مسلک سیدنا صدیق اکبر
مسلک سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
حضرت مولانا ابو داؤد محمد صادق قادری رضوی
ہے زمانہ معترف صدیق تیری شان کا
صدق کا ایقان کا اسلام کا ایمان کا
تجھ سے رونق دین نے پائی عرب میں شام میں
مقتدا ہے تو علی کا بو ذرو سلمان کا
قبول اسلام:
نبی کریم ﷺ نے جب حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کو پیغام اسلام پہنچایا تو اس پیگام کو سن کر:
کہا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سرکار آمنا و صدقنا
مرے مالک مرے مختار آمنا و صدقنا
یہ کہہ کر جھک گئے ابوبکر چومے ہاتھ حضرت کے
لگے پھر خدمتِ اسلام کرنے ساتھ حضرت کے
(تاریخ اسلام بزبان شاہنامہ اسلام، ج۱، ص۱۴۰)
معلوم ہوا کہ نبی پاک ﷺ کو مالک ومختار جاننا صدیقی مسلک ہے۔ نیز دست بوسی کرنا اور ہاتھ چومنا صدیقیت ہے اور اسے شرک و بدعت جاننا محرومیت ہے۔
علم غیب:
حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ قبل از اسلام بسلسلہ تجارت ملک شام میں تھے وہاں آپ نے خود دیکھا کہ کہ شمس و قمر آپ کی گود میں اترے ہیں اور آپ نے انہیں اپنے سینہ سے لگایا ہے جب بیدار ہوئے تو ایک نصرانی راہب سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی۔ راہب نے پوچھا تو کون ہے۔ فرمایا میں مکہ مکرمہ میں رہنے والا ہوں۔ اس نے پوچھا کس قبیلہ سے ہو فرمایا قریش سے۔ اس نے پوچھا تمہارا شغل کیا ہے۔ فرمایا تجارت۔ راہب نے کہا قبیلہ ہاشم سے محمد، امین مبعوث ہوں گے جو صاحب لولاک اور نبی آخرالزمان ہوں گے(ﷺ) تم ان کا دین قبول کروگے ان کے وزیر بنو گے اور ان کے بعد ان کے خلیفہ ہوگے۔ یہی تمہارے خواب کی تعبیر ہے۔ اس واقعہ کے بعد صدیق اکبررضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں واپس آئے اور نبی پاک ﷺ نے دعوت اسلام دی۔ توصدیق اکبررضی اللہ عنہ نے عرض کیا۔ اگر آپ نبی ہیں تو پھر آپ کا معجزہ بھی ہونا چاہیے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا اے ابو بکر تمہیں وہ معجزہ کافی نہیں جو شام میں خواب دیکھا اور راہب نے تعبیر بتائی۔ جب صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو عرض کیا آپ نے سچ فرمایا اور پھر کلمہ شہادت پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ (جامع المعجزات، ص۴، نزہتہ المجالس، ص۳۰۲، ج ۲)
معلوم ہوا کہ نبی ﷺ کے علم غیب پر صدیق اکبررضی اللہ عنہ کا اعتقاد تھا اور علم غیب کا اظہار ہی آپ کے ایمان کا سبب بنا۔ لہٰذا علم غیب کا اعجاز باعث ایمان و مسلک صدیق اکبر ہے اور علم غیب پر نکتہ چینی طریقۂ منافقت ہے۔
اللہ رسول کا رساز:
حضرت عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم فرمایا۔ تو جو کچھ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا وہ سب کچھ لاکر حاضر کردیا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے اہل و عیال کے لیے کیا باقی رکھا ہے؟ تو عرض کیا اہل و عیال کے لیے اللہ اور اس کا رسول باقی ہے۔
یعنی ان کے لیے فضل خدا اور امداد و اعانت مصطفیٰ کافی ہے۔ (اشعۃ اللمحات، ص۶۵۲، ج۴) جیسا کہ قرآن پاک میں بھی فرمایا ہے: ‘‘انہیں اللہ و رسول نے اپنے فضل سے غنی کردیا۔ (پ ۱۰۔ رکوع۱۶)
اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔’’
معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث اور مسلک صدیق اکبر کے مطابق اللہ رسول باقی ہیں۔ اللہ و رسول کا فی و کارساز ہیں۔ اللہ و رسول دیتے ہیں اور غنی فرماتے ہیں۔ اللہ رازق ہے اور رسول قاسم و مددگار ہیں۔ اللہ کے فضل سے اس کے رسول مسجد نبوی میں بھی جلوہ افروز ہیں اور صدیق اکبر کے اہل و عیال کے پاس بھی جلوہ گر ہیں اور انہیں امور کی بنا پر صدیق اکبر نے عرض کیا کہ اہل و عیال کے لیے اللہ و رسول باقی ہیں۔ (جل جلالہ، و صلی اللہ علیہ وسلم)
نداء و سماعت:
سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے بوقت وصال حاضرین صحابہ کو وصیت فرمائی کہ میری وفات کے بعد جب نماز جنازہ سے فارغ ہوجاؤ تو مجھے روضہ نبوی کے دروازہ کے سامنے لے جاکر پہلے السلام علیکم یا رسول اللہ کہنا اور پھر عرض کرنا۔ ابوبکر حاضری کی اجازت چاہتے ہیں۔ پس اگر دروازہ کھل جائے تو مجھے روضہ پاک میں دفن کرنا۔ اور دروازہ نہ کھلےتو جنۃ البقیع میں لے جانا چناں چہ جب صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق عمل کیا گیا۔ تو قفل گر گیا اور دروازہ کھل گیااور آواز آئی کہ ‘‘پیارے کو پیارے کے پاس پہنچادو’’۔(نزہۃ المجالس، ص۳، ج۲) سیرت حلبیہ، ص۴۸۸، ج۲، تفسیر کبیر، ص۸۷، ج۲۱، جمال اولیاء اشرف علی تھانوی، ص۲۹، تکریم المومنین نواب، صدیق، حسن غیر مقلد، ص۳۷)
معلوم ہوا کہ مسلک صدیق اکبر کے مطابق السلام علیک یا رسول اللہ پڑھنا درست ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ بحیات حقیقی زندہ ہیں۔ اپنے غلاموں کا درود و سلام اور فریادیں سنتے ہیں۔ بفضلہٖ تعالیٰ مرادیں ان کی پوری فرماتے ہیں۔ اور حضور ﷺ کے روضہ پاک پر حاضر ہونا اور اپنی حاجات عرض کرنا سب کچھ اسلام کے عین مطابق ہے۔ اس میں شرک و بدعت کا کوئی شائبہ نہیں ہے یہی صدیق اکبر کی وصیت اور آپ کا مسلک ہے اور اسی پر صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اجتماع و اتفاق ہے۔ فالحمدللہ علی ذالک
انگوٹھے چومنا:
امام ابوطالب مکی نے ‘‘قوت قلوب’’ میں نقل کیا کہ ‘‘پیغمبر علیہ السلام’’ مسجد میں تشریف لائے حضرت بلالرضی اللہ عنہ نے اذان کہی اور صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے نام اقدس پر دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر لگائے اور قرۃ عینی بک یا رسول اللہ پڑھا الحدیث (تفسیر روح البیان، ص۲۲۹، ج۷، حاشیہ تفسیر جلالین ص۳۵۷۔ موضوعات کبیر، ص۶۴)
ملا علی قاری:
علیہ رحمۃ الباری نے انگوٹھے چومنے کی روایات پر قیل و قال کے جواب میں فرمایا ‘‘جب صدیق اکبررضی اللہ عنہ تک اس کا مرفوع ہونا ثابت ہے تو یہ اس پر عمل کے لیے کافی ہے کیوں کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت لازم پکڑو’’۔ (موضوعات کبیر، ص۶۴)
الغرض نام اقدس سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر لگانا اور قرۃ عینی بک یارسول اللہ پڑھنا مسلک صدیق اکبر ہے مسلک اہل سنت ہے۔ مسلک اعلیٰ حضرت ہے۔
التجا بعد وصال:
رسول پاک ﷺ کے وصال شریف کے بعد حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے عرض کی ‘‘یا محمد ﷺ اپنے رب کے حضور میں ہمیں یاد فرمائیں اور ہم اور آپ کی یاد میں رہیں۔’’ (مواہب الدنیا عمہ زرقانی، ص۲۸۲، ج۸)
تعظیم در نماز:
ایک مرتبہ حضور ﷺ صلح کرانے قبا تشریف لے گئے بعد میں آپ کی جگہ صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے امام بن کر نماز شروع کرائی۔ تو آپ بھی تشریف لے آئے اور صف میں کھڑے ہوگئے۔ چناں چہ نماز میں شامل صحابہرضی اللہ عنہ نے دائیں ہاتھ میں بائیں کی پشت پر مار کر تصفیق فرمائی۔ اس پر صدیق اکبر کو آپ کی آمد کا احساس ہوا۔ تو آپ مصلی سے ہٹ کر پیچھے صف میں کھڑے ہوگئے اور حضورﷺنے مصلی پر تشریف لے جا کر نماز پوری کرائی۔ اور نماز کے بعد صحابہ کو فرمایا کہ جب نماز میں امام کی توجہ دلانے کی ضرورت ہو، تصفیق کی بجائے سبحان اللہ کہیں۔’’ پھر صدیق اکبر کو فرمایا ‘‘اے ابو بکر میرے اشارہ کرنے کے باوجود آپ نے نماز کیوں نہیں پڑھائی’’۔ صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے عرض کی ‘‘ابی قحافہ کےبیٹے (ابوبکر) کو لائق نہیں کہرسول اللہ ﷺ کے آگے کھڑے ہوکر نماز پڑھائے۔’’ (بخاری شریف جز اول، ص۱۲۵۔ ص۲۱۱)
معلوم ہوا کہ صدیق اکبر اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مسلک میں بحالت نماز آپ کی تعظیم نماز کے منافی نہیں اور جب تصفیح کرکے اور مصلی سے ہٹ کر عملاً مظاہرہ نماز کے خشوع و خضوع کے خلاف انہیں تو محض تعظیم کے ساتھ خیال مبارک میں توبدرجہ اولیٰ کوئی حرج نہیں اس لیے مولوی اسماعیل دہلوی کا صراط مستقیم اور دین علی واں بھچروی کا دربافتہ الحیران، میں تعظیم کے ساتھ خیال و تصور کو شرک و مفید نماز اور بیل و گدھے کے استغراق سے بدتر قرار دینا سراسر باطل و شقادت پر مبنی اور مسلک صحابہ و صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے بالکل مخالف ہے۔ والعیاذ باللہ تعالیٰ۔
عبدالمصطفےٰ:
مثنوی مولوی معنوی میں نقل فرمایا کہ جب صدیق اکبر حضرت بلالرضی اللہ عنہ کو کافر سے خیرد کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا تم نے ہمیں بلال کی خریداری میں شریک نہیں کیا۔ اس پر صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے عرض کی:
گفت باد و بندگان کوئے تو
کرد مشق آزاد ہم بر روئے تو
معلوم ہوا کہ اپنے کو حضورﷺ کا عبدو بندہ اورغلام کہنا عبد المصطفیٰ، غلام مصطفیٰ وغیرہ نام رکھنا مسلک صدیق اکبر کے عین مطابق ہے۔ اسے شرک کہنا غلط ہے۔
فائدہ: حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی طرح حضرت فاروق اعظمرضی اللہ عنہ نے بھی بر سر منبر مجمع صحابہ میں اعلان فرمایا کہ ‘‘میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوتا تھا فکنت عبدہ و خادمہ اور میں آپ کا بندہ و خادم تھا۔’’
(فتوح الشام تاریخ دمشق ازالہ انحفار ازشاہ ولی اللہ محدث دہلوی)
اصول محبت:
ایک مرتبہ حضورﷺ نے سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ کو انگوٹھی دے کر فرمایا۔ اس پر نقاص سے لا الہ اللہ لکھوا لاؤ صدیق اکبر نے نقاش کو جاکر فرمایا کہ انگوٹھی پر لا الہ اللہ محمد رسول اللہ لکھ دے۔ جب آپ نے انگوٹھی لاکر دربار رسالت میں پیش کی تو اس پر لکھا تھاہوا لا الہ اللہ محمد رسول اللہ۔ ابو بکر صدیق۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ‘‘ابو بکر! یہ زیادتی کیسی ہے؟ صدیق اکبر نے عرض کی میری محبت نے پسند نہ کیا کہ رب کے اور آپ کے نام میں جدائی ہو اور اپنا تو میں نے لکھوایا۔’’
ادھر جبریل امین علیہ السلام حاضر ہوکر عرض کرنے لگے ‘‘یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ابوبکر کا نام میں نے لکھا ہے کیوں کہ صدیق اس پر راضی نہ ہوئے۔ کہ آپ کا نام خدا کے نام سے جدا ہوا اور خداتعالیٰ اس سے راضی نہ ہوا کہ صدیق کا نام سے جدا ہو۔’’
معلوم ہوا کہ اصول محبت و تقاضائے عشق کے تحت جو کا خیر رسول اللہ ﷺ کی خوشی اور محبت و تعظیم کے لیے کیا جائے وہ جائز کا ثواب ہے اور خدا و رسول کی بارگاہ میں مقبول ہے۔ اگر چہ بظاہر قرآن و حدیث میں اس کا ذکر کرنا نہ آیا ہو اور خدا اور رسول نہ دیا ہو۔ ایسے کام کو بدعت و بےثبوت کہہ کر طعن و تشنیع کرنا سراسر محرومی و بے خبری ہے۔ جیسا کہ صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے از خود نام محمد لکھوایا اور نام خدا کے ساتھ نام محمد کا اضافہ فرمایا اور خدا اور رسول کی طرف سے ناراضگی کی بجائے خوشنودی کا اظہار کیاگیا۔ اسی اصول محبت و تقاضائے عشق کے تحت صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے دروان اذان انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگائے اور عین نماز کی حالت میں آپ کی تعظیم کی حضرت ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ نے ایک موعقع پر یہ تاریخ جملہ ارشاد فرمایا:
انہ قد انقطع الوحی و ثم الدین اینقص وانا حی۔ بے شک تحقیق ختم نبوت کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہویا اور دین مکمل ہوگیا کیا میری زندگی میں اس میں کوئی نقص ورخنہ اندازی ہوسکتی ہے۔ (ہرگز نہیں) (مشکوٰۃ شریف و تاریخ الخفا ملخصا)
سبحان اللہ عشق رسول غیرت ایمانی جذبہ دینی اور اشداء علی الکفار کا کتنا عظیم مظاہرہ ہے۔ مولانا حسن رضا بریلوی نے آپ کے متعلق کیا خوب فرمایا ہے کہ
ضعیفی میں قوی ایسے کہ ضعیفوں کو قوی کردیں
سہارا لیں ضعیف و اقویاء صدیق اکبر کا
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے جذبہ صدیقی کی کیا خوب ترجمانہ فرمائی ہے کہ
دشمن احمد پہ شدت کیجیے
ملحدوں کی کیا مروت کیجیے
غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل
یا رسول اللہ کی کثرت کیجیے
کاش: وہ لوگ جو غیر ایمانی و اسوۂ صدیقی کو نظر انداز کرکے صلح کلیت کے مرض میں مبتلا ہو کر عقیدۃٍ یا عملاً بد مذہبوں بے دینوں گستاخوں کے ساتھ غیر فطری و غیر شرعی اتحاد کرتے پھرتے ہیں وہ صدیقی سیرت اور کردار سے رہنمائی حاصل کریں اور موقع بموقع کسی نہ کسی بہانہ سے بدمذہبوں کے ساتھ اتحاد و رشتہ ناطہ کرنے اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے باز آئیں اور توبہ کریں اور دورنگی چھور کر یہ نعرہ لگائیں۔
ظہوری تو غلا از غلامان محمد ہے
تیرے دشمن سے کیا رشتہ ہمارا یا رسول ﷺ