حضرت خواجہ حذیفہ مرعشی

آں قمری شاہ سارا حدیت، بلبل مرغرار صإدیت، ہمدم نسیم وصال، مقتدائے فحول  اجال برگشتہ ازاندوہ وخوشی قطب  وقت حضرت خواجہ حذیفہ مرعشی قدس سرہٗ کا شمار اکابر مشائخ روزگار اور پیشوائے اولیائے صاحب اسرار ہی ہوتا ہے۔ آپ زہد وتقویٰ، اور ترک و تجرید میں یگانۂ روزگار تھے۔ علم سلوک میں آپ کی تصانیف بہت ہیں۔ طہارت کا یہ عالم  تھا کہ تیس سال کے عرصہ میں آپ کبھی بے وضو رہتے تھے۔ آپ مجردانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ نہ بیوی تھی نہ بچے۔ آپ تین چار روز اور بعض اوقات پانچ چھ روز کے بعد افطار کرتے تھے اور اُس وقت بھی  تین لقموں سے زیادہ تناول نہیں فرماتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ درویش کی غذا ذکر لا الٰہ الا اللہ ہے۔

خرقۂ خلافت

سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ آپ نے خرقۂ خلافت حضرت خواجہ ابراہیم بن ادہم سے حاصل کیا تھا۔ اور حضرت خواجہ  ابراہیم  نے جو نعمت خضر، حضرت امام باقر اور خواجہ فضیل ابن عیاض سے حاصل کی تھی آخر  عمر میں  آپ نے تمام خواجہ حذیفہ کے حوالہ کردی، اور اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ یہ امانت آج تک بہ طریق سلکِ صحیح سلسلہ عالیہ چشتیہ میں موجود ہے۔

سبب ارادت

آپ کے مرید ہونے کا سبب کتب معترہ میں یوں  آیا ہے کہ ایک دن حضرت خواجہ خضر نےاُن کےپاس آکر فرمایا کہ آپ کو لہٰذا خواجہ ابراہیم ادہم کی صحبت اختیار کریں۔ ان کی یہ بات بہت موثر ثابت ہوئی اور دل  محبت الٰہی پیدا ہوگئی۔ چنانچہ حضرت خواجہ ابراہیم کی خدمت میں پہنچ کر سر زمین سر پر رکھا حضرت شیخ نہایت ہمدردی سے پیش آئے اور اٹھ کر ان کو بغل  گیر فرمایا۔ اس کے بعد فرمایا کہ اے حذیفہ خاطر جمع رکھو انشاء اللہ تعالیٰ چند یوم کے اندر تمہارا کام بن جائے گا۔ چنانچہ آپ مرید ہوگئے۔ اور گوشۂ تنہائی اختیار کر کے حق تعالیٰ ک ے ساتھ مشغول ہوگئے۔

حصول مقامات

روایت ہے کہ حضرت خواجہ حذیفہ مرعشی نے ساتھ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرلیا تھا اور ہر روز ہر شب ختم قرآن کرتے تھے۔ آپ جس درویش کو دیکھتے ان کا بے حد احترام واکرام بجالاتے تھے۔ اور فیض طلب کرتے تھے۔ آپ کو حضرت خواجہ فضیل ابن عیاض قدس سرہٗ اور حضرت خواجہ  ابو یزید بسطامی قدس سرہٗ کی صحبت بھی ملی ہے۔ ان دونوں مشائخ نے فرمایا کہ حذیفہ مرد خدا ہے۔ بڑا بزرگ ہوگا ۔ اور بہت لوگ ان کے ذریعے منزل تک پہنچے گے چنانچہ اٹھارہ سال کی عمر میں آپ عالم لدنی ہوگئےاور شریعت، طریقت، حقیقت و معرفت میں کامل ہوگئے۔ آپ ہمیشہ ٹاٹ پہنتے تھےاور خلوقت میں بیٹھے آہ وبکا میں مصروف  رہتے تھے۔ جب لوگوں نے پوچھا کہ اس قدر گریہ وزاری کا سبب کیا ہے تو فرمایا کہ اس وجہ سے روتا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں کہ قیامت کے دن میں فریق فی الجنۃ کے زمرہ میں ہونگا یا فریق  فی العیر کے  زمرہ میں۔ یہ سنکر ایک شخص نے کہا کہ جب آپ کو یہ بات معلوم نہیں  ہے تو پھر لوگوں کو کیوں مرید کرتے ہیں اور راہ راست سے ان کو کیوں دور کرتے ہیں۔ اس پر آپ نےن عرہ لگایا اور بے ہوش ہوکر گر پڑے جب ہوش میں آئے تو ہاتف نے آواز دی  اور تمام حاجرین نے یہ آواز سنی کہ اے حذیفہ میں تمہیں دوست رکھتا ہوں اور محمد مصطفیٰ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ بہشت میں جگہ دوں گا۔ اس مجلس میں تیس ہزار کفار بھی موجود  تھے ہاتف کی آواز سن کر تمام مسلمان ہوگئے۔

آنحضرت کا وعدۂ جنّت

سیر الاقطباب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب حضرت حذیفہ مرعشی قدس سرہٗ زیارتِ روضۂ رسول اللہﷺ سے مشرف ہوئے اور آنحضرتﷺ کے جمال جہاں آراء کا مشاہدہ ک یا تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے اسباب سے ڈر لگتا ہے کہیں مجھے دوزخ میں  نہ ڈال دیا جائے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا مرد نبوتم بہشت میں میرے ساتھ آؤگے اور جو شخص تیرے ساتھ واصل ہوگا وہ بھی بہشت میں آئے گا۔

بے ادبی کرنے والے زندہ جل گئے

اس کتاب میں یہ بھی لکھا  ہے کہ آپ کی زبان مبارک سے جو کچھ نکلتا تھا اُسی طرح واقعی ہوتا تھا۔ چنانچہ روایت ہے کہ ایک دفعہ چندے وقوف آدمی حضرت اقد س کی خدمت میں آکر کہنے لگے کہ اے حذیفہ اگر تم خدا تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہو تم ہم تمہیں اس مشغولی  سے باز رکھیں گے یا تم ہمیں نقصان پہنچا سکتے  ہو تو پہنچاؤ۔ آپ نے ان کی طرف توجہ نہ فرمائی۔ اس کے بعد ان میں سے ایک آدمی نے آپ کا ہاتھ  پکڑ کر اس سے زور سے تکلیف دی  کہ آپ نے تین مرتبہ آہ آہ آہ کی۔ اُسی وقت آپ کے دہن مبارک سے آگ نکلی اور ان سب بے وقوفوں کو آن کی آن کی جلد کر خاکستر بنادیا۔

اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت اقدس نے ستر سال تک گھر سے باہر قدم نہ رکھا تھا لیکن جب حاجی لوگ حج سے واپس آکر آپ کے ملتے تو بیان کرتے تھے کہ حضرت اقدس کو اپنے ساتھ کعبۃ اللہ اور بیت المقدس میں دیکھا ہے۔

مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ حذیفہ سفر وخضر میں ہمیشہ حضرت ابراہیم  ادہم کی خدمت میں رہتے تھے۔ اور تمام مشائخ وقت کی زیارت کی تھی۔ امام عبداللہ یافعی نے اپنی کتاب ‘‘روضۃ الریاحین’’ میں حضرت شیخ کے اکثر حالات و کمالات بیان کیے ہیں اُن میں سے ایک یہ ہے کہ بعض احباب نے حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ آپ اتنی مدت حضرت خواجہ ابراہیم ادہم کی خلافت میں رہے ہیں آپ نے سب سے زیادہ  عجیب بات کونسی دیکھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ایک دفعہ مکہ معظمہ کے سفر میں چند یوم ہم نے فاقہ میں بسر کیے۔ جب ہم کوفہ پہنچے تو ایک ویران مسجد میں قیام کیا۔ خواجہ ابراہیم نے  میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ اے حذیفہ معلوم ہوتا ہے کہ تم  کو بھوک لگی ہے میں نے عرض کیا کہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ آپ نے کاغذ اور قلم ودات طلب کر کے یہ لکھا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔انت المقصود بکل حال۔ (بسم اللہ الرحمٰنالرحیم تو ہی ہر حال میں مقصود ہے) اس کے علاوہ آپ نے چند کلمات اور بھی لکھے ۔ اور کاغذ میرے ہاتھ میں دیکر فرمایا کہ شہر سے باہر جاؤ۔ جو شخص پہلے  ملے یہ خط اس کو دینا۔ جب میں شہر سے باہر گیا تو ایک آدمی کو دیکھا کہ سانڈنی پر سوار ہوکر آرہا ہے۔ میں نے  کاغذ اُسے دیا۔ اس نے رقعہ دیکھ کر پوچھا کہ رقعہ لکھنے والا کہاں ہے  میں نے کہاں فلاں مسجد میں ہے اس نے مجھے ایک ہمیانی عنایت کی جس میں تین ہزار دینار تھے۔

حضرت خواجہ حذیفہ مرعشی قدس سرہٗ تربیت مریدین میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ آپ اس قدر عظیم الشان ولی اللہ تھے کہ کئی شاہباز آپ کی صحبت سے نکلے ہیں ۔ آپ کے مریدین کا طریق بھی تجرد ظاہر وباطن تھا۔ سفر و خضر میں آپ ذکر جلی کرتے تھے اور کسی سے طمع نہیں کرتے تھے۔ لیکن حق تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بلا طلب مل جاتا تھا آپ لے لیتے تھے اور خیرات بھی کردیتے تھے۔آپ کبھی دینا داروں سے میل جول نہیں رکھتے تھے۔ آپ کی یہی کرامت کافی ہے کہ ہمارے تمام خواجگان چشت اُن سے نسبت رکھتے  ہیں۔

وصال

آپ  کا وصال چودہ ماہ شوال اور دوسری روایت کے مطابق چوبیس ماہ مذکور ۲۵۲؁ کو ہوا۔ صاحب سیر الاقطاب نے اپ کی تاریخ وصال یوں نکالی ہے ہے ‘‘قطب زماں بود’’ رضی اللہ عنہ،

اللّٰھمّ صلّ علیٰ محمد والہٖ واصحابہٖ اجمعین۔

ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود

 

ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد

نور دوم حضرت خواجہ ہبیرہ البصری حضرت ممشاد علو دنیوری حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی، حضرت خواجہ ابو احمد ابدال اچشتی، اور حضرت خواجہ ابو محمد محٹرم چشتی قدس اسرارہم کے ذکر ہیں۔

(اقتباس الانوار)


متعلقہ

تجویزوآراء