حضرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی برکت:
ایک سفر سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہار مدینہ طیبہ کے قریب کسی منزل میں گم ہوگیا، سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اس منزل پر پڑاؤ ڈالا تاکہ ہا رمل جائے، نہ منزل میں پانی تھا نہ ہی لوگوں کے پاس ،لوگ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدتنا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لائے، دیکھا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آغوش میں اپنا سر مبارک رکھ کر آرام فرمارہے ہیں۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےسیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر سختی کا اظہار کیا لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے آپ کو جنبش سے باز رکھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دو عالم کے مالک و مختار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی چشمانِ مبارکہ خواب سے بیدار ہوجائیں چنانچہ صبح ہوگئی اور نماز کےلیے پانی عدم دستیاب ، اس وقت اللہ عزجل نے اپنے لطف و کرم سے آیت تیمم نازل فرمائی اور لشکر اسلام نے صبح کی نماز تیمم کے ساتھ ادا کی حضرت سید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :‘‘مَاھِیَ بِاَوَّلِ بَرَکَتِکُمْ یَا اٰلَ اَبِیْ بَکْرٍ’’یعنی اے اولاد ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے۔(مطلب یہ کہ مسلمانون کو تمہاری بہت سی برکتیں پہنچی ہیں)سیدتنا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد جب اونٹ اٹھایاگیا تو ہار اونٹ کے نیچے سے مل گیا۔ (گویا حکمت الہٰی یہی تھی کہ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا کےہار گم ہوجانے کے سبب مسلمان ایسی جگہ ٹھہر جائیں جہاں پانی نہ ہو اور پھر رب کی طرف سے حکم تیمم نازل ہو اور تا قیامت مسلمانوں کےلیے آسانی اور سہولت مہیا کی جائے۔)(صحیح البخاری، کتاب التیمم ، الحدیث:۳۳۴، ج۱ ، ص۱۳۳ملخصا)
حضرت سیدہ ام المؤ منین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت ابو بکر صدیق کی صاحبزادی ہیں ان کی کنیت ام عبداللہ، اپنے بھانجے عبداللہ بن زبیر، اسماء بنت ابو بکر کی نسبت سے ہے سیدہ عائشہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کیا تھا کہ میری کنیت مقرر فرمادیں تو آپ نے فرمایا کہ تم اپنی بہن کے صاحبزادے عبداللہ کے نام پر کنیت رکھ لو وہ عبداللہ اور تم امّ عبداللہ۔ سیدہ عائشہ کی والدہ رومان بنت عامر بن عویمر قبیلہ بنی کنانہ سے تھیں پہلے جبیر بن مطعم سے نامزد ہوئی تھیں ۔ا سکے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا پیامِ نکاح دیا تو ان کا نکاح حضور سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے چھ سال کی عمر میں ہوگیا تھا اور مدینہ طیبہ میں آکر ۲ھ میں ۹ سال کی عمر میں رخصتی ہوئی تھی۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کے علاوہ کسی باکرہ عورت سے نکاح نہ فرمایا ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔(طبقات ابن سعد، ۸:۸۲؍مدارج النبوۃ،۲:۸۰۴)
حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فضائل و مناقب بہت ہیں آپ فقہا، علمائ، فصحا، بلغا اور اکابر صحابہ و صحابیات میں تھیں بعض سلف سے منقول ہے کہ احکام شریعہ کا فیصلہ کرنے کیلئے ان کی طرف رجوع ہونا معلوم ہوا ہے اور حدیثوں میں آتا ہے کہ خذوا ثلثی دینکم من ھٰذہٖ الحمیرأ دو تہائی دین کو ان حمیرا یعنی عائشہ صدیقہ سے حاصل کرو۔ صحابہ تابعین کی جماعت کثیرہ نے ان سے روایتیں لی ہیں۔ عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ میں نے کسی کو معانی قرآن ، احکام و حلال اور علم انساب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بڑھ کر عالم نہیں دیکھا۔(مدارج النبوت، دوم ،۸۰۴؍اسد الغابہ، دہم : ۱۷۹)