حضرت خواجہ حذیفہ مرعشی
خانوادہ چشتیہ کے یہ بلند قدر بزرگ سدید الدین لقب رکھتے تھے۔ حضرت سلطان ابراہیم ادہم رحمۃ اللہ علیہ سے خرقۂ خلافت پایا تھا فقیہ تھے، عالم تھے اور عامل تھے آپ کی تصانیف بہت مشہور ہیں، تیس سال تک بلا وجہ بے وضو نہیں رہے چھ دنوں بعد افطاری کرتے تھے، فرمایا کرتے تھے اہل دل کی غذا تو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہی ہے، ظاہری علوم سے فارغ ہوئے تو حضرت خضر علیہ السلام کی راہنمائی میں حضرت ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوئے چھ ماہ میں تکمیل سلوک میں کامیاب ہوئے۔
ایک دن حضرت خواجہ المرعشی اللہ کے خوف سے رو رہے تھے، ایک شخص آیا، پوچھا اس قدر گریہ زاری اور اضطراب کیوں ہے، کیا تم اللہ کو رحیم، کریم، غفور نہیں پاتے، آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، فریق فی الجنۃ وفریق فی الیسر، ایک طبقہ جنت میں ہوگا ایک جہنم کی سختیوں میں رہے گا، مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں کس طبقہ میں ہوں گا، اس شخص نے کہا اگر آپ کو اپنی عاقبت کی خبر بھی نہیں تو لوگوں سے بیعت کیوں لیتے ہو۔ اس طرح دوسروں کو بھی اندھیرے میں رکھتے ہو، خواجہ سن کو نعرہ زن ہوئے اور بے ہوش ہوگئے ہوش میں آئے تو غیب سے آواز آئی، ’’حذیفہ! ہم تمہیں اپنا دوست رکھتے ہیں اور برگزیدہ قرار دیتے ہیں، میدان حشر میں اصحاب جنت میں اٹھو گے‘‘ یہ آواز تمام حاضرین مجلس نے سنی۔ اس دن تین سو کافر حلقۂ اسلام میں آئے اور آپ سے بیعت کی۔
ایک دن بزرگان دین کے خلاف چند بیوقوف حضرت خواجہ مرعشی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے متعلق سخت گفتگو کرنے لگے، حضرت خواجہ نے انہیں وعظ و نصیحت کی، اللہ کے عذاب سے ڈرایا، مگر انہوں نے حضرت خواجہ کا ہاتھ پکڑا اور کھینچنا شروع کردیا، جس سے آپ کو بہت تکلیف ہوئی کہنے لگے اگر تم ولی اللہ ہو تو ہمارے لیے بد دعا کرو خواجہ کے منہ سے تین بار آہ آہ نکلا، اور منہ سے آگ کے شعلے نکلتے دکھائی دیے وہ تمام کے تمام جل کر راکھ ہوگئے، نعوذ باللہ بہ غضب الاولیاء اللہ۔
تذکرۃ العاشقین کے مصنف نے حضرت خواجہ کی وفات ۲۷۶ھ لکھی ہے، مگر صاحب سیرالاقطاب نے چوبیس ماہ شوال ۲۵۲ھ لکھی ہے، ہمارے نزدیک پہلی تاریخ درست ہے تمام تذکرہ نگاروں کا اتفاق ہے کہ آپ حضرت ابراہیم ادہم کی وفات کے بعد نو سال تک زندہ رہے رحمۃ اللہ علیہم۔
تاریخ وفات
شہ مرعشی خواجۂ دو جہاں
چو گشت از جہاں سوئے جنت رواں
یکے قطب عالم بگو سال او
۲۵۲
دگر رحلتش پروین شدعیاں
۲۷۶ھ