حضرت ابو الحسن یمین الدین امیر خسرو دہلوی
امیر خسرو سلطان الشعرا برہان الفضلا رحمۃ اللہ علیہ فضیلت و بزرگی میں متعقد میں و متاخرین سے سبقت لے گئے تھے اور باطن صاف رکھتے تھے آپ کی صورت و سیرت میں اہل تصوف کا طریقہ عیاں تھا اور اگرچہ بظاہر بادشاہوں سے تعلق رکھتے تھے لیکن حقیقت میں ان لوگوں میں شمار کئے جاتے تھے جو تصوف کے رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں جیسا کہ فرمایا ہے۔
مراد اھل طریقت لباس ظاھر نیست
کمر بخدمت سلطان بہ بند و صوفی باش
یعنی اہل طریقت سے یہی مراد نہیں ہے کہ ظاہری لباس میں ان کی مشابہت کرے بلکہ حقیقت میں صوفی رہ گو بادشاہ کی خدمت میں کمر بستہ رہتا ہو۔ کاتب حروف نے اپنے والد بزرگوار کو فرماتے سنا ہے کہ جس زمانہ میں امیر خسرو پیدا ہوئے ہیں ان کے والد امیر لاچین کے پڑوس میں ایک صاحب نعمت دیوانے کے پاس لے گئے دیوانہ نے امیر خسرو کو دیکھتے ہی فرمایا کہ امیر لا چین جس شخص کو تم میرے پاس لائے ہو یہ خاقانی سے دو قدم آگے ہوگا۔ غرضکہ جب امیر خسرو ابتدائی زمانہ کے مرحلے طے کرکے حد بلوغ کو پہنچے تو سلطان المشائخ کی شرف ارادت سے مشرف ہوئے اور طرح طرح کی شفقتوں اور مہربانیوں کے ساتھ مخصوص اور نظر خاص کے ساتھ ملحوظ ہوئے۔ اس زمانہ میں جناب سلطان المشائخ امیر خسرو کی نانی کے گھر میں مندہ پل کے دروازہ کے متصل سکونت پذیر تھے اور اسی زمانہ میں امیر خسرو نے شعر کہنے شروع کیے تھے آپ کا قاعدہ تھا کہ جو مضمون نظم کرتے سلطان المشائخ کی خدمت میں پیش کرتے یہاں تک کہ ایک دن سلطان المشائخ نے فرمایا کہ امیر خسرو! صفاہانیوں کی طرز پر کوئی غزل لکھو یعنی عشق و درد انگیز اشعار اور زلف و خال آمیز لکھو اس روز سے امیر خسرو علیہ الرحمۃ معشوقوں کے زلف و خال اور استعارات و کنایات میں مستغرق ہوگئے اور ان دل آویز صفات کو انتہائے کمال پر پہنچایا۔ ازاں بعد آپ نے دیوان مبتدی و منتہی مولانا رفیع الدین پائچہ کے والد بزرگوار قاضی معز الدین پائچہ کی معرفت سلطان المشائخ کی خدمت میں گزارنا اور اس کے رموز و اشارات کی کماحقہ تحقیق کی اور اگلے بادشاہوں کے عہد میں جس قدر شعرا تھے آپ سب میں ب لند تر مشہور ہوئے علاوہ ازیں آپ نے اپنے اعتقاد صادق سے جناب سلطان المشائخ کی محبت و رفاقت میں اس حد تک کوشش کی کہ حضور کے محرم راز ہونے کے سزاوار و شایان ہوئے۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ آپ نے سلطان المشائخ کی مدح میں ایک شعر کہہ کر حضورکی خدمت میں پیش کیا فرمان ہوا کہ کیا مانگتے ہو مانگو چونکہ امیر خسرو نظم کے بارے میں حریص تھے اور ہوس سخن غایت درجہ رکھتے تھے اس لیے آپ نے شیریں سخنی کی درخواست کی حکم ہوا کہ اچھا چار پائی کے نیچے جو شکر کا طشت رکھا ہے لے آؤ اور اپنے سر پر سے نچھاور کرو اور کچھ اس میں کھا بھی لو۔ امیر خسرو نے فوراً حکم کی تعمیل کی یہی وجہ ہے کہ آپ کی شیریں سخنی پورب سے پچھم اور جنوب سے شمال تک تمام جہان میں مشہور ہوگئی اور اہل عالم۔فخر شعرائے سلف و خلف کا معزز خطاب آپ کو دیا اور جو درخواست آپ نے سلطان المشائخ کی خدمت میں پیش کی اس نے قبولیت کا جامہ پہنا یہاں تک کہ آخر عمر میں امیر خسرو اپنے تئیں سخت ندامت کرتے اور کمال افسوس سے فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اس سے بہتر درخواست کیوں نہیں کی۔ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف مذاق کی بہت سی کتابیں لکھی ہیں جب آپ کوئی کتاب تمام کرتے تو اول سطان المشائخ کی خدمت مبارک میں پیش کرتے حضور اس کتاب کو دست مبارک میں لے کر فرماتے کہ ہم فاتحہ پڑھتے ہیں۔ ازاں بعد آپ وہ کتاب امیر خسرو کے ہاتھ میں دیتے اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کتاب کھول کر اس کی چند سطریں پڑھتے اور بعض بعض باتوں پر اعتراض کرتے لیکن سلطان المشائخ کی اس سے غرض امیر خسرو کی تنقیص نہ ہوتی بلکہ ان کے کمال حال کی طرف اشارہ ہوتا تاکہ آپ اپنے فن شعر پر فریفتہ نہ ہوں اور اس سے بہتر و برتر کام کی طرف رغبت کریں۔
امیر خسرو علیہ الرحمۃ کے تمام اوقات معمور تھے آپ ہر شب کو تہجد کے وقت قرآن مجید کے سات سپارے نہایت خوش الحانی سے پڑھتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سلطان المشائخ نے آپ سے دریافت کیا کہ ترک ! تمہاری مشغولی کی کیا کیفیت ہے۔ عرض کیا مخدوما چند روز سے یہ ایک نیا اتفاق پیش آتا ہے کہ جب پچھلی رات ہوتی ہے تو خود بخود گریہ غلبہ کرتا ہے اور بجز رونے کے مجھے کچھ نہیں سوجھتا سلطان المشائخ نے فرمایا الحمدللہ کہ اب کچھ کچھ ظاہر ہونا شروع گیا ہے۔ سلطان المشائخ نے بہت سے رقعے جو ذوق و شوق کو متضمن تھے اپنی قلم مبارک سے تحریر فرماکر امیر خسرو کو بھیجے ہیں چنانچہ اسی کتاب میں ان کے فوائد اپنے محل میں درج ہوئے ہیں۔ امیر خسرو کو سلطان المشائخ کی خدمت میں وہ منزلت و قربت حاصل تھی جو کسی اور کو میسر نہ تھی آپ جس وقت چاہتے بلا کھٹکے خدمت والا میں حاضر ہوجاتے اور سلطان المشائخ تمام امور میں آپ سے مشورہ کرتے اگر اعلیٰ درجہ کے یاروں میں سے کسی کی کوئی درخواست ہوتی تو وہ امیر خسرو سے بیان کی جاتی اور آپ کی سفارش سے سلطان المشائخ کی خدمت میں پیش ہوتی جیسا کہ شیخ نصیرالدین محمود کے ذکر میں بیان ہوچکا ہے۔ جو عنایتیں اور مہربانیاں سلطان المشائخ کی امیر خسرو کے بارے میں مبذول ہوئیں ہیں آپ نے ان سب کو قید کتابت میں لاکر ایک مفصل فہرست کا جامہ پہنایا ہے۔ مختصراً یہاں چند باتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ امیر خسرو فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ سلطان المشائخ نے اس بندہ سے فرمایا کہ میں سب سے تنگ ہوتا ہوں لیکن ترک تجھ سے کبھی تنگ نہیں ہوتا دوسری دفعہ حضور نے یوں ارشاد فرمایا کہ میں ہر شخص سے تنگ ہوتا ہوں یہاں تک کہ اپنے سے تنگ ہوتا ہوں مگر تجھ سے تنگ نہیں ہوتا۔ ایک دفعہ ایک شخص نے سلطان المشائخ کی خدمت میں درخواست کی اور جرأت کرکے عرض کیا کہ آپ کی جو نظریں امیر خسرو کے بارے میں ہیں ان ہی نظروں سے صرف ایک دفعہ مجھے دیکھ لیجیے آپ نے اس کے سامنے تو کچھ ارشاد نہیں کیا لیکن تخلیہ میں مجھ سے فرمایا کہ اس شخص کی درخواست کے وقت میرے دل میں گزرا کہ اس سے فوراً کہہ دوں کہ تو امیر خسرو جیسی قابلیت پیدا کرلا۔ ایک اور مرتبہ کا ذکر ہے کہ خواجہ نے بندہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ تو میرے لیے دعا کر کیونکہ تیری بقا میری زندگی پر موقوف ہے تو یہ دعا کر کہ میرے بعد لوگ تجھے میرے پہلو میں دفن کریں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یہ بات آپ نے بہت دفعہ مجھے یاد دلائی ہے اور فرماتے تھے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ایسا ہی ہوگا۔ علاوہ ازیں جناب خواجہ نے بندہ کی نسبت خدا سے عہدہ کیا ہے کہ جب آپ جنت میں تشریف لے جائیں گے تو بندہ کو ہمراہ بہشت میں لے جائیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
ایک اور دفعہ کا ذکر ہے کہ خواجہ نے فرمایا کہ امیر خسرو! میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں مندہ پل کے ایک کنارے پر شیخ نجیب الدین متوکل کے گھر کے دروازہ کے متصل موجود ہوں اور وہاں پانی کا ایک نہایت صاف چمکدار چشمہ جاری ہے تم ایک بلند دکان پر بیٹھے ہو وہ وقت نہایت خوش اور امیدواری کا تھا۔ اسی حالت میں تمہارا خیال میرے دل میں گزرا اور میں نے خدا سے تمہارے لیے اس نعمت کی درخواست کی جو تجھے مطلوب تھی مجھے یقین ہے کہ میری اس دعا نے خدا کی جناب میں جامۂ قبولیت پہنا اور تم میں ان شاء اللہ تعالیٰ وہ حال عنقریب ظاہر ہوگا۔ ایک اور دفعہ بندہ نے خواجہ کی زبان مبارک سے سنا ہے کہ فرماتے تھے کہ آج کی رات اس دعا گو کے دل میں غیب سے القا ہوا ہے کہ خسرو درویشوں کا نام نہیں ہے تم خسرو کو محمد کاسہ لیس کے نام سے پکارو۔ امیر خسرو فرماتے ہیں کہ بندہ کا یہ خطاب غیب سے عطا ہوا ہے اور جناب مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام کی خبر دی ہے اس لیے بندہ کو ابدی نعمتوں کی امیدواری ہے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ امیر خسرو یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ خواجہ نے بندہ کو ترک اللہ کے معزز و ممتاز خطاب سے سرفراز فرمایا ہے اور حضور کے بہت سے فرمان جو خاص آپ کے خط مبارک سے مزین و آراستہ ہیں اسی خطاب سے بندہ کے حق میں مبذول ہوئے ہیں بندہ نے انہیں تعویذ بنا کر رکھا ہے تاکہ دفن کے وقت اپنے ساتھ لے جائے۔ اور کل قیامت کے دن خدائے رحمان ان فرامیں اور کاغذات کے طفیل میں مجھ بیچارے کو بخش دے گا ان شاء اللہ الکریم۔
ذیل کی بیت خواجہ کی زبان مبارک سے سنی ہے۔
در پیش تو اے از ھمہ کس بسکہ منم
درراہ غمت کمینہ تر خس کہ منم
خواجہ نے بندہ کو بلا کر فرمایا کہ سنو میں نے ایک خواب دیکھا ہے ازاں بعد حضور کی زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری ہوئے کہ آدھی رات کو میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ شیخ الاسلام بہاؤ الدین زکریا علیہ الرحمۃ کے فرزند رشید شیخ صدر الدین میرے پاس تشریف لائے میں انتہا درجہ کی تواضع سے پیش آیا لیکن اس کے ساتھ انہوں نے بھی اس درجہ تواضع کی کہ بیان سے باہر ہے اسی اثناء میں میں دیکھتا ہوں کہ خسرو! تم دور سے ظاہر ہوئے اور ہمارے پاس آکر معرفت کے نکات و دقائق بیان کرنے شروع کیے۔ اس بات کو ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ صالح مؤذن نے نماز فجر کی اذان دی اور میں خواب سے بیدار ہوگیا۔ جب سلطان المشائخ سارے خواب کی تقریر کر چکے تو فرمانے لگے دیکھو یہ کیسا درجہ ہے جو تمہیں میسر ہوا۔ مجھ ضعیف وبیچارہ نے عاجزی و نیاز مندی کا سر زمین پر رکھ کر عرض کیا کہ حضور مجھ خاکروب کا یہ مرتبہ حضور ہی کا عنایت کیا ہوا ہے ورنہ میں اس کا ہر گز سزا وار و لائق نہ تھا۔ میری اس بات سے خواجہ رونے لگے اور اس زور سے روئے کہ بندہ بھی آپ کے رونے سے زارو قطار رونے لگا۔ ازاں بعد خواجہ نے فرمایا کہ ہماری کلاہ خاص حاضر کرو فوراً حکم تعمیل ہوئی اور لوگوں نے کلاہ شریف حاضر کی مخدوم نے اپنے دست مبارک سے بندہ کو پہنائی اور فرمایا کہ تمہیں چاہیے کہ کلمات مشائخ اکثر اوقات نظر میں رکھو۔ سلطان المشائخ نے اس انتہا درجہ کی شفقت و مہربانی کی وجہ سے جو امیر خسرو کے بارے میں رکھتے تھے یہ دو بیتیں آپ کی شان میں فرمائیں۔
خسرو کہ بنظم و نثر مثلش کم خواست |
|
ملکیت ملک سخن آن خسرو راست |
یعنی نظم و نثر میں خسرو کا نظیر بہت کم پیدا ہوا۔ ملک سخن کی بادشاہی خسرو کو مسلم ہے وہ خسرو ہمارا ہے ناصر خسرو نہیں ہے کیونکہ خدا ہمارے خسرو کا ناصر و مدد گار ہے۔ سبحان اللہ اس بہتر و برتر اور کون سا مرتبہ ہوسکتا ہے کہ حضرت سلطان المشائخ کی زبان فیض ترجمان سے امیر خسرو کے وصف میں یہ کچھ جاری ہوا۔ واہ واہ کیا کمال عظمت اور پرورش اور شفقت حضرت سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز کی ہے۔ اب ہم امیر خسرو علیہ الرحمۃ کے ذکر کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ غیاث پور میں کاتب حروف کے والد بزرگوار کے مکان میں امیر خسرو نے دعوت عام دی۔ سلطان المشائخ اور بہت سے بزرگان شہر اس مجلس میں تشریف رکھتے تھے بہلول قوال امیر حسن کی اس غزل کی زمین میں غزل گا رہا تھا۔
زھے ترکے کہ از خمھائے ابرو |
|
کہ آن پیدا کند پنھاں زتدبیر |
(عجب محبوب ہے کہ اپنی ابرو کی خموں سے کمان پیدا کرتا ہے مخفی تدبیر سے مدعی کے کان میں وہ مزا میر کب اثر کرتا ہے جو مزا میر میں ہو۔)
الغرض جب سماع موقوف ہوا تو امیر خسرو نے اپنی غزل پڑھنی شروع کی جوں ہی آپ نے مطع پڑھا آواز بند ہوگئی گلا بہچ گیا مجبور ہوکر آپ نے سعدی کی یہ غزل پڑھنی شروع کی
معلمت ھمہ شوخی و دلبری آموخت
جفا و ناز و عتاب و ستمگری آموخت
(تیرے معلم نے یہ تمام شوخی اور دلبری کی تعلیم دی جفا اور ناز و عتاب اور ستمگری کا طریقہ اسی نے سکھایا ہے۔)
آپ نے یہ ساری غزل نہایت رِقّت کے ساتھ پڑھی۔ ازاں بعد سلطان المشائخ نے دریافت کیا کہ یہ کیا بات تھی کہ جب تم اپنی غزل پڑھتے تھے ہر بار رُک رُک جاتے آپ نے کہا کہ اس وقت مجھ پر اس قدر معنی کا ہجوم ہوتا تھا کہ جس کے ضبط میں میں حیران و ششدر تھا۔ آخر الامر امیر خسرو سلطان غیاث الدین تغلق کے ساتھ لکھنوتی میں تشریف لے گئے اور آپ کی غیبت میں سلطان المشائخ کا وصال ہوگیا یعنی ہنوز امیر خسرو لکھنوتی ہی تھے کہ سلطان المشائخ جنت میں تشریف لے گئے۔ جب سفر سے واپس آئے تو سلطان المشائخ کے انتقال کی خبر سن کر منہ سیاہ کیا اور کُرتہ پہاڑ ڈالا اور خاک میں لوٹتے ہوئے سلطان المشائخ کے خطیرہ کے سامنے آئے۔
جامہ دران چشم چکان خون دل روان
ازاں بعد آپ نے فرمایا اے مسلمانو۔ تم جانتے ہو میں کون شخص ہوں۔ سنو! میں اس بادشاہ کے غم میں نہیں روتا بلکہ اپنےلیے روتا ہوں کیونکہ سلطان المشائخ کے بعد چنداں بقا نہ ہوگی۔ چنانچہ آپ اس واقعہ کے بعد صرف چھ مہینے زندہ رہ کر رحمتِ حق میں مل گئے اور سلطان المشائخ کے روضہ کی پائنتیوں میں دفن ہوئے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
(سِیَر الاولیاء)