(سیّدہ )عائشہ( رضی اللہ عنہا)
(سیّدہ )عائشہ( رضی اللہ عنہا)
عائشہ دخترِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ،حضوراکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رفیقۂ حیات اور ازواج مطہرات میں مشہور ترین خاتون تھیں،ان کی والدہ کا نام ام رومان دختر عامر بن عویمرتھا،حضور نبیِ کریم نے ان سے دوسال قبل از ہجرت نکاح کیا تھا،اور وہ کنواری تھیں،یہ ابوعبیدہ کا قول ہے،ایک روایت میں تین سال مذکور ہیں،بقول زبیر آپ نے جناب عائشہ سے ام المؤمنین خدیجہ کی وفات سے تین سال کے بعد نکاح کیا،اور جناب خدیجہ کا انتقال ہجرت سے تین سال پہلے ہواتھا،ایک روایت میں چار اور ایک میں پانچ سال مذکو ر ہیں،اورجب حضورِاکرم نے ان سے نکاح کیا،اس وقت ان کی عمر چھ یا سات برس تھی اور عروسی کی نوبت آئی تو جناب عائشہ نو برس کی تھیں،اور پیشتر ازیں جبریل نے حضورِاکرم کو ام المومنین کی تصویر ایک ریشمی کپڑے پر خواب میں دکھا دی تھی، یہ جناب خدیجتہ الکبرٰی کی وفات کے بعدہوا،اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین کی کنیت ان کے بھانجے عبداللہ بن زبیر کے نام پر ام عبداللہ تجویز فرمائی تھی۔
یحییٰ بن محمود ،جس کی انہیں اجازت ملی ہے،باسنادہ ابن ابی عاصم سے،انہوں نے سعید بن یحییٰ بن سعید سے،انہوں نے والد سے،انہوں نے محمد بن عمرو سے،انہوں نے یحییٰ بن عبدالرحمٰن سے انہوں نے خاطب جو عثمان بن مظعون کی زوجہ تھیں،حضورِاکرم سے گزارش کی،یا رسول اللہ! کیا آپ مزید نکاح نہیں کریں گے،دریافت فرمایا،کس سے؟جناب خولہ نے پوچھا،آپ کنواری لڑکی پسند کریں گےیابیوہ؟ دریافت فرمایا،کنواری کون ہے اور بیوہ کون؟ انہوں نے کہا ،کنواری تو ابوبکر کی لڑکی عائشہ اور بیوہ سودہ دختر زمعہ،آپ نے دونوں کے بارے میں اجازت دے دی۔
اولاًخولہ ،حضرت ابوبکر کے گھرگئیں اور ام رومان سے مخاطب ہوکرکہا،کیا تم چاہتی ہو کہ تمہارے گھر پر خیروبرکت کا نزول ہو،پوچھا وہ کیسے؟کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آپ لوگوں کے پاس عائشہ سے نکاح کا پیغام دے کر بھیجا ہے،لیکن عائشہ توحضورکی بھتیجی ہے،بہرحال میں چاہتی ہوں کہ تم ابوبکر کا انتظار کرووہ آنے والے ہیں،اتنے میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے،اور خول نے اپنا مشن بیان کیا،ابوبکر نے کہا،یہ نکاح کیسے درست ہوسکتا ہے،عائشہ تو آپ کے بھائی کی بیٹی ہے،خولہ نے حضورِاکرم کو بتایا،توآپ نے فرمایا ،جاؤ اور ابوبکرکو بتاؤ،کہ میں دین میں اس کا بھائی ہوں،رشتے میں نہیں،ابوبکر کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا،حضور تشریف لائے اور نکاح ہوگیا،جناب عائشہ اس وقت چھ برس کی تھیں۔
سودہ دختر زمعہ اسلام قبول کر چکی تھیں،جناب خولہ ان کے گھر گئیں،اور کہا،سودہ!کیا تم پسند کروگی کہ تمہارے گھر پر خیرو برکت کا نزول ہوپُوچھاکیسے!انہوں نے بتایا،تو کہنے لگیں مناسب ہوگا ،کہ میرے والد سے اس کا ذکرکرو۔زمعہ کافی بوڑھا ہوچکاتھا،جب خولہ نے اپنے مشن کا ذکرکیا،توکہنے لگا،بلاشُبہ محمد بھلے اور کریم النفس آدمی ہیں تو نے اپنی سہیلی سے بھی پوچھاہے،خولہ نے کہا،وہ رضامند ہے،زمعہ نے انہیں بلابھیجا،اور کہا،محمد بن عبداللہ تجھ سے نکاح کے خواہشمند ہیں،وہ بھلے آدمی ہیں،تمہاراکیا ارادہ ہے،انہوں نے رضامندی کا اظہار کیاتو آپ کو بُلاکر نکاح کی رسم اداکردی گئی،جب ان کا بھائی عبدبن زمعہ حج سے واپس آیاتوچونکہ ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا، اس لئے غصے میں اس نے سرپر مٹی ڈالی،جب اسلام قبول کیا،تو کہاکرتا،کہ جس دن میں نے سر پر مٹی ڈالی تھی، میں کتنااحمق تھا۔
ابوالفرج بن ابوالرجاء نے ابوعلی مداد سے (میں وہاں موجود تھا اور سُن رہاتھا)انہوں نے احمد بن عبداللہ حافظ سے،انہوں نے فاروق سے،انہوں نے محمد بن محمد بن حیان التمارسے،انہوں نے عبداللہ بن مسلمہ قعتبی سے،انہوں نے سلیمان بن بلال سے،انہوں نے ابو طوالہ سے،انہوں نے انس بن مالک سے روایت کی،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،عائشہ کو باقی خواتین پر وہی فضیلت حاصل ہے،جو ثرید کو باقی کھانوں پر۔
محمد بن سرایا علی العدل اور حسین بن ابو صالح بن فنا خسرو وغیرہ نے باسنادہم محمد بن اسماعیل سے، انہوں نےعبداللہ بن عبدالوہاب سے،انہوں نے حماد سے،انہوں نے ہشام سے،انہوں نے اپنے والد سےروایت کی ،کہ جس دن حضورِاکرم حضرت عائشہ کے پاس ہوتے،صحابہ اپنے بہتر تحائف حضورِاکرم کو روانہ کرتے،ازواجِ مطہرات ام سلمہ کے گھرمیں جمع ہوئیں،اور کہا کہ لوگ اپنے تحائف عائشہ کے گھر بھیجتے ہیں،حالانکہ ہمیں بھی ان تحائف کی ضرورت ہوتی ہے، آپ رسولِ اکرم سے کہیں،کہ وہ لوگوں کو کہدیں کہ تحائف کے لئے عائشہ کی باری کا انتظارنہ کیاکریں اورجہاں بھی قیام پذیر ہوں،تحائف بھیج دیا کریں،جناب ام سلمہ نے مختلف مواقع پر آپ سے یہ گزارش کی لیکن آپ نے توجہ نہ فرمائی،آخری موقعہ پر آپ نے فرمایا،ام سلمہ!عائشہ کے بارے میں تو مجھے پریشان نہ کیا کرکیونکہ اگر میں سوائے عائشہ کے تم میں سے کسی اور کے لحاف میں ہوں،تو وحی نازل نہیں ہوتی۔
محمد بن اسماعیل نے یحییٰ بن بکیر سے،انہوں نے لیث سے،انہوں نے یونس سے،انہوں نے ابن شہاب سے،انہوں نے ابوسلمہ سے،انہوں نے عائشہ سے روایت کی،کہ میں حضورِاکرم کے پاس تھی،آپ نے فرمایا،اے عائشہ،اے عائشہ!جبریل میرے پاس بیٹھے ہیں،اور تمہیں سلام کہہ رہے ہیں،میں نے جواب دیا وعلیہ السّلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہٗ کہا۔
اسماعیل بن علی اور ابراہیم بن محمد وغیرہ نے باسنادہم محمد بن عیسیٰ سے ،انہوں نے عبدبن حمید سے ، انہوں نے عبدالرزاق سے،انہوں نے عبداللہ بن عمروبن علقمہ مکی سے،انہوں نے ابن ابوحسین سے،انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے،انہوں نے عائشہ سےروایت کی کہ جبریل ان کی تصویر سبزریشمی کپڑے پر لگا کر لائے اور آپ سے کہا،کہ یہ خاتون اس دنیامیں اور آخرت میں آپ کی زوجہ ہیں۔
محمد بن عیسیٰ نے بنداراور ابراہیم بن یعقوب سے،انہوں نے یحییٰ بن حماد سے،انہوں نے عبدالعزیز بن مختارسےانہوں نے خالدالخدأ سےانہوں نے ابوعثمان نہدی سے،انہوں نے عمروبن عاص سے روایت کی،کہ حضورِاکرم نے انہیں ایک لشکر کی کمان عطاکی،میں حاضر خدمت ہوا،اور عرض کیا، یارسول اللہ ! آپ سب سے زیادہ کسے پسند کرتےہیں،فرمایا عائشہ کو،میں نے پھر عرض کیا،مردوں میں آپ کس کو سب سے زیادہ اچھا جانتے ہیں،فرمایاعائشہ کے والد کو۔
محمد بن عیسیٰ نے محمد بن بشار سے،انہوں نے عبدالرحمٰن بن مہدی سے،انہوں نے سفیان سے،انہوں نے اسحاق سے،انہوں نے عمروبن غالب سے روایت کی،کہ ایک شخص نے عمار بن یاسر کےپاس جناب عائشہ کے بارے میں بُرا بھلا کہا،انہوں نے کہا دفع ہوجا،اے منحوس و مردود،تو حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزیزترین زوجہ کے بارے میں گستاخی کرتاہے۔
اورمسروق کی یہ عادت تھی،کہ جب بھی حضرت عائشہ سے کوئی روایت بیان کرتے تو کہا کرتے،مجھ سے جناب صدیقہ دختر صدیق نے جوہر عیب سے بری ہیں،اور جن کی برأت ثابت ہے،یوں بیان کیا۔
جناب ام المومنین سے اکابر صحابہ دربارۂ فرائض استفسارکیاکرتے،اور عطأ بن رباح کے قول کے مطابق جناب عائشہ افقہ الناس اور احسن الرای خاتون تھیں،عروہ لِکھتے ہیں کہ میں نے فقہ طب اور شعر میں ام المونین سے بڑھ کر کوئی آدمی نہیں دیکھا،اور اگر حضرت عائشہ میں اور کوئی فضیلت بھی نہ ہوتی،جب بھی واقعۂ افک میں جس انداز سے قرآن حکیم نے ان کی برئیت بیان فرمائی،جو قیامت تک تلاوت کی جائیگی ان کی فضیلت اور علو مرتبہ کی ناقابلِ تردید دلیل ہے،اور یہ وہ واقعہ ہے جس کا ہر آدمی کو علم ہے۔
مسمار بن عمر بن عویس اور ابوالفرح محمد بن عبدالرحمٰن وغیرہ نے باسنادہم محمد بن اسماعیل سے، انہوں نے محمد بن بشارت سے،انہوں نے عبدالوہاب بن عبدالمجید سے،انہوں نے ابنِ عون سے، انہوں نے قاسم بن محمد سے روایت کی،کہ ام المومنین عائشہ بیمار ہوئیں اور ابن عباس ان کے پا س آئے،اور کہا،اے ام المومنین! حضورِاکرم اور ابوبکر صدیق آپ کے سچے پیش رو ہیں،آپ کو کس چیز کا اندیشہ ہے۔
ام المومنین نے حضورِاکرم سے کثیر التعداد احادیث روایت کیں،یحییٰ بن ایوب نے عبیداللہ بن زحر سے ،انہوں نےعلی بن زید سے،انہوں نے قاسم سے انہوں نے ابوامامہ سے روایت کی کہ عمر بن خطاب نے فرمایا،گھوڑوں کو دبلا کرو،تیر ترکش سے نکالو،اور گھوڑوں کو نعل لگواؤ،اور عجمی طور طریقوں سے بچ کر رہو اور ایسے دسترخوان پر نہ بیٹھو،کہ جہاں شراب پی جارہی ہو،اور کسی مسلمان مرد اور عورت کو جائز نہیں کہ حمام میں ننگاہوکر نہائے،حضرت عائشہ سے مروی ہے،کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بستر میں لیٹے ہوئے فرمایا،کہ جس عورت نے اپنے گھر کے سواکہیں اور اپنی اوڑھنی اتاردی،اس کے اور اس کے رب کے درمیان جو پردہ تھا وہ پھٹ گیا۔
جناب عائشہ نے ستاون یا اٹھاون سالِ ہجری میں وفات پائی،ان کی وصیت کے مطابق انہیں اسی رات کو بقیع میں دفن کیا گیا،اور ابوہریرہ نے نمازجنازہ پڑھائی،اور ان کی قبر میں پانچ آدمی اُترے عبداللہ عروہ،زبیرکے دو بیٹےاور قاسم بن محمد بن ابوبکر اور عبداللہ بن محمد بن ابوبکر اور عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابوبکر۔
جب حضور سرورِکائنات نے وفات پائی تھی،تو ام المومنین کی عمراٹھارہ برس تھی،تینوں نے انکا ذکر کیا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱۰۔۱۱)