حضرت ابو الحسن یمین الدین امیر خسرو دہلوی

آپ سلطان الشعراء برہان الفضلا وادی خطابت و سخن کے عالم فرید و وحید نوع انسانی کے دونوں جہان میں منتخب اور بے پایاں تھے، مضمون نگاری اور معنی پہنانے کے لیے شعر گوئی اور تمام اقسام سخن میں آپ کو وہ کمال حاصل تھا جو متقدمیں اور متاخریں شعراء میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوا، انہوں نے اپنے اشعار کو اپنے پیر کے فرمان و ارشاد کے مطابق اصفہانی طرز اور نہج پر کہا ہے اس کے باوجود آپ صاحب علم و فضل تھے لیکن آپ  تصوف  کے اوصاف اور درویشوں کے احوال سے متصف تھے، اگرچہ آپ کے تعلقات ملوک سے تھے اور امراء اور ملوک سے خوش طبعی اور بطور ظرافت میل جول تھا، لیکن طبعی طور پر ان تمام کی طرف میلان نہ تھا اس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ آپ کے اشعار اور کلام میں جو برکات ہیں وہ تمام تر مشائخ ہی کا فیض معلوم ہوتاہے کیونکہ فساق و فجار کے قلوب برکات سے محروم ہوتے ہیں اور ان کے کلام کو قبولیت اور تاثیر قلبی میسر نہیں ہوتی۔

تہجد کی نماز میں سات پارے ختم فرمائے: امیر خسرو ہر شب کو تہجد میں قرآن کریم کے سات پارے ختم کیا کرتے تھے، ایک روز شیخ نظام الدین اولیاء نے آپ سے دریافت کیا اے ترک! تمہاری مشغولیات کا کیا حال ہے عرض کیا، سیدی! رات کے آخری حصہ میں اکثر و بیشتر آہ و بکا اور گریہ و زاری کا غلبہ رہتا ہے (شیخ نے) فرمایا الحمدللہ کچھ اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔

عشقِ حبیب پاک ہی اے کردگار دے
دے آنکھ اشک بار  تو دل بے قرار دے

(سازِ عقیدت)

مصنف سیرالاولیاء جناب سید محمد صاحب فرماتے ہیں  کہ جب امیرخسرو علیہ الرحمۃ پیدا ہوئے تو اس زمانے میں امیر اجین کے پڑوس میں ایک (نامعلوم) مجذوب رہا کرتے تھے، آپ نومولود کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر ان مجذوب کے پاس لایا گیا، انہوں نے کہا کہ تم اس کو لائے ہو جو خاقانی سے بھی دو قدم آگے بڑھ جائے گا، ممکن ہے اس مجذوب کی مراد دو قدم آگے بڑھ جانے سے مثنوی اور غزل ہو کیونکہ بعض بزرگوں کی آپ کے بارے میں یہ رائے ہے کہ آپ شعر گوئی میں خاقانی کے ہم پلہ ہیں مگر اس سے  آگے نہیں بڑھے، آپ شیخ نظام الدین اولیاء کے قدیم اور پرانے دوستوں اور مریدوں میں سے تھے، آپ کو شیخ  نظام الدین اولیاء سے بے انتہا عقیدت اور محبت تھی اور شیخ بھی آپ پر نہایت درجہ شفیق اور عنایت کنندہ تھے شیخ کی خدمت اور حضور میں اور کسی کو اتنی رازداری اور قربت حاصل نہ تھی جتنی امیر خسرو کو تھی،  آپ کا یہ معمول تھا کہ نماز عشاء کے بعد ہمیشہ شیخ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ہر قسم کی گفتگو اور اپنے احباب کی درخواستوں کو پیش کرتے، شیخ نے امیر خسرو کو اپنے ہاتھ سے جو خطوط ارسال فرمائے ان میں سے ایک یہ تھا۔

’’جسم کی حفاظت کے بعد ان تمام امور سے گریز کیا جائے جو شرعاً ناجائز ہیں، اور اپنے اوقات کی نگرانی کرنی چاہیے اور اس عمر عزیز کو غنیمت سمجھا جائے جس کے تمام مراد  حاصل کی جاتی ہیں، زندگی بے کار اور فضول کاموں میں ضائع نہ کی جائے، اگر دل میں انشراح کی قوت پیدا ہو تو قلبی انشراح کی پیروی کرنی چاہیے کیونکہ سلوک اور طریقت کے راستہ میں اسی کا اعتبار ہے اور طلب خیر کو تمام امور پر مقدم رکھا جائے‘‘۔

علاوہ ازیں صاحب سیرالاولیاء فرماتے ہیں کہ امیرخسرو پر شیخ کی جتنی نوازشات اور عنایات ہوئیں وہ امیر خسرو نے خود تحریر کی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے (خود امیرخسرو یوں لکھتے ہیں) کہ ایک دفعہ شیخ نظام الدین اولیاء نے بندہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ میں تمام دنیا سے تنگ آجاتا ہوں مگر تم سے تنگ نہیں ہوتا، ایک مرتبہ ایک شخص نے بڑی جرأت کے ساتھ  شیخ سے عرض کیا کہ آپ جن نظروں سے امیرخسرو کو دیکھتے ہیں انہیں نظروں سے ایک بار مجھے بھی دیکھ لیں تو مرشد نے اس کا کوئی جواب نہ دیا لیکن اس کے بعد مرشد نے مجھ سے  فرمایا کہ میرے دل میں آیا تھا کہ اسی وقت اس شخص کو کہہ دوں کہ پہلے اتنی قابلیت  تو پیدا کرو

ایک دفعہ شیخ نے فرمایا کہ میرے لیے دعا کرو کیونکہ اے خسرو! تمہاری بقاء میری بقاء پر موقوف ہے اور تمہیں میرے پہلو میں دفن کیا جائے، یہ جملے لوگوں نے کئی مرتبہ شیخ کے سامنے دہرائے تو شیخ نے فرمایا ان شاء اللہ یونہی ہوگا، شیخ نے مجھ سے اللہ کو درمیان میں رکھ کر یہ وعدہ فرمایا تھا کہ جب جنت میں جائیں گے تو تجھے بھی ان شاء اللہ عزوجل ساتھ لے چلیں گے،  ایک دفعہ میں نے اپنے شیخ کو خواب میں دیکھا، آپ نے مجھ سے فرمایا کہ ہمارے قریب آجاؤ اور اس خواب کا منظر یوں تھا کہ شیخ نجیب الدین متوکل کے گھر کے سامنے بہت سا پانی بہہ رہا تھا اور میں ایک بلند مقام پر بیٹھا ہوا تھا اور شیخ نظام الدین نہایت مسرور اور خوش نظر آرہے تھے، آپ نے مجھ سے فرمایا کہ اے امیر خسرو! میرے دل میں یہ بات آئی ہے کہ اس اچھے وقت میں آپ کے بارے میں اللہ سے اس کی دعا مانگ لوں جس کو میں چاہتا ہوں چنانچہ میں نے اللہ سے اس کا مطالبہ کیا ہے اور امید ہے کہ میری دعا قبول ہوگئی ہے جس کا تم عنقریب مشاہدہ کرلو گے۔

ایک دن میں نے مرشد کی زبانی سنا، آپ نے فرمایا کہ آج رات مجھے ایک آواز سنائی دی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خسرو کو مداح (تعریف کرنے والا) کے لقب سے یاد فرما رہے ہیں، غیب سے ہمارے پاس یہ خطاب آیا ہے جو حضور سراپا نور صلی اللہ علیہ وسلم کا عطا کردہ ہے اور ان شاء اللہ اس نام و خطاب کی بدولت یہ خادم بہت سے دیگر انعامات کا امیدوار ہے۔

خوشی چاہتے ہیں نہ غم چاہتے ہیں
جو تم چاہتے ہو وہ  ہم چاہتے ہیں
کسی سے ہمیں کیا غرض کوئی کچھ ہو
تمہارے ہیں ہم تم کو  ہم چاہتے ہیں

(انوارِ طیبہ)

 بندہ کو خواجہ ترک اللہ کے لفظ اور خطاب سے یاد فرمایا کرتے تھے، خادم کو مرشد نے کئی خطوط اپنے دستِ مبارک سے بایں خطاب مزین و آراستہ کرکے روانہ فرمائے تھے جن کو بندہ نے تعویذ بناکے رکھ لیا ہے تاکہ قبر میں وہ میرے پاس رہیں، ان شاء اللہ عزوجل کل بروز حشر اللہ عزوجل انہی خطوط کی برکت سے میری بخشش فرمادے گا۔

ایک مرتبہ خواجہ نظام الدین اولیاء نے مجھے اپنے پاس بلاکر فرمایا کہ ہم نے ایک خواب دیکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ جمعرات کو ہم نے خواب میں دیکھا کہ شیخ صدرالدین ابن شیخ الاسلام بہاؤالدین زکریا ہمارے پاس تشریف لائے، میں نے ان کی تعظیم و تکریم کی، اور وہ بھی اتنی تواضع سے پیش آئے جو بیان نہیں کی جاسکتی، اسی دوران میں دیکھا کہ اے خسرو! تم بھی دور سے آتے ہوئے نظر آئے، جب تم ہمارے پاس آگئے تو آتے ہی تم نے معرفت الٰہی کا بیان شروع کردیا، اسی دوران میں موذن نے نماز فجر کی اذان دینی شروع کی، جس کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا کہ دیکھو یہ کتنا بڑا مرتبہ ہے، میں نے عرض کیا کہ حضرت یہ تمام آپ ہی کا فیض ہے، یہ سن کر مرشد بلند آواز  سے رونے لگے اور میں بھی آپ کی گریہ و زاری کی وجہ سے آبدیدہ ہوگیا، اس کے بعد مرشد پاک نے اپنا کلاہ خاص منگواکر اپنے دستِ مبارک سے مجھے پہنایا اور فرمایا مشائخ کے اقوال کو  ہمیشہ پیش نظر رکھنا، شیخ نظام الدین نے امیر خسرو کے متعلق یہ دو شعر کہے ہیں۔

رباعی

خسرو کہ بنظم و نثر مثلث کم خواست
ملکیت و ملک سخن آں خسر و راست
ایں خسرو ماست ناصر خسرو نیست
زیرا کہ خدائے ناصرِ خسرو ماست

ترجمہ (نظم و نثر میں امیر خسرو کا اور کوئی ہم پلہ نہیں، سخن بحنی کی بادشاہت اسی کے شایان شان ہے، ہمارا یہ خسرو، خسرو ناصر نہیں اس لیے کہ ہمارا خسر و ناصر سے بدرجہا فائق و بلند ہے) جس وقت خواجہ  نظام الدین اولیا کا انتقال ہوا اس وقت خسرو آپ کے  پاس اس وجہ سے موجود نہ تھے کہ آپ سلطان محمد تغلق کے ساتھ لکھنؤتی گئے ہوئے تھے، سفر  سے لوٹنے کے بعد گریہ و زاری اور تعزیت میں مشغول ہوگئے اور آپ کی دیوانوں  کی سی حالت ہوگئی تھی، روتے اور ساتھ ساتھ یہ کہتے کہ میں اپنے لیے روتا ہوں اس لیے کہ مرشد کے بعد اب میں زندہ نہ رہوں گا اور اس کے بعد چھ ماہ تک آپ زندہ رہے۔

شیخ نظام الدین اولیاء نے 18؍ ربیع الثانی 725ھ کو انتقال فرمایااور امیر خسرو نے 18؍شوال 725ھ کو وفات پائی، اللہ آپ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔

اخبار الاخیار


متعلقہ

تجویزوآراء