شان میں بھی کچھ کہا ہے۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ہاں، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سناؤ، میں سنتا ہوں، پس حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے یہ دو شعر پیش کیے ؎
وَثَانِیَ اثْنَیْنِ فِی الْغَارِ الْمُنیف وَقَدْ
|
|
اور غار میں وہ دو میں کے ایک تھے جب دشمن پہاڑ پر چڑھ کر گھوم رہے تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ہیں اور لوگوں کو تحقیق کے ساتھ اس کا علم ہے کہ مخلوق میں آپ کے نزدیک ان کے برابر کوئی نہیں ہے |
یہ اشعار سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ہنسے کہ دندان مبارک نمایاں ہوگئے اور فرمایا: اے حسان تم نے سچ کہا ہے وہ ایسے ہی ہیں جیسا کہ تم نے کہا۔ (طبقات الشافیہ الکبریٰ السبکی جزو اول ص۱۲۱۔ زرقانی علی المواہب بحوالہ این عدی و ابن عساکر بروویت انس ہجرۃ المصطفےٰ واصحابہ الی المدینہ)
۲۔ وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُھٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللہ لَکُمْ وَاللہ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (پارہ ۱۸ سورۃ نور ع۳)
’’اور قسم نہ کھائیں وہ جو تم میں فضیلت والے اور گنجائش والے ہیں قرابت والوں کو دینے کی اور چاہیے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں کیا تم اُسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
یہ آیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے۔ صدرالافاضل مولانا سیّد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ اس کا شانِ نزول یوں لکھتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں نازل ہوئی۔ آپ نے قسم کھائی تھی کہ مسطح کے ساتھ سلوک نہ کریں گے اور وہ آپ کی خالہ کے بیٹے تھے، نادار تھے، مہاجر تھے، بدری تھے آپ ہی اُن کا خرچ اٹھاتے تھے مگر چونکہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگانے والوں کے ساتھ انہوں نے موافقت کی تھی۔ اس لیے آپ نے یہ قسم کھائی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جب یہ آیت حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا بے شک میری آرزو ہے کہ اللہ میری مغفرت کرے اور میں مسطح کے ساتھ جو سلوک کرتا تھا اس کو کبھی موقوف نہ کروں گا چنانچہ آپ نے اس کو جاری فرمادیا۔ اس آیت سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت ثابت ہوئی۔ اس سے علوِ شان و مرتبت ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولو الفضل فرمایا ہے۔
۳۔ وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ (پارہ ۲۴ سورہ زمر ع۴)
’’اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنھوں نے اُن کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں (یعنی پرہیزگار یہی لوگ ہیں)۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کے مطابق ’’جو سچ لے کر تشریف لائے‘‘ وہ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور جنھوں نے اُن کی تصدیق کی سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ ہیں۔
۴۔ وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقَی الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَا لَہٗ یَتَزَکّٰی وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰٓی اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی وَلَسَوْفَ یَرْضٰی. (پارہ ۳۰ سورہ لیل ع۱)
’’اور بہت اُس سے دور رکھا جائے جو سب سے بڑا پرہیزگار جو اپنا مال دیتا ہے کہ ستھرا ہو اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے۔ صرف اپنے رب کی رضا چاہتا ہے جو سب سے بلند ہے اور بے شک قریب ہے کہ وہ راضی ہوگا‘‘۔
اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بہت گراں قیمت پر خرید کر آزاد کیا اور کفار کو حیرت ہوئی اور انہوں نے کہا کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا کیوں کیا شاید بلال رضی اللہ عنہ کا اُن پر کوئی احسان ہوگا جو انہوں نے اتنی گراں قیمت دے کر خریدا اور آزاد کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ظاہر فرمادیا گیا کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فعل محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہے کسی کے احسان کا بدلہ نہیں اور نہ اُن پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ وغیرہ کا کوئی احسان ہے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت سے لوگوں کو اُن کے اسلام لانے کے سبب خرید کر آزاد کیا۔
۵۔ ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَمَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِوَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا. (پارہ۲۲ سورہ الاحزاب ع۶)
’’وہی ہے کہ درود بھیجتا ہے تم پر وہ اور اس کے فرشتے کہ تمہیں اندھیروں سے اجالے کی طرف نکالے اور وہ مسلمانوں پر مہربان ہے‘‘۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب آیت اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ نازل ہوئی تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آپ کو اللہ تعالیٰ کوئی فضل و شرف عطا فرماتا ہے تو ہم نیاز مندوں کو بھی آپ کے طفیل میں نوازتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
مندرجہ بالا تمام آیات حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ ان میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اتقی (تقویٰ و پرہیزگاری میں سب سے بڑھے ہوئے) ہیں جو اتقیٰ ہو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اکرم (معزز) ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ اور جو اکرم ہو وہ افضل ہوتا ہے۔ پس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام امّت سے افضل ثابت ہوئے۔
آیاتِ مذکورہ بالا کے علاوہ اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ آپ کی خلافت راشدہ کے ثبوت میں جو آیات وارد ہیں وہ ان کے علاوہ ہیں۔ اختصار کے پیش نظر ہم اُن کو نقل کرنے سے قاصر ہیں۔
آیاتِ قرآن کریم کے علاوہ آپ کے مناقب میں بکثرت احادیث آئی ہیں۔ ایک سو اکیاسی حدیثیں تو آپ کے خصوصی فضائل میں مروی ہیں۔ اٹھاسی حدیثیں ایسی ہیں جن میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشترکہ فضیلت کا بیان ہے۔ سترہ حدیثیں ایسی ہیں جن میں مجموعی طور پر خلفائے ثلٰثہ کے فضائل ہیں۔ چودہ حدیثوں میں خلفائے اربعہ کے فضائل مجموعی طور پر مذکور ہیں۔ سولہ حدیثوں میں خلفائے اربعہ کے ساتھ اور صحابہ کرام بھی شریک فضائل ہیں اس طرح کل تین سو سولہ حدیثیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل میں روایت کی گئی ہیں۔ یہ تعداد تو ان حدیثوں کی ہے جو کہ مخصوص نام کے ساتھ ہیں۔ جن ہزاروں حدیثوں میں مہاجرین، مومنین وغیرہ اہل ایمان و صلاح کے فضائل مذکور ہیں وہ بھی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں صادق آتی ہیں۔ چند حدیثیں بطور نمونہ اور تبرک نقل کی جاتی ہیں۔
۱۔ ما دعوت احد الی الاسلام الا کانت لہ عنہ کبرۃ ومتردد ونظر الا ابابکر ما عتم عنہ حین ذکرۃ وما ترد وفیہ (ابن اسحاق)
’’میں نے کسی کو اسلام کی دعوت نہیں دی مگر اس میں اس کی طرف سے ایک گو نہ کراہت، تردد اور فکر پائی۔ لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جب میں نے اسلام کا ذکر کیا تو انہوں نے بلا توقف و تردد اس کو قبول کرلیا‘‘۔
۲۔ ھل انتم تارکون لی صاحبی انی قلت ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا فقلتم کذیت وقال ابوبکر صدقت (بخاری)
’’کیا تم میرے دوست کا ستانا میری خاطر سے چھوڑ دو گے میں نے کہا کہ اے لوگو میں تم سب کے پاس اللہ کی طرف سے رسول ہوکر آیا ہوں تم نے کہا جھوٹ ابوبکر نے کہا سچ ہے‘‘۔
اس حدیث شریف کی تشریح و تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں کچھ جھگڑا ہوگیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوراً نادم ہوئے اور معافی چاہی۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے معاف کرنے سے انکار کردیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر یہ ماجرا عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ یا ابا بکر یغفر اللہ لک یا ابا بکر یغفر اللہ لک‘‘ اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! تمہاری خطا اللہ بخشے، اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! تمہاری خطا اللہ بخشے‘‘۔ اس دوران حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے فعل پر ندامت ہوئی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان پر پہنچے، وہاں نہ ملے تو کاشانۂ نبوت میں حاضر ہوئے۔ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن (حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو دیکھا تو چہرہ مبارک غصے سے متغیر ہوگیا، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کیفیت دیکھ کر ڈر گئے اور گھٹنوں کے بل گر کر دوبارہ عرض کی ’’انا کنت اظلم‘‘ زیادتی میری جانب سے ہوئی۔ اس وقت حدیثِ بالا ارشاد فرمائی گئی۔ راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد پھر کسی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کبھی ایذا نہیں پہنچائی۔
۳۔ ما طلعت الشمس ولا غربت علی احد افضل من ابی بکر الا ان یکون نبی
’’سوائے نبی کے آفتاب کسی ایسے شخص پر طلوع یا غروب نہیں ہوا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ بزرگ ہو‘‘۔
۴۔ ابوبکر خیر الناس الا ان یکون نبی (طبرانی)
’’سوائے نبیوں کے ابوبکر رضی اللہ عنہ سب آدمیوں سے بہتر ہیں‘‘۔
۵۔ ان اللہ یکرہ فوق السماء ان یخطاء ابوبکر (طبرانی، ابو نعیم وغیرہما)
’’اللہ تعالیٰ آسمانوں پر اس بات کو ناپسند فرماتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ خطا کریں‘‘۔
۶۔ عن عمرو بن عاص قال قلت یا رسول اللہ من احب الناس الیک قال عائشۃ قلت من الرجال قال ابوھا قلت ثمومن قال عمر بن الخطاب (بخاری و مسلم)
’’عمرو بن العاص نے کہا ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب لوگوں میں سے زیادہ کون محبوب ہے؟ فرمایا: عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، میں نے عرض کیا کہ مردوں میں؟ فرمایا: ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر عرض کیا کہ مردوں میں؟ فرمایا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ۔‘‘
اس حدیث کو حضرت انس، حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بھی روایت کیا ہے۔
۷۔ عن علی ابن ابی طالب قال کنت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذ طلع ابوبکر و عمر فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لابی بکر و عمر ھذان سید اکھولا اھل الجنۃ من الاوّلین والآخرین الا النبیین والمرسلین لا تخبرھما۔ (ترمذی)
’’حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونما ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نسبت فرمایا کہ یہ دونوں انبیاء کرام اور مرسلین کے سوا سارے اگلے پچھلے ادھیڑ عمر والے جنتیوں کے سردار ہیں ان کو خبر نہ کرنا‘‘۔
حضرت شیر خدا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کے راوی حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہی حدیث حضرات ابن عمر، ابن عباس، ابو سعید خدری اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی روایت کی ہے۔
۸۔ ارحم امتی بامتی ابوبکر (ترمذی، امام محمد)
’’میری اُمّت میں میری اُمّت پر سب سے زیادہ مہربان ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں‘‘۔
۹۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما من نبی الاولہ وزیر ان من اھل السماء وزیر ان من اھل السماء وزیران من اھل الارض فاما وزیر ای من اھل السماء فجبریل و میکائیل ولما وزیر ای من اھل الارض فابوبکر و عمر (ترمذی)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ کوئی نبی ایسا نہیں ہے جس کے دو وزیر اہل آسمان میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے نہ ہو۔ میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے جبرائیل اور میکائیل ہیں اور اہل زمین سے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
۱۰۔ ابوبکر فی الجنّتی (اصحاب سنن وغیرہ)
’’ابوبکر جنتی ہیں‘‘۔
۱۱۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انت صاحبی علی الحوض وانت صاحبی فی الغار۔ (ترمذی)
’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ) سے فرمایا: تم میرے رفیقِ حوضِ کوثر ہو اور میرے رفیق غار بھی‘‘۔
۱۲۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان من امن الناس علی فی صعیۃ وما لہ ابابکر ولو کنت متغذا خلیلالا تغذت ابابکر خلیلاً ولکن اخوۃ الاسلام۔ (بخاری و مسلم)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے اوپر صحت اور ماں میں سب سے زیادہ احسان ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہے اور اگر میں کسی کو اپنا خلیل (ولی دوست) بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن اخوت اسلام ہے‘‘۔
یہ حدیث تیرہ صحابیوں نے روایت کی ہے اور امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو متواتر حدیثوں میں نقل کیا ہے۔
۱۳۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما لا حد عندید الاوقد کا فانا لا الا ابابکر فان لہ عندنا یداً یکا فیہ اللہ بھا یوم القیامۃ وما نفعنی مال احد قط ما نفعنی مال ابی بکر (ترمذی)
’’حضرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم پر کسی کا احسان نہیں جس کا بدلہ ہم نے نہ دے دیا ہو مگر ابوبکر کا جو احسان ہمارے ذمہ ہے اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دے گا اور کبھی کسی کے مال نے وہ نفع مجھ کو نہیں دیا جو ابوبکر کے مال نے دیا‘‘۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس ارشاد مبارک کو سن کر روئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میرا مال آپ کا مال نہیں ہے۔
۱۴۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر صاحبی فی الغار ومونسی فی الغار سد واکل خوخستہ فی المسجد غیر خوخۃ ابی بکر (عبداللہ بن احمد)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر غار میں میرے رفیق تھے اور مونس بھی۔ مسجد میں جس قدر کھڑکیاں ہیں سب بند کردو مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کھڑکی۔
جب مسجد نبوی تعمیر ہوئی تھی تو اس کے گرد مکانات بھی تعمیر ہوئے تھے۔ صحابہ کرام کے مکانوں کی کھڑکیاں مسجد کی جانب تھیں۔ رحلت کے قریب ارشاد ہوا کہ سب کھڑکیاں بند کردی جائیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کھڑکی مستثنیٰ رہے۔ (اس حدیث کا جزو ثانی مسلم و ترمذی نے بھی روایت کیا ہے)۔
۱۵۔ اللھم اجعل ابابکر فی ذرحتی فی الجنۃ یوم القیامۃ (حاکم)
’’ارشاد فرمایا، الٰہی! ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قیامت کے دن جنت میں میرے ہی درجہ میں جگہ دینا‘‘۔
۱۶۔ یا ابابکر انت عتیق اللہ من النار۔ (حاکم۔ ابن عساکر)
’’ارشاد مبارک ہے اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! تم کو اللہ نے دوزخ سے آزاد کردیا ہے‘‘۔
آپ کے فضائل میں یہ بھی ہے کہ آپ کو ضمنیت کبریٰ حاصل تھی، ضمنیت سے مراد یہ ہے کہ ایک ولی دوسرے کے ضمن میں ہو پس جو کمال پہلے کو حاصل ہوتا ہے دوسرا بے اختیار اُس میں شریک ہوتا ہے جس طرح بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو اپنے پیٹ میں لے لیتی ہے جس جگہ وہ سیر کرتی ہے چھوٹی بے اختیار اس سیر میں شریک ہوتی ہے۔ اگر ایک ولی کی ضمنیت دوسرے ولی کو حاصل ہو تو اُسے ضمنیت صغریٰ کہتے ہیں جس ولی کو حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ضمنیت حاصل ہو، اُسے ضمنیت کبریٰ کہتے ہیں چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ضمنیت کبریٰ حاصل تھی۔ اسی لیے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مَا صَبَّ اللہُ فِیْ صَدْرِیْ اِلَّا صَبَتُہٗ فِیْ صَدْرِ اَبِیْ بَکْرٍ یعنی حقائق و معارف میں سے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے میرے سینہ میں ڈالا ہے وہی میں نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینہ میں ڈال دیا ہے۔ (مکتوب قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ)
آنچہ بود از بارگاہِ کبریا |
|
ریخت در صدر شریف مصطفا |
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سفر و حضر میں سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں رہے اور تمام غزوات میں حضور (فدا امی و ابی) کے ساتھ ثابت قدم رہے ہجرت کے وقت آپ غار میں ثانی اور بدر کے دن عریش (دھوپ سے بچنے کے لیے کوئی سایہ دار جگہ) میں ثانی اور موت کے بعد قبر میں بھی ثانی۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (وفات شریف سے پانچ روز پیشتر جمعرات کے دن نماز ظہر کے بعد) لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا کہ اللہ نے ایک بندے کو دنیا اور ما عند اللہ (جو کچھ اللہ کے پاس ہے) میں اختیار عطا فرمایا۔ اس بندے نے ما عنداللہ کو اختیار کیا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رو پڑے، ہمیں ان کے رونے پر تعجب ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بندے کی خبر دے رہے ہیں جس کو اختیار دیا گیا ہے (یہ رونے کی کیا بات ہے) مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم میں اَعْلَم (بہت زیادہ جاننے والے) تھے لہٰذا وہ سمجھ گئے کہ وہ بندہ خود حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
امام فخر الدین رازی صاحبِ تفسیر کبیر یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (سورہ مائدہ) صحابہ کرام کو سنائی تو وہ بہت خوش ہوئے اور اظہار مسرت کیا مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رو پڑے، اُن سے رونے کا سبب دریافت کی اگیا تو فرمایا کہ یہ آیت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات شریف کے قرب پر دلالت کرتی ہےکیونکہ کمال کے بعد ہی زوال ہوا کرتا ہے۔ اس سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کمالِ علم معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس آیت سے اس سرِ پنہاں (مخفی راز) پر آپ کے سوا کوئی صحابی واقف نہ ہوا۔ (تفسیر کبیر جُز ثالث)
جمادی الاولیٰ ۸ھ میں جنگ موتہ میں مشرکین روم و عرب نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کردیا تھا اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرضِ موت میں رومیوں سے جہاد کرنےا ور حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بدلہ لینے کے لیے ایک لشکر تیار کیا جس میں سردارانِ مہاجرین و انصار حضرت صدیق اکبر، فاروق اعظم، ابو عبید بن جراح، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید، قتادہ بن نعمان، سلمہ بن اسلام وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم شامل تھے۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اُس لشکر کا سردار مقرر کیا گیا اور حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے حضرت اسامہ کے لیے جھنڈا تیار کیا۔ ۸ ربیع الاول بروز جمعرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلاکر خلیفۂ نماز مقرر فرمایا چنانچہ وفات شریف تک وہی نماز پڑھاتے رہے۔ متعینانِ لشکر مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر مقامِ جرف میں جمع ہوکر کوچ کرنے ہی والے تھے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال شریف ہوگیا اور وہ لشکر واپس مدینہ منورہ آگیا۔ اسی اثناء میں یہ خبر پھیلی کہ عرب کے کئی قبیلے دینِ اسلام سے پھر گئے ہیں اور بعضوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منصبِ خلافت سنبھالا تو از سر نو لشکر کی روانگی کا حکم صادر فرمایا لیکن بعض اصحاب نے حالات کی ناسازگاری (فتنۂ ارتداد اور مانعین زکوٰۃ) کی وجہ سے اُن سے عرض کیا کہ ایسی حالت میں ایسے لشکر جرار کا دور و درازمہم پر بھیجنا خلاف مصلحت ہے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا! ’’خدا کی قسم! میری جان پر خواہ کچھ ہی بن جائے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم میں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم صادر فرماچکے ہیں کسی قسم کی ترمیم نہیں کروں گا‘‘۔ اس کے بعد حضرت اسامہ کو روانہ فرمادیا اور حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بغرض مشورہ اپنے پاس رکھ لیا۔ غرض وہ لشکر فتح و ظفر کے جھنڈے لہراتا ہوا واپس آیا۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لشکرِ اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کے ساتھ ہی مرتدین سے جہاد کا حکم دیا۔ یہ مرتدین عرب کے مختلف مقامات میں تھے۔ آپ نے سرایا بھیج کر اُن سب کو زیر کیا اور اُن کے ارتداد کا انسداد کیا۔ اسی طرح منکرینِ زکوٰۃ کے ساتھ بھی جہاد کی تیار کی گئی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ آپ لوگوں سے کیسے قتال کریں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللہ فمن قال لا الہ الا اللہ عصم ممن مالہ ونفسہ الا بحقہ وحابد علی اللہ۔ (مشکوٰۃ، کتاب الزکوٰۃ)
’’مجھے حکم دیا گیا کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ کہیں لا الہ الا اللہ۔ جس نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا، اُس نے مجھ سے اپنا مال اور جان بچالی مگر بحق اسلام (دیت قصاص وغیرہ) اور اس کا حساب خدا پر ہے‘‘۔
یہ سن کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم! میں ضرور جہاد کروں گا اُن لوگوں سے جنھوں نے نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کیا کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ خدا کی قسم! اگر وہ ایک سالہ بکری کا بچہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے، مجھے دینے سے انکار کریں تو میں ضرور ان سے قتال کروں گا۔‘‘ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: خدا کی قسم! اس محبت میں میں نے دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قتال کے لیے شرح صدر (دلی تسکین) عطا فرمایا ہے۔ پس میں نے پہچان لیا کہ قتال ہی حق ہے‘‘ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اے خلیفۂ رسول اللہ! لوگوں سے موافقت کیجیے اور ان کے ساتھ نرمی کیجیے۔ یہ سن کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا:
اجبار فی الجاھلیۃ وخوار فی الاسلام۔ (مشکوٰۃ، باب فی مناقب ابی بکر الصدیق)
’’کیا آپ امر جاہلیت میں جبار و قہار اور کاروبارِ اسلام میں سست بنتے ہیں‘‘۔
بعض روایات میں وارد ہے کہ دیگر صحابہ کرام حتی کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو جہاد سے منع کیا اور کہا کہ عہدِ خلافت کا آغاز ہے اور مخالفین کی تعداد بہت زیادہ ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کاروبار اسلام میں کوئی خلل واقع ہوجائے، غور و خوض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مگر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں جہاد سے نہیں رک سکتا۔ اگر تمام لوگ مجھے چھوڑ بھی جائیں تو تنہا جہاد کروں گا ، بالآخر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے آپ سے مکمل اتفاق کیا اور کامیابی و کامرانی کے ساتھ جہاد کیا اور دنیا نے دکھ لیا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کتنی صائب اور اعلیٰ تھی۔ ان روایات و واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اشجع الصحابہ (صحابہ کرام میں سب سے زیادہ بہادر) اور اعلم الصحابہ (صحابہ کرام میں سب سے زیادہ جاننے والے) تھے۔
جود و سخا:
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام لاتے ہی اپنا تمام مال (چالیس ہزار درہم) بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کردیا۔ چنانچہ وہ مال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مسلمانوں پر خرچ ہوتا رہا آپ نے سات مرد و زن حضرت بلال حبشی، عامر بن فہیرہ، نیرہ رومیہ، نہدیہ، دختر نہدیہ، ابو عبیس، کنیز بنی مؤمل رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جو غلامی کے جرم میں کفار کے ہاتھوں سخت بدنی تکلیفیں اٹھا رہے تھے، بھاری رقوم پر خرید کر آزاد کردیا۔ ہجرت مدینہ تک تیرہ سال میں آپ نے تجارت سے جو کچھ کمایا وہ سب اسلام کی تائید و حمایت میں خرچ کیا۔ ہجرت کے وقت آپ کے پاس پانچ ہزار درہم تھے جو مہم ہجرت مسجد کے لیے زمین کی خریدا اور دیگر وجوہِ خیرات میں صرف ہوئے۔ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم تبھی تو فرماتے تھے:
مانفعنی مال احد قط ما نفعنی مال ابی بکر
’’مجھے کسی کے مال نے وہ نفع نہیں دیا جو ابوبکر کے مال نے دیا‘‘۔
حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی وجہ یہ ہے کہ حضرت خدیجہ، حضرت ابوطالب اور حضرت عبدالمطلب کا مال جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر خرچ آیا تھا وہ صرف خوراک و پوشاک، صلہ رحم و مہمان نوازی اور محتاجوں کی خبر گیری کے لیے تھا۔ جبکہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مال شوکتِ اسلام کا پھریرا لہرانے، کفار کے ہاتھوں مسلمانوں کی رہائی و خلاصی اور اہل اسلام کے ضعیفوں کی اعانت میں کام آیا۔ ان ہر دو مصارف میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تمام مال خرچ ہوگیا اور ان پر فقر و فاقہ نے غلبہ پایا تو ایک روز بجائے کرتہ کے کمبل کو ایک خلال سے مربوط کرکے گلے میں ڈال کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے۔ اسی اثناء میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! باوجود مال و دولت اور مالداری و تونگری کے ابوبکر کا کیا حال ہوگیا کہ لباسِ فقر پہنے بیٹھا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس نے اپنا تمام مال و دولت مجھ پر اور راہِ خدا میں خرچ کردیا ہے اور مفلس ہوکر یہ صورت اختیار کی ہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے عرض کیا کہ خدا تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سلام بھیجا ہے اور ان سے دریافت فرمایا ہے کہ بتاؤ، اس فقر میں تم مجھ سے راضی ہو یا کچھ کدورت رکھتے ہو؟ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق پر وجد کی حالت طاری ہوگئی اور جواب میں عرض کیا کہ میں اپنے پروردگار سے کس طرح کدورت رکھ سکتا ہوں؟ اور بار بار یوں نعرہ زن ہوتے رہے:
انا عن ربی راض انا عن ربی راضٍ۔ (تفسیر عزیزی)
’’میں اپنے رب سے راضی ہوں۔ میں اپنے رب سے راضی ہوں‘‘۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور سیّد عالم نے ہمیں حکم دیا کہ راہِ خدا میں صدقہ دو ، اتفاقاً اس وقت میرے پاس بہت سارا مال تھا میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں آج حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سبقت لے جاؤں گا۔ میں نے اپنا آدھا مال بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کردیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے استفسار فرمایا کہ تم اپنے اہل و عیال کے لیے کتنا کچھ چھوڑ آئے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ آدھا چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا تمام مال جو اُن کے پاس تھا لاکر بارگاہِ بے کس پناہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر کردیا۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے دریافت فرمایا کہ تم اپنے اہل و عیال کے لیے کتنا مال چھوڑ آئے ہو؟ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ فقط ’’خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ آیا ہوں‘‘۔ (یعنی خدا کا فضل اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اعانت و خوشنودی میرے لیے کافی ہے) یہ سن کر میں نے کہا کہ میں کبھی بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سبقت حاصل نہیں کرسکتا۔ (مشکوٰۃ، باب فی مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
حکیم الامت حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعہ کی کتنی حسین منظر کشی کی ہے ؎
اِک دن رسولِ پاک نے اصحاب سے کہا |
|
دیں مال راہِ حق میں جو ہوں تم میں مالدار |
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس!
(بانگِ درا)
القصّہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اجود الصحابہ (صحابہ میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے) تھے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
تقویٰ و تواضع:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ میرے ابا جی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک غلام تھا جو کما کر لاتا اور آپ اس میں سے کھالیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ کوئی چیز لایا جس میں سے آپ نے بھی کچھ کھالیا۔ غلام نے عرض کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے کیا کھایا ہے؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا کہ وہ کیا ہے؟ غلام نے عرض کیا کہ میں نے دورِ جاہلیت میں بطورِ کاہن ایک شخص کو غیب کی خبر دی تھی، آج اتفاقاً وہ مجھے مل گیا اور بطور ہدیہ کچھ دے دیا۔ آپ نے اُسی میں سے کھایا ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا ہاتھ منہ میں ڈال کر جو کچھ کھایا تھا قے کردیا۔ (صحیح بخاری، بابِ ایام الجاہلیہ)
عبدالرزاق نے بروایت ابن سیرین نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب ایک پانی پر اُترے ہوئے تھے۔ حضرت نعیمان بن عمرو انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانی والوں سے کہا کرتے تھے کہ آئندہ ایسا ہوگا۔ وہ حضرت نعیمان کی خدمت میں دودھ اور کھانا بطور ہدیہ لاتے، جسے وہ اپنے ساتھیوں کے پاس بھیج دیا کرتے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر لگی تو فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ میں اُس دن سے نعیمان کی کہانت (علمِ نجوم)سے کھاتا ہوں یہ فرما کر جو کچھ پیٹ میں تھا قے کردیا۔
تاریخ کامل ابنِ اثیر میں لکھا ہے کہ حضرتِ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رحلت کے وقت اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ جب سے ہم مسلمانوں کے اُمور کے متکفل ہوئے ہیں ہم نے اُن کا کوئی روپیہ پیسہ نہیں لیا، ہاں اُن کا نیم کوفتہ طعام کھایا ہے اور موٹے کپڑے پہنے ہیں۔ اب ہمارے پاس مسلمانوں کے مال میں سوائے اس غلام، اس اونٹ اور اس چادر کے کچھ نہیں ہے جب میں داعیٔ اجل کو لبیک کہہ جاؤں تو ان تمام کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج دینا جب آپ نے دارِ فنا سے دارالبقا کی طرف کوچ فرمایا تو حسبِ وصیت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سب کچھ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں بھیج دیا۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ (جن کا نام سُن کو شہنشاہان عالم لرزہ براندام ہوجاتے تھے) یہ منظر دیکھ کر رو پڑے یہاں تک کہ اُن کے آنسو ٹپ ٹپ زمین پر گرنے لگے۔ بلک بلک کر روتے جاتے تھے اور بار بار فرماتے تھے:
رحم اللہ ابا بکر لقد اتعب من بعدہ.
’’خدا ابوبکر پر رحم کرے۔ انہوں نے بے شک اپنے جانشینوں کو مشقت میں ڈال دیا‘‘۔
پھر حکم دیا کہ یہ سب کچھ لے لیا جائے۔ اس پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: سبحان اللہ! آپ ابوبکر کے عیال سے غلام، آبکش اونٹ (پانی لانے والا اُونٹ) اور پرانی چادر جس کی قیمت پانچ درہم ہیں، چھین رہے ہیں۔ کاش آپ واپس کردیں۔ یہ سُن کر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس نے حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے، یہ میرے قبضہ و اختیار میں نہیں ہے‘‘۔
روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ کی زوجہ محترمہ کا دل حلوا کھانے کو چاہا، آپ نے فرمایا کہ ہمارے پاس حلوہ خریدنے کی گنجائش نہیں ہے زوجہ محترمہ نے عرض کیا کہ میں چند روز میں اپنے نان و نفقہ میں سے کچھ بچت کرلوں گی تاکہ حلوا خریدا جاسکے، آپ نے ارشاد کیا کہ بچالو، کافی دنوں بعد کچھ بچت ہوئی تو زوجہ محترمہ نے حلوہ خریدنے کے لیے عرض کیا، آپ نے اُس بچت کو لے کر بیت المال میں داخل کردیا، اور فرمایا کہ یہ ہمارے نفقہ سے زائد ہے اور اپنے نفقہ میں اتنا کم کردیا جتنا کہ زوجہ محترمہ نے روزانہ خرچ میں کمی کی تھی اور مقدارِ زائد کو بیت المال میں جمع کروادیا۔ خدا کی قسم! یہ غایت درجہ کا تقویٰ ہے جس سے زیادہ ممکن ہی نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بجا طور پر آپ کو اپنا سردار اور خلیفہ بنایا تھا۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکان مقام سُخ (یہ مقام مدینہ منورہ کے ایک طرف واقع تھا اور اس کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت خانہ کے درمیان ایک میل کا فاصلہ تھا) آپ کی زوجہ محترمہ حبیبہ بنت خارجہ خزرجیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا، آپ نے بیعتِ خلافت کے بعد چھ مہینے تک وہیں قیام رکھا۔ وہاں سے مدینہ منورہ پیدل تشریف لاتے۔ بعض اوقات گھوڑے پر سوار ہوتے اور تہبند اور پھٹی پرانی چادر اوڑھتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے، نماز عشاء کے بعد سخ کو واپس تشریف لے جاتے، آپ کی عدم موجودگی میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز پڑھا دیا کرتے۔ آپ ایک بااُصول تاجر تھے۔ ہر روز خرید و فروخت کے لیے بازار جاتے آپ کے پاس بکریوں کا غلہ تھا جسے بعض اوقات آپ خود چراتے اور بعض اوقات کوئی اور چراتا۔ آپ اپنے قبیلے والوں کی بکریوں کا دودھ دہ دیا کرتے تھے۔ منصبِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد بھی آپ کی خدمتِ خلق میں کوئی فرق نہ آیا، آپ کے قبیلہ کی ایک لڑکی نے کہا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ چونکہ اب خلیفہ بن گئے ہیں اب ہمارے گھر کی بکریوں کا دودھ نہ دوہیں گے، آپ نے جو یہ سنا تو فرمایا: ’’مجھے اپنی زندگی کی قسم! میں تمہاری بکریوں کا دودھ ضرور دہ دیا کروں گا، مجھے قوی امید ہے کہ خلافت سے میرے اخلاقِ سابق میں کچھ تغیر و تبدل نہیں ہوگا۔‘‘ چنانچہ حسبِ سابق اُن کی بکریوں کا دودھ دہ دیا کرتے تھے۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت سے قبل حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اطرافِ مدینہ میں ایک اندھی بڑھیا کے ہاں پانی لانے و دیگر کاموں کے لیے روزانہ آتے تھے۔ جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منصبِ خلافت سنبھالا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنے سے قبل ہی سب کام ہوچکے ہوتے تھے۔ انہوں نے تلاش شروع کی کہ مجھ سے پہلے یہ کام کون کرجاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرجاتے ہیں۔
بیعتِ خلافت سے چھ ماہ بعد آپ نے مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کی اور فرمایا کہ میری قوم کو معلوم ہے کہ میں کپڑے کی تجارت کیا کرتا تھا جس سے میرے اہل و عیال کا گزارا ہوتا تھا۔ امورِ خلافت میرے ذمّہ ہوگئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ امورِ خلافت کی انجام دہی سے اب تجارت کے لیے وقت ملنا محال ہے لہٰذا اب ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اہل و عیال و تابعین بیت المال سے کھائیں گے چنانچہ آپ نے بیت المال سے نفقہ لینا شروع کردیا جو آپ کے لیے، آپ کے اہل و عیال اور حج و عمرہ کے لیے کفایت کرتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو آپ کے لیے معین کیا، وہ چھ ہزار درہم سالانہ تھے اور کہا گیا ہے کہ جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو وصیت کی کہ میری زمین بیچ کر اُس کی قیمت اُس نفقہ کے عوض صرف کردی جائے جو میں نے مسلمانوں کے مال میں سے لیا تھا۔
آپ پہلے حاکم ہیں جن کے لیے رعیت نے نفقہ کا تعین کیا تھا، اور آپ ہی پہلے حاکم ہیں جن کو خلیفہ کہا گیا اور پہلے خلیفہ ہیں جن کو اُن کے والد بزرگوار کی زندگی میں خلافت ملی اور پہلے شخص ہیں جنہوں نے مصحفِ قرآن کو مصحف کہا۔
اتباع سنّت:
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اتباع سنّت کو احاطہ تحریر میں نہیں لایا جاسکتا وہ تو اس معاملے میں عدیم النظیر تھے۔ کون ہے جو اُن کے اس کمالِ شوق کا ذکر کرسکے۔ ذرا اس گفتگو کو پیش نظر رکھیں جو وفات شریف سے چند گھنٹے پیشتر آپ کے اور آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے درمیان ہوئی۔
صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ: تم نے حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنے کپڑوں میں دفن کیا؟
صدیقہ رضی اللہ عنہا: تین سفید کپڑوں میں جن میں نہ قمیص تھی نہ عمامہ۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کس دن وفات پائی؟
صدیقہ رضی اللہ عنہا: دو شنبہ (پیروار) کے دن۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ: آج کون سا دن ہے؟
صدیقہ رضی اللہ عنہا:دو شنبہ (پیروار)۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ: مجھے قوی امید ہے کہ میری موت اس وقت اور رات کے درمیان ہوگی (اپنے بدن کے کپڑے پر زعفران کا نشان دیکھ کر) میرے اس کپڑے کو دھو ڈالنا اور اس پر دو کپڑے اور زیادہ کرنا اور مجھے ان دونون قسموں کے کپڑوں میں کفنا دینا۔
صدیقہ رضی اللہ عنہا: یہ کپڑا تو پرانا ہے۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ: زندہ شخص مردے کی نسبت نئے کپڑے کا زیادہ حقدار ہے۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سوال حضور سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن و یوم وفات کے متعلق اس لیے تھا کہ آپ کی قلبی آرزو تھی کہ کفن و یوم وفات میں بھی حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت نصیب ہو۔ زندگی میں تو حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع تھا ہی وہ موت میں بھی حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع چاہتے تھے۔ اللہ اللہ یہ اتباع کیوں نہ ہو، صدیق اکبر جو تھے، رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
حکیم الامّت حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب کہا ہے ؎
آں امن الناس برمولائے ما |
|
آں کلیم اوّل سینائے ما |
آپ فرمایا کرتے تھے کہ جس امر پر حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم عمل کیا کرتے تھے۔ میں اُسے کیے بغیر نہیں چھوڑتا، اگر میں کسی امر کو چھوڑ دوں تو مجھے ڈر ہے کہ سنّت سے منحرف ہوجاؤں گا۔ (نسیم الریاض بحوالہ ابوداؤد و بخاری)
کرامات و خوارق:
آپ کی کرامات بے حد و حساب ہیں، بطور تبرک چند ایک درج ذیل ہیں۔
۱۔ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) کا بیان ہے کہ ایک روز حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی کے ہاں دو شخصوں کا کھانا ہو وہ تیسرے کو اصحاب صُفّہ میں سے اپنے ساتھ لے جائے جس کے ہاں تین کا کھانا ہو وہ چوتھے کو لے جائے جس کے ہاں چار کا کھانا ہو وہ پانچویں کو یا چھٹے کو بھی لے جائے۔ اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب صُفّہ میں سے دس کو اپنے ہاں لے گئے اور حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین کو لے گئے اور ان کو اپنے گھر چھوڑ آئے۔ آپ نے خود شام کا کھانا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کھایا اور وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازِ عشاء ادا کی اور رات کا ایک حصہ گزرنے پر گھر تشریف لائے آپ کی زوجہ محترمہ اُمّ رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ نے اپنے مہمانوں کی خبر کیوں نہ لی، فرمایا: کہ تو نے اُن کو کھانا نہیں کھلایا؟ زوجہ محترمہ نے عرض کیا کہ کھانا پیش کیا گیا مگر انہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ جب تک ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ آئیں گے ہم نہیں کھائیں گے یہ سُن کر آپ خفا ہوئے اور سخت سست کہا اور فرمایا کہ میں کھانا نہیں کھاؤں گا، زوجہ محترمہ نے کہا کہ میں بھی نہ کھاؤں گی، مہمانوں نے کہا کہ جب تک گھر والے نہ کھائیں گے ہم بھی نہ کھائیں گے، آخر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس میں سے ایک لقمہ کھایا پھر باقی سب نے پیٹ بھر کر کھایا، مہمان جب لقمہ اٹھاتے تھے تو کھانا اس کے نیچے سے اور زیادہ ہوجاتا تھا۔ آخر میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو نگاہ کی تو کیا دیکھتے ہیں کہ کھانا اُتنا ہی ہے جتنا کہ شروع میں تھا یا اُس سے بھی زیادہ ہے، آپ نے اپنی زوجہ محترمہ سے کہا، اے بنو فراس کی بہن! یہ کیا معاملہ ہے؟ اُس نے عرض کیا کہ مجھے قرۃ العین کی قسم کہ کھانا اب پہلے سے تین گنا زیادہ ہے۔ بعد ازاں آپ نے وہ کھانا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارگاہ میں بھیج دیا اور وہ صبح تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں رہا۔
حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ مزید روایت کرتے ہیں کہ ایک قوم سے ہمارا عہد تھا اُس کی میعاد گزر چکی تھی بدیں وجہ وہ لوگ مدینہ منورہ آگئے تھے ہم نے ان میں سے بارہ اشخاص کو منتخب کرلیا۔ ہر ایک منتخب کے ماتحت بہت سے اشخاص تھے جن کی تعداد صرف خدا ہی کو معلوم ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک منتخب شخص کے ہاتھ اس کھانے میں سے اُس کے ساتھیوں کا حصّہ بھیج دیا۔ اس طرح تمام لوگوں نے پیٹ بھر کھانا کھایا۔ یہ تکثیر طعام (کھانے کا زیادہ ہوجانا) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامت تھی او ررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔
۲۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ منورہ کے ایک نواحی گاؤں میں سے کچھ کھجور کے درخت عطا فرمائے جن میں سے ایک فصل میں بیس وسق (تقریباً ۳۹۰۰ کلو) کھجوریں اُترتی تھیں۔ جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو فرمانے لگے اے پیاری بیٹی! اللہ کی قسم! میں تم کو تمام لوگوں میں سب سے زیادہ آسودہ حال دیکھنا پسند کرتا تھا اور مجھے کسی طرح پسند نہیں کہ میرے بعد تم تنگدست ہوجاؤ، میں نے تجھے اپنے مال میں سے بیس وسق آمدنی والے کھجور کے درخت ہبہ کیے تھے اگر تو ان پر قبضہ کرلیتی تو وہ تیری ملکیت ہوجاتے لیکن اب میرے بعد وہ سب وارثوں کا حق ہے اور وہ وارث تیرے علاوہ تیرے دونوں بھائی اور دونوں بہنیں ہیں۔ تم سب مل کر کتاب اللہ کے مطابق آپس میں تقسیم کرلینا۔ یہ سُن کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا: ابا جان! اللہ کی قسم! اگر وہ مالِ موہوب (ہبہ کیا ہوا مال) اس سے بھی زیادہ ہوتا تو میں اُسے چھوڑ دیتی، آپ نے دو بہنوں کا ذکر فرمایا ہے، میری تو صرف ایک بہن اسماء ہے۔ دوسری کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری سوتیلی والدہ (حبیبہ) بنت خارجہ رضی اللہ عنہا کے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ میرے گمان میں لڑکی ہے چنانچہ بنتِ خارجہ رضی اللہ عنہا کے ہاں لڑکی ہوئی۔ (موطا امام محمد۔ باب النملی)
استیعاب بن عبدالبر میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میرے دل میں القاء (وہ بات جو اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں ڈال دے) ہوا ہے کہ جو بچہ بنتِ خارجہ رضی اللہ عنہا کے شکم میں ہے وہ لڑکی ہے چنانچہ آپ کی وفات کے بعد لڑکی ہی پیدا ہوئی جس کا نام اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اُمّ کلثوم رکھا۔ اس روایت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو کرامتوں کا ذکر ہے، ایک تو یہ کہ آپ نے خبر دیدی کہ میری موت اسی مرض میں ہوگی دوسری یہ کہ آپ نے بتادیا کہ میری اہلیہ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے لڑکی پیدا ہوگی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا یہ دونوں کرامتیں غیب کی خبریں دینے کی قسم سے ہیں۔
۳۔ حضرت امام مستغفری رحمۃ اللہ علیہ نے اسناد کے ساتھ روایت کی ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وصیت کی تھی کہ میں جب مرجاؤں تو مجھے اُس حجرے کے دروازے میں لے جائیو جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور ہے اور دروازہ کھٹکھٹائیو۔ اگر دروازہ کھل جائے تو مجھے اس میں دفن کردیجیو۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ ہم آپ کا جنازہ وہاں لے گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ یہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ ان کی آرزو تھی کہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور دفن کیے جاؤں، اس پر دروازہ کھل گیا ہمیں معلوم نہیں دروازہ کس نے کھولا اور آواز آئی کہ اندر لے آؤ اور عزت و تکریم سے دفن کرو مگر آواز دینے والا ہمیں کوئی نظر نہیں آیا (نغمات الانس، خصائص کبریٰ سیوطی)
۴۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رحلت فرمائی تو بعض صحابہ کرام نے کہا کہ ہم ان کو شہیدوں میں دفن کریں گے دوسروں نے کہا کہ ہم جنت البقیع میں لے جائیں گے، میں نے کہا کہ میں ان کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دفن کروں گی۔ ہم اسی اختلاف میں تھے کہ مجھ پر نیند نے غلبہ کیا۔ میں نے سنا کہ کوئی کہہ رہا ہے ضمّوا الحبیب الی الحبیب ’’یعنی حبیب کو حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچادو‘‘۔ جب میری آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ سب نے اس آواز کو سن لیا یہاں تک کہ مسجد میں لوگوں نے بھی سنا۔ (شواہد نبوت مولانا عبدالرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ)
۵۔ ابو محمد شبنکی کا بیان ہے کہ شیخنا ابوبکر بن ہوار رضی اللہ تعالیٰ عنہ بطائح (شہر واسط اور شہر بصرہ کے درمیان) میں رہزنی کیا کرتے تھے، آپ اپنے گروہ کے سردار تھے۔ مسافروں اور راہگیروں کا مال لوٹ کر باہم تقسیم کرلیا کرتے تھے۔ ایک رات آپ نے سنا کہ ایک عورت اپنے شوہر سے کہہ رہی ہے کہ ٹھہر جاؤ، مبادا ہم کو ابن راوار اور اس کے ساتھی پکڑلیں۔ عورت کی یہ بات آپ کے دل پر بجلی بن کرگری اور رو پڑے، کہنے لگے کہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں اور میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا، اُسی وقت بمعہ اپنے ساتھیوں کے توبہ کی، پھر صدق و اخلاص کے ساتھ پروردگارِ عالم کی طرف متوجہ ہوئے اور ل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اب اپنے آپ کو کسی شیخ کامل کے سپرد کریں جو خدا تک پہنچادے، اُن ایام میں عراق میں کوئی مشہور و معروف شیخ نہ تھا۔ آپ نے خواب میں حضور سیّد عالم صلی اللہ علی وسلم اور حضرت ابوبکر صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے خرقہ پہنائیے، حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، اے ابن راہوار! میں تیرا نبی ہوں اور یہ تیرے شیخ ہیں اور پھر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اشارہ فرمایا، اے ابوبکر! اپنے ہم نام ابنِ راہوار کو خرقہ پہناؤ۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابنِ راہوار کو پیراہن اور کلاہ پہنائی اور اپنا مبارک ہاتھ ان کے سر اور پیشانی پر پھیرا اور کہا بارک اللہ فیک۔ اس کے بعد حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنِ راہوار سے یوں فرمایا:
’’اے ابوبکر! تجھ سے عراق میں میری اُمّت کے اہلِ طریقت کی مردہ سنتیں زندہ ہوں گی اور اربابِ حقائق و دوستانِ خدا کی منزلوں کے مٹے ہوئے نشانات قائم ہوجائیں گے اور عراق میں مشیخیت تا قیامت تجھ میں رہے گی۔ تیرے ظہور سے عنایت باری تعالیٰ کی نرم ہوائیں چلنی شروع ہوگئی ہیں اور تیرے قیام سے عنایت ایزدی کی ٹھنڈی ہوائیں چھوڑ دی گئی ہیں‘‘۔
جب ابن راہوار بیدار ہوئےتو وہی پیراہن اور کلاہ اپنے اوپر موجود پائی۔ آپ کے سر پر جو پھوڑے تھے وہ سب ناپید ہوگئے۔ آفاق میں گویا یہ ندا اور منادی کردی گئی کہ ’’ابنِ راہوار اللہ تعالیٰ تک پہنچ گئے۔ پس چاروں طرف سے خلقِ خدا آپ کی طرف متوجہ ہوئی اور قرب الٰہی کی علامتیں ظاہر ہوگئیں۔ راوی (ابومحمد) کا قول ہے کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ آپ اکیلے رہتے تھے اور شیر آپ کے گرد ہوتے تھے بلکہ بعض شیر آپ کے قدموں پر لوٹتے تھے۔ (بہجۃ الاسرار)
وفات:
جب آپ کی رحلت کا وقت آیا تو صحابہ کرام عیادت کو آئےا ور عرض کرنے لگے کہ ہم کسی طبیب کو بلاتے ہیں جو آپ کو دیکھے، آپ نے فرمایا کہ طبیب نے مجھے دیکھ لیا ہے، انہوں نے پوچھا کہ اس نے کیا کہا؟ فرمایا: اُس نے یوں کہا ہے اِنِّیْ فَعَّالٌ لِّمَا اُرِیْدُ۔ (میں کرنے والا ہوں جو چاہتا ہوں)۔
ابن سعد وغیرہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب بابا جان کو مرض میں زیادہ تکلیف ہوئی تو میں نے یہ شعر پڑھا:
لِعُمْرِکَ مَا یپغْنِیُ الشّراء عَنِ الفَتٰی
اِذْ حَشْرَجَتُ یَوْمًا وَضَاقَ بِھَا الصَدر
ترجمہ: اپنی عمر کی قسم جب ہچکی لگ جاتی ہے اور سینہ تنگ ہوجاتا ہے تو پھر مال کوئی فائدہ نہیں دیتا۔
یہ شعر سن کر آپ نے چادر اپنے چہرے سے ہٹائی اور مجھ سے فرمایا نہیں بلکہ ایسا کہو کہ ’’موت کے وقت سکرات ہوتی ہے اور اُس سے کسی کو چھٹکارا نہیں ہے‘‘۔
ابویعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ جب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں گئی تو آپ نزع کی حالت میں تھے۔ پس بے ساختہ میری زبان سے نکلا ؎
من لا یزال ذمعہ مقنعا |
|
فانہ فی مرۃ مدفوق |
ترجمہ: آج آپ کو سخت مرض لاحق ہوگیا ہے، اللہ آپ کی روح کو توفیق بخشے (اللہ آپ پر رحم فرمائے۔)
یہ سن کر آپ نے فرمایا: یہ مت کہو بلکہ یہ کہو کہ سکراتِ موت کا آنا ضروری ہے، یہی وہ حالت ہے جس سے تو بھاگتا تھا پھر آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کس روز ہوئی تھی میں نے عرض کیا دو شنبہ (پیر) کے دن! آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ میں آج رات ہی انتقال کروں گا، چنانچہ آپ پیر اور منگل کی درمیانی شب میں انتقال فرماگئے اور صبح ہونے سے قبل آپ کو دفن کردیا گیا۔
عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں بکر بن عبداللہ مزنی سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انتقال کے وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے سرہانے پر یہ شعر پڑھنے لگیں ؎
وَککلّ ذی ابلٍ یوماً سبوروھا |
|
وکل ذی سلب لا بد مسلوب |
ہر سوار کی ایک منزل ہوتی ہے
اور ہر کپڑا پہننے والے کا ایک کپڑا ہوتا ہے
آپ فوراً (اُن کا ) مدعا سمجھ گئے اور فرمایا: بیٹی! اس طرح نہیں بلکہ جس طرح اللہ عزوجل نے فرمایا: ’’موت کو بے ہوشی تو ضرور آکر رہے گی یہی وہ حالت ہے جس سے تو بھاگتا تھا‘‘۔
احمد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ جب میں نے آپ کے سامنے یہ شعر پڑھا ؎
وابیض یستسقی الغمام بوجھہ |
|
ثمال الیتامی عصمۃ للار مل |
ترجمہ: ’’بہت سے ایسے روشن چہرے والے ہیں کہ ..... کہ ابر ان چہروں سے پانی حاصل کرتا ہے اور آپ یتیموں اور بیواؤں کے فریاد رس ہیں‘‘۔
یہ سُن کر حضرت صدیقہ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ صفت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔
آپ نے سہ شنبہ کی رات مغرب و عشاء کے درمیان ۲۲؍جمادی الاخریٰ ۱۳ھ/ ۶۳۴ء کو بعمر شریف تریسٹھ سال وصال فرمایا اور صبح ہونے سے پیشتر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو مبارک میں دفن ہوئے۔ آپ کی خلافت دو سال تین مہینے اور آٹھ دن رہی۔ اس قلیل عرصہ میں یمامہ، اطرافِ عراق اور ملک شام کے بعض شہر فتح ہوئے۔ مسیلمہ کذّاب مارا گیا اور قرآن مجید ایک مصحف میں جمع کیا گیا۔
آپ کی وفات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تاثرات:
حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: ’’اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حادثۂ وفات کے بعد آپ کی وفات سب سے بڑا حادثہ ہے لیکن بہ ہر حال اللہ کے حکم کے مطابق ہم صبر ہی کریں گے..... ابا جان! میرا آخری سلام قبول کیجیے میں آپ کے مرنے پر جزع فزع نہیں کر رہی۔
* حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باچشم پرنم فرمایا:
’’...... اے خلیفۂ رسول اللہ! آپ نے دنیا سے رخصت ہوکر قوم کو سخت محنت و مشقّت میں ڈال دیا ..... آپ کا سا ہونا تو درکنار اب تو کوئی ایسا بھی نہیں جو آپ کی گرد کو پہنچ سکے.....‘‘۔
* سیّدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم آپ کے دروازہ پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے پہنچے اور فرمایا: یوم انقطعت خلافۃ النبوۃ۔ آ ج خلافتِ نبوّت منقطع ہوگئی (طویل خطبہ جس میں آپ کے بے شمار محاسن اور اوصاف کا تذکرہ فرمایا)
ترجمہ: ’’اے ابوبکر! اللہ تم پر رحم فرمادے تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب، مونس معتمد، محرم راز اور مشیر تھے تم سب سے پہلے ایمان لائے، تم سب سے زیادہ مخلص مومن تھے تمہارا یقین سب سے زیادہ مضبوط تھا، تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے اور دین کے معاملے میں تکلیف اٹھانے والے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سب سے زیادہ حاضر باش، اسلام پر سب سے زیادہ مہربان، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے لیے سب سے زیادہ بابرکت، رفاقت میں سب سے بہتر، مناقب و فضائل میں سب سے بڑھ کر ، پیش قدمیوں میں سب سے افضل و برتر، درجے میں سب سے اُونچے، وسیلے کے لحاظ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ قریب تر، سیرت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ، عادت، مہربانی اور فضل میں سب سے زیادہ مکرم اور معتمد تھے۔ پس اللہ اسلام اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تم کو خیر عطا فرمائے۔ تم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بمنزلہ چشم و گوش تھے، تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس وقت تصدیق کی جب لوگوں نے تکذیب کی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں تم کو ’’صدیق‘‘ کہا ..... والذی جاء بالصدق وصدق بہٖ تم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُس وقت غم خواری کی جب لوگ بخل کرتے تھے۔ناخوشگوار حالات میں تم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جم کر کھڑے رہے جبکہ لوگ بچھڑ گئے۔ تم نے سختیوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حق محبت حسن و خوبی سے ادا کیا، تم ثانی اثنین اور رفیق غار تھے، تم پر سکون نازل تھا۔ تم ہجرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے۔ اللہ کے دین اور امت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تم ایسے خلیفہ تھے جس نے اُس وقت خلافت کا حق ادا کیا جب لوگ مرتد ہوگئے تم نے خلافت کا ایسا حق ادا کیا جو کسی پیغمبر کے خلیفہ سے نہ ہوسکا، تم نے اس وقت مستعدی دکھائی جب تمہارے ساتھی سست ہوگئے، تم نے اس وقت جنگ کی جب وہ عاجز ہوگئے تھے جب وہ کمزور ہوگئے تو تم قوی رہے، تم نے منہاجِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تھا ماجب لوگ پست ہوگئے، تم نزاع و تفرقہ کے بغیر خلیفۂ برحق تھے۔ اگرچہ اس سے منافقوں کو غصہ، کفار کو رنج، حاسدوں کو کراہت اور باغیوں کو غیظ تھا، تم امرِ حق پر قائم رہے جب لوگ بزدل ہوگئے تم ثابت قدم رہے جب وہ ڈگمگاگئے تم اللہ کے نور کو لیے ہوئے بڑھتے رہے جب لوگ ٹھہر گئے، پھر انہوں نے تمہاری پیروی کی اور ہدایت پائی، تمہاری آواز اُن سب سے پست تھی مگر تمہارا رتبہ ان سب سے بلند تھا، تمہارا کلام سب سے سنجیدہ تھا، اور تمہارا نطق سب سے زیادہ صحیح تھا۔ تم سب سے زیادہ خاموش تھے، تمہارا قولِ بلیغ تھا، تم سب سے زیادہ بہادر، سب سے زیادہ معاملہ فہم اور عمل کے لحاظ سے سب سے زیادہ اشرف تھے، خدا کی قسم! تم دین کے سردار تھے، جب لوگ دین سے ہٹے تو تم اُن سے آگے تھے اور جب وہ دین کی طرف آئے تو تم ان کے پیچھے تھے تم مومنوں کے لیے رحم دل باپ تھے یہاں تک کہ وہ تمہاری اولاد بن گئے جن بھاری بوجھوں کو وہ اٹھانہ سکتے تھے تم نے اُن کو اٹھالیا جس چیز کو انہوں نے چھوڑ دیا تھا تم نے ان کو اس کی رغبت دلائی اور جو چیز انہوں نے ضائع کردی تم نے اُس کی حفاظت کی، جس کو وہ نہیں جانتے تھے تم نے ان کو وہ چیز سکھائی، جب وہ عاجز و درماندہ ہوئے تو تم نے تلوار کھینچ لی یعنی بہادری دکھائی جب وہ گھبرائے تو تم ثابت قدم رہے نتیجہ یہ ہوا کہ تم نے اُن کی داد رسی کی اور وہ اپنی ہدایت کے لیے تمہاری طرف راجع ہوئے اور کامیاب ہوئے اور جو چیز اُن کے گمان میں بھی نہ تھی اُن کو مل گئی، تم کفار کے لیے عذاب کی بارش اور آگ کا شعلہ تھے، مومنوں کے لیے رحمت، اُنس اور پناہ تھے، تم نے اوصاف و کمالات کی فضا میں پرواز کی اور اس کا عطیہ پایا اور فضیلتیں حاصل کرلیں، تمہاری محبت کو شکست نہ ہوئی تمہاری بصیرت کمزور نہیں ہوئی تمہارا نفس بزدل نہیں ہوا، تمہارا دل کج نہیں ہوا اور منحرف نہیں ہوا تم اس پہاڑ کی مانند تھے جس کو آندھیاں ہلا نہیں سکتیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم رفاقت اور مالی اعتبار سے سب سے زیادہ احسان کرنے والے تھے اور بقول حضو صلی اللہ علیہ وسلم تم جسما گو کمزور تھے لیکن اللہ کے معاملے میں قوی تھے اور اپنی ذات میں متواضع اللہ کے نزدیک باعظمت اور لوگوں کی نظر میں بزرگ تمہاری نسبت نہ کوئی دھوکے میں ت ھا اور نہ حرف گیری کرسکتا تھا، تم سے نہ کوئی (غلط) طمع رکھ سکتا تھا اور نہ تم کسی کی رعایت کرتے تھے۔ ضعیف اور پست آدمی تمہارے نزدیک قوی تھا، تم اس کو حق دلاتے تھے اور قوی تمہارے نزدیک ضعیف اور ذلیل تھا، تم اُس سے حق لیتے تھے دور و نزدیک کے دونوں قسم کے آدمی تمہاری نگاہ میں یکساں تھے جو اللہ کا سب سے زیادہ مطیع اور متقی ہوتا تھا وہی تمہارا سب سے زیادہ مقرب تھا، تمہاری شان حق، صدق اور نرمی تھی، تمہارا قول، حکم قطعی اور تمہارا معاملہ برد باری اور دور اندیشی تھا، اور تمہاری رائے علم و غرم تھا، تم نے فساد کا قلع قمع کردیا اور راستے ہموار ہوگئے مشکل آسان ہوگئی، آگ بجھ گئی اور دین معتدل ہوگیا، ایمان قوی ہوگیا اسلام اور مسلمان مضبوط ہوگئے اللہ کا امر غالب ہوگیا اگرچہ کفار کو ناگوار ہوا، تم نے سخت سبقت کی اور ا پنے بعد والوں کو تھکا دیا، تم خیر سے کامیاب ہوئے تم اس سے بالاتر ہو کہ تم پر ماتم کیا جائے، تمہارے مرثیے آسمانوں پر پڑھے جا رہے ہیں اور تمہاری مصیبت تمام دنیا میں ظاہر ہے۔ ان للہ وانا الیہ راجعون اللہ کے فیصلے پر راضی اور اپنا معاملہ اُس کو سونپتے ہیں اور اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تمہاری موت جیسا کوئی حادثہ مسلمانوں پر کبھی نازل نہیں ہوا، تم دین کی عزت، جائے پناہ اور حفاظت گاہ تھے مومنوں کے لیے تنہا ایک گروہ ، قلعہ اور دارالامن تھے۔ منافقوں کے واسطے سختی اور غضب تھے۔ پس اللہ تم کو تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملادے اور ہم کو تمہارے بعد تمہارے اجر سے محروم و گمراہ نہ کرے۔ (ریاض النضرہ جلد اول، کنزالعمال بر مسند احمد بن حنبل جلد۴، ماہنامہ فیض الاسلام، راولپنڈی ’’صدیق اکبر نمبر‘‘)
جب تک حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم خطاب فرماتے رہے لوگ خاموش رہے لیکن جب اختتام کو پہنچے تو سب کی چیخیں نکل گئیں اور بیک آواز سب نے کہا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد! آپ نے بے شک سچ فرمایا۔
* حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ترجمہ: ’’اگر تم اپنے معتمد بھائی کا غم یاد کرو تو اپنے بھائی ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کارنامے یاد کرو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مخلوق میں سب سے بہتر، سب سے زیادہ متقی و عادل اور اپنے فرائض انجام دینے والے ہیں‘‘۔
* حضرت محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’اگر میں قسم کھاکر کہوں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق و فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ایک ہی سرشت و طینت سے پیدا کیا تو میں اپنی قسم میں صادق ہوں گا‘‘۔
* علامہ سمہودی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی شرح یوں فرمائی ہے:
’’ہر شخص کا مدفن وہیں ہوتا ہے جس جگہ کی مٹی اُس کی سرشت و طنیت میں ہوتی ہے‘‘۔
* حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مزید وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’روحوں کو اللہ تعالیٰ نے گروہ در گروہ پیدا کیا پھر جو روح اس وقت سے متعارف ہوئی دنیا میں بھی اُسی سے مانوس و مالوف ہوئی اور وجود خارجی میں ایک جگہ تھیں اور بعد انتقال بھی ایک جگہ ہیں اور رہیں گی۔ (فیض الاسلام ’’راولپنڈی‘‘ صدیق اکبر نمبر ص۵۱)
* بروایت حافظ ابو سعد بن سماں وغیرہ محدثین، نزی محمد بن عقیل بن ابی طالب سے کہ بے شک جب حضرت ابوبکر صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وفات پائی اور اُن کو چادر سے چھپا دیا گیا ارتعبت المدینۃ بالیکاء کیومٍ قبض فیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ تو لوگوں کی گریہ زاری سے مدینہ منورہ ہلنے لگا، جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن ہلا تھا (تحفہ اثنا عشریہ)
* ابن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتقال فرما گئے تو مکہ میں ایک زلزلہ آیا۔ (فضائل صدیقہ اکبر متربہ میاں جمیل احمد شرقپوری ص۱۰۰ بحوالہ تاریخ خلفائے اسلام، سیوطی (اردو) صفحہ ۱۳۵۰)
ارشاداتِ قُدسیہ:
۱۔ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ہوئے تو آپ نے خطبہ دیا جس میں خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ’’اے لوگو! میں تمہارا حاکم بنایا گیا حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں، اگر میں نیک کام کروں تو تم لوگ میری مدد کرو۔ اگر میں غلط کام کروں تو مجھے سیدھا کرو، صدق امانت ہے اور کذب خیانت ہے تم میں جو ضعیف ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے، میں آپ سے اُس کا حق دلواکر چھوڑوں گا، ان شاء اللہ، اور تم میں جو قوی ہے وہ میرے نزدیک ضعیف ہے میں اس سے حق لے کر چھوڑوں گا ان شاء اللہ تعالیٰ جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتی ہے خدا اس پر ذلت و رسوائی نازل کرتا ہے اور جس قوم میں کوئی برائی شائع ہوجاتی ہے خدا اس قوم پر مصائب و آلام بھیجتا ہے تم میری اطاعت کرو جب تک میں خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروں پر جب میں خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تو میری اطاعت تم پر واجب نہیں‘‘۔ (سیرتِ ابن ہشام)
۲۔ یوسف بن محمد کا بیان ہے کہ مجھے خبر پہنچی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرضِ موت میں وصیت کی اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ لکھیے:
’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، یہ وہ ہے جس کی وصیت ابوقحافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے دنیا سے جاتے اور آخرت میں داخل ہوتے ہوئے ایسے وقت میں کی جبکہ کاذب سچ بولتا ہے اور خائن امانت ادا کرتا ہے اور کافر ایمان لاتا ہے (مضمون وصیت یہ کہ) میں نے اپنے بعد عمر بن خطاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو خلیفہ بنایا ہے اگر وہ عدل کرے تو یہ میرا اُس کی نسبت گمان اور توقع ہے اور اگر وہ جو روستم کرے تو میں غیب دان نہیں اور ہر شخص کے لیے سزا ہے اس گناہ کی جو اُس نے کیا۔‘‘ اور ظلم کرنے والے عنقریب معلوم کریں گے کہ وہ کس کروٹ اُلٹتے ہیں‘‘۔ (شعراء۔ آخیر آیت)
۳۔ آپ نے ایک پرندے کو درخت پر بیٹھے ہوئے دیکھ کر فرمایا: اے پرندے! خوش رہو، اللہ کی قسم! کاش میں تیری مانند ہوتا کہ تو درخت پر بیٹھتا ہے پھل کھاتا ہے، پھر اڑجاتا ہے اور تجھ پر کوئی حساب و کتاب نہیں، خدا کی قسم! کاش میں بجائے انسان ہونے کے راستے کی ایک طرف کا درخت ہوتا اور کوئی کوئی اونٹ میرے پاس سے گزرتا مجھے پکڑ کر اپنے منہ میں ٹھونس لیتا، پھر چبا کر نگل جاتا اور بعد ازاں مینگنوں کی شکل میں نکال دیتا۔
۴۔ جب لوگ آپ کی مدح کرتے تو آپ یوں کہتے: ’’خدایا! تو میرا حال میری نسبت بہتر جانتا ہے اور میں اپنا حال ان کی نسبت بہتر جانتا ہوں، خدایا تو مجھے بہتر بنادے اُس سے جو وہ گمان کرتے ہیں اور میرے وہ گناہ بخش دے جو ان کو معلوم نہیں اور جو وہ کہتے ہیں اس پر مجھے گرفت نہ کر‘‘۔
۵۔ اگر آپ مشکوک کھانا کھالیتے اور پھر جب آپ کو اس کا علم ہوجاتا تو اسے قے کرکے اپنے پیٹ سے نکال دیتے اور یوں دعا کرتے: ’’خدایا! جو کچھ رگوں نے پی لیا اور انتڑیوں کے ساتھ مل گیا اس پر مجھے مواخذہ نہ کرنا‘‘۔
۶۔ فرماتے کہ جب کسی شخص کو زینتِ دینار پر ناز اور غرور آجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس شخص کو دشمن رکھتا ہے یہاں تک کہ وہ اُس زینت کو چھوڑ دے۔
۷۔ فرماتے اے گروہِ آدمیاں! خدا سے حیا کرو، اُس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میری جان ہے جب میں قضائے حاجت کے لیے جنگل میں جاتا ہوں تو خدا سے حیا کے بارے میں اپنا سر ڈھانپ لیتا ہوں۔
۸۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ (غلام حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زبان کو ہاتھ سے پکڑے ہوئے فرما رہے ہیں کہ اسی نے مجھے ہلاکت کی جگہوں میں ڈال دیا ہے۔ (مشکوٰۃ بحوالہ امام مالک باب حفظ اللسان)
۹۔ آپ کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ہمسایہ سے جھگڑ رہے تھے آپ اُن کے پاس سے گزرے تو فرمایا: اپنے ہمسایہ سے نہ جھگڑو کیونکہ نیکی رہ جائے گی اور لوگ چلے جائیں گے۔
۱۰۔ جب آپ کی اونٹنی کی مہار گر پڑتی تو اُسے بٹھا کر خود اٹھالیتے، حاضرین عرض کرتے کہ آپ نے ہمیں کیوں نہ حکم دے دیا، آپ جواب دیتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ہے کہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔
۱۱۔ آپ جب کسی شخص کو صبر کی نصیحت کرتے تو فرماتے کہ صبر کے ساتھ کوئی مصیبت نہیں اور بے صبری سے کوئی فائدہ نہیں۔ موت اپنے مابعد سے آسان اور ماقبل سے سخت ہے۔
۱۲۔ جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مرتدین کی طرف جہاد کرنے کے لیے بھیجا تو فرمایا کہ موت کا حریص بن، تجھے حیات نصیب ہوگی۔
۱۳۔ جب آپ کو خبر لگی کہ اہلِ فارس نے پرویز شہنشاہ کی لڑکی کو اپنا حکمران بنالیا ہے تو فرمایا کہ وہ لوگ ذلیل ہوگئے جنھوں نے اپنی حکومت ایک عورت کے ہاتھ میں دے دی۔
۱۴۔ تجھ پر خدا کی طرف سے جاسوس مقرر ہیں جو تجھے دیکھتے ہیں۔
۱۵۔ لوگوں میں خدا کا سب سے زیادہ فرمانبردار بندہ وہ ہے جو گناہ کا سب سے زیادہ دشمن ہو۔
۱۶۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میرے نزدیک اپنے خویش و اقرباء کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خویش و اقرباء سے محبت و سلوک پسندیدہ تر ہے۔
۱۷۔ اُس قول میں کوئی خوبی نہیں ہے جس سے رضائے خدا مراد نہ ہو اور اُس مال میں کوئی خوبی نہیں جو راہِ خدا میں خرچ نہ کیا جائے اور اُس شخص میں کوئی خوبی نہیں جس کی جہالت اُس کے علم پر غالب ہو اور اس شخص میں کوئی خوبی نہیں جو ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈرتا ہو۔
۱۸۔ ابوصالح کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں یمن کے لوگ آئے اور انہوں نے قرآن شریف سنا تو زار و قطار رونے لگے، یہ دیکھ کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم بھی اس طرح رویا کرتے تھے پھر ہمارے دل سخت ہوگئے۔ حافظ ابونعیم اصفہانی نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اُن کے دل اللہ تعالیٰ کی معرفت سے قوی اور مطمئن ہوگئے۔
۱۹۔ ادراک (عقل، فہم) حاصل کرنے سے عاجز آنا ادراک ہے۔
۲۰۔ اللہ تعالیٰ تیرے باطن کا حال دیکھ رہا ہے جیسا کہ ظاہر کا حال دیکھ رہا ہے۔
۲۱۔ اللہ رحم کرے اُس مرد پر جس نے اپنی جان سے اپنے بھائی کی مدد کی۔
۲۲۔ تو اپنے آپ کو جاہلیت کی غیبت سے دور رکھ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے غیبتِ جاہلیت کو اور اہلِ غیبت کو دشمن رکھا ہے۔
۲۳۔ جب تجھ سے کوئی نیکی فوت ہوجائے تو اس کا تدارک کر اور اگر کوئی بدی تجھے آ گھیرے تو اُس سے بچ جا۔
۲۴۔ ہم ایک حرام میں پڑنے کے خوف سے ستر حلال کو چھوڑ دیا کرتے تھے۔
۲۵۔ جو شخص بغیر توشہ کے قبر میں جائے اُس نے گویا بغیر کشتی کے سمندر میں سفر کیا۔
۲۶۔ آیہ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (ظاہر ہوگیا فساد جنگل اور سمندر میں (روم ع۵) کی تاویل میں آپ کا قول ہے کہ جنگل سے مراد زبان اور سمندر سے مراد قلب ہے۔ جب زبان خراب ہوجاتی ہے تو انسان اُس پر روتےہیں۔ جب دل خراب ہوجاتا ہے تو اس پر فرشتے روتے ہیں۔
۲۷۔ شہوت کے سبب سے بادشاہ غلام بن جاتے ہیں اور صبر سے غلام بادشاہ بن جاتے ہیں حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام و زلیخا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قصّے پر غور کرو۔
۲۸۔ جس شخص نے گناہوں کو ترک کیا اُس کا دل نرم ہوگیا اور جس نے حرام کو ترک کیا اس کا فکر و اندیشہ صاف ہوگیا۔
۲۹۔ سب سے کامل عقل اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا اتباع اور اس کے غضب سے بچنا ہے۔
۳۰۔ عاقل کے لیے کوئی مسافرت نہیں اور جاہل کے لیے وطن نہیں۔
۳۱۔ تین چیزیں جس شخص میں ہوں گی اُسے نقصان دیں گی، نافرمانی، عہد شکنی، مکر۔
۳۲۔ تین چیزیں تین چیزوں سے حاصل نہیں ہوتیں، دولت مندی، آرزوؤں سے جوانی، خضاب سے۔
۳۳۔ جس شخص میں یہ چار خصلتیں ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں سے ہے۔ توبہ کرنے والے سے خوش ہو۔ گنہگار کے لیے مغفرت طلب کرے، مصیبت زدہ کے لیے دعا کرے۔ احسان کرنے والے کی مدد کرے۔
۳۴۔ چار چیزیں چار چیزوں سے تمام و کامل ہوجاتی ہیں۔ نماز سجدہ سہو سے، روزہ صدقۂ فطر سے، حج فدیہ سے اور ایمان حیاء سے۔
۳۵۔ تاریکیاں پانچ ہیں اور اُن کے چراغ بھی پانچ ہیں۔ حب دنیا تاریکی ہے اور اس کا چراغ تقویٰ ہے۔ گناہ تاریکی ہے اور اس کا چراغ توبہ ہے، قبر تاریکی ہے اور اس کا چراغ لا الہ الا اللہ ہے آخرت تاریکی ہے اور اس کا چراغ نیک عمل ہے پل صراط تاریکی ہے اور اس کا چراغ یقین ہے۔
۳۶۔ ابلیس تیرے آگے کھڑا ہےا ور نفس تیرے دائیں طرف اور خواہش نفسانی بائیں طرف اور دنیا تیرے پیچھے اور اعضاء تیرے گرد اور اللہ تعالیٰ جل جلالہ تیرے اوپر ہے۔ ابلیس تو تجھے ترکِ دین کی طرف بلا رہا ہے اور نفس معصیت کی طرف اور خواہشِ نفسانی شہوتوں کی طرف اور دنیا آخرت کو چھوڑ کر اسے اختیار کرنے کی طرف اور اعضاء گناہوں کی طرف اور اللہ تعالیٰ جل جلالہ جنت و مغفرت کی طرف بلا رہا ہے پس جس نے ابلیس کی سنی اس کا دین جاتا رہا جس نے نفس کی سنی اس کی روح جاتی رہی، جس نے ہوائے نفس کی سنی اس کی عقل جاتی رہی جس نے دنیا کی سنی اس سے آخرت جاتی رہی۔ جس نے اعضاء کی سنی اُس سے بہشت جاتا رہا جس نے اللہ تعالیٰ کی سنی اُس سے تمام برائی جاتی رہی اور اس نے تمام نیکی کو حاصل کرلیا۔
۳۷۔ بخیل کا مال سات حالتوں میں سے ایک سے خالی نہیں ہوتا، وہ مرجائے گا تو اس کا وارث ایسا شخص ہوگا جو اُس کے مال کو فضول خرچی سے اڑا دے گا اور طاعتِ خدا کے سوا کسی اور کام میں خرچ کرے گا، یا اللہ تعالیٰ اُس پر کسی جابر شخص کو مسلط کردے جو اس کا مال بلا اختیار اُس سے چھین لے گا، یا کوئی شہوتِ نفسانی اُس میں پیدا ہوجائے گی جس سے وہ اپنے مال کو ضائع کردے گا یا اُسے گھر یا عمارت (جس کا انجام خرابی ہو) کے بنانے کا خیال آجائے گا اور اُس کا مال صرف ہوجائے گا یا اُس مال کو حوادثِ دنیا میں سے کوئی حادثہ پیش آئے گا جیسا کہ جل جانا یا غرق ہوجانا یا چوری ہوجانا یا مثل ان کے کوئی اور حادثہ یا اس کو کوئی دائمی مرض لاحق ہوجائے گا جس کے سبب سے وہ اپنے مال کو دواؤں میں خرچ کردے گا یا وہ اپنے مال کو کسی جگہ دفن کرکے بھول جائے گا اور نہ پائے گا۔
۳۸۔ آٹھ چیزیں، آٹھ چیزوں کی زینت ہیں، پرہیزگاری زینت ہے فقر کی، شکر زینت ہے دولتمندی کی، صبر زینت ہے بلاکی۔ تواضع زینت ہے شرف و بزرگی کی، علم زینت ہے عالم کی، فروتنی و عاجزی زینت ہے طالب علم کی، احسان نہ جتانا زینت ہے احسان کی اور خشوع زینت ہے نماز کی۔
۳۹۔ عابد تین قسم کے ہیں اور ہر قسم کی علامات ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں، ایک قسم وہ ہیں جو بر سبیلِ خوف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، دوسرے وہ ہیں جو بر سبیلِ اُمید اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور تیسرے وہ ہیں جو برسبیل محبت اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔
قسم اوّل کے لیے تین علامتیں ہیں، عابد اپنے نفس کو حقیر سمجھے گا اور اپنی نیکیوں کو قلیل اور اپنی برائیوں کو کثیر خیال کرے گا، قسم دوم کے عابد کی تین علامتیں ہیں، وہ تمام حالتوں میں لوگوں سے پرہیز کرے گا۔ دنیا میں سب سے زیادہ سخی ہوگا، اور تمام خلق میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ظن رکھنے والا زیادہ ہوگا۔ تیسری قسم کے عابد کی تین علامتیں ہیں، وہ عطا کرے وہ چیز جسے وہ دوست رکھتا ہے۔ خدا کی رضا کے سوا کسی چیز کی پرواہ نہ کرے گا بلکہ رضائے خدا کے لیے خلافِ نفس عمل کرے گا اور تمام حالتوں میں امر و نہی میں اپنے پروردگار کے ساتھ ہوگا۔
۴۰۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے موطا میں بروایت یحییٰ بن سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام کی طرف فوجیں بھیجیں، آپ سالارِ لشکر یزید بن ابی سفیان کو وداع کرنے نکلے تو اُن سے فرمایا کہ میں تم کو دس باتوں کی وصیت کرتا ہوں، کسی لڑکے کو قتل نہ کرنا، کسی عورت کو قتل نہ کرنا، کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا، کسی پھل والے درخت کو نہ کاٹنا، کسی بکری یا گائے کے پاؤں نہ کاٹنا مگر بغرض خوراک ذبح کرلینا، کسی بستی کو نہ جلانا اور نہ ویران کرنا، ہراساں نہ ہونا، بزدلی نہ کرنا، مالِ غنیمت میں خیانت نہ کرنا۔
(تاریخِ مشائخ نقشبند)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نام و نسب:
آپ کا اسم گرامی عبداللہ اور آپ کے بزرگوار کا نام مبارک ابوقحافہ عثمان تھا۔ صدیق اور عتیق آپ کے لقب ہیں۔ آپ کی پیدائش رسول اللہ ﷺکے تولد شریف سے دو سال اور کچھ مہینے بعد ہوئی۔ آپ ﷺکے خاندان سے مرہ بن کعب ملتے ہیں۔ مرہ اور حضرت ابوبکر صدیق میں چھ واسطے ہیں۔ اسی طرح آپکے اور رسول اللہ ﷺکے درمیان چھ واسطے ہیں۔ آپ زمانہ جاہلیت میں رؤسائے قریش میں سے تھے اور سب سے بڑھ کر عالم انساب تھے۔ منصب دیات آپ کے متعلق تھا۔
عشرہ مبشرہ:
مردوں میں آپ سب سے پہلے ایمان لائے۔ اسلام لاتے ہی آپ نے تبلیغ کا کام شروع کردیا۔ چنانچہ حضرات عشرہ مبشرہ میں سے عبدالرحمٰن بن عوفؓ ۔ سعد بن ابی وقاصؓ ۔ عثمان بن عفانؓ ۔ زہیر بن العوامؓ اور طلحہ بن عبیداللہ ؓ آپ ہی کی دعوت سے مشرف باسلام ہوئے۔
خصوصیت:
صحابہ کرام میں آپ کے لیے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ کے والد اور آپ کی تمام اولاد اور آپ کا پوتا ابوعتیق محمد بن عبدالرحمٰن سب صحابی ہیں۔ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔
غیرتِ ایمانی:
۶ نبوت میں آپ ہجرت کے ارادے سے حبشہ کی طرف نکلے۔ برک الغماد تک جو مکہ سے یمن کی جانب پانچ دن کی راہ ہے پہنچے تھے کہ قبیلہ قارہ کا سردار ابن الدغنہ (ربیعہ بن رفیع) ملا۔ اس نے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ آپ نے جواب دیا کہ میری قوم نے مجھے نکلنے پر مجبور کردیا۔ میں چاہتا ہوں کہ کہیں الگ جاکر خدا کی عبادت کروں۔ ابن الدغنہ نے کہا: ’’یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ سا فیاض اپنوں سے نیک سلوک کرنے والا، غریب پرور، مہمان نواز، اور حوادث میں لوگوں کا مددگار مکہ سے نکل جائے یا نکالا جائے میں آپ کو اپنی حفاظت (جوار) میں لیتا ہوں۔ آپ واپس چلیے اور اپنے شہر میں اپنے پروردگار کی عبادت کیجیے۔‘‘ چنانچہ آپ واپس آئے اور ابن دغنہ آپ کے ساتھ آیا۔ وہ شام کو سردارانِ قریش سے ملا اور ان سے کہا کہ ابوبکر سا شخص نکلنے نہ پائے اور نہ نکالا جائے۔ کیا تم ایسے شخص کو نکلاتے ہو جو فیاض، اپنوں سے نیک سلوک کرنے والا، غریب پرور، مہمان نواز اور حوادث میں لوگوں کا مددگار ہے۔ یہ سن کر قریش نے ابن الدغنہ کی جوار کو رد نہ کیا۔ اور اس سے کہا کہ ابوبکر سے کہہ دو کہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرے اور نماز میں چپکے سے جو چاہے پڑھے۔ مگر ہمیں ایذا نہ دے اور آواز سے قرآن نہ پڑھے۔ کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ مبادا ہماری عورتیں اور بچوں پر قرآن کا اثر پڑ جائے۔ ابن الدغنہ نے یہی آپ سے ذکر کردیا۔ آپ نے کچھ مدت یہ پابندی اختیار کی کہ اپنے گھر میں خدا کی عبادت کرتے اور چپکے سے نماز پڑھتے۔ اور گھر کے سوا کسی اور جگہ قرآن نہ پڑھتے۔ بعد ازاں آپ نے اپنے گھر کے پاس ایک مسجد بنالی جس میں آپ نماز پڑھتے اور قرآن بآواز بلند پڑھتے۔ مشرکین کی عورتیں اور بچے آپ کے گرد جمع ہوجاتے اور تعجب سے آپ کی طرف دیکھتے۔ آپ رقیق القلب تھے۔ قرآن پڑھتے تو بے اختیار روتے، آپ کی قرأت اور رقت سے سردارانِ قریش ڈر گئے۔ انہوں نے ابن الدّغنہ کو بلاکر کہا ہم نے ابوبکر کو تمہاری جوار کے سبب بدیں شرط پناہ دی ہے کہ وہ اپنے گھر میں چپکے اپنے رب کی عبادت کرے۔ مگر اس نے خلافِ شرط اپنے گھر کے پاس ایک مسجد بنالی ہے۔ جس میں وہ بہ آواز بلند نماز و قرآن پڑھتا ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ مبادا ہماری عورتوں اور بچوں پر اس کا اثر پڑے۔ تم اس کو روک دو۔ ہاں اگر وہ گھر کے اندر چپکے عبادت کرنا چاہے تو کیا کرے۔ اور اگر بآواز قرآن پڑھنے پر اصرار کرے تو تم اس کی ذامہ داری واپس لے لو۔ کیونکہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ ہم تمہارے عہدِ حفاظت کو توڑ دیں ہم ابوبکر کو قراءت بالجہر کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ سن کر ابن الدغنہ آپ کے پاس آیا ور کہنے لگا کہ آپ کو میری جوار کی شرط معلوم ہے۔ آپ اس کی پابندی کریں ورنہ میری ذمہ داری واپس کردیں۔ کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ عرب یہ سنیں کہ ایک شخص کا عہد جو میں نے کیا تھا وہ توڑ ڈالا گیا۔ آپ نے جواب دیا کہ میں تمہاری جوار تم کو واپس کرتا ہوں اور خدا کی جوار پر راضی ہوں۔ [صحیح بخاری، باب ہجرۃ النبی ﷺواصحابہ]
قصہ مذکورہ بالا سے حضرت ابوبکر صدیق کی بڑی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ کیونکہ ابتدائے بعثت میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ نے جن اوصاف[۱] سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کیا تھا ان ہی اوصاف سے ابن الدغنہ نے جو بعد میں ایمان لائے حضرت ابوبکر صدیق کو یاد کیا ہے۔[۱۔ صحیح بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورہ علق۔]
قرآن حکیم کی روشنی میں:
حضرت ابوبکر صدیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے خلیفہ برحق، اور مبشّر بالجنۃ، اور افضل البشر ،بعد الانبیاء ہیں۔ آپ کے فضائل میں کئی آیتیں وارد ہوئی ہیں:
اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللہ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَا فِی الْغَارِ اِذْیَقُوْلُ لِصَاحِبِہ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہ مَعَنَا۔ الآیۃ (توبہ آیت۴۰)
اگر تم اس کو مدد نہ دو گے۔ پس تحقیق اللہ نے اس کو مدد دی ہے۔ جس وقت اس کو نکال دیا تھا کافروں نے۔ دوسرا دو میں کا جس وقت وہ دونوں غار میں تھے۔ جب وہ اپنے رفیق سے کہتا تھا غم مت کھا۔ تحقیق اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
اس آیت میں بالاتفاق صاحب سے مراد حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں۔ یہ وہ منقبت ہے کہ جس میں کوئی دوسرا صحابی آپ کا شریک نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب:
ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شاعر حسان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا تم نے ابوبکر کی شان میں کچھ کہا ہے۔ حضرت حسان ؓ نے عرض کیا کہ ہاں۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ سناؤ، میں سنتا ہوں، پس حضرت حسان ؓ نے یہ دو شعر پیش کیے۔
وثانی اثنین فی الغار المنیف وقد
طاف العدویہ انصاعد الجبلا
وکان حب رسول اللہ قد علموا
من البریۃ لم یعدل بہ رجلا
وہ غار شریف میں دو میں کے دوسرے تھے جس حال میں کہ دشمن پہاڑ پر چڑھ کر ان کے گرد پھرا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب تھے۔ لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺنے خلق میں سے کسی کو آپ رضی اللہ عنہ کے برابر نہیں فرمایا۔
یہ شعر سن کر رسول اللہ ﷺہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے دندان پسیں ظاہر ہوئے۔ اور فرمایا: ’’حسان! تم نے سچا کہا۔ وہ حقیقت میں ہیں بھی ایسے‘‘۔[۱]
[۱۔ طبقات الشافعیۃ الکبریٰ للبکی، جزو اول،ص۱۳۱۔ زرقانی علی المواہب بحوالہ ابن عدی وابن عساکر بروایت انس رضی اللہ عنہ۔ ہجرۃ المصطفےٰ واصحابہ المدینۃ۔]
حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی شان:
وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُھٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللہ لَکُمْ وَاللہ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (نورآیۃ ۲۲)
اور قسم نہ کھاویں بڑائی والے تم میں کشایش والے اس سے کہ دیویں ناتے والوں کو اور محتاجوں کو اور وطن چھوڑنے والوں کو اللہ کی راہ میں۔ اور چاہیے کہ معاف کریں اور در گزر کریں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تم کو معاف کردے۔ا وراللہ بخشنے والا ہے مہربان۔
یہ آیت حضرت صدیق اکبر ؓ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے۔ موضح القرآن میں ہے کہ ’’جب طوفان بولنے والے جھوٹے پڑے اور ان کو حد ماری گئی اسّی کوڑے۔ جوان میں دو تین مسلمان تھےایک شخص مسطح جو ابوبکر صدیق کا بھانجا مفلس تھا۔ یہ اس کی خبر لیتے تھے۔ اب سے قسم کھائی کہ اس کو کچھ نہ دوں گا۔ اللہ نے اس کی سفارش کردی کہ وہ تھا مہاجرین سے اہل بدر سے۔ بڑائی والے کہا صدیق اکبر کو۔ جوان کی بڑائی نہ مانے وہ اللہ سے جھگڑے۔ پھر انہوں نے قسم کھائی کہ جو دیتا تھا وہ کبھی نہ بند کروں گا۔‘‘ حکیم سنائی فرماتےہیں۔ ؎
بود چنداں کرامت و فضلش |
|
کہ اولوالفضل خواند ذولا فضلش |
سچی بات کی تصدیق کرنے والے:
۳۔ وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ (زمرآیۃ،۳۳ )
اور جو لا یا سچی بات اور سچ مانا جس نے اس کو وہی لوگ ہیں پرہیزگار۔
اس آیت میں بقول حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ جو سچی بات لائے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور جس نے تصدیق کی وہ صدیق اکبر ہیں۔
متقی و پرہیزگار:
۴۔ وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقَے اَلَّذِیْ یُؤتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِعْمَۃٍ تُجْزٰی اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی وَلَسَوْفَ یَرْضٰے۔ (سورۃالیل)
اور بچایا جاوے گا اس سے وہ بڑا پرہیز گار جو دیتا ہے اپنا مال پاک ہونے کو اور نہیں کسی کا اس پر احسان کہ بدلہ دیا جائے مگر واسطے چاہنے رضا مندی اپنے پروردگار بلند کی۔ اور بے شک وہ آگے راضی ہوگا۔
افضلیت:
یہ آیتیں بالاتفاق حضرت صدیق اکبرؓ کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ ان میں صراحت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اتقیٰ ہیں۔ جو اتقیٰ ہو وہ اللہ کے نزدیک اکرم ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ اور جو اکرم ہو۔وہ افضل ہوتا ہے۔ پس حضرت ابوبکر صدیق باقی امت سے افضل ثابت ہوئے۔ حضرت صدیق اکبر ؓ نے جس طرح اپنا مال راہ خدا میں خرچ کیا۔ اس کا بیان عنقریب آتا ہے۔
آیت مذکور بالا کے سوا اور آیتیں بھی ہیں جو حضرت صدیق اکبر ؓ کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ آپ کی خلافت راشتہ کے ثبوت میں جو آیات وارد ہیں وہ علاوہ ہیں۔ نظر بر اختصار ہم ان کو یہاں نقل نہیں کرتے۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں:
آیات قرآن کریم کے علاوہ آپ کے مناقب میں احادیث بکثرت آئی ہیں۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں خدا کے سوا کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔ نیز فرمایا کہ ہم نے ہر ایک کے احسان کا بدلہ دیا ہے۔ مگر ابوبکر کا احسان ایسا ہے کہ اس کا بدلہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دے گا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ میرے نزدیک ابوبکر مردوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ نیز حضرت صدیق ؓ سے ارشاد فرمایا: انت عتیق اللہ من النار۔ تم اللہ سے آتش ِدوزخ سے آزاد کیے ہوے ہو کے باعث آپ کا لقب عتیق ہے۔ اور آنحضرت ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اے ابوبکر! تم میری امت میں سب سے پہلے بہشت میں داخل ہو گے۔
خصوصی مقام:
آپ کے فضائل میں یہ بھی ہے کہ آپ کو ضمنیت کبرےٰ حاصل تھی۔ ضمنیت سے مراد یہ ہے کہ ایک ولی دوسرے کے ضمن میں ہو۔ پس جو کمال پہلے کو حاصل ہوتا ہے دوسرا بے اختیار اس میں شریک ہوتا ہے۔ جس طرح بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو اپنے پیٹ میں لے لیتی ہے۔ جس جگہ وہ سیر کرتی ہے۔ چھوٹی بے اختیار اس سیر میں شریک ہوتی ہے۔ اگر ایک ولی کی ضمنیت دوسرے ولی کو حاصل ہو تو اسے ضمنیت کبرےٰ بولتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ضمنیت کبریٰ حاصل تھی۔ اسی واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : مَاصَبَّ اللہُ فِیْ صَدْرِیْ اِلَّا صَبَبْتُہٗ فِیْ صَدْرِ اَبِیْ بَکْرٍ ۔ یعنی حقائق و معارف میں سے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے میرے سینہ میں ڈالا ہے وہی میں نے ابوبکر کے سینہ میں ڈال دیا۔[مکتوبات قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ]
آنچہ بوز از بارگاہِ کبریا ریخت
در صدر شریف مصطفا
آن ہمہ در سینہ صدیق ریخت
لا جرم تگا بود زو تحقیق ریخت
آپ سفر و حضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں۔ اور تمام غزوات میں حضور ﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ ہجرت کے وقت آپ غار میں ثانی اور بدر کے دن عریش میں ثانی اور موت کے بعد قبر میں بھی ثانی ہیں۔
آپ کے اخلاق حمیدہ میں سے بعضے اوصاف کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ نظر بر اختصار صرف چند جزئیات اور پیش کی جاتی ہیں۔
سب سے زیادہ جانثار:
حضرت ابوسعید خدری کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺنے (وفات شریف سے پانچ روز پیشتر جمعرات کے دن نماز ظہر کے بعد) لوگوں میں خطبہ دیا اور فرمایا کہ اللہ نے ایک بندے کو دنیا اور ماعنداللہ (جو کچھ اللہ کے پاس ہے) میں اختیار عطا فرمایا۔ اس بندے نے ماعنداللہ کو اختیار کیا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ رو پڑے۔ ہمیں ان کے رونے پر تعجب ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بندے کی خبر دے رہے ہیں جس کو اختیار دیا گیا ہے (یہ رونے کی کیا بات ہے)۔ مگر ابوبکر ہم میں اَعْلَم تھے۔ وہ سمجھ گئے کہ وہ بندہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں میں مجھ پر سب سے زیادہ جان و مال صرف کرنے والوں میں ابوبکرؓ ہیں۔ اگر میں اپنے پروردگار کے سوا کسی اور کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔ لیکن اخوت و محبت اسلام باقی ہے۔ مسجد کے رخ ابوبکر کے دریچہ کے سوا کوئی دریچہ غیر مسدود نہ رہنے پائے۔
[صحیح بخاری۔ باب قول النبی صلی اللہ عل یہ وسلم سدد وا الوابواب الاباب ابی بکر]
آیت کے بھید سے آگاہی:
امام فخر رازی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنُکُمْ صحابہ کرام کو سنائی تو وہ بہت خوش ہوئے۔ اور انہوں نے اظہار مسرت کیا۔ مگر حضرت ابوبکرؓ رو پڑے۔ ان سے رونے کا سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ یہ آیت رسول اللہ ﷺ کی وفات شریف کے قرب پر دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ کمال کے بعد زوال ہی ہوا کرتا ہے۔ اس سے حضرت ابوبکر صدیق کا کمال علم معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اس آیت سے اس سر پر آپ کے سوا کوئی صحابی واقف نہ ہوا۔
[تفسیر کبیر۔ جزء ثالث، تحت الیوم اکملت لکم الآیہ۔]
لشکر اسامہ کی روانگی:
جمادی الاولیٰ ۸ھ میں جنگ موتہ میں مشرکین روم و عرب نے حضرت زید بن حارثہؓ کو شہید کردیا تھا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرضِ موت میں رومیوں سے جہاد کرنے اورحضرت زید ؓ کا بدلہ لینے کے لیے ایک لشکر تیار کیا۔ جس میں اعیان مہاجرین و انصار صدیق اکبرؓ ۔ فاروق اعظمؓ ، ابوعبیدہ بن جراحؓ ، سعد بن ابی وقاصؓ ، سعید بن زیدؓ ، قتادہ بن نعمانؓ ، سلمہ بن اسلم ؓ وغیرہ شامل تھے۔ اور حضرت اسامہ بن زید کو اس لشکر کا سردار مقرر کیا اور اپنے دست مبارک سے حضرت اسامہ کے لیے جھنڈا تیار فرمایا۔ پنجشنبہ کے دن ۸ ربیع الاول[۱] کو آپﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بلاکر خلیفہ نماز مقرر فرمایا۔ چنانچہ وفات شریف تک وہی نماز پڑھاتے رہے۔ متعینان لشکر مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر مقام جرف میں جمع ہوئے اور کوچ کرنے کو ہی تھے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال شریف ہوگیا۔ اس لیے وہ لشکر واپس مدینہ منورہ میں آگیا۔ اسی اثناء میں خبر لگی کہ عرب کے کئی قبیلے دین اسلام سے پھر گئے ہیں اور بعضوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ہے۔ بنا بریں بعض اصحاب نے حضرت صدیق اکبرؓ سے عرض کیا کہ ایسی حالت میں ایسے لشکر جرار کا دور دراز مہم پر بھیجنا خلاف مصلحت ہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے جواب دیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے خلاف نہیں کرسکتا۔ آپ نے حضرت اسامہ کی اجازت سے حضرت عمر فاروقؓ کو مشورہ کے لیے اپنے پاس رکھ لیا۔ غرض وہ لشکر بسر کرد گئی اسامہ ملک شام کو روانہ ہوگیا اور مظفر و منصور واپس آیا۔
[۱۔ یہ تاریخ بنا برقول جمہور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال شریف ۱۲ ربیع الاول کو تھا۔]
مرتدین سے جہاد:
آپ نے لشکر اسامہ کی روانگی کے ساتھ ہی مرتدین سے جہاد کا حکم دیا۔ یہ مرتدین عرب کے مختلف مقامات میں تھے۔ آپ نے سرایا بھیج کر ان سب کو زیر کیا اور ان کے ارتداد کا انسداد کیا۔
منکرین زکوٰۃ سے جہاد:
اسی طرح منکرین زکوٰۃ کے ساتھ بھی جہاد کی تیاری کی گئی۔ حضرت عمر فاروق ؓنے کہا آپ لوگوں سے کیسے قتال کریں گے ۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللہ فمن قال لا الٰہ الا اللہ عصم منی مالہ ونفسہ الا بحقہ وحسابہ علی اللہ۔ (مشکوٰۃ کتاب الزکوٰۃ)
مجھے حکم دیا گیا کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ کہیں لا الہ الا اللہ۔ جس نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا۔ اس نے مجھ سے اپنا مال اور جان بچائی، مگر بحق اسلام (دیت قصاص وغیرہ) اور اس کا حساب خدا پر ہے۔
یہ سن کر حضرت صدیق اکبر ؓنے فرمایا ’’خدا کی قسم میں ضرور جہاد کروں گا ان لوگوں سے جنہوں نے نماز و زکوٰۃ کے درمیان فرق کیا۔ کیوں کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ خدا کی قسم! اگر وہ بزغالہ یک سالہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے مجھے نہ دیں تو میں ان کے منع پر ضرور ان سے قتال کروں گا‘‘ حضرت عمر فاروق نے فرمایا ’’خدا کی قسم! اس حجت میں میں نے دیکھ لیا کہ اللہ تالیٰ نے ابوبکر کو قتال کے لیے شرح صدر عطا فرمایا ہے۔ پس میں نے پہچان لیا کہ قتال ہی حق ہے‘‘ ایک روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق نے کہا: اے خلیفۂ رسول اللہﷺ! لوگوں سے موافقت کیجیے۔ یہ سن کر حضرت صدیق اکبر نے جواب دیا:
‘‘اجبار فی الجاھلیۃ وخوار فی الاسلام۔’’
کیا آپ (زمانۂ) جاہلیت میں جبار و قہار اور اسلام میں سست بنتے ہیں۔
بعض روایت میں وارد ہے کہ دیگر صحابہ کرام حتی کہ حضرت علی مرتضیٰ ؓنے بھی حضرت صدیق اکبر ؓکو جہاد سے منع کیا اور کہا کہ عہد خلافت کا آغاز ہے اور مخالفین کی جماعت کثیر ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کارخانہ اسلام میں کوئی خلل و فتور واقع ہو۔ توقف و تاخیر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مگر صدیق اکبر ؓنے جواب دیا کہ میں جہاد سے رک نہیں سکتا۔ اگر تمام لوگ ایک طرف ہوجائیں تو میں تنہا جہاد کروں گا۔ آخر کار تمام صحابہ کرام نے آپ سے اتفاق کیا اور کامیابی کے ساتھ جہاد کیا۔
روایت مذکورہ بالا سے حضرت صدیق اکبر کا اشجع الاصحابہ اور اعلم الصحابہ ہونا ثابت ہے۔
فیاضی و دریادلی:
حضرت ابوبکر صدیق ؓنے اسلام لاتے ہی اپنا مال جو چالیس ہزار درہم تھے۔ آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کردیا۔ چنانچہ وہ مال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اور حضور انور کے حکم سے مسلمانوں پر صرف ہوتا رہا۔ آپ نے سات [۱] مرد و زن کو جو غلامی کے سبب سے کفار کے ہاتھ سے سخت بدنی تکلیفیں اٹھا رہے تھے بھاری داموں پر خرید کر آزاد کردیا ہجرت مدینہ تک تیرہ سال میں جو کچھ آپ نے تجار ت میں کمایا، وہ بھی اعانت اسلام میں کام آیا۔ جب ہجرت کا وقت آیا تو اس وقت پانچ ہزار درہم آپ کے پاس تھے۔ وہ مہم ہجرت اور زمین مسجد کی خرید اور دیگر وجوہ خیرات میں صرف ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:
ما نفعنی مال احد قط ما نفعنی مال ابی بکر
مجھے کسی کے مال نے وہ نفع نہیں دیا جو ابوبکر کے مال نے دیا۔
[۱۔ مشکوٰۃ، باب فی مناقب ابی بکر الصدیق۔
(یعنی حضرت بلال حبشی، عامر بن فہیرہ، زنیرہ رومیہ، نہدیہ، دختر نہدیہ، ابوعبیس، کنیز بنی مؤمل رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔]
وجہ یہ کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ اور ابوطالب کا مال جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خرچ میں آیا وہ فقط خوراک و پوشاک اور صلہ رحم و مہمان نوازی اور محتاجوں کی خبر گیری کے لیے تھا۔ اور صدیق اکبر کا مال شوکت اسلام کی زیادتی اور کفار کے ہاتھ سے مسلمانوں کی خلاصی اور ضعفائے اہل اسلام کی اعانت میں کام آیا۔ ان ہر دو مصارف میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
حالتِ فقر:
جب حضرت صدیق اکبر ؓکا تمام مال خرچ ہوگیا اور ان پر فقر نے غلبہ پایا تو ایک روز بجائے کرتہ کے کمبل کو ایک خلال سے مربوط کرکے گلے میں ڈال کر آنحضرت ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوئے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور پوچھا کہ یا محمد!ﷺ باوجود اس قدر مالداری کے ابوبکرؓ کا کیا حال ہوگیا کہ فقیری کا لباس پہنے بیٹھے ہیں ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا کہ اس نے اپنا تمام مال مجھ پر اورراہ خدا میں خرچ کردیا اور مفلس ہوگیا ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ خدا تعالیٰ نے ابوبکر کو سلام بھیجا ہے اور ان سے دریافت فرماتا ہے کہ بتاؤ اس فقر میں تم مجھ سے راضی ہو یا کچھ کدورت رکھتے ہو؟ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق ؓپر وجد کی حالت طاری ہوگئی اور جواب میں عرض کیا کہ میں اپنے پروردگار سے کس قسم کی کدورت رکھ سکتا ہوں؟ اور بار بار یوں نعرہ مارتے تھے:
انا عن ربی راض انا عن ربی راض
میں اپنے رب سے راضی ہوں۔ میں اپنے رب سے راضی ہوں۔
اللہ تعالیٰ اوراللہ کا رسولﷺ کافی ہیں:
حضرت عمر فاروق ؓکا بیان ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺنے ہمیں حکم دیا کہ راہِ خدا میں صدقہ دو۔ اتفاقاً اس وقت میرے پاس بہت سا مال تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا اگر ممکن ہو تو میں آج ابوبکر ؓسے سبقت لے جاؤں گا۔ پس میں اپنا آدھا مال لایا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا کہ تم اپنے اہل و عیال کے لیے کتنا چھوڑ آئے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ آدھا چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت ابوبکرؓ اپنا تمام مال جو ان کے پاس تھا لے آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم اپنے اہل و عیال کے لیے کتنا چھوڑ آئے ہو؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ فقط خدا اور رسول کو چھوڑ آیا ہوں (یعنی فضل خدا و اعانت رسول میرے واسطے کافی ہے) یہ سن کر میں نے کہا کہ میں کبھی ابوبکر سے سبقت نہیں لے جاسکتا۔ [۱] القصہ حضرت صدیق اکبر جوادالصحابہ تھے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
[۱۔ مشکوٰۃ، باب فی مناقب ابی بکر الصدیق۔]
تقویٰ و پرہیزگاری:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ کا ایک غلام تھا۔ وہ کماکر لاتا۔ آپ اس میں سے کھالیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ کوئی چیز لایا۔ آپ نے اس میں سے کھالیا۔ غلام نے کہا کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے کیا کھایا ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے جاہلیت میں ایک شخص کو بطور کاہن غیب کی خبر دی تھی۔ آج وہ مجھے مل گیا تھا۔ اس نے کہا نت کے بدلے مجھے کچھ ہدیہ دیا تھا۔ آپ نے اسی میں سے کھایا ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر نے اپنا ہاتھ منہ میں ڈال کر جو کچھ کھایا تھا قے کردیا۔ [۱]
[۱۔ صحیح بخار، باب ایام الجاہلیہ]
قے کردی:
عبدالرزاق نے بروایت ابن سیرین نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے چند اصحاب ایک پانی پر اترے ہوئے تھے۔ حضرت نعیمان بن عمرو انصاری پانی والوں سے کہا کرتے تھے کہ آیندہ ایسا ہوگا۔ وہ حضرت نعیمان کے پاس دودھ اور کھانا لاتے۔ جسے آپ اپنے ساتھیوں کے پاس بھیج دیا کرتے۔ حضرت ابوبکر صدیق کو خبر لگی۔ تو فرمایا کہ ’’میں دیکھتا ہوں کہ میں اس دن سے نعیمان کی کہانت سے کھاتا ہوں‘‘۔ یہ فرماکر جو کچھ پیٹ میں تھا قے کردیا۔[۱]
[۱۔ اصابہ، ترجمہ نعیمان بن عمرو انصاری]
وصال سے قبل وصیت:
تاریخ کامل ابن اثیر میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ کی وفات کا وقت آیا تو آپ نے اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ جب سے ہم مسلمانوں کے امور کے متکفل ہوئے ہیں۔ ہم نے ان کا درہم و دینار نہیں لیا۔ ہاں ان کا نیم کوفتہ طعام کھایا ہےا ور موٹے کپڑے پہنے ہیں۔ اب ہمارے پاس مسلمانوں کے مال میں سے سوائے اس غلام اس اونٹ اور اس چادر کے کچھ نہیں ہے۔ جب میں مرجاؤں تو اس تمام کو حضرت عمر ؓکے پاس بھیج دو۔ جب آپ نے وفات پائی تو حضرت صدیقہ نے وصیت پر عمل کیا۔ حضرت فاروق ؓیہ دیکھ کر رو پڑے یہاں تک کہ آپ کے آنسو زمین پر ٹپک پڑے۔ آپ بار بار فرماتے:
رحم اللہ ابا بکر لقد اتعب من بعدہ
خدا ابوبکر پر رحم کرے انہوں نے بے شک اپنے جانشینوں کو مشقت میں ڈال دیا ہے۔
پھر حکم دیا کہ یہ سب لے لیا جائے۔ اس پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓنے حضرت فاروق اعظم ؓسے کہا، سبحان اللہ! آپ ابوبکرؓ کے عیال سے غلام اور آبکش اونٹ اور پرانی چادر جس کی قیمت پانچ درہم ہیں چھین رہے ہیں۔ کاش آپ واپس کردیں۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروق نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس نے حضرت محمد ﷺ کو بھیجا ہے۔ یہ میرے اختیار میں نہیں ہے۔‘‘
تقویٰ کی عظیم مثال:
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کی بیوی نے حلوہ کھانا چاہا۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارے پاس وہ چیز نہیں جس سے حلوا خرید لیں۔ بیوی نے جواب دیا کہ میں چند روز میں اپنے نفقہ میں سے اس قدر بچالوں گی کہ جس سے حلوا خریدا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ بچالو، بیوی نے ایسا ہی کیا اور بہت سے دنوں میں تھوڑی سی بچت ہوئی۔ جب بیوی نے آپ کو بچت کی اطلاع دی تاکہ اس سے حلوہ خرید لیں۔ تو آپ نے اس بچت کو لے کر بیت المال میں داخل کردیا اور فرمایا کہ یہ ہمارے نفقہ سے زائد ہے اور ا پنے نفقہ میں سے اتنا ساقط کردیا جتنا کہ بیوی نے روزانہ خرچ میں کمی کی تھی اور مقدار زائد کو بیت المال میں بھیج دیا۔ قسم بخدا کہ یہ غایت درجہ کا تقویٰ ہے جس سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ صحابہ کرام نے بجا کیا کہ آپ کو اپنا سردار و خلیفہ بنایا۔
بکریوں کا دودھ دوہنا:
حضرت صدیق اکبر کا مکان مقام سخ میں[۱] میں آپ کی زوجہ حبیبہ بنت خارجہ خزرجیہ کے پاس تھا۔ آپ نے بیعت خلافت کے بعد چھ مہینے وہیں قیام رکھا۔ آپ وہاں سے مدینہ پیدل آتے اور بعض وقت گھوڑے پر سوار ہوتے اور تہ بند اور پھٹی پرانی چادر اوڑھتے۔ اور لوگوں کو نماز پڑھاتے۔ آپ تاجر تھے ہر روز خرید و فروخت کے لیے بازار جاتے۔ آپ کے پاس بکریوں کا گلہ تھا۔ جسے بعض وقت آپ خود چراتے اور بعض وقت کوئی اور چراتا، آپ اپنے قبیلے کی بکریوں کا دودھ دوہا کرتے تھے۔ جب آپ کو خلافت مل گئی تو قبیلہ کی ایک لڑکی نے کہا کہ اب ہمارے گھر کی بکریوں کا دودھ کون دوہے گا۔ آپ نے جو یہ سنا تو فرمایا کہ مجھے اپنی زندگی کی قسم! میں تمہاری بکریوں کا دودھ ضرور دوہ دیا کروں گا۔ مجھے امید ہے کہ میری خلافت سے میرے خلقِ سابق میں کچھ تغیر پیدا نہ ہوگا۔ چنانچہ آپ بدستور سابق ان کی بکریوں کا دودھ دوہا کرتے تھے۔
[۱۔ یہ مقام مدینہ منورہ کے ایک طرف واقع تھا او را س کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت خانہ کے درمیان ایک میل کا فاصلہ تھا۔]
بڑھیا کے گھر کا کام:
خلافت صدیقی میں حضرت عمر فاروقؓ رات کو مدینہ کے بعض اطراف میں ایک اندھی بڑھیا کے ہاں پانی وغیرہ لانے کے خیال سے حاضر ہوتے۔ مگر اس کے سب کام تیار پاتے۔ ان کو تلاش ہوئی کہ اس کا کام مجھ سے پہلے کون کر جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ حضرت صدیق اکبرؓ کر جاتے ہیں۔
بیت المال سے نفقہ:
بیعت خلافت سے چھ ماہ بعد آپ نے مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کی۔ اور فرمایا کہ میری قوم کو معلوم ہے کہ میں (کپڑے کی) تجارت کیا کرتا تھا۔ جس سے میرے اہل و عیال کا گزارہ ہوتا تھا۔ اب امورِ مسلمین میرے متعلق ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ تجارت کے ساتھ امور خلافت انجام نہیں پاسکتے۔ ان کے لیے فارغ البالی اور توجہ درکار ہے۔ اس لیے ابوبکرؓ کے اہل و عیال و تابعین بیت المال میں سے کھائیں گے۔[۱] اس واسطے آپ نے تجارت کو چھوڑ دیا۔ اور بیت المال سے نفقہ لینے لگے۔ جو آپ کے لیے اور آپ کے اہل و عیال اور حج و عمرہ کے لیے کفایت کرتا۔ صحابہ کرام نے جو آپ کے لیے معین کیا وہ چھ ہزار درہم سالانہ تھے۔ اور کہا گیا ہے کہ آپ کا کفاف معین کیا تھا۔ جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو وصیت کی کہ میری زمین بیچ دی جائے اور اس کی قیمت اس نفقہ کے عوض میں صرف کردی جائے جو میں نے مسلمانوں کے مال میں سے لیا ہے۔
[۱۔ مشکوٰۃ بحوالہ صحیح بخاری، باب رزق الولاۃ]
اولیت:
آپ پہلے حاکم ہیں جن کے لیے رعیت نے نفقہ معین کیا اور پہلے حاکم ہیں جن کو خلیفہ کہا گیا اور پہلے خلیفہ ہیں جن کو ان کے والد بزرگوار کی زندگی میں خلافت ملی اور پہلے شخص ہیں جنہوں نے قرآن کو مصحفِ قرآن کہا۔
سنت مطہرہ کی پیروی:
حضرت صدیق اکبر کو سنت رسول اللہ ﷺکے اتباع کا کمال شوق تھا اس کا اندازہ اس گفتگو سے لگ سکتا ہے جو وفات شریف سے چند گھنٹے پیشتر آپ کے اور آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے درمیان ہوئی اور وہ یہ ہے۔[۱]
[۱۔ صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب موت یوم الاثنین]
صدیق اکبرؓ۔ تم نے پیغمبر خدا ﷺ کو کتنے کپڑوں میں دفن کیا؟
صدیقہ رضی اللہ عنہا ۔ موضع سحول کے تین سفید کپڑوں میں جن میں نہ قمیص تھی نہ عمامہ۔
صدیق اکبرؓ۔رسول اللہ ﷺ نے کس دن وفات پائی؟
صدیقہ رضی اللہ عنہا ۔ دو شنبہ کے دن۔
صدیق اکبرؓ۔ آج کون سا دن ہے؟
صدیقہ رضی اللہ عنہا ۔ دو شنبہ۔
صدیق اکبرؓ۔ مجھے توقع ہے کہ میری موت اس وقت اور رات کے درمیان ہوگی (اپنے بدن کے کپڑے پر زعفران کا نشان دیکھ کر) میرے اس کپڑے کو دھو ڈالنا۔ اور اس پر دو نئے کپڑے اور زیادہ کرنا اور مجھے ان دونوں میں کفنا دینا۔
صدیقہ رضی اللہ عنہا ۔ یہ کپڑا تو پرانا ہے۔
صدیق اکبرؓ۔ زندہ مردے کی نسبت نئے کا زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔ یہ تو صرف پیپ کے لیے ہے۔ حضرت صدیق اکبر کا سوال حضور سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن و یوم وفات شریف کی نسبت اس واسطے کے کہ آپ کی آرزو تھی کہ کفن و یوم وفات میں بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موافقت نصیب ہو۔ حیات میں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع تھا ہی۔ وہ ممات میں بھی آپ ہی کا اتباع چاہتے تھے۔ اللہ اللہ یہ اتباع، کیوں نہ ہو، صدیق اکبر تھے، رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
آپ فرماتے ہیں کہ جس امر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمل کیا کرتے تھے۔ میں اسے کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔ اگر میں حضور کے حال سے کسی امر کو چھوڑ دوں تو مجھے ڈر ہے کہ سنت سے منحرف ہوجاؤں گا۔[۱]
[۱۔ نسیم الریاض بحوالہ ابوداؤد بخاری]
کرامات کا بیان
آپ کی کرامتوں میں سے جو مجھے معلوم ہوئی وہ ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
کھانے میں برکت:
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ کا بیان ہے کہ ایک روز پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے ہاں دو شخصوں کا کھانا ہو۔ وہ تیسرے کو اصحاب صفہ میں سے اپنے ساتھ لے جائے۔ اور جس کے ہاں تین کا کھانا ہو وہ چوتھے کو لے جائے۔ اور جس کے ہاں چار کا کھانا ہو وہ پانچویں کو یا چھٹے کو بھی لے جائے۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ اصحاب صفہ میں سے دس کو اپنے ہاں لے گئے اور حضرت ابوبکرؓ تین کو لے گئے اور ان کو گھر چھوڑ آئے۔ آپ نے شام کا کھانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کھایا اور وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عشاء پڑھی اور رات کا ایک حصہ گزرنے پر گھر واپس آئے۔ آپ کی بیوی (ام رومان) نے پوچھا کہ آپ نے اپنے مہمانوں کی خبر کیوں نہ لی۔ فرمایا کہ تو نے ان کو کھانا نہیں کھلایا۔ اس نے کہا کہ کھانا ان پر پیش کیا گیا اور ہر چند کہاگیا کہ تناول فرمائیے۔ مگر انہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ جب تک ابوبکر نہ آئیں ہم نہیں کھائیں گے۔ یہ سن کر آپ خفا ہوئے اور مجھے سخت سست کہا اور فرمایا کہ میں اسے نہیں کھاؤنگا ۔ آپ کی بیوی نے کہا میں بھی نہیں کھاؤں گی۔ مہمانوں نے کہا کہ جب تک گھر والے نہ کھائیں گے ہم بھی نہ کھائیں گے۔ آخر حضرت ابوبکر ؓنے اس میں سے ایک لقمہ کھایا پھر باقی سب نے پیٹ بھر کر کھایا وہ جو لقمہ اٹھاتے تھے کھانا اس کے نیچے سے اور زیادہ ہوجاتا تھا! اخیر میں حضرت ابوبکرؓ نے جو نگاہ کی تو کیا دیکھتے ہیں کہ کھانا اتنا ہی ہے جتنا شروع میں تھا یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ آپ نے اپنی بیوی سے کہا۔ اے بنو فراس کی بہن! یہ کیا معاملہ ہے وہ بولی کہ مجھے اپنے قرہ عین کی قسم کہ کھانا اب پہلے سے تگنا ہے۔ بعد ازاں آپ نے وہ کھانا پیغمبر خدا ؓکے ہاں بھیج دیا اور وہ صبح تک حضور ﷺکے ہاں رہا، ایک قوم سے ہمارا عہد تھا اس کی میعار گزر چکی تھی، وہ مد ینہ میں آگئے، ہم نے ان میں سے بارہ اشخاص کو ان کے عریف بنایا، ہر ایک عریف کے ماتحت اشخاص تھے۔ جن کی تعداد خدا کو معلوم ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک عریف کے ہاتھ اس کھانے میں سے اس کے اصحاب کا حصہ بھیج دیا۔ اس طرح تمام لشکر نے سیر ہوکر کھایا۔ یہ تکثیر طعام حضرت صدیق اکبر کی کرامت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔
بیٹی کی ولادت کی خبر دینا:
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مجھے عوالی مدینہ کے ایک گاؤں میں اپنے مال میں سے کھجور کے درخت عطا کیے جن میں سے ایک فصل میں بیس وسق کھجوریں اترتی تھیں۔ [۱] جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو فرمایا: اے پیاری بیٹی! اللہ کی قسم مجھے اپنے بعد وارثوں میں تیری نسبت کسی کی دولتمندی پسند تر نہیں۔ اور نہ تیری نسبت کسی کا فقر مجھے زیادہ ناگوار ہے۔میں نے تجھے اپنے مال میں سے بیس وسق آمدنی والے کھجور کے درخت ہبہ کیے تھے۔ اگر تو ان پر قبضہ کرلیتی تو وہ تیری ملک ہوجاتے۔ وہ آج وارثوں کا مال ہیں اور وہ وارث (علاوہ تیرے) تیرے دونوں بھائی اور دونوں بہنیں ہیں۔ تم ان کو کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کرلینا۔ یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا۔ ابا جان اللہ کی قسم اگر وہ مال موہوب اس سے بھی زیادہ ہوتا میں اسے چھوڑ دیتی۔ (آپ نے دو بہنوں کا ذکر کیا) میری بہن تو فقط اسماء ہے۔ دوسری کون ہے؟ فرمایا کہ (حبیبہ) بنت خارجہ کے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ میرے گمان میں لڑکی ہے۔ چنانچہ بنت خارجہ لڑکی جنی۔[۲] استعیاب ابن عبدالبر میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ میرے دل میں القا ہوا ہے کہ جو بچہ بنت خارجہ کے شکم میں ہے وہ لڑکی ہے۔ چنانچہ آپ کی وفات کے بعد لڑکی ہی پیدا ہوئی۔ جس کا نام حضرت عائشہ صدیقہ نے ام کلثوم رکھا انتہیٰ۔ اس روایت میں حضرت ابوبکر صدیق کیؓ دو کرامتیں مذکور ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ نے خبر دے دی کہ میری موت اسی مرض میں ہوگی۔ کیونکہ آپ نے فرمادیا کہ وہ آج وارثوں کا مال ہیں۔ دوسری یہ کہ آپ نے بتادیا کہ میری اہلیہ حبیبہ کے بطن سے لڑکی پیدا ہوگی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ یہ دونوں کرامتیں از قبیل اخبار بالمغیبات ہیں۔
[۱۔ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور ایک صاع تقریباً ساڑھے تین سیر پختہ ہوتا ہے۔
۲۔ موطا امام محمد۔ باب النحلی۔]
غیبی آواز:
امام مستغفری رحمۃ اللہ علیہ نے بالاسناد روایت کی کہ حضرت جابر بن عبداللہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے وصیت کی تھی کہ میں جب مرجاؤں تو مجھے اس حجرے کے دروازے میں لے جاؤ جس میں رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک ہے اور دروازہ کھٹکھٹاؤ اور اگر دروازہ کھل جائے تو مجھے اس میں دفن کردو۔ حضرت جابر کا قول ہے کہ ہم آپ کا جنازہ وہاں لے گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ یہ ابوبکر ہیں ان کی آرزو تھی کہ پیغمبر خدا ﷺ کے پاس دفن کیے جائیں۔ اس پر دروازہ کھل گیا۔ ہمیں معلوم نہیں کہ کس نے کھولا۔ اور آواز آئی کہ اندر لے آؤ اور عزت و تعظیم سے دفن کردو۔ ہمیں آواز دینے والا نظر نہیں آیا۔[۱]
[۱۔ نفحات الانس نولکشوری ص۱۷، خطیب بغدادی نے یہی مضمون بروایت حضرت عائشہ صدیقہ نقل کیا ہے۔ (خصاص کبریٰ للسیوطی، جزء ثانی، ص۲۸۱)]
حبیب کو حبیب کے پاس پہنچادو:
حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے وفات پائی تو بعضوں نے کہا کہ ہم ان کو شہیدوں میں دفن کریں گے۔ دوسروں نے کہا کہ ہم بقیع لے جائیں گے۔ میں نے کہا کہ میں ان کو اپنے حبیب ﷺکے پاس دفن کردوں گی۔ ہم اسی اختلاف میں تھے کہ مجھ پر نیند نے غلبہ کیا۔ میں نے سنا کہ کوئی کہہ رہا ہے‘‘ ضمّو الحبیب الی الحبیب ’’یعنی حبیب کو حبیب کے پاس پہنچادو۔ جب میری آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ سب نے اس آواز کو سن لیا۔ یہاں تک کہ مسجد میں لوگوں نے بھی سنا۔[۱]
[۱۔ شواہد نبوت، مولانا جامی، نولکشوری ص۱۵۰]
رہزن کی توبہ:
ابومحمد شبنکی کا بیان ہے کہ شیخنا ابوبکر بن ہوار رضی اللہ عنہ بطائح (واسط و بصرہ کے درمیان) میں رہزنی کیا کرتے تھے۔ اس کام میں آپ کے اور رفیق بھی تھے۔ مگر آپ سرگروہ تھے۔ مسافروں کا مال لوٹ کر باہم تقسیم کرلیا کرتے تھے۔ ایک رات آپ نے سنا کہ ایک عورت اپنے شوہر سے کہہ رہی ہے کہ یہیں ٹھہرجاؤ۔ مبادا ابن ہوار اور اس کے اصحاب ہمیں پکڑلیں۔ یہ سن کر آپ رو پڑے، کہنے لگے کہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں اور میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا۔ آپ نے اسی وقت توبہ کی۔ آپ کے ساتھ آپ کے اصحاب بھی تائب ہوئے۔ بعد ازاں آپ صدق و خلاص کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اپنے تئیں کسی ایسے شخص کے سپرد کریں جو خدا تک پہنچادے۔ ان ایام میں عراق میں اہل طریقت میں سے کوئی مشہور شیخ موجود نہ تھا۔ آپ نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیکھا اور عرض کیا کہ یارسول اللہ! مجھے خرقہ پہنائیے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: اے ابن ہوار! میں تیرا نبی ہوں اور یہ تیرے شیخ ہیں۔ اور صدیق اکبر کی طرف اشارہ کرکے فرمایا۔ اے ابوبکر! اپنے ہم نام ابن ہوار کو خرقہ پہناؤ جیسا کہ میں نے حکم دیا ہے۔ پس حضرت صدیق اکبر نے ابن ہوار کو پیراہن اور کلاہ پہنائی اور اپنا مبارک ہاتھ ان کے سر اور پیشانی پر پھیرا اور کہا بارک اللہ فیک۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ہوار سے یوں فرمایا:
’’اے ابوبکر! تجھ سے عراق میں میں میری امت کے اہل طریقت کی مردہ سنتیں زندہ ہوں گی۔ اور ارباب حقائق و دوستان خدا کی منزلوں کے مٹے ہوئے نشانات قائم ہوجائیں گے۔ اور عراق میں مشیخت قیامت تک تجھ میں رہے گی۔ تیرے ظہور سے عنایت باری تعالیٰ کی نرم ہوائیں چلنی شروع ہوگئی ہیں۔ اور تیرے قیام سے عنایت ایزدی کی ٹھنڈی ہوائیں چھوڑ دی گئی ہیں۔‘‘ جب ابن ہوار بیدار ہوئے تو وہی پیراہن اور کلاہ اپنے اوپر موجود پائی۔ آپ کے سر پر جو پھوڑے تھے وہ سب ناپید ہوگئے تھے۔ آفاق میں گویا یہ ندا کردی گئی۔ ’’ابن ہوار اللہ تک پہنچ گئے‘‘ پس چاروں طرف سے خلق خدا آپ کی طرف متوجہ ہوئی اورقرب الٰہی کی علامتیں ظاہر ہوگئیں۔ راوی (ابومحمد) کا قول ہے کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ آپ بطیحہ میں اکیلے رہتے اور شیر آپ کے گرد ہوتے۔ بعضے شیر آپ کے قدموں پر لوٹتے۔[۱]
[۱۔ بہجۃ الاسرار للشطنوفی مطبوعہ مصر۔ ص۱۳۳]
وصال مبارک:
جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو صحابہ کرام عیادت کو آئے اور عرض کرنے لگے کہ ہم کسی طبیب کو بلاتے ہیں جو آپ کو دیکھے۔ آپ نے فرمایا کہ طبیب نے مجھے دیکھ لیا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ اس نے کیا کہا؟ فرمایا کہ اس نے یوں کہا ہے: انی فعال لما ارید۔ (میں کرنے والا ہوں جو چاہتا ہوں)۔
آپ نے سہ شنبہ کی رات مغرب و عشاء کے درمیان ۲۲ جماعی الاخریٰ ۱۳ھ میں تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔ اور صبح ہونے سے پیشتر حضرت عائشہ صدیقہ کے حجرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہوئے۔ آپ کی خلافت دو سال تین مہینے اور آٹھ دن رہیں۔ اس قلیل عرصہ میں یمامہ۔ اطراف عراق اور ملک شام کے بعض شہر فتح ہوئے۔ مسیلمہ کذاب مارا گیا اور قرآن مجید کو ایک مصحف میں جمع کیا گیا۔
ارشاداتِ عالیہ
۱۔ جب حضرت ابوبکر ؓخلیفہ ہوئے تو آپ نے خطبہ دیا۔ جس میں خدا کی مناسب حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ’’اما بعد اے لوگو! میں تمہارا حاکم بنایا گیا حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں نیکی کروں تو تم میری مدد کرو اور اگر بدی کروں تو مجھے سیدھا کرو۔ صدق امانت ہے اور کذب خیانت ہے۔ تم میں جو ضعیف ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے۔ میں اسے اس سے حق لے کر چھوڑوں گا۔ ان شاء اللہ اور تم میں جو قوی ہے وہ میرے نزدیک ضعیف ہے۔ میں اس سے حق لے کر چھوڑوں گا، ان شاء اللہ۔ جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتی ہے۔ خدا اس پر ذلت نازل کرتا ہے۔ اور جس قوم میں کوئی برائی شائع ہوجاتی ہے خدا ان سب پر بلابھیجتا ہے۔ تم میری اطاعت کرو جب تک کہ میں خدا و رسول کی اطاعت کروں ۔ پس جب میں خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تو میری اطاعت تم پر واجب نہیں۔ ‘‘ (سیرت ابن ہشام)
مرض الموت میں وصیت:
یوسف بن محمد کا بیان ہے کہ مجھے خبر پہنچی کہ حضرت ابوبکر ؓنے مرض موت میں وصیت کی اور حضرت عثمان سے کہا کہ لکھیے:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ یہ وہ ہے جس کی وصیت ابوقحافہ کے بیٹے ابوبکر نے دنیا سے جاتے اور آخرت میں داخل ہوتے ہوئےایسے وقت میں کی جب کہ کاذب سچ بولتا ہے اور خائن امانت ادا کرتا ہے اور کافر ایمان لاتا ہے۔ (مضمون وصیت یہ) کہ میں نے اپنے بعد عمر بن خطاب کو خلیفہ بنایا ہے۔ اگر وہ عدل کرے تو یہ میرا اس کی نسبت گمان اور توقع ہے اور اگر وہ جوروستم کرے تومیں غیب دان نہیں۔ اور ہر شخص کے لیے سزا ہے اس گناہ کی جو اس نے کیا۔ ’’اور ظلم کرنے والے عنقریب معلوم کریں گے کہ وہ کس کروٹ الٹتے ہیں۔‘‘ (شعراء، اخیر آیت)۔
عاجزی و انکساری:
۱۔ آپ نے ایک پرندے کو درخت پر بیٹھے ہوئے دیکھ کر فرمایا: اے پرندے! خوش رہو۔ اللہ کی قسم کاش میں تیری مانند ہوتا کہ تو درخت پر بیٹھتا ہے پھل کھاتا ہے پھر اڑ جاتا ہے۔ اور تجھ پر کوئی حساب و عذاب نہیں۔ خدا کی قسم کاش میں بجائے انسان ہونے کے راستے کی ایک طرف کا درخت ہوتا کوئی اونٹ میرے پاس سے گزرتا وہ پکڑ کر مجھے اپنے منہ میں ٹھونس لیتا پھر چباکر نگل جاتا، بعد ازاں مینگنیوں کی شکل میں نکال دیتا۔
۴۔ جب لوگ آپ کی مدح کرتے تو آپ یوں کہتے ’’خدایا تو میرا حال میری نسبت بہتر جانتا ہے اور میں اپنا حال ان کی نسبت بہتر جانتا ہوں۔ خدایا تو مجھے بہتر بنادے اس سے جو وہ گمان کرتےہیں اور میرے وہ گناہ بخش دے جو ان کو معلوم نہیں۔ اور جو وہ کہتے ہیں اس پر مجھے گرفت نہ کر‘‘۔
۵۔ جب آپ ایسا کھانا کھاتے جس میں شبہ ہوتا اور پھر آپ کو اس کا علم ہوجاتا، تو آپ اسے قے کرکے اپنے پیٹ سے نکال دیتے۔ اور یوں دعا کرتے۔’’خدایا! جو کچھ رگوں نے پی لیا اور انتڑیوں کے ساتھ مل گیا تو اس پر مجھے مواخذہ نہ کرنا۔‘‘
۶۔ فرماتے کہ جب بندے میں کسی زینت دنیا پر ناز آجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کو دشمن رکھتا ہے یہاں تک کہ وہ اس زینت کو چھوڑ دے۔
۷۔ فرماتے اے گروہ مردم! خدا سے حیاء کرو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب میں قضائے حاجت کے لیے جنگل میں جاتا ہوں تو خدا سے حیاء کے مارے اپنا سر ڈھانپ لیتا ہوں۔
۸۔ امام نسائی نے اسلم (غلام عمر فاروق) سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کو دیکھا کہ اپنی زبان کو ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اسی نے مجھے ہلاکت کی جگہوں میں ڈال دیا ہے۔[۱]
[۱۔ مشکوٰۃ بحوالہ امام مالک، باب حفظ اللسان من الغیۃ والشتم]
۹۔ آپ کے صاحبزادے عبدالرحمٰن اپنے ہمسایہ سے جھگڑ رہے تھے۔ آپ ان کے پاس سے گزرے تو فرمایا کہ اپنے ہمسایہ سے نہ جھگڑو کیونکہ نیکی رہ جائے گی اور لوگ چلے جائیں گے۔
۱۰۔ جب آپ کی اونٹنی کی مہار گر پڑتی تو آپ اسے بٹھالیتے اور مہار اٹھالیتے۔ حاضرین عرض کرتے کہ آپ نے ہمیں کیوں نہ حکم دے دیا آپ جواب دیتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ہے کہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔
۱۱۔ آپ جب کسی شخص کو صبر کی نصیحت کرتے تو فرماتے کہ صبر کے ساتھ کوئی مصیبت نہیں اوربے صبری سے کوئی فائدہ نہیں۔ موت اپنے مابعد سے آسان اور ماقبل سے سخت ہے۔
۱۲۔ جب آپ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو مرتدین کی طرف جہاد کرنے کے لیے بھیجا تو فرمایا کہ موت کا حریص بن۔ تجھے حیات عطا ہوگی۔
۱۳۔ جب آپ کو خبر لگی کہ اہل فارس نے پرویز کی لڑکی کو اپنا حکمران بنالیا ہے تو فرمایا کہ وہ لوگ ذلیل ہوگئے جنہوں نے اپنی حکومت ایک عورت کے ہاتھ میں دے دی۔
۱۴۔ تجھ پر خدا کی طرف سے جاسوس ہیں جو تجھے دیکھتےہیں۔
۱۵۔ لوگوں میں خدا کا سب سے زیادہ فرمانبردار بندہ ہے جو گناہ کا سب سے زیادہ دشمن ہو۔
۱۶۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میرے نزدیک اپنے خویش و اقربا کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خویش و اقرباء سے محبت رکھنا پسندیدہ تر ہے۔
۱۷۔ اس قول میں کوئی خوبی نہیں جس سے رضائے خدا مراد نہ ہو۔ اور اس مال میں کوئی خوبی نہیں جو راہ خدا میں خرچ نہ کیا جائے۔ اور اس شخص میں کوئی خوبی نہیں جس کی جہالت اس کے حلم پر غالب ہو۔ اور اس شخص میں کوئی خوبی نہیں جو ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈرتا ہو۔
۱۸۔ ابوصالح کا بیان ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں یمن کے لوگ آئے اور انہوں نے قرآن شریف سنا تو رونے لگے۔ یہ دیکھ کر حضرت صدیق اکبر ؓنے فرمایا کہ ہم بھی اس طرح رویا کرتے تھے۔ پھر ہمارے دل سخت ہوگئے۔ حافظ ابونعیم اصفہانی نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی معرفت سے قوی اور مطمئن ہوگئے۔
۱۹۔ ادراک کے حاصل کرنے سے عاجز آنا ادراک ہے۔
۲۰۔ اللہ تعالیٰ تیرے باطن کا حال دیکھ رہا ہے جیسا کہ ظاہرہ کا حال دیکھ رہا ہے۔
۲۱۔ اللہ تعالیٰ رحم کرے اس مرد پر جس نے اپنی جان سے اپنے بھائی کی مدد کی۔
۲۲۔ تو اپنے تئیں جاہلیت کی غیبت سے دور رکھ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے غیبت کو جاہلیت کو اور اہل غیبت کو دشمن رکھا ہے۔
۲۳۔ جب تجھ سے کوئی نیکی فوت ہوجائے تو اس کا تدارک کر۔ اور اگر کوئی بدی تجھے آگھیرے تو اس سے بچ جا۔
۲۴۔ ہم ایک حرام میں پڑنے کے خوف سے ستر حلال کو چھوڑ دیاکرتے تھے۔
۲۵۔ جو شخص بغیر توشہ کے قبر میں جائے اس نے گویا بغیر کشتی کے سمندر میں سفر کیا۔
۲۶۔ آیہ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (ظاہر ہوگیا فساد جنگ اور سمندر میں۔ روم۔ ع) کی تاویل میں آپ کا قول ہے کہ جنگل سے مراد زبان اور سمندر سے مراد قلب ہے۔ جب زبان خراب ہوجاتی ہے تو انسان اس پر روتے ہیں۔ جب دل خراب ہوجاتا ہے تو اس پر فرشتے روتے ہیں۔
۲۷۔ شہوت کے سبب سے بادشاہ غلام بن جاتے ہیں اور صبر سے غلام بادشاہ بن جاتے ہیں۔ حضرت یوسف و زلیخا کے قصہ پر غور کرو۔
۲۸۔ جس شخص نے گناہوں کو ترک کیا۔ اس کا دل نرم ہوگیا۔ اور جس نے حرام کو ترک کیا اس کا فکر و اندیشہ صاف ہوگیا۔
۲۹۔ سب سے کامل عقل اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا اتباع اور اس کے غضب سے بچنا ہے۔
۳۰۔ عاقل کے لیے کوئی مسافرت نہیں اور جاہل کے لیے کوئی وطن نہیں۔
۳۱۔ تین چیزیں ہیں جس شخص میں وہ ہوں گی اس کو نقصان دیں گی۔ نافرمانی، عہد شکنی، مکر۔
۳۲۔ تین چیزیں تین چیزوں سے حاصل نہیں ہوتیں۔ دولت مندی آرزؤں سے۔ جوانی خضاب سے۔
۳۳۔ جس شخص میں یہ چار خصلتیں ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں سے ہے۔ توبہ کرنے سے خوش ہو۔ گنہگار کے لیے مغفرت طلب کرے۔ مصیبت زدہ کے لیے دعا کرے۔ احسان کرنے والے کی مدد کرے۔
۳۴۔ چار چیزیں چار چیزوں سے تمام و کامل ہوجاتی ہیں۔ نماز سجدہ سہو سے۔ روزہ صدقہ فطر سے۔ حج فدیہ سے اور ایمان حیاء سے۔
۳۵۔ تاریکیاں پانچ ہیں اور ان کے چراغ پانچ ہیں۔ حب دنیا تاریکی ہے۔ اور اس کا چراغ تقویٰ ہے۔ گناہ تاریکی ہے اور اس کا چراغ توبہ ہے۔ قبر تاریکی ہے اور اس کا چراغ لا الہ الا اللہ ہے۔ آخرت تاریکی ہے اور اس کا چراغ نیک عمل ہے۔ پل صراط تاریکی ہے اور اس کا چراغ یقین ہے۔
۳۶۔ ابلیس تیرے آگے کھڑا ہے اور نفس تیرے دائیں طرف اور خواہش نفسانی بائیں طرف اور دنیا تیرے پیچھے اور اعضا تیرے گرد اور جبار جل جلالہ تیرے اوپر ہے۔ ابلیس تو تجھے ترکِ دین کی طرف بلا رہا ہے۔ اور نفس معصیت کی طرف اور خواہش نفسانی شہوتوں کی طرف اور دنیا آخرت کو چھوڑ کر اسے اختیار کرنے کی طرف اور اعضاء گناہوں کی طرف اور حضرت جبار جل جلالہ جنت و مغفرت کی طرف بلا رہا ہے۔ پس جس نے ابلیس کی سنی اس کا دین جاتا رہا۔ جس نے نفس کی سنی اس کی روح جاتی رہی۔ جس نے ہوائے نفس کی سنی اس کی عقل جاتی رہی۔ جس نے دنیا کی سنی اس سے آخرت جاتی رہی۔ جس نے اعضاء کی سنی اس سے بہشت جاتا رہا۔ جس نے اللہ تعالیٰ کی سنی اس سے تمام برائی جاتی رہی اور اس نے تمام نیکی کو حاصل کرلیا۔
۳۷۔ بخیل کامل سات حالتوں میں سے ایک سے خالی نہیں ہوتا۔ وہ مرجائے گا اور اس کا وارث ایسا شخص ہوگا جو اس کے مال کو فضول خرچی سے اڑا دے گا۔ اور طاعت خدا کے سوا کسی اور کام میں خرچ کرے گا۔ یااللہ تعالیٰ اس پر کسی جابر شخص کو مسلط کردے گا جو اس کا مال بلا اختیار اس سے چھین لے گا۔ یا کوئی شہوت نفسانی اس میں پیدا ہو جائے گی جس سے وہ اپنے مال کو ضائع کردے گا۔ یا اسے گھر یا عمارت (جس کا انجام خرابی ہے) کے بنانے کا خیال آجائے گا اور اس کا مال صرف ہوجائے گا۔ یا اس مال کو حوادث دنیا میں سے کوئی حادثہ پیش آئے گا۔ جیسا کہ جل جانا یا غرق ہوجانا یا چوری ہوجانا یا مثل ان کے کوئی اور حادثہ یا اس کو کوئی مرض دائمی عارض ہوجائے گا۔ جس کے سبب سے وہ اپنے مال کو دواؤں میں خرچ کردے گا۔ یا وہ اپنے مال کو کسی جگہ دفن کرکے بھول جائے گا اور نہ پائے گا۔
۳۸۔ آٹھ چیزیں آٹھ چیزوں کی زینت ہیں۔ پرہیزگاری زینت ہے فقر کی۔ شکر زینت ہے دولتمندی کی۔ صبر زینت ہے بلا کی۔ تواضع زینت ہے شرف و بزرگی کی۔ علم زینت ہے عالم کی۔ فروتنی و عاجزی زینت ہے طالب علم کی۔ احسان نہ جتانا زینت ہے احسان کی۔ اور خشوع زینت ہے نماز کی۔
۳۹۔ عابد تین قسم کے ہیں اور ہر قسم کی علامات ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔ ایک قسم وہ ہیں جو برسبیل خوف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو برسبیل امید اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔ اور تیسرے وہ ہیں جو برسبیل محبت اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔ قسم اول کے لیے تین علامتیں ہیں۔ عابد اپنے نفس کو حقیر سمجھے گا اور اپنی نیکیوں کو قلیل اور اپنی برائیوں کو کثیر خیال کرے گا۔ قسم دوم کے عابد کی تین علامتیں ہیں۔ وہ تمام حالتوں میں لوگوں سے پرہیز کرے گا۔ دنیا میں سب سے زیادہ سخی ہوگا۔ اور تمام خلق میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن رکھنے والا زیادہ ہوگا۔ تیسری قسم کے عابد کی تین علامتیں ہیں۔ وہ عطا کرے گا وہ چیز جسے وہ دوست رکھتا ہے اور بجز رضائے خدا کسی چیز کی پرواہ نہ کرے گا۔ وہ رضائے خدا کے لیے خلاف نفس عمل کرے گا۔ اور تمام حالتوں میں امرو نہی میں اپنے پروردگار کے ساتھ ہوگا۔
۴۰۔ امام مالک نے موطا میں بروایت یحییٰ بن سعید نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے شام کی طرف فوجیں بھیجیں۔ آپ یزید بن ابی سفیان کو وداع کرنے نکلے تو ان سے فرمایا کہ میں تم کو دس باتوں کی وصیت کرتا ہوں؛ کسی بچے کو قتل نہ کرنا، کسی عورت کو قتل نہ کرنا، کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا، کسی پھل والے درخت کو نہ کاٹنا، کسی بکری یا گائے بیل کے پاؤں نہ کاٹنا، مگر بغرض خوراک ذبح کرلینا، کسی بستی کو نہ جلانا اور نہ ویران کرنا، ہراساں نہ ہونا، بزدلی نہ کرنا، غنیمت میں خیانت نہ کرنا۔
(مشائخِ نقشبند)