حضرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ

 

حضرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اپنی نعلین مبارک میں پیوند لگا رہے تھے حالانکہ میں چرخہ کات رہی تھی میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے روئے مبارک کا مشاہدہ کیا تو آپ کی جبینِ مبارک سے پسینہ بہہ رہا تھا اور اس پسینہ سے آپ کے جمال اقدس میں ایسی تابانی تھی کہ میں حیران تھی کہ حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے میری طرف نگاہِ کرم اٹھا کر فرمایا کہ کیا بات ہے تم کیوں حیران ہو ؟ سیدہ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم! آپ کے بُشرہ نورانی اور آپ کی پیشانی کے پسینہ نے مجھے حیران کردیا ہے اس پر آپ اٹھے اور میرے پاس آئے اور میری دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا:

جزاک اللّٰہ یا عائشۃ خیرا ما سررت منی کسر وروی منک

(ترجمہ) اے عائشہ تمہیں اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے تم اتنا مجھ سے مسرور نہیں ہوئیں جتنا تم نے مجھے مسرور کیا۔ (مدارج النبوت، دوم،ص۸۰۵)

مطلب یہ تھا کہ میرا ذوق و سرور تمہارے ذوق و سرور سے زیادہ ہوا حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا سیدہ عائشہ کے دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دینے میں کمال محبت ہے۔

حضرت مسروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جو اکابر تابعین میں سے ہیں جس وقت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے تو فرمایا کرتے تھے:

الصدیقۃ بنت الصدیق حبیبۃرسول اللّٰہ ﷺ

مجھے یہ حدیث بیان کی صدیقہ نے جو بیٹی ہے صدیق کی محبوبہ ہے رسول اللہ ﷺ کی ۔

حبیبۃ حبیب اللّٰہ امراۃ من السماء

اللہ کے حبیب کی محبوبہ آسمانی بیوی (الاستیعاب /دوم/۷۴۴)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے رسالت مآب کے ہاں ازواجِ مطہرات میں وہ فضیلت حاصل ہے جو کسی اور کو نہیں فرماتی ہیں وہ یہ کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے میرے سوا کسی باکرہ عورت سے شادی نہ فرمائی اور میں کسی دوسرے سے دست آلود نہ ہوئی اور باکرہ عورت اپنے شوہر کے نزدیک محبوب تر اور مانوس تر ہوتی ہے اور حضرت سیدہ زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو تین مرتبہ خواب میں دیکھا کہ وہ عاشق و فریفتہ ہوگئی تھیں اور اس جگہ پر سرورکائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواب میں مجھے دکھایا گیا یہ حالت بھی زیادتی محبت و انس کی ہے ۔ خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

اوریتک فی المنام ثلٰث لیال جاء نی بک الملک فی سرقۃ من حریر یقول لی ھٰذہٖ امرأتک فأکشف عن وجھک فاذا انت ھی فأقول ان یک ھٰذا من عند اللّٰہ یمضہٖ۔ (۱۰۸)

(ترجمہ) تم مجھے تین بار خواب میں دکھائی گئی تھیں ۔ تمہیں فرشتہ ریشمی ٹکڑے میں لاتا تھا مجھے کہتا تھا یہ آپ کی بیوی ہے میں نے تمہارے رخ سے کپڑا اٹھایا تو تم ہی تھیں میں نے کہا اچھا اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ اسے جاری وپورا فرمادے گا۔

اس سے معلوم ہوا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ وہ ہیں جو کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو دکھائی گئیں اور بشارت دی گئی کہ یہ آپ کی بیوی ہی ہوں گی اسی لیے سیدہ فرماتی ہیں کہ مجھے یہ بھی مقام ازواج مطہرات میں حاصل ہے اور فرماتی ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی میں وہ بیوی ہوں جن کے بستر میں بھی ہوں تو بھی وحی آئے۔

ان کے بستر میں وحی آئے رسول اللہ پر
اور سلام خادمانہ بھی کریں روح الامین

سیدہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیوی ہوں جس کے حق میں برأت اور طہارت آسمان سے نازل ہوئی گویا اس میں واقعہ افک کی طرف اشارہ ہے جسے منافقین نے اٹھایا تھا تو حق سبحانہٗ تعالیٰ نے سترہ اٹھارہ آیتیں دامنِ عزت کی برأت و طہارت اور جماعت منافقین کی مذمت و خباثت میں نازل فرمائیں۔

یعنی ہے سورہ نور جن کی گواہ
ان کی پر نور صورت پہ لاکھوں سلام

سیدہ فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے میرے ہی گھرمیں زمانہ علالت گزارا اور میری ہی باری کے دن حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے وصال فرمایا اور اس کیفیت میں کہ میرے سینہ اور چھاتی پر آرام فرماتے تھے اور میرے ہی حجرہ میں روضہ اقدس بنا۔

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے منقول ہے کہ انہوں نے کسی کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں بدگوئی کرتے سنا تو حضرت عمار نے فرمایا:

اغرب مقبوحا منبوحا اتوذی حبیبۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم

(ترجمہ) ذلیل و خوار خاموش ہو کہ تو اللہ اور اس کے رسول کی محبوبہ کی بدگوئی کرتا ہے۔ (جامع الترمذی ، ۲:۷۰۸)

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی منقول ہے کہ آپ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ !جب تم مجھے سے ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو لا وربّ ابراہیم اور جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہولا و ربّ محمد ناراضگی میں رب ابراہیم کی قسم اور خوشی میں رب محمد کی قسم میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم لیکن میں نہیں چھوڑتی مگر صرف آپ کے نام کو مطلب یہ کہ ناخوشی کی حالت میں صرف آپ کا نام نہیں لیتی لیکن آپ کی یاد ذات میرے دل میں ہے اور میری جان آپ کے لئے مستغرق ہے اس محبت میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا۔ سیدہ فرماتی ہیں کہ مجھے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ اگر تم چاہتی ہو کہ جنت میں میرے ساتھ رہو تو تمہیں چاہئے کہ دنیا میں اس طرح رہو جس طرح راہ چلتا مسافر ہو کہ وہ کسی کپڑے کو پرانا نہیں سمجھتا جب تک کہ وہ پیوند کے قابل ہو اور وہ اس میں پیوند لگاتا ہے اور ایک روایت میں آتا ہے کہ سیدہ نے عرض کیا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ! میرے حق میں دعا فرمائیں کہ خدا جنت میں آپ کی ازواجِ مطہرات میں مجھے رکھے ۔ فرمایا: اگرتم اس مرتبہ کو چاہتی ہو تو کل کیلئے کھانا بچا کر نہ رکھو اور کسی کپڑے میں جب تک پیوند لگ سکتا ہواسے بے کار نہ کرو ۔سیدہ نے اس وصیت و نصیحت پر جو فقرکوتونگری پرایثار کرنے میں ہے اتنی کار بند رہیں کہ آج کا کھانا کل کے لیے بچا کر نہ رکھا۔(مدارج النبوت، ۲:۸۱۰؍۸۱۱)

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ کو ستر ہزار درہم راہِ خدا میں صدقہ کرتے دیکھا ہے حالانکہ ان کی قمیض مبارک میں پیوند لگا ہوا تھا ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے انہیں ایک لاکھ درہم بھیجے تو انہوں نے اسی روز تمام دراہم فقراء و اقارب اور مستحق لوگوں میں تقسیم فرمادیے اور خود اس دن روزے سے تھیں اور شام کو کھانے کیلئے بھی کچھ نہ بچایا باندی نے کہا اے سیدہ اگر ایک درہم بچالیتی تو اچھا ہوتا شام کا کھانا تیار ہوجاتا فرمایا یاد ہی نہیں اگر یاد ہوتا تو بچالیتی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کتب معتبر میں دو ہزار دوسو حدیثیں مروی ہیں ان میں سے بخاری ، مسلم میں ۱۷۴، متفق علیہ اور صرف بخاری میں ۵۴، اور صرف مسلم میں ۶۷ہیں ۔ بقیہ تمام کتابوں میں ہیں۔ صحابہ و تابعین میں سے خلق کثیر نے ان سے روایتیں لی ہیں۔ (مدارج النبوت،۲:۸۱۱)

ایک شخص نے سیدہ صدیقہ سے پوچھا کہ میں کیسے جانوں کہ میں نیک ہوں؟ آپ نے فرمایا: جب تم جان لو کہ یہ نیکی ہے اور ہمیشہ فرمایا کرتیں کہ تمہارے لیے جنت کے دروازے کھلے رہیں گے پوچھا کس طرح اور کس عمل سے؟ فرمایا بھوک اور پیاس سے ۔ ایک مرتبہ تلاوت قرآن پاک فرما رہی تھیں جب اس آیت شریفہ پر تھیں۔

وَلَقَدْ اَنْزَلْنَا اِلَیْکُمْ کِتَابًا فِیْہ ذِکْرِ کُمْ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (الانبیاء:۱۰)

(ترجمہ) بے شک ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب اتاری جس میں تمہاری ناموری ہے تو کیا تمہیں عقل نہیں۔

اس کے بعد ہمیشہ قرآن پاک کی تلاوت کرتیں اور آیاتِ قرآنی بمع معانی غور و فکر کرتیں تھیں۔ (مدارج النبوت، جلد دوم ، صفحہ ۸۱۲)

جب سیدہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انتقال فرمایا تو ان کے گھرسے رونے کی آواز بلند ہوئی سیدہ ام سلمہ نے اپنی باندی کو بھیجا کہ خبر لائیں باندی نے آکر سیدہ کے انتقال کی خبر سنائی تو سیدہ ام سلمہ رو پڑیں اور فرمایا : اللہ تعالیٰ رحمتیں نازل فرمائے نبی علیہ السلام کی وہ سب سے زیادہ محبوبہ تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدت محبت و معاشرت نو سال تھی اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے وصال کے وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی ان کا انتقال ۵۷ھ؁ میں ہوا تھا۔ واقدی نے کہا کہ منگل کے روز سترہ رمضان المبارک ۵۸ھ؁ میں مدینہ طیبہ میں ہوا۔ سیدہ صدیقہ کی عمر بوقت وصال چھیاسٹھ سال تھی اور وصیت فرمائی تھی کہ رات کے وقت بقیع میں دفن کیا جائے ان کی نمازِ جنازہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے پڑھائی تھی۔ اس زمانہ میں مدینہ طیبہ پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے دور سلطنت میں مروان حاکم تھا اور ان کے متولی قاسم بن محمد بن ابوبکر اور عبدللہ بن عبدالرحمن بن ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہم تھے اور سیدہ عائشہ صدیقہ کا انتقال طبعی تھا۔ یہ غلط ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ایک ضیافت پر بلایا اور سیدہ کو دھوکہ دہی کے ساتھ کنویں میں گرادیا۔ یہ روافض کا افتراء و جھوٹ ہے۔(اسد الغابہ،۱۰:۱۷۹)(مدارج النبوت،۲:۸۰۴)

آپ سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی تھیں آپ کی کنیت ام عبداللہ تھی اور آپ کا مقام صحابہ میں بڑا بلند تھا مفتی تھیں فقیہہ تھیں عالمہ تھیں، نصیحہ تھیں، فصیحہ تھیں، کلام میں بلاغت و وضاحت تھی، حضور نے آپ کی شان میں فرمایا خُذ ومثنی دینکم عن ھذا الحمیرا (میرے دین کے دو حصے حضرت حمیرہ (مشیر عائشہ) سے حاصل کرو۔

حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں مجھے حضور پاک نے بڑی فضیلت اور عظمت عطا فرمائی ہے مجھے اپنی تمام ازواج مطہرات میں سے دس چیزوں میں ممتاز فرمایا ہے۔

۱۔ میں کنواری آپ کے نکاح میں آئی۔
۲۔ میرے علاوہ کسی کے ماں اور باپ نے آپ کے ساتھ ہجرت میں شرکت نہیں کی۔
۳۔ میری پاک دامنی کی شہادت قرآن میں آئی۔
۴۔ میرے نکاح سے پہلے حضرت جبرائیل نے ریشمی کپڑے پر تصور بناکر حضور کی خدمت میں پیش کیا۔
۵۔ میں وہ واحد بیوی ہوں جس کے برتن اور غسل خانے میں حضور غسل فرمایا کرتے تھے یہ امتیاز کسی دوسری کو نصیب نہیں ہوا۔
۶۔ حضور نماز ادا فرماتے تو میں آپ کے پہلو میں آرام کیا کرتی تھی، یہ خصوصی امتیاز صرف مجھے ہی تھا۔
۷۔ حضور کو میرے ہی بستر پر کئی بار وحی آئی، یہ شرف کسی دوسری بیوی کو نہیں ملا۔
۸۔ حضور کی روح مبارک کو قبض کیا گیا، تو آپ کا سر میرے پہلو میں تھا۔
۹۔ حضور نے دنیا سے سفر فرمایا تو میرے گھر میں قیام فرما تھے۔
۱۰۔ حضور کو میرے ہی مکان (حجرے) میں دفن کیا گیا۔

یہ بات پایۂ تکمیل کو پہنچی ہے کہ صحابہ نے آپ کو پوچھا، کہ آپ کو عورتوں میں سے محبوب ترین کون ہے، آپ نے فرمایا: عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) لوگوں نے دریافت کیا، حضور مردوں میں سے، آپ نے فرمایا صدیقہ کا باپ (حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ) یاد رہے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو قیامت کے دن خاتون اول اور خاتون جنت قرار دیا گیا ہے۔ آپ اپنی بیٹی کو فرمایا کرتے تھے، میری بیٹی! تم بھی اسے محبوب رکھو جسے تمہارا باپ دل سے چاہتا، حضرت فاطمہ نے کہا یا رسول اللہ مجھے وہ سب سے زیادہ محبوب ہیں، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ تم کس وقت مجھ سے ناراض ہوتی ہو اور کس وقت راضی ہوتی ہے حضور نے وضاحت فرماتے ہوئے کہا جب تم انتہائی خوش ہوتی ہو تو قسم کھاتے وقت کہتی ہو مجھے محمد کے رب کی قسم ہے اور جب تم خفا ہوتی ہو تو کہتی ہو کہ مجھے اپنے رب کی قسم ہے حضرت عائشہ نے کہا یا رسول اللہ آپ نے سچ کہا۔

مورخین نے لکھا ہے کہ سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر صرف چھ سال تھی کہ حضور کے نکاح میں آئیں آپ کا حق مہر پچاس درہم رکھا گیا، ایک روایت میں پانچ سو درہم تھا، حضور نے یہ مہر ادا فرمادیا تھا۔

آپ کی وفات سہ شنبہ ۱۷؍ ماہ رمضان ۵۸ھ کو ہوئی تھی، اس وقت آپ کی عمر شریف چھیاسٹھ سال تھی، آپ کے جنازہ میں سارا مدینہ شریف ہوا، اتنا بڑا جنازہ اس سے پہلے کبھی نہیں اٹھا تھا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے امامت کا جنازہ کرائی تھی۔



عائشہ محبوب ذاتِ احمدی
حامدہ گو وصل آں عالی نژاد
۵۸ھ

یافت از دنیا بذاتِ حق وصال
نیز محبوب ست سالِ ارتحال
۵۸ھ


(حدائق الاصفیاء)

 


متعلقہ

تجویزوآراء