حضرت ابو الحسن یمین الدین امیر خسرو دہلوی

حضرت ابو الحسن یمین الدین امیر خسرو دہلوی علیہ الرحمۃ

آپ سلطان الشعراء برہان الفضلاء کے خطاب سے ملقب تھے۔ اگرچہ وہ بادشاہان وقت کے دربار میں بلند مناصب پر  رہے مگر ان کے دل میں حضرت خواجہ محبوب الٰہی دہلوی کی محبت کی حکمرانی رہی ہے اور بزرگان دین کے معتقد رہے۔ حضرت شیخ نظام الدین کو بھی آپ جیسا باوفا اور محرم اسرار مطلوب و محبوب نہیں ملا، آپ کا اسم گرامی ابوالحسن تھا، تخلص  خسرو تھا جن دنوں آپ کے والد اور بھائی حضرت خواجہ نظام الدین کے مرید تھے تو آپ کی عمر ابھی آٹھ سال تھی، آپ مومن آباد میں پیدا ہوئے، جسے پٹیالی بھی کہا جاتا ہے یہ قصبہ دریائے گنگا کے کنارے پر واقعہ ہے۔ آپ کے ولاد امیر سیف الدین لاوچین بڑے  خدا پرست اور بے نظیر بزرگ تھے آپ اسی سال کی عمر میں شہید ہوئے تھے اس وقت خواجہ خسرو کی عمر ابھی نو سال تھی آپ کے نانا عماد الملک نے جو اپنے وقت کے ولی اللہ تھے اور ایک سو تیرہ سال کی عمر میں تھے۔ حضرت امیر خسرو کو اپنی تربیت میں لیا۔

حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی قدس سرہ نے آپ کو ترک اللہ کا خطاب دیا تھا، حضرت خواجہ خسرو کے ایک شعر میں اس خطاب کی نشاندہی ملتی ہے۔

برزباں چوں خطاب بندہ ترک اللہ رفت
دست ترک اللہ دیگر ہم بالہش سپار
چون من مسکین ترا دارم ہمینم بس بود
شیخ من بس مہربان و فا بقم آمرزرگار

حضرت سلطان المشائخ اکثر فرمایا کرتے تھے۔ اے ترک اللہ  میں اپنے آپ سے تو ناراض ہوسکتا ہوں، مگر تم  سے کبھی ناراض  نہیں ہوسکتا، حضرت امیر خسرو کے بڑے بھائی کا نام اعز الدین علی تھا، وہ بھی حضرت خواجہ محبوب الٰہی کے بے پناہ محبوب دل اور منظور نظر تھے۔ حضرت نے آپ کو دو بار خلعت خلافت سے نوازا تھا خواجہ خسرو شعر کہتے مگر جب تک اپنے بھائی کو دکھا نہ لیتے کسی کے سامنے نہ لاتے حضرت خواجہ نظام الدین مجلس سماع میں تشریف لاتے سب سے پہلے حضرت امیر خسرو غزل سناتے اور اپنے دائیں پہلو میں امیر خسرو کو بٹھایا کرتے تھے آپ کے بائیں پہلو میں خواجہ مبشر کو بٹھاتے خواجہ مبشر بھی حضرت شیخ کے زر خرید غلام تھے۔ آپ حسن صورت اور حسن لحن میں بے مثال تھے۔ حضرت خواجہ امیر خسرو کو مفتاح السماع کہہ کر پکارتے اور فرمایا کرتے خسرو ظاہری حسن لطافت اور علم موسیقی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، دو ایسے قوال جن کے کلام اور آواز کی خوش الحانی سے اُڑتے پرندے بھی زمین پر آگرتے حضرت خواجہ محبوب الٰہی کے سامنے بیٹھتے اور کلام سناتے تھے۔

حضرت خواجہ امیر خسرو ہر رات نمازِ تہجد میں قرآن کے سات سپارے پڑھا کرتے تھے۔ نمازِ عشاء ادا کرنے کے بعد حضرت شیخ کی خدمت میں جاتے اور ہر موضوع پر گفتگو کرتے دوسرے احباب بھی بات کرتے تو ان کی باتیں حضرت شیخ اور اہل مجلس سنتے۔ ایک دن امیر خسرو نے  حضرت شیخ کی خدمت میں عرض کی میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی رحلت کے بعد میں اس پر فتنہ دنیا میں نہ رہوں پھر میری یہ بھی خواہش ہے کہ میری قبر بھی آپ کی قبر کے ساتھ ہو آپ نے فرمایا، ان شاء اللہ ایسا ہی ہو گا ایک دفعہ امیر خسرو نے  حضرت شیخ کی خدمت میں عرض کی کہ  میں نہیں چاہتا کہ فرشتے میدان حشر میں مجھے خسرو کے نام  سے پکاریں کیونکہ اس نام سے تکبر کی بو آتی ہے آپ نے فرمایا قیامت کے دن تمہارا نام محمد قاسیہ رکھا جائے گا، حضرت سلطان المشائخ نے خواجہ خسرو کے حق میں یہ دو شعر پڑھے، جو تبرکاً یہاں لکھے جاتے ہیں۔

خسرو کہ بنظم و نثر مشلش کم خواست
ملک است کہ ملک سخن آن خسرور است
این خسرو ما است ناصرِ خسرو نیست
زیرا کہ خدا ناصر خسر و ما است

سفینۃ الاولیاء کے مصنف نے لکھا ہے کہ خواجہ خسرو کے دل میں اتنی عشق کی آگ تھی اور آپ کے سینے میں اتنا سوز تھا کہ آپ جو بھی قمیض پہنتے دل کی جگہ سے ہمیشہ جل جاتی نیا کپڑے پہنتے تو دل کے اوپر سے وہ کپڑا جلا ہوا نظر آتا آپ چالیس سال تک روزے رکھتے رہے  اور کئی بار اپنے پیر روشن ضمیر کے ساتھ حج کیا۔

کہتے ہیں کہ حضرت خواجہ نے ننانوے کتابیں لکھیں جو نظم و نثر پر مشتمل تھیں، آپ کے مشہو شعروں کی تعداد پانچ لاکھ تک جاتی ہے اس تصانیف کے علاوہ آپ کے ہندی اشعار تحریر و تقریر سے باہر ہیں، آپ ما فی البدیہ  کہنے پر اتنے قادر تھے کہ آپ کی کتاب مطلع الانوار شیخ نظام الدین گنجوی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور کتاب مخرن الاسرار کے جواب میں لکھی گئی تھی۔ یہ کتاب دو ہفتے میں مکمل ہوگئی تھی، آپ کو تمام مقام اور شیرین کلامی اس آب دھن کی برکت سے حاصل ہوا جو آپ کے پیر و مرشد خواجہ نظام الدین نے نہایت محبت اور عنایت سے آپ کے منہ میں ڈالا۔[۱] آپ کا یہ عاشقانہ شعر تو تقریباً ہر صاحبِ علم کی زبان پر رواں ہے۔

زلفت زہر دو جانب خونبرعاشقانیست
چینری نمی تو ان گفت روی تو درمیانیست

[۱۔ اگرچہ فاضل مؤلف نے آپ کی تصافات نانوے لکھی ہیں، لیکن یہ ساری کتابیں زمانے کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکیں، قلمی نسخے شاہی کتب خانوں میں محفوظ ہوئے اور انقلاباتِ زمانہ کے ہاتھوں معدوم ہوتے گئے۔ اہل ذوق نے اپنی بساط کے مطابق انہیں محفوظ کرنے کی ہر چند کوششیں کیں مگر زمانے کی قیامت خیریزیاں انسانی حفاظتی دائروں کو توڑ کر اپنا کام کرتی گئیں، پچھلے سو سال میں آپ کی بچی کچی تصانیف میں سے کچھ کتابیں مطبع نولکشور نے طبع کرکے زندہ کردیں  مگر پھر بھی علمی دامن  ان شاندار کتابوں سے خالی رہے، پاکستان میں پیکجز انڈسٹریز لمیٹڈ لاہور کے اشاعتی شعبے نے کلیاتِ امیر خسرو کی کئی جلدیں خوبصورت انداز میں شائع کی ہیں، جس سے امیر خسرو کے پانچ لاکھ اشعار میں سے کچھ حصہ محفوظ ہوگیا۔]

ایک دن حضرت سلطان المشائخ کی خدمت میں ایک درویش آیا اور آکر سوال کیا کہ  مجھے کچھ دیا جائے آپ نے فرمایا آج جو کچھ بھی نذرانہ آئے گا وہ تمہیں دے دیا جائے گا اتفاق ایسا ہوا کہ سارا دن شام تک کچھ نہ آیا،  آپ نے فرمایا اچھا کل جو بھی نذر و نیاز آئی و ہ تمہاری ہوگی، دوسرے دن بھی کچھ نہ آیا آخر حضرتِ شیخ نے اپنے جوتے اٹھائے اور اس درویش کو دے دیے، درویش بھی ان جوتوں کو بڑی عقیدت سے اٹھاکر  روانہ ہوا اور دہلی سے باہر نکل کر اپنے وطن کو چل پڑا، راستے میں امیر خسرو سے ملاقات ہوئی جو بادشاہ کے لشکر کے ساتھ آ رہے تھے امیر خسرو نے اس درویش سے پوچھا کہ حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین کی کوئی خبر ہے اُس نے بتایا کہ وہ خیر و عافیت سے ہیں، امیر خسرو نے کہا مجھے تم سے اپنے پیر کی خوشبو آتی ہے کیا ان کی کوئی شاہ تمہارے پاس ہے درویش نے بتایا ہاں ان کا جوتا مبارک جو انہوں نے مجھے دیا تھا میرے پاس ہے، فرمایا اس کو بیچو گے، درویش کہنے لگا! ہاں امیر خسرو  کے پاس اس وقت پانچ لاکھ روپیہ تھا سارا روپیہ درویش کو دے دیا اور حضرت شیخ کے جوتے خرید کر اپنے سر پر رکھ کر خواجہ محبوب الٰہی کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے فرمایا خسرو تم نے پانچ لاکھ روپیہ دے کر جوتوں کا سودا سستا کرلیا ہے، امیر خسرو نے عرض کی حضور درویش اتنے پر ہی راضی ہوگیا تھا ورنہ میں تو اُسے اور بھی دینے کو تیار تھا۔

کتابوں میں لکھا ہے کہ جس دن حضرت سلطان المشائخ حضرت خواجہ محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوا تو خواجہ خسرو دہکی میں نہ تھے وہ بادشاہ کے ساتھ بنگال گئے ہوئے تھے، یہ وحشت ناک خبر سن کر دہلی پہنچے چہرہ گرد آلود تھا، آتے ہی قبر پر گرگئے قبر کی مٹی اپنے چہرے پر ملی، سیاہ لباس پہن لیا  اور چھ ماہ تک مزار پر ہی رہے، چھ مہینے گزرنے کے بعد بروز بدھ اٹھارہ ماہ شوال سات سو پچیس ہجری اس بیان پر ملال سے رخصت ہوگئے، آپ کو حضرت شیخ کے پہلو میں دفن کردیا گیا۔

خواجہ خسرو امیر دو جہاں
یافت مثل گل چو در جنت مقام
رحلت ادا شرف الاقطاب خواں
۷۲۵ھ
نیز فرما بلبل شیرین کلام
۷۲۵ھ

عندلیب دل (۷۲۵ھ) زیبا طوطی گویندہ ہندوستان (۷۲۵ھ)


متعلقہ

تجویزوآراء