تحفظ ناموس رسالتﷺ کے بانی سیدنا ابو بکر صدیق

تحفظ ناموس رسالتﷺ کے بانی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ

علامہ منیر احمد یوسفی

حضور نبی کریم رؤف ورحیمﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ستاروں کی مانند فرمایا ہے۔ ارشاد مبارک ہے ‘‘میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آسمان کے روشن ستاروں کی طرح ہیں تم ان میں سے جس کی اقتداء کروگے ہدایت پاؤ گے۔’’ (مشکوۃ، ص۵۰۴) تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں خلفائے راشدین کا مقام تاریخ انسانیت اور تاریخ اسلام میں اپنی نظیر آپ ہے۔اسلامی نظام حیات اور دستور زندگی میں ان عظیم ہستیوں کو جو مقام حاصل ہے حضور ٓ کے اس فرمان مقدس سے عیاں ہے کہ ‘‘تم پر میری اور میرے صحابہ خلفائے راشدین کی سنت ہے۔’’ (ابو داؤد جلد ۲، ص۲۸۷)

خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں آفتاب خلافت بانی تحریک ختم نبوت اور بانی تحریک ختن نبوت اور بانی تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ امیر المومنین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ تمام انبیاءکرام علیہم السلام کے بعد دنیائے انسانیت میں اعلیٰ و  افضل ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے: ‘‘انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سب انسانوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو فضیلت حاصل ہے۔’’ جنہوں نے اپنی جان و مال اور اولاد سب کچھ سرکار کائنات ﷺ اور اسلام پر قربان کردیا۔ یوں تو امر المومنین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آئیڈیل زندگی تاریخ اسلام اور عالم انسانیت میں سنہری کارناموں سے بھری پڑی ہے مگر سرور انبیاء ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حفاظت اسلام اور ختم نبوت ﷺکے تحفظ اور تحفظ ناموس رسالت کا جو عظیم کردار آپ رضی اللہ عنہ نے ادا کیا، مسلمان ان جا جتنا شکریہ ادا کریں اور خراج تحسین پیش کریں وہ کم ہے۔

حضور سید المرسلین ﷺ کے دنیا سے بردہ فرمانے کے بعد منافقین، یہودو نصاریٰ اور دیگر دشمنان اسلام، منکرین ختم نبوت اور جھوٹےمدعیان نبوت نے مختلف علاقوں میں سازشیں شروع کردیں۔ مانعین زکوٰۃ اور فتنہ ارتداد اور نفاق نے سر اٹھایا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ان حالات میں حقیقی معنوں میں خلیفۃ الرسولﷺ ہونے کا حق ادافرمایا۔

امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیر رضی اللہ عنہ نے باغی و مرتد قبائل سے جنگ کرنے کی غرض سے جو گیارہ لشکر مختلف اطراف میں روانہ کئے ان میں سے ایک لشکر جو مسیلمہ کذاب ملعون جس نے نبوت میں شرکت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا کی طرف روانہ کیا تھا وہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ کے ماتحت ایک لشکر اور بھیجا۔ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نےیمامہ پہنچتے ہی حضرت شرجیل رضی اللہ عنہ کا انتظار کیے بغیر حملہ کردیا لیکن ان کو پسپا ہونا پڑا۔ ادھر حضرت  شرجیل رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہیں راستہ میں ٹھہر گئے۔  حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے امیر المونین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اصل واقعہ کی خبر کی تو آپ رضی اللہ عنہ کو ملال ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا وہ حضرت حذیفہ اور حضرت عرفجہ رضی اللہ عنہم کےپاس پہنچ کر عمان اور مہرہ کے لوگوں کے ساتھ جنگ کریں اور یہاں سے فارغ ہوکر یمن اورع حضرت موت کا رخ کریں ۔ اب رہے حضرت شرجیل رضی اللہ عنہ تو انہیں حکم بھیجا کہ وہ جہاں ہیں وہیں رہیں یہاں تک کہ حضرت خالد بن ولید پہنچ جائیں۔

جب حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کو شکست ہوئی اور ساتھ ہی معلوم ہوا کہ مسیلمہ کذاب کے ساتھ چالیس ہزار عرب منتخب نبرد آزما ہیں تو اب آپ کو موقع کی نزاکت اور اہمیت کا صحیح اندازہ ہوا۔ چناں چہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ دربار خلافت کی طلبی پر بطاح سے مدینہ منورہ آئے اور انہیں یمامہ کو سرکرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

غزوہ بدر کے یمامہ کا معرکہ سب سے بڑا معرکہ تھا جبکہ اسلام کی زندگی اور موت کا قطعی فیصلہ ہونا تھا۔ اسی بنا پر امیر المونین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صر ف حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے بھیجنے پر ہی اکتفانہیں کیا بلکہ نامور مہاجرین و انصار جو بدر و حنین کے معرکے سر کر چکے تھے اور جن میں بڑے بڑے حفاظ و قراء تھے ان کو بھی اس جنگ کے لیے نامزد کیا۔ مہاجرین کے دستہ کے سردار حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ اور امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے اور انصار کا دستہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کی ماتحتی اور نگرانی میں تھا۔ (طبری، ج۲، ص۵۰۵) غرض یہ کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مسیلمہ کذاب سے جنگ کرنے کے لیے یمامہ روانہ ہوگئے۔امیر المومنین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس خیال سے کہ کوئی پیچھے سے حملہ نہ کردے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے عقب میں حضرت سلیط رضی اللہ عنہ کی سپردگی میں ایک اور  دستہ روانہ کیا۔ مہاجرین کا علم حضرت سالم مولیٰ حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔ کسی نے کہا کہ گر آپ قتل ہوگئے تو ایک حامل قرآن جاتا رہے گا۔انہوں نے کہا ‘‘اگر میں اس بات کا اندیشہ کروں تو مجھ سے برا حامل قرآن کون ہوگا۔’’ نہار رجال ایک شخص تھا جس نے مشہور کر دیا تھا کہ حضرت محمد رسول اللہ نے اپنی نبوت میں سے نصف کا شریک مسیلمہ کذاب کو کرلیا ہے اور اس طرح مسیلمہ کذاب کا دست تھا۔ اس نے صف سے باہر آکر پکا  راکہ ھل من مبار زا ‘‘کیا مجھ سے کوئی مقابلہ کرنے والا ہے۔’’ اس کے جواب میں اسلامی لشکر کی طرف سے امیر المومنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور انہوں نے اس زور کا وار کیا کہ نہار رجال وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اب دونوں لشکر گتھم گتھا ہوگئے اور بڑے زور کا رن پڑا۔ مسیلمہ کذاب کا ایک آدمی اس پر پروانہ وار اپنی جان قربان کرنے پر تلا ہوا تھا۔ مسلمانوں کو ایسی ہولناک اور سخت جنگ لڑنے کا پہلا اتفاق تھا۔ اس لیے اول اول مسلمان پسپا ہوگئے۔ یہ رنگ دیکھ کر مسیلمہ کذاب کی فوج کا حوصلہ یہاں تک بڑھا کہ اس نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے خیمے پر حملہ کردیا۔ مگر مسلمانوں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور ایک دوسرے کو پکار پکار کر ثابت قدمیاور استقلال کی دعوت دینے لگے۔ اتنے میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے پلٹ کر اس زور کا حملہ کیا کہ دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگیا۔ لیکن کچھ فاصلہ پر پہنچ کر جوابی حملہ کیا اور جنگ تیز ہوگئی۔ مہاجرین، انصار اہل قریٰ اور اہل بادیہ ان سب سے دستے ایک دوسرے سے ملے داد شجاعت دے رہے تھے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ ہر دستہ فوج الگ الگ ہو جائے۔ اب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ مہاجرین، انصار اور اہل قریٰ کی بہ نسبت اہل بادیہ کے زیادہ نقصان پہنچا تھا اور مشہور صحابہ کرام حضرت زید ن خطاب رضی اللہ عنہ، حضرت سالم رضی اللہ عنہ اور ان کے آقا حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ اس معرکہ میں شہید ہوچکےتھے۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے دشمن کی جمعیت پر نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ مسیلمہ کذاب اپنی جگہ پر جما کر کھڑا ہے اور اس کے حمایتیوں نے چاروں طرف سے اس کو اپنے حلقہ میں لے رکھاہے۔ اب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ جب تک مسیلمہ کذاب کے دستہ خاص پر حملہ کرکے اسے شکست نہیں دی جائے گی دشمن کی جمعیت منتشر نہ ہوگی۔ چناں چہ انہوں نے یک بیک نعرہ لگایا اور مسیلمہ کےدستہ پر حملہ کردیا۔ اب عالم یہ تھا کہ دشمن کی فوج کا ایک ایک فرد سربکف ہوکر آگے بڑھتا تھا ارو اس کی لاش خاک و خون میں تڑپ کر رہ جاتی تھی۔ مسیلمہ کذاب نے یہ دیکھ کر چاہا کہ خود مقابلہ کے لیے آگے بڑھے لیکن شدت خوف واضطراب سے ایک قدم آگے بڑھتا تھا اور پھر اسے پیچھے ہٹا لیتا تھا۔ اتنے میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنے دستہ کے مجاہدوں کے ساتھ اچانک اس زور کا حملہ کیا کہ اس کے لیے راہ فرار اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ مسیلمہ کذاب کے جاں  نثاروں نے ہر چند اسے کہا کہ ‘‘تو ہم سے جس فتح و ظفر کا وعدہ کرتا تھا وہ کہا ں ہے؟’’ لیکن اب اس کے لیے ٹھہرنا ناممکن تھا۔ خود بھاگتا جاتا تھا اورلوگوں سے کہہ رہا تھا‘‘اپنے حسب و نسب کی طرف سے مدافعت کرو۔’’ لیکن ظاہر ہے اب اس کی ان باتوں کا اثر ہی کیا ہوسکتا تھا۔ نتیجہ ہوا کہ اس کی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ بھی میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئی۔ ذرا فاصلہ پر ایک باغ تھا جس کی چار دیواری محفوظ تھی۔ محکم بن الطفیل نے چیخ کر کہا ‘‘اے نبو حذیفہ باغ میں چل کر پناہ لو۔’’ یہ باغ در حقیقت مسیلمہ کذا ب کا قلعہ تھا اس لیے باغ کا نام ‘‘حدیقۃ الرحمٰن’’ تھا۔ یہ سب لوگ اس میں پہنچ کر قلعہ بند ہوگئے۔

اسلامی لشکر نے اس قلعہ کا محاصرہ کرلیا اندر جانے کا راستہ نہیں تھا۔ حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں سے درخواست کی کہوہ ان کو اوپر اٹھا کر باغ کے اندر ڈال دیں۔ مجاہددین نے کہا کہ ہم ایسا نہیں کرسکیں گے لیکن حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے اصرار کیا یہاں تک کہ مسلمانوں نے مجبوراً ان کو باغ کا دیوار پر پہنچا دیا اور اندر کی طرف کود کر تنہا لڑتے بھڑتے گھستے چلے گئے یہاں تک کہ باغ کا دروازہ کھول دیاگیا۔ مسلمان باغ کے اندر گھس گئے اور شدید جنگ شروع ہوگئی۔ دونوں طرف کشتوں کے پشتے لگ گئے لیکن بنو حنیفہ کے مقتولین کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اس معرکہ میں مسیلمہ کذاب معلون بھی حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت و حشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مارا گیا۔ اب بنو حنیفہ کے لیے ٹھہرنا ناممکن تھا پسپا ہوکر بھاگ گئے۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو خوشخبری پہنچی تو مجاعہ کو لے کر بنو حنیفہ کے مقتولین کو دیکھنا شروع کیا۔ ایک طرف محکم کی لاش پڑی تھی یہ شخص خوبصورت اور وجیہہ تھا۔ حضرتخالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے پوچھا ‘‘کیا تمہارا سرادار مسیلمہ کذاب یہی ہے؟’’ مجاعہ نے جواب دیا ‘‘نہیں! بخدایہ اس سے زیادہ بہتر اور شریف ہے یہ محکم الیمامہ ہے۔’’ محکم کو حضرت عبدالرحمٰن بن ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک تیرمار کر اس وقت ہلاک کیا تھا جبکہ ابھی وہ باغ کے احاطہ سے باہر پیچھے سے اپنے ساتھیوں کی حفاظت کررہا تھا اب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ قلعہ کے اندر داخل ہوئے یہاں ایک لاش کی طرف اشارہ کرکے مجاعہ نے بتایا کہ یہ مسیلمہ کذاب ہے ۔ اس دن سے اس باغ کا نام حدیقۃ الموت یعنی موت کا باغ پڑگیا اور اسی نام سے وہ تاریخ میں مشہور ہے۔ طبری کا بیا ن ہے کہ باغ سے باہر اندر مسیلمہ کے دس ہزار آدمی قتل ہوئے اور بارہ سو مسلمان مجاہدین شہید ہوئے (ابن اثیر، جلد۲، ص۲۷۲۔ ۲۸۰) مرتد اور باغی قبائل سے جتنی لڑائیاں لڑی گئیں ان میں یمامہ کی جنگ سب سے بڑی اور سخت ترین تھی۔ مسیلمہ کذاب کے ساتھ لشکر کی تعداد اکثر نے چالیس ہزار اور بعض نے ساٹھ ہزار لکھی ہے اور یہ سب کے سب کذاب پر پروانہ وار فدا تھے۔ موقع کی اس نزاکت کےباعث وہ اکابر مہاجرین و انصار کو امیر المومنین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے باہر بھیجنا پسند نہیں کرتے تھے ان کو بھی محاذ جنگ پر بھیجا گیا۔ اگر اس معرکہ میں مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچا۔ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بڑے بڑے حفاظ و قراء جام شہادت نوش کرگئےلیکن چوں کہ اسلام کے سب سے بڑے حریف پہ یہ آخری اور فیصلہ کن فتح تھی جس نے جزیرۃ العرب میں ہمیشہ کے لیے اسلام کے قدم جما دئیے اور اس کو کسی مخالفت کا اندیشہ نہ رہا۔ اس لیے اسلامی فوج فتح و ظفر کا پرچم اڑاتی ہوئی جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئی تو مدینہ منورہ کا گوشہ گوشہ مرحبا اور آفرین کے نعروں اور حمدو صلوٰٰۃ کے نغموں سے گونج اٹھا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس جنگ میں شہید ہوگئے تھے ان کا گم ہونا ایک فطری بات تھی لیکن نصرت خداوندی پر ترا نہ ہائے حمد کی آوازوں میں رنج و غم کی یہ صدائیں دب کر رہ گئیں۔ اس فتح و کامرانی پر امیر المومنین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے زیادہ خوش ہونے کا حق اور کسے تھا لیکن آپ کو ۱۲۰۰ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شہید ہونے کا رنج و ملال بھی کم نہیں تھا۔ مسیلمہ کذاب مرتدلعین کے دس ہزار پیروکاروں کے واصل جہنم ہونے پر امیر المومنین حضرت سیدنا  صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کسی مسلمان نے کسی قسم کے غم و رنج کا اظہار نہ کیا اور کسی بھی صاحب ایمان نے نہیں کہا ‘‘مسیلمہ کذاب کے ماننے والے ہمارے بھائی ہیں مرتد کو بھائی کہنا خود اسلام سے خارج ہونے کے مترادف ہے۔’’ آج بھی اگر کوئی کسی مرتد اور مرتدین کی جماعت کے فرد کو بھائی کہتا ہے تو اسے تجدید ایمان کی ضرورت ہے۔ مرتدین اور کفار کو مسلمان کہنا خود کافر ہونے کے مترادف ہے۔

امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلافت سنبھالتے ہی عرب کے مختلف حصوں میں ارتد ادو بغاوت کا طوفان اٹھا تو مدینہ منورہ کی حالت کیا تھی؟ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زبانی یہ بات ضبط تحریر میں ہے کہ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی حالت اس بکری کی مانند تھی جو سخت سرد رات میں بارش میں بھیگی کھڑی ہو۔

اسلام دشمنی اور دین محمد ﷺ کی مخالفت کی ایک ایسی آگ تھی جس کے شعلے شمال میں حدود شام اور الجزیرۃ تک، جنوب میں بحر ہند کے کناروں تک، مشرق میں عراق، عرب اور خلیج فارس تک اور مغرب میں بحر احمر کے سواحل اور تنگتائے باب المندب تک پھیلے ہوئے تھے لیکن دنیا نے دیکھا کہ ایک سال سے بھی کم مدت میں مجاہدین اسلام نے کس طرح تعداد، سازو سامان، اسلحہ اور ہرا اعتبار سے کم تعداد میں ہونے کے باوجود شروفساد کی ان تمام طاقتوں کو فنا کرکے دین کی فتح و ظفر کا پرچم لہرایا اور پورے جزیرۃ العرب کو اسلام کے جھنڈے کے نیچے لاکر کھڑا کردیا۔ یہ واقعہ تاریخ عالم کا ایک نہایت ہی اہم واقعہ ہے۔ اسی سے انسانی تہذیب و معاشرت، کلچر اور فکر و نظر میں وہ عظیم الشان انقلاب پیدا ہوا جس کا داعی اسلام تھا۔ ورنہ اگر خدا نخواستہ اسلام خود اپنے وطن میں گھٹ کر رہ جاتا تو باہر کی دنیا پر اس کا کیا اثر ہوسکتا تھا۔ اس انقلاب کے ہیرو کون ہیں؟ وہیں امیر المومنین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جن کی رقت قلب کا یہ عالم تھا کہ حضور پر نور کی جگہ نماز کی امامت کو کھڑے ہوئے تو آنسوؤں کی لڑی بندھ گئی لیکن آج یہی وہ رقیق القلب انسان ہے جو خون کی روشنائی سے اسلام کی عظمت و حقانیت کی دستاویز مرتب کررہا ہے۔ شدت و رقت، قہرومہر کا یہ لطیف امتزاج ایک انسان کامل، جس کی سیاست سر تاپاسیاست محمدی ﷺ ہوا اس کے سوا اور کون ہو سکتا تھا۔

 


متعلقہ

تجویزوآراء